You are currently viewing بے وفا

بے وفا

شمیمہ صدیق شمیؔ    

 شوپیان جموں وکشمیر

بے وفا

گھر میں داخل ہونے سے پہلے اُس نے اپنا حلیہ ٹھیک کرلیا تھا ،ظاہری طور پر تو اُسے کوئی زخم نہیں آیا تھا مگر اُسکے دل کے اتنے ٹکڑے ہوئے تھے کہ کرچیاں سنبھالے نہیں سنبھل رہیں تھیں ۔اپنی بھیگی آنکھیں صاف کر ،لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے وہ گھر میں داخل ہوئی

“بیٹا آگئی تم واپس “؟

“جی دادی “مختصر سا جواب دے کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی ،کچھ گھنٹے کمرے میں بند رہ کر بےتحاشہ آنسو بہاتی رہی پھر جب دادی نے بلایا تو مصنوعی مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل آئی مگر آنکھیں رونے کی صاف چغلی کھا رہیں تھیں ۔

“یہ تمہاری آنکھوں کو کیا ہوا ،کیا تم رو رہی تھی؟ “دادی پریشانی سے بولی

“نن نہیں تو دادی “وہ اپنے آنسوؤں کو اندر دھکیلتے ہوئے بولی ،آنسو پلکوں کی باڑھ پھلانگنے کی کوشش کررہے تھے اور گلا رندھ سا گیا تھا ۔

“اچھا !اب تم اپنی دادی سے باتیں بھی چُھپانے لگی ہو، کیوں ؟ میں جانتی ہوں تم واپس آکر کمرے میں پڑے پڑے بہت دیر تک روتی رہی ہو “دادی نےاُس کے قریب آکر اُس کے گالوں پر لڑھکتے نمکین قطرے اپنی پوروں پر چُنے اور اس کی بھیگی پلکیں چوم لیں ،وہ دادی سے لپٹ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔دادی نے رونے کی وجہ پوچھی تو وہ اصل حقیقت چُھپا کر صرف اتنا بولی “کچھ نہیں دادی بس امی یاد آگئی تھی تو رونا آگیا “

رابعہ بہت ہی خوبصورت ،سلیقہ مند اور ذہین لڑکی تھی ،بچپن میں ہی ماں کے سائے سے محروم ہوگئی تھی ،باپ اور دادی نے بھرپور محبت اور توجہ سے پرورش کی تھی ، باپ کی بھرپور توجہ نے شخصیت میں خوب اعتماد پیدا کیا تھا ۔کالج میں بھی وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے جلد ہی لڑکیوں میں مقبول ہوگئی تھی ،اپنے نرم لہجے سے اُس نےسب کے دل جیت لیے تھے ،اس کی جماعت میں ارشد نامی ایک لڑکا بھی بڑا ذہین تھا وہ اکثر مختلف موضوعات پر رابعہ سے بحث ومو باحثہ کرتا رہتا تھا ،کچھ دِنوں سے اِن دونوں کی باتیں کچھ زیادہ ہی طویل ہوگئیں تھیں جو کہ جماعت کے باقی لڑکے لڑکیوں نے بھی محسوس کی تھیں۔اب لڑکیاں انہیں دیکھ دیکھ کر سرگوشیاں کرتیں ،یہ دونوں اب اکثر ساتھ ساتھ نظر آتے ۔باتوں ہی باتوں میں ان کی دوستی ہوگئی اور پتہ بھی نہ چلا کہ دوستی کب پیار میں بدل گئی اور وہ دونوں ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھانے لگے ۔کالج کی پڑھائی ختم کرکے کچھ اِن کے ساتھی گھر بیٹھ گئے اور چند نے آگے بھی اپنی پڑھائی جاری رکھی ۔رابعہ مذید آگے نہ پڑھ سکی کیونکہ دادی اب بہت بوڑھی ہوچکی تھی اور اب گھر سنبھالنے میں دادی کو مشکل ہورہی تھی اِس لئے وہ گھر میں رہنے لگی تاکہ دادی کو کوئی تکلیف نہ ہو ۔وہ ارشد سے رابطے میں تھی ،اور وقت گزرنے لگا ،پہلےجو طویل باتیں ہوا کرتی تھیں اب مختصر ہوکر رہ گئیں تھیں ۔

“اچھا !اب تم کب بھیج رہے ہو اپنے والدین کو ہمارے یہاں؟ “پچھلے ایک سال سے وہ برابر یہی ایک سوال کررہی تھی ۔

“کہا نا جیسے ہی کوئی مناسب موقعہ ملے گا گھر والوں سے بات کرونگا “اُس کے لہجے میں کچھ تلخی سی آگئی تھی ۔پچھلےچند دنوں سے رابعہ نے محسوس کیا کہ وہ اب پہلے جیسا ارشد نہیں رہا بہت بدلا بدلا سا لگ رہا تھا اور سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا تھا ۔اب وہ بہت کم بات کرتا اور اگر کبھی رابعہ فون کرلیتی تو ایک دو باتیں غصے سے کرکے فون رکھ دیتا ۔ایک دن وہ بازار سے کچھ ضروریات کی چیزیں خریدنے گئی تو اسے کالج کی ایک سہیلی مل گئی وہ دونوں کالج کی یادوں کو تازہ کرنے لگیں ،باتوں ہی باتوں میں ارشد کا ذکر بھی آگیا اور اس کی سہیلی نے بُرا سا مُنہ بنایا ارشد کے نام پر ۔

“اک بات کہوں رابعہ برا تو نہیں مانو گی نا؟”

“نہیں تو “وہ خوش اخلاقی سے بولی

“دیکھو یہ جو ارشد ہے نا اِس پر اعتبار مت کرنا ،مجھے کچھ یہ لڑکا ٹھیک نہیں لگتا “

رابعہ اپنے من میں آئے ہوئے سوالات سہیلی سے پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ اُسے کوئی فون کال آگئی اور وہ معذرت کرتے ہوئے چلے گئی ۔اسنے بےدلی سے چند چیزیں خریدیں اور گھر واپس آگئی ،اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی ارشد کو فون کیا مگر بار بار فون کرنے پر بھی اُسنے کال نہ لی اور پیام (مسیج )میں لکھا کہ مصروف ہوں کل بات کرونگا ۔اِس کے من میں ارشد کو لےکر اب شک سا ہونے لگا ،جب شک زیادہ بڑھنے لگا تو وہ اُسے بار بار فون کرنے لگی اور آخرکار اُسنے کال لےلی اور غصے سے بولا “کیوں مجھے بار بار تنگ کرتی ہو ؟،میرے پاس تیری فضول باتیں سننے کے لئے وقت نہیں ہے ،اور یہ بار بار فون کرنا بند کردو ،کل پارک میں آجانا

وہیں بات کرتے ہیں “اور فون کٹ کردیا ۔

دوسرے دن وہ گھر سے نکل کر پارک میں پوہنچ گئی اور انتظار کرنے لگی ،وہ آتے جاتے لوگوں کو گھور رہی تھی بہت سارے لوگ ادھر اُدھر ٹہل رہے تھے ،اِسکی نظر ہر آتے جاتے شخص پر پڑ رہی تھی لیکن جس کے انتظار میں وہ گھنٹوں بیٹھی خوار ہوئی وہ ابھی تک نہیں آیا تھا ۔اس کی آنکھوں میں تیرگی سی جھلک رہی تھی ۔بار بار فون کرنے پر بھی ارشد سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا ،اچانک اس کے موبائل کی سکرین جگمگائی تو سکرین پر نگاہ ڈالتے ہی اس کا چہرہ گلاب کی طرح کِھل اُٹھا مگر اگلے ہی لمحے آنسوؤں کی قطار نے رخساروں پر ڈھیرا جمالیا،پیام (مسیج )میں یہ لکھا تھا

“آج کے بعد کبھی بُھول کر بھی مجھے فون یا مسیج نہ کرنا ،میں تم جیسی بدکردار لڑکیوں کو خوب جانتا ہوں ،شادی کرنا تو دور میں تم سے شادی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا اور ہاں سنو مجھے کوئی اور مل گیا ہے اور اب میں کسی اور کا ہم سفر بننے جارہا ہوں “

“ارشد تم یہ سب کیا کہہ رہے ہو ؟ ہم دونوں نے ساتھ جینے اور مرنے کی قسمیں کھائیں تھیں ۔اور تم کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کررہے ہو اور مجھے بدکردار کہہ رہے ہو ؟آخر میرا قصور کیا ہے؟ ” اس نے روتی آنکھوں اور کپکپاتے ہاتھوں سے مسیج ٹائپ کی۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

“دیکھو رابعہ میں کچھ نہیں سُننا چاہتا ۔بس آج کے بعد رابطہ ختم ،کبھی بھول کر مسیج یا فون نہ کرنا ،بھلا تم جیسی لڑکیاں بھی دل کے تخت پر بٹھانے کے قابلِ ہیں؟ زندگی میں شامل کرنے کے قابل ہیں ؟ جو لفظوں کے سحر میں ڈوب کر غیروں سے رابطہ رکھتیں ہیں ؟اور تم جیسی لڑکیوں کا کیا بھروسہ کل کوئی اور میٹھے بول بولے گا تو تم مجھے اس کی خاطر دھوکہ دوگی ‘تم جیسی لڑکیوں کا بھلا کیا اعتبار۔” کس قدر ظالم ،سنگدل ،بےوفا اور بدلحاظ تھا وہ شخص۔ارشد نے جس انداز میں اس کی توہین کی تھی اس پر اس کا پورا وجود ماتم کناں تھا ۔

“سچ کہتی تھی دادی کہ بیٹا یہ دنیا جتنی سیدھی نظر آتی ہے نا اتنی ہے نہیں ،بیٹیوں کو کبھی بھی کسی کے لفظوں کےسحر میں نہیں آنا چاہیے “وہ سوچ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آنسو بھی صاف کررہی تھی ۔

اس ظالم اور بےوفا شخص نے اپنے لہجے سے رویے سے اور اپنی باتوں سے اس کے کردار اور ذات کی دھجیاں بِکھیر کر رکھ دیں تھیں ۔اسے دادی کی نصحیتیں بار بار یاد آرہی تھیں جو دادی اسے گھر سے کالج نکلتے وقت کیا کرتی تھی اور وہ ماتھے پر شکن لاتے ہوئے سنا کرتی تھی ۔اندھا اعتبار جب ایک بااعتماد انسان کو شکست سے دوچار کرتا ہے تو وہ ٹوٹ کر بِکھر جاتا ہے اور وہ بھی بِکھر کر رہ گئی تھی ۔اسے معلوم ہوگیا تھا کہ لفظوں کے سحر میں ڈوب کر انسان کس قدر اذیت سے دوچار ہوتا ہے اور کس قدر کرب کی جاگیریں پھر زیست کا مقدر بن جاتیں ہیں ۔

رابعہ کو اُس کی بےوفائی سے زیادہ دُکھ اس کے زہریلے الفاظوں کا تھا جنہوں نے نہ صرف اس کی کردار کشی کی تھی بلکہ اس کے دل اور روح دونوں کو گھائل کرکے رکھ دیا تھا ۔اسے اپنی ایک سہیلی کی باتیں یاد آرہی تھیں ،جو اکثر کہا کرتی تھی “یہ پیار وار کچھ نہیں ہوتا ،سب وقتی باتیں ہیں ،سب ڈھونگ ہے ،محبت کس پاکیزہ جزبے کا نام ہے بھلا دل پھینک لوگ کیا جانیں ، پاگل ہوتیں ہیں وہ لڑکیاں جو کسی کی تھوڑی سی دل لگی کو بھی محبت سمجھنے لگتیں ہیں ،،وہ اپنی ہی دھن میں کہتی جاتی ۔رابعہ اور باقی سہیلیاں اس کی باتوں کا مذاق اڑاتیں اور کسی حد تک غصہ بھی ہوجاتیں ۔رابعہ کو آج رہ رہ کر اس کی باتیں یاد آرہی تھیں اور آنسو اس کے رخسار بار بار بار بھگو رہے تھے ۔

“جانتی ہو رابعہ اِس دُنیا میں اور آجکل کے وقت میں زیادہ تر تعداد ،بےوفا ،بےغیرت ،بےمروت اور کم ظرف لوگوں کی ہے ۔اور جانتی ہو رابعہ کم ظرف ،بےوفا ،بےمروت اور یہ بےحس لوگ کبھی کسی سے وفا نہیں کرتے ہیں ،وہ اپنے وقتی جزبے کا اظہار کرکے دوسروں کے جزبات و احساسات کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں اور جب جی بھر جاتا ہے تو دوسروں کے کردار پر وار کرکے بے مول کردیتے ہیں ،گہرا زخم دے کر خاموشی کا تحفہ دے جاتے ہیں اور اندھا اعتبار کرنے والوں کے حصے پچھتاوے آتے ہیں ،جو زہریلے ناگ کی طرح ڈھستے رہتے ہیں ،،

دادی کتنے دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ وہ بہت گُم سُم رہنے لگی ہے۔بات کا جواب ہوں ہاں میں دیتی ہے اور لہجہ بھیگا بھیگا سا ہے۔اگرچہ اس نے دادی سے ساری حقیقت چھپا لی تھی مگر دادی زمانہ شناس عورت تھی اور وہ کیسے نہ اس کی حالت دیکھ کر اس کے غم کو جان پاتی ‘اور اس کی حالت سے بےخبر رہتی،اس نےماں اور

دادی دونوں کا پیار دیا تھا اسے

وہ اس کے اندر کا سارا حال پڑھ چکی تھی ،اس لئے پیار سے سمجھانے لگی “دیکھ بیٹا انسانی زندگی میں بہت کچھ برا بھی ہوجاتا ہے ،انسان تکلیف سے دوچار بھی ہوتا ہے مگر میری بیٹی اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ایک ہی دُکھ کو دل سے لگاکر آنسو بہاتے رہیں اور اپنی دنیا اور آخرت برباد کرتے رہیں ،دیکھ بیٹا میں جانتی ہوں ، اپنی بکھری ذات کو سمیٹنا بہت مشکل ہے تیرے لئے مگر ناممکن نہیں ، سب کچھ بھول جا میری بیٹی اور اپنی زندگی سے متعلق آنے والے وقت کے بارے میں سوچ ،،دادی نے اُس کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔

“جی دادی” ، اُس نے دادی کو گلے لگاتے ہوئے کہا اس نے اب نہ صرف دادی کی باتیں سُنی تھیں بلکہ دل میں اُتار بھی لیں تھیں ،اسے دادی پر بہت پیار آرہا تھا کہ کس قدر بنا کہے سب سمجھ جاتی ہیں اور اپنی باتوں سے زخموں پر مرہم رکھتی ہیں ۔اس نے بھی اب دادی کی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ساری باتیں بُھلانے کا ارادہ کرلیا تھا اور دل ہی دل میں ایک نئا فیصلہ کرلیا ۔

***

Leave a Reply