You are currently viewing خاموشیاں

خاموشیاں

ڈاکٹر سُمیّہ ساجِد

خاموشیاں

بہت خاموشیاں بھی تھیں

بہت سے قہقہے بھی تھے

کچھ ایسے سلسلے بھی تھے

کہ جِن سے دُوریاں

دِقّت طلب

اور آزمودہ تھیں۔

تھے کُچھ خواب ایسے بھی

کہ جِن کی فہم اور تعبیر

حقیقت سے پرے، لیکن

بہت ہی معتدل، تنہا

اور یاس سے پُر تھی۔

عجب تھے سلسے لیکن

وہ سارے سلسلے یوں تو

مُحبّت میں بھی ہوتے ہیں

جہاں پر خواب زندہ ہوں

جہاں پر لفظ روتے ہیں۔

نجانے شوقِ گمراہی

مجھے کِس سِمت لے جائے

بہت سی راہ روشن ہے

بہت سے گُم اندھیرے ہیں

نہ کوئی چاند ہی نکلا

نہ سورج ہی کوئی چمکا

گرم تھے دن بہت

اور رات

بیحد سرد ہوتی تھی۔

حسیں بادل، نرم سائے

مگر سب غم زدہ سے تھے

نہیں ممکن اُسے پانا

نہیں ممکن اُسے پانا

یہی بس وِرد جاری تھا

کہ وہ لوٹا نہیں اب تک

سفر کچھ اور باقی تھا!

***

)آسٹریلیا کے مشہور ناول نگار ‘پیٹرک وہائٹ ‘Patrick Whiteکے انگریزی ناول ‘ؤاســ Voss’ سے متاثر ہو کر)

Leave a Reply