احتشام الحق آفاقی
(کنڈہ 2-، نزد ہال مین اسکول ، رامپور(اترپردیش)
کتاب کا نام : خان زادہ
مصنف : بھگوان داس موروال
مترجم : ڈاکٹر فاروق انصاری
صفحات : 573
قیمت : 700 روپے، (لائبریری ایڈیشن : 895روپے)
ناشر: ایم آر پبلی کیشنز، کوچہ چیلان، دریا گنج، دہلی
بھگوان داس موروال معاصر ہندی ادب کا انتہائی معروف نام ہے جنھوں نے ’’کالا پہاڑ‘‘، ’’ریت‘‘ اور ’’حلالہ‘‘ جیسے ناولوں کے ذریعہ سماج و معاشرہ اور تہذیب و ثقافت کی بہترین عکاسی کی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی معاشرہ کے اس عظیم یادگار کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا ہے جس کو گنگا جمنی تہذیب کے نام سے یاد کیا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ فی الوقت گنگا جمنی تہذیب کی لَو مندمل ہوتی جارہی ہے تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ موروال جیسی شخصیت آج بھی اس سرمایہ کو زمینی سطح پر بحال رکھنے اورپوری آب و تاب اور سچی لگن کے ساتھ نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انھوں نے ماضی کی بازیافت سے حال کو منور کرنے کے لیے اپنی تحریروں میں موضوع کا انتخاب کیا ہے جسے کم ہی فکشن نگار اپناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موضوع کی انفرادیت کے سبب موروال معاصر فکشن نگاروں میں منفرد نظر آتے ہیں اور ہندوستانی ادب میں بلا تفریق عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب بھگوان داس موروال کا ناول’’ خان زادہ‘‘کا اردو ترجمہ ہےاور یہ ترجمہ پروفیسر فاروق انصاری نے کیا ہے۔ انھوں نے اس سے پہلے بھی کئی کتابوں کے عمدہ ترجمےفراہم کیے ہیں ان میں ناول ’’ریت‘‘ اور ’’نذرانہ‘‘ کے علاوہ ’’ فہم کا وسیلہ‘‘،’’ بہوروپ گاندھی‘‘، ’’پڑھنے کی فہم‘‘، ’’بھائی صاحب‘‘ کے نام نمایاں ہیں۔ پروفیسر فاروق انصاری صاحب درس و تدریس اور تصنیف و تالیف سے گہری وابستگی کے ساتھ ہی ادب کے فروغ میں خاصہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ آپ ادب میںعملی طور پر ادبیت کے قائل ہیں جس کا ثبوت انھوں نے بھگوان داس موروال کے یکے بعد دیگرے تین ناولوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرکے دیا ہے۔ آپ کو معیاری اور غیر معیاری ادب میں فرق کرنے کا وسیع مطالعہ اور وسیع تجربہ بھی ہے، اور کیوں نہ ہوبحیثیت پروفیسر آپ این سی ای آر ٹی میں اسی دشت ادب کی سیاحی کررہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب درجنوں درسی کتابوں کو تیار کرانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ادب کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ زبان کی تدریس کے عصری تقاضے اور اردو سفر در سفر: دستاویزات کی روشنی میں جیسی علمی و تحقیقی کتابوں کی اشاعت اس کا مبین ثبوت ہیں۔
ناول ’’خان زادہ‘‘ کے پیش لفظ میں مترجم نے کہانی کے بارے میں لکھا ہے: ’’خان زادہ؛ چودھویں صدی نصف آخر سے سترہویں صدی کے نصف اول تک کے ان جانبازوں کی داستان ہے، جنھوں نے نہ صرف مقامی اشرافیہ کے طور پر بھی اپنی جداگانہ حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کی بلکہ اپنی عزت نفس اور مادر وطن سے شدید محبت اور اس کے تحفظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔‘‘ ہندوستان کی تاریخ میں خان زادوں کی ایک سنہری تاریخ رہی ہے۔راجہ سونپر پال جنھوں نے فیروز شاہ تغلق کی دعوت پر اسلام قبول کیااور جو بعد میں راجہ ناہر خان کے نام سے جانے گئے۔ ان کا تعلق میوات کے راجپوتانہ خاندان سے تھا۔ فیروز شاہ تغلق نے ہی 1372 میں راجہ ناہر خان کو میوات کی سرداری عطا کی۔ راجہ سونپر پال یعنی راجہ ناہر خان کی اولاد خان زادہ کے نام سے جانی جاتی رہی ہے جنھوں نے چودھوں صدی کی نصف آخر سے سترہویں صدی کے نصف اول تک میوات میں حکومت کی۔میوات میں راجہ ناہر خان نے 1372تا 1402تک حکومت کی۔ بعد ازاں ان کی اولادوں میں راجہ خان زادہ بہادر خان میواتی نے 1402سے 1412تک، راجہ خان زادہ کلیم خان میواتی نے 1412سے 1417تک، راجہ خان زادہ فیروز خان میواتی 1417سے 1422تک، راجہ خان زادہ جلال الدین خان میواتی نے 1422سے 1443تک، راجہ خان زادہ احمد خان میواتی نے 1443سے 1468تک، راجہ خان زادہ زکریا خان میواتی نے 1468سے 1485تک ، راجہ خان زادہ علاول خان میواتی نے 1485سے 1504تک اور راجہ خان زادہ حسن خان میواتی نے 1504سے 1527تک میوات میں حکومت کی۔ جنھوں نے میوات کی تاریخ میں ہر اعتبار سے اپنی قربانیاں پیش کرکے اپنی ایک الگ مثال قائم کی ہے۔
بہر حال میوات کی تاریخ پرمبنی ناول ’’خان زادہ ‘‘ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ ناول نگار نے تغلق ، سادات لودھی، افغان اور مغل دورحکومت کے تانے بانے سے ناول کو ایک شاہ کار بنانے کی پوری کوشش کی ہے جس میں وہ حتی الامکان کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ مختلف واقعات اور قصوں کے ذریعہ ناول کو دلچسپ بنایا گیا ہے جو جا بجا طور پر قاری پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق انصاری صاحب نے عام فہم اور آسان زبان میں ترجمہ کرکے ناول کی خوبیوں میں چار چاند لگانے کا کام کیا ہے۔ ناول کی زبان عام فہم اور اسلوب سادہ ہے جو ناول کے ترجمہ ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتااور یہی ایک اچھے ترجمے کی خوبی بھی ہے۔ تاریخی موضوع اور واقعات پر مشتمل ہونے کے باوجود بھی ناول کی زبان کہیں گنجلک اور مبہم نہیں۔ ناول کا کینوس اکیاون حصوں اور پانچ سوتہتر صفحات پر پھیلا ہوا ہے جو میوات کے جاں بازوں کی تاریخ ،ان کی بہادرانہ حمیت اور دلیری کے ساتھ ساتھ میوات کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو سمجھنے میں ممد و معاون ہے۔ امید ہے کہ ناول نے موضوع کی انفرادیت اور مختلف خوبیوں کی وجہ سے اردو زبان کے قارئین اور بالخصوص فکشن سے دلچسپی رکھنے والے قارئین ناول کو پسند کریں گے۔
٭٭٭
Ehtasham Ul Haque
Add: Kunda-2, Near Hollman
School, Rampur, U.P-244901
Mob: 7060695172