ڈاکٹر ارشد محمود آصف (ارشدمعراج)
اسسٹنٹ پروفیسر ، شعبہ اردو، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد
زاہد ہمایوں
ریسرچ اسکالر ، پی ایچ ۔ڈی (اُردو) بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد
حفیظ تائب کی نعتیہ شاعری میں قرآنی حوالے
Abstract
(Quranic Allusions in the Na`at poetry of Hafeez Taib)
Researcher are agreed on the fact that Na`at Started in Arabic Language in the very beginning. After the migration all the non-Muslim poets started revilement against Hazarat Muhammad (S.A.W) thus Na’at poets started defend of prophet through Na`at poetry and this step grew in the shape of a school of thought. Some poets in that time used to narrate imaginary things they were inactive that’s why Quran also condemned them and specially relate the poets who worshiped Allah it is also said in Quran that Allah and His angles says Darood-o-Salam on Muhammad (S.A.W) Hafeez Taib has fulfilled this duty in a beautiful manners through Na`at. He rejected the field of ghazal and has done a great work while using Quranic allusions he used Quranic rhymes, Quranic Similes and Quranic mataphors and gave vast vision of Na`at subjects. He has also expended of Na`at in stylistic features. He has also done new experiment in the form of Na`at poetry by following the the Quranic form of Surah-e-Kausar. He has given a great invention in Na`at poetry triplet “Kousaria” which is totally different from other triplets. Hafeez Taib has a great study of a Quran that’s why we find the real soul of Quran in his Na`at. Just because of the Quranic allusions we find a great level of knowledge and literature in his Na`at.
محققین اس بات پر متفق ہیں کہ نعت گوئی کی ابتدا عربی زبان میں ہوئی۔ حضرت اُم معبد ؓ نے رحمت عالم ﷺ کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی ہجرت شریفہ کے وقت پہلا نعتیہ قصیدہ کہا تھا اور پھر ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ کے کفار شعرا کی حضرت محمدﷺ کے خلاف دشنام طرازیوں کے جواب کے لیے نعت گو شعرا کا باقاعدہ دبستان قائم ہوا۔ اس دبستان کے روح رواں حسان بن ثابتؓ ، کعب بن زہیرؓ اور عبداللہ بن رواحہ ضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے۔ یہ خوش نصیب شعرا تو آغوش رسالت ﷺ میں پرورش پانے والے تھے۔ انھوں نے تو اپنے اشعار کی آپ ﷺ سے خوب خراج عقیدت وصول کی۔
مگر عہد رسالت ﷺ میں بعض شعرا محض خیالی باتیں کرتے تھے گمراہی کا شکار تھے لوگوں کو بہکاتے تھے اور بے عملی کی طرف راغب تھے اسی لیے قرآن کریم میں ان کی مذمت کی گئی ہے قرآن کریم میں متعدد بار اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ اللہ کے نبی شاعر نہیں۔ سورہ یٰسین میں صاف فرمایا کہ فن شعر نبی ﷺ کے شایان شان نہیں ہے۔
﴿وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنبَغِي لَهُ ﴾
ترجمہ’’ اور نہیں سکھائی ہم نے نبی ﷺ کو شاعری، یہ ان کے شایان شان نہیں ‘‘ [1]
اللہ عزوجل نے بُری شاعری کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ لیکن استثنائی صورت میں ان شعرا کا ذکر فرمایا جو ایمانٗ اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اللہ کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں اُن کے لیے باقاعدہ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے۔
﴿وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ ۔ وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾
ترجمہ: اور شعرا کے پیچھے تو چلا کرتے ہیں بہکے ہوئے لوگ کیا نہیں دیکھتے تم کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں اور بلا شبہ وہ کہتے ہیں ایسی باتیں جو کرتے نہیں۔ مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور کیے انھوں نے نیک عمل اور ذکر کیا اللہ کا کثرت سے اور بدلہ لیا انھوں نے اس کے بعد زیادتی کی گئی ان پر اور عنقریب معلوم ہو جائے گا ان لوگوں کو جنھوں نے زیادتی کی کس انجام سے وہ دوچار ہوتے ہیں‘‘۔ [2]
مزید یہ کہ قرآن مجید میں واضح طور پر حکم ہوا ہے۔
﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾
ترجمہ :بلاشبہ اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی پر’’اے لوگو: جو ایمان لائے ہو درود بھیجو ان پر اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘[3]
نعت گو شعرا درود و سلام بھیجنے کا یہ سلسلہ اپنے نعتوں کے ذریعے بھی ادا کرتے ہیں بل کہ حفیظ تائب اپنی معروف سی حرفی ’’زمزمہ درود‘‘ میں اس کا باقاعدہ جواز بھی پیش کرتے ہیں‘‘
؎ نام خُدا سے سلسلا
زمزمہ درود کا
منزل ذات کا پتا
نور و ظہور مصطفیٰﷺ
روح و رواں کی ہے صدا
صل علی نبینا
صلی علی محمد[4]
معاصر اردو نعتیہ شاعری کی روایت کے یہ عظیم نعت گو شاعر حفیظ تائب ۱۴ فروری ۱۹۳۱ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحفیظ تھا۔ ان کے والد گرامی حاجی چراغ الدین قادری سہروردی ایک درویش صفت انسان تھے۔پروفیسر محمد مقصود حسین شاد ’’ذکر حفیظ تائب‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’حفیظ تائب کے والد صاحب کی خواہش تھی کہ بیٹا سائنس پڑھ کر انجینئر بنے مگر بیٹا جی نے دو سال مولانا ظفر علی خان کی ’’بہارستان‘‘ اور ’’رحمت اللعالمین‘‘ کے مطالعے میں صرف کر دیے۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھے وہ ایف ایس سی کے امتحان میں فیل ہو گیا۔ چنانچہ اس نے تعلیم کو خیر باد کہہ کر محکمہ بجلی میں کلرکی کر لی’’[5]
گویا کہ کچھ عرصہ تک ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع رہا۔ پھر ۱۹۶۵ ءمیں ایف اے کیا۔ ۱۹۶۹ ءمیں بی اے کے بعد واپڈا میں ملازمت اختیار کر لی۔ ۱۹۷۴ ءمیں ایم اے پنجابی کرکے اورنٹیل کالج لاہور میں بہ طور لیکچرار تقرر ہوا۔ ان کی وفات۱۳ جون ۲۰۰۰ ءکو ہوئی۔ نعت گو شعرا کی کبھی کمی نہیں رہی مگر حفیظ تائب جیسا نعت گو پھر پیدا نہیں ہو سکا۔ اسی لیے ڈاکٹر تحسین فراقی رقم طراز ہیں:
’’آج نعت گو شعرا کا ایک پورا کارواں تیار ہو چکا ہے اور اس کارواں کے سرخیل کا نام حفیظ تائب ہے جس کی پہچان ہی نعت رسول ﷺ بن گئی ہے اور ظاہر ہے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ [6]
حفیظ تائب نے اپنے فن کا آغاز غزل گوئی سے کیا تھا مگر پھر بعد میں انھوں نے اپنی زندگی نعت کے لیے وقف کر دی اُن کے نعتیہ مجموعے درج ذیل ہیں۔
۱۔صلو علیہ آلہ ٗ ۱۹۷۸ ءآدم جی ایوارڈ یافتہ
۲۔وسلموتسلیماٗ ۱۹۹۰ ءوزارت مذہبی امور کی طرف سے اول صدارتی ایوارڈ یافتہ۔
۳۔ وہی یٰسین وہی طہٰ، ۱۹۹۸ء وزارت مذہبی امور کی طرف سے اول صدارتی ایوارڈ
۴۔کوثریہٗ ۲۰۰۳ ء وزارت مذہبی امور کی طرف سے اول صدارتی ایوارڈ یافتہ۔
۵۔سک متراں دی (پنجابی مجموعہ نعت) ۱۹۷۸ءپاکستان رائٹرز گلٹر ایوراڈ
۶۔لیکھ (پنجابی مجموعہ نعت) ۲۰۰۰ ءپہلا مسعود کھدرپوش ایوارڈ
۷۔مناقب (مجموعہ منقبت) ۲۰۰۰ء
۸۔نسیب (غزلیات)
۹۔تعبیر (قومی و ملی منظومات ) [7]
حفیظ تائب کے احوال و آثار سے پتا چلتا ہے کہ نعت گوئی سے ان کی وابستگی ان کی زندگی کا محور و مرکز بن جاتی ہے انھوں نے بڑے خلوص و عقیدت سے نعتیں کہی ہیں۔ جس دور میں حفیظ تائب نے نعتیہ شاعری میں قرآنی حوالوں کو فروغ دیا وہ کسی لسانی جہاد سے کم نہیں تھا۔انھوں نے غزل کا میدان ترک کرکے نعت کہنا شروع کی اور پھر نعت میں قرآنی حوالوں کا بھرپور پرچار کیا یہ صرف ان ہی کا فن تھا دراصل ۶۰ء اور ۷۰ ء کی دھائی میں ہر نظریہ میں شدت پیدا ہوئی تھی۔
فرانسیسی ساختیات کے علم بردار رولاں بارتھ کی سب سے معروف تحریر”The Death of the Author” ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی ۔ مابعد جدیدیت کے مفکر لیوتار کا تہلکہ خیز مضمون “Defining postmodern” ۱۹۸۶ء میں چھپا، اور ۱۹۶۷ء میں دریدا “Deconstruction”کی سب سے بڑی عالمی آواز بن کر ابھرا۔ اس طرح کے دیگر نظریات نے جب سر اٹھایا تو پس ساختیات، تکثریت، لامرکزیت اور بین المتونیت جیسی اصطلاحات وضع کی گئیں۔
ادھر ۱۹۷۱ ءمیں سقوط ڈھاکہ کے ساتھ ہی بے بسی، افسردگی، لاچارگی اور بے چینی کی لہر پیدا ہوئی امن و سکون، آزادی و خودمختاری اور روشن خیالی اندھیروں اور کھوکھلے دعوں کی نذر ہوگئی۔
متعینہ قدروں اور متعینہ ضابطوں سے بغاوت کی جانے لگی۔ کثرت، تعدد، تنوع اور لامرکزیت کی اس فضا نے اردو شاعری کو بھی متاثر کیا۔ بہ قول معروف نقاد وہاب اشرفی:
’’مابعد جدیدیت میں متعینہ قدروں اور متعینہ اصولوں سے انکار کی کتنی ہی صورتیں اردو شاعری میں بھری پڑی ہیں۔‘‘
مثلاً:
؎ مسیح وقت اب آئے تو بس خدا آئے
پیمبروں کی زمیں اور عذاب چاروں طرف
(صدیق مجتبیٰ)
؎ نئے مکاں میں عقیدے کی کوئی جاہی نہیں
خدا تو ہے پہ کہیں بندہ خدا ہی نہیں
(مظہر امام)
؎ جنگلوں میں گھومتے پھرتے ہیں شہروں کے فقیہ
کیا درختوں سے بھی چھن جائے گا عالم وجد کا
(وہاب دانش)
؎ جلے مکانوں میں بھوت بیٹھے بڑی متانت سے سوچتے ہیں
کہ جنگلوں سے نکل کےآنے کی کیا ضرورت تھی آدمی کو
(وہاب دانش)
؎ ہم مطمئن ہیں اس کی رضا کے بغیر بھی
ہر کام چل رہا ہے خدا کے بغیر بھی
( سلطان اختر) [8]
لامرکزیت، انتشار اور افراتفری کی یہ گونج اردو شاعری میں روز افزوں تھی حفیظ تائب نے ۱۹۷۸ ءمیں اپنے نعتیہ مجموعے ’’صلو علیہ وآلہ‘‘ کے ذریعے اس نئے تخلیقی عہد میں موجود مابعد جدیدیت کی لامرکزیت اور مذہب بیزار رویے کو شکت دی ہے ان کا کہنا ہے:
؎ زمانہ بدلے، بدل جائیں سب کی سب اقدار
رہے گا تو میرا معیار اے شہ ﷺ ابرار
سرنیاز مراخم رہے گا تیرے حضور
تمام دہر کے مختار اے شہ ﷺ ابرار [9]
حفیظ تائب نے روایت سے انقطاع نہیں کیا، بل کہ انھوں نے نعتیہ شاعری میں قرآنی حوالے استعمال کرکے روایت اور متعینہ قدروں کو فروغ دیا ہے۔ انھوں نے روایت سے انسلاک کرتے ہوئے، قرآنی لب و لہجے میں یعنی سبحان اللہ کی قرآنی ترکیب کو بہ طور ردیف استعمال کرتے ہوئے فخریہ انداز میں یہ اقرار کیا ہے:
؎ نعت حضرت ﷺ مری پہچان ہے سبحان اللہ
یہی دنیا، یہی ایمان ہے سبحان اللہ
جس سے پہلے کسی تخلیق کا عنوان بھی نہ تھا
وہ مرے شعر کا عنوان ہے سبحان اللہ[10]
دراصل حفیظ تائب کو حضرت محمد ﷺ سے حقیقی عشق تھا۔ اس عشق کی پاکیزگی نے انھیں قرآنی تعلیمات کی طرف راغب کیا۔ پھر انھوں نے قرآنی تعلیمات کو اپناتے ہوئے، عشق رسولﷺ کے جذبے سے سرشار ہو کر مزکزیت، آفاقیت، سچائی، خیر، حسن، نیکی، عظمت اور معراج کا پرچار کیا ہے۔ انھوں نے نعتیہ شاعری میں قرآنی آیات کو مختلف حوالوں سے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اپنی کئی کتابوں کے نام قرآنی حروف پر رکھے۔ ان کے ایک مجموعہ نعت ’’وہی یٰسین وہی طہٰ‘‘ کی قرآنی سورتوں کے نام سے خوب صورت ترکیب بنائی گئی۔ ایک مجموعہ نعت کا نام سورۃ کوثر کے نام سے ’’کوثریہ‘‘ رکھا گیا۔ ’’و سلمو تسلیما‘‘ میں شامل ایک نعت کا نام بھی قرآن کی سورۃ کے نام پر ’’یاایھاالمزمل‘‘ رکھا گیا۔ پہلے اور دوسرے مجموعے کا نام بھی سورۃ احزاب کی مشہور آیت سے ماخوذ ہے۔
﴿ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾
پہلا نعتیہ مجموعہ، صلو علیہ و آلہ ۱۹۷۸ء
دوسرا نعتیہ مجموعہ، وسلمو تسلیما ۱۹۹۰ء
حفیظ تا ئب کی قرآن مجید پرگہری نظر تھی۔ انھوں نے قرآنی آیات کا بھرپور مطالعہ کیا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتیں تخیلاتی قصے، کہانیوں سے مزین نہیں ہیں بل کہ حقائق سے آراستہ ہیں۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جس سے فن نعت کی روح کو نقصان پہنچا ہو۔ فن نعت کے تقاضوں کو نباہنے کے لیے انھوں نے قرآن مجید سے روشنی لی ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
﴿ أَوَ لَمْ يَرَوْاْ إِلَى مَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلاَلُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالْشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ وَلِلّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِن دَآبَّةٍ وَالْمَلَآئِكَةُ وَهُمْ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ ﴾
ترجمہ: ’’ کیا ان لوگوں نے خدا کی مخلوقات میں سے ایسی چیزیں نہیں دیکھیں جن کے سائے دائیں بائیں لوٹتے رہتے ہیں، یعنی اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے رہتے ہیں اور تمام جاندار جو آسمانوں اور زمین میں ہیں نیز فرشتے بھی اللہ کے آگے سجدہ کرتے ہیں‘‘۔ [11]
ان آیات قرآنی سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کی ہر شے اللہ عزوجل کے سامنے سربہ سجود ہے اور اللہ عزوجل کے سوا ایسی کوئی ہستی نہیں ہے جو سجدے کے لائق ہو۔ مگر مقام حیرت و تاسف ہے کہ بہت سے نعت گو شعرا نے قرآن مجید کی اس نص قطعی کو نظر انداز کرتے ہوئے غلو سے کام لیا ہے۔ پروفیسر عبداللہ شاہین نے اپنی معروف تصنیف ’’نعت گوئی اور اس کے آداب‘‘ میں اس حوالے سے درج ذیل شعری مثالیں پیش کی ہیں:
؎ آپ کے کوچے میں ہو میرا گزر یا مصطفیٰﷺ
میری پیشانی ہو اور وہ سنگ در یا مصطفیٰﷺ
(طاہر فاروقی)
؎ کرو غم سے آزاد یا مصطفیٰ ﷺ
تمہیں سے ہے فریاد یا مصطفیٰ ﷺ
(داغ دہلوی)
؎ جبیں میری ہو سنگ در تمھارا یارسول اللہ
یہی ہے ایک جینے کا سہارا یا رسول اللہ
(قمر الدین انجم)
؎ جہاں دن رات خورشید و قمر سجدے میں رہتے ہیں
اسی چوکھٹ پر پیشانی جھکا کر ہم بھی دیکھیں گے
(منور)
؎ ہو آشیانہ آپ کا امداد کی جبیں
اس سے زیادہ کچھ نہیں درکار یا رسول اللہ
(حاجی امداد اللہ ) [12]
حفیظ تائب نے اپنی نعتوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے۔ انھو ں نے اپنی نعتوں میں ایسا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جو کہ نعت کو محبوبیت کے دائرہ سے نکال کر ربوبیت کی طرف لے جاتا ہے۔ انھوں نے براہ راست اپنی نعتوں میں قرآنی آیات کا ترجمہ بھی شامل کیا ہے۔ براہ راست مختلف قرآنی آیات سے استفادہ کرکے نہ صرف نعتیہ موضوعات میں اضافہ کیا ہے بل کہ فن نعت کی روح کو بالیدگی عطا کیا ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں فرمایا:
﴿ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾
’’بے شک آپﷺ اخلاق کے اعلیٰ پیمانے پر ہیں‘‘[13]
اس آیت سے استفادہ کرکے حفیظ تائب یوں گویا ہوئے:
؎ خلق عظیم و اسوہ کامل حضور ﷺ کا
آداب زیست سارے جہاں کو سکھا گیا [14]
قرآنی آیات کے تراجم اپنے اشعار میں شامل کرکے جہاں حفیظ تائب نے نعتیہ موضوعات کو وسعت عطا کی ہے وہاں انھوں نے ان موضوعات سے کئی معنی خیز پہلو بھی اخذ کیے ہیں۔ مثلاً ’’خلق عظیم‘‘ اس قرآنی ترکیب سے انھوں نے کیا خوب صورت شعر تخلیق کیا ہے:
؎ اس پیکر خلق عظیم کو تھی ملحوظ انسان کی بہبودی
منظور نہ تھی اعداد کی بھی خاطر شکنی، اللہ غنی
اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ﴾
ترجمہ: ’’آپﷺ اپنی خواہش سے نہیں کہتے۔ وہی کہتے ہیں جو وحی آتی ہے ان پر۔‘‘ [15]
حفیظ تائب نے اس قرآنی آیت سے کیا خوب شعر کہا ہے:
؎ نبی ﷺ کے ہر سخن میں ہے جھلک وحی الٰہی کی
حدیث مصطفیٰﷺ پر مرحبا کہیے، بجا کہیے [16]
اللہ عزوجل قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾
’’اے اصحاب اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آوازوں سے بلند مت کرو۔‘‘ [17]
حفیظ تائب نے اس آیت قرآنی کا حسن اور تقدس بھی برقرار رکھا ہے اور فن نعت کے تقاضے بھی پورے کیے:
؎ ذہن میں رکھا یہ آیہ ﴿ لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ ﴾
بات کر طبع پیغمبر کی نفاست دیکھ کر
اسی طرح ایک اور جگہ حفیظ تائب کا انداز اس طرح ملتا ہے:
﴿ وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولَى ﴾
ترجمہ: ’’اور آخرت آپ کے لیے حد درجہ بہتر ہے‘‘ [18]
؎ ساعت ہر آنے والی ہے، بہتر تیرے لیے
تو کس لیے ملول یا ایھا الرسول
گویا کہ حفیظ تائب ان قرآنی آیات کو صرف اپنی نعتوں کا حصہ نہیں بناتےبل کہ وہ ان قرآنی آیات کو اپنی روح میں اتارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ قرآنی حروف اور قرآنی تراکیب ان کی نعتوں میں بوجھل پن کا احساس پیدا نہیں ہونے دیتے بل کہ ان سے ان کے اشعار نکھترے ہیں اور ان کا شوق امڈتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر سید عبداللہ:
’’حفیظ تائب کی نعت پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسا وصاف ہے، جو حضورﷺ کے روبرو کھڑا ہے، اس کی نگاہیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کی آواز احترام کی وجہ سے دھیمی ہے، مگر نہ ایسی کہ سنائی ہی نہ دے اور نہ ایسی اونچی کہ سوئے ادب کا گمان گزرے۔ شوق ہے کہ امڈ آتا ہے اور ادب ہے کہ سمٹا جا رہا ہے‘‘ [19]
حفیظ تائب نے اپنی نعتوں میں مقام رسالت ﷺ کی تشریح و توضیح کے لیے درج ذیل قرآنی آیات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے:
﴿ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ﴾
’’محمدﷺ اللہ عزوجل کے رسول اور خاتم النبین ہیں ‘‘ [20]
؎ لقب ہیں رحمت اللعالمین، ختم الرسل جن کے
انھیں لطف خدا کی انتہا کہیے، بجا کہیے
﴿ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ﴾
ترجمہ : ’’اور جو کچھ رسول دے اسے لے لو اور جس سے روک دے تم کو رسول پس رک جائو، اس سے ‘‘[21]
؎ سر تسلیم خم کیجیے نبیﷺ کے حکم پر تائب
نبی ﷺ کے نام پر صل علی کہیے، بجا کہیے
﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾
ترجمہ: ’’یقیناً رسول اللہ کی ذات بہترین نمونہ ہے‘‘۔[22]
؎ ایک معیار مجلا خاک سے افلاک تک
اعتبار آب و گل ذات رسول ﷺ ہاشمی
﴿ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ ﴾
ترجمہ: ’’بلاشبہ دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔‘‘ [23]
اور آپ ﷺ نے اسی دین کی تعلیمات کا پرچار کیا ہے۔
؎ دین اس کا ہے دستور، کتاب اس کی ہے منشور
وہ نو ر فلاح بشریت کے لیے ہے
﴿ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴾
ترجمہ: ’’آپ ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ [24]
حفیظ تائب قرآن مجید کا مطالعہ ایک زندہ کتاب کی طرح کرتے تھے اور قرآنی تعلیمات میں ڈوب کر نعتیں کہتے تھے یہی وجہ ہے کہ ان کی تشبیہات اور استعارات میں بھی قرآنی حوالے ملتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے نام لے کر آپ ﷺ کو کہیں مخاطب نہیں فرمایا۔ یہ اعزاز مرتبہ محمدی ﷺ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حفیظ تائب نے اس قرآنی روش کو بہ خوبی نباہیا ہے۔ چند مثالیں بہ طور مشت نمونہ ازخروارے ملاحظہ فرمائیں:
؎ عیاں ہیں دن کی طرح سب صفات ختم رسل
کھلی کتاب ہے گویا حیات ختم رسل[25]
؎ اعتبار نطق ہے گفتا ر خیر الانبیاء
نو بہار خلق ہے کردار خیر الانبیاء [26]
؎ قائد مرسلین تمھی، ہادی آخریں تمھی
رحمت العالمین تمھی، مصدرالتفات ہو [27]
؎ والضحیٰ روے منور ہے تو واللیل ہے زلف
ان کے فیضان سے ہیں صبح و مسا کے جلوے [28]
؎ دو عالم جن کے جلوُوں کی ضیا پاشی سے روشن ہیں
انھیں شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ کہیے، بجا کہیے [29]
تشبیہات و استعارات میں قرآنی حوالے استعمال کرکے حفیظ تائب نے نعت میں مبالغے سے احتراز کیاہے۔ انھوں نے ردیفوں میں بھی قرآنی کلمات استعمال کیے ہیں۔ جس سے ان کے لب و لہجہ کی دل کشی بڑھ جاتی ہے۔
؎ کھلا ہے باب حرم الحمداللہ
کرم ہے دم بہ دم الحمد اللہ
؎ نور نبیﷺ ہے نظارہ گستر اللہ اکبر
گلشن بہ گلشن، منظر بہ منظر اللہ اکبر
؎ جلوہ فطرت، چشمہ رحمت، سیرت اطہر ماشاء اللہ
حسن مکمل، فیض مسلسل، خیر سراسر ماشاء اللہ [30]
حفیظ تائب نے اپنی نعتیہ شاعری کی معنویت میں گہرائی اور رعنائی پیدا کرنے کے لیے قرآنی الفاظ و تراکیب کو بہ طور رموز و علائم کے بھی استعمال کیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
؎ جسےخلق عالمیں نے پکارا سراجاً منیرا
وہ حسن ہویدا، وہی نور سراپا سراجاً منیرا
ہدایت کا ایک جگمگاتا سویرا جو ہمراہ لایا
جگر جس نے ظلمات دوراں کا چیرا سراجاً منیرا
وہ جس کے قدم سے بہاروں کے چشمے زمانے میں پھوٹے
ہوا جس کے دم سے جہاں میں اجالا سراجاً منیرا [31]
حفیظ تائب نے قرآنی لفظیات، قرآنی تشبیہات اور قرآنی علامات سے نعتیہ شاعری کو موضوعاتی وسعت اور پاکیزگی عطا کی ہے۔ انھوں نے اردو لفظوں کے درمیان قرآنی تراکیب کے رچاؤ سے نعتیہ شاعری کو نئے ذائقے اور نئے لب و لہجے سے ہم کنار کیا ہے:
؎ یہ حریصُ علیکم کی تفسیر ہے
مفلسوں بیکسوں کے نصیر آپﷺ ہے
؎ حق لا مکاں میں اس کی ثنا کا تائب طلب گار
تھا ادن منی فرمان داور اللہ اکبر
؎ ہے مظہر آیہ لا ترفعوا کا زائر حضرت
عقیدت کی ہے صورت گنبد خضرا کے سائے میں
قرآنی لب و لہجے سے متاثر ہو کر حفیظ تائب نے نعتیہ شاعری کو فنی لحاظ سے حیات انگیز ترقی دی ہے۔ انھوں نے قرآنی سورت الکوثر کی تقلید میں اردو نعتیہ شاعری کو سب سے منفرد سہ مصرعی نظم ’’کوثریہ‘‘ کا ایک نیا ہیئتی تجربہ عطا کیا ہے جو کہ اس سے پہلے نعتیہ شاعری میں نہیں ملتا۔ یہ ان کی ذاتی اختراع ہے۔ اپنی سہ مصرعی نظم کوثریہ کے بارے میں حفیظ تائب خود رقم طراز ہیں کہ:
’’سہ مصرعی نظم پاروں کو کچھ اختلافات کے ساتھ ثلاتی، ہائیکو اور ماہیا کیا گیا ہے، مگر میں نے اس نعتیہ سہ مصرعی نظام پاروں کو ’’سورہ کوثر‘‘ کے تبع میں تینوں ہم قافیہ اور ہم وزن مصرعوں کی صورت دے کر ’’کوثریہ‘‘ نام دیا ہے۔‘‘ [32]
حفیظ تائب نے سورۃ الکوثر کے تبتع میں تینوں مصرعے مقفیٰ و مردف رکھ کر اسے سہ مصرعی نظم کوثر کا نام دیا اور اسی مناسبت سے انہوں نے اپنے نعتیہ مجموعے کا نام ’’کوثریہ‘‘ رکھا ہے۔ کم و بیش ۴۱ سہ مصرعی نظمیں کوثریہ اس مجموعے میں شامل ہیں۔ کوثریہ کی مناسبت سے ہی معروف نقاد سید ابو الخیر کشفی نے انھیں کوثری نغموں والاکہا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں:
’’ثنائے رب العالمین اور نعت صاحب کوثر ﷺ کے لیے ہمارے شعرا ہائیکو کو استعمال کر رہے تھے، مگر یہ شرف حفیظ تائب کے لیے مقدر ہو چکا تھا کہ وہ سورۃ کوثر کے جاوداں اور بانی آہنگ کی بنا پر اردو میں ہائیکو کی تمام روایت کو ایک نیا رخ عطا کرکے نئی صنف ایجاد کریں۔ تینوں مصرعوں کی رمزیت اور اختصار اسی صورت میں ابھر سکتا ہے جب زبان و بیان کے امکانات شاعر کے دائرہ اختیار میں ہوں۔ ‘‘ [33]
حمایت علی شاعر ثلاثی کے معروف شاعر ہیں۔ ثلاثی کا پہلا اور تیسرا مصرع مقفیٰ و مردف ہوتا ہے۔
؎ ہر موج بحر میں کئی طوفان ہیں مشتعل
پھر بھی رواں ہوں ساحل بے نام کی طرف
لفظوں کی کشتیوں میں سجائے متاع دل
جب کہ حفیظ تائب کی کوثریہ کے تینوں مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔
؎ اشک کو مطلع اظہار بنایا جائے۔
حال دل رحمت عالم کو سنایا جائے
بوجھ اس طور طبیعت سے ہٹایا جائے [34]
ہائیکو کے معروف شاعر ڈاکٹر محمد امین کی ایک ہائیکو ملاحظہ فرمائیں:
؎ فلسفے کی کتاب کھولی تو
سارتر کے حروف پر تتلی
اپنی ہستی کی سوچ میں گم تھی
اس کے تینوں مصرعے قافیہ و ردیف کی پابندی سے آزاد ہیں۔ جب کہ حفیظ تائب کی کوثریہ کی انفرادیت ہی قافیہ و ردیف ہیں اس کے تینوں مصرعے قافیہ و ردیف کی پابندی سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ ان کا یہ ہیئتی تجربہ ایک بھرپور اور منفرد فنی تجربہ ہے۔ یہ اختصار، تاثر، جامعییت، دلکشی، غنایت، فن کی سچائی اور جذبے کا خلوص ایسے تمام فنی محاسن سے مزین ہیں اور ثلاثی، ہائیکو، مائیا دیگر تمام سہ مصرعی اصناف سخن سے الگ اپنی پہچان رکھتا ہے۔ یہ تخلیقی تجربہ اردو نعتیہ شاعری میں ایک گراں بہا اضافہ ہے۔ اس کی چند مثالیں بہ طور مشت نمونہ ازخروارے نمونہ ملاحظہ فرمائیں:
؎ سوچنا چاہا جو اس ذات کو یکسو ہو کر
لفظ آنکھوں سے رواں ہو گئے آنسو ہو کر
میں بکھرتا ہی گیا دہر میں خوشبو ہو ک
دردہستی کا مداوا تو ہے
ٹوٹے شیشوں کا مسیحا تو ہے
مہربانی سارے جہاں کا تو ہے
؎ سبز گنبد جو رو برو ہوتا
اشک سے ہر گھڑی وضو ہوتا
نور ہی نور چارسُو ہوتا [35]
یہ گراں بہا، منفرد اور دلکش سہ مصرعی نظم کوثریہ حفیظ تائب نے براہ راست قرآن میں موجود سورت الکوثر کو بہ طور مثال ٹھہرا کے اختراع کی ہے۔ یہ نظم ان کے فن کا وہ اوج کمال ہے جو کہ انھوں نے قرآنی حوالوں سے متاثر ہو کر حاصل کیا ہے۔ حفیظ تائب نے یہ سارا کمال عشق رسول ﷺ سے حاصل کیا ہے۔ اسی عشق کی بہ دولت انھوں نے نعت میں قرآنی حوالوں کو ترجیح دی ہے اور پھر ان قرآنی حوالوں کی وجہ سے انھوں نے نعت گوئی میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا جو انھیں اپنے معاصرین سے منفرد و ممتاز رکھتا ہے۔ معروف اسکالر، دانشور اور ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی لاہور جناب احمد جاوید رقم طراز ہیں کہ:
’’تائب صاحب ماشاء اللہ اپنی ذات میں ایک دبستان ہیں۔ یہ ایک مستقل روایت کے بانی ہیں۔ جس سے وابستہ ہوئے بغیر آج اور ان شاء اللہ آیندہ بھی نعت گوئی کے میدان میں کوئی بامعنی پیش رفت نہیں ہو سکتی۔ بلاشبہ ہم لوگ اس بات پر فخر محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم نے تائب صاحب کو پڑھا ہے، انھیں دیکھا ہے ۔ نعت گوئی کیسی ہوتی ہے؟ یہ دیکھنا ہوتو تائب صاحب کا کوئی مجموعہ کھول لیں۔ اور نعت گو کو کیسا ہونا چاہئے؟ یہ جاننا ہو تو انھیں دیکھ لیں۔ ‘‘ [36]
نعتیہ حوالے سے نہ ان کی شخصیت رسمی تھی اور نہ ان کی نعتیں رسمی ہیں۔ انھوں نے عشق رسول ﷺ میں ڈوب کر نعتیں کہی ہیں اور اپنے فن کو بلندیوں تک پہنچانے کے لیے انھوں نے قرآنی تعلیمات اور قرآنی الفاظ و تراکیب کا سہارا لیا ہے۔
اُن کی نعتوں میں قرآن کی روح جلو گر ہے۔ قرآنی الفاظ و تراکیب اور قرآنی تعلیمات کی وجہ سے ہی ان کی نعتوں کی علمی و ادبی سطح اُبھرتی ہے۔
خلاصہ
محققین اس بات پر متفق ہیں کہ نعت گوئی کی ابتدا عربی زبان میں ہوئی۔ ہجرت مکہ کے بعد کفار شعرا نے حضرت محمدﷺ کے خلاف دشنام طرازیاں شروع کیں جس کے جواب میں نعت گو شعرا کا باقاعدہ دبستان قائم ہوا۔ ان شعرا نے آپ ﷺ سے خراج تحسین بھی وصول کی۔ مگر حضور ﷺ کے دور میں بعض شعرا صرف خیالی باتیں کرتے تھے، بے عملی کا شکار تھے اس لیے قرآن کریم میں ان کی مذمت کی گئی مگر استثنائی صورت میں ان شعرا کا ذکر فرمایا جو ایمان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں، مزید قرآن میں یہ فرمایا کہ اللہ اور اس کے فرشتے آپﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں حفیظ تائب نے نعت گوئی کے ذریعے اس احسن فریضہ کو انجام دیا۔ انھوں نے غزل کا میدان ترک کرکے نعت میں قرآنی حوالوں کے ذریعے اپنے دور میں لسانی جہاد کا کام کیا ہے۔ حفیظ تائب نے قافیہ، ردیف، تشبیہات و استعار ات اور علائم ورموز مختلف حوالوں سے نعتیہ شاعری میں قرآنی الفاظ و تراکیب کا رچاو کیاہے۔ انھوں نے قرآنی حوالوں کے ذریعے نعتیہ موضوعات کو وسعت عطا کی ہے۔ اس کے لب و لہجے میں اضافہ کیا ہے۔ انھوں نے قرآنی سورۃ الکوثر کے تتبع میں نعتیہ شاعری کو نت نئے ہیئتی تجربات کیے ہیں۔ سہ مصرعی نظم کوثریہ کی اختراع سے انھوں نے نعتیہ شاعری میں گراں بہا اضافہ کیا ہے۔ حفیظ تائب نے قرآن کا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی نعتوں میں قرآن کی روح جلوہ گر ہے۔ قرآنی حوالوں کی وجہ سے ہی ان کی نعتوں کی علمی و ادبی سطح اُبھرتی ہے۔
Key Words
English
Allusions Migration Defend Revilement Against Worshiped Rhymes Simile Metaphor Invention |
اردو
حوالے ہجرت دفاع دشنام طرازی خلاف عبادت قافیے تشبیہ استعارہ اختراع |
[1] القرآن، سورۃ یٰسین ، آیت ۶۹
[2] القرآن،سورۃ شعرا، آیت ۲۲۴۔۲۲۷
[3] القرآن، سورۃ الاحزاب ، آیت ۵۶
[4] حفیظ تائب، وسلموا تسلیما، القمرانٹرپرائزز، لاہور، مئی ۲۰۰۴ء، ص ۶۱
[5] مقصود حسین شاہ، پروفیسر، ذکر حفیظ تائب، القمر انٹراپرائزز لاہور، ۲۰۰۷ء،ص ۱۶
[6] تحسین فراقی، ڈاکٹر،افادات (شعری مطالعات) سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور دسمبر ۲۰۰۴ء، ص۲۳۱
[7] مقصود حسین شاہ، پروفیسر، ذکر حفیظ،ص ۲۰۔۲۲
[8] وہاب اشرفی، مابعد جدیدیت۔ مضمرات و ممکنات، پورب اکادمی اسلام آباد، ۲۰۰۷ء،ص ۱۶۵
[9] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، القمر انٹرپرائزز، لاہور، مئی ۲۰۰۴ء، ص۷۸
[10] القرآن، سورۃ الاحزاب، آیت ۵۶، پارہ ۲۲
[11] القرآن، سورۃ النحل، آیت ۴۸،
[12] عبداللہ شاہین، پروفیسر، نعت گوئی اور اس کے آداب، دارالسلام، لاہور،س، ن۔م،ص ۱۳۵
[13] القرآن، سورۃ القلم، آیت ۲۹،پارہ ۳
[14] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، ص۶۲
[15] القرآن مجید، سورۃ النجم، آیت ۳، ۴، پارہ ۲۷
[16] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، ص۶۲
[17] القرآن سورۃ الحجرات، آیت ۲، پارہ ۲۶
[18] القرآن سورۃ الضحیٰ، آیت ۴، پارہ ۳۰
[19] سید عبداللہ، ڈاکٹر، تجزیہ، مشمولہ، صلو علیہ و آلہ، حفیظ تائب،ص ۱۰
[20] القرآن سورۃ الاحزاب، آیت ۴۰،
[21] القرآن سورۃ حشر، آیت ۷
[22] القرآن سورۃ الاحزاب، آیت ۲۱
[23] القرآن سورۃ ال عمران، آیت ۱۹
[24] القرآن سورۃ الانبیا ، آیت ۱۰۷
[25] حفیظ تائب، وسلموا تسلیماص۹۲
[26] حفیظ تائب، وسلموا تسلیماص۱۵۴
[27] حفیظ تائب، وسلموا تسلیماص۱۵۸
[28] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، ص۷۳
[29] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، ص۷۹
[30] حفیظ تائب، صلو علیہ وآلہ، ص۵۷
[31] حفیظ تائب، کوثریہ، القمرانٹرپرائزز، لاہور، ۲۰۰۳ء، ص ۷۰
[32] حفیظ تائب، کوثریہ، القمرانٹرپرائزز، لاہور، ۲۰۰۳، ص ۸۸
[33] ابوالخیر کشقی، سید، ڈاکٹر، کوثری نغموں والا، مشمولہ کوثریہ، ص۱۸
[34] حفیظ تائب، کوثریہ، ص ۱۱۳
[35] حفیظ تائب، کوثریہ، ص ۱۱۴
[36] احمد جاوید، فلیپ، مشمولہ، کوثریہ