You are currently viewing حویلی

حویلی

گورنمنٹ صادق ویمن یونیورسٹی

بہاول پور

’’حویلی‘‘

 

گاڑی  آہستہ چلا میرے دل میں ہول اٹھ رہے ہیں۔ابھی ڈھنگ سے چلانابھی نہیں سیکھی اور بھیج دیا تیرے باپ نے

کہ بوڑھی ماں ہی تو ہے ،کچھ ہو بھی گیا تو کیا۔۔۔!

دادی کے  اس انکشاف پہ کامی چونک اٹھا ۔

‘‘ دادی ! اگر ٹکر لگ گئی تو آپ کے ساتھ ساتھ آپ کا یہ خوبصورت پوتا جس نے ابھی صرف زندگی کی انیس بہاریں دیکھی ہیں ،کوچ کر جائے گا”

دادی نے ایک گھونسا اس کے سر پہ دے مارا ۔کامی نے بچاؤ کے لیےجلدی سے ایک ہاتھ اپنے منہ کی جانب کیا  اور ذرا سائیڈ پہ ہو گیا۔

تجھے شرم نہیں آتی، اس عمر میں ایسی بدفال منہ سے نکالتا ہے۔

اتار مجھے، ایک ہاتھ سے گاڑی کو پکڑ رکھا ہے۔مجھے تو پہلے ہی تیری نیت پہ شک تھا۔ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی دادی لاک کھولنے لگیں۔

کامی نے جلدی سے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔‘‘ بس کریں دادی کیوں اس عمر میں خودکشی کرکے ہمیں شرمندہ کروانا چاہتی ہیں؟

اگرچہ اس نے مسکراتے ہوکہاتھا مگر دادی کا پارہ چڑھ گیا۔

” ناہنجار، قینچی کی طرح چلتی ہے تیری زبان، تیرے بڑے ابو، چھوٹے ابو نے آج تک میرے سامنے منہ نہیں کھولا اور ایک تو ہے کہ کبھی منہ بند نہیں کیا۔پورا اپنے مرحوم دادا پر گیا ہے۔

دادی کے کہنے کی دیر تھی، کامی پھر بول پڑا ‘‘ دادی ان کی روح آپ کی یہ بات سن کر تڑپ رہی ہو گی۔ آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے وہ آج ہمارے ساتھ نہیں ہیں،

سوچیں دادی، زندگی پر موت کو ترجیح دے گئے۔ اگر زمینوں  کی لڑا   ئیاں بھی تھیں تو کیا ضرورت تھی کہ دشمنوں کے پاس بندوق لے کرپہنچ گے، وجہ یہی ہو گی کہ گھر میں آپ نے سکون سے بیٹھنے ہی نہ دیا ہو گا’’۔

دادی نے ایک کڑوی کسیلی نگاہ کامی پر ڈالی اور بولیں:

“تو تو جیسے مرحوم کی یاد میں فاتحہ پڑھ رہا ہے۔اب تو بخشش ہو گئی ہو گی!

کا می شرمندہ ہو گیا۔اسے یقین تھا کے بڑے ابو کی ڈانٹ اب یقینی ہے سو شہر پہنچتے  ہی قریبی سٹور سے آئس کریم لے آیا۔دادی کا لہجہ قدرے بہتر ہو گیا۔کامی  ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی بولا:

‘‘ دادی ایک بات کہوں؟جوانی میں آپ گاؤں کی سب سے خوبصورت اور ذہین لڑکی ہوتی ہوں گی’’۔

دادی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی ۔

کوئی ایسی ویسی، سارے گاؤں کی لڑکیاں جلتی تھیں مجھ سے، تیرے دادا بھی اس وقت بڑے گبھرو، شیر جوان تھے۔انہوں نے فیصلہ کر لیا تھاکہ شادی کروں گا تو اپنی خالہ زاد سے ہی کروں گا۔

‘‘ اچھا ’’۔۔۔۔وہ کون تھی جو آپ کی راہ میں رکاوٹ بن گئی؟

دادی ذرا تیکھی ہو گئیں:‘‘ میں اور کون’’ ابھی  وہ مزید بتا رہی تھیں کہ گاڑی گھر کے مین گیٹ پر پہنچ گئی۔

دادی ذرا بے سکونی سے اتریں؛

اے لو۔۔۔۔۔پندرہ منٹ کا تو سفر تھا،کئی سوال تیرے دل میں اٹھ رہے ہوں گے۔ اندر چل، میں سب سے مل لوں پھر تفصیل سے تجھے بتاتی ہوں ، کامی جانتا تھا کہ یہ وہ تفصیل ہے جو بچپن سے وہ دادی سے سنتا آیا ہے مگر ہر بار ایک نئے زاویے سے ابتداء ہوتی۔

ثریا، حنا، طارق پتر۔۔۔۔۔کہاں ہو تم لوگ؟ دادی پکارتے ہوئے بڑے ابو کے کمرے میں چل دیں۔ وہ کمرہ بند کیے سو رہے تھے۔ دادی نے یک لخت دروازہ بجانا شروع کر دیا۔

اماں،ابھی کچھ ہی دیر ہو ئی سوتے ہوئے ،آپ دوسرے کمرے میں۔۔۔۔ثریا نے ہچککچاتے ہوئے کہاتو دادی کو غصہ آگیا۔ اسی دوران طارق نے کنڈی کھولی۔ دادی نے اسے گلے سے لگالیا اور دعائیں دیتے ہوئے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ پھر اپنے ساتھ لے کراندر داخل ہوئیں اور بیڈ پر چڑھ کے بیٹھ گئیں۔

ہائے پتر، یہ ماتھے پرخون کیسا ہے؟ طارق نے دائیں ہاتھ سے ماتھے کو رگڑا تو انگلیاں سرخ سی دکھائی دیں۔

وہ ایک لمحے کو حیران ہوا، دادی کو اچانک خیال آیا تو ہنس پڑیں۔

اے لو، ماں کا دل تھا۔۔۔۔تڑپ اٹھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے یاد ہی نہ رہا کہ منہ میں پان ہے۔

حنا دوڑتی ہوئی اور دادی کے گلے لگ گئی۔ دادی اسے چومتے ہوئے رک گئیں۔ پھر نیچے نگاہ دوڑائی۔ یہ اللہ ماری قالینیں بچھا دیتے ہو- ساری آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔

حنا جلدی سے اگلدان لے آئی۔ دادی نے اس میں تھوکتے ہوئے ،طارق کو دیکھا۔

 بیٹا۔ ۔۔۔۔تیری ماں کا تھوک اتنا بھی قیمتی نہیں کہ برتنوں میں سنبھال کے رکھا جائے۔

اماں کی بات پر طارق مسکرادیا۔ اماں آپ سنائیں زاہد تو ٹھیک ہے؟

ٹھہر جا بتاتی ہوں۔ سانس تو لینے دے، ثریا (بہو) کو لڈڈرنک لے آئی تھی۔ اماں نے گلاس  پکڑتےہوئے اچٹتی نگاہ اس  پہ ڈالی، ارے، رکھ دے اس برتن کو۔۔۔۔سر پر سوار ہو کے ہی کھٹری رہے گی؟

ڈگی میں سبزیاں ہیں ، گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دودھ کی بوتلیں اور فروٹ ہیں، دیسی گھی میں نے آگے رکھا تھا، دھیان سے اٹھانا۔

بہواماں کی بات سنتے ہی تیزی سے واپس جانے لگی۔

اے طارق، تو شہر کا ہی ہو کے رہ گیا۔ اس بے چارے زاہد کی قسمت پھوٹی تھی۔ شہر کی لڑکی سے بیاہ کر کے بھی خوش نہیں’’

‘‘ کیا ہوا اماں، فریحہ بہت اچھی ، پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے”طارق کی بات پر اماں نے ناگواری سے کہا۔

” اچارڈالنا اس کی پڑھائی کا، صورت نہ شکل ، سیاہ رنگ، سارا دن کر یمیں مل کے بھی گوری نہ ہو سکی۔ زاہد شام کو تھک ہار کے گھر آتا ہے تو اس کا دل کڑھتا ہے فریحہ کو دیکھ کر۔۔۔!!

اماں ایسی بھی کوئی بات نہیں کئی مرتبہ میں نے خود پوچھا ہے خوش ہے وہ۔ ۔۔۔۔۔’’

اماں فوراَ بولیں، ‘‘ لو۔۔۔۔ تیرے سامنے کیا بولتا ، یہ باتیں تو ایک ماں ہی بہتر جان سکتی ہے۔’’

طارق کے کچھ دوست ملنے آئے تھے، کامی بتا کے جانے لگا تو اماں نے اسے روک لیا۔ وہ  سر کھجاتا  ہوا صوفہ پربیٹھ گیا۔

دادی بھڑک اٹھیں، ” تو کیا اجنبیوں کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ ادھر پاس آکے بیٹھ۔۔۔۔’’

ناچار وہ پاس آکے بیٹھ گیا۔ بہو کھانا لے آئی۔ دادی نے دونوں  کو شامل کر لیا۔ کامی دہائیاں دیتا رہ گیا کہ اسے طلب نہیں مگر دادی کا خیال تھا کی بھوک کی وجہ سے اتنا دبلا اور کمزور ہو رہا ہے۔ اسی  دوران انہیں پھر سے زاہد کا خیال آیا۔”ثریا میری بات سن، کوئی خوبصورت، گوری چٹی لڑکی تو ڈھونڈ۔۔۔۔۔!!!

کس کے لئے۔۔۔۔۔۔؟ ثریا نے حیرانی سے پوچھا۔

 اپنے زاہد کے لئے ۔۔۔دادی رازداری سے  بولیں تو کامی یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

‘‘فریحہ آنٹی کو دادی اپنی پسند سے لائی تھیں۔ اب امی کی پسند چیک کرنا چاہ رہی ہیں۔’’

دادی نے پاس پڑی پلیٹ میں سے کٹے ہوئے آم  کی گٹھلی اٹھا کر اسے دے ماری، کامی کو اندازہ تھا ’اس نے سر کو ایک طرف جھٹکا، نتیجتاَ  گٹھلیسامنے سے آتے ہوئے طارق کے کالر کو چھوتی ہوئی ان کے قدموں میں آن گری۔

اماں۔۔۔۔آپ بھی کمال کرتی ہیں، طارق کالر جھاڑنے لگا، ثریا  اٹھ کھٹری ہوئی۔ الماری میں سے دوسرا سوٹ نکال کر اسے تھمادیا، اور وہ غسل خانے کو چل دیا۔ دادی بھی ہنس پڑیں

کامی۔۔۔۔، تو بڑا تیز ہے۔ میرے ہاتھوں باپ کو سزا دلوادی۔ یہ آج تیرے نشانے کو کیا ہوا تھا؟ اس سوال پر کامی  ان کے پاس ہی بیٹھ گیا۔

‘‘دادی آج آپ آؤٹ ہونے سے بچ گئیں۔ بس بڑے ابو نے کیچ نہ پکڑا۔’’

دادی اب ذرا سستا نے کےلئے لیٹ گئیں۔ کامی نے  موقع غنیمت  جانا اور اٹھ کے جانے لگا تو وہ بڑبڑانے لگیں:

‘‘یہی موقعے ہوتے ہیں بڑوں کی خدمت کر کے  ان کےدل میں جگہ بنانے کے۔۔۔۔۔ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں میری۔۔۔۔۔چل دبا لے’’وہ منہ بناتا ہوا پھر سےبیٹھ گیا۔ دادی  آنکھیں موندے بولنے لگیں:

‘‘ تیرا باپ تو  شہر میں ہی آکے آباد ہو گیا۔ پڑھا لکھا جو تھا۔ اور تیرے چھوٹے ابو۔۔۔۔۔۔ کتنا دکھ تھامجھے کہ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور زمینوں کی دیکھ بھال میں لگ گیا۔ پر اچھا  ہی ہوا۔ حویلی کی رونق  اسی کی وجہ سے تو ہے۔ ’’

کامی  جھلا اٹھا، ‘‘ دادی، آپ ہمیں غدار بنانے پر تلی رہتی ہیں۔ بڑے ابو ہفتے میں تین بار آپ سے مل آتے ہیں۔ ہفتے میں دو دن آپ بھی آجاتی ہیں، بس آپ کو راضی ہونا نہیں آتا۔’’

چل پرے ہٹ۔ ۔۔۔۔۔۔۔دادی نے ٹانگیں ایک طرف سکیڑ لیں۔

کامی تیزی سے اٹھ کے چلا گیا کہ پھر نہ بلاوادے بیٹھیں۔

شام  کو دادی کی آنکھ کھلی تو کمرے میں خود کو اکیلا پا کر حیران ہوئیں۔ اٹھ کے باہر آئیں، کچھ ہی قدم چلی تھیں کہ ڈرائنگ روم سے بولنے کی آوازیں سنائی دیں۔ دادی سیدھی اندر چلی گئیں۔ طارق کے دو دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ مودباَ کھڑے ہو گئے۔ دادی سلام کا جواب دیتے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں اور طارق کے ساتھ ہی صوفے پر بیٹھ گئیں۔

اے طارق تیرے دوست ابھی تک بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں سمجھی چلے جائیں گے۔ طارق کچھ کھسیانا سا ہوا۔ اماں دوسرے شہر سے آئے ہیں۔ آج میرے پاس رہیں گے۔

 چلو یہ بھی اچھا ہے۔ اور تم باتوں سے ہی ان کا پیٹ بھرتے رہو گے، جاؤ بہو سے کہو کچھ پکائے۔ مہمان تو رحمت ہوتے ہیں ۔۔تم  انھیں بھوکا مارتے ہو۔

ان میں سے ایک مسکرا دیا۔ نہیں اماں جی، ہم نے بہت کھا لیا، آپ سنائیں خیریت سے ہیں۔

اے لو۔۔۔۔’’  کہا ں کھا لیا، میرے سامنے شرما رہے ہو۔

چل اٹھ طارق، جیسا کہا ہے ویسا کر۔۔۔۔۔۔طارق اماں کی بات سن کر اٹھ کھڑا ہوا۔

اماں صوفے پر ہی آلتی پالتی مار کےبیٹھ گئیں۔

کیا بتاؤں۔۔۔۔۔۔اب تم تو میرے بیٹوں کی طرح ہو، چھپا بھی نہیں سکتی، موتیا اتر آیا تھاآنکھ میں، طارق بڑے شہر لے گیا، اللہ کی مار ہو ’ڈاکٹروں نے مشینوں میں جکڑ کے رکھ دیا، اماں ایسے دیکھیں، اماں ویسے دیکھیں ۔ کوئی پوچھے۔۔۔۔۔تم تو ڈاکٹر  ، سب کچھ پتہ ہوگا، پھر اس بوڑھی  جان کو کیوں کھپا رہے ہو؟ کتنی چیزیں روک دیں کہ نا کھاؤ۔  بڑے بےوقوف ہیں، یہ نہ سوچا کہ پیٹ کا آنکھ سے کیا تعلق۔۔۔۔۔۔ میں بھی رکنے والی کہاں تھی، اماں کے ساتھ وہ  دونوں بھی ہنسنے لگے۔

                   وہ پھر سے گویا ہوئیں۔ اے چشمہ لگا دیا مجھے، حویلی پہنچی تو میری ہم جولیاں مجھے لیڈی ڈاکٹر سمجھنے لگیں، بھئی بڑی شرم آئی، اب تو عادت سی ہو گئی ہے، شروع میں تو ناک پر کھجلی ہونے لگتی تھی۔

اماں آپ کی باتیں بہت دلچسپ ہیں، میں تو کہتا ہوں، مستقل شہر میں ہی  آجائیں، دوسرے شخص نے رائے دی تو اماں فوراَ          کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں۔

توبہ کر بیٹا، کیسی باتیں کر رہا ہے؟ میری اتنی بڑی حویلی، نوکر چاکر، زمینیں، جانور سب کچھ چھوڑ کر اس ‘‘بند ڈبیا’’میں آ جاؤں؟ ہفتے میں دو دن کے لئے آتی ہوں تو دم گھٹنے لگ جاتا ہے میرا۔ زاہد تو کبھی نہیں مانے گا، اس کی بھی کیا قسمت ۔۔۔۔۔۔ زاہد نو سال  چھوٹا ہے طارق سے۔۔۔۔ پڑھی لکھی نہ سہی ،بہو خوبصورت ہے بڑی والی پر کمی تو  ہمیشہ کمی ہی رہتی ہے۔

بڑا گلہ تھا طارق کو مجھ سے کہ ان پڑھ بیوی ملی۔۔۔۔

پھر زاہد کی باری آئی تو میں شہر کی پڑھی لکھی لڑکی بیاہ کے لے آئی، مگر واجبی سی صورت، اب وہ مجھے الزام دیتا ہے،

سوچتی ہوں دوسرا بیاہ کرا دوں، شاید خوش ہو جائے میرا زاہد۔۔۔۔۔!!!

اماں، پھر تو طارق بھی دوسری شادی کا کہے گا؟ ان میں سے ایک نے کہا تو   اماں کو غصہ آگیا، کیوں کہے گا؟ اندھا تو نہیں جوان بیٹے کا باپ ہے اور میں تو کبھی اپنی بھانجی پہ سوکن نہ لاؤںمیری بہن تو جیتے جی نہ مر جائے گی!اماں کی نرالی منطق پر دونوں مسکرا دیئے۔

اگلے دن اتوار تھا۔ بچوں کی چھوٹی تھی، ثریا  نے شکایت کی۔

اماں آپ کا پوتا ہر وقت کمپیوٹر کے آگے گھسا رہتا ہے۔

اماں ٹی وی دیکھتے ہوئے جذباتی ہو رہی تھیں۔

ہائےہائے بڑا ظلم ہو رہا ہے عادل پر بیوی نے عدالت کے کٹہرے میں لا کھٹر ا کیا، دعا کرو بہو، کیس ہار جائے۔ تبِ اسے شوہر کی  اہمیت  کا احساس ہو گا۔

اماں آپ سے کچھ کہہ رہی ہوں۔ ثریا نے ایک بار پھر دہائی دی۔

اماں غصے سے ٹی وی کی آواز کم کرتے ہوئے بولیں۔

اے بہو۔۔۔۔۔یہ شکایتیں اپنے شوہر سے کیا کر، اس عمر میں مجھے جوان پوتے کی نظروں سے گرانا  چاہتی ہے، تجھے کیا تکلیف ؟ اگر وہ بیٹھ ہی جاتا ہے دو گھڑی۔۔۔۔۔!!

ثریا پاس بیٹھی آلو چھیل رہی تھی، اماں کی بات اسے نا گوار گزاری ، ان کے پاس وقت نہیں ،آپ کو پرواہ نہیں اور میری کب مانتا ہے کامی؟

ثریا کی آواز قدرے دھیمی ہوئی تو اماں کو افسوس ہوا اور وہ فوراَ  اٹھ کھڑی ہوئیں۔

میری بچی، تو   نہ گھبرا  ۔۔۔۔۔ابھی اس کامی کی خبر لیتی ہوں۔ یہ کہتے ہی وہ اس کے کمرے میں جا پہنچیں۔ کامی اماں کو اپنے سر پر سوار دیکھ کے ہڑ بڑا گیا۔ سامنے سکرین پر انڈین سونگ چل رہا تھا ،تیز آوازکی وجہ سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اماں نے کان سے پکڑ لیا۔

یہ کرتوت ہیں تیرے؟۔۔۔۔۔ میں بھی کہوں، ثریا کیوں کمزور ہوتی جا رہی ہے؟ تیری فکر نے اسے ہلکان کیا ہوا ہے۔

اوئی۔۔۔آآآ۔۔۔۔۔دادی کان تو چھوڑیں۔۔۔’’

نالائق۔۔۔۔۔۔۔۔!!

اماں ، آپ بھی تو ٹی وی دیکھتی ہیں۔اماں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔

ہاں۔۔۔۔ تو میں اصلاحی ڈرامے دیکھتی ہوں، جن میں کوئی سبق ہوتاہے۔

تیری طرح    ناچ گانوں سے اللہ ہی بچائے۔ یہ کہتے ہی وہ  پاس  پڑی کرسی پر بیٹھ گئی، کامی نے جلدی سے سلطان راہی کی فلم لگائی۔ جونہی فلم چلی۔۔۔۔۔اماں فوراَ ہی کمپیوٹر کے پاس جا پہنچیں۔

بڑا غصہ دھرا رہتا ہے اس شخص کی ناک پہ۔۔۔۔۔ اماں نے سلطان راہی کی گرجدار آواز سنتے ہی بیان دےدیا۔ دونوں ہی زور شور سے تبصرہ کرتے رہے، ثریا ایک بار جھانک کے  دیکھا اوربے بسی سے چل دی۔ کچھ دیر بعد لائیٹ چلی گئی؟

کامی۔۔۔۔۔۔پنکھا جھل مجھے، واپڈا والوں کو جانے کیا دشمنی ہے مجھ سے؟ جب بھی میرا دل نہیں چاہ رہا ہوتا بجلی چلی جاتی ہے۔

کامی ہنس پڑا۔۔۔۔۔۔دادی ، میرا  بڑا دل کر رہا تھا لائیٹ چلی جا ئے۔ ایسی گھٹیا فلم  دیکھنے سے بہتر ہے آپ سے گپ شپ کر لی جائے۔ اچھا ۔۔۔۔۔تو اب آپ نے ٹھان لی ہے کہ چھوٹے ابو کے لئے دلہن ہر حال میں لانی ہے؟

اور نہیں تو کیا۔۔۔۔دادی اپناپسندیدہ موضوع  سنتے ہی تبادلہ خیال کرنے لگیں۔

 کچھ دیر بعدثریا، اماں کو اپنے ساتھ مارکیٹ لے گئی، دکان میں قدم رکھتے ہی دکاندار نے بوتلیں منگوا لیں، اماں گویا ہوئیں۔

اے بیٹا ! ہر آنے جانے والے کو پلاتے رہو گئے تو فائدہ خاک پہنچے گا تمہیں۔ اور تم جس سے بوتل  لے کے آئے ہو، دیکھ لینا! اسی کا کاروبار دگنا ہو گا۔ دکاندار  اماں کی بات سن کر مسکرا دیا۔

اماں، اب سبھی کو تو نہیں پلاتے، آپ جیسے اچھے لوگ آجاتے ہیں تو رونق بڑھ جاتی ہے یہاں۔۔۔۔’’

ثریا نے اماں کو کہنی ماری، پھر آہستگی سے بولی ، اماں آپ کپڑے پسند کر لیں۔

اے ہٹو بھی۔۔۔۔۔ اماں کو اس کی بات ناگواری گزاری۔

اب تک کو ن سا میں اپنی پسند کے پہنتی آئی ہوں، اتنے کپڑوں میں کیا خبر کون سے اچھے ہیں، مجھے تو معاف ہی  رکھو، تم  میرے لے لو، میں ذرا اس بچے سے بات کر لوں۔

ہاں تو بیٹا ، کیا کہہ رہے تھے تم؟ اماں اس سے محو ِگفتگو  ہوئیں، ثریا کو اندازہ تھا کہ اب ان سے کچھ کہنا  بے سود ہے، وہ اپنی مرضی سے سوٹ پسند کر کے کٹواتی رہی۔

واپسی پر اماں دکان دار کی نجی زندگی پر بھر پور تبصرہ کر رہی تھیں گھر آ کے پتہ چلا اسے اپنا منہ بولا بیٹا بنا چکی ہیں۔

ثریا بولی ، اماں یہ تو ان کا معمول ہے، اپنے گاہک کو ہر طرح سے راضی کرتے ہیں آپ کو کیا پڑی تھی ؟

اے لو۔۔۔۔۔۔اماں حیرت سے ٹھوڑی پہ ہاتھ دھرکے بولیں۔

تم لوگوں کے دل نہیں، اتنی عمر گزار چکی ہوں کہ اچھے برے کی پہچان ہے۔

اے ثریا، بن ماں کے بچہ تھا ، میرے دو بول سے خوش ہو گیا کہتا تھاکہ:

‘‘میری ماں زندہ ہوتی تو بالکل آپ جیسی ہوتی’’۔

وہ جو دیسی گھی میں لائی تھی، کامی کو دے دینا، پہنچا آئے گا، بے چارےکی صحت اتنی کمزورسی ہے اور دودھ کی دو بوتلیں بھی بھجوا دینا، کوئی کمی نہیں آ جائے گی۔ اماں کی باتوں پر ثریا نے سر پیٹ لیا۔

 اماں نے شام کو چلے جانا تھا مگر انہیں پتہ چلا کہ حنا کے سکول میں پروگرام ہے اور ثریا ساتھ جانے پر راضی نہیں، وہ منہ بسور کے اماں کے پاس آگئی، اماں نے گلے سے لگا لیا۔ نہ رو میری بچی میں چلی جاؤں گی تیرے ساتھ۔۔۔۔۔!!

اگلے دن حنا، دادی کو ساتھ لے گئی، پروگرام شروع ہو چکا تھا، دادی نے پیچھے بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ مہمان خصوصی کی خالی کرسی دیکھ کے وہاں بیٹھ گئیں۔

حنا نے روکنے کی کوشش کی مگر بے سود، کچھ دیربعد دادی ، پرنسپل ‘‘ رفیعہ سراج’’ سے گپ شپ میں مصروف تھیں ، اچانک انہوں نے حنا کو بلوالیا اور ہنستے ہوئے کہا۔

بہت ڈرتی ہے آپ سے، مجھے روک رہی تھی، پھر دادی اسے چمکار کے بولیں ۔

چل، پریشان نہ ہو، تو بھی ادھر پاس بیٹھ جا۔

حنا نفی میں سر ہلاتے ہوئے پیچھے چلی گئی، مہمان خصوصی تشریف  لا چکی تھیں اماں کو ساتھ  والی نشت پر بیٹھنا  پڑ، وہ صوفے  پر پاؤں دھر کے بیٹھ گئیں، اب ان کا بے لاگ تبصرہ شروع ہو چکا تھا۔ پروگرام کے مختلف آئٹمز پر اماں نے بھر پور تبصرہ کیا۔

مہمان کے لئے فروٹ اور جوسز سے دادی نے بھی انصاف فرمایا۔ حنا اب اس گھڑی کو کوس رہی تھی کہ جب دادی راضی ہوئی تھیں۔

اس کے کی باری آئی تو دادی بول اٹھیں۔

میری پوتی کو اتنی دیر بٹھائے رکھا، وہ معصوم انتظار ہی کرتی رہی ہو گی ، دادی پاس بیٹھی ہوئی شخصیات  سے اپنی پوتی کی تعریفیں کرتی رہیں۔

پروگرام اختتام پذیر ہوا، حنا  دادی سے ناراض ہوئی، کیا ضرورت تھی آگے بیٹھنے کی  اور اتنا کچھ بتانے، آپ کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ میرا سکول میں آخری دن ہے۔

دادی نے لاپروائی سے کہا میں نے کوئی ایسی بات نہیں کی۔۔۔۔!!

انہیں پتہ تو ہو کہ تم جو روز ان کے پاس جاتی ہو، کیا کرتے ہیں تمہارے والدین؟ کہاں رہتی ہو اور پھر میرا تو انہیں معلوم ہی نہیں تھا۔ اب یہ باتیں چھپانے والی تھوڑی تھیں۔

بہت سی باتوں کا تمہاری اس میڈیم کو پتا ہی نہیں تھا۔

حنا  تلملا کے رہ گئی، اگلے دن دادی حویلی روانہ ہو گئیں۔

زاہد کی دو بیٹیاں تھیں، ارم اور کرن۔۔۔۔۔ دادی بیٹا نہ ہونے کا بہانہ بنا کر اس کی دوسری شادی کے لئے سر گرداں رہیں، مگر بیٹے کی پیدائش کے بعد انہیں چپ سی لگ گئی ۔ زمین تو ویسے ہی مزار وں نے سنبھال رکھی تھی، بچوں کی تعلیم کی وجہ سے فریحہ اب گاؤں میں رہنے پر راضی نہ تھی۔

دادی غصے میں آ گئیں۔

کیا کمی ہے تجھے ؟ شہر والوں سے  ہزاردرجے بہتر کھاتی، پہنتی ہے، کام کاج کے لئے نوکر چاکر ہیں ، ہر طرح کے عیش دیتے ہیں تو پھر تجھے کیا اعتراض ہے؟

فریحہ آگے سے تنک کر بولی۔

اماں، ما ں کے بغیر بچیاں کیسے پڑھیں گی ، یہی عمر ہے ان کی تربیت کی، اب مزید اس حویلی میں نہیں رہ سکتے ہم۔۔۔۔ !!

اماں کو جیسے سانپ سونگھ گیا، زاہد بھی اس معاملے میں خاموش تھا۔

شہر میں گھر خرید لیا گیا تھا، اماں چارپائی سے لگ گئیں، رات کو زاہد ان کے پاس آکے بیٹھ گیا اور پاؤں دبانے لگا۔

اماں ، فریحہ شہر کی ہو کے بھی آٹھ سال آپ کے پاس رہی ہے، اب اسے بچیوں کی فکر ہے، بڑے بھیا بھی تو شہر میں ہیں ہم بھی چلے جاتے ہیں۔

اماں کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دی۔

کیسے چھوڑ دوں یہ حویلی۔۔۔۔؟

چھوٹا سا تھا تو جب تیرا باپ دنیا سے چلا گیا، سوچا تھا دونوں کو پال پوس کے جوان کروں گی تو میرے دکھ ٹل جائیں گے، حویلی میں پھر سے رونق ہو گی، تم دونوں بھائی اکٹھے رہو گے، رونق ہو گی  تمہارے بچوں سے، اماں کی آنکھیں   آنسوؤں سے بھر گئیں۔ زاہد جلدی سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے انہیں صاف کرنے لگا اور بے بسی سے بولا۔

اماں مجھے بتائیں میں کیا کروں؟فریحہ کسی صورت راضی نہیں ہوتی۔ اماں اس کے بالوں کو پیار سے چھوتےہوئے بولیں۔

اچھا بیٹا جو دل میں آئے کرو، میں حویلی نہیں چھوڑوں گی۔

زاہد فوراَ چونک اٹھا، اماں آپ اکیلی ہو جائیں گی؟

نہ میرے  بیٹے ۔۔۔۔اماں نے تردید کی۔

یہاں میرے بہت سے اپنے ہیں۔

‘‘میری جڑیں اس گاؤں میں ہیں، ان کو چھوڑ کے اگر شہر چلی گئی مر جھا جاؤں گی۔’’

زاہد بہت اصرار کرتا رہا مگر اماں نہ مانیں ، اگلے دن  وہ شہر روانہ ہوگئے۔

کتنی ہی دیر اماں خالی کمروں ، برآمدے اور صحن میں پھرتی رہیں اب تک پیش آنے والے مختلف واقعات اور لوگ ان کی آنکھوں کے سامنے آتے رہے، آخر تھک کے وہ برآمدے کے ستون کے پاس آکے بیٹھ گئیں اور ٹھنڈی آہ بھری۔

‘‘لوگ کہتے ہیں بیٹیاں پرایا د ھن ہوتی ہیں، خوش قسمت سمجھتے ہیں مجھے کہ میں  بیٹوں کی ماں ہوں، کتنے خواب دیکھے میں نے، دونوں بھائیوں کا پیار دیکھتی تو نہال ہو جاتی کہ شوہر  کا ساتھ نصیب نہ  ہو سکا تو بیٹے ہیں نامیری آنکھوں کے سامنے۔۔۔’’

اماں کی آنکھوں سے لڑیوں کی طرح آنسو جاری ہو گئےاور چہرہ بھیگ گیا۔ وہ سر کو ستون سے ٹیک لگا کے رونے لگیں۔

کاش۔۔۔۔۔!!میری دو بیٹیاں ہوتیں تو اتنا دکھ نہ ہوتا۔  دل کو یہی تسلی رہتی کہ انھوں نے ایک دن چھوڑ جانا ہے ،رونا کیسا۔۔؟ اماں کے ہاتھوں میں حرکت ہوئی ، دوپٹے کا گولا سا بنا کے منہ کے آگے رکھا اور زور زور سے دھاڑیں مارکر رونےلگیں۔

Leave a Reply