ڈاکٹر مہیمنہ خاتون
لداخ یونیورسٹی,کارگل
بے وفا رشتے
پردیس میں زندگی بھی پردیسی ہو جاتی ہے اپنوں کی کمی اور ان کی یادیں سیلاب کی طرح امڈی چلی آتی ہیں ۔ روزگار کی تلاش انسان کو کہاں کہاں نہیں لے جاتی۔ زندگی کو بہتر اور خوب صورت بنانے کی تمنا میں مدتوں اپنوں کے قہقہے اور خوش الحانیاں سنائی نہیں دیتیں ۔ نتیجتاً سمندر کی گہرائی کی طرح دوریاں خلیج بنتی چلی جاتی ہیں اور انسان روبوٹ یا پیسہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتا ہے۔
ماسٹر ذاکر پچھلے پندرہ سالوں سے اس تنہائی کو جھیل رہے تھے ۔ وہ اڑیسہ کے ایک پوسٹ آفس میں بطور پوسٹ ماسٹر تعینات تھے ۔ وہ صرف پچیس سال کے تھے جب بہار سے اڑیسہ آئے تھے۔ یہاں انہیں سرکاری کواٹر مل گیا تھا جہاں ایک خانسامہ ان کا خیال رکھتا تھا ۔ وہ لگ بھگ تین سال ان کے یہاں رہا ہوگا کہ اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا اور وہ نوکری چھوڑ کر اپنے گھر لکھنؤ چلا گیا ۔ اس کے جانے کے بعد دو-دو ، چار-چار مہینوں کے لیے کسی نوکر کا بندو بست ہوتا اور پھر ماسٹر صاحب یونہی اکیلے بے مزہ زندگی کا بوجھ ڈھوتے رہتے ۔ ان کے ماں باپ ، بھائی بہن گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں صرف ماسٹر صاحب کی تنخواہ سے مطلب تھا ۔ انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ان کا بیٹا اور بھائی کس حال میں ہے؟ کیا کرتا ہے؟ کیسے رہتا ہے؟ شادی کب کرے گا؟ ماسٹر صاحب کی پختہ ہوتی عمر نے انہیں رشتوں کی حقیقت سے واقف کرایا اور محض چالیس سال کی عمر میں ہی ان پر بڑھاپے کے گہرے اثرات نظر آنے لگے۔
آج صبح سے ہی انہیں کچھ گرانی محسوس ہو رہی تھی اس لیے وہ پوسٹ آفس نہیں گئے۔ باہر بارش بھی ہو رہی تھی ۔ ایسے وقت میں انہیں کسی سہارے کی ، کسی اپنے کی کمی شدت سے محسوس ہوا کرتی تھی۔ وہ یونہی آرام کرسی پر بیٹھے تھے کہ کسی نے دروازے پر دستک دی ۔ پاس رکھی چپل میں پیر ڈالتے ہوئے وہ کھڑے ہوئے اوردروازے کی طرف بڑھے ۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک 20-21 سال کی لڑکی بارش میںبھیگی ہوئی کھڑی تھی ۔ ماسٹر صاحب نے پوچھا : کیا ہے؟ لڑکی بولی: صاحب کام چاہیے۔ گلی کے نکڑ پر جو ٹیلر ماسٹر ہے اس نے بتایا کہ آپ کو گھر کا کام کرنے والی کی ضرورت ہے ۔ ماسٹر صاحب دروازے سے ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور اسے اندر آنے کی جگہ دی ۔ وہ اندر آتے ہوئے بولی: دو تین دن سے آنا چاہ رہی تھی مگر میری ایک بوڑھی اور بیمار ماں ہے جس کی طبیعت پچھلے کچھ دنوں سے زیادہ خراب ہو رہی ہے جس کی وجہ سے میں نہیں آ سکی ۔ آج جب گھر سے نکلی تھی تو بارش رک چکی تھی مگر آدھے راستے میں ہی پہنچ پائی تھی کہ ایک دم تیز ہو گئی۔ اب آپ بتائیے مجھے کیا کرنا ہے؟
ماسٹر صاحب نے اسے تولیہ دیا اور الماری سے اپنے کپڑے نکال کر دیتے ہوئے بولے : باتھ روم ادھر ہے تم کپڑے بدل لو۔
کپڑے بدل کر وہ باہر آئی تو انہوں نے کچن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا:دو کپ چائے بنا لاؤ۔ وہ چائے بنا کر لے آئی ۔ چائے لے کر کرسی پر بیٹھتے ہوئے ماسٹر صاحب بولے : تم بھی چائے پی لو اور سنو تمہیں کھانا بنانا ہے، کپڑے دھونے ہی اور گھر کی صفائی کرنی ہے جس کے عوض میں تمہیں دو ہزار روپے ماہانہ دیا کروں گا ۔ آج میری طبیعت کچھ خراب ہے اس لیے تم کچھ ہلکا پھلکا کھانا بنا سکتی ہو ۔ اس نے جلدی سے ماسٹر صاحب کے لیے ٹماٹر سوپ بنایا اور ٹرے میں رکھ کر لے آئی۔ کام کا یہ طریقہ انہیں بہت پسند آیا ۔ انہوں نے پوچھا:
تمہارا نام کیا ہے؟
نیلوفر
کہاں رہتی ہو؟
یہیں سامنے سورج کنڈ گاؤں میں اپنی بوڑھی بیمار ماں کے ساتھ رہتی ہوں ۔ میں نے آٹھویں کلاس تک پڑھائی کی ہے ۔ اس وقت میرے ابّا زندہ تھے اور پھل بیچ کر گھر کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے تھے ۔ اچانک ایک دن ان کے ٹھیلے کو ایک ٹرک نے ٹکّر مار دی ۔ ابّا بھی منہ کے بل زمین پر گرے ان کے سر میں گہری چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے موقع پر ہی دم توڑ دیا ۔ میری تعلیم ادھوری رہ گئی ۔ اس کے بعد ماں نے گھر گھر کام کرنا شروع کر دیا میں بھی ان کے ساتھ ساتھ جایا کرتی ۔ ابھی پچھلے ایک سال سے ماں کو ٹی بی (تپ دق) ہو گئی ہے پھر میں نے اکیلے ہی کام پر جانا شروع کر دیا ۔ گلی کے نکڑ پر جو ٹیلر ماسٹر ہے اس نے بتایا تھا کہ آپ کو ایک کام والی کی ضرورت ہے سو میں یہاں چلی آئی۔
نیلوفر نے ایک ہی سانس میں اپنی مختصر درد انگیز کہانی ماسٹر صاحب کو سنائی ۔ انہوں نے اسے بھر پور نظروں سے دیکھا
اور پوچھا:
اور کتنی جگہ کام کرتی ہو؟
آج کل کہیں نہیں جاتی کیونکہ ماں کی طبیعت خراب ہے لیکن دوا علاج کے لیے زیادہ روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں ہمارا کوئی رشتہ دار بھی نہیں ہے اس لیے دو تین مہینوں بعد گھر سے کام کی تلاش میں نکلی ہوں ۔ ماسٹر صاحب نے چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھتے ہوئے’’ہوں‘‘ کیا اور بولے:
تم ایمان داری سے گھر کا کام کرو ، مجھے کسی قسم کی شکایت نہیں ملنی چاہیئے۔
نیلوفر خوش ہوکر بولی: جی صاحب میں دھیان رکھوں گی۔
ماسٹر صاحب نے الماری سے ایک کتاب نکالی اور پڑھنے بیٹھ گئے اور نیلوفر بکھرا سامان سمیٹنے لگی۔ صفائی کے بعد اس نے کچن میں دیکھا کہ وہاں صرف آلو اور ٹماٹر رکھے ہیں ۔ اس نے آلو کی سبزی اور روٹی بنائی اور ماسٹر صاحب کے پاس آکر بولی:
صاحب کھانا تیار ہے اور صفائی بھی ہو گئی ہے تو اب میںچلتی ہوں کل پھر آؤں گی۔ السلام علیکم۔
کتاب پڑھنے میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا جب اذان کی آوازآئی تو انہوں نے ٹائم دیکھا شام کے ساڑھے چار بج رہے تھے اور عصر کا وقت ہو گیا تھا ۔ انہوں نے کتاب ایک طرف رکھی ۔ اب انہیں کچھ بھوک محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ کچن میں گئے اور گیس جلا کر کھانا گرم کیا بہت دنوں بعد انہیں گھر کے کھانے کا مزہ آیا تھا انہوں نے مزہ لے کر کھانا کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ اس وقت تک ان کی طبیعت کچھ بحال ہو چکی تھی اس لیے وہ مسجد کی طرف چل دیے۔ واپسی پر انہوں نے کچھ ضروریات کی چیزیں خریدیں اور گھر آگئے۔
دوسرے دن جب وہ بیدار ہوئے تو سورج نکل آیا تھا انہوں نے چائے بنائی اور بریڈ ٹوسٹر میں ڈالے ۔ سامنے ہی مکس فروٹ جیم پڑا تھا جو وہ کل خرید کر لائے تھے ، انہوں نے جیم بریڈ پر لگایا اور ناشتہ کرنے بیٹھ گئے۔ پھر وہ تیار ہوئے ابھی وہ پوسٹ آفس جانے ہی والے تھے کہ نیلوفر آگئی۔ سلام کے بعد وہ اندر آئی تو ماسٹر صاحب نے اس سے کہا: صفائی ، کپڑے اور کھانا بنا کر تم چلی جانا ۔ یہ چابی تم اپنے پاس رکھ لو میرے پاس ایک اور چابی ہے ۔ گھر کا خیال رکھنا اور ہا ںسنو ! تم کھانا بہت اچھا بناتی ہو ۔ نیلوفر نے شرما کر سر جھکا لیا اور خوشی خوشی کام میں جٹ گئی۔
محض دو گھنٹوں میں اس نے گھر کی صفائی ، کپڑوں کی دھلائی اور کھانا تیار کر دیا۔ اس نے سوچا کیوں نا ماسٹر صاحب کا کھانا ان کے آفس میں دیتی ہوئی گھرچلی جاؤں۔ یہ سوچ کر اس نے ٹفن میں کھانا رکھا ۔ آج اس نے مکس ویج بنایا تھا جس کی مہک نے پورے گھر کو مہکا دیا تھا۔ وہ تیزی سے پوسٹ آفس پہنچی اور ماسٹر صاحب کو کھانا دیتے ہوئے بولی: اب میں روز آپ کا کھانا یہاں لے کر آجایا کروں گی ، آپ کو خرید کر کھانا کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
ماسٹر صاحب نے اس سے کہا: تم نے کیوں تکلیف کی میں خود گھر جاکر کھانا کھا لیتا۔
اس نے کہا صاحب:اس میں تکلیف کی کیا بات ہے میں کہیں اور کام کرنے تو جاتی نہیں ۔ اب کھانا بن گیا اور وقت بھی کافی رہا تو میں نے سوچا آپ کیوں پریشان ہوں میں ہی دے آتی ہوں ۔ اب میں اپنے گھر جا رہی ہوں میری ماں راستہ دیکھ رہی ہوگی۔ اکیلی ہے اس لیے میری فکر کرتی رہتی ہے۔اچھا میں چلتی ہوں ۔ میں نے دونوں ٹائم کا کھانا بنا دیا ہے اب میں کل آؤں گی۔
ماسٹر صاحب اسے جاتے ہوئے دیکھتے رہے۔ وہ ایک خوش شکل اور خوش سلیقہ لڑکی تھی۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتی تھی اور اچھی باتیں کرتی تھی ۔ ماسٹر صاحب نے اٹھ کر ٹفن اوون میں رکھ دیا ۔ لنچ بریک میں انہوں نے کھانا نکالا تو اس کی خوشبو نے ان کی بھوک بڑھا دی ۔ نیلوفر بہت اچھا کھانا بناتی تھی وہ بہت خوش ہوئے اورخدا کا شکر ادا کرنے لگے۔
دن گزرتے رہے ، نیلوفر کو ان کے یہاں کام کرتے ہوئے چھ مہینے ہوگئے ۔ اس دوران اس نے ماسٹر صاحب کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیا۔ماسٹر صاحب بھی اس کی باتوں سے محظوظ ہونے لگے تھے اور اس پر بھروسہ بھی کرنے لگے تھے۔
انہیں پڑھنے کا کافی حد تک شوق تھا اس لیے اکثر کتابوں میں غرق رہتے۔ ان کا مطالعہ سوانحی کتابوں پر محیط تھا ۔ افراد کی زندگیاں پڑھ کر وہ اپنی زندگی کے بارے میں سوچا کرتے ۔ انہیں اب کمر کے ٹیڑھا ہونے کا احساس ہونے لگا تھا اور ایک سہارے کی شدت سے کمی محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ اپنے آبائی گھر جاتے رہتے تھے مگر پچھلے پانچ سالوں سے انہوں نے گھر جانا بہت ہی کم کر دیا تھا ۔ گھر میں تھا ہی کون جو ان کا انتظار کرتا یا انہیں بار بار آنے کے لیے کہتا۔ رشتے صرف نام کے تھے۔ والدین بوڑھے ہو چکے تھے، انہیں اپنے دوا علاج کے لیے پیسوں کی ضرورت رہا کرتی جس کے لیے وہ ماسٹر صاحب کو خط لکھا کرتے یا فون کر دیتے ۔ اس لیے انہوں نے گھر والوں سے اب صرف پیسے کا ہی رشتہ رکھا تھا وہ باقاعدگی سے انہیں پیسے بھیجتے رہتے۔
جب تک ان کا وفادار خانسامہ رہا وہ گھر کی طرف سے مطمئن تھے ۔ کھانا وقت پر ہو جاتا تھا ۔ بیمار ہو جانے پر خانسامہ ان کا خیال بھی رکھتا تھا مگر اس کے جانے کے بعد آنے والے نوکر وقتی کام سرسری طور پر انجام دیتے اس لیے انہوں نے بھی اپنی صحت اور غذا پردھیان دینا چھوڑ دیا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ سفیدی ان کے سر چڑھ کر بول رہی تھی۔نیلوفر کے آنے کے بعد ان کی لائف کچھ بدل سی گئی تھی۔نیلوفر ان کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی نہایت قرینے سے سجا کر اور سنبھال کر رکھتی ان کی ضروریات کا ہر سامان ان کے سامنے پیش کر دیتی ۔ اب وہ صبح، دوپہر اور شام تینوں وقت ان کے گھر آنے لگی تھی اور پوری طرح ان کا خیال رکھنے لگی تھی۔ ماسٹر صاحب بھی اس کے عادی ہو چلے تھے۔ایک دن پوسٹ آفس سے لوٹتے وقت ایک کار نے پیچھے سے ان کو ٹکر مار دی ، انہیں سخت چوٹ آئی۔سر سے خون بہنے لگا اور پیر میں بھی موچ آگئی۔ ڈاکٹر نے اس پر کچا پلاسٹر باندھ دیا اور انہیں پندرہ دن مکمل آرام کرنے کے لیے کہا۔ نیلوفر انہیں دیکھ کر زار و قطار رونے لگی ۔ اس سے قبل اس کے والد کے ساتھ بھی یہی حادثہ پیش آ چکا تھا ۔ اس نے نہایت تن دہی سے ماسٹر صاحب کی خدمت کی ، ان کی ضروریات کی ہر چیز ان کے بستر پر پہنچا دی ۔ یہاں تک کہ حاجتِ ضروریہ کے لیے بھی انہیں خود پکڑ کر لے جاتی ماسٹر صاحب شرمندہ ہوتے رہ جاتے۔ انہوں نے کہا:
نیلوفر تم میرا اتنا خیال نہ رکھا کرو ۔ تم یہاں چند دنوں کے لیے ہو پھر چلی جاؤگی، تمہاری ماں بھی بیمار ہیں تمہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے ۔ اگر تم اتنی محنت کروگی تو خود بیمار ہو جاؤگی ۔نیلوفر نے آہستگی سے دور خلا میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا:
صاحب !ماں کی اور آپ کی خدمت کر کے مجھے بڑا سکون ملتا ہے۔میں آپ کی تنہائی کو سمجھ سکتی ہوں ۔ آپ کو بھی اپنی تنہائی دور کرنے کا حق ہے ، آپ شادی کیوں نہیں کر لیتے، گھر میں رونق ہو جائے گی ، بچے کھیلیں گے ، آپ کو بھی اچھا لگے گا۔
اب میرے اندر شادی کی تمنا نہیں رہی مجھے رشتوں کے نام سے ڈر لگتا ہے۔ میں نے خونی رشتوں کو بدلتے دیکھا ہے اور شادی تو ایک انجان انسان سے کی جاتی ہے۔ میں رشتوں کے نام پر اور زیادہ ٹوٹ کر بکھرنا نہیں چاہتا دوسرے لفظوں میں میں اپنی اور دوسرے کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتا۔یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں نمی آگئی جسے انہوں نے بڑی آسانی سے کھڑکی کی طرف منہ کر کے چھپا لیا پھر نیلوفر سے کہا:
ذرا ایک چائے بنا دو اور اپنے لیے بھی بنا لینا۔
نیلوفر نے ماسٹر صاحب کی خدمت میں کوئی کمی نہیں رکھی ۔ ماسٹر صاحب اس کی خدمت اور قربانی سے بڑے متاثر ہوئے۔ایک رات وہ یونہی جاگتے رہے، نیلوفر ان کے حواسوں پر بری طرح چھاتی جا رہی تھی۔ وہ سوچنے لگے یہ تو ابھی کم عمر ہے اسے مجھ سے اچھا اور قابل لڑکا مل سکتا ہے ۔ وہ جوان ہے، خوب صورت ہے ، سمجھ دار ہے، وفادار ہے جانثار ہے ، کوئی بھی آدمی اسے پا کر خود کو خوش قسمت سمجھے گا ۔ مجھے اس کو اپنی زندگی میں لانے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے بلکہ اس کی قربانیوں کے صلے میں اسے ایک اچھا جیون گزارنے کی دعا دینی چاہیے ، میں تو اس کے لیے بزرگ کی حیثیت رکھتا ہوں ۔ نہیں —نہیں ۔۔۔ میں اب اسے اور یہاں نہیں روک سکتا ، میں اسے یہاں سے جانے کے لیے کہہ دوں گا ۔ وہ رات بھر اسی ادھیڑ بن میں رہے پھر نا جانے کس لمحے ان کی آنکھ لگ گئی۔
آج اتوار تھا اور پوسٹ آفس بند تھا ۔ صبح ان کی آنکھ دروازہ کھڑ کھڑانے کی آواز سے کھلی ۔ انہوں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو نیلوفر سلام کرتی ہوئی اندر آ گئی اور بولی:
صاحب آپ نہا دھو لیجیے میں آپ کے لیے ناشتہ تیار کرتی ہوں ۔ وہ بغیر کچھ بولے باتھ روم کی طرف بڑھ گئے تو نیلوفر
نے فورا ان کے کپڑے نکال دیے جو اس نے پہلے ہی استری کر کے الماری میں ٹانگ دیے تھے ۔وہ باہر نکلے تو بیڈ پر کپڑے رکھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی کریم اور سینٹ بھی رکھا تھا۔ انہوں نے کپڑے بدلے، منہ پر کریم لگائی اور ابھی سینٹ لگا ہی رہے تھے کہ نیلوفر آلو پراٹھے اور انڈے کا خاگینہ لیے حاضر ہو گئی۔ اس نے میز پر ناشتہ لگا یا اور چائے لانے چلی گئی۔ اس کے ہاتھوں میں بڑی لذت تھی۔ ماسٹر صاحب اسے کبھی نا آنے کی بات کہنے کی ہمت نہ جٹا پائے۔ انہوں نے پوچھا:
تمہاری ماں کیسی ہیں؟
اب بہتر ہیں ۔ ان کا علاج بھی ٹھیک ہو رہا ہے اور دوائیں بھی فائدہ کر رہی ہیں ۔ بس کمزوری ہے جو نا جانے کب دور ہو گی ۔ وہ کھانے پینے پر زیادہ دھیان نہیں دیتیں ، نہ نہ کرتی رہتی ہیں ، زبردستی انہیں کھلانا پڑتا ہے۔
وہ ایک ہی سانس میں بولتی رہی۔ صاحب آپ کی بھی مجھے بڑی فکر رہتی ہے۔ آپ بھی اپنا خیال رکھیے۔ جان ہے تو جہان ہے ۔ آپ کو میں اپنا مانتی ہوں ، آپ کی عزت کرتی ہوں ، آپ یہاں سے کہیں نا جائیے گا۔
پتہ نہیں نیلوفر یہ بات بے دھیانی میں کہہ گئی یا وہ سچ مچ ایسا کہنا چاہتی تھی۔ماسٹر صاحب سمجھ نہیں سکے اور ناشتہ کر کے باہر چلے گئے۔یونہی بے وجہ سڑکوں پر گھومتے ہوئے نیلوفر کی آواز ان کے کانوں میں باز گشت کرنے لگی۔’’صاحب !آپ کو میں اپنا مانتی ہوں ، آپ کی عزت کرتی ہوں ، آپ یہاں سے کہیں نا جائیے گا۔وہ کیا کہنا یا جتانا چاہتی تھی؟ اس کے دل میں کیا ہے ؟ اپنا ماننے سے اس کی کیا مراد ہے؟ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے ؟کیا وہ مجھے اپنے والد کی جگہ دیکھتی ہے ؟ مگر ۔۔۔پھر کیوں اس کی آنکھوں میں مجھے بزرگوں والا احترام نظر نہیں آیا ، نا ہی اس نے مجھے چاچا ، انکل یا بابا کہنے کی کوشش کی ۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت زیادہ چھوٹی ہے۔وہ مجھے صرف بڑا مانتی ہے اور کچھ نہیں ۔ یہ صرف میرا وہم ہے۔ انہی سوالات و جوابات کے بیچ گھرے وہ گھر سے بہت دور نکل آئے۔
جب وہ گھر لوٹے تو شام کے چار بجے تھے اور نیلوفر ٹیبل پر کھانا لگائے ان کا انتظار کر رہی تھی ۔ انہوں نے قدرے تلخی سے کہا :
میرا انتظار تم کیوں کر رہی تھیں جاؤ اپنے گھر جاؤ ۔ میں خود کھانا کھا لوں گا ۔ میں بچہ نہیں ہوں۔
کوئی بات نہیں صاحب میں ماں کو کھانا اور دوا کھلا کر دوبارہ آ گئی ہوں ۔ واپس آ کر دیکھتی ہوں تو آپ ابھی تک نہیں لوٹے تھے ۔میں بس ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئی ہوں ۔ آپ فکر نا کریں ۔ میں ابھی دوبارہ کھانا گرم کرتی ہوں ۔آپ منہ ہاتھ دھو لیجیے۔ نیلوفر نے ٹیبل پر سے ڈش اٹھاتے ہوئے کہا۔
ماسٹر صاحب چپ چاپ باتھ روم کی طرف بڑھ گئے ۔ نیلوفر کے اپنے پن نے انہیں گونگا کر دیا تھا ۔ کھانا کھا کر وہ بستر پر لیٹ گئے تو نیلوفر نے دوڑ کر انہیں چادر اڑھا دی اور کمرے کی لائٹ بند کر کے برتن دھونے چلی گئی۔وہ اس کی بے لوث خدمت سے عاجز ہوتے جا رہے تھے۔ وہ ان سے عمر میں کافی چھوٹی تھی۔ وہ اس کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں ے تہیہ کیا کہ وہ نیلوفر سے جانے کے لیے شاید نا کہہ پائیں اس لیے وہ خود ہی یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے ۔ یہ سوچتے سوچتے ان کی آنکھ لگ گئی۔ جب وہ اٹھے تو سات بج رہے تھے اور نیلوفر رات کا کھانا بنا رہی تھی ۔ آج اس نے چکن قورمہ بنایا تھا جس کی خوشبو نے پورے گھر کو معطر کر رکھا تھا۔ ماسٹر صاحب کے اٹھنے کی آہٹ پاکر وہ دوڑی آئی اور لائٹ آن کر کے بولی:
آپ اٹھ گئے میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں ۔ آج آپ کافی تھک گئے ہیں اگر آپ کہیں تو آپ کا سر دبا دوں۔
انہوں نے کہا: نہیں ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔ چائے کی ضرورت نہیں ہے تم گھر چلی جاؤ ، تمہاری ماں انتظار کر رہی ہوگی ۔ میں کھانا کھا لوں گا۔
نیلوفر نے کہا : ٹھیک ہے میں کھانا لگا دیتی ہوں آپ کھا لیجیے گا۔
وہ چلی گئی تو ماسٹر صاحب ٹی وی کے سامنے بیٹھ گئے ۔ چائے پینے کا دل تو ان کا چاہ رہا تھا مگر وہ نیلوفر کو یہاں سے بھیج دینا چاہتے تھے ۔ لہذا وہ خود اٹھے اور چائے بنا لائے۔ مدتوں بعد اپنے ہاتھ سے چائے بنائی تھی جو انہیں بالکل اچھی نہیں لگی ۔ انہوں نے دو گھونٹ چائے پی کر کپ ٹیبل پر رکھ دیا اور خبریں دیکھنے لگے۔ وہ کل نیلوفر سے بات کریں گے یا تو وہ یہاں سے جائے گی یا وہ خود چلے جائیں گے۔
صبح نیلوفر آئی تو وہ گھر ہی میں تھے ۔ آج وہ پوسٹ آفس نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ اس سے حتمی بات کرنا چاہتے تھے۔
نیلوفر
جی صاحب
تم ایک اچھی لڑکی ہو، سمجھ دار ہو شریف ہو۔ تم نے میری بہت خدمت کی ہے ، میں اس کا بدلہ تو نہیں دے سکتا مگر میں دعا کرتا ہوں کہ تمہیں ایک اچھی اور کامیاب زندگی ملے۔ میں چاہتا ہوں تم اب یہاں آنا چھوڑ دو ۔ انہوں نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے آہستگی سے کہا تو نیلوفر جھاڑو دیتے دیتے رک گئی اور بولی:
کیوں صاحب ! کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی؟ کیا میری کوئی بات آپ کو بری لگی؟ کیا میری وجہ سے آپ کو کوئی نقصان ہوا ہے ؟ مجھے معاف کر دیجیے اگر مجھ سے کوئی بھول ہوئی ہو ۔ سچ مانیے صاحب ۔ میں آپ کو اپنا مانتی ہوں ۔ میں بچپن سے گھروں میں کام کرتی آئی ہوں مگر میں نے آپ جیسا شریف النفس انسان آج تک نہیں دیکھا ۔ آپ خدا کے لیے مجھے یہاں سے جانے کو نا کہیں۔ میں کبھی کوئی اظہار یا مطالبہ نہیں کروں گی ۔ آپ مجھے اپنے سے جدا نا کریں صاحب ۔ وہ روتے ہوئے بے اختیار ان کے قدموں میں گر گئی۔
ماسٹر صاحب اس جواب کی توقع نہیں کرتے تھے وہ بے چین ہو گئے۔ان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں کیا نا کریں۔ وہ اسے اسی حالت میں چھوڑ کر باہر چلے گئے۔ عصر کے وقت لوٹے تو نیلوفر گھر میں نہیں تھی۔انہوں نے اپنا سامان لپیٹا اور ایک خط چھوڑ کر اسٹیشن کی طرف بڑھ گئے۔ انہوں نے لکھا تھا:
پیاری نیلوفر! میں تمہاری ا ور تمہارے جذبوں کی قدر کرتا ہوں ۔ کاش میں تمہیں اپنا جیون ساتھی بنا سکتا ۔ تم جیسی اچھی لڑکی پا کر کوئی بھی خود کو خوش نصیب سمجھے گا مگر میں کیا کروں ۔ میری اور تمہاری عمر میں بہت فرق ہے ۔ میں خود کو تمہارے لائق نہیں سمجھتا ، تمہارے ابھی ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں اور میں زندگی کی رنگینیوں، شوخیوں سے بہت دور نکل آیا ہوں۔ دوسرے مجھے رشتوں سے بڑا ڈر لگتا ہے ۔ تم نہیں جانتیں میں نے رشتوں کے نام پر کتنے درد اٹھائے ہیں ۔ میں اب کوئی نیا رشتہ اور نیا درد نہیں اٹھانا چاہتا ۔ میں برداشت نہیں کر پاؤں گا اور ٹوٹ کر بکھر جاؤں گا یا مر جاؤں گا۔ اس لیے میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں ہی یہاں سے تمہاری دنیا سے دور چلا جاؤں ۔ میری کل کمائی میں تمہارے نام کیے جا رہا ہوں ۔ تم اچھی جگہ شادی کر کے گھر بسا لو اور مجھے بھول جاؤ۔ خدا حافظ
شام کو نیلوفر گھر آئی تو ٹیبل پر لیٹر پاکر پڑھنے لگی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے۔ وہ بہت دیر تک روتی رہی ۔
ماسٹر صاحب اسٹیشن پہنچ چکے تھے ، ٹرین آنے والی تھی اور ان کا دل و دماغ پریشان تھا ، وہ سوچ رہے تھے کہ آیا انہوں نے صحیح کیا یا غلط؟ کیا وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں مار رہے ہیں ؟ زندگی انہیں آواز دے رہی ہے ، خوشیاں انہیں بلا رہی ہیں اور وہ بھاگ رہے ہیں؟ وہ اتنے ظالم تو کبھی نا تھے؟ وہ کیوں اس لڑکی کو تکلیف دے رہے ہیں جو ان پر جان نثار کرتی ہے، جو ان کی عزت کرتی ہے ، جو انہیں اپنا مانتی ہے۔ نہیں ۔۔۔ نہیں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے ، مجھے جانا چاہیے، مجھے نیلوفر کے پاس جانا چاہیے۔
خود بخود ان کے قدم گھر کی طرف بڑھنے لگے ، وہ اب تیزی سے گھر پہنچنا چاہتے تھے۔وہ زندگی کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات گہری ہو گئی تھی۔ خلافِ توقع دروازہ کھلا تھا اور گھر میں اندھیرا تھا۔ انہوں نے آواز دی : نیلوفر۔۔۔ نیلوفر ۔ مگر کوئی جواب نہ پاکر وہ پریشان ہوگئے۔لائٹ جلائی تو دیکھا کہ بیڈ پر نیلوفر بے جان پڑی تھی ۔ اس نے اپنی شہ رگ کاٹ لی تھی اور اس کے پاس کاغذ کا پرزہ پڑا تھا جس پر لکھا تھا :
صاحب مجھے روپیہ پیسہ نہیں آپ چاہیے تھے ۔ میں صرف آپ کو چاہتی ہوں اور چاہتی رہوں گی۔بد نصیب نیلوفر۔
ماسٹر ذاکر سُن ہو گئے۔ارے یہ کیا ہو گیا۔ زندگی نے انہیں یہ کون سا زخم دے دیا ۔ لمحوں میں پوری دنیا ہی اجڑ گئی۔ اٹھو۔۔۔ اٹھو نیلوفر اٹھو! میں بھی تمہیں چاہتا ہوں ۔۔۔ اٹھو میری جان اٹھو! مجھے معاف کر دو ، میں بھی تمہیں چاہتا ہوں ۔۔۔۔ میں بھی تمہیں چاہتا ہوں ۔ کہتے کہتے ان کی سانس بھی رک گئی اور وہ وہیں نیلوفر کے قدموں میں گر گئے۔
واقعی ماسٹر صاحب صحیح کہتے تھے کہ اب وہ کوئی اور صدمہ نہیں جھیل پائیں گے اور مر جائیں گے۔
***