You are currently viewing حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

عزہ معین

سنبھل، اتر پردیش

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

ابھی میں طفل مکتب ہوں اور خود میں اتنی قابلیت نہیں رکھتی کہ ادیبوں اور عالموں کے درمیان جناب حفیظ نعمانی صاحب جیسی صفات اور خصوصیات میں یکتا شخصیت پرقلم اٹھا سکوں۔آپ کی تحریروں کی معترف ہوں اور زیر مطالعہ کتاب ‘‘قلم کا سپاہی ’’ کے مضامین نے مجھے مجبور کر دیا کہ اپنی ناپختہ زبان میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہی ہوں ۔حفیظ نعمانی صاحب کی سحر انگیز بے باک صحافت کی نسبت واقفیت تو رکھتی تھی لیکن ‘‘قلم کا سپاہی’’ کتاب کے مطالعے نے مجھے بہت سے شخصی رموز سے آشناکیا اور میں شدت سے منتظر تھی کہ جلد از جلد آپ سے شرف نیاز حاصل ہو ۔اللہ کا شکر ہے آج وہ ساعت مبارک نصیب ہوئی ۔یقیناًاس پروگرام کے اختتام تک میری ناقص معلومات میں علم کے بیش بہا موتیوں کا ذخیرہ جمع ہو جائیگا ۔کیونکہ جس نعمانی خاندان کے افراد یہاں جمع ہیں وہ صرف سنبھل ہی میں نہیں بلکہ لکھنؤ کی سر زمین پر بھی اپنی علم دوستی اور اردو پر وری کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اور عالمی اردو ادب میں اس خاندان کے ادیب، صحافی،شاعر اور نثر نگارسنبھل کا نام روشن کر رہے ہیں ۔

 میری کم نصیبی ہے کہ ا یسی بے کراں شخصیت سے صرف صحافی کی حد تک واقف تھی ۔احسان مند ہوں اویس بھائی کی کہ انھوں نے اپنی کتاب مطالعے کی غرض سے عنایت فرمائی ۔ میں نے اس کتاب سے بہت سارے اہم نکات اخذ کئے ۔اویس بھائی کو بہت عزت اور احترام کے ساتھ ان کی اعلی اور افادی خیال پر جس نے انھیں اتنی اہم تحریروں کو مرتب کرنے کی ترغیب دی ، بے حد مبارک باد پیش کرتی ہوں۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے مامو ں نعمانی صاحب کی زندگی کی اہم تحریروں اورسبق آموز واقعات کو ترتیب وارجمع کرکے نئی نسل پر احسان کیا ہے۔ اس کتاب کے آغاز‘‘مجھے کہنا ہے کچھ ’’عنوان کے ذیل میں ایک بہت عمدہ بات لکھی ہوئی ہے ۔

 ‘‘ہمیں اپنے بڑوں کے کارناموں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ’’

 کیونکہ تجربہ ایسی کنگھی ہے جو بال جھڑ جانے کے بعدحاصل ہوتی ہے ۔اس لئے مناسب ہے کہ تاریخ کو محفوظ کیا جائے تاکہ بوقت ضرورت اس سے فیض حاصل کیا جاسکے۔

 ‘‘کبھی کبھی بعض اشخاص اور بعض کردار کسی ایسی بات سے پردہ اٹھا دیتے جو فکر کے انداز

 ہی کو بدل دیتے ہیں ۔اپنے بڑوں کا تذکرہ بھی اسی نوعیت کی ایک چیز ہے ۔جن میں کسی

 عہد کی تقریباً تمام یابیشتر شکلیں نظر آجاتی ہیں ۔’’

 حفیظ نعمانی معروف شاعر ،بے باک صحافی ،منجھے ہوئے انشاپرداز،مجدد عالم اور بہترین ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ادبی دنیاں میں غیر معمولی صلاحیتوں اورلاتعداد خوبیوں کی حامل اعلی پائے کی شخصیت ہیں ۔ان کی زندگی کے نشیب وفراز ،ان کی مجبوریاں اور پریشانیاں ان کے فرض کے بیچ کبھی حائل نہیں ہوئیں۔نعمانی صاحب کی تحریریں بھی اسی فطرت کی نشاندہی کرتی ہیں جس نے ان کی صحافی زندگی کو کبھی حق گوئی سے پیچھے نہیں ہٹنے دیا ۔ان کی تحریروں میں ان کی زندگی کے واقعات ان کے جراء ت مندانہ دست قلم کی کاوشوں کے ثبوت تر تیب دیئے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔اور یہ کتاب بھی ان کی آلام زیست کے گوشوں کو قاری سے متعارف کرانے کا کام انجام دیتے ہوئے ان کے سعی و پیکار کو واضح کر رہی ہے ۔ ا ن کی بے باکی اور خود داری سے مزین صحافت کے لئے جیسا کہ پروفیسر عاطف نے کہا ہے وہ حفیظ صاحب کی حق گوئی کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے بالکل صحیح ہے۔کہتے ہیں کہ ۔

 ‘‘تین اہم نکات ان کی تحریر میں لائق تحسین ہیں اور یہی ان کی پیکر زندگی پر ثابت

 بھی ہوتے ہیں ۔

 ۱۔اپنے دور کی صحافتی روایات سے بغاوت ۔

 ۲۔حضور و جناب ومیاں والی اقدار سے بغاوت ۔

 ۳۔اقتداراعلی کے گلیاروں سے دوری اور بے زاری ۔’’

 یقین کامل ہے کہ یہ صفات ہم عصروں ہی سے نہیں بلکہ اگلے پچھلوں سے بھی اعلی اور ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔

 صحافی ادیب جس سماج میں رہتا ہے اس کے مسائل سے واقف ہونے کے علاوہ آئندہ ظاہر ہو سکنے والے مسائل کو بھی زیر نظر رکھتا ہے تاکہ ان کے حل تلاش کئے جا سکیں ۔اور یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی کہ وہ مصلح قوم تو نہیں ہے تاہم اپنی سوچ کے زاویے سے مسائل کی سنگینی کو ذہن نشین کرانے میں کامیاب ہو تے ہوئے دکھا ئی دیتا ہے ۔ نعمانی صاحب کی انشائیہ نگاری معلوماتی ،اپنی خصوصی دلچسپی ، ذہانت اورغیر معمولی پیشہ ورانہ توجہ اور انہماک کے باعث ایک دستاویزی اہمیت رکھتی ہے ۔ان کی تحریروں سے ان کی عادات ،مزاج نشست و برخاست ،دلچسپی اور ادبی سرگر میوں پر بھی روشنی پڑتی ہے ۔ ان کا نثری اسلوب رواں دواں اور بیانیہ متاثر کن ہے ۔

 ہندوستان میں فرقہ واریت کی نہج کو کون نہیں جانتا ۔حفیظ نعمانی مخالف فرقے کی دکھتی رگ کو چھیڑ تے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔وہ جانتے ہیں حقوق و حقائق کے تناظر میں مسلم معاشرے کی استحصالی فضاکا ذمہ دار کون ہے ۔ہمارے رہنما کتنے دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ قوم کا درد و کرب بیان کرتے ہوئے ان کی تحریر بے حد تلخ ہو جاتی ہے ۔کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے ۔ان کے قلم کی جولانیوں کے آگے نہ کوئی بندہ ہے اور نہ بندہ نواز،ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں محمود و ایاز۔پھر چاہے پنڈت نہرو ہوں ،بی جے پی کے لیڈر ہوں ،یا خود اٹل جی ،جو بات نعمانی صاحب کوقوم و مذہب کے حق میں بے جا محسوس ہوتی ہے ان کی تحریر میں ڈھل کر ذرائع ابلاغ اخبارات کے توسط سے ہر ذی شعور قاری تک رسائی رکھتی ہے۔‘‘ یاد ماضیٰ عذاب ہے یارب ’’مضمون میں ہندوستان کے نام نہاد لیڈروں ،ظاہری خٰیر خواہی کا ڈھونگ کر رہے عہدے داروں کے ذہنی خد وخال کو رعیت کی عقل دور بیں کے مد مقابل متا ثر کن انداز بیان میں نعمانی صاحب نے صفحہ قرطاس کی زینت بنا دیا ہے ۔

 ‘‘اب رہا وہ گروپ جو رزولیوشن کا مذاق کر رہا ہیوہ ایسا ہی ہے جیسے پنت تھے

 یا پنڈت نہرو تھیکہ جب خون خرابے کی بات ایک ڈی ایم نے کہ دی تو دونوں چپ

 ہو گئے یہ وہی پنڈت جی ہیں جن کے بیٹے کے سی پنت او ر ان کی پتنی بی جے پی کی

 لیڈرہیں اور پنڈت نہرو کے متعلق کچھ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ ہمارا کوئی فوٹوشری

 اٹل جی کے ساتھ کھنچا ہوا شائع نہ کردے کہ یہ تو بی جے پی کا ایجینٹ ہے ۔لیکن ہم

 بتائیں گے ضرور کہ ۱۹۶۲ء میں مولانا حفظ الرحمن سیو ہاری نے مسلم کنونشن بلا کر

 مسلمانوں کو کوئی کنونشن دینا چاہا تھا تو پنڈت نہرو نے کانگریس کے صدر دھیرو بھائی

 سے کہا کہ وہ مولانا سے کہیں کہ کنونشن نہ بلائیں بات کر لیں ۔مولانا نے جواب دیا

 کہ انھیں ہر وہ بات معلوم ہے جسکے نہ ماننے کی وجہ سے کنونشن بلایا جا رہا ہے ۔ملک

 میں یہ بات پھیل گئی کہ عمر بھر کانگریس کی مدد کرنے والے ہر ہندو کانگریسی سے زیا

 دہ ملک کی آزادی کے لئے قربانی دینے والے مولانا حفظ الرحمن نے وزیر اعظم کی

 بات ٹھکرا دی ۔ مخصوص ذرائع سے معلوم ہوا تھا جو راز رہا کہ مولانا نے یہاں تک

 کہ دیا تھا کہ جو کچھ بلراج مدھوکر کی زبان پر ہے وہ نہرو جی کے دل میں ہے۔ اس

 کے بعد اب ان سے بات کرنے سے کیا حاصل ؟ پنڈت نہرو کے زمانے میں

 سب سے زیادہ مسلمان شہید کئے گئے اور کوئی ایک جگہ ایسی نہیں تھی جہاں آندھی

 کی طرح اڑ کر پہنچنے والے بجلی کی طرح کڑکنے والے پنڈت نہرو مسلمانوں کو بچانے

 کے لئے گئے ہوں یا وہاں کے کسی وزیر اعلی سے جواب طلب کیا ہو ۔بالکل انھیں کے

 نقش قدم پر اندرا چلیں اور اس روایت کو راجیو گاندھی نے بھی باقی رکھا کہ میرٹھ کے

 ہاشم پورہ اور ملیانہ میں وہ ہوا جو کسی طرح گجرات سے کم نہیں تھا لیکن وہ دہلی میں کان؂

 سے مکھی اڑاتے رہے۔ ’’

 آگے کہتے ہیں

Leave a Reply