You are currently viewing بیس سو گیارہ: مستقبل کا شاخسانہ

بیس سو گیارہ: مستقبل کا شاخسانہ

سید تالیف حیدر

رسیرچ اسکالر ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، نئی دہلی

بیس سو گیارہ: مستقبل کا شاخسانہ

1955 سے2022 تک

میں سوچتا ہوں یہ (کتاب) میرے اندر سے بہتی چلی آئی تھی۔(1)

محمد خالد اختر کا ناول “بیس سو گیارہ”  مستقبل کی دنیا کو انوکھے انداز میں پیش کرنے کی ایک کامیاب اور خوبصورت کوشش ہے۔ یہ ناول جو اب سے تقریباً پون صدی قبل لکھا گیا تھا ، اس میں 2022 تک کی دنیا کے متعلق انوکھے انداز کی سیاسی اور تہذیبی پیشن گوئیاں کی گئی ہیں، حالاں کہ یہ کوئی پیشن گوئی کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ایک رپورٹ کی شکل میں لکھی گئی ہے۔ اس کے باوجود اسے مستقبل کی کتاب کہا جا سکتا ہے۔ آج اس کو یاد کرنے کا یا اسے پڑھنے کا ایک بڑا جواز یہ ہے کہ یہ  و ہی برس ہے یعنی 2022 جس  سن تک آ کر یہ کتاب اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔ مصنف ایک عمدہ تجزیہ کار، رپورتاژ نگار، زبان داں اور ادیب کی حیثیت سے اس کتاب میں ظاہر ہوا ہے۔ جس میں زبان دانی پہ کچھ سوال قائم کیے جا سکتے ہیں ، لیکن اس کی تخلیقی مہارت پہ ہر گز نہیں ۔ یہ ناول جو کل 14 ابواب  اور ایک ضمیمے پر مشتمل ہے ۔ اس میں اچھے برے ، دلچسپ اور بور کرنے والے مکاملات بھرے ہوئے ہیں ۔ جن سے آپ محظوظ بھی ہو تے ہیں اور مایوس بھی ۔ مگر یہ ایسی کتاب ہر گز نہیں جس کو ہم نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ “جارج آویل”  کے” 1984 “کی طرز پر لکھا جانے والا اردو زبان میں یہ پہلا اور میری معلومات کی حد تک آخری ناول ہے۔ اس ناول میں مصنف نے تخلیقی اظہار، تازہ افکار، نئے رجحانات ، لسانی تجربات  اور فلسفیانہ نکات کو گاہ بہ گاہ پیش کیا ہے اور اردو میں انگریزی زبان کے الفاظ کا بے تاحشا جوڑ لگایا ہے۔ مثلاً فارس، فینٹیسی، ایٹماسفیر،ٹیوب،ٹیب،کلچر، ائمپائروں ، پروزیک، کلٹ، سلینگ، ہپناٹک، ایسٹر، جینیس اورفیڈرل جیسے کئی الفاظ کا استعمال خوب کیا ہے اور اس کا جواز  پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ :

” میں نے سب نیک نصیحتوں  کے خلاف  اس فینتاسی  میں بلا  دھڑک  انگریزی الفاظ اور انگریزی مطالب  استعمال کیے ہیں ۔ اس کے لیے  مس قرۃ العین حیدر نے پہلے ہی  آئندہ مصنفوں کے لیے راستہ صاف کر دیا ہے اور ان کے  “میرے بھی صنم خانے”  کے بعد  کسی بھی مبتدی  لکھنے والے کو انگریزی الفاظ جا بے جا استعمال کرنے سے نہ جھجھکنا چاہیے۔ “میرے بھی صنم خانے ” کے ایک صفحے پر میں نے گیارہ انگریزی الفاظ گنے ہیں ۔ اس رسم کے پہلے پائینر  خود سر سید اور شبلی تھے۔ (2)”

انہوں نے انگریزی الفاظ کے ساتھ ساتھ اپنے ناول میں جن کرداروں اور جگہوں کے ناموں کا تذکرہ  یا استعمال کیا ہے وہ بھی بہت مختلف المزاج ہیں ۔ عام طور پر اس عہد کے ناولوں میں اس طرح کے ناموں کا رواج ہمیں کہیں نظر نہیں آتا  مثلا ً ان کے کرداروں کے نام  یہ ہیں:

“مسٹر پوپو، سارجنٹ بزفر، بوشا، فگارو(کتا)، شماشو، ایف-ایل- پٹاخا، تیشہ پہلوان، گھونگھا پہلوان، گونگلو پہلوان، ملا بکری پہلوان، ریچو مار پھپھوندی، فون فنگ خان، افضل ترکابو، مینیٹو، چچ مچ، رمولو، ہوت، باشا بڑنگ ،ہی ناکی چھو،ڈائی، ہوسیر بھبھر اورہیس۔”

اور جگہ کے نام مندرجہ ذیل ہیں :

“یوکنا پوٹا واہا، ماضنین، شترابا، بنگاو اور اڑنگہ بڑنگہ وغیرہ۔”

 آپ کو یہ نام کچھ عجیب ضرور لگیں گے مگر  یہ توجہ طلب اوردلچسپ ہیں۔ اب آئیے اس ناول کا ابواب  کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔

پہلا باب:مسٹر پوپو کا پیش لفظ

ناول کی ابتدا ایک تاریخی واقعے  سے کی گئی ہے ، جس کی تباہی کا اندازہ لگانے کے لیے مزید ایک ماضی بعید کے تاریخی واقعے  کا سہارا لیا گیا ہے۔ انداز دلچپسپ    ہے ، لیکن واقعے کا بیان تیز اور متوسط ہے ، کہیں کہیں جملہ متاثر کرتا ہے  مگر اس  طرح جیسے مصنف اسے بے ساختہ ادا کرکے تیزی سے آگے بڑھ گیا  ہو۔ نیوکلر کی تباہی کا منظر بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے ، اپنے عہد کے اعتبار سے  یہ ایک اچھا خیال  تصور کیا جا سکتا  ہے ۔ اس  زمانے میں دنیا کے ختم ہونے کا یہ عام تصور تھا کیوں کہ  نیوکلر وار کے زخم تازہ تھے  ۔ اردو میں ایسی تحریریں اس  وقت کم لکھی گئیں اور خالد اختر کے طرز بیان سے مضمون میں مزید حسن پیدا ہوگیا ہے۔ بالخصوص یہ جملہ:

“آدمی  نے اپنے خالق کو بتا دیا  تھا کہ گوہ وہ (آدمی ) تخلیق نہیں کر سکتا ، مگر  وہ تباہ کر سکتا ہے ، اور تباہ بھی اپنے خالق سے زیادہ بہتر اور مکمل طریقے سے۔”(3)

خاص بات یہ ہے کہ تباہی کو دکھانے کے لیے امریکہ کے ایک شہر کا منظر بیان کیا گیا ہے  اور درمیان میں  وہاں کی آرام دہ زندگی پہ طنز یہ جملے بھی کسے گئے ہیں ۔ اس سے ایک نوع  کا تنفر اور احساس فراموشی ظاہر ہوتا ہے، جو غالباً مشرق والوں میں پاکستانی عوام میں زیادہ پایا جاتا تھا۔ مصنف نے تباہی  کے اثر سے پیدا ہونے والے تہذیبی زوال کا نوحہ خوب خوب پیش کیا ہے  ،  گویا اس کے لیے انسانی زندگی کے تہذیبی ارتقا کی اہمیت سب سے زیادہ  ہے حتی کہ انسانی جانوں سے بھی زیادہ ۔ وہ  بار بار ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ 1992  میں نیوکلر  سے “افلاطون  اور ارسطو کا فلسفہ ، مائیکل اینجلو  کی پینٹنگز  اور لا تعداد آرٹ اور صناعی اور انسانی جدت کے شاہکار  اس ہون کنڈ میں بھسم  ہوگئے۔(4)”مزید یہ کہ “1192 کی عالمگیر تباہی  نے فی الواقع  تہذیب کو دم توڑنے پر مجبور کر دیا(الخ)۔ چند گھنٹوں میں ہزاروں سال کی تہذیب کا روحانی  اور مالی اثاثہ  صفر  ہو گیا۔(5)” امریکہ کا تہذیبی رعب مصنف کو اکھرتا ہے ۔ وہ تہذیب کے متبادل کے طور پر امریکیانا  پن  کو اوچھی نظر سے دیکھتا ہے ۔ اس عہد میں اس طرح  سے سوچنے کا ملکہ کم لوگوں کو حاصل تھا یا یوں کہا جائے کہ بالغ  ذہن اور پڑھے لکھے ادیبوں میں بھی امریکہ کی تہذیب کو رواج عام مل رہا تھا۔ اس کا حوالہ دیتے ہوئے مصنف نے اس عہد کی فلموں  اور کتابوں کی مثال پیش کی ہے۔ اس میں  کوئی دو رائے نہیں  کہ ایک عرصے تک دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ تہذیب کی علامت کے طور پر دیکھا جا تا تھا۔ جو آج سطحیت معلوم ہوتی ہے۔ اس  سے مصنف کی دور اندیشی نظر آتی ہے۔امریکی تہذیب کا مشرقی ممالک میں عمل دخل حد سے زیادہ بڑھ جانا  یہ مصنف کو  گھٹیا پن اور اپنے تہذیبی زوال سے مشابہ معلوم ہوتا ہے اور مشرقی عوام پہ بار بار طنز کرتا ہے کہ انہوں نے امریکہ کی تہذیب کے اطوار کو بنا سوچے سمجھے اپنا لیا ہے جس میں وہ خود کو افضل تصور کرتے ہیں ۔ وہ اپنی تہذیب کے زوال کا منظر امریکی  تہذیب کے مشرق پر تسلط کی شکل میں دیکھتا ہے۔ اور “یپ” اور ا”اوکے” جیسے الفاظ کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں  طنزیہ طور پر مشرقی ممالک کی عوام کے  لیے مضحکہ خیز تصور کرتا ہے۔مصنف کی ایک خاص بات یہ ہے  کہ وہ امریکہ کے علمی ارتقا سے خائف نہیں  اور نہ ہی اس سے چڑتا ہے ، بلکہ وہ مشرق کی عوام کو یہ احساس دلا تا ہے کہ وہ جس کلچر سے اپنے آپ کو متاثر سمجھتے ہیں حقیقت میں ان کی علمی استعداد سے استفادے سے خالی ہیں ۔ وہ آئن  اسٹائن  کی مثال پیش کرتا ہے جس کی ریاضی کو مشرقی اذہان سمجھنے سے معذور ہیں ، وہ امریکی عالموں فلسفیوں کی مثالیں  دیتا ہے  جن سے مشرقی عوام کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ مصنف کا منشا  امریکیانا سے “کچھ فحش  کچھ متلی  لانے والا (6)” تصور ہے۔ جس میں علم کے بالمقابل جہالت کا عمل دخل ہے۔ وہ یوکنا پوٹا واہا جو غالباً مشرق کے کسی ملک(اغلباً پاکستان) کی  عوام  پہ طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ دنیا کو آج بھی ایک مستطیل کرہ سمجھتے ہیں ۔ مصنف امریکہ کے ساتھ انگلستان کا حوالہ بھی دیتا ہے جہاں کی تباہی نے وہاں کی عوام کو ساکت کر دیا ۔ انگلستان پہ وہ طنز کرتے ہوئے  وہاں کی جسمانی ، اعصابی اور روحانی کشمکش کا تذکرہ کرتا ہے جو  1992 تک   بھی  انگلستانیوں کا مسئلہ رہا  جس بات کی جانب 1955 میں مصنف نے اشارہ کر دیا تھا۔ جنہوں نے روحانیت کی تسکین کے لیے رومی  اور عطار کو تلاش کیا، اعصابی مسائل سے نپٹنے کے لیے نفسیات کے علم کو فروغ بخشا اور جسمانی مسائل ختم کرنے کے لیے نیو میڈیکل سائنس میں ترقی حاصل کی مگر آج بھی وہ  اسی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں  بقول مصنف”میری رائے میں یہی ان کے مخمصے کا سہل ترین حل تھا(7)”۔ وہ قرض دینے والا ملک  تھا جس کا اعتراف مصنف دلچسپ انداز میں کرتا ہے ۔ مصنف یورپ  کی تہذیبی ترقی کا صدق دل سے اعتراف کرتا ہے۔ ان کی تہذیب کی تاریخ کو احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی برد باری ، فراخ دلی، تحمل  مزاجی اور شرافت کا معترف نظر آتا ہے ۔ وہ امریکہ کی تہذیب کو یورپ کے مقابلے میں ایک لڑکے کی اٹھلاہٹ سے تعبیر کرتا ہے اور یورپ کے پر وقار رویے کو نمایاں کرتا ہے۔ بحیثیت مصنف     مسٹر پوپو کے کردار  سے لکھاری یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسانی تہذہب کی تاریخ میں یورپ کے باشندے عمدہ نسل کے انسان تھے ۔ اس سے اس پر یورپ کے رعب کا اثر تو ظاہر ہوتا ہے ، جس  کی یوکنا پوٹا واہاایک عرصے تک نوآبادی رہی ، مگر ساتھ ہی مصنف کے بیان میں جذباتی صداقت بھی نظر آتی ہے۔ مصنف نے ایسے مہذب ملک کو ینو کلر وار کے بعد ایک آدم خور جزیرے کی شکل میں بدل جانے کا امکان ظاہر کیا ہے جو غالبا ً اس امر کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ نیوکلر وار سے دنیا کس تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔انگلستان کے بعد مصنف نے فرانس کی تباہی کا حال بیان کیا ہے ، جس پہ وہ کف افسوس ملتا ہے۔ فرانس کو مصنف دنیا کا سب سے زیادہ تہذیب یافتہ ملک  تصور کرتا ہے ، وہ فرانس کو عشق کا  شہر کہتا ہے   جہاں عورتوں کی عبادت کی جاتی ہے ۔  حالاں کہ یہ بات قدرے نازک ہے کیوں کہ 2015 تک آتے آتے فرانس نے جنسی رجحان کے تحت  امرد پرستی میں  بڑا ہاتھ دکھا یا ہے ۔ پھر بھی مصنف کے الفاظ دل  چھو لینے والے ہیں ۔ عشق کی حسین سر زمین اور ادب ، موسیقی  اور مصوری کو فروغ دینے میں فرانس آج بھی دنیا کو کئی سو برس پیچھے چھوڑے ہوئے ہے ۔ ایک جملہ جو فرانس کے متعلق حاصل  کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ :

“جہاں تک تباہ کن  آلات کے بنانے  کا تعلق ہے ، فرانسیسی ، امریکی اور روسیوں سے کہیں پیچھے تھے ، اور  اس قسم کی ایجادوں کے لیے  ان کے پاس  وہ خاص  طرز کا دماغی  رجحان نہ تھا۔(8)۔

مصنف فرانس کی تباہی کو دنیا کا سب سے بڑا خصارہ تصور کرتا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ انگلینڈ ،امریکہ اور روس کسی ملک سے اتنا تہذیبی خلا پیدا نہیں ہوا جتنا فرانس سے ہوا ۔ وہ روس کے متعلق یہ خیال ظاہر کرتا ہے کہ” روس نے انسان کو اقتصادی  تفکرات اور الجھنوں سے آزاد کر  کے  اس سے تقریر اور تحریر کی آزادی چھین لی (9)۔ ” حالاں کہ یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ دنیا کو ناول کا فن روسیوں نے عطا کیا ۔ مصنف موپاساں ، پروست اور فرانسو اموریاک کا تو تذکرہ کرتا ہے مگر  ٹالسٹائی  ، چے خف اور بالزاک کا تذکرہ نہیں کرتا ۔ مصنف نے روس کی سیاسی بربریت کا نقشہ بہت متاثر کن انداز میں کھینچا ہے ، مگر اس  کے طرز بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی جاسوسی ناول کا پلاٹ بیان کیا جا رہا ہو۔  روس سے اس کی دور اندیش امیدیں ، وہاں کے سیاسی نظام سے اس کا بغض اور وہاں کے جبری نظام کو ظاہر کرتے ہوئے اس نے ماگلووچ جو روس کا صدر  ہے اسے ایک کردار کی طرح استعمال کیا ہے۔ یہ بات قابل غور  ہے  کہ جس زمانے میں یہ ناول لکھا گیا اس وقت سی ایس ایس آر کی طاقت اپنے عروج پر تھی  اس حکومتی نظام کے تحت 14 ممالک اپنی حکومتیں چلا رہے تھے، جہاں انسان کی دبی کچلی حالت نہ تیسری دنیا کی طرح تھی اور نہ امریکہ  اور انگلستان کی طرح ۔ وہاں کے مسائل ایک مشکوک دائرے میں زندگی گزارنے سے تعبیر کیے جاسکتے ہیں ۔ امریکہ اور روس کی جنگوں کا بازار گرم تھا اور یہ دونوں طاقتیں اپنے آپ کو دنیا کی عظیم طاقت ظاہر کرنے میں کوشاں تھیں ۔ حالاں کہ آج بھی یہ صورت باقی ہے ، مگر اب روس کا وہ نقشہ نہیں جو اب سے ستر برس قبل تھا۔ مصنف نے روس کو دنیا میں نیوکلر جنگ  کو چھیڑنے والا ملک بتاتے ہوئے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ تیسری جنگ عظیم اگر کبھی ہوئی تو وہ روس کی وجہ سے ہی ہوگی کیوں کہ وہاں انسانوں کے پاس تحریر اور تقریر کی آزادی  نہیں ہے اور جس سے وہ اند ر ہی اندر لاوے کی طرح ابل رہے ہیں ۔ ایک جملہ جو  پورے روسی منظر نامے کو بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے وہ بہت  اہم ہے کہ :

“ہر آدمی خود غرض  ہے اور ہر آدمی  اذیت پسند ، ہم  میں سے ہر ایک کے اندر ایک ماگلووچ ہے۔”

 گویا ماگلووچ جو کہ روس کا صدر ہے اسے مصنف نے نفرت  اور وہشیانہ طرز حیات کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔

 افریقہ کے متعلق مصنف کی پیشن گوئی بھی خوب ہے ، مگر وہ اس خطہ زمین سے نہ زیادہ  دل برداشتہ نظر آتا ہے اور نہ خوش ۔ اس  نےبس صورت حال کو الٹ دیا ہے ۔ آج کا افریقہ  جو دنیا کی مہذیب  قوموں میں شمار کیا جانے لگا ہے ، کبھی وہ آدی واسیوں کی آماج گاہ تھی۔ مصنف نے اس تصویر کے برعکس ایسی ایک خیال بندی پیش کی ہے جس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا  جا سکتا ۔ وہ افریقہ کے مستقبل سے پر امید ہے جہاں انسانوں کا گوشت آج بھی کھایا جا تا ہے اور تکنیک کے برعکس توانائی سے کام لیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہہ کر خوش معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ خطہ اپنی ارتقا کی منزلیں طے کرے گا  اور دنیا کو نئی تہذیب عطا کرے گا۔ مصنف کے یہاں ایک کمزور پہلو یہ ہے کہ وہ تاریخ کے واقعا ت سے  استفادہ کرتے ہوئے منظر کو سطحی بنا دیتا ہے ۔ مثلاً افریقہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جہاں وہ یہ کہتا ہے کہ یہاں  “پھر ایک مطلق  العنان فرعون کا راج ہے جو قدیم مصری تہذیب کو پھر سے زندہ کرنے پر آمادہ ہے۔(10)” اس میں دو رائے نہیں کہ مصری تہذیب کا زوال ایک المیہ ہے  جس کا احیا یا ارتقا کسی نعمت سے کم نہیں مگر اسے اپنے قدیم طرز کے مانند ظاہر کرنا کسی طور بڑا یا اچھوتا خیال معلوم نہیں ہوتا ۔ اگر کوئی ملک اپنی تہذیب کے ارتقا میں سانپ کی پرستش بھی کرے تو اسے طنزیہ انداز میں بیان کرنا میری ذاتی رائے میں درست نہیں ۔ ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے  کہ افریقہ میں اب سفید آدمی کی درگت بن رہی ہے ، جو مزاح کا اچھا پہلو روشن کرتا ہے ۔ بقول مصنف:

 “کئی ممتاز ہوٹلوں پر یہ بورڈ آویزاں ہیں  کہ سفید آدمی منہ کالا کیے بغیر اندر نہیں آسکتے۔ ریپبلک  کا ایک اور ان لکھا قانون یہ ہے کہ جب ایک سفید آدمی  اپنے سامنے ایک سیاہ آدمی کو آتا  ہوا دیکھے  تو فوراً زمین پر سجدہ کرکے تعظیم کرے  اور بعض شہروں میں تو سفید آدمی بازاروں میں غلاموں کے طریق پر فروخت کیے جاتے  ہیں ۔ (11)”

اسرائیل کے متعلق  بھی کوئی روشن پہلو بیان کرنے سے مصنف خالی ہے ۔ دو ایک باتیں تاریخ کی روشنی میں اچھی کہی ہیں ، مگر کوئی ایسی بات جس سے  اس  کے سیاسی نظام  کے حوالے سے کوئی اہم نکتہ سامنے آئے نہیں کہی گئی ہے ۔ اسی طرح عرب کے متعلق بھی مصنف نے کمزور پیشن گویاں کی ہیں ۔ وہاں امریکوں کے عمل دخل کو دیکھتے ہوئے  ایک عدد ہالی ووڈ اور نیویارک کی موجودگی کا اعلان کرنا اس عہد میں آسان تھا۔ یہ سہل نکتہ ہے جب کہ دنیا جانتی ہے کہ عرب خواہ کتنے ہی بد قماش ہوں مگر اپنی تہذیب اور لباس سے اب تک جڑے ہوئے ہیں ۔ البتہ نئی تکنیک نے انہیں اپنا غلام بنایا ہے اور وہ امریکہ کے پپیٹ جیسے تھے ویسے ہی آج بھی ہیں ۔ پاکستان ، ایران اور افغانستان کی مشترکہ ریاست کا بیان مصنف کا منشا تو ہوسکتا ہے مگر اس میں کسی طور صداقت نظر نہیں آتی ۔ یہ ایک مضحکہ خیز یا مزاحیہ  تصور ہے ۔ کراچی کا بیان بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ پاکستان  کو دنیا میں جس طرح ایک جنگی تجربے گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا اس کا نظارہ مصنف نے اکیسویں صدی کی ابتدا میں  خود دیکھ لیا ہوگا ۔ اسی طرح ہندوستان کے متعلق مصنف کی رائے بھی افسوس ناک حد تک خراب ہے ۔ یہاں طنز کے ساتھ ساتھ جس مزاحیہ طریق کا انداز استعمال کیا گیا ہے وہ ایک اچھے مصنف کی شناخت نہیں بنتا ۔ اس میں مصنف کا بغض نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں :

“ان (بھارت) کے بارے میں یہ سنا جاتا ہے کہ وہ بندروں کو متبرک  سمجھتے ہیں ، اور ان کی بعض ریاستوں میں یہ پاک بندر  اس وقت پرائم منسٹر  کے عہدے پر  فائز ہیں اور ان میں سے بیشتر  قدیمی  شاستروں کے برہمنوں سے بہتر  ودوان ثابت ہوئے ہیں ۔(12)۔”

غالباً یہ اس وقت کی پاکستانی عوام کا عام تصور رہا ہوگا۔ مسٹر پوپو پالنہار چوکا مانیفو  جو بحیثیت صدر یہ  پوری رپورٹ لکھ رہا ہے وہ اپنے ملک کی ستائش کرتا ہے جس میں ایک لفظ بھی طنز کا نہیں ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک وہی اصل پاکستان ہے  جس کا وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ مستقبل کا پاکستان ۔

دوسرا باب:جس میں مسٹر پوپو کی ماضنین کے دارالخلافہ شترابا میں حیرت انگیز آو بھگت کا ذکر ہے

یہ باب پہلے باب کی مانند پر فکر اور ایسے خیالات سے بھرا ہوا تو نہیں جس پر طویل گفتگو کی جا سکے ، مگر دلچسپ  اور غیر ضروری طوالت کے بین بین ہے۔ مصنف کہیں کہیں قاری کو بہت مایوس کرتا ہے ۔  ناول کے پلاٹ کو آگے بڑھانے کہانی کو جاری رکھنے کے لیے ایسے جملوں کو خلق کرنا جس سے بوجھل پن طاری ہو کمزور تحریر کی علامت ہے ۔ لیکن اسی کے درمیان خالد اختر کی حس مزاح بھی کام دکھاتی ہے جس کے باعث بہت اچھے اور تخلیقی جملے وجود میں آگئے ہیں،ماضنین کے دار الخلافہ میں جلوس کے منظر میں بھی مصنف نے کمال  فن کا مظاہرہ کیا ہے ۔ بالخصوص  ان دو مقامات پر جہاں وہ کہتا ہے کہ : ” پوپو گیٹ  کے نیچے سے گذرتے وقت ہم  پر اوپر سے  پھول  پھینکے  گئے، جو غلط  ٹائمنگ کی وجہ سے بیشتر پیچھے  ملا بکری  پہلوان پر گرے۔(13)” اور دوسرے مقام پر کہتا ہے۔” وہ چاروں ملا کر غالباً چار  من فی پہلوان کی اوسط سے ، سولہ من تھے ، سارجنٹ بزفر ، یوکنا پوٹاواہا   کاس سب سے موٹا آدمی ، ساڑھے تین من تھا۔(14)” ایک جگہ نہایت تخلیقی جملہ یہ لکھا ہے کہ : ” مجھے اپنے نام  سے ایک گونہ پیار ہے اور جب میرے نام سے  بے تکلفی برتی جاتی ہے تو مجھے صدمہ ہوتا ہے۔(15)”اس باب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹ یوکنا پوٹا واہا کے صدر مسٹر پوپو 2016 میں لکھ رہے ہیں  کیوں کہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ : ” اب جبکہ  ساری دنیا میں 2016 ہے ، ماضنین میں 1810  ہے۔(16)” حالاں کہ رپورٹ کے اختتام پر تاریخ 2022 دی گئی ہے۔ پورے باب میں صرف ایک جملہ ایسا ہے جو مصنف کی فکر کو ظاہر کرتا ہے جو اس نے طنزیہ انداز میں کہا ہے۔ یعنی ایک مقام پر جہاں وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اس میں یعنی مسٹر پوپو میں اب عورتوں کے حسن  کے متعلق کوئی لگاو نہیں بچا ہے تو وہ اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہہ گیا ہے کہ : “یہ کسی قدر  اس جنسیت زدہ پروفیسر فرائڈ  کو پڑھنے کا نتیجہ ہے۔(17)” اس سے اس عہد میں فرائڈ کے نظریے سے لوگوں میں کس قسم کے خیالات پیدا ہو رہے تھے اور جنسیت سے ان  کی ذہنی کشش  کس طرح متاثر ہوئی تھی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ مصنف نے اس باب میں اپنے سفر کی دارستان کو دلچسپ بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے جو بڑی حد تک کامیاب ہوئی ہے ۔

تیسرا باب: جو ماضنین کے دستور ِ اساسی اور حکومت پر تبصرہ ہے

تیسرا باب زیادہ  تر  سیاسی حالات اور  انتشار پر مبنی ہے ۔ اس میں ایک جمہوریت  میں شہر کا  کیا حال ہوتا ہے ، انسانی زندگی سے حکمراں طبقہ کس طرح کھیلتا ہے ۔  ا پنے مالی   مفاد کی خاطر کس طرح شہر میں بسنے والی عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے یا کس طرح انہیں تباہی کے دہانے تک لے جایا جاتا ہے اس کو ظاہر کیا گیا ہے ۔ مصنف نے جو منظر بیان کیا ہے اس سے لگتا ہے  کہ کسی عام مشرقی ملک کی حالت اس کے پیش نظر ہے، زیادہ تر پاکستانی عوام اور وہیں کے سیاسی مسائل کی حالت آشکار  ہوتی ہے ،نشے کی حالت میں عوام کی بے  فکری اور ان کے منہ سے چھنتے ہوئے نوالوں  کے منظر سے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود ایک ایسی جمہوریت میں رہ رہے ہیں جہاں  آزادی کے نام پر ہمیں کس درجہ تہی دست کیا جا رہا ہے ۔ حکومتوں کے نعرے کتنے بے مطلب اور عوام کو کور چشم بنانے والے ہیں ۔ اس عمل کے  لیے مصنف نے حکومتی سطح پر جس محکمے کا تذکرہ کیا ہے وہ لا جواب ہے وہ کہتا ہے کہ ایک محکمہ  دروغ بیانی ہے جو حکومت کے لیے یہ کام کرتا ہے کہ عوام کو احمقانہ  فعل اور خیال میں پھنسائے رکھے جس سے حکمراں کے سکون میں خلل نہ پڑے ۔ وہ ابتر شہر کی حالت کس طرح طنزیہ انداز میں بیان کرتا ہے ملاحظہ کیجیے:

” کیا تم نے کبھی  ایک ہڈی  کے ٹکڑے پر کتوں کو گر کر لڑتے دیکھا ہے ؟ وہی حالت اس وقت ان کھلی ہوا کے عاشقوں کی ہوتی ۔ وہ روٹی کے لیے ایک دوسرے  پر چھینا جھپٹی کرتے ، ایک دوسرے کے بال نوچتے ، ایک دوسرے کو حیوانوں کی طرح دانتوں سے کاٹتے ۔ امیرزادوں کے لیے یہ مشغلہ بے حد دل بہلانے والا سمجھا جاتا ہے۔ (18)”

ہوا کے عاشقوں سے اس کی مراد ایسے بے گھروں سے ہے جنہیں حکومت کی پالیسویں کے باعث بے گھری کے زندگی گزارنا پڑ رہی ہے ، جس کو حکومت ایک حسین خواب سے تعبیر کر کے انہیں آزاد خیالی کا مظہر بتا رہی ہے ۔ مصنف کہیں کہیں جذباتی انداز میں عوام کے غم کو بیان کرتا ہے ، ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ اسی کے اطراف میں ہو رہا ہے ۔ ماضنین جہاں کی وہ روداد لکھ رہا ہے اس کا  شہری وہ خود ہے اور پوپو جہاں کا وہ صدر ہے وہ بھی اس کے اپنے ملک کی حالت ہے۔ وہ بیک وقت دو کردار وں میں نظر آتا ہے۔

چوتھا باب: ماضنین میں حقوق نسواں

منو  کے قانون  سے مشابہ اصول  و ضوابط سے اس باب کی ابتدا ہوتی ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف عورتوں پہ ہونے والے مظالم کو بہت سنجیدگی سے بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ حقوق نسواں کے مسائل بیان کرتے ہوئے کہیں کہیں پاکستان اور ہندوستان کے قوانین پہ طنز کیا گیا ہے ، جو جمہوری قانون سے مختلف ہیں  اس کے باوجود ان ممالک میں عورتوں پہ آزمائے جاتے ہیں ۔ پاکستان اور افغانستانی عورتوں کا کنایتاً تذکرہ کیا گیا ہے جو نہ  اپنے مردوں کے ساتھ بازار میں گھوم سکتی ہیں اور نہ کسی امر حیات میں ان کے بالمقابل کام آ سکتی  ہیں ۔ خالد اختر کے بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یونانی  قوانین اور مذہبی  تصور آزادی سے بھی نالاں ہیں جو عورت کو نہایت الجھن کے ساتھ زندگی گزارنے اور اسے ایک پاک یا ناپاک شئے میں تبدیل کرنے میں کوشاں ہے۔ اس باب میں خالد اختر بڑی حد تک سنجیدہ مزاجی سے مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

پانچواں باب:ماضنین میں ادب اور آرٹ

یہ باب بھی سنجیدہ اور کنایے سے بھرا ہوا ہے ۔ مصنف اپنی بات کو اتنا مبہم بنا کر بیان کرتے ہیں کہ  بہت سی باتیں واضح ہی نہیں ہو پاتیں کہ اشارہ کس جانب ہے۔ اس میں فنی اظہار تو ہو جاتا ہے مگر معنی کی ترسیل کا مسئلہ  پیدا ہو جاتا ہے۔  ادب  پہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ادب کو جن دو اسکولوں میں تقسیم کیا ہے اس میں پرانے اسکول سے کلاسکل  اپروچ کے ادیبوں کی شناخت ہوتی ہے اور نئے اسکول والے ترقی پسند معلوم ہوتے ہیں ۔ ترقی پسندوں کا زور اس عہد میں بہت بڑھ گیا تھا ، مصنف نے جن طنزیہ  کنایوں کا استعمال کیا ہے اس سے ترقی پسندوں کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ مثلا ان کا یہ کہنا کہ ” ان کے افسانوں  سے مختلف  اناجوں  اور سبزیوں کی  خوشبو سونگھی جاتی ہے ۔(19)” یا  یہ خیال ظاہر کرنا کہ :

اس نئے اسکول  کے مصنفوں میں سے کئی فی الواقع  پر خلوص ہیں ، لیکن زیادہ تر وہ ہیں جو تسلیم کیے جانے کے خواہاں ہیں ۔ یہ موخر الذکر میرے خیال  میں محض تھرڈ کلاس ڈھنڈورچی ہیں جو سب  سے زیادہ شور مچا کر  اور سب سے اونچا چیخ کر لوگوں کو اپنی نیک دلی اور بھگتی کی دہائی دے رہے ہیں ۔(20)”

اسی طر ح آرٹ پر ان کا کمنٹ بھی لاجواب ہے ۔ جدید   آرٹ کے شعبے پر بالخصوص  جہاں پنٹنگ نے  خود پہ اس قدر ابہام طاری کر لیا ہے کہ  کوئی شخص الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر خود کو پنٹیر ثابت کرنے لگتا ہے  اور بقول مصنف:

” اس طریقے نے آرٹ کو اس قدر سادہ کر دیا  ہے ، کہ ہر کوئی دو منٹ میں ، گھر بیٹھے ، آرٹسٹ  بن سکتا ہے۔(21)”

چھٹا باب: یوکنا پوٹا واہا میں ریوولیشن -دیواریں کیسے پھاندی جاتی ہیں

مصنف نے اس باب میں ایک غیر متوقع صورت حال پیدا کی ہے، جو  خیال اور پلاٹ میں دلچسپی پیدا کر دیتی ہے ۔ یوکنا پوٹا واہا کا صدر اور اس کا سارجنٹ اپنے ملک میں ہونے والی اچانک انقلابی تبدیلی سے اس وقت متاثر ہوئے جب  وہ کسی ملک کے مہمان ہیں اور جہاں انقلاب برپا ہوا وہاں کے صدر  سے فورا ً ایک باغی  میں تبدیل ہوگئے ایسی صورت سیاسی اعتبار سے بھی انوکھی ہے ، خالد اختر نے اس میں اپنے بیانیے سے  منظر کو مزید خوبصورت بنا دیا ہے ۔ ان کی منظر نگاری اور جزیات نگاری  بھی کمال کی ہے ۔ بالخصوص ان موقعوں پر جہاں وہ طنز اور مزاح کی لہر پیدا کرتے ہیں ۔ مثلاً ایک جگہ مسٹر پوپو   گورنمنٹ  باغ میں  بیٹھے پرندوں کو ٹی ایس ایلیٹ  کی نظمیں سنا رہے ہیں ، اس منظر میں مصنف کہتا ہے :

“(صدر  مسٹر پوپو) ایک برطانوی شاعر ٹی ایس ایلیٹ کی نظموں کی کتاب پرندوں کو اس خیال سے سنا رہا تھا  کہ شاید  وہ اس کو مجھ سے زیادہ سمجھ سکیں ۔(22)”

اس اقتباس میں ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ٹی ایس ایلیٹ  برطانوی نہیں بلکہ امریکی شاعر  تھا، اور مصنف کے  متعلق یہ کہنا کہ وہ اس بات سے واقف نہیں تھا اور روا روی میں برطانوی لکھ گیا ایک حماقت آمیز تصور ہے،  ساتھ ہی یہ کنایہ بھی خوب ہے کہ پرندے اس کو زیادہ سمجھ سکیں ، کیوں کہ ایلیٹ کی  شاعری میں بعض کنایے ایسے آتے ہیں کہ انہیں سمجھنا تیڑھی کھیر ہوتا ہے۔

ماضنینیوں کا باغی صدر کے ساتھ سلوک کیسا ہو سکتا ہے ، اس  سے بھی ایک انقلابی سیاسی صورت حال سامنے آتی ہے ۔ جیسی تاریخ میں کم ہی پیش آئی ہے ۔ مصنف نے ایک مقام پہ “ورڈزورتھ ”  کو بھی اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے  اور  ساتھ ہی مذہب اسلام   کے مردار کھانے کے اصول کو بھی اپنا ہدف  بنانے کی کوشش کی ہے۔ جہاں وہ کہتے ہیں کہ :

“سارجنٹ بزفر نے کہا ۔”ہمارا مذہب تم ماضنینیوں کے مذہب کی طرح مردہ جانوروں کو کھانے کی اجازت نہیں دیتا ۔” “تو اس  کا مطلب یہ ہے، کہ وہ جانور جو تم کھاتے ہو زندہ ہوتے ہیں ۔” ہوت اپنے ساتھیوں کی طرف  دیکھ کر ہنسا۔(23)”

ساتوں باب :عطر بازار کا ایک درزی -ایک سیر نے چیف آف بنگاو کو کیا کیا

اس باب میں مصنف نے گزشتہ باب کی  تفصیل درج کی ہے ، زیادہ تر منظر نگاری اور جزیات نگاری بیان کی گئی ہے۔ تفصیل غیر ضروری اور اکتا دینے والی ہے، جو مصنف کے فن کی کمزوری ظاہر کرتی ہے۔

آٹھواں باب : کھلی ہوا کے عاشقوں کی مجلس عاملہ کی میٹنگ

اس باب میں عام مجلس عاملہ کی میٹنگوں کی طرح ایک قانونی منظر دکھایا گیا ہے ، مگر اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں مصنف نے ایک انوکھی سچویشن بنا کر اسے عمومیت سے بالا تر کر دیا ہے ۔ سارجنٹ بزفر کی پیکر تراشی جہاں مختلف مقامات پر پورے ناول میں اچھوتے انداز میں کی گئی ہے وہیں اس باب میں بھی بعض جزیات  بڑھا کر اس پیکر تراشی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ اس مجلس عاملہ کو فقرا کی مجلس عاملہ بھی کہا جا سکتا ہے جو حکومت کے سیاسی نظام پر ایک کریہ طنز  ہے۔

نواں باب: باولر کا ایک نیا استعمال

اس باب میں مصنف نے اشاروں اور کنایوں کا حسب روایت استعمال کیا   ہے اور اپنی باتوں کو خاصے پیچیدہ انداز میں بیان کیا ہے ، کمال یہ ہے کہ پیچیدہ بیانی کے ساتھ ساتھ واقعات میں سہل بیانیہ قائم رکھا ہے ، مگر معنی کی سطح پہ مضمون کو مشکل بنا دیا ہے ۔ کھلی ہوا  کے عاشقوں سے اس باب میں بھی وہ ترقی پسند وں کو مراد لیتا ہے ، بعض پچھلے ابواب میں بھی اس جانب اشارہ کیا گیا ہے مگر قدرے مبہم انداز میں مگر اس باب میں کرشن چندر،  شہر یار کا واضح  اور فیض کا کنایتاً   اشارہ اس امر کو مزید واضح کرتا ہے ۔ مصنف نے آرٹ اور ادب  کی تاریخی شخصیات اور ان کے ادوار کا بھی تذکرہ کیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے  جیسے وہ فنون لطیفہ کے مختلف حوالوں کو ایک ساتھ استعمال کر کے کہانی میں ایک گہری معنویت پیدا کرنے میں کوشاں ہے جس تک رسائی مشکل   ہو جاتی ہے ۔ غالب اور اختر شیرانی کے اسما ، عرب اور امریکی مزاح نگاروں کا تذکرہ ، رقص کی تہذیب اور موسیقی کا حوالہ اور متوسط طبقے کے شاعروں کی نظموں کو بگاڑ کر پیش کرنا اس سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کا خیال  پردہ خفا میں ہے جو شائد مزید تجربات اور علم کی فراوانی سے ظاہر ہو۔ ایک جملہ جو حاصل باب کہا جا سکتا ہے وہ اختر شیرانی کے متعلق ہے ، جہاں وہ کہتا ہے کہ:

” ایک میڈیول ایشیائی شاعر اختر شیرانی ہے جس کا پچھلے پچاس  سال  طاق نسیاں پر رکھے جانے کے بعد  ایشیا بھر میں پھر سے ووگ ہو گیا ہے۔(24)”

ووگ سے مراد شہرت ہے۔ایک مسئلہ اس اقتباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں مصنف کو فنون لطیفہ کے کرائسس کا خیال پریشان کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جس  کے باعث اس نے یہ منظر ناول میں پیش کیا ہے کہ مسٹر پوپو سے جب پوچھاجاتا ہے کہ اسے کوئی آرٹ آتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ “ہاں مجھے جوتے سینا آتے ہیں ۔” اور ایسا ہی حماقت آمیز جواب سارجنٹ بزفر بھی دیتا ہے۔

دسواں باب : جس میں زیادہ تر زیر بحث مسئلہ  یہ ہے کہ آیا جو تے فی الواقع ضروری ہیں

 دسویں باب میں مصنف  نے سیاسی زندگی اور سیاستدانوں کے اعمال پر  پر مغز  تقریر پیش کی ہے ، لیکن یہ اس کا کمال ہے کہ کہانی کی ڈور کو مضبوطی سے تھامے رہا ہے ۔ وہ اپنے کرداروں کو بھر پور انداز میں استعمال کرتا ہے اور کہانی کو بیان کرتے ہوئے دلچسپی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ حالاں کہ مکالمات کہیں کہیں خاصے طویل ہو گئے ہیں اور اس باب میں بعض مکالمے تو اکتا دینے کی حد تک طویل اور غیر ضروری معلوم ہوتے ہیں ، اس کے با وجود مصنف کا طنزیہ انداز ان میں دلچسپی قائم رکھنے میں ممد ثابت ہوتا ہے ۔ مصنف شعور کی رو  کی تکنیک کا استعمال کرتا ہے ، جو غالباً اس عہد میں قرۃ العین حیدر  نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں پہلے پہل استعمال کی تھی۔

گیارہواں  باب: جس میں مسٹر پوپو باولر ہیٹ کا ایک  اور نیا استعمال دریافت کرتا ہے

اس پورے باب کو منظر نگاری اور قصہ گوئی سے   پر کیا گیا ہے، مگر تفصیلات اکتا دینے والی اور غیر ضروری حد تک بڑھی ہوئی ہیں ۔ مصنف نے اپنے  ناول کو بڑھانے اور اس میں ایک نئے پہلو کو پیدا کرنے کے لیے اس باب کو رقم کیا ایسا محسوس ہوتا ہے۔ بے جا جملے، غیر دلچسپ مکالمے ، بوجھل منظر نگاری اور احمقانہ طویل جزیات اس سے ناول کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ حالاں کہ ایک آدہ مقام پر  اپنی  حس مزاح کو برئے کار لاتے ہوئے اچھے طنزیہ جملے  بھی تخلیق کیے گئے ہیں  اور ایک نیا پہلو پل جک مچ یعنی ماضنین کی پولس  جس کا فول فارم”  پکڑ لو جس کو چاہو ” ہے سے بھی پیدا کیا گیا ہے۔ مگر تیرہ صفحات میں دو ایک مقامات سے بوجھل پن کی فضا القط نہیں ہوتی۔ اختتام میں البتہ مصنف نے  نیو کلیر  کے بنانے اور اس کے وجود میں آنے کے پیچھے کس طرح کی حکومتی پالسیاں اور غیر ذمہ داریاں کام کرتی ہیں اس پر معنی خیز تاثر پیش کیا ہے۔

بارہواں باب: جس میں ایک قحط اور ایک دیوار کا ذکر ہے

یہ باب بھی گزشتہ ابواب کی طرح کنایات سے بھرا ہوا ہے، سیاسی  تحریکات ، عوامی حالات اور افراتفری کے اشارے  جن سے ذہن  اس کی تخلیق کے زمانے یعنی تقسیم ہند کے عہد میں پہنچ جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماضنین سے مصنف کی مراد ہندوستان ہے اور یوکنا پوٹا واہا  انگلینڈ اور  کھلی ہوا کے عاشق وہ پاکستانی ہیں جو ایک نیا ملک چاہتے ہیں ۔ بعض اشاروں میں مصنف کے یہاں جناح اور نہرو کی تصویر بھی نظر آتی ہے۔ گاندھی، ماو نڈ بٹن  اور اسی قسم کے دوسرے سیاست داں جو اس عہد میں سیاسی  معاملات  سے گھرے ہوئے تھے۔ مسلم عوام جنہوں نے ہجرت کی ان کی جھلک بھی نظر آتی ہے جو مجمعے کی صورت میں مسکین حال ہیں  اوراپنے سیاسی رہ نماوں پہ تکیہ کیے ہوئے پاکستان  کی طرف ہجرت کر کے آ گئے ہیں اور ایک مکالمے میں چلا چلا کر پوچھ رہے ہیں کہ دودھ کی نہر کہا ہے ۔ جس سے پاکستان جنت نشان مراد لیا جا سکتا ہے۔

تیرہواں باب: جو ایک شامی تاجر کے متعلق ہے

اس باب میں خاص بات یہ ہے کہ اس سیاسی حالات کے پیش نظر ذہن چین کی طرف بھی جاتا ہے، اور اس عہد میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ عرب ممالک اور چین کے معاملات کا تذکرہ بھی اس ناول میں شعوری طور  پر داخل ہوتا معلوم ہوتا ہے۔

چودھواں باب:جو آخری   ہے، زیادہ تر جہازوں اور نیلے پانیوں کے بارے میں

اس باب میں کچھ خاص نہیں علاوہ اس کے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ناول کس تاریخ میں اختتام کو پہنچا ہے۔ 20 دسمبر 2022۔

ضمیمہ بھی غیر دلچسپ اطلاعات سے پر ہے جس کا عنوان ہے ماضنین کے متعلق جغرافیائی اور دوسری معلومات۔ جن میں حدودِ اربعہ، صنعت و حرفت،زبان  اور رسم الخط، محل وقوع، پریس، مسٹر پوپو کی دوسری تصنایف اورچند پریس کی رائیں  کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

حوالے:

1۔ ص:204،  ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

2۔ ص:206، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

3۔ ص:210، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

4۔ ص:209، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

5۔ ص:21ٍ1، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

6۔ ص:212، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

7۔ ص:212، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

8۔ ص:214، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

9۔ ص:214، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

10۔ ص:218، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

11۔ ص:218، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

12۔ ص:219، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

13۔ ص: 227، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

14۔ ص:229، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

15۔ ص:222، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

16۔ ص:225، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

17۔ ص: 226، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

18۔ ص: 238، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

19۔ ص:262، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

20۔ ص: 261، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

21۔ ص:262، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

22۔ ص: 264، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

23۔ ص270، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

24۔ ص: 283، ناول: بیس سو گیارہ،مصنف: محمد خالد اختر، مطبوعہ: اوکسفرڈ یونیور سٹی پریس ، پاکستان،2011۔

***

Leave a Reply