You are currently viewing جموں کشمیر میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے مسائل

جموں کشمیر میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے مسائل

غلام مصطفی اشرفی

ریسرچ اسکالر شعبئہ اردو ،جامعہ ملّیہ اسلامیہ نئی دہلی

جموں کشمیر میں تحقیقی مواد کی فراہمی کے مسائل

خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے

مجھے  تو  دیکھنا  یہ ہے  کہ میری انتہا  کیا ہ ے

خودی  کو  کر  بلند  اتنا کہ ہر  تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا  کیا ہے

        جیسا کہ آپ سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر اردو دنیا کے بڑے اور چھوٹے مراکز میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے ۔دہلی، لکھنئو اور کراچی جیسے بڑے  اردو مراکز سے دور یہ ریاست اردو زبان و ادب کے ارتقا کی نہایت دلچسپ داستان رقم کرتی ہو ئی نظر آتی ہے،اس بات کا مدلل ثبوت یہ ہے کہ اگر چہ اردو زبان کی ابتدا و ارتقاء جموں کشمیر میں بالمقابل دوسری ریاستوں کے بعد میں شروع ہواہے مگر اس کے باوجود ایک قلیل عرصے میں اردو زبان اس ریاست کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے ۔

         موجودہ دور چونکہ بڑے ادبی مراکز کے بر عکس کم ترقی یافتہ اور ذیلی مراکز کی ادبی صورت حال کے تحقیقی و تنقیدی جائزے کا دور ہے۔کیوں کہ ملکی سطح پر کوئی بھی تحقیق یا تحقیقی جائزہ چھوٹے اور ذیلی مراکز کی لسانی و ادبی سرگرمیوں کے آغاز و ارتقاء کی تفصیلات سے عاری ہوتا ہے،لیکن جس وقت کسی مخصوص علاقہ ،ریاست یا صوبہ کے ادب کا تحقیقی جائزہ لیا جاتا ہے تو اس میں علاقہ کی جغرافیائی حدود، تاریخی کوائف اور رسم رواج کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ایک علاقائی اور ادبی تاریخ بھی رقم ہوتی ہے،جس سے اردو ادب کے حلقے میں اس علاقہ کی ایک منفرد پہچان ہو جاتی ہے۔

        ریاست جموں و کشمیر  قدرتی حسن کے ساتھ ساتھ صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے،اس مٹی میں بڑے بڑے ادیب و قلم کار اور اہم محقیقین  پیدا ہوئے۔  اہم محقیقین میں عبد القادر سروری،حامدی کاشمیری،شمیم احمد شمیم،محمد زمان آزردہ ،ڈاکٹر نذیر احمد ملک اور فرید پربتی خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں ۔جہاں تک تحقیق کی بات ہے تو یہ ایک علمی فریضہ ہے،تحقیق کے ذریعے ہم نا معلوم چیز کا علم حاصل کرتے ہیں ،غیر محسوس کو محسوس بنا تے ہیں ۔تحقیق عربی لفظ کا مفہوم ’’حق کو ثابت کرنایا حق کی طرف پھیرنا ‘‘ہے۔

       تحقیق چاہے تجزیاتی ہو ،تاریخی ہو ،سندی ہو یا غیر سندی ہو تمام طرح کی تحقیق میں محقق دریافت پر زور دیتا ہے اور ساتھ ہی کوئی ایک مسئلہ پیش کرتا ہے اور اس کا ذہنی حل فراہم کرتا ہے اس لیے محقق کو تحقیق کے بنیادی لوازمات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے ۔ ریاست جموں و کشمیر میں تحقیقی طالب علموں کے لیے دوران ِ تحقیق کافی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے تحقیقی مقالے کی صحیح تکمیل نہیں ہو پاتی ،کیوں کہ ایک کامیاب تحقیق کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تحقیق کے تمام اصول و ضوابط کو برتا جائے ، مواد کی فراہمی میں اسکالر کو پوری آزادی حاصل ہو،اصل ماخذ تک محقق کی رسائی ممکن ہو ،محقق حق گوئی کی صفت سے متصف ہو،مزاج میں ڈٹ کر محنت کرنے کا جذبہ ہو،تاریخ سے گہری واقفیت ہو،بنیادی اور ثانوی ماخذات کی اچھی طرح جانکاری ہو،کتب خانوں کو کھنگالنے میں ماہر ہو  اور تحقیقی طریقہ کار سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہو ۔اس حوالے سے جب کشمیر کی بات کی جاتی ہے تو یہاں پر لائبریریوں میں اس طرح کا مواد دستیاب نہیں ہے جو اسکالرز کو تحقیق میں معاون ہو ،اگر کچھ حد تک مواد ملتا بھی ہے تو پھر بھی اس کے اصلی ماخذ کی تلاش میں ہندوستان کی دیگر جامعات کی لائبریریوں کا رخ کرنا پڑتا ہے ،جو کہ جموں کشمیر سے سیکڑوں میل دوری پر ہے  اور اسکالر کے پاس ا گر کوئی  فیلوشپ  نہیں ہے تو اس کو وہاں جا کرمواد حاصل کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔اگر چہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مواد حاصل کرنا کسی حد تک بہت آسان ہو گیا ہے  ۔اس سائبر اسپیس  میں ڈیجیٹل لائبریریز،انسائکلو پیڈیا،اخبارات و رسائل،بلاگزاور ای کتب خانے موجود ہیں جو زبان و ادب کے فروغ میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ،  اردو زبان و ادب کے متعلق اردو ویب ڈیجیٹل لائبریری،بہار اردو یوتھ فورم،ریختہ ڈاٹ کام، اردو کی برقی کتابیں ڈاٹ کام ،کتابستان ڈاٹ کام،اردو لائف ڈاٹ کام،اردو پوائنٹ ڈاٹ کام وغیرہ نے آج کی تحقیق میں مواد کے حصول کو آسان تر بنا دیا ہے مگر جموں کشمیر کے حالات کچھ اس طرح کے ہیں جو تحقیقی کاموں میں بے حد منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہاں کبھی کبھی تو ایک ماہ تک بھی انٹرنیٹ بحال نہ ہونے کی وجہ سے ریسرچ اسکالر ان تمام سائنسی اختراعات اور جدید تکنیکی ذرائعے سے مکمل فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ۔۲۰۰۱؁ء سے لے کر آج تک کشمیر کے جو حالات رہے ہیں وہ کسی بھی ذی شعور اسکالر سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ہمیں یاد ہیں وہ دن جب   ۲۰۱۶؁ء  میں  ہماری اسی مرکزی جامعہ میں تقریباََ چھے ماہ تک درس و تدریس اور تحقیقی کام بالکل بند رہا جب برہان وانی کو شہید کیا گیا ،اسی طرح۲۰۱۷؁ء میں  بھی ایک حادثہ ہوا اور تقریباََ ایک ماہ تک تدریسی کام بند رہے ،یہی حال کشمیر یونی ورسٹی کا بھی تھا ،انٹر نیٹ، اخبارات و رسائل ،اور یہاں تک کہ پریپیڈ فون کال پر بھی پابندی عائد کر دی گئی جس کی وجہ سے طالبان ِتحقیق کے لیے مواد کی فراہمی میںبڑی رکاوٹ ہوگئی ۔جہاں تک ہندوستان کی دیگر جامعات کی بات ہے تو وہاں پر تحقیقی طالب علموں کے لیے لائبریریوں میں مخصوص سکشن بنے ہوتے ہیں جہاں پر ہر طرح کی سہولیات موجود ہوتیں ہیں جو تحقیق میں معاون ہوتی ہیں۔

 ادبی شخصیات سے ملاقات:

     جموں کشمیر میں اردو ادب کی تحقیق کے ساتھ ایک المیہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں یہاں تحقیقی شخصیات سے ملنے کے مواقعے شاذ و نادر ہی ملتے ہیں ۔ اگر کہیں کسی شخصیت کے ساتھ ملنے کا موقعہ مل بھی جاتا ہے تو بھی تشفی بخش ملاقات نہیں ہو پاتی ،اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایسی شخصیات سے ملاقات کرنے والے محقق کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے ،اور کبھی تو اسکالر کے ساتھ کوئی مہمان محقق بات کر نا بھی پسند نہیں کرتا ۔ادبی شخصیات سے ملاقات تحقیقی مواد کے حصول میں سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے ،ہندوستان کی دوسری ریاستوں میں جموں و کشمیر کے بر عکس علمی شخصیات سے ملاقات کے مواقع زیادہ اور آسان ہوتے ہیں ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جموں کشمیر میں پہلے تو کوئی ادبی عالم جلدی آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا ،اگر اس کو کسی طرح منا بھی لیا گیا تو وہ یہاں آکر زیادہ دیر تک ٹھہر نہیں سکتا جس کی وجہ یہاں کے ناگفتہ بہ حالات ہیں۔

 ورک شاپ و سیمینار:

        تحقیقی مواد کی دستیابی میں اسکالر کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ تحقیقی طریقہ کار پر ورک شاپ اور کانفرنس و سیمینار کرانے کی بھی اشد ضرورت ہے جو کہ جموں کشمیر کی جامعات میں دیگر جامعات کے حوالے سے نہ کے برابر ہیں ۔سیمینار ارو ورک شاپ کے ذریعے ریسرچ اسکا لروں میں تحقیقی  ذہن کی وسعت ہوتی ہے ،ساتھ ہی باہر سے آئے ہوئے ماہرین سے ملاقات اور ان کے تحقیقی و تنقیدی اور  تجرباتی کلمات سے بھی مستفید ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔

ادبی گرہ بندی:

         کسی بھی تحقیقی مقالے میں ریسرچ اسکالر کے لیے ادبی گرہ بندی اور تکرار کا ہونا بھی اہم ہے ،جب اسکالر ایک دوسرے سے بات چیت اور تکرار کرتے ہیں اور کسی تحقیقی مضمون پر ڈبیٹ ہوتی ہے تو  اس مضمون کی کئی پرتیں کھل جاتی ہیں ،اسی تکرار کا ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم جن کتابوں سے بے خبر ہوتے ہیں ان کے بارے میں جانکاری حاصل ہوتی ہے اور ایسے علمی ماخذ تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے جن تک ہم آسانی سے نہیں پہنچ پاتے ہیں ،جہاں تک جموں و کشمیر کی بات ہے تویہاں ادبی گروہ بندی  اور تکرار کے معاملے میں طلبہ کو وہ ماحول میسر نہیں ہوتا ہے جو کہ ہندوستان کی دیگر جامعات کا خاصہ ہے، ہندوستان کی اہم جامعات ،جواہر لال یونی ور سٹی ،دہلی یونی ور سٹی،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،جامعہ ملّیہ اسلامیہ ،یو نی ورسٹی آف حیدرآباد اور دیگر اہم اداروں میں درس و تدریس کے اوقات کے بعد تحقیقی طلباء  آپس میں کسی بھی ایک مضمون کو لے کر تحقیقی بحث و مباحثہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان  کے درمیان کے شکوک و شبہات ختم ہوتے ہیں اور ساتھ ہی کئی اہم مواد اور کتب کا بھی علم ہوجاتا ہے جو کتابیں ہماری تحقیق و تنقید میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں ۔

       اگر تحقیق کے ساتھ ساتھ تدوین متن اور اشاریہ سازی  یا فرہنگ سازی کی بات کی جائے تو اس حوالے سے بھی جموں و کشمیر میں کافی مشکلات کا سامنا ہے،کیوں کہ تدوین متن کے لیے اصل نسخوں تک رسائی بہت ضروری ہوتی ہے ،ساتھ ہی ماخذ کی پہلے سے کی گئی ترتیب و تدوین کی کتاب کا حاصل کرنا ضروری ہے جو کہ جموں و کشمیر کتب خانوں میں نہ ہونے کی صورت میں دیگر جامعات کا رخ کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے اسکالر وں کے پاس وقت اور پیسے دونوں کا ہونا لازمی ہے ۔

        الغرض اختصاراََ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تحقیق کے میدان میں محققین  کے لیے ان تمام سہولیات کا ہونا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے ،اس کے لیے نگراں حضرات کی بھی خصوصی توجہ درکار ہے ،کہ وہ اپنی زیر نگرانی تحقیقی طالب علموں کے لیے بہتر سے بہتر مواد کی جانکاری فراہم کریں ۔ آج کے اس بدلتے ہوئے سائبر ازم کے دور میں سائنسی و تکنیکی مدد سے اعلی تحقیقی نظام کی درستگی مطلوب ہے ، کیوں کہ آج

 کے معاشرے کے محققین زندگی کی رسہ کشی کے لیے تو بہ خوبی تیار ہیں مگر ان کو راہ راست پر لگانے کے لیے با ضابطہ طور پر منزل کی نشان دہی کا ہونا ضروری ہے،تاکہ وہ اپنی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت کو بروئے کار لاکر آنے والی نسل کے لیے مشعل راہ بنیں :

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ  مٹی  بڑی  ذرخیز  ہے  ساقی

٭٭٭

Leave a Reply