You are currently viewing ’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری‘‘ پر ایک نظر

’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری‘‘ پر ایک نظر

محمد الیاس کرگلی

 ریسرچ اسکالر، دہلی یونی ورسٹی۔

’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری‘‘ پر ایک نظر

کسی خیال ، جذبے یا کسی لمحاتی کیفیت کو پرلطف انداز میں پیش کرنے کو انشائیہ نگاری کہا جاتا ہے۔ یہ صنف مضمون کی مانند لگتی ہے مگر منفرد انداز رکھتی ہے۔ یہاں بات کو کسی خاص نتیجے کے بغیر ختم کر دیتا ہے اور نتیجہ قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔ محققین نے اس صنف کی مختلف تعریفیں کی ہیں، مگر ہمیں یہاں فنِ انشائیہ پر گفتگو مقصود نہیں ہے۔ اس لئے اس تنگ دامانی اور عدم گنجائش کے پیش نظر ہم متذکرہ بالا عرفان الحق کی نئی تصنیف ’’جموں و کشمیر میں اردو نشائیہ نگاری‘‘ پر بات کرتے ہیں۔

عرفان الحق کا شمار جموں و کشمیر کی نئی نسل کے نوجوان مصنفوں میں ہوا ہے۔ جموں و کشمیر میں صوبہ جموں کے پہاڑی ضلع راجوری کے بڈھون سے آپ کا تعلق ہے۔ تعلیم و تعلم کے سلسلے میں دہلی میں مقیم ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ دہلی کی تین مشہور دانش گاہوں سے اکتساب فیض کا انہیں موقع ملا ہے۔ بی۔اے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے، ایم۔اے جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی سے اور ایم۔ فل کی ڈگری دہلی یونی ورسٹی سے حاصل کی ہے۔ اس وقت دہلی یونی ورسٹی سے ہی پی ایچ۔ڈی کر رہے ہیں۔ان کی خودقسمتی کہیے کہ انھیں پروفیسر مشتاق عالم قادری جیسا مشفق، درد مند اور مخلص استاد کی زیر نگرانی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ ادبی محافل میں فعال رہتے ہیں اور زیر نظر کتاب بھی اسی فعالیت کی مثال پیش کرتی ہے۔ امور خانہ داری ، زندگی کے دیگر گوناں گوں مسائل اور اپنے اکاڈمیک کام کے ساتھ ساتھ نئی کتاب کی اشاعت ہر چند مشکل کام ہے لیکن عرفان الحق نے یہ کر دکھایا ہے جس کے لئے وہ مبارکبادی کے مستحق ہے۔

’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری‘‘ میں مصنف نے ریاست جموں و کشمیر کے نمائندہ انشائیوں کو مرتب کیا ہے جس میں ریاست کے مشہور انشائیہ نگاروں کی تخلیقات شامل ہیں۔تیرہ انشائیوں پر مشتمل یہ کتاب قارئین کے لئے اس لئے اہم ہے کہ اس میں شامل سارے انشائیے چنندہ، منفرد اوردلچسپ ہیں۔ چند ایک وہ انشائیہ نگار بھی ہیں جو انشائیہ نگار کے ساتھ ساتھ نقاد بھی ہیں اور اس فن پر گہری نظر رکھتے ہیں، جن میں بشمول پروفیسر محمد زمان آزردہ، پروفیسر منصور احمد منصور اور گلزار احمد وانی شامل ہیں۔ان تینوں شخصیات کے فن انشائیہ سے متعلق مضامین بھی شامل کتاب ہیں۔ کتاب کے پیش لفظ میں مصنف نے پوری کتاب کے متعلق سیر حاصل گفتگو کی ہے جس میں انھوں نے ریاست جموں و کشمیر میں صنف انشائیہ نگاری کے متعلق مختصر بحث کے ساتھ ساتھ ریاست کے نمائندہ انشائیہ نگاروں کے کارناموں کا ذکر بھی کیا ہے، جن میں پروفیسر زمان آزردہ کا بطور خاص ذکر ہے۔ ان کے اب تک کل چھے انشائیوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔زیر نظر کتاب میں ان کا انشائیہ ’’چاند سے عید تک‘‘ شامل کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں پروفیسر زمان آزردہ کا مضمون شامل ہے جس میں انھوں نے صنف انشائیہ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے انشائیہ کا آغاز،انشائیہ کی خصوصیات، انشائیہ کی زبان کے علاوہ مضمون اور انشائیہ میں فرق و مقالہ اور انشائیہ جیسے ذیلی عناوین کے ساتھ صنف انشائیہ پر جامع بحث کی ہے۔ پروفیسر منصور احمد کا مضمون ’’انشائیہ کے متعلق چند باتیں‘‘ اس کتاب کو مزید اہم بناتا ہے۔ گو کہ صنف انشائیہ کی جامع تعریف اب بھی حل طلب ہے لیکن آٹھ صفحات پر مشتمل یہ مضمون بھی صنف انشائیہ کو سمجھنے میں کافی مدد دیتا ہے۔ انھوں نے اس صنف پر لکھی گئی مختلف تعریفوں کی روشنی میں اپنے مضمون کو مزید جاندار بنایا ہے۔ زیر نظر کتاب میں ان کا ایک انشائیہ بعنوان ’’آموں کے باغ سے سبز باغ تک‘‘ شامل ہے۔ اس کتاب کا اہم مضمون میری نظر میںڈاکٹر گلزار احمد وانی کا ’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری(اکیسویں صدی کے تناظر میں)‘‘ ہے۔ چونکہ کتاب کا عنوان ہی ’’جموں و کشمیر میں اردو انشائیہ نگاری‘‘ ہے، اس مناسبت سے یہ مضمون موضوع سے زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے جموں و کشمیر میں صنف انشائیہ کے متعلق بحث کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے بارہ نمائندہ انشائیہ نگاروں کی انشائیہ نگاری اور ان کی تصانیف کو شامل کیا ہے۔ انھوں نے لداخ کے عبدالغنی شیخ کو بھی اس زمرے میں رکھا ہے، وہ بنیادی طور پر افسانہ نگار ہے اور ان کے ہاں انشائیے خال خال نظر آتے ہیں، البتہ لداخ کے ضلع کرگل کے اسفندیار باقاعدہ طور پر انشائیہ نگار ہے جن کا نام اس مضمون میں شامل نہیں ہے۔ بحرحال یہ مضمون جموں و کشمیر میں انشائیہ نگاری پر ایک اہم مضمون ہے۔

ان تین مضامین کے بعد انشائیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اول الذکر پروفیسر زمان آزردہ کا انشائیہ آتا ہے۔ اس کے بعد برچ پریمی کا انشائیہ ’’باتیں توہمات کی‘‘ شامل کتاب ہے جس میں مختلف مکتبہ ٔ فکر اور گروہوں کے توہمات اور توہمات سے درپیش مسائل کا ذکر ہے۔ اب جب بات ہندوستان کی ہو تو پھر توہمات کا کیا شمار، ہندوستان جنتا رنگا رنگ ملک ہے ،شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک میں اتنی رنگا رنگی ہو، ایسے میں یہاں توہمات میں بھی رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ گویا ہندوستان کو نجومیوں اور جیوتشیوں کا ملک کہنا حق بجانب ہے۔ تیسرے نمبر پر شمیم احمد کا انشائیہ ’’ناک کا سوال‘‘ ہے۔ اس انشائیے میں سنجیدگی دیکھنے کو ملتی ہے، جو کہ کچھ ناقدین کی نظر میں انشائیے کا وصف نہیں ہے۔ انشائیہ نگار نے باریک بینی کے ساتھ کشمیر کی شادیوں میں ہو رے بے جا تصرفات اور اصراف پر قلم اٹھایا ہے۔ یہاں شادیوں میں مختلف قسم کے پکوان بنتے ہیںجو اب ایک معیار بن گیا ہے۔ اسی بنا پر ایک عام غریب آدمی اپنی اولاد کی شادی کرانے سے محروم رہ جاتا ہے،عزت اور وقار کی خاطر لوگ قرض دار ہو جاتے ہیں جو اب ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے۔ اس انشائیہ میں مزاح کا پہلو نہیں بلکہ طنز کا پہلو ضرور ہے۔ منصور احمد کا اس کتاب میں انشائیہ پر مضمون کے ساتھ ایک انشائیہ’’آموں کے باغ سے سبز باغ تک‘‘ بھی ہے۔ یہ انشائیہ پر لطف تو ہے ہی ،حسرت بھرا انشائیہ بھی ہے۔ انشائیہ نگار کو آم پسند ہے لیکن ان کا تعلق کشمیر سے ہے جہاں آم کے درخت نہیں پائے جاتے ہیں۔ ان کی تمنا ہے کہ ان کے آم کے باغ ہو اور وہ مزے سے آم چوس چوس کے کھائیں، چونکہ ان کو آم چوس کے کھانا پسند ہے۔ آم کاٹ کے کھانا چاہئے یا چوس کے کھانا چاہئے یہ خود آج کے زمانے کا اہم مسئلہ یا Discourse ہے۔ بعد از مسئلہ آم شفیع احمد کا انشائیہ ’’اخباربینی‘‘ آتا ہے۔ اس میں اخباروں کی رنگا رنگی، مختلف قسم کے اشتہارات اور دیگر دلچسپی کے سامانوں کے متعلق ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اخبار پر کوئی مضمون ہے لیکن مصنف نے اپنے تجربات کو شامل کر کے اسے پرلطف انشائیہ بنایا ہے۔ اگلا انشائیہ زنفرکھوکھر کا لکھا بعنوان ’’چمچے‘‘ ہے، جس میں انھوں نے چمچے کی تاریخ، اقسام ، خاصیت اور حیثیت کے پس پردہ ان لوگوں پر طنز کسا ہے جو چمچہ گیری میں مہارت رکھتے ہیں اور اس کام کو فخر سمجھتے ہیں۔ اس میں مصنف خود براہ راست شامل تو نہیں ہے البتہ یہ ان کے وسیع مطالعۂ سماج کا حاصل ہے۔ اس انشائیہ میں ایک اور اہم بات یہ کہ انھوں نے جگہ جگہ بر محل اشعار کا استعمال کیا ہے اور انشائیہ کے آخر میں چمچہ نوازی پر لکھا پورا ایک کلام ملتا ہے لیکن انشائیہ میں شامل سارے اشعار خود انشائیہ نگار کے ہیں اور ان میں ایک بھی مکمل شعر نہیں ہے، بس قافیہ پیمائی ہے۔ اگر دوسرے شعرا کے کلام کو شامل کرتے تو انشائیہ مزید بہتر ہو سکتا تھا۔ بہر کیف چمچہ گیری پر یہ ایک پر لطف انشائیہ ہے۔ اس کے بعد ایک اور انشائیہ ’’مکھی‘‘ ملتا ہے ، جو کہ راجہ نذر بونیاری کی تحریر ہے۔ انھوں نے باریک بینی سے مکھیوں کی زندگی اور انسانی زندگی میں ان کے کرداروں کو بیان کیا ہے۔ اردو میں مکھیوں کو لے کر استعارے اور دستور العام جملے بھی ملتے ہیں جیسے’’مکھی چوس‘‘، ’’فلاں شخص اپنی ناک پر مکھی کو بھی برداشت نہیں کرتا‘‘ وغیرہ کو بھی انھوں نے انشائیہ میں شامل کیا ہے۔ مکھیوں پر انھوں نے کافی تحقیقی کی ہے۔ ’’مکھی‘‘ کے بعد اسفندیار خان کا انشائیہ’’کہانی کتوں کی‘‘ آتا ہے۔ اسفندیار کا تعلق لداخ کے ضلع کرگل سے ہے، ان کا حال ہی میں انشائیوں کا مجموعہ ’’پرکالہ ٔ گفتار‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ یہ پر لطف انشائیہ ہے، جس میں مصنف نے کشمیر ی کتوں کی کہانی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ کشمیری کتوں کے بارے میں ایک ایرانی قفیر کی کہانی بھی شامل کی ہے جو کہ چلّہ کلاں یعنی سردیوں میں کشمیر آیا تھا۔ شہر میں داخل ہوتے ہیں کشمیری کتے اس پر حملہ آور ہوئے تو انھوں نے کتوں کو بھگانے کے لئے پتھر اٹھانے کی کوشش کی لیکن چونکہ سردی کا موسم تھا اور پتھر زمین کے ساتھ جما ہو تھا۔ ایرانی فقیر واپس ایران جا کے لکھتا ہے کہ ’’عجیب قومے دایدم کہ سگاں را کشادہ، و سنگ ہا را بستہ اند‘‘ یعنی میں نے ایک عجیب قوم کو دیکھا کہ جو اپنے کتوں کو کھلا چھوڑ کر رکھتی ہے اور پتھروں کو باندھ کر رکھتی ہے۔ کاچو اسفندیار نے انشائیہ میں دوسرے شعرا کے اشعار کو شامل کر کے تحریر کو پر لطف بنایا ہے۔ اکلا انشائیہ بعنوان ’’رئیس الحجام‘‘ ہے ،یہ مختصر انشائیہ ہے اور اس کا خالق محمد شفیع ایازؔ ہے۔ رئیس الحجام مختصر انشائیہ ہے لیکن خالی از دلچسپی نہیں ہے۔ انشائیہ نگار کا کمال یہ ہے کہ وہ کم لفظوں میں گہری بات کہہ جاتے ہیں۔ ویسے طوالت انشائیہ کا وصف نہیں ہے جس کا ایازؔ نے خاص خیال رکھا ہے۔ اس تحریر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خطابات اور القابات محض دل لبھانے کے لئے اچھا ہے، نام انسان کے کرم سے بنتا ہے۔ زیر نظر کتاب میں شامل اکلا انشائیہ دیپک بدکی کا ’’سونٹے‘‘ ہے۔ یہ ذرا طویل انشائیہ ہے جس میں لاٹھی سے سونٹے تک کا سفر دکھایا گیا ہے۔ انشائیہ نگار نے اپنے تجربات کو ہلکے پھلکے انداز میں بیان کیا ہے کہ کس طرح ان کی زندگی کا سفر جھڑی سے شروع ہوا اور مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر سونٹے تک پہنچ گیا۔ بچپن میں چھڑی کی مار والدین کی محبت تھی اور بڑے ہو کر سونٹے کا وار انتظامیہ کی مجبوری بن گئی جو قہر بن کر ان پر آگرا۔ پہلے عرض ہوا کہ زیر نظر کتاب میں شامل گلزار احمد وانی کامضمون اس کتاب کو پروقار بناتا ہے، مزید یہ کہ ان کا ایک انشائیہ بھی ’’غبارے‘‘ کے نام سے اس کتاب میں شامل ہے۔ انشائیہ نگار نے دو طرح کے غباروں کا ذکر کیا ہے ،ایک وہ غبارے جن میں ہوا بھر کر بچے کھیلتے ہیں اور ایک وہ غبارہ جو کثرت خوردنی کے سبب انسان کے ہاں پلتا ہے۔ رشوت خوری، ناجائز منافع خوری، اقتدار کی ہوس کے ساتھ ساتھ عدم اطمنان کی وجہ سے اکثر سرکاری ملازمین ضرورت سے زیادہ کھانہ کھاتے ہیں اور نتیجہ پیٹ پھلائے نظر آتے ہیں۔ اس انشائیہ میں حقیقت نگاری کے ساتھ طنز اور ہلکے سے ظریفانہ لب و لہجہ کا استعال بھی کیا ہے۔ اس کے بعد کا انشائیہ محی الدین زور کاشمیری کا ’’کشمیر کی دانشوری کا المیہ‘‘ ہے۔ یہ انشائیہ کشمیر میں تعلیم و تعلم اور اس میں درپیش مسائل کے متعلق ہے، انھوں ہی باریک بینی سے کشمیریوں کی ذہنیت کا مطالعہ کیا ہے اور وہاں عام لوگوں میں موجود احساس برتری Superiority Complexکا جائزہ لیا ہے کہ کیسے یہ جو احساس برتری ہے وہ اب احساس کمتری میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس انشائیہ کی سنجیدگی اس کو کالم یا مضمون سے قریب تر کر دیتی ہے۔ زیر نظر کتاب کا آخری انشائیہ ایس معشوق احمد کا ’’دوست، دشمن اور بیوی‘‘ ہے۔انشائیہ نگار مشتاق یوسفی کے مرید نظر آتے ہیں، انھوں نے یوسفی کی باتیں بھی انشائیہ میں شامل کی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں بھی مشتاق یوسفی کی طرح کردار’’مرزا‘‘ ہے۔ یہ ایک پر لطف انشائیہ ہے جس میں دوست، دشمن اور بیوی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، کہ زندگی میں ترقی کرنے کے لئے ان تینوں کا ہونا کس قدر اہم ہے۔ یہی تین انسانی زندگی میں انقلاب لا سکتے ہیں ،جو زوال پزیر بھی ہوتا ہے اور ترقی پزیر بھی۔ آخری انشائیہ مختصر ہے لیکن انھوں نے طرافت کا پہلو شامل رکھا ہے جو انشائیہ کو پرلطف بناتا ہے۔

الغرض یہ کتاب جموں و کشمیر کے نمائندہ انشائیہ نگاروں کو لے کر ایک اہم کتاب ہے۔ ان انشائیوں کو یکجا کرکے ایک کتاب میں شامل کرنا قارئین کی سہولیات کا باعث بنے گا۔یہ صنف دوسرے اصناف کے مقابلے میں چونکہ جموں و کشمیر میں ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں ہے ۔ لہٰذاس پہل کی قدر دانی ہوگی اور قارئین ایسی کتابوں کو ہاتھوں ہاتھ لے گی، یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ میں پھر ایک بار صاحب کتاب عرفان الحق کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،اور امید کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے۔

***

Leave a Reply