فوزیہ مغل
فرینکفرٹ ، جرمنی
جرمن فلسفی نطشے کا نظریہ ٴفوق البشر
جرمنی کے شہر روکن Rocken میں 15اکتوبر 1844ء کو کارل لڈوِگ نِطشے اور فرانسسکا نطشے کے گھر میں فریدریش ولہیم نطشے کی پیدائش ہوئی، نطشے کے والد کارل نطشے اپنے علاقے کے پادری کے منصب پر فائز تھے نطشے سے دو سال بعد اس کی بہن کی پیدائش ہوئی بہن کا نام تو والدین نے الیزبتھ رکھا تھا مگر آگے چل کر نطشے اپنی بہن کو ہمیشہ”لاما” کے نام سے پکارتا وہ اپنی چھوٹی بہن کا بہت خیال رکھتا، نطشے کا خوبصورت ہنستا مسکراتا گھر اس وقت تقریباً ٹوٹ ہی گیا جب نطشے کے والد کارل نطشے کا صرف 36 برس کی عمر میں انتقال ہوا گیا۔
نطشے کی والدہ فرانسسکا نطشے شوہر کی وفات کے بعد اپنے بچوں کے ہمراہ اپنے سسرالی گھر نیومبرگ (Neumburg) میں منتقل ہو گئی اس وقت نطشے کی عمر تقریباً پانچ سال تھی، اور اس کا خاندان پروٹسٹنٹ پادریوں کا خاندان تھا۔
نطشے کی تعلیم کی ابتدا بھی یہاں کے مقامی پروٹیسٹنٹ چرچ سے شروع ہوئی جبکہ آگے چل کر نطشے ان مزہبی روایات کے سخت خلاف ہوگیا تھا اور عمر بھر کیا آخری دم تک خلاف ہی رہا، اس بات کا ثبوت ان کا اپنی بہن کو آخری وصیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
علامہ اقبال نے بھی اسی لیے نطشے کے متعلق نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اظہار کیا ہے ،انکا دل تو مومن تھا مگر دماغ کافر تھا،اس کی وجہ علامہ اقبال کے نزدیک یہی رہی ہو گی کہ نطشے کا وجدانی کیفیت میں عالم لاہوت کی جھلک دیکھنا تھی علامہ اقبال کے خیال میں مرشد کامل کے بغیر صحیح رہنمائی نہیں ہوتی اور انسان وجدانی کیفیت کو بھی ٹھیک سے نہیں پرکھ سکتا اور نہ ہی اس پر اس طرح عمل پیرا ہو سکتے جو صرف مرشد کی رہنمائی سے ہی ممکن ہے۔
بہرحال نطشے کا ایک اپنا نظریہ تھا انہوں نے روایتی اخلاقی و سماجی رویوں کو چیلنج کیا اور انسان کو اپنے نقطہ نظر سے سوچنے کی ترغیب دی بلکل اسی طرح جیسے مولانا رومی رحمۃ نے خود ساختہ مذہبی روایات کی سختی کو مسترد کرتے ہوئے انسان کو اپنے لیے روحانی سچائی تلاش کرنے کی راہ دکھانے کو کوشش کی تھی اور نطشے نے بھی اپنی تمام تصانیف میں ان کی سخت مخالفت کی۔
دس سال کی عمر میں نطشے Schulpiorta کے گنازیم میں داخل ہوا جو ان کے گھر ناؤمبرگ سے تین میل کے فاصلے پر تھا۔ بچپن ہی سے نطشے بہت خاموش طبع واقع ہوا تھا سنجیدگی کے باعث دوست اور قریبی عزیز اسے چھوٹے پادری کے نام سے پکارے تھے گھر کے خالص مذہبی ماحول نے بچپن میں اس پر گہرا اثر ڈالا تھا اسے اپنے عیسائی مذہب سے عقیدت کی حد تک لگاؤ تھا مذہبی راگ اور انجیل کی آیتیوں کو وہ اس قدر پر سوز آواز میں گاتا کہ سننے والوں کی آنکھیں نم ہو جاتی تھی سچ بولنے کی عادت پیدائشی طور پر ان کے رگ و پے میں سرایت تھی اور ان کی بہن الزبتھ ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ جھوٹ بولنا ہم نواب زادگان کو زیب نہیں دیتا کیونکہ انکی بہن کو ہمیشہ اپنے آباو اجداد کی شرافت پر بہت فخر رہا ہیاور وہ فخر کرنے میں حق بجانب تھے ان کا خاندان ایک زمانے میں پولینڈ کے نوابوں میں شمار ہوتا تھا پروٹسٹنٹ ہونے کی وجہ سے پولینڈ سے ہجرت کر کے جرمنی میں پناہ گزیں ہونا پڑا تھا اور جرمنی صرف فیملی یا پورے خاندان کو پناہ دینے کے معاملے میں ہمیشہ فراغ دلی کا مظاہرہ کرتا ایا ہے یہ روایت دسمبر 2015 تک ہی محدود نہیں اس کی شروعات بہت پرانی ہے۔۔1860 میں انہوں نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی جس کا نام گرمانیا Germania تجویز کیا گیا۔
موسیقی کے حوالے سے انہیں ریچرڈ واگنر Richard Wagner بہت پسند تھا۔اسی زمانے میں موسیقی کے ساتھ ساتھ اس کا رجحان طبع علوم کی طرف بھی مبذول ہونا شروع ہو چکا تھا یوں گنازیم کی تعلیم کے دوران ہی انہیں یونانی اور لاطینی پڑھنے کا بے حد شوق پیدا ہو گیا تھا اور یہ شوق اس حد تک بڑھتا گیا کہ جب 1864 میں بون Boon یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تو ان کی توجہ انھیں زبانوں کی طرف مائل تھی۔
مذہبی عقیدت انکی بون یونیورسٹی میں داخلہ کے بعد کچھ وقت قائم رہی۔ کیونکہ بون یونیورسٹی میں تعلیم کے دوران ان میں بہت سی زہینی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔بون یونیورسٹی میں نطشے کا ماہر لسانیات یونانی و لاطینی ولہیم ریتشل Wilhelm Ritschel کے ساتھ بہت گہرا علمی تعلق استوار ہوا اس وقت تک نطشے پروٹسٹنٹ عیسائیت قدیمیات یونانی ولاطینی اور موسیقی بالخصوص واگنر کی موسیقی کے زیر اثر تھا،خود نطشے کے خطوط سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ Boon کے زمانہ تعلیم میں ہی اس کے دل دماغ میں عیسائیت سے بغاوت کی ہلکی سی ابتدا ہونا شروع ہوئی تھی اور اس میں شدت اس وقت آئی جب ریتشل کا 1865 میں بون سے لائپسک Leipzig میں تبادلہ ہوا تو نطشے نے بھی بون یونیورسٹی سے اپنا نام خارج کروا کے لائپسک یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا وہ Leipzig میں 1865 سے 1867 تک زیر تعلیم رہا اسی دوران انہوں نے شوپن ہاور schopenhauer کی کتابوں کے مطالعہ نے ان کی مزہب سے بغاوت کے جذبے کو ایک واضح و حتمی شکل دے دی اس سے متعلق نطشے کہتے ہیں ایک دنSchopenhauer کی ایک کتاب میری نظر سے گزری اُس سے پہلے میں نہ شوپن ہاور سے نہ ان کی کتاب سے واقف تھا میں نے ایسے ہی اس کتاب کی ورق گردانی شروع کر دی نہ جانے کیوں اسی وقت میرے دماغ میں خیال آیا اس کتاب کو خریدا جائے
میں نے فوراً اس کتاب کو خرید لیا گھر پہنچ کر جب اسے پڑھنا شروع کیا تو اس کتاب کے گہرے اثرات میرے دماغ پر اثر انداز ہونے لگےاس کتاب کی سطر سطر سے دنیا سے دست بردار سی ٹپکتی تھی مجھے یہ کتاب ایک آئینہ لگی جس میں دنیا اور زندگی عجیب و بھیانک روپ میں نظر آ رہی تھی۔ اس میں جلا وطنی کے دکھ ، دوزخ اور جنت، کی کیفیت، بیماری اور علاج کو حقیقی معنوں میں، میں نے محسوس کیا جس سے میری روح شدید روحانی کرب میں مبتلا ہو گی،اسی کرب بھری کیفیت نے نطشے کی راتوں کی نیند کم کر دی خوشی کی کیفیت مایوسی میں ڈھل گئی اور شاید نوبت خود کشی تک پہنچ جاتی۔ اس وقت نطشے کی یونانی اور لاطینی لسانیات میں دلچسپی نے اسے بہت سہارا دیا۔ اور ساتھ رضاکارانہ خدمات بھی سرانجام دیں اسی گومگو کی کیفیت میں ایک بار نطشے گھوڑے پر سوار ہوتے ہوئے گر پڑے اس میں خاصے زخمی ہوئے بستر علالت کے دوران ہی اپنے ڈاکٹری کا تھیسس مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بامقصد ہونے پر ایک کتاب کا خاکہ بھی تیار کیا۔
جنوری 1869 میں نطشے کو یونیورسٹی آف باسل میں یونانی زبان اور ادب کے لیے جاب پیشکش ہوئی اس وقت نطشے کی عمر صرف 25 سال تھی اور ابھی پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اتنی کم عمری اتنی شاندار پروفیسر کی جاب مل جانا زندگی کی بہت بڑی کامیابی تھی اس کامیابی کے پیچھے ولہیم ریتشل Wilhelm Ritschel کا بہت عمل دخل تھا ریتشل نے ہی اپنے شاگرد نطشے کے بارے میں یہ تاریخی الفاظ کہے” کیا شاندار انسان ہے گویا فطرت انسانی کی ایک نئی وحی”
باز یونیورسٹی میں جاب سے پہلے نطشے پیرس میں قدرتی علوم کی تعلیم حاصل کرنے کا سوچ رہا تھا مگر اس افر کے بعد اپنی مزید تعلیمی خواہش کو دبا کر فورآ لیپزگ یونیورسٹی سے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی اور جاب پر پوری توجہ دینا شروع کر دی، اسی دوران انکی کتاب بھی مکمل ہوئی اور بہت سی نئی دوستیاں بھی ہوئیں ان کی جاب کے حوالے سے جو بعض لوگوں نے اقربا پروری کا الزام لگایا گیا تھا اس میں بھی واضح طور کمی ہوئی مگر 1873 کے آغاز کے ساتھ ہی انہیں صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا جو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا 1876 میں مجبوراً انہیں ایک سال کی چھٹی لینا پڑی۔ انہوں نے جاب اور بیماری کو اپنے لکھنے کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہونے دیا۔ ایک سال کی چھٹی کے بعد دوبارہ یونیورسٹی میں کام شروع کیا۔ مگر انکی صحت کے مسائلِ بڑھتے ہی گئے بالآخر 1879 میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے وقت سے پہلے استعفیٰ دیا تھا مگر بازل یونیورسٹی آخری وقت تک پوری تنخواہ پینشن کے طور پر ادا کرتی رہی جس سے انہیں کبھی مالی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔یونیورسٹی کی لسانیات کی جاب سے علیحدگی کے بعد فلسفے کی طرف راغب ہوگیا اور انکا زیادہ وقت اٹلی میں گزرنے لگا۔
نطشے صحت اور محبت کے معاملے میں کچھ زیادہ خوش نصیب واقع نہیں ہوا اسے محبت اس لڑکی سے ہوئی جو اس سے خلوص و عزت کے ساتھ دوستی تو رکھ سکتی تھی مگر شادی نہیں کر سکتی تھی۔ میں اس لڑکی کو اگر یورپ کی عطیہ فیضی کا لقب دیدو تو کچھ غلط نہ ہو گا،اس لڑکی کا نام لوو آندراس سالومہ Salome Lou Andreasتھا جو روسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی جس سے نطشے کی پہلی ملاقات روم کے مصنف پاؤل ری Paul R-E9e نے اپریل 1882میں روم میں ہی کروائی تھی۔ سالومہ اٹلی میں ہی اپنی والدہ کے ساتھ مقیم تھی اور یہاں روم کی ہی یونیورسٹی میں پاؤل ری کے ساتھ زیر تعلیم تھی نطشے پہلی ملاقات میں ہی 21 سالہ سالومہ کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا پاؤل ری اور سالومہ کے درمیان بہن بھائی جیسا تعلق تھا، پہلی ملاقات کے فوراً بعد ہی نطشے نے پاؤل ری کے زریعے سالومہ کو شادی کا پیغام بھجوایا جو اس نے مسترد کر دیا کیونکہ وہ نطشے میں ایک دوست کے طور پر دلچسپی رکھتی تھی لیکن شوہر کے طور پر نہیں اس انکار کے باوجود نطشے ناامید نہیں ہوا ۔ کچھ دنوں کے بعد نطشے پاؤل ری اور سالومہ ایک ساتھ اٹلی سے سوئٹزرلینڈ کے سفر پر نکلے اسی دوران ایک دن جب نطشے اور سالومہ اکیلے تھے تو نطشے نے ہمت کر کے ایک بار خود اسے پرپوز کیا مگر اس نے پہلے کی طرح اس بار بھی مسترد کر دیا۔ جب کسی طرح نطشے کی محبت کی خبر اس کی بہن الزبتھ تک پہنچی تو اس نے نطشے کو اس سے دور رہنے کی ہدایت کی۔ مگر محبت کب کسی کی سنتی یا مانتی ہے محبت میں محبوب کی پرچھائی بھی محبوب کا ہی درجہ رکھتی ہے۔ اسی لیے نطشے سالومہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے ہیلے بہانے تلاش کرتا اکتوبر 1882 میں ایک بار پھر تینوں نے اکٹھے لیپزگ کا سفر کیا اس بار کئی ہفتے ایک ساتھ گزارے۔ پھر اچانک ہلکی سی سرد مہری کے ساتھ کچھ بھی آیندہ کا پلان بتائے بنا سالومہ اور پاول ری نطشے سے الگ ہو کر اگلے سفر پر نکل گئے جس سے نطشے کو جذباتی طور شدید کرب سے گزرنا پڑا، یہ سالومہ کے ساتھ نطشے کی آخری ملاقات ثابت ہوئی اپریل سے اکتوبر تک کی محبت بھری کیفیت ہی نطشے کے لیے شایدکافی تھی کیونکے پھر کبھی اس نے کسی کی جانب محبت کا ہاتھ نہیں بڑھایا۔ بعد میں جب سالومہ اور پاؤل ری کی سرد مہری کی اصل وجہ نطشے پر آشکار ہوئی اس کو اور زہنی کرب میں مبتلا کر گئی ان کی سرد مہری کی وجہ نطشے کی بہن کے وہ خط تھے جو اس نے سالومہ اور پاؤل ری کی فیملی کو لکھے تھے۔ نطشے اپنی سب سے عزیز چھوٹی بہن الزبتھ جسے ہمیشہ پیار سے لاما کے نام سے پکاتا تھا سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایسا کر سکتی۔ خیر بہن کے بھائی کے حوالے سے اپنے تحفظات ہوگے۔
سالومہ نے بعد میں 1885 میں فریدریش کارل سے شادی کی جو کوئی خوشگوار شادی ثابت نہیں ہوئی مگر پھر بھی 1930 تک کارل کی وفات چلی اس ناخوشگواری کی وجہ سالومہ کے بہت سے نامور لوگوں کے ساتھ مراسم رہے ہیں نطشے سے لیے سگمنڈ فرائڈ تک۔ یہاں ایک بات میں لکھنا ضروری سمجھتی ہوں کارل کی وفات سے کچھ وقت پہلے سالومہ بہت بیمار ہوئی دل کے عارضے اور شوگر کی زیارتی نے اسے بہت نڈھال کر دیا تھا جس کے باعث اسے ہاؤسپٹل میں داخل ہونا پڑا تو اس کا شوہر کارل روز بلا ناغہ اس کی عیادت کے لیے ہاؤسپٹل جاتا جبکے انہی دنوں اسکے اپنے پاؤں کا آپریشن بھی ہوا تھا اور وہ خود کینسر جیسے مرض میں بھی مبتلا تھا اسی سال ہی یعنی1930 میں انکا انتقال ہو گیا اس کے سات سال بعد سالومہ کی وفات ہوئی اسے اپنے شوہر کی قبر میں ہی دفن کیا گیا۔
نطشے کی زندگی کا سب سے اہم دور 1884 سے 1886 کا ہے جس میں وہ ”بقول زرتشت کے ” Also sprach Zarathustra کتاب کے ساتھ شروع ہوتا ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے ا س وقت ان کے پاس زندگی کے سب تجربے عملی سفر طے کر چکے ہوتے ہیں مثلاً کامیابی، محبت، ناکامی، بیماری سب سے گزر چکا ہوتا اس کتاب میں انہوں نے عام اور خاص انسان کا فرق ،فوق البشر ، کے تصور کے ساتھ پیش کیا اس کتاب میں وہ منکر خدا تو لگتا ہے مگر مکمل کافر نہیں وہ انسان کو کسی رہنما کی رہنمائی کے بغیر آگے بڑھنے کا درس دیتا ہے وہ خاص انسان کو فوق البشر کے روپ میں دیکھنے کا متمنی ہے ۔ عام انسان کی تو انکے نزیک کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ اس کتاب پر اس وقت کی صورتِ حال کا بھی وہ اثر لگتا ہے جس سے وہ گزر رہا ہوتا ہے وہ کسی طرح بھی اپنی مجذوب تنہائی اور بیماری کواپنی کمزوری نہیں بلکہ اپنی طاقت سمجھتا ہے اپنی اسی طاقت کو شعوری یا لاشعوی طور پر فوق البشر کے روپ میں ڈھال دیتا ہے اس کتاب کی پذیرائی کے بعد ابھی وہ اٹلی میں ہی رہائش پذیر تھا کہ ایک دن کہیں جاتے ہوئے راستے میں بہیوش ہو کر گر پڑا۔ وہاں کے مقامی لوگ اسے اٹھا کر گھر لائے، لیکن وہ کئی روز تک بے حرکت نیم ہے ہوشی کی حالت میں پڑا رہا کچھ دنوں کے بعد انکی جسمانی صحت تو تھوڑی بہتر ہوگی مگر زہنی کمزوری میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ ان کی بیماری کی خبر جب انکے بازل یونیورسٹی کے قریبی دوست اوور بک تک پہنچی تو وہ فوراً اٹلی پہنچے اور نطشے کو اپنے ہمراہ بازل لے آئے اور بازل کے دماغی جینا gena کلینک میں ایڈمٹ کروا دیا جہاں وہ 8 ماہ کے لگ بھگ زیر علاج رہے مگر اتنے طویل علاج کے باوجود بھی ان کی دماغی حالت مکمل طور پر ٹھیک نہ ہو سکی تو پھر ایک دن ان کی والدہ فرانسسکا انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئی 1889 سے لے کر اپنی والدہ کی وفات 1897 تک وہ” 18 وائن گارٹن نیوئمبرگ ” میں ماں کے ساتھ رہا ماں کی وفات کے بعد 1897 کو ان کی بہن الزبتھ (لاما) اپنے ساتھ وائمر لے آئی اور ان کی دیکھ بھال کرنے لگی یہاں ہی نطشے نے اپنی بہن کے نام ایک خاص وصیت لکھی تھی
” وعدہ کرو کہ میرے مرنے ک بعد صرف میرے دوستوں کو میرے تابوت کے قریب آنے کی اجازت دو گی اور عوام کو میری لاش سے دور رکھو گی کیونکہ وہ خواہ مخواہ ہر بات کو کریدنے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھنا کوئی پادری یا کوئی اور شخص میری قبر پر کھڑا ہو کر کوئی جھک نہ مارے کہ میں اس وقت مدافعت نہ کر سکوں گا میں کافر اور مشرک ہوں اور اسی حیثیت سے مجھے قبر میں اتار دینا وائیمر جہاں گوئٹے، شلر،نے اپنی زندگی کا خوبصورت دور گزارا اور وہاں ہی آسودہ خاک ہیں اسی شہر میں شوپن ہاور بھی ہمبرگ میں اپنے والد کی ناگہانی وفات کے بعد اپنی والدہ کے ساتھ زمانہء طالب علیمی میں کچھ وقت یہاں مقیم رہے ہیں۔
25 اگست 1900 کے اداس دن میں نطشے کی زندگی کی شام بھی یہاں ہی ڈھلی۔ نطشے کے انتقال پر جینا ہاوسپٹل نے ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں ان کی وفات کی وجہ دماغی فالج لکھا۔ اور انہیں ان کے آبائی گھر رکن Rocken میں جہاں وہ 15 اکتوبر 1844ء کو پیدا ہوا تھا وہی انہیں سپردِ خاک کر دیا گیا۔۔
23 دسمبر 2023 ء بروز ہفتہ
وایئمر Weimar Germny
فوزیہ مغل