محسن خالد محسنؔ لیکچرار)گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور(
mohsinkhalid53@gmial.com /+92-301-4463640
عظمیٰ نورین لیکچرار(گورنمنٹ وومن یونیورسٹی،سیالکوٹ)
امامہ ریاست پی ایچ ڈی سکالر اُردو(نادردن یونی ورسٹی نوشہرہ،خیبر پختون خوا)
جمیلہ ہاشمی کا معاشرتی شعور” دشتِ سوس“ کے تناظر میں
Jamila Hashmi’s social consciousness in the context of “Dasht-e-Sous”
ABSTRACT
In the latter half of the 20th century, when the novel Dasht Soos came out, there was a stir in Urdu literature. This novel has been seen, tested, evaluated, and felt from many angles. Many levels of this novel have been revealed, and this novel has been given a place as a representative novel of the twentieth century in the genre of novel writing. This paper is based on the analysis of collective thinking that promotes dynamic mystical values in the novel in the background of the social decline of Dasht Sus, from which the double meaning of the novel in social, cultural, and eastern society and the ugly face of the decline of pluralistic ideas. It will open up. This thesis will play an important role in viewing and formulating opinions on the character, dialogue, incident, and detail aspects of Dasht Soos novel in the context of the turbulent period of the twentieth century.
Keywords: Twentieth century, Mansoor Hallaj, Sufism, Eastern society, Islamic religion, politics, social problems, Abbasid caliphate, sectarianism, Fana fi Allah, Islam
خلاصہ: بیسوی صدی کے نصف اواخر میں ایک ناول دشت سوس سامنے آیا تو اردو ادب میں ہلچل مچ گئی۔ اس ناول کو کئی زایوں سے دیکھا،پرکھا،آنکا اور ٹٹولا گیا، اس ناول کی کئی ایک سطحیں کُھل کر سامنے آئیں اور اس ناول کو ناول نگاری کی صنف میں بیسویں صدی کے نمائندہ ناول میں جگہ دی گئی۔ یہ مقالہ دشت سوس کے معاشرتی تنزل کے پس منظر میں ناول میں متحرک متصوفانہ اقدار کو فروغ دینے والی اجتماعی سوچ کے تجزیے پر مبنی ہے جس سے ناول کی معاشرتی، تہذیبی، ثقافتی اور مشرقی سماج میں دوہری معنویت اور تکثیری افکار کی تنزلی کا مکروہ چہرہ کُھل کر سامنے آئے گا۔ یہ مقالہ دشت سوس ناول کی کرداری،مکالماتی، واقعاتی اور جزیاتی پہلوؤں کو بیسویں صدی کے ہنگامہ خیز دور کے تناظر میں دیکھنے اور رائے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
کلیدی الفاظ: بیسویں صدی، منصور حلاج، تصوف، مشرقی سماج، دینِ اسلام، سیاست، معاشرتی مسائل،عباسی خلافت، فرقہ واریت،فنا فی اللہ، اسلام
ہمارے ملک میں خواتین ناول نگار بھی ایک اہم مقام رکھتی ہیں جن میں ایک بڑا نام جمیلہ ہاشمی کا بھی ہے۔ مصنفہ نے اپنے ناولوں میں بہت سے اہم معاشرتی مسائل کی نشاندہی کی لیکن ناول دہشت سُوس لکھ کر انھوں نے واقعتاً ایک عظیم کارنامہ سر انجام دیا۔ بلا شبہ یہ ایک تاریخی ناول ہے لیکن مصنفہ نے اس میں ایسے حساس معاشرتی رویوں اور نزاعات کو عیا ں کیا ہے جس پر ہر قلمکار اپنے قلم کو اٹھا نہیں سکتا۔ اس ناول میں صرف تاریخی حقائق ہی نہیں ہیں بلکہ مذہب و عشق کے معا ملات کے اندر چھپے نازک معاشرتی مسائل کو بھی چھیڑا گیا اور ساتھ ہی ساتھ ایسے مولویوں ، مفتیوں اور مصنفین کے چہروں سے پردہ بھی اٹھا یا گیا جو معاشرے میں اپنے غلط فیصلوں کی وجہ سے انتشار، ابتری اور ظلم و بربریت پھیلاتے ہیں۔
جمیلہ ہاشمی 17نومبر 1929ء کو لائل پور جو کہ فیصل آباد کا پرانا نام ہے میں پیدا ہوئیں جب کہ ان کا آبائی وطن امرتسر ہے۔جمیلہ ہاشمی نے 1954ء میں انگریزی ادب میں ایم اے کیا اوراسکول میں بطور معلم درس وتدریس کے فرائض سرانجام دینے لگیں۔ ان کے گھریلو ماحول میں نہ تو افسانوی فضا تھی اورنہ ہی ادب کی چاشنی بلکہ انھوں نے ایک ایسے عام ماحول میں پرورش پائی جہاں معمولی غلطیوں پرخوب پٹائی کی جاتی تھی لیکن جمیلہ ہاشمی کی فطرت میں ادب سے لگاؤ بچپن سے ہی موجود تھا جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب وہ سکول میں پڑھتی تھیں توانھیں اگر کسی عنوان پرمضمون لکھنے کو کہا جاتا تو وہ مضمون کے بجائے کہانی لکھنا شروع کی دیتی تھیں جس پر استانی سے بارہا ڈانٹ توکھالی لیکن کہانی لکھنا ترک نہ کیا اوریوں ان کے اندر چھپی ہوئی لاتعداد کہانیوں نے آہستہ آہستہ پھلتے پھولتے ہوئے ایک تنا آور درخت کی شکل اختیار کرلی۔
جمیلہ ہاشمی کی شادی ایک زمیندار خاندان میں ہوئی اوران کے شوہر زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک گدی نشین رہبر بھی تھے لیکن وہ اتنے روشن خیال،وسیع النظر اوربیوی سے محبت کرنے والے انسان تھے جنہوں نے اپنی بیوی کے لکھنے لکھانے کے شوق کی قدر کی اور کبھی انہیں اس کام سے نہ روکا۔چنانچہ جمیلہ ہاشمی نے بھی بڑے شوق ولگن سے یہ تخلیقی سفر جاری رکھا اوراردو ادب میں نمایاں مقام حاصل کیا ۔
جمیلہ ہاشمی نے اپنے خاوند کے مرنے کے بعد جہاں زمینوں کے معاملات سنبھالے وہیں کاغذ وقلم سے رشتہ بخوبی نبھایا اوریہاں ان کی بیٹی جو کہ ان کی غمگسار ودوست تھی اس نے بھی انھیں حوصلہ دیا اوران کی ہمت بندھائی۔ ابتداً مصنفہ روسی ادب سے بے حد متاثر تھیں بالخصوص چیخوف ،ٹالسٹائی اورشولو خوف وغیرہ کی ان کی نگاہ میں بڑی قدر تھی جب کہ اردو ادب میں وہ خاص طور پر قرۃالعین حیدر پر جان چھڑکتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ابتدائی ایک آدھ افسانہ انھوں نے قرۃ العین حیدر کا طرز تحریر اپناتے ہوئے لکھا لیکن بعدازاں گہرے مطالعے کی عادت نے ان کے طرز نگارش کو بدل دیا۔ان کے ناولٹ میں “آتش رفتہ”،”روہی”،”آپ بیتی جگ بیتی”اور”اپنا اپنا جہنم”شامل ہیں جب کہ ان کے ناولوں میں “تلاش بہاراں 1961ء”،”چہرہ بہ چہرہ روبہ رو1977ء”اور “دشت سوس1983ء”کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔
ناول”تلاش بہاراں”پرتو انھیں “آدم جی”ایوارڈ سے بھی نوازا گیا اوراپنے اس پہلے ناول کے ساتھ ہی وہ بطور ناول نگار منظر عام پر آئیں۔جمیلہ ہاشمی نے اپنے افسانوں اورناولوں میں زمانہ حاضر کی سیاسی اورمعاشرتی زندگی کو موضوع بحث بناتے ہوئے نئی نسل کے ذہنی وجذباتی مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے۔اردو ناول نگاری کے حوالے سے جمیلہ ہاشمی نے “تلاش بہاراں”جیسا ناول لکھ کر جو مقام ومرتبہ حاصل کیا جس میں اضافے کاباعث ان کا زیرِ تحقیق ناول”دشت سوس”بنا جو کہ ایک تاریخی ناول کی حیثیت سے اپنی مثال آپ ہے۔یہ ناول علمی وادبی حلقوں میں بہت زیادہ مقبول ومعروف ہوا۔
یہ ناول نہ صرف بغداد کے درویش صوفی حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کا تفصیلی مطالعہ کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ اس دور کی معاشرتی ،سیاسی اورمذہبی زندگی کا ترجمان بھی ہے۔اس میں کوئی دورائے نہیں پائی جاتی کہ تاریخی واقعات اورمذہبی عقائدپر قلم اٹھانا ایک مشکل امر ہے لیکن جمیلہ ہاشمی اس حوالے سے تاریخی واسلامی رجحان کی آبیاری کرنے والے ناول نگاروں میں ایک مسلم حیثیت رکھتی ہیں۔
دشت سوس ایک ایسا ناول ہے کہ جس کو اگرباربار بھی پڑھا جائے تو انسان کا جی نہیں بھرتا گو کہ اس میں بعض جگہوں پرتاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش بھی کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود مصنفہ نے دسویں صدی کے عباسیہ خلافت کے دور کی تاریخ،جغرا فیے،تصوف اورمعاشرت کی ایک مکمل تصویر پیش کی ہے۔ناول “دشت سوس” 504صفحات پر مشتمل ہے اورابواب کے حوالے سے اسے صدائے ساز،نغمہ شوق،اورزمزمہ موت جیسے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا۔ناول کا پہلا حصہ ابن منصور کے بچپن ،اس کی ابتدائی تعلیم ،تستر کی خانقاہ اوراس کی غیر معمولی صلاحیتوں کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرتا ہے۔
ناول کا دوسرا حصہ جو کہ سب حصوں سے زیادہ طویل بھی ہے ابن منصور کی بغداد میں گزرنے والی زندگی اوراس کے روحانی سفر اورکشف وکرامات پرمبنی ہے جب کہ ناول کا آخری حصہ ابن منصور کے نعرہ “اناالحق”اورسزائے موت کے بیان پر مشتمل ہے ۔اس ناول میں مصنفہ نے ایک حساس اورنزاعاتی معاملہ کو موضوع بحث بنایا ہے یعنی ایک ایسا معاملہ کہ جس پر قلم اٹھانے کی جرات ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔اگر تاریخ اسلام ومسلمانان ہند کو غور سے پڑھا جائے تو بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں کہ جن پر اگر قلم اٹھایا جاتا تو ان افکار ونظریات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم معاشرے کی بہتری کے لیے کام کیا جاسکتا تھا لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارےقلم کاروں نے اس طرف سے ایسے چشم پوشی اختیار کی کہ جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ اس کی جان بچ گئی ہے۔
دراصل ہمارے ہاں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ مذہبی اورنزاعاتی معاملات کو ضبط تحریر میں لانے سے مسلمانوں میں فتنہ فساد جنم لے گا اوریوں فرقہ ورایت پروان چڑھے گی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جب کوئی ادیب ایسے معاملات پرقلم اٹھاتا ہے تو اس کا مقصد فساد برپا کرنا نہیں بلکہ تمام انسانیت کی بھلا ہی ہوتا ہے البتہ مسئلہ توغوروفکر کا ہے۔بعض اوقات ایسے واقعات پر اس انداز میں تحقیق کرنےکی کوشش کی گئی کہ یہ اختلاف کا باعث بن گئے اورلوگ بدظن ہوئے اوریوں تاریخ کی اعلیٰ شخصیات کی سوچ اورنظریات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انسان انسان کا دشمن بن گیا اوروہ تمام چیزیں یا صلاحیتیں جس سے مستفید ہوتے ہوئے اس دنیا کو جنت جیسا بنایا جاسکتا تھااس کے بجائے یہ سب انسانوں کی بربادی کے لیے کار آمد ثابت ہوئیں۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کے خیالات اوران کی بتائی ہوئی باتوں پرعمل پیرا ہونے کے بجائے انھیں نظرانداز کردینے ہی کی وجہ سے آج ہم مختلف فرقوں،ذاتوں اورمعاشروں میں تقسیم ہوکر ذہنی الجھنوں اورعدم تحفظ کا شکار ہوئے بیٹھے ہیں۔ حسین بن منصور حلاج بھی تاریخ اسلام کی ایک ایسی ہی ہستی ہیں کہ جس نے اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کے اسرار ورموز پرگہرائی سے غوروفکر کرتے ہوئے اپنے عہد کے حوالے سے ایسے عناصرکو تلاش کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس وقت کے انسان مشکلات وآلام کاشکار تھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب بادشاہوں کے استحصالی رویوں اورنظاموں نے انسان کو بے وقعت کردیا تھا۔ایسے حالات میں ایک حساس طبیعت کے مالک شخص کے جذبات کا منتشر ہونا فطری بات تھی۔
اس حساسیت کی بدولت حسین بن منصور حلاج اس معاشرے کے ان لوگوں کے لیے خطرہ بن گیا جو اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے تھے۔حسین بن منصور حلاج جیسی پیچیدہ شخصیت پرلکھنا کوئی معمولی بات نہیں لیکن ہمارا ماننا ہے کہ اگرنیت صاف ہواورمقصد دوسروں کی اصلاح کرنا ہوتو پھر منزل آسان ہوجاتی ہے۔حسین جو اس ناول کا مرکزی کردار بھی ہے اس نے کبھی بھی مصلحتوں اورروایتوں کو قبول نہ کیا اورنہ ہی اس بناوٹی دنیا میں اپنا دل لگایا۔جمیلہ ہاشمی نے اس کردار کے ساتھ کافی حد تک انصاف کیا ہے۔ناول کا آغاز کرتے ہوئے مصنفہ نے شاعری کا سہارا لیا اور اس طرح ناول’’دشتِ سوس‘‘ کے حسن کو چار چاند لگانے میں کامیاب ہوئیں:
“عشق ایک مزرع گلاب ہے اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں عشق کی نشانیاں توفیق اورمہربانیاتی ان کی منزل ہیں اورمہجوریاں غم خاموش اوربرداشت کبھی نہ ختم ہونے والا سوزہمیشگی اوراذیت ناکی اس کی شان ہے اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل جہالت اور وحشت تنہائی اوربے چارہ گردش ہے عشق مزرع زندگی ہے۔” (1)
کوئی بھی ناول جو ادبی وفکری حوالہ سے لکھا جائے تواس میں انسان کےاحساسات ،جذبات اورزندگی سبھی کو ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسا ناول ان چہروں سے بھی آراستہ کیاجاتاہے جو معاشرے میں مختلف حوالوں سے بڑے متحرک یا غیر متحرک ہوتے ہیں دوسری طرف اگر ناول نگار اپنی تخلیق میں تلمیحات کاا ستعمال کرتا ہے تو اسے بہت احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے۔اس ضمن میں جمیلہ ہاشمی ہمیں دشت سوس کے حوالے سے ایک بلند مرتبے پرفائز نظرآتی ہیں یہی نہیں بلکہ ناول کے گہرے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انھوں نے موت کو زندگی پر ترجیع دیتے ہوئے یہ ثابت کر دیا کہ یوں انسان کو حیات جاوداں ملتی ہے۔
اگرہم اس نکتہ پر غور کریں تو بظاہر ایسا ہونا ممکن نہیں مگرایسا تب ممکن ہوتا ہے جب انسان انا وانفرادیت سے بڑھ کرسوچتا ہے اورخود کو باتوں اورنعروں میں محبوس ہونے سے محفوظ کر کے ان اقدامات کی طرف عملی اڑان بھر جائے جہاں وہ دعائیہ بن جائے ۔اس ناول کے دیگر کرداروں میں بڑی حد تک نیاپن ،جذباتیت،تقلید سے بے رخی ، گزرے ہوئے زمانوں میں کی گئی مفاہمتوں اورمصلحتوں سے بے اعتنائی،نئی راہوں پرچلنا،رواجوں اورروایتوں سے دوری اورظاہری شان وشوکت سے روگردانی ملتی ہے۔
حسین بن منصور کی ذات اوران سے وابستہ تنازعات اتنے سہل نہیں ہیں کہ جن کو آسانی سے ناول کا موضوع بنایا جاسکے بلکہ اس کے لیے اپنے فن پرقدرت حاصل ہونا بڑا ضروری ہے کیوں کہ کسی حقیقی شخصیت کو اس کی تمام ترنفسیاتی پیچیدگیوں اورکرداری تضادات کے ساتھ لینا اورپھر کرداری سانچے میں ڈھالنا کہ وہ ناول کے کینوس میں اپنے پورے تاریخی تناظر میں سما جائے کوزے میں دریا سمٹنے کے مترادف ہے۔حسین بن منصور ایک ایسا انسان تھا جسے روایتی زندگی اورتقلیدی فکر پسندنہ تھی بلکہ وہ جسمانی وروحانی طورپر آزادی کا قائل تھا۔اسے یہ بات پسند نہ تھی کہ وہ ایرے غیرے لوگوں کو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کرنے کی اجازت دے۔
دراصل حسین بن منصور حلاج اس قربانی یاشہادت کا اشارہ ہے جس کا وجود اسلامی تاریخ کے سنہرے صفحات میں انمول انمنٹ سیاہی سے لکھا ہوا ہے۔دوسری طرف مصنفہ نے حسین کی ذات کے ذریعے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ہم آئےدن اپنوں اورپرایوں کے ہاتھوں جو ذلت ورسوائی اٹھا رہےہیں اورہم، ہمارے آباؤاجداد اورآنے والی نسلیں غلام ابن غلام بن کر اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گروی رکھ رہے ہیں تویہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا۔
ہماری نسلیں کب تک یہ خمیازہ بھگتی رہیں گی، کیا ہمارے معاشرے میں ہمارے ملک میں یا ہماری صفوں میں کوئی حسین بن منصور پیدا نہیں ہو گا جو شناخت ہماراوقار اورہماری خودشناسی کو بحال کرتے ہوئے ہمیں ان صلاحیتوں سے مالامال کردے گا کہ جن کے بل بوتے پرہم آگے بڑھنے اورملک دشمن عناصر کے سامنے سیساپلائی دیوار بننے کے قابل ہوجائیں گے اوراپنی بقا اورملک کی سلامتی کے لیے ایک ٹھوس لائحہ عمل بناسکیں گے۔
اکثر لوگوں کی حسین بن منصور کے بارے میں یہ رائے ہے کہ مصنفہ نے اسے بغاوت کا استعارہ بنا کرپیش کیا ہے اوراس کا وجود مکمل طور پر ظاہر نہیں کیا اسی طرح اس کے خیالات وجذبات کو سمجھنا بھی مشکل ہے اور ان سے انقلاب کی جوعلامتیں یا لہریں نکلتی محسوس ہوتی ہیں وہ بھی پوشیدہ مبہم ہیں مگر ایسا نہیں ہےکیوں کہ جمیلہ ہاشمی نے ناول میں ادب کی چاشنی پیدا کرنے اور ان سے اپنے لیے راہیں متعین کرنے کی آزادی دی ہے کہ اگر ہم معاشرے میں مثبت تبدیلی ،نئی سوچ،بیداری اور شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ انسان و انسانیت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں مقابلہ ،بغاوت،انقلاب اورمثالی بننے کی فضا پیدا کرنے کے ساتھ اسے اپنانا بھی ہوگا۔
یوں پہلے سے مرتب کردہ اصول ،تحریری قواعد اورحاصل نتائج میں ایسی سفارشات کو اپنانے کے لیے لائحہ عمل طے کرنا آسان ہوجائے گا کہ جن کے ہونے سے دانش،فراست اورتعمیر وترقی کے لیے کردار خودبخود جنم لیں گے اورچار سو پھیلی حیوانیت ختم ہوجائے گی۔جمیلہ ہاشمی نے ناول میں ایسے کردار کو بھی تخلیق کیا ہے جو دین ومذہب سے بیگانہ ہو کر اپنے فرائض کو سرانجام دینے سے سروکار رکھتا ہے۔یہ کردار ہمارے معاشرے میں موجود ان افراد کی نمائندگی کرتا ہے جو اپنے اورپرائے کی سوچ سے زیادہ محنت پر یقین رکھتے ہیں،بناوٹ سے پاک اوراپنےکام سے کام رکھنے والے ہیں۔
ناول کاتعلق ہمارے معاشرے کی اصل تصویر کو ہوبہوپیش کرنے سے ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے کونےکونے میں چُھپےیا ظاہر کرداروں کو دکھانا ناول نگار کی ذمہ داری ہے جس میں مصنفہ خاصی کامیاب نظرآتی ہے کہ جس نے محمی جیسے کردار کو تخلیق کرکے ان افراد معاشرہ کی ترجمانی کی ہے جو مذہبی عقائد ،انفرادی مسلک،گروہی نعروں اورفرقہ روایت کو نظر انداز کرتے ہوئے انسانیت کی خدمت کو مقصد حیات جانتے ہیں۔
ناول میں محمی ایک سرائے کا آتش پرست مالک تھا جو مسافروں اورپردیسوں کا خیال رکھتے ہوئے انھیں سہولیات فراہم کرتا تھا۔اس حوالے سے ناول ’’دشتِ سوس‘‘ کا یہ حصہ دیکھیئے:
“ایک آتش پرست محمی اس کا مالک تھا۔محمی لین دین میں ایماندار اورنیاز مند تھا۔اسے مسافروں کے آرام کا بطور خاص خیال رہتا تھا۔جب دشت سوس کی کھلی ہوائیں یخ کرنے والی سردی اسے پریشان کرتیں تو وہ سرائے میں اقامت گزیں لوگوں کے لیے آگ تاپنے اورکو ٹھڑیوں کو گرم رکھنے کا بندوبست کرتا اور اس کے لیے وہ زیادہ دام بھی وصول نہیں کرتا تھا۔لوگ کہتے تھے وہ آتش پرست ہے اس لیے اپنی عاقبت سنوارنے کی خاطر ایسا کرتاہے مگر وہ ان سب باتوں سے بے پروا تھا۔گرمی کی شدت میں جب سورج صبح ہی سے بے پناہ تیزی سے چمکتا توٹھنڈے پانی کا بندوبست بھی وہ اسی التزام سے کرتا۔ڈھکے ہوئے حوض لبالب ہوتے اورنہانے کے لیے علیحد ہ جاری پانی ہوتا۔اس کی طبیعت میں انکساری اورخوف خدا تھا جس کا اعلان وہ کبھی نہیں کرتا تھا۔” (2)
ناول نگار نے جہاں محمی جیسے بے ضررکردار کو تفصیلاً بیان کیا وہیں ایسے کرداروں کو بھی زور شور سے بے نقاب کیا جن کے نزدیک صرف اپنی کہی ہوئی بات ہی معتبر اوراہمیت کی حامل ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ان چیزوں کو بھی سامنے لائی ہیں کہ جو اللہ کے بندوں کو ورغلاتے ہیں اوراس کے بتائے ہوئے دین اوراحکامات میں اپنی مرضی وپسند کی باتوں کو شامل کرکے ان معصوم اورسادہ لوح مخلص لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیداکرکے ان کے ایمان کو متزلزل کرتے ہیں۔ایسے لوگ نہ صرف دین اسلام کی بنیادوں کو ہلانے میں اہم کردار اداکرتے ہیں بلکہ معاشرتی فسادات کا باعث بھی بنتے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کے مکار وعیار اورجھوٹے لوگوں سے دور رہنا بہت ضروری ہے جو لگے بندھے قواعد وعقائد کے بل بوتے پر انسان وانسان دوستی کی تباہی کا سبب بنتے ہیں ۔
یہاں پر ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصودہے جو ان راہوں کے مسافر ہوتے ہیں جہاں شجاعت ،مذہب اورمحبت کا امتزاج ہواورجہاں بلند ہمتی واستقامت کا تسلط ہو۔ہمارے معاشرہ میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو ایسے لوگوں کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں جو تفرقہ اورفتنہ پیدا کرتے ہیں لیکن درحقیقت ایسے لوگ گمراہ ہوتے ہیں لیکن ہمیں ان لوگوں کے برعکس ان افراد معاشرہ سے لوح لگانی چاہیے جو اللہ کے نیک بندے اورصراط مستقیم پرچلنے کو ہی عافیت سمجھتے ہیں۔اس ناول میں ان چہروں کوبھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جو نہ صرف خود شیطانی چالیں چلتے اوران سے فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہوئے لڑو اورمرو کی پالیسی پرگامزان کرتے ہیں ۔
ہر انسان میں انا وخوداری پائی جاتی ہے اگربات خوداری تک رہے پھر تودرست ہے لیکن اگرانسان اناوانا نیت کا پرچار ہی شروع کردے تو پھر معاشرہ تعمیری ہونے کے بجائے تخریبی بن جاتا ہے۔دشت سوس میں بھی حسین بن منصور حلاج سے پہلے کے عہد میں اوراس کے اپنے عہد میں بھی ایسے فرقے موجود ہیں جواللہ تعالیٰ کے بنائے گئے قوانین میں ترامیم وتبدیلی کرکے اورپھر ان کے حوالے دے کر خود ساختہ قواعد وضوابط ،اقدامات اورفرمودات کو عام کرتے ہوئے جنگ وجدل کی کیفیت پیدا کرتے اورابلیس کو خوش کرتے تھے۔یہ لوگ ایسی شیطانی چالیں چلنے اوروہ اول فول منہ سے بکتے کہ لوگ ان پریقین کرلیتے تھے اوریوں یہ مرتد افراد عوام الناس کے عظیم لیڈر کہلائے جاتے تھے۔ایسے لوگوں کے حوالے سے ناول ’’دشتِ سوس‘‘سے لیا گیا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
“دنیا شور شوں سے پر ہوگئی تھی ۔ہمیشہ سے تھی،نئے فتنے پرانے رنگوں کے لبادے اوڑھ کر سراٹھاتے تھے۔قرامطہ اورمعتزلہ اورصاھب الزنج وہ اسلام میں موشگافیاں کرتے تھے اوردنیا کی محبت میں دیوانے تھے۔انہوں نے نئی شریعتیں رواج دی تھیں اورنئے فلسفے تعمیر کیےتھے۔وہ عقل ودانش کی روباہی سے دنیا پرمسلط ہوجانے کے خواب دیکھتے تھے اورمال ودولت پرجان دیتے تھے۔انہوں نے نئے مذاہب کی بنیادیں رکھی تھیں اورنئے کلمے ایجاد کیے تھے،وہ قرآن کا جواب لکھتے تھے اورخدا کو اس کے کلام میں (نعوذباللہ) شکست دینا چاہتے تھے۔انہوں نے سحر کے زور سے اپنی طاقتوں کو میقل کیا تھا اوراس کے بل بوتے پروہ دلیر ہوگئے تھے۔ایسے گیدڑوں کی طرح جو شیر کی کھال پہن کہ جنگل کےقانون کو ہاتھ میں لے لیں۔انہوں نے خلقت میں فتنے پیدا کیے تھے اورہزاروں سادہ لوح لوگوں کی گمراہی اورموت کا سبب ہوئے تھے۔” (3)
ناول معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے اوراس میں کسی بھی معاشرے کی معاشرت چھپی ہوتی ہےیہی وجہ ہے کہ اس معاشرے کے جو بھی کردار واعمال ہوتے ہیں وہ ایک ناول میں درج کیے جاتے ہیں یادرج ہوتے ہیں۔بعض اوقات ادیب یامصنف اپنی مرضی یا پسند سے ایسے حالات وخیالات قلمبند کرتے ہیں جو ظاہری طور پر ضمنی کرداروں سے جڑے ہوئے محسوس نہیں ہوتے لیکن اگران پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ان ہی لوگوں یاچہروں کی ہوبہو تصاویر ہیں جو ظاہر یا باطن میں مختلف حالتوں میں رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
ناول نگار تصویر کے ایک رخ میں خوشی وراحت کی کیفیت کو پروئے گا تو دوسرے رخ میں کہیں نہ کہیں حزن وملال کا ذکر بھی کرے گا کیوں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی ناول اپنے عہد کے صرف خوش کن یا صرف غمگین حالات کو بیان کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک معیاری ناول میں اداسی ومسرت ،امیدی وناامیدی یہ سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔جن معاشروں میں اعلیٰ عہدے داران عوام کی مشکلات اورپریشانیوں کو سمجھنے اورانھیں دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے اورعوام کے خیالات وجذبات کو مقدم نہیں رکھتے توپھر ایسے معاشروں میں اداسی ،بے چینی،کرب،بے ثباتی اورانتشار کی صورتحال جنم لیتی ہے اوریوں بغاوت کا عَلم بلندہوتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے دشت سوس میں ایسے خیالات وتفکرات کی نشاندہی کی ہے کہ جن کی وجہ سے بےثباتی وتنہائی کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔بلاشبہ انسان کے اندر کا نفس اوراس کی نفسانی خواہشات نہ صرف خود انسان کے لیے باعث نقصان ہیں بلکہ معاشرتی بگاڑ کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔اگرافراد معاشرہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں تو کبھی غیر یقینی صورتحال پیدا نہ ہومگر ایسا کرنا تقریباًناممکنات میں سے ہے۔انسان کا نفس اس کی زندگی کو تماشہ بنادیتا ہے جس کی وجہ سے ہم خود کو برترثابت کرنے کے لیے غلط راہ کا ارتکاب کرتے ہوئے پستی کا شکار ہوجاتے ہیں اورخود کو ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں قید کروادیتے ہیں۔اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی پانے کے لیے ہم خیرو شر میں تمیز تک کرنا بھول جاتے ہیں اوراپنے مذہب تک کو دنیاوی کاموں میں استعمال کرتے ہیں۔
ہمارا یہ تو پکا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو واحد ویکتا ماننا ہے لیکن کیا کبھی ہم نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ وہ غفور ررحیم ہم سے راضی بھی ہے یا نہیں کیا زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ہمار اہر حد کو عبور کرجانا انصاف کی بات ہے کیا ہمارے پیارے نبی ﷺاور خداوند کے احکامات ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم اپنی دنیاوی زندگی اورامور کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے دینی تعلیمات کا غلط استعمال کرکے فائدہ اٹھائیں اورجب ہمارا کام نکل جائے توپھر ہم احکامات خداوندی اورارشادات نبویﷺ کی پیروی کو چھوڑدیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک بالکل غلط نظریہ ہے۔
مصنفہ نے اس ناول میں کافی جگہ پراس صورتحال کو ظاہر کیا ہے کہ بظاہر علماو مفکرین کس طرح حقائق کو مسخ کرکے اوراپنے چہروں پربناوٹی رنگ سجا کرعام عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ناول کا مرکزی کردار حسین بن منصور بھی ایسے لوگوں سے بہت نفرت کرتا تھا جن کے ظاہر وباطن الگ الگ تھے۔وہ ایسے منافق لوگوں کے دوغلے پن سے بیزار رہتا تھا اوریہ سوچ اسے پریشان کرتی تھی کہ یہ کیسے دین اورخدا پسند ہستیاں ہیں کہ اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کو شہ دینے کے لیے اللہ واسلام کے احکامات کا علم بلند کرتے ہوئے اپنا الوسیدھا کرتے ہیں اورلوگوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔اس ضمن میں ناول’’دشتِ سوس‘‘ کا یہ حصہ دیکھئے:
“منصور نے اس کے باوجود کہ کسی کے عقائد میں دخل اندازی پسند نہیں کرتا تھا۔سوچا کرتا کہ یہ اچھی بات ہے کہ اپنے خداؤں کو یہ لوگ یوں ہمراہ رکھتے ہیں۔یہ ان کے تابع ہوتے ہیں کہ جب جی چاہا ان کو نکالا جھاڑ پونچھ کرسامنے سجا لیا۔دعا کی،ہاتھ جوڑے،مراقبے کی سی کیفیت میں رہے پھراپنی زندگیوں کو وہیں سے جوڑ لیا جہاں سے چلی تھی۔ان کے نزدیک مذہب عام زندگی میں روزمرہ کا کام آسکے بس اسی قدر کافی ہوتا ہے۔” (4)
حسین بن منصور بچپن سے ہی انوکھا اورغیر معمولی صلاحیتوں کا حامل بچہ تھا۔جمیلہ ہاشمی نے اس غیرفانی اورمعروف صوفی کردار کے مختلف روپوں یعنی بیٹا،باپ،خاوند،پوتا ،ہیرو اور پھر سب سے بڑھ کر عالمگیر انسان کے حوالے سے ظاہر کیا ہے۔مصنفہ نے صدائے ساز میں حسین کی غیر معمولی صلاحیتوں کو بارہا بیان کیا ہے۔
جب محمی جو کہ حسین کا دادا ہے اپنے بیٹے اورپوتے سے ملنے کے لیے ان کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہوتا ہے تو راستے میں اس کی ملاقات ایک درویش سے ہوتی ہے جومحمی کو بتاتا ہے کہ اسے ہوا کے زور نے یہاں لاپٹخا ہے اورپھر بگولے کی شکل میں وہ محمی کی نگاہوں کے سامنے سے غائب ہوجاتا ہے جس پر محمی خوفزدہ ہوجاتا ہے اور اس بات کا ذکر اپنے بیٹے منصور سے کرتا ہے توحسین اپنے دادا سے اس ملاقات کے بارے میں جو کچھ کہتا ہے اسے ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں کچھ اس طرح سے قلمبند کیا گیا ہے:
“حسین نے دروازے پرکھڑے ہوکر کہا” دادا آپ حیران نہ ہوں عرش سے لے کر فرش تک سمجھ میں نہ آنے ولی طاقتیں ہیں”۔”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ راہ میں کوئی حادثہ پیش آیا ہے”؟ محمی نے پیار سے اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا،حسین ہنسا، بہت کچھ جانتی ہوئی پراسرار سی مسکراہٹ اوراپنی انکھوں کی طرف اشارہ کرکے اس نے کہا۔مجھے دکھائی دیا تھا جب اس نے آپ کے خچر کی لگام تھامی تھی،آپ کا راستہ روکا تھا اورپھر رقص کناں گم ہوگیا تھا۔” (5)
جمیلہ ہاشمی نے ناول دشت سوس میں ویسے تو بہت سے مقامات پرلیکن بالخصوص حسین بن منصور کے حوالے سے نئے امکانات ،جدیدراستوں کی شناخت،جذباتی وخیالی احساسات اورتخیلاتی پرواز جیسے رجحانات کا ذکر بکثرت بیان کیا ہے۔دراصل حسین ایک ایسا درویش صفت انسان تھا جو اللہ تعالیٰ کی سچی محبت ومعرفت میں انتہاکی حد تک ڈوبا ہوا تھا اوریہی عشق اللہ تھا کہ جس کی وجہ سے وہ دنیاوی کھیل تماشوں سے کوسوں دورتھا ۔
اس دور کے ایسے تمام افراد جو عام تھے یا پھر اعلیٰ عہدوں پرفائز تھے سبھی تقریباً مصلحتوں ،ضرورتوں اورامیدوں میں بندھے ہوتے تھے اورمختلف نقابوں کا سہارا لے کر خود کواوراپنے مکروہ عزائم وخواہشات کو چھپائے ہوئے تھے جب کہ ان کے برعکس حسین بن منصور حلاج عرفان نفس سے بڑھ کرشناخت کبریا تک رسائی کو اپنا مقصد ومرام خیال کرتا تھا،وہ ان تمام درجات کو پانا اوران تمام منازل تک جانا چاہتا تھا جہاں کوئی رکاوٹ نہ ہو اوروہ اپنی تقدیر خود لکھے۔
جب حسین بن منصور ان دیکھے محسوسات کی کوئی غیر معمولی بات کرتا تو زیادہ تر لوگ اس کی ان باتوں کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اوراسے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے طرح طرح کے الزامات لگاتے تھے اوراسے معاشرتی فتنہ قرار دیتے تھے۔حسین کی انوکھی باتوں کی وجہ سے لوگ اسے مختلف ناموں سے پکارتے تھے۔حسین جب اپنے والد منصور سے ملتا ہے تو اسی نوعیت کی باتیں کرتا ہے اس ضمن میں ناول’’دشتِ سوس‘‘ سے لیا گیا یہ اقتباس دیکھئے:
“اقصائے عالم میں ہواؤں کی طرح آزاد گھومنے کو میرا جی چاہتا ہے ۔ہواؤں پرحکمرانی کرنے کو بادلوں پرسوار ہونے کو۔میں آپ کو کیا بتاؤں میں کیا کچھ کرنا چاہتا ہوں ۔کبھی سوچتا ہوں میرے بازوں پھیلیں تومشرق اورمغرب کو چھولیں۔برفانی چوٹیاں میرے قدموں میں ہوں۔کوہسار میرے زیر نگیں ہوں۔عرش کی نیلاہٹ ستاروں کی جگمگاہٹ کوچھوکر دیکھوں۔دنیا میرے قدموں تلے سمٹ جائے۔فاصلے ایک نقطے کی طرح ہوں۔” (6)
ہم جس معاشرے میں زندگی گزرارہے ہیں اس میں ایسے رویے کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ لوگ خود سے بے خبر ہیں یا بے خبر ہونے کی فنکاری کررہے ہیں۔ایسے لوگ خود کو اعلیٰ وارفع جب کہ باقی مخلوق خدا کو ادنیٰ سمجھتے ہیں اورایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ بزرگ وبرتر کے ہاں اعلیٰ وادنی کا معیار صرف اورصرف تقویٰ کی بنیادپر ہے ۔کسی بھی معاشرے کی امن وآشتی کے لیے اس معاشرے میں عدل وانصاف اوراحترامِ آدمیت کا ہونا لازم ہے بہ صورت دیگر معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔
اس ناول میں بھی مصنفہ نے بے شمار مقامات پر انسانیت سوز واقعات کا ذکر کیا ہے۔جس طرح عہد گذشتہ میں مظلوم ومجبور لوگوں کے حقوق پامال کرکے ان کو باعث عبرت بنانے کے لیے سرعام ذلیل ورسوا کیا جاتا تھا ویسے ہی عہد حاضر میں بھی نسلوں کو برباد کرنے کے لیے یہ گھٹیا کھیل جاری وساری ہے۔
ہمارے معاشرےمیں پرانے زمانے کی طرح بہت سے لوگ موجود ہیں جو جھوٹی باتوں ،الزام تراشیوں اورقتل غارت کے ذریعے حیوانیت کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ناول میں بھی جابجا جبروتشدد کے نمونے پائے جاتے ہیں جن کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ انسانیت سوز واقعات کس طرح معاشرے کی ترقی کے لیے زہر قاتل ہیں اور ان کو بڑھاوا دینے میں اور فعال کرنے میں کون کون سی ہستیویوں کا عمل دخل ہے۔
ہمارا مذہب ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم خود کو افضل اوردوسروں کو حقیر جان کران سے نفرت آمیز رویہ اختیار کریں۔جمیلہ ہاشمی نے دشت سوس میں بغدادی معاشرے میں اسی قسم کے رویے کی بڑی عمدہ تصویرکشی کی ہے۔اس حوالے سے ناول’’دشتِ سوس‘‘ کا یہ حصہ پڑھیئے:
“یہ تماشوں سے بھرا شہر تھا۔جہاں حسین تھا۔ایک مکمل دنیادار دھوکہ دہی اورفریب کے سبق سیکھتا ہے۔دربار کی بھیڑ میں لوگ ایک دوسرے کو پھلانگ کرکس طرح بڑھتے تھے،پاؤں میں روندتے ہوئے۔یہاں کوئی جذبہ،کوئی خیال،کوئی بات بھی اصل نہ تھی۔پُرنخوت، پُر غرور بغداد کے باشندے جن کو سچ سے دشمنی تھی اورجو اپنے شہر کو سارے جہاں سے اعلیٰ اوراپنے آداب کو عمدہ جانتے تھے۔ اجنبیوں کو پسند نہیں کرتے مگر چوں کہ یہاں اجنبیوں کی زیادہ بھیڑ تھی اس لیے ان سے نفرت کرتے تھے۔” (7)
اس ناول میں بار بار ایسے کرداروں اورہستیوں کی دریافت کو ممکن بنایا گیا جوشخصیت کے لحاظ سے دورخے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو اگردوغلا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔یہ لوگ مختلف پردوں کی آڑ لے کر اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔عوام کو بے وقوف بنانا اوران کی سادگی سے کھیلنا ان لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے ۔
ویسے بھی بہ ظاہر کچھ اورکرنا اورباطنی طورپر عجب کھیل رچانا آج کل ہنر مندی کہلاتا ہے۔عیاری اوردھوکہ بازی ایک ایسا کھیل بن چکا ہے کہ جسے عام سے عام بندہ بھی بطور فنکاری اپناتا ہے بلکہ بلاشبہ معاشرے میں ایسے ہی لوگوں کو عزت بخشی جاتی ہے لیکن یہی لوگ اپنے جاہ وجلال اورمقام ومرتبے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شیطان کا روپ دھار لیتے ہیں اورکسی بھی تنظیم یا گروہ کے کارندے بن کر بربریت کو اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ایسے لوگ چلنے پھرنے اوراٹھنے بیٹھنے میں بڑے معصوم نظرآتے ہیں لیکن جب اپنے حلقہ احباب میں جاتے ہیں تو ناموس بندگان پر خندہ زن ہو کر دشنام طرازی کرتے ہیں اوریوں انسان وانسانیت کادامن تار تار ہوجاتا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نے اس ناول میں ایسے ریاکار اوربے ضمیر لوگوں کے چہروں سے پردہ اٹھاتے ہوئے ظاہری سفید لباسوں میں ملبوس کرداروں کو اچھی طرح آشکارہ کیا ہے۔ایسے کردار بظاہر نیک اورپارسا ہوتے ہیں،مساوات اورعدل وانصاف کے نام لیوا پکارے جاتے ہیں،حق وصداقت کے علمبردار بن کر درویشی وفقیری کے مرتبہ پر افضل تسلیم کیے جاتے ہیں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو قتل وغارت ،سفاکیت،حیوانیت اورضمیر فروشی میں کوئی ثانی نہیں رکھتے۔جمیلہ ہاشمی ایسے افراد وکرداروں کو ہمارے سامنے لاتی ہیں جو معاشرتی بربادی کاباعث بنتے ہیں کیوں کہ ان مکار لوگوں کی وجہ سے دیگر مجبور لوگوں کی زندگیاں بے بسی کاشکار بن جاتی ہیں ۔
ایسے لوگ کسی بھی معاشرے میں انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں جو انسانیت کی فنامیں اپنی بقا سمجھتے ہیں۔ایسے افراد کو معاشرے کا ناسور کہنا اورانھیں درندے اوربھیڑیے جیسے القابات سے نوازنا بے جا نہیں ہوگا۔ایسے لوگوں کے بارے میں مصنفہ نے ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
“وہاں تو صرف دریا ہی ایسے ہوتے ہیں تمہارے یہاں تو اورہی تماشا ہے ،کسی نیک اوربزرگ کو خدارسیدہ اورمعصوم سمجھو تو وہ کسی نہ کسی مذہب کا داعی،حکومت کا باغی،کسی اور مذہب کا مبلغ ہوتا ہے۔سفر کے دوران تقریباً ہرگام پرمجھے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہےجن کی آنکھیں اندر دیکھتی ہوئی،شکلیں سادہ مگر کردار نہایت خوف ناک تھا۔قتل اورغارت گری ان کا پیشہ ہے۔ہرقدم پردھوکہ فریب،سلطنت کے خواب لیتے ہوئے آدمی،رقص کرتے ہوئے خداشناس درویش اورخلافت کے نہایت شدید دشمن۔آل علی کا نام لے کر علم کی آڑ میں ظلم وتشدد کرنے والے۔مجھے کم ازکم بیس سال اس گردونواح میں گھومتے ہوگئے ہیں مگر اس زمانے سے زیادہ پریشان زمانہ میں نے نہیں دیکھا،راستے غیرمحفوظ ،شاہرائیں پُر خطر اورموڑ پرکوئی نہ کوئی خوف گھات میں ۔ تمہارے مذہب میں اتنے مختلف خیالوں کے لوگ جمع ہیں اورایک دوسرے کا گلہ کاٹنے اورجان سے مارنے کے درپے ہیں۔” (8)
اس ناول میں اکثرمقامات پراللہ تعالیٰ پرکامل یقین وایمان اورصوفی ازم پربھی گفتگو ہوئی ہے۔مصنفہ نے اگرشیخ کامل،پیرومرشد،منصورحلاج اورحسین کا ذکر کیا ہے توساتھ میں ضروری استعارہت یاجزئیات کا سہارا لے کر اپنی بات مکمل کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے ۔بہت سےمقامات پردنیاوی اوراخروی محبت وچاہت پرسے پردے اٹھائے گئے ہیں۔یہاں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ضروری نہیں ہے کہ بہت محنت سے چلے کاٹنے پرمنزل یا وصال نصیب میں لکھ دیاجائے بلکہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سادہ اورفقیرلوگ جو ریاضت نہیں بھی کرتے توبھی ان عہدوں پر فائز کردیئے جاتے ہیں کہ جن کا تصور کسی اورنے توکیا خود انھوں نے بھی نہیں کیا ہوتا۔
اس ناول میں منصورحلاج جب شیخ کامل سے ملاقات کے دوران مختلف امور پربات چیت کرتے ہیں تو ایسی ہی رسانیوں سے پردے اٹھتے ہیں ۔جب منصور حلاج حج پرجانے کی خواہش کے ذکر کے ساتھ ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے متعلق شیخ کامل کو بتاتا ہے لیکن بیت اللہ جانے کی تڑپ سب چیزوں پر حاوی ہوتی ہے تو وہ شیخ کامل سے اس زیارت پرجانے کے لیے دعا کی استدعا کرتا ہے توجن الفاظ میں شیخ کامل منصورکو تسلی ودلاسہ دیتا ہےاور شیخ منصور کو یاد دلاتا ہے کہ اس پراللہ کا خصوصی کرم ہے اور رب رحیم نے اسے خصوصی انعام و کرام سے نوازاہے لیکن منصور کے دل کی حالت بڑی عجیب ہوتی ہے اوروہ اللہ اوراس کے رسولﷺ کے عشق میں بے چین وبے قرار ہوتا ہے جسے ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں اس طرح سےبیان کیا گیا:
“شیخ کامل کی آواز آئی: ” ابوحسین دیکھو”۔ منصور نے ان کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا جیسے پردے اورحجاب اورراستے اورزمین سب کیشف سحاب اٹھ جائیں۔آئینے کی طرح ہر شے دکھائی دے۔اسے اپنے سامنے روضہ رسولﷺدکھائی دیا۔مسجد نبوی،حضرت عائشہ صدیقہ کا حجرہ مبارک، اور نور اس پرمنکشف ہوا،جیسے دروا ہوجائیں،ساری پستیوں اوربلندیوں سمیت راسے کشادہ ہوجائیں۔اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں۔ اس کے قلب کو قرار آیا۔اس کی روح سیراب ہوئی۔وہ شاد کام ہوا۔اس کی نظرفراخ ہوئی اوراس کی نگاہ نے جو دیکھا سودیکھا۔” (9)
جمیلہ ہاشمی نے ناول دشت سوس میں ابن منصور کے عہد کے سیاسی اورمعاشرتی انتشار اوردارلحکومت بغداد کی سیاسی،معاشرتی اورتہذیبی زندگی پرروشنی ڈالتے ہوئے اس تلخ حقیقت سے روشناس کروایا ہے کہ جب قومیں زوال کا شکار ہوتی ہیں تو اسی قسم کے انتشار سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔
اکثر اوقات اس صورتحال میں قومیں اپنے آپ پر اوربعض اوقات توخدا پر بھی بھروسہ چھوڑ دیتی ہیں اورایسی بزرگ ہستیوں کی پیروی شروع کردیتی ہیں جو اپنی کرامات سے انھیں فائدے پہنچا سکیں۔ایسا ہی کچھ سلسلہ ناول میں حسین بن منصور کے ساتھ بھی دکھایا گیا ہے کہ وہ حاجت روا ،اورپوشیدہ باتوں کا علم رکھنے والا مشہور ہوگیا۔ اس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جس کی طرف ایک مرتبہ بھی دیکھ لے اس کا مقدر بدل جاتا ہے۔
اس ضمن میں اس کی شہرت ہرخاص وعام تک پہنچ گئی یہاں تک کہ لوگ اس کی پوچا کرنےلگے۔ناول میں بیشترمقامات پردیومالائی ارشادات ومخصوص طرزاحساس سے آراستہ وپیراستہ جذبات وافکاربھی پڑھنے کو ملتے ہیں اورکافی پرشکوہ بیانات ومحبت کے امتزاج پر مبنی شدید احساسات کااظہار بھی موجودہے۔حسین بن منصور کی ذہنی سطح بھی تخیل وروحانیت سے پرملتی ہے حتیٰ کہ وہ ایسی باتیں بھی کرجاتا ہے کہ جن کو سن کرعقل دنگ رہ جاتی تھی اوردماغ ماننے سے انکار کرتاتھا۔ یعنی کہ اس کی سوچ ظاہری صورت اورموجودہ وقت سے بہت آگے تک کا سفر کرتی تھی۔
میری ناقص رائے کے مطابق ناول پڑھ کر حسین کی سوچ وفکر پرعام آدمی اپنی رائے نہیں دے سکتا کہ آخر حسین کس طرح کی شخصیت کا مالک تھا۔وہ حق پہ تھا یا نہیں وغیرہ۔مصنفہ نے انتہائی پرکاری سے حیات وہستی ،محبوب ومحب،فناورضا،مقصود ومطلوب،احساس وجذبہ،شوق واختیار اورحاصل وماحاصل کی ایسی ایسی گھتیاں حل کی ہیں کہ انسانی فکر یقینی طورپر تخلیق کار کے بس میں محسوس ہوتی نظرآتی ہے۔حسین بن منصور کی شخصیت میں ایک عجیب سی پُراسرریت پائی جاتی تھی۔ وہ نہ صرف لوگوں کے دلوں کےحال جان لیتا تھا بلکہ پوشیدہ چیزوں کے ٹھکانے بھی بتا دیتا تھا۔محلوں میں رہنے والے ،پیدل اورسوار،عمرریسدہ اورجوان ،بیمار اورتندرست الغرض ہر کوئی اس سے مرغوب نظرآتاتھا اوراسی کے سامنے دست سوال بھی۔اس حوالے سے ناول’’دشتِ سوس‘‘ کا یہ پیراگراف دیکھئے:
“لوگ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتے مگر وہ کسی سے بات نہ کرتا۔وہ درپئے جاناں تھا۔مہینوں یوں ہی گزر گئے اورلوگ اسے گم سم مگر فرزانہ دیکھتے۔لوگوں کو اس کی تلاش رہنے لگی۔مجمع اس کے گرد بڑھنے لگا،لوگ اس سے دعا کے طالب ہوتے۔اس سے اپنی حاجتیں کہتے ،وہ کسی کو کاغذ پرلکیریں سی کھینچ دیتا۔کبھی سیاہی سے کچھ آڑے ترچھے حروف بنا دیتا ۔ لوگوں نے اس کا انتظار کرنا شروع کردیا تھا۔لوگ اسے کوئی عظیم بزرگ سمجھتے،اس کی بددماغی ،کم گوئی کو بھی ایک دلبرانہ انداز سمجھتے۔اس کی لاپروائی وبے نیازی کو بھی ایک شان محبوبی جانتے۔” (10)
ہماری تاریخ بے شمار انوکھے واقعات اورتاریخی کرداروں سے بھری پڑی ہے کہ جن کے ہاتھوں سے جو بھی کچھ ہوجاتاہو وہ امر ہوجاتا بالکل اسی طرح حسین بن منصور بھی ایک ایسی ہی تاریخی شخصیت ہے جس کے حوالے سے بہت سے کمالات،مشاہدات اورمطالعات تاریخی وتحقیقی کتب میں پائے جاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے اس نے تاریخ میں ایک عظیم ہیرو کی حیثیت اختیار کی۔
حسین بن منصور کے نادر خیالات میں ایک خیال یہ بھی تھا کہ تطہیر نفس وتزکیہ حیات تب تک ممکن نہیں جب تک گناہ اورشرک کا ہونا مٹ نہیں جاتا۔وہ شیطان کو انسان کی دائمی انبساط وابدی سرخروئی کے لیے ایک بنیادی محرک خیال کرتا تھا کہ جب تک انسان شیطان مردود سے مقابلہ نہیں کرتا اوراس کی باتوں،گمراہوں ،راہوں اوردیواروں کو شکست نہیں دیتا تب تک کامیابی ممکن نہیں ہے۔
حسین بن منصور کی ایسی باتوں کی وجہ سے اس پر کفر والحاد کے فتوے بھی لگے اوراسے دیوانہ اورمجنوں بھی کہا گیا لیکن اس کے باوجود بھی نہ صرف وہ اپنے عہد بلکہ اس کے بعد آنے والے ہر عہد سے لے کر دورحاضر تک حق وسچ کا شیدائی مانا جاتا رہا اورلوگ اسے قابل فخر شخصیت اورہیرو قرار دیتے ہیں۔اگرزمانہ ماضی سے لے کر زمانہ حال تک کا مشاہدہ کیا جائے تو اس وقت سے تاحال بہت سے افراد وکردار ایسے ہیں جو شیطان کو انسان وانسانیت کی بقا کے لیے نجات دہندہ تسلیم کرتے ہیں ۔
اس ضمن میں اگر ہم اپنے قومی شاعر ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کو ہی پڑھ لیں توان کے کلام میں جابجا ان خیالات کا اظہار پایا جاتا ہے کہ شیطان کا وجود انسانی فتح کے لیے نیک شگون ہے۔ان کے خیالات وافکار نے یہ ثابت کیا ہے کہ ابلیس نے مسلمانوں کے سامنے خواہشات،خوابوں،ملوکیت،سرمایہ داری،سلطانی،سیاسی،تہذیبی،غلامی، سرداری اوردرویشی بحثوں کا ایک طویل سلسلہ سجا رکھا ہے اورآج کے مسلمان جب تک بیداری ، بہادری،خودداری ،قرآنی ،محمدیﷺ اورخداوند اسباق کو دل وعمل میں جگہ نہیں دیں گے تب تک کامیابی وکامرانی کا حصول بہت مشکل ہے۔
حسین بن منصور نے بھی زمانوں پہلے یہی سبق دیاتھا کہ شیطان بذات خود دھتکارا ہوا ناپاک اورنجس وجود ہے لیکن ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُسے نہ صرف بے شمار علوم وفنون سے نوازاتھا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب فرشتہ بھی تھا اوردیگر فرشتوں کے ساتھ محو پرواز رہتا تھا لیکن اپنی ایک غلطی کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا اورآج وہ نہ صرف انسان بلکہ تمام انسانیت کا ایک سفاک دشمن ہے اورانسانوں کو سرکشی ،نافرمانی اورنیک کاموں کو نہ کرنے اوربگاڑنے میں مصروف ہےلیکن شیطان کو اس کے ناپاک ارادوں میں نا کام کرنا یقیناً ہمارے بس میں ہے۔
ہم اس کے منصوبوں کو اتباع رسولﷺ اور اتباع رب رحیم کے ذریعے خاک میں ملا دیں سکتے ہیں لیکن ایسا تب ممکن ہے کہ اگر ہم سب سے پہلے اپنے نفس پرقابورکھیں۔یوں حسین بن منصور کا یہ کہنا کہ ابلیس کا وجود ہی انسان کو فتح دلانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے کچھ غلط نہیں ہے لیکن افسوس کہ اپنے اس قول کی وجہ سے وہ انسانوں میں انسان دشمن بھی قرار دیا گیا اور اسی وجہ سے نفرت کی بھینٹ چڑھا کر سنگساری اس کا مقدر بنا دی گئی۔
جمیلہ ہاشمی نے حسین بن منصور کے ان افکار کو ادب کی چاشنی میں گھول کر ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا اورمنصور کے خیالات کو اس طرح آشکارہ کیا:
“جبل شیطان پرپہنچ کرآقائے رازی نے کہا؟یہ وہ جگہ ہے جہاں جنگ احد کی گھڑی شیطان نے چلا کرکہاتھا ،تمہارے نبی شہید ہوگئے۔شیطان نے یہ نہیں کہا ہوگا وہ توشہادت پریقین ہی نہیں رکھتاحسین نے کہا۔مگر میں کیسے کہوں اپنے منہ سے جو بات شیطان نے کہی تھی۔شیطان جو انسانوں کو گمراہ کرنے والا اورغلط راہوں پر ان کی رہنمائی کرنے والا تھا۔آقائے رازی نے کہا۔وقت کے کسی گوشے میں شیطان بھی ایک فرشتہ تھا۔سب سے زیادہ عبادت گزار،قریب تر،حسین نے مسجد فتح میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔دنیا میں کتنا امن ہوتا اگر شیطان نہ ہوتا۔آقائے رازی نے کہا۔آقائے رازی یہ ساری رونق اس کے دم سے ہے ۔اگر گناہ کا تصور نہ ہو تو آدمی کس شے سے بچے،شیطان نہ ہو تو ابن آدم فتنوں سے محفوظ کیسے رہے۔حسین نے حیرت زدہ آقائے رازی کو بتایا ۔فرشتوں کو حکم دیا کہ سجدہ کرو ۔ سب نے کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا وہ راندہ درگاہ ہوا عرش سے نکالا گیا خوار ہوا۔انسانوں کو گمراہی میں مبتلا کرنے کے لئے وہ بھی دنیا میں وارد ہوا ۔ اگر وہ نا ہوتا تو کوئی گمراہی میں مبتلا کیوں کر ہوتا اوریہ سوزوساز حیات ہی نہ ہو توجنت نہ ہو اس کی تڑپ نہ ہو۔اس کے حصول کے لیے کدو کاوش نہ ہو۔ایک طرح سے تو وہ محسن ہے۔” (11)
جمیلہ ہاشمی اپنی اس تخلیق میں مختلف موضوعات کو زیر تحریر لائی ہیں اورفنا،جزا،قضا،زندگی، موت،محبت،فقیری،غنائیت،روح اورباطن جیسے عنوانات پر بھی حسین بن منصور کے ذریعے سے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس ناول میں مذہبی واخلاقی قدروں کی لے دے اورنزاکت ونفاست سے پرحسن فطرت کی دل آویزاں اکثر جگہوں پرساتھ ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں۔
کوئی بھی پُر امن معاشرہ اس بات کا متحمل نہیں ہوتا یا ہوسکتا کہ جہاں انسان دوستی کو تخریب کاری کانشانہ بنا کر ایسے قوانین لاگو کردیئے جائیں جو انسانیت کی بجائے حیوانیت کو پروان چڑھائیں کیوں کہ ہماری تاریخ بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جب بھی کسی معاشرے میں انصاف ومساوات کی جگہ طوائف الملوکی اورقرابت داری عام ہوئی تو اس معاشرے میں چاروں اطراف تباہی وبربادی اورافراتفری نے جنم لیا ہے۔
جمیلہ ہاشمی نےاس ناول میں حسین بن منصور کے حوالے سے باقاعدہ طور پر تاریخی حقائق کے ساتھ ساتھ مشہور حوالوں اورباتوں کو بھی تشت ازبام کیا ہے۔ایسے معاشرے بدترین معاشرے کہلاتے ہیں جہاں لوگوں کو اپنے حقوق کا تو پتہ ہو لیکن دوسروں کے حقوق اور اپنے فرائض ادا کرنا بھلا دیا جائے بالخصوص جب اپنے ہی اپنوں کو دھوکہ دیتے ہیں توتب مایوسی اورمادہ پرستی عام ہوجاتی ہے اورمعاشرے کے افراد گمراہی کی راہوں پرچلتے ہوئے ایک قسم کے شیطان بن جاتے ہیں کیوں کہ دھوکہ ،عیاری، چالبازی، جھوٹ،فریب اوراسی قسم کی دوسری باتیں شیطانی خصائص ہیں مومن کی نشانیاں نہیں ہیں۔
جن معاشروں میں یہ ابلیسی صفات پائی جاتی ہیں وہاں فتنے وفساد اورانوکھے تماشے برپا ہوتے ہیں اوریوں انسانیت نیست ونابود ہوجاتی ہے ۔ناول دشت سوس میں جابجاایسی عبارات نظر سے گزرتی ہیں جن میں حقوق وفرائض اورعہدوں وحکومتوں کی زوال پذیری پر سے پردے اٹھتے ہیں۔
اس ضمن میں ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں خلاف عباسیہ کی صورتحال ملاحظہ کیجئے:
“خلافت عباسیہ اب اپنے وقار کی آخری سانس لے رہی ہے اورایک نہایت بدترین شخصی طوائف الملوکی کا دور ہے۔آپ کو شاید معلوم نہیں کہ دربار پر ایسے امرا قابض ہیں جو اپنی ہر جائز اورناجائز بات منوانے کے لیے اثر ونفوذ رکھتے ہیں۔فوج کی ابتری، عمائدین سلطنت کی بے حسی اوربے بسی پھیلی ہوئی سرحدوں کی طرف سےبے رخی حکومتوں کے زوال کی نشانیاں ہیں ۔پھر مشرق ومغرب میں نئے نئے فتنے اوران کو ختم کرنے کی طرف سے چشم پوشی اس بات کی دلیل ہے ۔عوام کے مسائل اوران کی حالت کی طرف سے مکمل اغماض۔” (12)
ناول دشت سوس کو اس کی ہیتی ترتیب کے حوالے سے مصنفہ نےا سے حسین بن منصور ایک غنائیہ کا نام دیا ہے۔ اس ناول کے تینوں حصوں جن کے ناموں کا ذکر ابتدائی صفحات میں موجود ہے کو اس اعلیٰ فنکاری سے ایک دوسرے میں پرویا گیا ہے کہ نہ توفطری بہاؤ بے ترتیبی کاشکار ہوا اورنہ ہی وجدانی کیفیات عقلی توازن قائم رکھنے میں رکاوٹ ثابت ہوئیں۔اس ناول میں جو واقعات بیان کیے گئے انہیں باریک دھاگوں کی صورت میں بنا گیا اورایک دلکش سانچے میں ڈھالا گیا ہے۔
حسین بن منصور کے مخصوص فکری تناظر کی روشنی میں تحریر کردہ اس ناول میں جمیلہ ہاشمی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ عشق مرزع گلاب بھی ہے اورمرزع زندگی بھی لیکن کبھی کبھی یہ اپنی جان سے گزرجانے کا نام بھی بن جاتا ہے۔مصنفہ نے تاریخ کے باطن سے بہترین مواد حاصل کرتے ہوئے دلکش اورخوبصورت اسلوب میں ایک ایساناول یافن پارہ تخلیق کیا ہے جس میں تخیل کی مناسب پرواز کے لیے فضا کشادہ نہیں۔ اس ناول کو جمیلہ ہاشمی کے جمال فن کاشاہکار کہنا غلط نہ ہوگاکیوں کہ انھوں نے حالات وواقعات کی مناسبت سے اس ناول میں شعور کی رو،فلیش بیک،خطوط،ڈائری،سوانحی اوربیانیہ طریقہ ہائے کار کو اپناتے ہوئے فنی چابکدستی کاثبوت دیا ہے ۔
جمیلہ ہاشمی نے منصور ابن حلاج کے کردار کو تخلیق کرنے میں بڑی محنت ومہارت سے کام لیا ہے۔ اگر غور کریں تو ایک طرف منصور کے والد محمی ہیں جو آتش پرست ہیں جب کہ دوسری طرف ان کا نومسلم بیٹا منصور ہے۔اس ناول کے پلاٹ میں تجسس کے ساتھ ساتھ قصہ میں مسلسل ارتقا بھی ملتا ہے ۔الغرض کہ حسین بن منصور جیسی تاریخی لیکن متنازعہ شخصیت کو اپنی تمام تر پراسراریت سمیت ہمارے سامنے زندہ لاکھڑا کیا ہے۔
اس ناول میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ فنا ہوجانے والا ہے اوراگر کچھ باقی یا لافانی رہے گا تو وہ صرف اللہ تعالیٰ اوراس کے رسولﷺ کی ذات اورنام ہے۔ دنیا کی بے ثباتی اورزندگی سے مربوط بے قراری انسان کے اندر ایک ہلچل مچائے ہوئے ہے۔باوجود اس کے کہ ہم نے صدا اس دنیا میں نہیں رہنا لیکن پھر بھی ہم تعمیر وتعبیر ،آج وکل اورمستقبل کو سنوارنے کے چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔
افراد معاشرہ زندگی کو پانے اوراسے دائمی وخوبصورت بنانے میں مصروف ومشغول ہیں لیکن آج کے دور میں بھی کچھ خدا کے بندے ایسے ہیں کہ جو موت کو حقیقت اوربرحق مانتے ہوئے عبادات میں مصروف اپنی عاقبت کوسنوارنے کے لیے محنت کررہے ہیں۔انسانوں کا ماننا یہ ہے کہ اگر موت زندگی پرحاوی ہے اورکسی بھی شے کو ثبات حاصل نہیں تو پھر اتنی بھاگ دوڑ اورسوچ وبچار کی کیا ضرورت ہے۔ ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں موت وحیات کو لے کر اداسی،بے چینی،تنہائی اورفرار کی کیفیت پائی جاتی ہے جسے کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
“موت زندگی کی تلاش میں رہتی ہے کہ اسے جاوداں بنا سکے۔زندگی موت کی گھات میں ہوتی ہے کہ اسے فنا کا مزہ چکھا سکے۔اسے معدوم کر دے اور آدمی زندگی اورموت دونوں کے لیے سرگرداں رہتا ہے کہ ان سے آزادی حاصل کرکے اسے پاسکے جو مقصود بالذات ہے جو آئینوں میں جوہرہے اورجوہر کا جوہر ہے۔جوماورا ہے اورماورا کا ماورا ہے۔ جانے آدمی موہوم تلاش میں کیوں دیوانہ ہوتا ہے۔اپنی بے بضاعتی پرنازاں رہتا ہے۔” (13)
ماضی بعید ہویا ماضی قریب یا پھر موجودہ زمانہ تقریباً سبھی میں صاحب اقتدار ہستویوں کے سامنے سجدہ ریز ہونا، ان کے پیروں کو چومنا اوران کے آگے بچھ بچھ جانے کا رواج اوررجحان بہت زیادہ ہے جسے قابل ستائش نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ یہ سب چاپلوسی ،بناوٹ اوردکھلاوئے کے ذیل میں شمار کیا جاتا ہے اورایسی اوچی حرکات کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی میں نہ صرف رکاوٹ بنتی ہیں بلکہ زہر قاتل بھی ہیں۔
بعض صوفیا اوردرویش صفت لوگوں کے ہاں اس طرز عمل کو احترام کے معنوں میں لیتےہوئے اصول و ترتیب بنائی گئی اورکہا گیا کہ ایسا کرنے سے بزرگوں اوربلند مرتبہ لوگوں کی عزت کرنا مقصود ہے۔حیرت تواس بات کی ہے کہ افراد معاشرہ چاہے وہ خاص ہوں یا عوام اس فعل کو قابل نفرت سمجھنے کے بجائے اپنے لیے نجات کا ذریعہ مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ناول دشت سوس میں بھی ایسے کرداروں کو پیش کیاگیا ہے جو اس فعل سے وابستہ ہیں جیسا کہ حامدبن عباس جو بہت ظالم وجابر ہے اورلوگوں پرحکمرانی اوراپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے اپناتا ہے۔
دوسری طرف جمیلہ ہاشمی نے امیر المومنین جو کہ ملک کا بادشاہ ہے کے روپ میں ایسے لوگ بھی دکھائے ہیں جو متوازن اوراعتدال پسند طبیعت کے مالک ہیں اورلوگوں کا اپنی خواہشات اورضروریات کے سلسلے میں اپنے سامنے سجدہ ریز ہونا پسند نہیں کرتے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بے آسرا و بے سہارا لوگ اپنی غربت اوربے چارگی کی وجہ سے خود کو غلام ابن غلام مانتے ہیں اوراپنی عزت وشناخت کھودیتے ہیں۔
امیرالمومنین کا ماننا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تما م انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے اوراس آزادی کو چھین لینا صرف ایک انسان کی نہیں بلکہ تمام انسانیت کی توہین ہے۔کوئی بھی معاشرہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ انسانوں سے ان کی مجبوریوں کے عوض ان کی آزادی صلب کرکے ان کی تذلیل کی جائے اوریوں معاشرے میں بگاڑ کی صورتحال پیدا کر دی جائے۔اس حوالے سے ناول ’’دشتِ سوس‘‘ میں بغداد کے امیر المومنین کا یہ روپ اورسوچ ملاحظہ کیجئے:
“اسے بے جا عاجز لوگ پسند نہ تھے۔وہ انسانوں کو مجبور ومقہور دیکھنا نہیں چاہتا تھا اور اسی لیے اس کے عہد میں بغداد کی رونقیں اپنے عروج پرتھیں۔وہ عجیب شخصی آزادی کا قائل تھا اورلوگوں کے خیالات اگرباغیانہ نہ ہوں تو اسے پسند تھے۔وہ منفرد سوچ اورمنفرد عمل کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔آدمی میں جو ایک ازلی شان ہے اورآدم کی پیشانی میں جو نور ہے جس کے لیے وہ سجدہ گاہ قدسیاں قرار دیاگیا اسے وہ شان پسند تھی۔جب اس کے سامنے خوشامد سے لوگ جھکتے تو وہ پیچ وتاب کھاتا کیوں کہ وہ امیرالمومنین تھا اورلوگ اسے کے سامنے کی زمین کو بوسہ دےکر اس سے بات کرتے تھے۔یہ دستور زمانہ تھا اورکیا بُرا دستور تھا۔” (14)
ناول دشت سوس میں فطرت کی منظر کشی زیادہ کار فرما نظر آتی ہے۔بنیادی طور پرفطرت ایک الگ وجود رکھتی ہے اوربے نیاز بھی ہے۔اس کا ایک گھمبیر ،رعب وجلال اوراس کی دلکش فضا انسان کے مسائل ،کارکردگیوں سے بے نیاز اپنا کام کرتی رہتی تھی۔انسان اپنے محسوسات ،جذبات اوراپنی کارکردگی کے لیے اسے اپنا سہارا بنا لیتا ہے۔فطرت پر انسانی مسائل،خوشیوں یا دیگر جذبات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔یہ انسان پرمنحصر ہے کہ فطرت کو اپنی خوشیوں میں شامل کرے یا پھر اپنےغموں سے اسے اداس کردے۔
جمیلہ ہاشمی نے ناول دشت سوس میں فطرت کے یہ دونوں رخ پیش کیے ہیں۔ ویسے بھی ایک اچھے ادیب و فنکار کی دیگرخوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ فطرت کی مدد لے کر اپنی کہانی میں دلچسپی پیداکرے اوراپنے کرداروں کے جذبات واحساسات اورآنے والے واقعات کے تسلسل کے لیے مناظر فطرت سے کام لے۔
اس حوالے سے اگرجمیلہ ہاشمی کے فن پرنگاہ دوڑائی جائے تو وہ بہت کامیاب نظرآتی ہیں کیوں کہ انہوں نے ناول میں اپنے تمام کرداروں کے جذبات کی عکاسی کے لیے فطرت کی رنگینی کے ساتھ ساتھ قدرت کی قہاری اورجباری کو بھی استعمال کیا ہے۔پھر چاہے وہ محمی اوردرویشوں کے کردار وافعال کی عکاسی ہو یا سہل بن عبداللہ تستری کے مکتب کے ماحول کی فضا کی عکاسی،یا پھر صبح صادق کا منظر،بہاروں کا منظر اورحسین کے نعرہ حق کی فضا کا غم والم سبھی میں فطرت اپنی بھر پور شدت کے ساتھ درخشاں نظرآتی ہے۔
دشت سوس کی کہانی حسین بن منصور کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی نفسی کیفیات کی کہانی ہے۔حسین ایک ایسی شخصیت کا مالک تھا جو اساتذہ اورمعلمین سے بے نیازتھا۔اس کی ذات کاسفر انوکھا تھا۔وہ اپنے اندر اورباہر کی سمتوں کو جانتا تھا۔وہ اپنی روح کے نہاں خانوں میں اتر کرروشنی کے اس عظیم مخرج کا کھوج لگانا چاہتا تھا جو اس کے وجود کی گھٹاؤں میں مخفی تھا۔حسین کو کسی پیرومرشد کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ توخود ان سے کئی قدم آگے تھا۔اس نے روایتی درس وتدریس کے مراحل جس تیزی سے طے کیے یہ اسی کی شخصیت کا خاصا تھا کسی عام انسان کے بس کی بات نہ تھی۔
اس ناول میں حسین کے ساتھ مستقبل میں رونما ہونے والے حالات وواقعات ہوں یا پھر استادوں کی حسین سے متعلق پیشں گوئیاں انھیں ہم مشیت ایزدی کہیں یا پھر کچھ اور دراصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ حسین کے اندر کا وہ طوفان تھا جو ظاہر ہوا تو ایک ہلچل اورافراتفری پھیل گئی اوراس کا انجام اس وقت کے معاشرے سے ایسا ہی متوقع تھا کہ جیسا حسین کے ساتھ کیا گیا۔
بہر کیف حسین کے نظریات جنہیں ہم تلاشِ حقیقت ،عرفان ذات،روایت شکنی،جابروں کے خلاف جہاد یا کمزروں کے ساتھ ہمدردی وغیرہ کسی بھی پہلو سے دیکھیں یہ تمام وہ باتیں ہیں جو کوئی عام انسان نہیں کرسکتا بلکہ یہ تو قدرت کی طرف سے انعام خاص رکھنے والے یا اس قسم کے نظریات کے مالک ہوسکتے ہیں لیکن اگر کسی کے ذہن میں بھی حسین کو لے کر یہ سوالات باربار جنم لیں کہ حسین نے اتنا لمباروحانی سفربغیر کسی مرشد یا پیرکامل کی شاگردی اختیارکیے کیسے طے کرلیا حالانکہ صوفیا وعلما توہمیشہ سے قدرو منزلت اورتسلم ورضا کا پیکر سمجھے جاتے تھے تو اس کا مختصر جواب میری رائے کے مطابق یہی ہوسکتا ہے کہ حسین جو کہ خود ی جلوہ خدا وندی کا جائزہ لے سکتا تھا۔ دراصل خدا اوربندے کے درمیان عبادت کو سب سے بڑا وسیلہ سمجھتا تھااوراسی وجہ سے وہ اپنے لیے مناسب راہوں کاانتخاب بھی کرسکتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ اسے ظاہری طور پرکسی مرشد کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اس ناول کا ایک اہم کردار اغول بھی ہے جو کہ ایک فرضی کردار ہےاور حسین کے عشق میں گرفتار ہوتی ہے۔ اغول حامد بن عباس کی منظور نظر اور اس کے بیٹے کی ماں ہے لیکن آخری دم تک گرفتار عشق حسین رہی۔کسی بھی معاشرے میں شدت پرستی اورانتہاپسندی جیسے رجحانات تباہی کا باعث ہیں اوران رجحانات سے پُر کردار حامد بن عباس کا ہے جو کہ انتہائی مکار اورحیوان ہے۔یہ کردار خون ریزی کا رسیا ہے اوراغول کی وجہ سے حسین کو اذیت ناک موت سے ہمکنار کرنے کے بہانے تلاش کرتا رہتا ہےکیوں کہ وہ حسین کو اپنی محبت کا قاتل اوراپنی ترقی کی راہ کا مضبوط کانٹا تسلیم کرتا ہے۔
اس ناول میں حامدبن عباس ظلم وجبر کا ایک استعارہ ہے اوراس کی سوچ مرنے مارنے اورمٹنے مٹانے کی حد تک ہی محدود ہے۔وہ حسین بن منصور کو کسی صورت معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردینا چاہتا ہے ۔حسین کے حوالے سے ناول ’’دشتِ سوس‘‘ میں بیان کردہ اس کی سوچ یہ ہے کہ:
“خالی نشست گاہ میں وہ دیوانوں کی طرح پھرتا رہا۔کیوں،آخرکیوں؟ حسین رہے اوراغول نہ رہے۔وہ شعبدہ بازحیلہ جور ہے اوروہ سچائی بھی ،مٹ جائے،وہ ہر اس نقش کو مٹا دے گا جو اغول کے اوراس کے درمیان تھا۔اس کے، حامد بن عباس کے نصیب میں محبت نہیں نفرت تو تھی۔شدید عمیق نفرت۔سب چارہ گرناکام ہوچکے تھے۔زیرآلود نیزے کی انی دل میں چبھ رہی تھی۔وہ آخری کوشش کرلے گا۔اگرمحبت اس کا حق نہیں تو نہ سہی۔نفرت کرنا،مٹانا،معدوم کرنا تواس کے اختیار میں تھا۔ہاں وہ ہمیشہ ان لق ودق صحراؤں میں آوارہ ہواؤں کی طرح سرگرداں نہیں رہے گا وہ قرار پائے گا۔” (15)
حامد بن عباس بھی اس ناول کا سب سے اہم کردار ہے جووزیر مملکت ہوتے ہوئے بھی بذات خود کئی مسائل کا شکار ہے۔اپنی زندگی کے بہت سے مقامات پرناکامیوں کا سامنا کرنے کی وجہ سے وہ معاشرے کا ایک مایوس انسان نظر آتا ہے اوراپنی اس نامرادی،مایوسی اورناکامیوں کا بدلہ وہ حسین سے لیتا ہےکیوں کہ زندگی کے سب سے بڑے معاملے میں اس کی سوچ کے مطابق حسین نے اسے شکست سے دوچارکیا۔
حامد بن عباس اپنی تشنہ خواہشات اورمعامالات کا ذمہ دار حسین کو ٹھہراتے ہوئے اسے اپنا رقیب سمجھتا ہے۔وہ اسے ایک عبرت ناک انتقام وانجام سے دوچار کرنے کی ٹھان لیتا ہے اوراس مقصد کے لیے وہ سوچ بچارشروع کردیتا ہے۔حامدبن عباس کی صورت میں جمیلہ ہاشمی نے معاشرے کے ایسے افراد کو برہنہ کیا ہے جو اعلیٰ عہدوں پرفائز ہونے کے بعد عوام کوذاتی جاگیر سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ ہر طرح کا رویہ روا رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ایسے افراد کے لیے کوئی قانون نہیں بنا ہوتا کہ جس کے شکنجے میں وہ آسکیں کیوں کہ قانون کے رکھوالے بھی انہی بڑے لوگوں کے ہاتھوں کی کھٹ پتلیاں ہوتے ہیں اورانہی کے حکم پر اپنے منصب کا اپنے اختیارات کاناجائز استعمال کرتے ہیں۔بالکل حامدبن عباس کی طرح جو خلیفہ وقت کا وزیر خزانہ ہوتا ہے اوراختیارات اوروزارت کی چکاچوند نے اسے اندھا کردیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا اوررعایا اوراپنے ماتحت لوگوں سے ظلمانہ سلوک کرتا تھا۔
ناول دشت سوس کے ذریعے جمیلہ ہاشمی نے ہمیں اس حقیقت سے بھی روشناس کروایا ہے کہ جن معاشروں کے حکمران اپنے ملک اورعوام کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں اوراپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہیں برتتے اوراللہ کے سامنے جوابدہی کے خوف سے عاجزی اپناتے ہیں توان معاشروں میں معاشرتی مسائل مثلاً چوری،قتل وغارت،زناوبدکاری،جھوٹ، اقربا پروری،دل آزاری،فرائض سے چشم پوشی وغیرہ جیسے جرائم بہت حد تک کم یا نہ ہونےکے برابر ہوتے ہیں۔
ایسے معاشروںمیں چار سو خوشحالی،امن،رنگینیاں،انسان دوستی،مذہبی، انسانی، اخلاقی، معاشرتی، قومی، روایتی، اجتماعی اور انفرادی خوشیوں کا دوردورہ ہوتا ہے اوربلاشبہ اسی طرح کے معاشرے اورعوام ترقی کی راہ پرگامزن بھی ہوتے ہیں اور ہر کوئی انہیں پسند کرتا ہے۔جمیلہ ہاشمی معاشرے سے حسد وبغض،نفرت وکدورت،عناد ودشمنی،کینہ اورشخصی غلامی جیسی برائیوں کا خاتمہ چاہتی ہیں۔یہ تمام وہ برائیاں ہیں جوبغداد کے اس وزیر یعنی حامدبن عباس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں اوراس کے ان منفی جذبات کی بھینٹ حسین بن منصور حلاج چڑھتا ہے حالانکہ حسین کا کوئی جرم نہیں لیکن پھر بھی وہ حامد بن عباس کی نظر میں ایک فتنہ ہے۔حامد بن عباس کے اندر حسین سے انتقام لینے کی جو آگ بھڑک رہی تھی اسے جمیلہ ہاشمی نے ناول’’دشتِ سوس‘‘ میں اس طرح بیان کیا:
“کل کادن اسے دار پر دیکھے گا اورآپ بطور گواہ وہاں موجودہوں گے کہ ہر کام اسی طرح انجام پایا جس طرح میں نے چاہا ہے۔،ہاں میں چاہتا ہوں اس کی ہڈیوں میں اتنے چھید ہوں جیسے نے میں ہوتے ہیں۔اس کا گوشت ریشہ ریشہ کاٹا جائے اوراس کو اتنی بے پناہ اذیت ہو کہ دشت سماویہ تک اس کی آواز پہنچے۔قبروں میں سونے والے جاگ اٹھیں اورماتم کریں اور ان کی سینہ کو بی کی آوازیں مشرق سے مغرب تک ہر جگہ سنائی دیں۔کبھی بھلائی نہ جاسکیں۔ دنیا اس کی کرب ناک چیخوں سے گونجتی رہے،گونجتی رہے۔کوئی زمانہ کوئی وقت کبھی اس اذیت کو بھلا نہ سکے۔قطرہ قطرہ اس کا خون جس جگہ گرے وہاں ہمیشہ کے لیے ٹھہرا رہے۔ساعت بہ ساعت اس کا سانس اکھڑے اور ہوئیں اسے اقصائے عالم میں لے جائیں وہ ایک ہمیشگی کی چیخ بن کرزندہ رہے۔” (16)
درج بالا اقتباس کو پڑھتے ہوئے نہ صرف رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اورجذبات واحساسات منجمد ہوجاتے ہیں بلکہ زبان بھی کچھ کہنے کے قابل نہیں رہتی یا یوں کہیے کہ الفاظ ساتھ چھوڑ دیتے ہیں حامد بن عباس کے وحشی کردار اور جذبات کو پڑھ کر ۔حسین بن منصور جو ایک صوفی منش اورسچا مسلمان تھا جو خود کو فنا فی اللہ کے درجے پر قائم رکھنا چاہتا تھا اورعشق خداوندی میں اس قدر ڈوب چکا تھا کہ خود کو “انالحق” کہتا تھا اور جس نے حامد بن عباس جیسے زمینی خداؤں اوروقتی حکمرانوں کے سامنے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے عارضی آقاؤں کے وجود کو ماننے سے صاف انکار کردیا۔
اس کے مخالفین کی تعداد میں اضافہ ہوا اوران مخالفین نے اس پرکفر ،فریب کاری اورشعبدہ بازی کے الزامات لگائے اوریوں حامد بن عباس جیسے وزیروں نے اس وقت کے مخالفین اورمصنفین کو بھی اپنے ساتھ ملا کر914ء میں ذاتی رنجشوں اوربعض وعناد کے سبب قیدخانے میں ڈال دیا اورپھر اس فقیری صفت رکھنے والے عاشق رسولﷺ اورعشق خدا وندی میں ڈوبے ہوئے انسان کو سنگسار کروایا۔ بس اتنا ہی نہ ہوا بلکہ اس پاک ہستی کے جسم کے ریشے ،ٹکڑے اور نجانے کیا کچھ کیا۔بے شک دشمنوں کے ہاتھوں حسین بن منصور حلاج ایک سفاکانہ موت سے دوچارہوا لیکن اس کے جسم کا انگ انگ وصال خداوندی کے شوق میں انا الحق کا وردکرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اہل بغداد بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اہل دنیا حسین بن منصور کے خاتمے پرحیرت کناں اورسینہ کوبی کرتی نظرآئی لیکن خود حسین جل کر ایک بڑے شعلے میں جذب ہوجانے کو باعث رحمت سمجھتا ہے۔ناول میں حسن بن منصور کی موت کی کربناکی کا اندازہ ناول ’’دشتِ سوس‘‘سے لیے گئے اس اقتباس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
“خلقت کا اژدھام تھا اورجلادکوڑا لیے کھڑا تھا۔حسین کی پیٹھ جو محض استخوان تھی ننگی کی گئی۔آہ وبکا کی صدائیں برابر آرہی تھیں۔اس کی پوتیاں تھیں،اس کے بیٹے،ان کے دوست اورجانے کون کون رو رہا تھا ۔دیوانے کو کلمہ کفر کہنے کی سزا دی جارہی تھی۔کوڑے کے لہرانے کی آواز جیسے سانپ کی پھنکار ہو اورحبشی کی ہانپتی ہوئی سانسیں جیسے سازبجایا جارہا ہو۔پتہ نہیں دیوانہ چیخ کیوں نہیں رہا تھا۔ حسین کی بیٹیاں بے ہوش ہوگئیں،نالہ وبکا کی آوازیں آندھی کے ساتھ مل کر سارے بغداد پر،اس کے محلوں پر،اس کے گلیاروں اوربازاروں میں،شاہراہوں پرگھومیں۔کنیز یں اورلونڈیاں رورہی تھیں جسے کوڑوں کی نغمگی انہیں رلارہی ہو۔حسین بن منصور دیوانہ تھا تو سہی مگر کیسا دیوانہ تھا کہ کوڑوں کے باوجود ہنستا تھا اورجب خروش میں اس کی جان آدام پاتی تواناالحق کہتا تھا۔کوڑوں کی شدید ضرب بھی اسے آہ کھنچنے پر مجبور نہ کرسکی تھی وہ زندہ تھا اوراناالحق کہہ رہا تھا پھر لوگوں نے محسوس کیا کہ کوڑے کی ہرضرب اناالحق کہہ رہی تھی۔خود حبشی آہ کرنے کی جگہ اناالحق کہہ رہا تھا۔عجیب بات تھی۔ کچھ لوگ یونہی سنگباری کرنے لگے،سنگباری بھی ایک ساز کی آواز کی طرح اپنی لے بدلنے لگ گئی ہر پتھر جو دیوانے سے چھوجاتا اناالحق کہنے لگتا ،حبشی نے اس کے پاؤں کاٹے،چھری کندتھی اورریشہ ریشہ کٹ رہا تھا نہایت آہستگی سے ۔حسین کا چہرہ زرد تھا۔ حامد کا پیغام آیا اگر وہ اب بھی زندہ ہے تو اسکے بازوں کاٹ ڈالو۔حبشی نے کہا میں اب جوڑ جوڑ بند بند کاٹوں گا۔کٹے ہوئے ہاتھوں سے خون بہتا دیکھ کر اس نے اپنے منہ پرمل لیا۔آقائے رازی نے کہا یہ کیا کررہے ہو؟ وضو کررہا ہوں تاکہ نماز عشق اداکرسکوں۔آقائے رازی کیا عشق مزرع زندگی نہیں۔حسین کیا تم اتنے دیوانے ہو کہ تمہیں جان سے گزرنے کا بھی خیال نہیں۔ رازی نے کہا۔ کیوں نہیں۔کیوں نہیں۔یہ جان ہی تو تھی جو راہ میں حائل تھی۔اب میں آزاد ہوں۔ میں اوروہ یوں مل گئے جیسے شراب پانی میں مل جاتی ہے۔” (17)
جمیلہ ہاشمی نے اپنے اس ناول میں قاری کی دلچسپی کو اس قدر برقرار رکھا کہ قاری نے شروع تاآخر اسے پڑھتے ہوئے کہیں بھی تھکن محسوس نہ کی۔میرے خیال میں مصنفہ نے اس ناول کو ایک غنائیہ قرار دے کر بالکل سچ لکھا ہے کہ اس کے مندراجات کسی اورزمرے میں شاید ہی آتے ہوں۔حسین بن منصور جیسی شخصیت پرلکھنا واقع ہی ایک دشوار گزار اورکٹھن کام ہے مگر مصنفہ نے کمال مہارت اورچابکدستی کے ساتھ ناول دشت سوس میں حسین کے بچپن سے لے کر تختہ دار پرسزاپانے تک کے دنیاوی وباطنی سفر کو قلمبند کیاہے۔
مختصر یہ کہ ناول دشت سوس کا حصہ مکالمات اور واقعات کا اجتماع نہیں بلکہ اس کے مختلف کرداروں کی خود کلامی ہے جن کے ذریعے وجود،تصوف،روحانیت،عشق اورمعاشرتی مسائل جیسے مشکل اورگنجلک موضوعات پرخیال آرائی کی گئی ہے۔حسین بن منصور کی دیوانگی ومجزوبیت اوراس کے پس پردہ اس عہد کے سیاسی،مذہبی اورمعاشرتی حالات واقعات کو اس ناول میں جس طرح سے بیان کیا گیا ہے یہ انداز وبیان اردو نثر میں منفرد مقام رکھتا ہے۔بہر حال ہر معاشرے میں کھرے کھوٹے اوراصل ونقل کردار موجود ہوتے ہیں اورایک اچھے اورحساس ادیب کوچاہیے کہ وہ ان کرداروں اوران کی بناوٹوں کو قارئین یا افراد معاشرہ کے سامنے لے کر آئیں۔
حواشی
- جمیلہ ہاشمی، دشتِ سوس،(لاہور: سنگ ِ میل پبلی کیشنز، اشاعت،چہارم،2016)ص۔۸
- جمیلہ ہاشمی، دشتِ سوس ، ص۔۱۱
- ایضاً، ص۔۱۹
- ایضاً، ص۔۵۵
- ایضاً، ص۔۳۳
- ایضاً، ص۔۶۱
- ایضاً، ص۔۱۴۵
- ایضاً، ص۔۱۵۴
- ایضاً، ص۔۱۸۶
- ایضاً، ص۔۱۹۲
- ایضاً، ص۔ ۲۰۳
- ایضاً، ص۔۴۵۵
- ایضاً، ص۔۴۸۰
- ایضاً، ص۔۴۲۲
- ایضاً، ص۔۴۸۷
- ایضاً، ص۔۴۹۱
ماخذ:
- جمیلہ ہاشمی، دشتِ سوس،(لاہور: سنگ ِ میل پبلی کیشنز، اشاعت،چہارم،2016)
Reference in Roman Script:
Jamila hashmi, dast-e sous, ( Lahore : sang e meel publication,, ishaat, chaharum, 2016 ) p. 8
Jamila hashmi, dast-e sous, p. 10, 11
ayzan, p. 19
ayzan, p. 55
ayzan, p. 33
ayzan, p. 61
ayzan, p. 145
ayzan, p. 154
ayzan, p. 186
ayzan, p. 192
ayzan, p. 202, 203
ayzan, p. 328, 329
ayzan, p. 455
ayzan, p. 480, 481
ayzan, p. 422
ayzan, p. 487
ayzan, p. 491, 498
Mohsin Khalid Mohsin