صدف فاطمہ
ریسرچ اسکالر ؛جواہر لال نہرو یونیورسٹی
تار پر چلنے والی : ایک ناقدانہ جائزہ
تار پر چلنے والی مرزا صاحب کا دوسرا افسانوی مجموعہ ہے جس میں بارہ افسانے صید زبوں ،زندگی ک باقی ، ایک خاکی کا معراج نامہ ،رات کا جادو ،نیند کے ماتے ،پارس پتھر ،تربیت کا ایک دن،پروڈکشن-2،رہائی ،واپسی ،بات ،اندر بوٹی مشک مچایااور ایک ،ناولٹ تار پر چلنے والی شامل ہے ،یہ افسانوی مجموعہ 1984 میں منظر عام پر آیا ،گمشدہ کلمات کے دو برس بعد ، اس میں گزشتہ مجموعے کی طرح موضوع کی یکسانیت نہیں ملتی ہے۔بلکہ تکنیک کے تنوع نے اس کے اس افسانوی تخلیق کو خاصے کی چیز بنا دیا ہے ۔ اس میں بیانیہ سے بہت کم کام لیا گیا ہے ۔ یہ تنوع اسلوبیاتی سطح پر نظر آتا ہے زبان و بیان کا تنوع ہے ، وقت کا تصور ماضی حال اور مستقبل سے ماورا نظر آتا ہے ۔مزرا صاحب کے افسانوں میں اگر انسانی رویوں کی جانی پہچانی شکلیں نظر نہیں آتی ہیں ان کا انداز و سبھاؤ ہمیں منطقی نہیں لگتا تو اسے فکشن کی لا محدود دنیا سے متصور کرنا چاہیے جہاں فکشن روایتی جذبوں کی وا کشائی کے لیےان میں پوشیدہ مخلتف پہلوؤں کو سمجھنے کےلیے ایسے وسیلہ کار کااستعمال کرتا ہے جو ہمارے لیے اجنبی اور نامانوس ہو سکتے ہیں لیکن ناقابل فہم نہیں ۔ مرزا صاحب کا کہانی کار اگر کہانی سنانے کی فضا یوں بناتا ہے کہ “آج میں ان وقتوں کو یاد کرتا ہوں اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے آنکھوں میں ٹھہری ہوئی دیوار کھرچتا ہوں۔”تو ظاہراً یہ ان لفظیات کا استعمال نہیں ہے جسے عام آدمی اپنے روزمرہ کی بات چیت کے لیے برتتا ہے بلکہ اس میں اسلوبیاتی سطح پر زبان کا ایسا نظام ہے جسے ایک طرح سے نئی تخلیقی زبان کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔مرزا صاحب کےافسانے قاری سے بھر پور شمولیت اور تعاون کی امید رکھتے ہیں ،اولاًاس شمولیت کا تقاضا زبان کی سطح پر ہوتا ہے، جب تک قاری زبان کے برتاؤ سے ہم آہنگی نہیں پیدا کر لے وہ افسانے کا تاثر نہیں پا سکتا ہے۔لفظوں کا برتاؤ ،جملوں کا درو بست قاری سے کئی بار ٹھہر کر تفہیم کا متقاضی ہوتاہے۔فضیل جعفری کی اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں کہ
“مرزا حامد بیگ کا اسلوب پیچیدہ اور تہہ دار ہے ۔وہ اشیا اشخاص اور مقامات کے بارے میں کہانی بیان کرنے کے بجائےانہیں دکھانے یا پیش کرنے اور اس طرح قاری کو اپنے تخلیقی تجربات میں شریک کرنے کوترجیح دیتےہیں ۔”1؎
صید زبوں مختصر تجریدی افسانہ جہاں عورت سے محبت کرنے کا دعویٰ کرنے والا اسے سر بازار ےتہنا چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے ،نیز اسی طرز کا دوسرا افسانہ زندگی کا باقی “جس میں عورت اور مرد کے محبت زدہ رشتے کو معاشرہ اور خاندان کس طرح زنگ آلود بنا دیتے ہیں دونوں ہی کہانیاں مختصر اور کم و بیش ایک ہی موضوع کے ارد گرد دائرہ بناتی ہیں ا ور وونو ں ہی کہانیوں میں محبت جیسے ازلی او ابدی جذبے کو سماج کے ہاتھوں تباہ کر دیا جاتا ہے جس میں محبت کرنے والا مرد مجبور محض ہے ۔
مرزا صاحب کے یہاں انتظارحسین کی طرح ماضی کی بازیافت کا عمل نظر آتا ہے لیکن انتظار حسین کے یہاں ماضی پرستی کا راستہ بند گلی میں نکلتا ہے جس سے قاری کے یہاں مایوسی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے جب کہ مرزا حامد بیگ کے یہاں ناسٹلجیا کا راستہ مخلتف پگڈنڈیو ں کی شکل اخیتار کر لیتا ہے۔جو قاری کے لیے ندرت اور شگفتگی کا باعث بنتا ہے
مرزا صاحب کی کہانیوں کا شعور پختہ ہے اس لیے ان کے منظرنامے مماثلت رکھنے کے باوجود مختلف تاثر پیدا کرتے ہیں ،حتی کہ کہانیوں میں بعض بعض پیرے بھی دیگر کہانیوں میں دہرائے گئے ہیں ،کہانی کے جملے دہرائے گئے ہیں لیکن یہ تاثر پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں ، ایک خاکی کا معراج نامہ نامی افسانہ انسان کے وجود کے ازلی کرب کو جس طرح بیان کرتا ہے اس سے کہانی کے تاثر میں کمی پیدا نہیں ہوتی تحیر اور دلچسپی مرزا صاحب کے افسانوں کا جزو لاینفک ہے نیز وہ پوری کہانی میں موجود رہتا ہے ،یہ انسان کے خارج سے باطن کے سفر کی داستان ہے جس میں روحانی پہلو نمایاں ہے۔اس افسانے میں حرص ہوس کا بندہ اپنی جس معراج کو چھوتا ہے وہ بندے کی سطح پر ہے، کہ انسان تمام تر بشری نفسیات کے باوجود روحانی تجربوں اور وقت کے جھکورے کے باعث ایسے تجربے سے دو چار ہوتا ہے جو بندے کی سطح پر محال گرچہ ہے لیکن ناممکنات میں سے نہیں ہے ۔ اقتباس ملاحظہ کیجئے
“یارو مشکل یہ ہے ۔۔میرا مطلب ہے مجھے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسےکوئی ہے کوئی ایک روح ۔۔۔روح مجرد ،اسی شور و شر میں چھپی مجھے آواز دیتی ہے۔تم تو آنکھ والے ہو،مجھے بتاؤ کیا واقعی ایسا ہے۔”2؎
مرزا صاحب نے بشریت کے پہلوؤں کو ایک نئی معنویت کے ساتھ آشکار کیا ہے ۔افسانہ “رہائی “مشمولہ “تار پر چلنے والی ” میں انسانی معمے کو حل کرنے کی کوشش ہے جس میں تجریدیت کا پہلو اغلب ہے۔مرزا صاحب کے فنی طریقہ کار کا یہ خاصہ ہے کہ مکمل افسانے میں گرچہ علامت اور تجریدیت کے دبیز پردے ہوں لیکن ایک جملہ یا ایک سطر ایسی ضرور ہوتی ہے جو قاری کو پر مکمل افسانے کا تاثر وا کر دیتی ہے۔مثلاً اس افسانے میں بے سرکاستون ،قیدی ،رہائی حکایت ،بھاری طوق غلام آقا جیسی لفظیات کہانی میں سیاسی تناظر پیدا کرتی ہے لیکن اس ایک جملے
“نیک لوگو ،یہ جھوٹ بکتا ہے ہمیں کسی نے نہیں بہکایا ہے ،ہم تو نشیب کی ان کلبلاتی آبادیوں کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کے ساتھ زندہ
رہنا چاہتے تھے اور ہم نے مل کر فیصلہ کیا تھا ۔۔”3؎
اس کے ذریعہ سیاسی جبریت کے ساتھ ساتھ شناخت کا مسئلہ بھی افسانوی فضا میں موجود نظر آتا ہے ۔ تہذیبی شکست و ریخت ،ذات کا کرب و تشخص کا مسئلہ افسانے کے اہم نکات کی صورت میں نمایاں ہوتے ہیں ۔افسانے میں علامت سے زیادہ تجریدی نقطہ نظر حاوی نظر آتا ہے ۔
رات کاجادو ۔ مرزا صاحب کا ایک خاص اسلوب ہے جس میں وقت کاتعین مشکل ہے۔ کہانی شروع ہوتے ہوئے بہت واضح ٹرین کے سفر میں مسافروں کی کا رکردگیاں اس کی ذہنی صورتحال کا نقشہ کھینچتی ہے جس کا مرکزی کردار سو رہا ہے یہ کہہ کر مرکزی کردار پر بار بار روشنی ڈالی جاتی ہے اور افسانے کے اختتام تک کہانی دفعتاً خواب کی تعبیر ،فینٹسی میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔جو قاری کو بالکل نئے تجربے سے روشناس کرانے کا سبب بنتا ہے جس میں تحیراور دلچسپی دونوں ہے وقت اور اسپیس کا تجربہ نظر آتا ہے اس افسانے میں جہاں انسان مجبور محض نہیں تو مختار کل بھی نہیں دکھائی دیتا ہے۔اس افسانے کا معنوی کینوس وسیع ہے۔
اندر بوٹی مشک مچایا، صید زبوں کا بین السطوری تسلسل ہے جہاں مفرور نوجوان محبت کی آغوش میں دوبارا لوٹا ہے لیکن اس بار اسے معافی نہیں ملی ۔عورت زمین و جائیداد کی پیش کش کو محبوب کے انتظار میں ایک گھاس کے تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے لیکن اس محبوب کی محبت بھی اسے اب گوارا نہیں کہ وہ عشق کے ازلی جذبے کی معراج پر ہے اس افسانے کے تخلیقی عمل میں مرزا صاحب کا اجتماعی لا شعور تہہ در تہہ دائروں کو محیط ہے ۔جو افسانے کو ناسٹلجیائی صورت عطا کرتا ہے یہ سلسلہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل کی جانب رواں دواں نظر آتا ہے صید زبوں اور اندربوٹی مشک مچایا گمشدہ کلمات کے بطن سے زائیدہ ہونے کا احساس دیتے ہیں ۔نامانوس لفظیات کا استعمال ہےلیکن یہ صفت بھی ان کے افسانوں میں پوری توانائی کے ساتھ نظر آتی ہے کہ انہیں امیج میں پیش کیا جا سکے بلکہ بعض افسانوں میں کیمرے کی آنکھ کا استعمال کیا گیا ہے جس سے باریک تفاصیل کو بیان کرنے سے زیادہ انہیں دکھانے کے انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔کردار اپنے داخلی سطح کی جانب زیادہ مائل نظر آتے ہیں خارج سے ان کے کردار عام طورپر دلچسپی نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں لا شعور کی سطح پر تقریباً ہر افسانے میں کردار کا داخلی مطالعہ نظر آتا ہے ان کے کردار عام بیانیہ کرداروں سے مخلتف نظر آتے ہیں ۔لیکن یہ اختلاف ان کے زمینی رشتے سے تعلق کو منقطع نہیں کرتا ہے بلکہ وہ اپنے تہذیبی ورثے کو سنبھالے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ۔مرزا صاحب کا علامتی نظام ان کی اپنی سماجی فضا سے تعمیر ہوتا ہے اورتخلیق کار اپنے تخلیق کے اعلی ترین مراحل میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا جب تک وہ اس رابطے کا گہرا شعور اپنے لفظوں میں نہیں اتار لیتا یعنی جو ادیب اپنی دنیا سے کٹا ہوا ہے اس کا کسی دوسری تخیلاتی دنیا سے ارتباط بھی قابل بھروسہ نہیں ۔
مرزاحامدبیگ چونکہ دریائے سندھ کے کنارے آباد افراد کے تہذیبی المیے کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں لہذا ان کے ہاں ایسے کردارنظر آتے ہیں جو قصباتی اور دیہی زندگی کے مسائل کو منعکس کرتے ہیں۔
واپسی وسیع کینوس کو محیط کلینڈر پر بکھری چند تصویروں کی کہانی ہے ۔ یہ تصویریں کلینڈر پر چسپاں ہیں ،جس میں تصویروں کی ماہیت سے زندگی کی ان سلجھی کیفیات کا بیان کیا گیا ہے جس کے لیے جسے سیاہ و سفید کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ہر ماہ کلینڈر کے صفحے الٹنے پر ایسا رنگ نمودار ہوتا ہے جو مصنف کے لیے کہانی کی فضا ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ افسانے میں وقت کی حدیں ٹوٹتی ہوئی حال ماضی اور مستقبل کو ملا کر ایک دائرہ بناتی ہیں،اس دائرے میں “کالے رنگ کی سیڑھی ” علامتی سطح پر معنیاتی ابعاد پیدا کرتی ہے جس کےذریعہ کردار کی اپنے گرد و پیش سے دوری و لا تعلقی نمایاں ہے جس میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے یہ افسانہ تکنیک کی سطح پر عمدہ صناعی کا نمونہ ہےاس افسانے کا موضوع محبت ہے لیکن اس میں خارجیت سے زیادہ داخلی صورتیں ہیں ۔ مرزا حامد بیگ کی اکثر کہانیوں کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ ان کے کردار اپنا زمانہ بھول گئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں سارے زمانوں پر انہوں نے خود کو اس طرح پھیلا رکھا ہے کہ خود ان سے بھی وقت کا تعین نہیں ہو پاتا ۔مرزا حامد بیگ کے افسانوں میں visual art کی غمازی ملتی ہے ۔
“بات” مختصر کہانی ہے جس میں نہایت سادہ موضوع کو سادگی اور اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، “نیند کے ماتے” وقت اور اسپیس کے ساتھ تجربہ کرتا ہوا افسانہ ہے جس میں علامتی انداز کے علاوہ معنیاتی ابہام بھی موجود ہے ۔ کردار کے لیے “وہ ” یا ” میں ” کا استعمال کرکے مرزا صاحب کہانی کو اس کے موجودہ دائرے سے باہر لاکھڑا کرتے ہیں ۔ صدیوں سے اسی شاہراہ کا حصہ وہ کردار ماضی حال اور مستقبل میں موجود ہے افسانے میں محبت کی زیریں لہر نہایت نرمی اور نازکی سے افسانے کا حصہ بنتے ہوئے مرکزی موضوع نہیں بنتی، مرکزیت فرد کی کشمکش ازل سے کے وجود کا کرب اور وقت کی ستم ظریفی کو حاصل رہتی ہے ،
پروڈکشن نمبر 2 فلم میکنگ کے انداز میں لکھا گیا ہے یہ افسانہ اول تا آخر اس تکنیک کا حامل ہے جو فلم سازی میں برتی جاتی ہے ۔کیمرہ موومنٹ ہو یا کرداروں کا عمل دخل ان کے حرکات و سکنات ایڈینٹنگ بیک گراؤنڈ ہر معاملے میں فلمی تکنیک کی باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے جو اپنے آپ میں منفرد تجربہ ہے۔موضوعی سطح پر یہ افسانہ زوال ڈھاکہ کے بعد پیش آنے والی صورت حال کی نمائندگی کرتا ہے افسانے میں مہاجر اور مقامی ذہنیت کے فکری رویوں کو گرفت میں لینے کی کوشش کی گئی ہے ۔انسان سیکڑوں برس سے ہجرت کے مارا صدیو ں سے اپنی شناخت کا مہتاج ہے۔تشخص کی خاطر قیام پاسکتان کے بعد بھی ایک طبقہ اپنی شناخت سے محرور ہی رہا جب افسانے کا کردار یہ کہتا ہے کہ “میرے ہونے کی گواہی کیوں نہیں دیتے “جس کے جواب میں دوسرے کردار کا یہ جملہ کے” کسی مقامی سے پوچھ لیتے ہیں” اسی بے یقینی کی غمازی کرتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انسان صدیوں سے ہجرت کے سفر پر اپنی جڑوں کی تلاش
میں سر گرداں ہے ۔اس افسانےکی تکنیک بالکل جدا ہے ۔
پارس پتھر: پارس پتھر ایسا افسانہ ہے جس میں سونے کے حصول کا خواہش مند پارس تھر کی تلاش میں سرگرداں ہے۔لیکن وہ پارس پتھر کو حاصل کر لینے کے بعد بھی اسے بے دھیانی میں کہیں پھینک آیا ہے ۔چونکہ مرزا صاحب کے افسانےزیادہ تر واحد حاضر کے صیغے میں بیان کیے جاتے ہیں جن سے حقیقت کا التباس پیدا ہوتا ہے نیز ان میں کرداروں کی نفسیاتی پیچ و خم کو وا کرنے کی بھی زیادہ گنجائش نہیں رہتی ہے ۔ اس لیے سارا زور واقعے پر ہوتا ہے ،مرزا صاحب کا یہ خاصہ ہے کہ وہ روایتی موضوعات کو بھی نہایت ندرت اور فنکارانہ صلاحیت کے ساتھ برتتے ہیں ۔
تربیت کا ایک دن ؛
تار پر چلنے والی مرزا حامد بیگ کا ناولٹ ہے۔یہ ناولٹ بالکل نئی تکنیک میں لکھا گیا ہے ۔ ناولٹ محبت کی نفیسات کو باریکی سے بیان کرتا ہے جس میں یونی ورسٹی کے زمانے کی محبت موضوع بحث لائی گئی ہے۔مرزا صاحب کے پسندید ہ موضوع کے برعکس یہاں محبت ہی پورے افسانے کا مرکزی کردار ہے ۔ایسی محبت جس میں عہد جدید کی سفاکیت نےمادیت کا عنصر پیدا کر دیا ہے جس میں خارجیت کا عنصر بھر پور ہے اس کہانی میں کردار محض محبت کا ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ اس میں سر تا پا ڈوبے ہوئے ہیں اسے محسوس کرتے ہیں اور برتتے ہیں یہاں تار پر چلنے والی ایک استعارہ ہے ایسا استعارہ جس میں توازن اور تناسب ہی دنیا کے سامنے پیش کرنے والے تماشے کا اصل ہے ۔لڑکی جس کا نام نہیں سماج میں توازن اور تناسب کے ساتھ اپنا وقار اور تماشا دونوں برقرار رکھنے کا ہنر سیکھ جاتی ہے ، ناولٹ کی ابتدا دلچسپ اور غیر روایتی انداز میں ہوتی ہے ساتھ ہی اس میں حاضر راوی کی موجودگی بیانیہ کو لطیف منظر نگاری سے ہم آہنگ کرتی ہے جسمانی لذت کوشی کو نہایت باریک بینی سے بیان کیا ہے ۔لیکن مرزا حامد بیگ نےناولٹ نے وقت کو کچھ اس طرح اپنی گرفت میں لیا ہے کہ زندگی کا وہ اول اول سچا اور جوشیلا جذبہ ادھیڑ عمر کا تاسف بن گیا ۔یادوں کی دھنک ہے جس میں کردار تو صرف دو ہی ہیں لیکن لمحہ لمحہ گزرتی ہوئی زندگی ان کے گردوپیش کا منظر نامہ تبدیل کرتی چلی جاتی ہے یہ ناولٹ مکالماتی انداز میں لکھا گیا ہے ۔تکنیکی اعتبار سے یہ اسے روزنامچے کے اسلوب میں رکھ کر بھی دیکھ سکتے ہیں اس ناولٹ میں ایک رومانوی فضا میں لپٹے ماحول کی عکاسی کی گئی ہے اس میں بیانیہ سے بہت کم کام لیا گیا ہے ۔مکمل کہانی کا تاثر ان جملو ں سے واضح ہوتا ہے ۔
“لیکن یار ،اب وہ بات نہیں رہی ،حالات نے اسے اپنی منشاء کے مطابق ڈھال لیا ہے ۔اب اسے مہذب طوائف۔۔4؎
مندرجہ بالا جملے سے عیاں ہے کہ ناولٹ اس ایسے کردار تاشا گیا ہے جسے مرد کی ذہنی پستی کا ہر دم سامنا ہے باوجود اس کے اس پست اور معاشرے میں لڑکی اپنا توازن اور کردار ثابت رکھنے میں کامیاب ہوتی ہے ۔
“تم جانتی ہو پھونک پھونک کر قدم رکھنے والی لڑکیاں کئی بار قدم پوری طرح جما نہیں پاتیں ۔ایک طرف ایک خلقت لڑکی کے اپنی طرف گرنے کی خواہش مند کھڑی ہوتی ہے اور دوسری جانب صرف ایک چاہنے والا ، اور تم جانتی ہو تار پر چلنے والی کبھی کبھی اس کے منتظر ہجوم کے بیچ گر جاتی ہے ۔”5؎
تارپر چلنے والی علامت پوری کہانی کا ما حصل بن جاتا ہے ۔افسانے میں بعض مقامات میں کردار کا رویہ سفاکانہ حد تک عیاں کیا جاتا ہے جس میں محبت اور جسم کی خواہش بیک وقت ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے کوشاں ہیں ۔
“وہ سپاٹ چہرے کی ساتھ تار پر اپنا توازن قائم کیے ساکت ہے ۔”6؎
مرزا صاحب کی دوسری کہانیوں کے برعکس اس میں بیانیہ کا زور ہے لفظی اور معنیاتی ابہام کی گنجائش کم ہے علامت واضح اور متن سے مکمل وابستہ ہے۔ قاری کے لیے اس میں دلچسپی تاثر او ہمدردی تینوں ہی موجود ہیں ۔مکالماتی تکنیک کا افسانہ واحد حاضر کے صیغے میں بیان کیا گیا ہے ۔وقت کا تصور ماضی اور حال کے درمیان رواں دواں ہے ۔کامیاب تکنیک میں برتا گیا ناولٹ خاصے کی چیز ہے۔ظفر اقبال کی رائے ملاحظہ کیجئے،
“محبت کائنات کا سب سے پیچید ہ اور پر اسرا مظہر ہے ،اس کو اتنی اصلیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان شعرائے کرام پر افسوس ہوتا ہے جو یا تو اس تجربے سے گزرتے ہی نہیں ،،،اگر گزرتے ہیں تو بیان کرتے وقت اسے اتنے کپڑے پہنا دیتے ہیں کہ ان میں محبت کی شکل ہی نہیں پہچانی جاتی ہے ۔۔”7؎
اس افسانوی مجموعے میں کرداروں کی بھرمار نہیں ایک یا دو کردار مجموعی طور پر جو نام اور شکل سے محروم ہیں لیکن ایسے جذبے کے نمائندے ہیں جو ازلی و ابدی ہے ان کے کرداروں میں ابدیت کی منزلوں کا پتہ ملتا ہےان کرداروں میں وقت سے بے نیازی کی صورت نظر آتی ہے جس سے یہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر حال کو ماضی سے اکیر کر ایک پر امید مستقبل کی تعمیر میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔ یہ کردار بنیادی طور پر صفات سے مبرا واقعات کی پیداوار ہیں بلکہ یہ کہاجائے کہ ان کی کہانیوں میں کردار اپنے روایتی انداز میں نظرنہیں آتے تو کوئی حرج نہیں کہ نئے افسانے کا خاصہ واقعہ نگاری ہے کردار نگاری نہیں ۔ اس بات کو شمس الرحمان فاروقی کی اس رائے کے ضمن میں زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے ۔
“روایتی بیانیہ کی رو سے کردار نگاری اہم نہیں ،واقعہ ہے ۔اور یہی صورت حال اکثر جدید افسانوں میں نظر آتی ہے ۔لہٰذا جدید افسانوں کو اس لیے مطعو ن نہیں کرنا چاہیے کہ اس میں کردار نہیں ۔”8؎
افسانوی مجموعے “تار پر چلنے والی ” کے حوالے سے غلام ربانی دستگیر رقمطراز ہیں ۔
“مرزا حامد بیگ کے ان تازہ افسانوں میں امیج سازی،منظر نگاری ،اور اسطوری بنت کے حوالے سے “جدید قصے” کی روایت کو زندہ کیا گیا ہے ۔مرزا حامد بیگ کی کہانیوں میں معاشرتی مسائل سے زیادہ فرد کی ذت کے مسائل بیان ہوتے ہیں ۔”ایک خاکی کا معراج نامہ “رات کا جادو” اور رہائی جیسے افسانوں کا معنوی کینوس وسیع ہے ،پرڈکشن 2 میں اسٹائل کی تبدیلی کا تجربہ ملتا ہے ۔اندر بوٹی مشک مچایا جیسے افسانوں میں گمشدہ کلمات کی صدائے بزگشت ملتی ہے ۔”9؎؎
حوالے ؛
1۔فضیل جعفری ،گمشدہ کلمات ،سہ ماہی توازن مالیگاؤں ،سلسلہ نمبر 21ص نمبر 31
2۔ایک خاکی کا معراج نامہ ، تار پر چلنے والی ،مرزا حامد بیگ ص نمبر 20
3۔رہائی، مشتملہ تار پر چلنے والی ،مرزا حامد بیگ ،ایم آر پبلیکیشنز ،نئی دہلی ص نمبر 52
4۔تار پر چلنے والی،مشمولہ تار پر چلنے والی ،مرزا حامد بیگ ،ایم آر پبلی کیشز ،نئی دہلی،2016، ص نمبر 86
5۔ تار پر چلنے والی،مشمولہ تار پر چلنے والی ،مرزا حامد بیگ ،ایم آر پبلی کیشز ،نئی دہلی ،2016،ص 90
6۔تار پر چلنے والی،مشمولہ تار پر چلنے والی ،مرزا حامد بیگ ،ایم آر پبلی کیشز ،نئی دہلی2016،ص 103
7۔ظفر اقبال ، چہار سو ، راولپنڈی ،پاکستان پرنٹنگ پریس ،ٹرنک والا بازار جلد نمبر 15 شمارہ جنوی فروری ،ص 34
8۔فاروقی ،شمس الرحمٰن ،افسانے کی نئی حمایت میں ،نئی دہلی ؛ایم آر پبلیکشنز ،صفحہ نمبر 74
9۔سہ ماہی توازن ،خصوصی گوشہ مالےگاؤں سلسلہ نمبر 21ص 51
***