You are currently viewing جدید غزل کی توانا آواز:قمررضا شہزادؔ

جدید غزل کی توانا آواز:قمررضا شہزادؔ

زیبا گلزار

ریسرچ اسکالر(جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ)

سی۔ٹی۔آئی فکلٹی شعبہ اردو، گورنمنٹ ایسوسی ایٹ کالج  سمبڑیال

جدید غزل کی توانا آواز:قمررضا شہزادؔ

ادب زندگی کا عکاس اور کسی قوم کی اقدار ِ حیات کا آئینہ ہوتا ہے۔یہ عکاسی اچھےمعنوں میں بھی ہو سکتی ہے اور معاشرے کے ابتر حالات کی تصویر کشی بھی ادب ہی کی ذمہ داری ہے تاکہ ادیب کا پیغام لوگوں تک پہنچ سکے۔اب اس کی کئی صورتیں ہیں،کوئی  ادیب نظم میں اظہارِخیال کرتا ہے تو کوئی نثر میں،کوئی ناول میں تو کوئی ڈرامہ  نگاری میں طبع آزمائی کرتا ہے گویا ہرفنکار ابلاغ کے لیے کسی ایک صنف کو بطور میڈیم( ذ ر یعہ) استعمال کرکےاپنے دل کی بات قارئین تک بہم پہنچاتا  ہے۔   تمام اصناف کی بہ نسبت اشعار میں بات کم لفظوں میں زیادہ اثر انگیز ہوتی  ہے۔اور اگر شاعر لفظ برتنے کا فن جانتا ہو تو کیا ہی بات ہے،شعری اصناف میں غزل ہی وہ واحد صنف ہے جو ہر دور کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے ہمیشہ اپنے عصری شعور کو ساتھ لیے آگے بڑھتی رہی ہے۔ابتدائی کلاسیکی شاعری جو محض عشق وعاشقی کے موضوعات لیے ہوئے تھی گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے تئیں  کئی تبدیلیاں لے آئی،آج کی غزل زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی بہترین انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بقول شارب ردولوی:

”آج کی غزل بلند آہنگی کی غزل ہےنہ دھیمے لہجے کی غزل،اس میں احتجاج بھی ہےاور فقر و درویشی بھی۔“(۱)

جدید غزل میں نیا لہجہ  متعارف کرانے والوں میں ایک نام  قمر رضا شہزادؔ   کا ہے۔پورا نام سیدقمر رضا،یکم اکتوبر ۱۹۵۸ءکو کبیروالہ میں پیدا ہوئے۔رسمی تعلیم کے  بعدپبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور دورانِ ملازمت کئی علاقوں میں خدمات سرانجام دیں۔شاعری کاآغاز ۱۹۸۰ءمیں کیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ متعدد شعری مجموعوں کے علاوہ چند          ماہ قبل ”خاک ِزار“کےنام سے کلیات بھی شائع ہوچکی ہے۔ اسّی کی دہائی کے بعد پاکستان میں سیاسی و سماجی صورتِ حال کے پیشِ نظر جو شاعری تخلیق ہوئی اور شعراء منظرِ عام پر آئے ان میں عصری حسیّت یاعصری  شعور ایک واضح رحجان کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔خاص طور پر آزادی کے بعد ملک میں پیدا شدہ سیاسی،معاشی، معا شرتی  و سماجی بحران اس عہد کے شعراء کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔اسی طرح قمر رضاشہزادؔ کی  شاعری کی فکری بنیادوں کا تجزیے کرتے ہوئے آج کے انسان کی صورت حال اور کرب کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔کہیں تو عصری حالات کی یہ  عکاسی واضح انداز میں نظر آتی ہے لیکن کہیں استعاروں اور کنایوں کی صورت اختیار کرجاتی ہے۔ سیاسی وعصری شعور ہر شاعر کے لیے لازم وملزوم ہے،کیوں فن کار بھی اسی عالمِ آب وگل  کا حصہ ہے جس میں ہم اور آپ رہ رہے ہیں۔قمر  رضا شہزادؔ کے ہاں معاشرتی مظالم،انسانی اقدار کی پامالی،سماجی و اخلاقی تنزلی ،انسانیت کی بے حرمتی پر شدید ردِ عمل نظر آتا ہے۔وہ ان افراد کی بےبسی پر نوحہ کناں  ہیں جو حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے ظالم  کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں۔

؎ چر اغ گل کردئیے گئے ہیں ہوا سے پہلے

یہ لوگ کیوں اتنے بے یقین ہیں فنا سے پہلے

شکست کا دکھ نہیں ہے لیکن مرا قبیلہ

عدو کی تعظیم کررہا ہے خدا سے پہلے(۲)

سیاسی یا حکومتی جبر کے دور میں اہلِ قلم کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے ،چنانچہ  اس دوران دوگروہ سامنے آتےہیں۔ایک وہ جو مادی اور وقتی آسانیوں کے لیے قلم کا رخ موڑ کرحق  کہنے سے باز رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو جبر،پابندی اور ہر قسم کے نامساعد حالات میں بھی اپنے ادبی فرائض سے پورے طور پر آگاہ ہوتے ہیں اور ہزار قدغنو ں  کے باوجود بھی سچ ہی  کہتے ہیں ،اسی  احتجاج و مزاحمت کی راہ اپنانے کا تذکرہ قمررضا شہزاد کرتے ہیں  ، انہیں جی حضوری قبول نہیں، ان کے لہجے کی کھنک اور طمطراق شاعر کے تند وتیز مزاج و فکر کی غماز ہے۔

؎خدا  کا  شکر     ہے    انکار    کی   طرف    آیا

میں سر اُٹھائے ہوئے دار کی طرف آیا(۳)

قمر رضا شہزاد کی شاعری ایک ایسے شخص کی کیفیت ہے جو اپنی ہی ذات اور زندگی سے برسرِپیکار ہے،اور کبھی خود سے کلام،کبھی خدا سے براہِ راست گفتگو تو کبھی اس  عہد ،ماحول اور  معاشرے کے منافقین وحکمرانوں کو مخاطب کرتا ہے ، پھر یہ کلام مکالمے کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔وہ انسان جو اپنے اردگرد بے جا اصولوں اور بےہیمانہ پابندیوں اور جکڑبندیوں کے خلاف اپنا طرز اختیا کیے ہوئے ہے۔کیوں کہ اس کے  سامنے اپنے اصولوں اور فیصلوں پر ڈٹے رہنے کےلیے سب سے بڑا نمونہ کربلا موجود ہے۔قمر  صاحب کے کلام میں واقعۂ کربلاکے استعارات و تشبیہات بکثرت موجود ہیں۔

میں اس لہو میں سے ہوں جس کا ایک اک قطرہ

فصیلِ ظلم پہ دیوانہ وار ٹوٹتا ہے (۴)

کہیں کہیں انسان کی روح اور اپنے آپ سے لگی جنگ کا تذکرہ نہایت خوبصورتی سے کرتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ سب سےتباہ کن جنگ وہ ہے جو

انسان اپنے آپ سے لڑتا ہے۔نہ وہ ہار پاتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے یہ کشمکش قمررضا شہزاد کے ہاں تواتر سے دیکھی جاسکتی ہے اور  آخر کار یہ انسان جھنجلاہٹ کا شکار بھی ہوجاتا ہے۔

کب تک رہوں گا خود سے نبرد آزمایہاں

میں اپنے سامنے سے بھی اک دن ہٹایا جاؤں(۵)

سیاسی استعماریت کے متعلق ایک  بھرپور طنزیہ  لب و لہجہ ملتا ہے۔اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ سیاست یا اقتدار جو ہمیشہ ہی بنی نوع انسان کے لیے آزمائش رہا ہے۔عہدِ حاضر میں سوائے انسانیت کے قتل اور استحصال کےاور کچھ نہیں،شاعر اپنے دور کے سیاسی رہنماؤں کی ہوسِ اقتدار کا پردہ طنزیہ انداز میں چاک کرتا ہے۔

؎  ہزار قتل کیے تب کہیں ہواہوں مَیں

یہاں یونہی نہیں مسند نشیں ہوا ہوں مَیں(۶)

قمر رضا شہزاد کے ہاں سماجی و عصری شعور کے سبب مسلسل ایک آنچ سی جلتی نظرآتی ہے جو انہیں زمینی حقائق سے بے خبر نہیں ہونے دیتی بلکہ بعض اوقات وہ تلخی اور ردِ عمل  میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اسی چیز کو ڈاکٹر ابرار احمد ان الفاظ میں اُجاگر کرتے ہیں:

”سماجی شعور نے قمررضا شہزادکی روح میں تلخی اور غصہ بھر دیا ہے۔گردوپیش کی دنیا سے

اس کا عدم اطمینان احتجاج کو راہ دیتا ہے۔وہ اپنا رشتہ خاک کے ان بیٹوں سے جوڑتا ہے

جو   اس سرزمین پراب خاک کا ہی حصہ بنتے جارہے ہیں۔وہ ذاتی سطح پر احساسِ تنہائی کی

گرفت میں توہےلیکن اس تنہائی نے مغائرت اور لاتعلقی کی بجائےوابستگی اور تعلق کو

جنم دیاہے۔اس کا سفر باطن سے خارج کی طرف ایک مزاحمتی شاعر کا سفر ہے۔“ (۷)

شاعر مذکور اپنے عہد  کے بحران سے بخوبی آگاہ ہیں  ،وہ گری ہوئی انسانی اقدار،مجبوریوں اور مصلحت کوشیوں میں جکڑے انسان کےخیالات کی عکاسی بھی کرجاتے ہیں،جو  سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور ہونے کے سبب  عجب  ذہنی ودلی کشمکش میں مبتلا ہے۔

؎ہمارےعہد کو یہ رنج بھی سہنا پڑے گا

جو چھوٹا ہے اسے سب سے بڑا کہنا پڑے گا(۸)

جبرکبھی بھی ادب پیدا نہیں کرسکتا۔دلوں کو ہمیشہ اخلاق اور اچھے رویوں ہی سے جیتا جاتا ہے تلوار کے بل بوتے پر علاقوں پر قبضہ  تو کیا جاسکتاہے لیکن کبھی بھی دائمی فتح حصے میں نہیں آتی۔لوگوں کی منافقت،اردگرد کے حالات،حکومتی وسیاسی باتیں ان کے کلام میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ کہیں یہ بات اشاروں ،استعاروں تو کہیں کنایوں میں نظر آتی ہے۔وہ ظالم کو براہِ راست تنبیہ کرتے بھی نظر آتے ہیں تو  کبھی اردگرد کی افراتفری،ظلم،بربریت،انسانیت کا قتلِ  عام انہیں  جھنجوڑ کررکھا دیتا ہے کہ خدا سے شکوہ کرنے لگتے ہیں۔

؎تو نے بنا تو دی یہ اتنی بڑی زمین

ایسا نہ ہویہاں کوئی تنہا پڑارہے

اے شہرِخوف تو ہی بتا کیسے ایک شخص

لاشوں کے  درمیان بھی زندہ پڑارہے(۹)

پھر ”کیوں “ شاعر کے ہاں ایک ہیجان کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔اور ملک کے فرسودہ وبوسیدہ قانونی   نظام پر طنز یہ انداز میں سوال اٹھاتے ہیں:

؎یہاں غریب ہی کیوں بے گناہ مارا جائے

کوئی    وزیر      کوئی      بادشاہ      مارا      جائے

میں  جانتا ہوں یہاں عدل کرنے والوں کو

کسی کو کچھ بھی نہ ہو اور گواہ مارا جائے(۱۰)

موصوف دیکھتے ہیں کہ انسان بجائے انسانیت کے رنگ،نسل،قوم اور مذہب کے اختلافات میں الجھا ہوا ہےاور وطنِ عزیز میں تو یہ  تضادات اور انتہاپسندی عروج پر ہے۔جس کے سبب مذہب کی آڑ میں نہ صرف کئی انسانوں کو قتل کردیا جاتا ہے بلکہ ملک و قوم میں امن وامان کی صورتِ حال بھی بگڑتی جارہی ہے ۔فرقہ ورانہ فسادات اور عہدِ حاضر کےانسانی رویوں پر چوٹ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں۔

؎یہی کہ صرف عقیدہ ہے مختلف تم سے

اس ایک بات پہ جی بھر کے قتلِ عام کرو(۱۱)

 قمررضا شہزاد کی شاعری  میں جو اہم عناصر کی بازگشت بار بار سنائی دیتی ہےان میں اپنے عہد کے سیاسی و سماجی شعورکے بعد سب سے بڑا موضوع ،رحجان خود شناسی،خود اعتمادی یا انانیت کہہ سکتے ہیں۔ انا ،خود پسندی یا اپنے ہونے کا احساس فطری ہے ،خودداری،عزتِ نفس،یہ تمام کسی حد تک اس لفظ کے تحت متبادل ہوسکتے ہیں۔انا کا احساس ہر شخص کے ہاں موجود ہوتا ہے کسی کے ہاں یہ عزتِ نفس کی  شکل اختیار کرجاتا ہےتو کہیں اس کی حیثیت ایگو یا ایٹیٹیود کی ہوتی ہے۔لیکن  یہ بھی حقیقت ہے کہ شاعر یا ادیب کے ہاں انا کا پہلو عام انسان کی بہ نسبت غالب ہوتا ہے،قمررضاشہزادؔ کےہاں کہیں تضاد اور کہیں انکسار ملتا ہے۔ان کی شاعری میں(میں،میرے،مجھے اور خاص کر میں )کی گونج باربار سنائی دیتی ہے۔ قمر صاحب کے ہاں کبھی غصیلا پن اور لہجے میں جوش بھی بھر جاتا ہے۔ شاعر کی انا کے متعلق موجودہ دور کے نامور شاعر عباس   تا بش انہیں ایک خط میں لکھتے ہیں:

”۔۔یہ غصہ دراصل تمہاری مجروح انا کا ہےتمہاری انا بھی درِکعبہ نہ کھلنےپرالٹےپھر

آنےاور پرایا جرم اپنے نام  نہ لکھوانے والی ہے۔۔۔تمہاری شعری فضا میں بنیادی منظر

نامہ جنگ سے متعلق ہے۔جنگ کی علامتیں تم نے اس لئے چنیں کہ اَنا کا جنگوں سے گہرا

تعلق ہوتا ہے۔“(۱۲)

قمر رضا شہزادکے ہاں انا یا ”میں“کا لفظ کئی تناظر میں مستعمل ہے۔ایک تو  شخص کے طور پر اس کے جذبات واحساسات کی عکاسی  کے لیے اور دوسراپورے عہد کی آواز کے طور پرجہاں طنز کا رنگ زیادہ نمایاں ہوجاتاہے۔

؎سکوتِ مرگ ہر آنگن پہ طاری کررہا ہوں

میں اپنے عہد کی منظر نگاری کررہا ہوں(۱۳)

ان کی شاعری میں ایک ایساانسان بھی نظر آتا ہے جو اپنی قدرو قیمت اور بصیرت واہمیت سے آگاہ ہے ۔ ممتاز شاعر احمد ندیم قاسمی موصوف سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار  کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ قمررضا شہزادؔدورِرواں کے جدید تر شعراءکی صفِ اوّل میں شامل ہے غزل کی سی قدیم صنف میں اپنی انفرادیت کو نوجوانی ہی میں نمایاں کرلینا نہایت دشوار مرحلہ ہے۔ یہ مرحلہ طے کرنے کی حسرت میں جہاں بےشمار شعرانے اپنی عمریں گنوادیں،وہیں قمر رضاؔشہزاد نے خوداعتمادی کے ساتھ،ہموار چلتے ہوئے یہ مرحلہ کب کا طے کررکھا ہے۔۔ عمر بھر کے  تجربے کی روشنی میں مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ فنِ شاعری کا روشن مستقبل قمررضا شہزادؔ کےانتظار میں ہے۔ہر دور میں کئی شاعر بیک وقت سخن آرائی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لیکن بڑا شاعر ہمیشہ اپنی طرزِ ادا سے پہچانا جاتاہے۔قمررضا شہزاد نے بھی ہر ضمن میں الگ انداز اختیار کیا۔وہ چاہے عشق کا معاملہ ہو یا پھر کوئی اور۔۔  غالبؔ کی طرح ان کےہاں بھی عشق میں ایک  خاص پاسِ وضع کا سا انداز ملتا ہے۔وہ روایتی   رحجان سے قطع نظر محبوب کےرو بروترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں  تو کہیں بے وفائی پر اسے تنبیہ بھی کرتے ہیں۔

؎مجھے محرومِ سایہ کرنے والوں جان لو

تمہارے سر پہ سورج کی ردا کردوں گا

یہی  تو   ہے    مکافاتِ     عمل      کا      سلسلہ

تجھے اپنی طلب میں میں مبتلا کردوں گا(۱۴)

ایک  غالب رحجان جسے شاعر نے پیش کیا وہ ایک ایسا  انسان  ہے جو اس دنیا اور بنے بنائے جہان سے تنگ ہے اور ایک ایسا جہاں تخلیق کرنا چاہتا ہے جہاں کوئی کسی کے تابع نہ رہے یہ ایک نیا موضوع ہے جو شاعرکے ذہنی اپج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کہیں  ایک ایسا خود شکستہ آدمی نظر آتا ہے جو اس بھری دنیا میں اکیلا ہے ،کچھ بھی  نہ اس کےساتھ ہے اور نہ ہی اس کے حق میں ۔۔۔ یہ دراصل آج کے انسان کا المیہ ہےکہ وہ سب کچھ پاس ہوتے ہوئے بھی تنہا اور اکیلا ہےقمررضا شہزاد کے لہجے کی پہچان بھی انہی نئے انسانی حالات کی عکاسی ہے۔بقول ڈاکٹر اشرف کمال:

”قمر رضا شہزاد نئے لہجے کے شاعر ہیں،انہوں نے نئے حالات اور نئے

انسان کے حوالے سے شاعری کی۔“(۱۵)

ہر شاعر کی ایک الگ  شعری  فضا اور جمالیات ہوتی ہے۔کسی کے ہاں رومانوی ماحول،فطرت نگاری،عشق وعاشقی کے چرچے تو  کسی کے ہاں غم والم کی فضا چھائی رہتی ہے۔ قمررضا شہزاد کی شعری فضا ملے جلے تاثرات کے سبب امتیازی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔کہیں  وہ سچ کی تلاش میں سرگرداں جان کی بھی پرواہ  نہیں کرتے بعض اوقات جارہانہ انداز بھی  اختیار کرجاتے ہیں اور استعاروں کنایوں کی صورت میں تفہیم ممکن بناتے ہیں۔

؎بہت کٹھن تو نہیں ہے سچ کو تلاش کرنا

کہ یہ لہو کے ہر استعارے میں جاگتا ہے(۱۶)

ہر  دور اپنی مخصوص خوبیوں کے باعث پہچانا جاتا ہےاور شاعری میں بھی وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے عہد میں جاری روش سے ہٹ کر راستہ اپنائے۔قمررضا شہزادؔ کو بھی اپنی شاعری کی انفرادیت اور بیان سے  ہٹ کر بات کرنے کا ادراک تھا اور یہ بھی وہ حق کو حق اور باطل کو باطل  کہہ کر اپنے لیے مشکلات پیدا کررہے ہیں لیکن بیان سے انحراف اور عام ڈگر سے جدا ہوکر ہی نیاپن آتا ہے۔ شاکر حسین شاکر ” یاد دہا نی “ کے فلیپ پر ان کے فن کا اعتراف  کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ قمررضاشہزادنے مقبول اور معیاری شاعری کے ساتھ ساتھ تازہ اسلوب کے ذریعےاہلِ ذوق کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔اس کی اپنی لفظیات اور ایک اپنا جہانِ معنی ہےجو ہمیں کسی اور کے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔وہ لفظوں کوبرتنے اور نئے معانی دینے کا ہنرجانتا ہے۔مکمل سیا سی اور سماجی شعور کے ساتھ شعر کہنا اور پھر شعریت کو بھی برقرار رکھناکوئی آسان کام نہیں۔ لیکن قمررضا شہزاد نے یہ کام بہت سہولت کے ساتھ کیا ہے۔

؎ہوا کو اپنے خلاف میں کررہا ہوں

چراغ کا اعتراف میں کررہا ہوں

جو ہوسکےمیرے لفظ محفوظ کر لو

بیان سے انحراف میں کررہا ہوں(۱۷)

قمررضا شہزادکی غزل مکالماتی و ڈرامائی رنگ لیے ہوئے ہے اور   کلام کی یہی خوبی انہیں   ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے۔  ڈاکٹر ابرار احمد  مضمون ”بیسویں صدی کے اواخر کی غزل“ میں اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھتے  ہیں کہ قمررضاشہزادؔزمین سے وابستگی رکھنے والا شاعر ہے۔اس کی غزل ہمیں مکالمے کی فضا میں  لے جاتی ہےجہاں وہ کبھی خود سے کبھی ہم سے کبھی غائب سے کبھی حاضر سے اور کبھی خدا  سے کلام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ قمر رضا شہزادؔ کاشما ر بھی ان شعراء میں ہوتا ہے جو نیا لہجہ متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ اپنی روایت سے بھی پورےطور پر جڑے رہے  ان کے ہاں عشق میں غالب،کہیں فیض کا جارحانہ،تو کہیں اقبال کی شاعری کا رنگ و انداز دیکھا جا سکتا ہے۔اقبالؔ بندگی اور مسجودِ ملائک کی بنا پر انسان رہنا چاہتے ہیں توشہزاد یہاں بھی انا کی گٹھری اٹھائےہوئے ہیں۔وہ فرشتہ بن کر انا کا خاتمہ نہیں کرنا چاہتے۔

؎مرا غرورِ انا بھی مٹایا جانے لگا

میں آدمی سے فرشتہ بنایا جانے لگا(۱۸)

کبھی لمبی اور کبھی چھوٹی بحروں  میں نہایت  خوبصورتی سے شعر کہتے ہیں،جن  میں ترنم اور موسیقیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ہر شاعر اور خصوصاً بڑے شاعر  کی نظر اپنے حالات وواقعات کے علاوہ بھی دیکھ سکتی ہے،دینی ماحول سےتعلق رکھنے کے سبب قمر رضاشہزادؔ کے ہاں ان واقعات کی باز گشت جابجا ملتی ہے۔ آدم ؑ و حوّا کا پورا احوال اور انسان کے دنیامیں وارد ہونے کو  اس طرح بیان کرتے ہیں۔

؎فلک کے پار مرا خاندان میرامکان

میں     اس     زمین پہ آیا ہوں ورغلایا ہوا

میں اک شکست ہوں اور حوصلے سے جھیلی ہوئی

میں ایک زخم ہوں اور سامنے سے آیا ہوا(۱۹)

شاعر کی  باریک بین نگاہ  کا اندازہ حیات وکائنات کے مسائل کی عکاسی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔یہی ایک شاعر کا خاصا ہے کہ تمام مضامین بیان کرتے ہوئے بھی اس کا ذہن اور نگاہ اصل اور اپنی ابدی منزل سے نہ ہٹ سکے۔

؎مَیں روزو شب جسے پیروں تلے کچلتا ہوں

پناہ دے گی کسی دن یہی زمین مجھے(۲۰)

قمر رضا شہزادؔ کی شاعری  میں  فکری کے علاوہ فنیّ خوبیاں بھی لائقِ توجہ ہیں۔ صنعتِ تضاد بکثرت موجود ہے۔ نئی نئی تراکیب،استعارات و تشبیہات بھی کلام کی رنگینی میں اضافہ کرتی ہیں۔خالد اقبال یاسرؔ ان کی کتاب ”پیاس بھرا مشکیزہ “کے آغاز میں شاعری سے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے  ہیں کہ قمررضاشہزادؔسہولت کے ساتھ شعر کہتا ہے۔اس کے مصرعے عام طور پر نثری ترتیب سے قریب تر ہوتے ہیں۔اس کی کوشش یہی ہوتی ہےکہ وہ نئی زمینیں دریافت کرے،میلے لفظوں کو مَس نہ کرے اور کبھی ایسا نہ کرسکے  توبھی ان میں سے  تر و تا ز گی،نیا پن اور نئی پرتیں ضرور برآمد کرے۔

؎مرےلیے بنائی تونے کائنات

مگر  میرا   کہیں    اتاپتا         نہیں

چہار سمت میں ہوں اور کمال ہے

مرے سوا کوئی بھی لاپتا نہیں(۲۱)

 قمررضا شہزادکی غزل لفظی و معنوی خصوصیات کی حامل ہے۔ان کی آواز اپنی اثر آفرینی اور بے ساختگی کے سبب سب منفرد اور جدا ہے۔آسان اور سادہ الفاظ کو اس پرُکاری سےترتیب دیتے ہیں گویا نگینے جڑدئیے ہوں ۔روایت اور جدت کاحسین امتزاج  لیے ان کی شاعری شاندار مستقبل کی غماز ہے۔ بقول مرتضیٰ برلاس:

”میں پورے اعتماد سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ لفظی اور معنوی یکسانیت کے حامل جدیدغزل گو شعراکے  ہجوم میں قمررضاشہزادؔکی غزل اپنی اثرآفرینی اور بے ساختگی کی وجہ سے اہم اورجاندارہے۔روایت اور جدت کا معتدل امتزاج قمررضاشہزادؔکے شاندار مستقبل کی نشاندہی کررہا ہے۔“(۲۲)

بہر حال مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عہد جدید میں خاص طور پر غزل گو شعراء کی بھیڑ میں ایک با رعب اور جاندار آواز  جو ہمیں متوجہ

کرتی ہے وہ قمر رضا شہزادکی ہے۔وہ آواز جس میں میرؔکا سا غم و الم،غالب ؔ کی طرح تنک لہجہ،فیض و افتخار عارف کی مزاحمت کا حسین امتزاج بھرا پڑا ہے۔اور قاری آج کے دور کے شاعر کا مطالعہ کرتے ہوئے نہ صرف قدیم روایات وتلمیحات سے جڑ جاتا ہے بلکہ کربلا کا واقعہ بھی عصرِ حاضر کے تناظر میں سمجھنے کی سعی کرتا ہے۔الغرض قمررضا شہزاد کی شاعری اپنی تمام تر خصوصیات کو لیے نہ صرف  آج کے انسان کی عکاسی کرتی ہے بلکہ انہیں  ادبی طور پر بھی معتبر ٹھہراتی ہے۔ ان کی غزل کا یہ لہجہ انہیں دیگر ہم عصروں سے کرتا ہے۔جدید غزل کی تاریخ قمررضا شہزادکے بنامکمل نہیں ہوسکتی۔

٭٭٭٭٭

حوالہ جات:

۱۔ شارب ردولوی،”اردو غزل:نئی صدی میں“ ،مشمولہ:اکیسویں صدی میں اردو غزل،منصور خوشتر،ڈاکٹر،(مرتب)،نئی دہلی:دریا گنج نیو پرنٹ سینٹر،سن اشاعت۲۰۱۷ء،ص ۵۶۔

۲۔ قمررضا شہزاد،پیاس بھرا مشکیزہ،لاہور:ورّاق پبلی کیشنز،سن اشاعت بار چہارم۲۰۱۷ء،ص۵۷۔

۳۔ قمررضا شہزاد،ہارا ہواعشق،لاہور:پرائم پبلشرز،سن اشاعت بار سوّم۲۰۱۷ء،ص۳۷۔

۴۔ قمررضا شہزاد،پیاس بھرا مشکیزہ،لاہور:ورّاق پبلی کیشنز،سن اشاعت بار چہارم۲۰۱۷ء،ص۱۰۵۔

۵۔ قمررضا شہزاد،یاددہانی،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت ایڈیشن دوم۲۰۱۹ء،ص۷۵۔

۶۔ قمررضاشہزاد،بارگاہ،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت۲۰۲۰ء،ص۱۱۱۔

۷۔ ابرار احمد،ڈاکٹر،(فلیپ)،مشمولہ: ہارا ہواعشق قمررضا شہزاد، لاہور:پرائم پبلشرز،سن اشاعت بار سوّم۲۰۱۷ء۔

۸۔ قمررضا شہزاد،ہارا ہواعشق،لاہور:پرائم پبلشرز،سن اشاعت بار سوّم۲۰۱۷ء،ص۸۳۔

۹۔ قمررضا شہزاد،خامشی،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت۲۰۱۹ء،ص۹۲۔

۱۰۔ایضاً ،ص۹۵،۹۶۔

۱۱۔ایضاً،ص۴۴۔

۱۲۔عباس تابش”بنام قمررضا شہزاد“مشمولہ: پیاس بھرا مشکیزہ، قمررضا شہزادؔ، لاہور:ورّاق پبلی کیشنز،سن اشاعت بار چہارم۲۰۱۷ء، ص۱۱

۱۳۔ایضاً،ص۵۳۔

۱۴۔قمررضا شہزاد،ہارا ہواعشق،لاہور:پرائم پبلشرز،سن اشاعت بار سوّم۲۰۱۷ء، ص۷۹۔

۱۵۔ اشرف کمال،ڈاکٹر،تاریخ اصنافِ نظم ونثر(مع اقسام)،کراچی:سٹی بک پوائنٹ،سن اشاعت۲۰۱۹ء،ص۱۰۰۔

۱۶۔قمررضا شہزاد،پیاس بھرا مشکیزہ،لاہور:ورّاق پبلی کیشنز،سن اشاعت بار چہارم۲۰۱۷ء ،ص۷۸۔

۱۷۔ایضاً،ص۸۹۔

۱۸۔ قمررضا شہزاد،یاددہانی،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت ایڈیشن دوّم۲۰۱۹ء،ص۵۵۔

۱۹۔ایضاً،ص۱۴۶۔

۲۰۔ قمررضا شہزاد،خامشی،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت۲۰۱۹ء ،ص۸۹۔

۲۱۔ قمررضاشہزاد،بارگاہ،لاہور:شرکت پرنٹنگ پریس،سن اشاعت۲۰۲۰ء،ص۱۰۵۔

۲۲۔ مرتضیٰ برلاس،(فلیپ)،مشمولہ:پیاس بھرا مشکیزہ،قمررضاشہزاد، لاہور:ورّاق پبلی کیشنز،سن اشاعت بار چہارم۲۰۱۷ء۔

٭٭٭

Leave a Reply