You are currently viewing ترجمہ، روایت اور اہمیت

ترجمہ، روایت اور اہمیت

یسریٰ راحت

ترجمہ، روایت اور اہمیت

ترجمہ کیا ہے؟    ترجمہ ایک فن ہے، ایک ہنر ہے ،اس فن میں ایک زبان کے متن کو دوسری زبان کے متن میںConvert کیا جاتا ہے۔اسی لئے ترجمہ نگار کو دو زبانوں کا علم ہونا ضروری ہے۔دو زبانوں سے واقفیت اور دونوں زبانوں پر ترجمہ نگار کو عبورحاصل ہونا چاہیے ۔    بقول قمر رئیس

’’زبانوں کے درمیان فرق کو مٹانے میں ترجمہ نے جو اہم رول ادا کیا ہے، انسانی تہذیب کا ہر ورق اس کا گواہ ہے۔ انسانی علوم کو فروغ دینے میں جہاں اور بہت سے اسباب اور عوامل رہے ہیں وہاں ترجمہ بھی ایک محرک کا رول ادا کرتا رہا ہے‘‘۔

ترجمہ تین قسم کے ہوتے ہیں : (۱) علمی ترجمہ(۲) ادبی ترجمہ(۳) اور صحافتی ترجمہ۔

)۱(علمی ترجمہ سائنسی علوم و فنون اور اور ٹیکنالوجیکل کتب وغیرہ کا کیا جاتا ہے۔ اس ترجمے میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ جس کسی لفظ یا اصطلاح کا ترجمہ ایک جگہ کیا جاتا ہے وہ ان معنوں میں ہر جگہ استعمال کیا جائے ۔جس سے ترجمہ شدہ متن میں یکسانیت قائم ر ہے۔

)۲(ادبی ترجمہ:  ادبی ترجمہ ادبیت کا حامل ہونا چاہیے۔ادبی ترجمہ کا تقاضا ہے کہ دو زبانوں کے جاننے کے ساتھ ساتھ اس زبان کی تہذیب اور Culture معا شرت سے بھی ترجمہ نگار واقف ہو۔ تبھی وہ صحیح معنوں میںادبی ترجمہ کا حق ادا کر پائے گا۔

)۳(صحافتی ترجمہ کو کاروباری ترجمہ سے بھی جانا جاتا ہے۔

مترجم کو دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیر کہا گیا ہے ۔ کسی بھی زبان کی تصنیف کو کامیابی سے اپنی زبان میں منتقل کرنے کے لئے چند اہم اور ضروری شرائط ہیں ،جن سے واقفیت ضروری ہے ۔

)۱(مترجم کو اصل تصنیف کی زبان اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے واقفیت کے ساتھ ساتھ دلچسپی رکھنا ضروری ہے۔

)۲(اپنی زبان پر اس کو قدرت اور نئے خیالات کے اظہار کے لئے نئے الفاظ، ترکیبیں اور اصطلاحیںCreateکرنے کی صلاحیت ہو۔

)۳(مترجم کو تصنیف کی زبان سے گہری واقفیت کے ساتھ ساتھ اس کی باریکیوں کا بھی علم ہونا ضروری ہے۔

)۴(اصل تصنیف جس عہد سے تعلق رکھتی ہے اس عہد کی زندگی، زبان اور اس موضوع کی اہم تفصیلات سے مترجم واقف ہو۔

)۵(آخری اور اہم شرط یہ ہے کہ مترجم میں ادبیترجمے کی صلاحیت ،دلچسپی اورشوق ہو۔اگریہ خوبی نہیں ہے تو دوسری تمام شرائط کی تکمیل بھی کامیاب ترجمے کی ضمانت نہیں ہوسکتی۔

 مختلف عہد میں اردو تراجم کا سلسلہ جاری رہا ہے ۔دکن میں ملا وجہی کی’’ سب رس‘‘ کے بعد نثری تصانیف کا سلسلہ جاری رہا۔

پنڈت وشنو شرما’’پنج تنتر‘‘ (بچوں کی مشہور کہانیاں) سب سے پہلے ایران میں پہلوی زبان میں منتقل ہوا۔ آج دنیا کی ہر زبان میں یہ کہانیاں موجود ہیں ۔

ہندوستان میں مغلیہ دور میں فن ترجمہ نگاری کو بہت فروغ ملا۔ عہد اکبری میں فلسفہ ،شاعری، ریاضی،Algebra وغیرہ کا فارسی میںترجمہ کیا گیا۔ملا عبدالقادر بدایونی نے 1574ء ’’ سنگھاسن بتیسی‘‘ کاترجمہ ’’میر افروز‘‘ کے نام سے کیا۔

 ترجمہ نگاری میں فورٹ ولیم کالج اور دہلی کالج کی خدمات کو بھلایا نہیں جاسکتا ۔4مئی 1800 کو فورٹ ولیم کالج Calcutta(کلکتہ) میں قائم کیا گیا اور ڈاکٹر جان گلگرسٹ ہندوستانی زبان کے صدر شعبہ منتخب ہوئے۔

 فورٹ ولیم کالج کی کتابوں میں میر امن کی’’ باغ و بہار‘‘ حیدر بخش حیدری کی’’ آرائش محفل‘‘ مرزا علی لطف کی’’تذکرہ گلشن ہند‘‘ مرزا کاظم علی کا ڈرامہ ’’شکنتلا ‘‘اور للولال کی سنگھاسن بتیسی‘‘ کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات کا اعتراف مولوی عبدالحق نے یوں کیا ہے:

’’ جو احسان ولی نے اردو شاعری پر کیا ہے،وہی احسان گلکرسٹ نے اردو نثر پر کیا ہے‘‘۔

فورٹ ولیم کالج کی مقبول ترین کتاب’’ باغ و بہار‘‘ کے متعلق سرسید نے فرمایا تھا:

’’ میر امن کو اردو نثر میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو میر تقی میرؔ کو اردو شاعری میں حاصل ہے ‘‘۔

فورٹ ولیم کالج سے باہر بھی مختلف کتابوں کے ترجمے ہوئے، جن میں انشاء اللہ خان انشاءؔ کی تصنیف ’’رانی کیتکی کی کہانی‘‘ جو خاص طور سے ہندوستانی زبان میں ہے ۔

دہلی کالج: ترجمہ نگاری میں دہلی کالج کا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ نواب غازی الدین خاں فیروز جنگ ثانی خلف نواب نظام الملک آصف جاہ نے 1792 میںکی تعمیر کرائی تھی۔ دہلی کالج ہندوستان کا واحد ادارہ تھا جہاں ریاضی، فلسفہ، معاشیات اور تاریخ جیسے علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔

 اس کالج میںورینکلرSociety  Translation‘‘قائم کی گئی۔اس Society میں ترجموں اور جدید موضوعات پر کتابوں کی تالیف کے ذریعے ہندوستان کی مختلف زبانوں میں کتابیں فراہم کی جاتیں۔

اس Society کا قیام 1857ء میں عمل میں آیا۔ اسSociety کے تحت رامائن، مہابھارت ،دھرم شاستر، شکنتلا ،رگھوونسی وغیرہ اہم کتب کے ترجمے منظر عام پر آئے۔

سرسید کی(Scientific Society) سائنٹیفک سوسائٹی اردو ترجمہ نگاری کے میدان میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس (Society)سوسائٹی کے ذریعے تاریخ، جغرافیہ،سائنسی اور معاشیات جیسے اہم موضوعات پر درسی کتب اردو میں ترجمہ ہوئیں۔ تاکہ تمام ہندوستانیوں کو مغربی Literature اور علوم سے واقف کرایا جاسکے۔

دنیا کے ہر سفارتخانے میں مترجم رکھے جاتے ہیں۔ جن ترجمہ نگاروں کو ہر دو زبانوں پر قدرت حاصل ہوتی ہے، جن کی زبان میں فصاحت و بلاغت ہوتی ہے اور جن کی تحریر میں شائستگی اور روانی بھی ہوتی ہے وہ کامیاب مترجم ہوتے ہیں کے دور میں ترجمے کی بڑی اہمیت ہے ۔حکمراں، سیاستداں، مذہبی اور اصطلاحی رہنما بغیر مترجم کی مد د کے اپنی بات نہ تو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں، نہ ہی دوسروں کی بات کو سمجھ سکتے ہیں۔ مترجم کے بغیر ان کا کام نہیں چلتا۔

ترجمہ کی اہمیت کے سلسلے میں ڈاکٹر ظ انصاری کہتے ہیں:

’’ ترجمے ہی کے ذریعے ایک مخصوص ملک، ایک جغرافیائی علاقے اور خاص قوم کی تحقیقات اس کے علوم و فنون، تمام انسانیت کی ملکیت بنتے ہیں‘‘۔

نتیجۃً:   ترجمے کی اہمیت قدیم زمانے سے لے کر دور حاضر تک قائم ہے ۔ترجمہ کے ذریعے ذہنی نشوونما ہوتی ہے اور علمی آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اور مختلف اقوام کی تہذیبوں سے بھی واقفیت حاصل ہوتی ہے ۔

حوالہ جات: ترجمہ کا فن اور روایت مرتبہ ڈاکٹر قمر رئیس تاجؔ پبلیشنگ ہاؤس دہلی-جون 1976 ۔

Mob: 9752167137

Email: rahatasra20@gmail.com

This Post Has One Comment

  1. jeem phey ghauri

    اردو زبان و ادب کا منفرد مجلہ جو ادب کے آسمان پر چمکتا ستارہ ہے ناقابل فراموش خدمات میں سب سے آگے اور بلند معیار کا حامل ، خواجہ اکرام الدین عظیم شخصیت اور ادب کا دیوانہ ہے پوری دیانت داری سے اردو زبان و ادب کی بے ۔

    خدمات انجام دے رہا ہے

Leave a Reply