You are currently viewing بلونت سنگھ کے فکشن میں شاعری کی معنویت

بلونت سنگھ کے فکشن میں شاعری کی معنویت

محمد یوسف

 پی۔ایچ۔ڈی اسکالر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد

عاقب شہزاد

 لیکچرار اردو ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ

ڈاکٹر کامران عباس کاظمی

صدر شعبہ اردو بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد

بلونت سنگھ کے فکشن میں شاعری کی معنویت

بلونت سنگھ اردو اور ہندی زبان کے اہم اور صاحب طرز  تخلیق کار ہیں۔ان کی نثری تخلیقات میں” جگا”،” پہلا پتھر”،”تاروپود”،” سنہرا دیس” اور” ہندوستان ہمارا” نامی  افسانوی مجموعے   شامل ہیں۔ناولوں میں” چک پیراں کا جسا”،” رات چور اور چاند”،”کالے کوس”، “عورت اور آبشار” اور” ایک معمولی لڑکی “قابل ذکر ہیں جن سے اردو کا افسانوی ادب اپنی  منفرد پہچان بنانے میں کام یاب رہا۔ان کے فکشن میں فنی و فکری گہرائی، جذبے کا خلوص، موضوعات کی رنگا رنگی،ہیت اور تکنیک کا انوکھا پن، اسلوبیاتی انفراد، شاعرانہ وسائل،دل کش منظر نگاری، سادگی اور سلاست، جزئیاتی تنوع اور نظم ونثر کا امتزاج موجود ہے۔ان کے افسانوی ادب میں پنجاب کی دیہی زندگی،غیر ترقی یافتہ پنجاب، سکھوں کا رومان، گاؤں کا تہذیبی عکس اور کسانوں کے شب وروز مخصوص   شہرت رکھتے ہیں۔اردو کی تحقیقی و تنقیدی روایت   میں بلونت سنگھ اور پنجاب لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کا ذکر ایک ساتھ  مضبوط   ادبی روایت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔بلونت سنگھ کی  اس مخصوص ادبی شناخت میں جزوی سچائی موجود ہیں لیکن اس  کی بدولت  ان کے فکروفن کے دیگر گوشے  گم ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔بلونت سنگھ کی  اسی مخصوص ادبی شناخت پر  محمد حامد سراج لکھتے ہیں۔

                  دیہات کے ماحول کی عکاسی رام لعل، غلام الثقلین نقوی اور ابو الفضل صدیقی  کے ہاں

                  بھرپور ملتی ہے اور متاخرین میں طاہرہ اقبال کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن بلونت

                  سنگھ کا  انداز نگارش اپنا ہے اور منفرد ہے۔ وہ پنجاب کی مٹی میں وہاں کے کلچر کو گوند کر

                  چاک پر چڑھاتے ہیں۔سکھ جاتی تہذیب، رسم ورواج، بول چال محاورہ گالی، میلے ٹھیلوں

                  کے ساتھ  وہ سکھوں کے رہن سہن ،انداز زندگی  روز مرہ  کی بول چال کو خاص انداز میں

                  پنٹ کرتے ہیں۔بلونت سنگھ کا  سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ سکھوں کی معاشرتی زندگی،

                  گھریلو  جھگڑے اور محبتیں اپنے قلم سے امر  کر دیتے ہیں۔ (1)

بلونت سنگھ کے فکشن   کا  ایک پہلو پنجاب  اور سکھ تہذیب ہو سکتا ہے لیکن  ان کے ہاں سماجی حقیقت نگاری، سادہ اور رواں بیانیہ، ترقی پسندی و روشن خیالی، عصری آگہی، معاصر عہد کے مروجہ  موضوعات، رومانویت، سماجی بصیرت،نفسیاتی آگہی، طبقاتی شعور، سماجی تاریخ ،انسان دوستی اور سماجی فعالیت کے عناصر کا شعور بھی  ناقدین کی توجہ کا مرکز رہا۔

بلونت سنگھ کے فکشن کا ایک نمایاں پہلو  شاعرانہ اسلوب اور   شعری ذوق  کا اظہار بھی  ہے۔ ان  کی حسین اور دل کش نثر پر شاعری کا گمان گزرتا ہے۔وہ قاری کو اپنے مسحور کن اور جادوئی اسلوب کی دل کشی میں یوں جکڑ لیتے ہیں  کہ کہانی اور انداز بیان کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ان کے شاعرانہ وسائل، دل کش تشبیہات واستعارات اور لفاظی کا رنگ  کرداروں کے حسن اور مناظر کو  کسی ملکوتی محبوب کا سراپا بنا کر  بیان کرتا ہے۔ان کے شاعرانہ اسلوب کے بارے  میں اوپندر ناتھ اشک  رقم طراز ہیں۔

                  بلونت سنگھ نثر نگار ہیں لیکن کہیں کہیں دل کے کسی گوشے میں وہ شاعر بھی ہیں

                  خواہ  انہوں نے  ایک بھی نظم  نہ لکھی ہو۔ان کے  افسانوں  اور ناولوں میں جہاں

                  کہیں قدرت کے خوب صورت  منظر،حسین عورت یا مرد کا ذکر  آتا ہے، ان کے

                  بیان سے جیسے شاعری پھوٹ کر بہنے لگتی ہے۔ان کی تشبیہیں ایسی  نادر ، انوکھی

                  اور دلکش ہوتی ہیں کہ اچھے اچھے  شاعر وںکو بھی پسینہ آنے لگتا ہے۔ (2)

 بلونت سنگھ نے شاعرانہ اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنے افسانوں اور ناولوں میں شاعری کا ایک جہان آباد کر رکھا ہے۔جس میں اردو، فارسی، پنجابی اور انگریزی  شاعری کے نمونے جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ان کے ہاں پنجابی گیت،دوہے اور ماہیا اپنا الگ تاثر  قائم کرتا ہوا سامنے آتا ہے۔ایک طرف جہاں شاعری کی کثرت قاری  کو ابلاغی دشواری  کی سمت لاتی ہے وہاں   شاعری کا درست فہم اور معنوی آگہی   اسلوب  بیان میں مزید دلکشی فراہم کرتی ہے۔

ان کے افسانوں میں  سزا، دیش بھگت، جگا، پردیسن، ماتا ہری،  پنجاب کا البیلا، دیمک، کسبی ،تین باتیں،  ہندوستان ہمارا، مداوا، کالی تتری اور ایک بھیگی شام میں شاعری  کا نمونے موجود ہیں۔

پردیسن نامی  افسانے  کی فضاء رومانوی جذبات و احساسات اور احساس  محبت کو مہمیز لگاتی ہے۔اس میں ایک تقریب، مہمانوں کا اجتماع،نوجوان لڑکی کا  مدھر سنگیت اور دہرہ دون سے مسوری تک کے رنگین سفر کا ا حوال ہے۔بلونت سنگھ کا  شعری  ذوق ملا حظہ ہو۔

                  مگر میں جلد ہی سنبھل کر  اس راستہ کے پاس  کھڑا ہو گیا جو بڑی سڑک سے علیحدہ ہو کر

                  نیچے لاریوں کے اڈے  کی طرف جاتا تھا۔ان کے والدین  تو جا چکے تھے لیکن وہ ابھی

                  آ ہی رہی تھی۔ وہ میرے  قریب پہنچ گیئں مگر چہرہ بالکل سنجیدہ تھا۔میں خاموش اور

                  ٹھٹھک کر رہ گیا بس یہ حالت تھی۔

                           ادھر  وہ بد گمانی  ہے  ادھر  یہ  نا توانی ہے

                           نہ پوچھا جائے  ہے ان سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے (3)

بلونت سنگھ نے  مرزا اسد اللہ خاں غالب کا مشہور شعر استعمال کرتے ہوئے جذبات کا دلکش اظہار کیا ہے۔چند لمحوں کا ساتھ اور عمر بھر کے انتظار کی قیامت خیز   سفاکیت کے رنگ سے بلونت تصور عشق کی بازیافت  کا ثبوت مہیا کرتے ہیں۔

مداوا بلونت سنگھ کے شعری ذوق سے مزین  ایک شاہکار ا فسانہ ہے۔اس میں  دو سکھیوں  رضیہ اور زینت کی طویل عرصے بعد ہونے والی جذباتی ملاقات کا ذکر ہے۔وہ دونوں ریل کے ایک  ڈبے میں اچانک آمنے سامنے ہو جاتی ہیں۔زینت کا شوہر ریاست بھوپال میں ملازم ہے اور بیوی کو ساتھ لے جا رہا ہوتا ہے۔زینت کی دوست  ایک شوخ اور طرح دار لڑکی ہوتی ہے جس کا والد  کاروباری خسارے کی خاطر اس کی شادی ایک امیر بوڑھے سے کر دیتا ہے جس کا تمام سہیلیوں کو شدید دکھ ہے۔رضیہ ایک نوجوان نوکر  کے ساتھ مراسم سےاپنے دکھوں کا مداوا کرتی ہے۔ریل ڈبے میں اس صورت حال کا  زمزیاتی رنگ بلونت سنگھ ایک  نئےوارد  کی زبانی یوں کرتے ہیں۔

                  وہ شخص  دروازے کے قریب کھڑا ہو گیا اور اپنی بلند آواز میں کہنے لگا میری محترم

                  بہنو!اور ماؤں۔۔۔۔۔کیا ہے

                  لاکھ  کرئے انسان اس کے کیے کچھ نہیں ہوتا ہے

                  وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے

                  اس  کا یہ شعر سن کر زینت کے لبوں  پر مسکراہٹ کھلنے لگی  اور کہا

                  زندگی زندہ دلی کا نام ہے               مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں۔(4)

مندرجہ بالا اشعارمیں  پہلا  مرزارضا برق کا ہے  جس کو بلونت سنگھ نے  اپنی افسانوی ضرورت کے مطابق بدل ڈالاجب کہ درست شعر یوں ملتا ہے۔

اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے                           وہی ہوتا ہے جو منظور خدا  ہوتا ہے۔

جب کہ دوسرا شعر امام بخش ناسخ کی خوب صورت تخلیق ہے۔دونوں اشعار سے بلونت سنگھ انسانی اختیار اور بے بسی میں جھولتی انسانی خواہشات کو  کھوجنے کو کوشش کرتے ہیں جہاں زندگی کا مداوا  کرنے والے ہی حالات کا رخ موڑتے ہیں۔

بلونت سنگھ کو اقبال سے خصوصی لگاؤ تھا۔ان کا ایک  افسانہ اور افسانوی مجموعہ  ہندوستان ہمارا کے نام سے موجود ہے۔بلونت سنگھ اس افسانے میں بدیسی آقاؤں سے مقامی آبادی کی نفرت کو اجاگر کرتے ہیں۔ریل کے ڈبے میں ہندوستانی فوجی آفسر جگجیت سنگھ اپنی نو بیاہتا بیوی کے ساتھ سوار ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک انگریز اس کا راستہ روک لیتا ہے۔وہ پورے ڈبے میں اکیلا دکیلا سوار ہے لیکن کسی دیسی غلام کا سوار ہونا قبول نہیں کرتا۔سکھ فوجی آفسر اس کو سر عام پیٹ کر اپنی نفرت کا اظہار کرتا ہے۔بلونت سنگھ افسانے کے آغاز میں رقم طراز ہیں

                  ہندوستان ہمارا

                  ہم بلبلیں  ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا (اقبال) (5)

بلونت سنگھ   نے یہ مصرع علامہ اقبال کے ترانہ ہندی سے اخذ کیا ہے۔اس میں اقبال کے ہاں بھی ایک متحدہ ہندوستان کا خواب موجود ہے جہاں غلامی سے نفرت اور حصول آزادی کی ایک تڑپ موجود ہے۔ اقبال کا مکمل شعر یوں موجود ہے۔

سارے جہاں سے اچھا  ہندوستاں ہمارا   ہم بلبلیں ہیں اس کی  یہ گلستاں ہمارا

بلونت سنگھ کو اقبال کے فار سی کلام سے بھی رغبت تھی۔اقبال ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کا اشعار سے قبل بلونت سنگھ نام  تحریر کرتے ہیں۔اس کے برعکس ان کے فکشن میں کسی شاعر کا نام سامنے نہیں آتا۔اس کا ایک اور نمونہ  ماتا ہری میں ملاحظہ ہو۔

                  نا معلوم دیکھنے والے کیا سوچیں گے۔بیسیوں خیالات کا ہجوم تھا اور میں دم بخود بیٹھا تھا

                  خدا جنت نصیب کرئے اقبال مرحوم کو ان کا شعر بروقت یاد آ گیا

                  دردشت جنون من جبریل زبوں صیدے

                  یزداں بہ کمند آور اے ہمت  مردانہ (6)

پیام مشرق کے حصہ مئے باق  سے ماخوذ  شعر بلونت سنگھ کی شعر فہمی اور فارسی کی شعری روایت سے گہری آگہی کا ثبوت ہے۔بلونت  سنگھ تخیل کی بلندی اور کائنات کے  اسرارو رموز کے لا متناہی سلسلوں کو دریافت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔

بلونت سنگھ کے ہاں اردو  اور  فارسی کے علاوہ  پنجابی گیتوں کا ایک جہان آباد ہے۔وہ پنجابی الفاظ کا تڑکا اس مہارت سے  لگاتے ہیں کہ کہانی کا   ثقافتی رنگ ماضی کو زمانہ حال کے پردوں پر انمٹ رنگوں سے سجا دیتا ہے۔ان کے  افسانے  سزا میں چیتو اور تارو کے ملاپ کا  منظر ملاحظہ ہو۔

                  چیتو دل ہی دل میں شرما گئی۔اس نے ادھر ادھر دیکھ کر  کہ کوئی  سن تو نہیں رہا

                  جواب دیا۔ہاں چنن! تارو مجھے بھی۔۔۔ تارو بہت اچھا آدمی ہے۔چیتو کو اب

                  تارو کے گانے  کی بھدی اور بے سری آواز سنائی دے رہی تھی

                  نکا گھڑا چک لچھیے !تیرے لک نوں جرب نہ آوئے

                  نکا گھڑا چک لچھیے! (7)

بلونت سنگھ نے جہاں  کہانی کی فضا کو پراثر بنانے کے لیے  شاعری کا سہارا لیا ہے وہاں گھڑے کے ساتھ وابستہ سوہنی اور مہیوال کی پنجابی المیہ رومانی داستان کا تصور بھی پیش کیا ہے۔بلونت سنگھ کا شعری شغف   سماجی تاریخ کے  نہاں خانوں کو بھی  عیاں کرنے کا فن بے نقاب کرتا ہے۔

جگا  کی کہانی میں جگا ڈاکو اور گرنام کی داستان محبت بلونت سنگھ  کے تصور عشق  کا اجاگر کرتی ہے۔ماجھا کے علاقہ بھیگن کا ایک  غیر معروف گاؤں دونوں کا مسکن ہیں جہاں پنجاب کی مقبول قدریں    اپنے  قدم جماتی ہیں۔ڈاکے سے واپسی پر   جگا پانی پیتے ہوئے گرنام پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔جگا بڑی مہارت سے گرنام کے والد کو شیشے میں اتار لیتا ہے۔دونوں کے مابین     قول و قرار  کی حدیں سمٹتے ہوئے شادی تک پہنچ جاتی ہیں۔آخر گرنام جگا کو بتاتی ہے کہ وہ جگا کے بجائے دلیپ سے پیار کرتی ہے۔جگا اپنے رقیب سے دھاکڑ پن کے بعد دونوں کے پیار کو شادی کی صورت میں امر کر دیتا ہے۔یوں بلونت سنگھ پنجاب کی دیہی قدروں میں  سکھوں کی وسعت قلبی  اور رومانی تصور کو اجاگر کرتے ہیں۔دو دلوں کے ملاپ  کی خواہش اور مچلتے ارمانوں  کو بلونت سنگھ نے پنجابی  گیت کی صورت میں  ایک بے چینی   بنا کر سامنے لایا ہے۔وہ لکھتے ہیں۔

                  گرنام حسب معمول اپنے طفلانہ انداز سے مسکرائی اور اوڑھنی سنبھالتے ہوئے آگے

                  جھک کر آہستہ سے بولی  “سب لوگ سو  جائیں تو میں آؤں گئی۔اجنبی دور کھیتوں  کی طرف

                  دیکھ رہا تھا۔شرینہہ اور ببول کے پیڑ سیاہ دیوتاؤں کی طرح خاموش کھڑے تھے۔لند منڈ

                  بیریوں  پر بیئوں کے گھونسلے لٹک رہے تھے ایسے  سنسان وقت میں تاروں بھرے  آسمان

                  تلے کی دور افتادہ رہٹ سے کسی  نوجوان کی مسرت  انگیز  گانے کی ہلکی ہلکی آواز  آ رہی تھی

                                    باگے وچ کیلا ای

                                    نکل کے مل بابو!

                                    ساڈے ونجہنے دا ویلا اے

                                    نکل کے مل بابو! (8)

بلونت سنگھ کے یہ بول پورے افسانے  کا مرکزی خیال معلوم ہوتے ہیں کیوں کہ جگا گرنام کی خواہش جان کر دلیپ سے اس کی شادی کر دیتا ہے بھر  تاروں  بھری رات میں وہ اپنی ڈاکہ زنی  دوبارہ شروع کرنے کی خاطر اپنا  آپ تیار کرتا ہے جس کو وہ گرنام کی خاطر ترک کر چکا تھا۔

بلونت   اپنی تخلیقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ان کو یہ احساس رہا کہ پنجابی لفظیات  قاری کے لیے بسا اوقات الجھن کا باعث  ہو سکتا ہے  جس کی خاطر وہ    قدرے آسان  اور شناسا الفاظ کو احاطہ تحریر میں لاتے ہیں۔پنجاب کا البیلا میں ادھوری محبت اور وصل محبوب کی ہلکی ہلکی چھبن محسوس ہوتی ہے۔رات کے گہرے اور تاریک حصے میں ایک سکھ عاشق اپنی محبوبہ کی ملاقات کے لیے  میلے کا سفر کرتے ہوئے سنسان اور گھنے جنگل میں موسیقی کی مدد سے خود کو بہلاتا ہے۔اس کا جذبہ عشق اس قدر  قوی ہے جس کے سامنے مہاراجہ رنجیت سنگھ کا تخت اور اس کی دلربائیں وہ اپنے قدموں کی خاک سمجھاتا ہے۔اس  کی عشق   صادق ،جذبے کا خلوص اور آواز  کا  دل چھو لینے والا انداز ملاحظہ ہو۔

                  اس کی آواز میں موسیقی نہ سہی لیکن ایک ایسی کشش،ایک ایسا خلوص اور

                  کرارا پن تھا جس پر سنگیت سے بھرپور  ہزاروں آوازیں قربان کی جا سکتی تھیں

                  لمبی ہانک کےبعد وہ گانے لگا  اوے  میں مل لاں تخت  لاہور دا  میں کھو  لاں راجے دیاں رانیاں

                 اوے۔ہو ہو۔ (9)

کسبی نامی افسانہ  کی فضا میں کاروباری مراسم،زندگی کا بناوٹی انداز،  جنس مخالف  کے مابین ازلی کشش،مردانہ رنگ رس کی ہوس، حسن وعشق کی واردات اور مچلتے ارمانوں کا حسن موجود ہے۔ہوٹل سیوائے کی رنگین شاموں میں بکھرے شباب کا فطری نشہ تمام کرداروں پر چھایا ہوا ہے۔اس طرح کی باذوق اور طبقہ اعلیٰ کی محفلوں کے عقب میں ڈانسنگ گرلز کی موجودگی  طبقاتی کشمکش کا بیان ہے۔بلونت سنگھ دو طبقات کے مابین موجود خلیج کو مٹانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔نچلے طبقات کی  اعلیٰ طبقات میں شمولیت کی نفسیات کا اظہار بلونت سنگھ نے افسانے میں موجود شعر سے اجاگر کیا ہے جہاں اعلی طبقے کے نوجوان لڑکوں  پر   نچلے طبقے کی لڑکیاں اپنا حق جتلانے کی ناکام کوشش اور ادھوری خواہشات کا اظہار کرتی ہیں۔ دیکھیے!

                  ہوٹل کی سیڑ ھیوں کے قریب سے نسبتاً تاریک سی ایک گلی جاتی تھی۔گلی

                  کے اندر  روشنی بہت مدھم تھی۔برف کو چھو کر آنے والی ہوا میں سڑے ہوئے

                  تیل اور تلی ہوئی مچھلی کی تیز بو ملی ہوئی تھی۔اس پر اسرار گلی  میں سے  دبی ہوئی

                  آواز اٹھی۔

                                    ابر چھایا ہے مینہ برستا ہے

                                    جلد آ جاؤ کہ جی ترستا ہے

                  قدم بہ قدم وہ آگے بڑھتے جا رہے تھے۔انھوں نے گائیڈ سے پوچھا یہ گلی کیسی

                  ہے؟گائیڈ نے ٹھٹھکتے ہوئے جواب دیا کچھ نہیں شر! ادھر یوں ہی  کچھ ڈانسنگ

                  گرلز رہتی ہیں۔  (10)

کالی تتری  افسانہ کسی افسانوی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔یہ طویل افسانہ  نقوش لاہور افسانہ نمبر جنوری 1954 میں پہلی بار شائع ہوا۔بلونت سنگھ کے بہترین افسانے “مرتبہ گوپی چند نارنگ ناشر ساہیتہ اکادمی دلی میں  بھی شامل ہے۔اس کہانی کا پس منظر  وہی سنہرا اور خوب صورت پنجاب ہے جس میں تمام مذاہب کے پیروکار اپنے ہی نشیمن لوٹتے تھے۔کہانی  میں ڈکیتی کی ایک واردات کا ذکر ہے جس میں مرکزی  ڈاکو کالا تیتر ہلاک ہو جاتا ہے۔اس کہانی میں بلونت سنگھ ایک  پنجابی شعر   کو آغاز میں شامل کرتے ہیں جہاں وہ اس معرفت کا ذکر کرتے ہیں کہ انسان کی بقاء اور سماجی عزت کا دارومدا ر رزق حلال اور جائز  ذرائع سے ممکن ہے۔ناجائز  آمدنی کی بدولت جز وقتی عروج انسان کو  دائمی مسرت دینے سے قاصر رہتا ہے۔کمزوروں کی فریاد  اور گناہوں کا طولانی سلسلہ آخر کار تھم جاتا ہے۔طاقت  اور غرور کا نشہ انسان کو پستی میں دھکیل دیتا ہے۔ایسا ہی واقعہ کالا تیتر کے ساتھ بھی ہوا۔  ملاحظہ ہو۔

                           کالی تتری چری وچ بولے

                           تے  اڈ دی نوں باج پے گیا۔     کالی تتری (11)

جزیرے  پہلی بار 1958 میں آج کل دہلی  میں شائع ہوا لیکن کسی افسانوی مجموعے کی رونق نہ بن سکا۔اس  کہانی میں بلونت سنگھ   Marilyn Monroeکے ایک گیتThe River Of No Returnکو شامل کرتے ہیں جہاں زندگی کے ہمہ جہتی پہلوؤں کا ا ظہار ہے۔بلونت سنگھ بھی کہانی میں زندگی کی خوب صورتی اور تلخی کو   مرکزی مقام دیتے ہیں۔ان کے مطابق زند گی کا حسن ہی  نشب و فراز سے عبارت ہے۔ زندگی کا فلسفہ الجھاؤ سے بھرپور ہے۔بلونت سنگھ لکھتے ہیں۔

                            There is a River

                           Called the  River of no return

                           Some times its peaceful

                           And sometimes wild and free (12)

 بلونت سنگھ  کے فکشن میں شاعری  کا رنگ  افسانوں کے ساتھ ساتھ  نا ولوں میں بھی موجود ہے۔اس طرح ان کا اسلوبیاتی رنگ نہ صرف شاعرانہ ہے  بل کہ  تخلیق میں  شعری  روایت سے گہری آگہی کا بھی ثبوت ہے۔ان کے ناول چک پیراں کا جسا اس ضمن میں خاص اہمیت رکھتا ہے۔اس کو بلونت سنگھ نے بارہ غلاف میں تقسیم کیا ہے۔ہر غلاف کا آغاز وارث شاہ کے کلام سے کیا ہے جس میں پورے باب کا اختصاری رنگ بھی موجود ہے۔ناول میں جسا سنگھ پچپن میں  یتیم ہو جاتا ہے  اور تمام گاؤں اس لاوارث اور بے بس بچے کو دو خستہ حال کسانوں کی مدد سے اس کے کھاتے پیتے چچا سردار بگا سنگھ کی حویلی میں پہنچا دیتے ہیں۔بگا سنگھ  اپنے یتیم بھتیجے کو انتہائی نفرت اور مجبوری سے قبول کرتے ہوئے غلاموں کی مانند سلوک کرتا ہے۔اس غلاف کے آغاز میں بلونت سنگھ لکھتے ہیں۔

                  جیہڑا آس کر کے ڈگے آن دوارے،جیو او سدا کدے نہ  توڑیے جی

                  وارث شاہ! یتیم دی غور کریے، ہتھ عاجزی دے نال جوڑیے جی

                                                                                 (وارث شاہ)

                  اگر کوئی آس کر کے  دروزازے پر آ گرے تو اس کا  دل کبھی نہ توڑنا چاہیے

                   اےوارث شاہ!یتیم کی دیکھ بھال کرنی چاہیے اور اس کے سامنے عاجزی

                  سے ہاتھ جوڑنے چاہییں۔ (13)

بلونت سنگھ  ناول میں  اخلاقی درس دیتے ہوئے  بگا سنگھ کی تمام بربادی کو  یتیم کے ساتھ  ناروا سلوک سے گردانتے ہیں  جب کہ بگا سنگھ کے عروج اور سماجی بحالی کو  جسا سنگھ ہی ممکن بناتا ہے۔بلونت سنگھ کلام وارث شاہ سے یہ نکتہ اخذ کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ بگا سنگھ کی قید، ہری پورے  سے چک پیراں کا سفر اور رام پیاری کی بدولت مصائب میں اس کے سلوک اور رویے کا گہرا تعلق ہے۔ اس طرح بلونت سنگھ پورے ناول میں وارث شاہ کے کلام  سے اخلاقی و معاشرتی  درس فراہم کرتے محسو س ہوتے ہیں۔

ان کا ناول کالے کوس بھی ہجرت   اور تقسیم ہند کے واقعات کا الم ناک بیان ہیں لیکن اس میں بعض مقامات پر  بیانیہ میں گہرائی کی خاطر شاعری کا  استعمال بھی کرتے ہیں۔اس میں ایک انقلابی نوجوان صورت سنگھ بھی ہے جو اشتراکیت کا قائل ہے اور تمام زمین کو برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنے کا قائل ہے۔اس کے  دوست ببلی شاہ  کی گفتگو میں آگہی کی اذیت کا گہرا  تاثر موجود ہے۔ وہ اشتراکی نظریات اور برابری کا قائل ہے لیکن گاؤں باسی زمین سے گہری عقیدت رکھتے ہیں۔ان کے لیے زمین دھرتی ماں کا درجہ رکھتی ہے جس کی حفاظت کسی مذہبی رکن کی ادائیگی کی مانند ہے۔شعور اور  جانکاری کی اذیت ناکی ملاحظہ ہو۔

                  میاں جی کا روئے سخن کسی کی طرف بھی نہیں تھا لیکن ببلی شاہ نے جواب دیتے ہوئے کہا

                  میاں جی!ہمارے پاس تو دونی چونی بھی نہیں اور اگر ہماری جان کوئی لے بھی لے تو کیا فرق

                  پڑتا ہے کسی شاعرکا شعر ہے۔

                           کیا اچھا جنہوں نے دار پر  منصور کو کھینچا

                           کہ خود منصور کو مشکل تھا جینا راز داں ہو کر (14)

بلونت سنگھ کے متعدد مقامات پر  اسلوب بیان میں  گہرائی اور    اپنے خاص   تصور ات کی خاطر شاعری کو  وسیلہ اظہار بنایا ہے۔ان کی شاعرانہ فطرت نے قاری کو مکالمے میں شعر کا لطف    فراہم کیا ہے۔

ناول رات،چور اور چاند میں بھی شاعری کے نمونے قدرے اعتدال سے موجود ہیں۔اس ناول میں ایک گاؤں  ڈنگا کا ذکر موجود ہے جہاں کے لوگ فرنگی بغاوت میں مشہور تھے۔ان کے گاؤں میں جب پلیٹ فارم بننا شروع ہوا تو اس کو شیطانی چرخے کا ایک جزو سمجھ کر انہوں نے اکھاڑ پھینکا اور  خود پیدل چل کر دوسرے گاؤں  ریل پر سوار ہونےجاتے تھے۔ان کےجذبہ  حریت کو  بلونت سنگھ نے شاعری سے پراثر بنا نے کی شعوری کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

                  سپاہی کا ہاتھ اس انداز سے اٹھا کر سٹول پر رکھ دیا گیا تھا جیسے وہ سامنے کی طرف

                  اشارہ  کر رہا تھا۔اسی رخ پر کچھ دور جانے کے بعد کھیتوں میں اسسٹنٹ کی لاش

                  بٹھا دی گئی تھی۔وہ بھی ہاتھ سے آگےکی طرف اشارہ کر رہا تھا۔آگے

                  جا کر جوہڑمیں بڑے بابو کی لاش پانی پی رہی تھی اور زمین پر گور مکھی

                  حروف میں لکھا تھا:

                                    ایتھے  ٹیشن  نہ  بنا    پھرنگیا

                                    لنڈن  دی  کرشی ہل جاؤ گی   (15)

بلونت سنگھ کے شاعرانہ اسلوب پر متعدد ناقدین نے اشارے کیے ہیں لیکن ان کی تخلیقات میں موجود شعری نمونوں  کی موجودگی اور  اس کی معنویت بلونت سنگھ کے فکر کا نیا گوشہ اور ان کے شعری ذوق کا  اچھوتا پہلو ہے۔بلونت سنگھ شاعری کو  وسیلہ اظہار  اورنظریات کے پرچار کا پر اثر اور  غالب  ذریعہ سمجھتے تھے جس سے انھوں نے  خاطر خواہ  استفادہ کیا۔

حوالہ جات۔

1۔محمد حامد سراج۔چک پیراں کا جسا۔جہلم: بک کارنر، 2019۔ص 10۔

2۔اوپندر ناتھ،اشک۔آج کل۔ دہلی :ڈویژن پبلی کیشنز،1995۔ص 13۔

3۔جمیل اختر۔مجموعہ بلونت سنگھ۔لاہور :سنگ میل پبلی کیشنز،2015 ۔ص 6۔

4۔ ایضاً ص 452۔

5۔ ایضاً ص 281۔

6۔ایضاً ص 68۔

7۔ایضاً ص 14۔

8۔  ایضاً  ص 28 ۔

9۔ایضا ً ص 153۔

10۔  ایضاً ص 190۔

11۔ ایضاً  ص 684۔

12۔ایضا ً ص 749۔

13۔بلونت سنگھ۔چک پیراں کا جسا۔جہلم : بک کارنر،2019۔ ص 20۔

14۔بلونت سنگھ۔کالے کوس۔جہلم : بک کارنر، 2019 ۔ص 37۔

15۔بلونت سنگھ۔رات چور اور چاند۔جہلم : بک کارنر،2019۔ص  32۔

Leave a Reply