You are currently viewing بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام  سے متعلق غلط فہمی اور اس کا ازالہ

بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام  سے متعلق غلط فہمی اور اس کا ازالہ

یوسف شاشی

 جواہرلعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام  سے متعلق غلط فہمی اور اس کا ازالہ

بہادر شاہ ظفر کے کلام سےمتعلق   جو غلط فہمی  وجود میں آئی ہے۔اسے چودہ دھائیوں کا ایک طویل عرصہ گزر چکہ ہے ۔جس کی بنیاد مولانا محمد حسین آزادؔ نےاپنی کتاب آب حیات میں رکھی  ۔ وہ غلط فہمی یہ تھی کہ بہادر شاہ ظفرؔ کے کلام کا غالب حصہ ان کے اساتذہ کا لکھا ہوا ہے  ۔یہ سوال اردو زبان و ادب کے ساتھ جڑے تمام لوگوں کے ذہنوں میں چودہ دھائیوں  سے گردش کر رہا ہے ،کہ آیا ظفر کا کلام “سر تا پا” حضرت مرحوم ابراھیم ذوقؔ کا ہے یا خود بہادر شاہ ظفر کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے ۔ جبکہ آزادؔ نے سرے سے بہادر شاہ ظفر کے کلام کو نکار دیا ۔

 محمد حسین آزادؔ نے آب حیات میں جو کچھ ظفر کے حوالے سے تحریرکیا ہے۔وہ غیر جانبدارانہ تنقید سے چشم پوشی ہے ،یا  استاد ذوق ؔسے بے پناہ محبت  کا  نتیجہ ۔آذاد نے  ذوقؔ کو خیراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ظفر ؔکا کلام بھی ان کے نام کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر ؔسے زیادہ بد قسمت شخص  کوئی نہ ہوگا ،کہ جس کے ساتھ جیتے جی تو جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا ۔لیکن مرنے کے بعد بھی اپنوں نے ا نہیں نہ بخشا ۔اس بات سے انکار نہیں کی جا سکتا کہ ظفرؔ کا شعری ذوق اور  فکر و فن غیر معمولی تھا ۔جس کو غالبؔ اور ذوقؔ جیسے قادرالکلام شعراء نے سراہا ہو۔ اس کے با وجود ظفر کے کلام کو یہ کہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ظفر کا کلام  ان کے استاد لکھ کر دیا کرتے تھے۔ اسی بحث کو ہم چند بنیادی نکات کو سامنے رکھ کر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

سب سے پہلے ہم محمد حسین آزاد نے جو آب حیات میں ظفر کے کلام کے بارے میں لکھا ہے ہم وہ آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ آزاد لکھتے ہیں۔

“بادشاہ کے چار دیوان ہیں۔پہلے میں کچھ غزلیں شاہ نصیر کی اصلاحی ہیں۔کچھ میر کاظم حسین بیقرار کی ۔غرض پہلا دیوان نصف سے زیادہ اور باقی تین دیوان سر تا پا حضرت مرحوم کے ہیں۔ جن سنگلاخ زمینوں میں قلم کو چلنا مشکل ہے ۔ان کا نظام و سر انجام اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ دل شگفتہ ہوتے ہیں۔”1؎

محمد حسین آزاد ؔنے آب حیات اور مقدمہ دیوانِ ذوقؔ میں ظفر پر بے جا اعتراضات کی ایک لمبی فہرست رقم کی ہے ۔ یہ اعتراض ان کا بارہا رہا ہے کہ” ذوق کو بادشاہ کے کلام سے فرصت نہ ملتی تھی”اور کہیں یہ کہتے ہیں کہ ذوق اپنی غزلوں میں بادشاہ کا تخلص ڈال کر دے دیا کرتے تھے، اس طرح کے کئی اعتراض آزاد  ؔ کے درج  ہیں۔ جس سے اردو زبان و ادب کا ایک بڑا طبقہ اس نظریے کا حامی ہو گیا ۔ لیکن اس کی کوئی مستند تحقیق سامنے نہ آسکی ۔ محمد حسین آزاد کے جواب میں جن لوگوں نے اپنے دلائل سے بہادر شاہ ظفر ؔکے  کلام کوظفر کا کلام  ہی ثابت کیا ان میں ایک بڑا طبقہ موجود ہے۔ سب سے پہلے ,سر سید کا نظریہ بابائے اردو مولوی عبد الحق نقل کرتے ہیں کہ۔

” ایک بار ظفرؔ اور ذوقؔ پر گفتگو چھڑ گئی اور وہی پرانی بحث دہرائی گئی کہ ظفر کے سب دیوان ذوقؔ کے لکھے ہوئے ہیں۔ سید صاحب اس پر چیں بجبیں ہوئے۔ اور فرمایا کہ وہ بادشاہ کا کلام تو کیا لکھتا ۔قلعہ کے تعلق سے خود ذوق کو زبان آ گئی ۔”2؎

سر سید احمد خان کی اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ قلعہ کے تعلق سے ذوق کو زبان آگئی۔ لیکن ظفرؔ کے کلام میں جو سادگی اور اثر دیکھائی دیتا ہے وہ ذوق ؔکے کلام میں   نا یاب ہے ۔یہ بات الگ ہے کہ ذوقؔ کی ایک الگ استادانہ شایان شان  ہے لیکن شاعر والا  درد ان کے یہاں کم پایا جاتا ہے۔ جو حزن و ملال ان کی شاعری میں پایا جاتا ہے وہ مصنوعی ہے۔ حقیقی نہیں ۔بلکہ یوں کہ لیجئے کہ روائتی ہے۔ وہ درد اور کڑہن نہیں جو ظفرؔ کے کلام میں موجود ہے۔

ضیاء الدین برنی لکھتے ہیں کہ۔

” آپ کو دونوں کے اسلوب ،بیان ،محاورہ بندی سلاست زبان چستی ترکیب وغیرہ میں کافی فرق نظر آئے گااور ظفر کا کلام ذوق کے کلام کے سامنے قدرے پھیکا اور اور سست معلوم ہوگا”۔ 3؎

حالانکہ یہ بات انہوں نے کسی متن کو تقابلہ کر کے حوالوں کے ساتھ نہیں کہی ہے ،بلکہ ایک مجموعی رائے قائم کی ہے جس سے اتفاق کرنا ضروری نہیں۔

مولانا حالی لکھتے ہیں کہ ۔

“ظفر کا تمام دیوان زبان کی صفائی اور روز مرہ کی خوبی میں اول سے آخر تک یکساں ہے۔ “4؎

حافظ محمود شیرانی  نے”دیوان ذوق” مضمون میں   محمد حسین آزاد کے بارے میں یہ ثابت کیا ہےکہ آذاد نے ذوق کی محبت میں ان کے دیوان میں جگہ جگہ اضافے کئے ہیں اور بہادر شاہ ظفر کے کلام کو استاد ذوق سے منسوب کیا ہے ۔ اس مضمون میں 16 ایسی غزلیں ہیں جن کا حوالہ شیرانی صاحب دیتے ہیں ،کہ جن کو آذاد نے ذوق کے لڑکپن کا کلام بتایا ہے ۔شیرانی صاحب لکھتے ہیں کہ

” ادھر مولانا آزادؔ ذوقؔ کی غزلوں کی کثرت کے اظہار میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ غزلوں سے طاق بھر گیا۔تکیے کے غلاف بھر دئیے ،مٹکے اور ٹھلیاں اور تھیلے بھی بھر گئے۔ اور ان کے تخمینے میں کہتے ہیں کہ “جو غزلیں اپنے تخلص سے کہی تھی اگر جمع کی جاتی تو بادشاہ کے چاروں دیوانوں کے برابر ہوتیں۔کہا جا سکتا ہے کہ جب حضور کی غزلیں فرصت ہی نہ دیتی تھی آخر یہ تمام ذخیرہ غزلیات جو بادشاہ کے چار دیوانوں کے مساوی تھا ،کہاں سے فراہم ہو گیا۔ اب صورت  یہ ہے کہ ذوقؔ مولانا کے اپنے بیان کے مطابق ظفر کے چار دیوان ،معروف کا ایک   دیوان کے برابر، مجموعہ قصائد اور ظفر کے چاروں دیوانوں کے برابر اپنا اظہار غزلیات بہ الفاظ دیگر تقریباً دس دیوان لکھ چکے ہیں۔ پھر بھی حضرت کو شکایت باقی ہے کہ بادشاہ کی غزلیں فرصت نہیں دیتیں۔ اگر ظفر کو نا حق بدنام کرنا نہیں ہے تو کیا ہے ورنہ سچی بات یہ ہے کہ ذوق کو اپنے شاگردوں کی غزلوں کی اصلاح میں جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز تھی بڑا وقت صرف کرنا پڑتا تھا “5؎

شیرانی صاحب نے ذوق ؔکی 16 غزلوں کا حوالہ بھی پیش کیا ہے جنہیں مولانا محمد حسین آذاد نے  ذوق کے لڑکپن کی غزلیں بتایا ہے۔ان ہی غزلوں میں سے ایک غزل کا مطلع ہے۔

ہم سے ظاہر و پنہاں جو اس غارت گر کے جھگڑے ہیں

دل سے دل کے جھگڑے ہیں نظروں سے نظر کے جھگڑے ہیں

اس غزل کے بارے میں مولانا  آزادؔلکھتے ہیں کہ۔

“عالم شباب کی غزل ہے یہ بھی بادشاہ کو پسند آگئی تھی۔ کشش کی مقناطیس بہت لگائی۔مگر استاد نے بھی چھوڑی ہی نہیں۔ حکیم احسن اللہ خاں طبیب شاہی تھے اور بڑے مقرب بھی انہیں یہ غزل بہت پسند تھی۔ حضور کے سامنے انہیں کی زبان سے نکل گئی ” 6؎

اور اسی غزل کا مقطع ہے

ذوق مرتب کیونکہ ہو دیوان اپنا شکوہ فرصت کس سے کریں

باندھے گلے میں ہم نے اپنے آپ ظفر کے جھگڑے ہیں۔

غور کرنے کی بات یہ ہےکہ جس غزل کے مقطع میں ظفر پر چوٹ کی گئی ہو وہ بھلا کس طرح ظفر کو پسند آتی ۔حکیم احسن کو اتنی جرات کیسے ہوتی کہ یہ غزل بادشاہ کو سناتے ۔

شیرانی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ۔

“مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا یہ تھی کہ ذوق کی غزلوں کے مسودے حضرت مولانا کے خط میں یہاں کیا کر رہے ہیں ۔آخر مطبوعہ دیوان ذوق میں جو غزلوں کو تلاش کیا اس میں تمام غزلیں بہ تفاوت قلیل مل گئیں۔ ادھر حافظ دیوان کے مرتبہ دیوان میں پوری پوری غزلیں تو کجا ان کا ایک شعر تک نظر نہ آیا نہ تزکرہ نگار ان سے واقف ہیں۔ آخر یہ رائے قائم کرنی پڑی (خدا کرے غلط ہو) کہ مولانا نے یہ غزلیں تصنیف کر کے ذوق کے دیوان میں داخل کر دی ہیں۔ اور استاد کے بچپن کے کلام سے انہیں موسوم کر دیا ہے”۔ 7؎

خواجہ تہور حسین لکھتے ہیں کہ۔

ذوق کے ہاں علمیت اور استادانہ شان بہت ہے ۔شاعرانہ کیفیت کم۔ان کے کلام میں خارجیت کا عنصر کار فرما ہے ۔بعض جگہ ان کی داخلی شاعری میں جو حزن و ملال کا بیان ہے وہ حقیقی نہیں بس کی بنیاد روایت پر ہے اس لئے اس میں وہ ذود اثری اور جگر گزاری نہیں جو ظفر کے کلام  میں پائی جاتی ہے۔ذوق کے یہاں زبان کا چٹخارہ ضرور ملتا ہے مگر وہ بھی جہاں مضمون آفرینی کرتے ہیں صفائی سے بہت دور جا پڑتے ہیں۔ ان کے کلام میں سوز و گداز اور سلاست و روانی کا وہ عنصر نہیں جو ظفر کے کلام۔کی جان ہے۔ظفر کا تمام کلام اس کی شخصیت کا آئینہ اور ذاتی رنج و الم کا مظہر ہے”۔8؎

مولانا محمد حسین آذاد اردو زبان و ادب کے ان لوگوں میں ہیں جنہوں نے اردو زبان و ادب میں گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ نہ جانے وہ کس مغالطہ میں رہے کہ ان سے یہ  ادبی سازش سرزد ہوئی ۔در اصل وہ اس بات پرمطمئن تھے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ۔ لیکن تحقیق تو تحقیق ہے۔ یہاں استاد، شاگرد ، پسند نا پسند ،اپنا پرایا سب برابر کادرجہ رکھتے ہیں۔ یہاں سچ کی تلاش ہوتی ہے۔   یہی  کام اردو زبان و ادب کے محقیقین نے  انجام دیا۔

بہادر شاہ ظفرؔ کی ادب نوازی اور فنون سے دلچسپی کو مورخوں اور تزکرہ نگاروں نے خوب سراہا ہے۔ شیفتہ، کریم،قدرت آللہ قاسم ،گارسان دتاسی نے ظفر کو اپنے دور کا بہترین شاعر قرار دیا ہے ۔اور ظفؔر کو بھی بادشاہ ہونے سے زیادہ اپنا شاعر ہونا زیادہ پسند تھا۔ وہ اس پر فخر بھی کیا کرتے تھے۔

خود ظفر کہتے ہیں

ظفر وہ گرمی ہے تمہارے سخن میں

کہ جلتے ہیں آتش زباں اچھے اچھے۔

ظفر اور ذوق کی شاعری کا بنیادی فرق یہ ہے کہ ظفر کی شاعری میں درد،غم،مصیبت،حزن و ملال ،اور تھکن کا احساس ہے۔ان کی شاعری ایسے اشعار سے بھری پڑی ہے جن میں ذاتی حالات اور واردات کی ترجمانی ہے، ذوق کی شاعری شوکت الفاظ اور بناؤ سنگھار کو جگہ دی ہوئی ہے۔ ذوق نے جہاں حزن وملال اگر کہیں برتا بھی ہے تو ہ مصنوعی اور روائتی ہے۔ جبکہ بہادر شاہ ظفر کے یہاں یہ سب چیزیں ان کی زندگی کا حصہ بن گئیں تھی۔ ذوق کی شاعری میں سست بندش اور تعقید کی واضح مثالیں ملتی ہیں،اور نہ ہی ذوق کے کلام میں انفرادی رنج و الم ہے ۔ذوق کا لب و لہجہ ظفر سے بالکل مختلف ہے ۔ با آسانی ذوق اور ظفر کے کلام کو علیحدہ علیحدہ پہچانا جا سکتا ہے ۔ ذوق کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

پہنچا ہے شب کمند لگا کر وہاں رقیب

سچ ہے حرام زادے کی رسی دراز ہے۔

نکلے دنیا سے کہاں احمق اٹھا کر بار حرص

رہ گیا یہ تو گدھا دلدل میں پھنس کے بوجھ سے۔

ٹھہری ہے ان کے آنے کی اب کل پہ جا صلاح

اے جان بر لب آمدہ تیری ہے کیا صلاح۔

ذوق کےان اشعار میں ایک مصنوعیت کا اندازہ ہوتا ہے ،صداقت دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی ۔پھیکا پن ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اس طرح کے اشعار کی ذوق کے یہاں کمی نہیں ہے۔اعتراض یہ بھی ہو سکتا ہو سکتا ہے کہ مثال میں ایسے ہی اشعار کو پیش کیا گیا ہے جن میں کوئی نہ کوئی کمی ہو ورنہ ذوق ؔکے کلام میں ایسے بھی اشعار ہیں جن کی حیثیت مسلم ہے ۔   ان کا جو ادب میں مقام ہے وہ اپنی جگہ ہے جس سے ہمیں انکار نہیں۔  اب ظفر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

خوب تھی جو زندگی جاہ و حشم میں کٹ گئی

ورنہ اپنی عمر تو ساری درد و غم میں کٹ گئی۔

جوش جنگ و جدل پہنیں تو کس کے  واسطے

ہم تو بیٹھے ہیں ردائے صلح کل اوڑھے ہوئے۔

شمع محفل نے کہا رو رو کے شب گل گیر سے

کیا وبال سر یہ میرا تاج زر پیدا ہوا۔

بہادر شاہ ظفر کا کلام اپنے حالات و عہد کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ کلام میں انفرادی غم و درد ہے۔ ظفر کی شاعری اس کے اپنے حالات کی دستاویز ہیں۔ اس طویل بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کلام ظفر سے متعلق جو غلط فہمی محمد حسین آزاد نے ادبی دنیا میں پھیلائی ہے وہ سراسر بہادر شاہ ظفر کے ساتھ نا انصافی ہے۔بقول  علامہ شبلیؔ کہ”آزاد اگر گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔ ذوق ؔکی علمیت اور صلاحیت سے انکار نہیں،وہ ایک استادانہ رؤیہ کے مالک تھے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ظفر کے کلام سی لطافت ذوق کے یہاں پیدا نہ ہو سکی۔

حوالہ جات۔

1 ۔محمد حسین آزاد،آب حیات،ص۔461

2 ۔چند ہم عصر ۔ صفحہ 261

3 ۔رسالہ اردو ،جنوری 1954،ظفر کی شاعری ،ص 12

4 ۔مقدمہ شعر و شاعری ۔صفحہ 114

5 ۔نگار۔اپریل 1948 ص۔ 42

6 ۔دیوان ذوقؔ ۔ ص112

7۔ نگار ،اپریل 1848، ص 43

8۔ خواجہ تہور حسین ،بہادر شاہ شخصیت و فن۔۔ص۔ 113

***

Yusuf Shashi

Jawaharlal Nehru University, new delhi

Mob. No.9103020540

Mail. Yusufshashi7@gmail.com

Leave a Reply