جاوید دانش
کناڈا
خدارا۔ میں اور جھوٹ نہیں بول سکتی
(سولو ڈرامہ)
میرا نام عائشہ امین* ہے۔ میں لکھنؤ کے سرکاری اسپتال میں ایک فرسٹ ایئر ریسی ڈنٹ ڈاکٹرہوں۔ میں روزے سے ہوں، میرے ساتھ سبھی روزے سے لگتے ہیں۔ کسی کو کچھ کھانے پینے کا ہوش نہیں۔ ایک عجیب وحشت ہر طرف طاری ہے۔ میں اپنے ضمیر سے شرمندہ ہوں۔ والدین نے کتنی مُرادوں سے مجھے ڈاکٹر بنایا تھا۔ مگر آج میں اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہوں۔ کاش میں ایک ڈاکٹر نہ ہوتی، کاش مجھے یہ سب دیکھنا نہ پڑتا۔ کاش میں سکون سے چند گھنٹے سو سکتی۔ کاش مجھے اپنے وارڈ میں مرنے والوں کی فیملی کو جھوٹی تسلّیاں نہ دینی پڑتی۔ مگر میری قسمت میں یہ آزمایش لکھی تھی۔ میں اپنے آپ سے حراساں اور مریضوں سے شرمندہ ہوں۔ میں اپنی امّی سے بھی جھوٹ بولتی رہی ہوں کہ یہاں سب ٹھیک ہے۔ ہمارے ہسپتال میں کوئی پرابلم نہیں۔ مگر باہر مریضوں کے گھروالوں کی چیخ و پکار، اخباروں میں روزانہ کی موت کی رپورٹیں،ٹی وی پر آکسیجن کی کمی کی خبریں اب میرے گھر والوں کو بھی فکر مند کر رہی ہیں۔امّی روز کال کرکے کہہ رہی ہیں ، تم چھٹّی لے کر گھر آ جائو۔ مگر میں جس سفر پر ہوں، اس میں واپسی کے سب راستے بند ہیں۔ میں کس منھ سے واپس جائوں۔ مجھے شاید اب کبھی بھی سکون نہیں ملے گا۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مَیں کب تک اس وبا سے بچ پائوں گی۔ ابھی کل رات ہی، ہماری سینیر ڈاکٹر اوٗشا بھی اس کا شکار ہو گئیں۔ ڈاکٹر اوٗشا ہم سبھوں کا رول ماڈل تھیں۔عائشہ ۲۰۲۰ءwas much worse، مگر زیادہ دن نہیں گُزرے ، وہ بھی پریشان تھیں کہ ۲۰۲۱ء پچھلے رکارڈ توڑ چکا ہے۔
پچھلے ایک ہفتے میں ہم نے اتنی موتیں دیکھیں کہ اب گنتی یاد نہیں۔ مجھے جوائن کیے ابھی تین مہینے ہی ہوئے ہوں گے۔ جس طرح سرحد پر نوجوان سپاہیوں کو آگے دھکیل دیا جاتا ہے۔ مجھے اور کچھ فریشرس کو آئی سی یو وارڈ میں ڈیوٹی دے دی گئی، مگر پچھلی رات ہی ایک ۳۴؍ سال کا کریٹی کل کووڈ مریض ہمارے وارڈ میں لایا گیا۔میں سمجھی جوان ہے، یہ بچ جائے گا۔ مگر نہیں ! دوسرے ہی دن وہ ختم ہو گیا۔ اس کی بے چینی، اکھڑتی سانسیں، اس کا تڑپنامیں کبھی نہیں بھولوں گی۔ میرے سامنے اس نے دم توڑا۔ میری سانسیں رُکتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ پھر جیسے تانتا لگ گیا۔ روزانہ کوئی ۳۰ ؍ مریض آ رہے تھے اور ان میں سے بارہ یا دس ختم ہو رہے تھے۔ دیکھتے دیکھتے اسپتال میں چلنے کی جگہہ نہیں تھی۔ ہر بیڈ پر دو یا تین مریض پڑے تھے۔ ہر کسی کو آکسیجن لگا تھا۔ باہر مریضوں کو داخل کرنے کے لیے شور بڑھتا جا رہا تھا۔ پھر شہر میں کسی اسپتال میں کوئی بیڈ خالی نہیں رہا۔ ساتھ ہی آکسیجن ناپید، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا واقعی یہ خدا کا قہر ہے، عذاب ہے، ڈاکٹرہیلپ لیس اور سسٹم فیل۔
پچھلے سوموار ایک بائیس سالہ نوجوان بے ہوشی کے عالم میں ایڈمٹ ہوا اور سیدھا آئی سی یو میں لایا گیا۔ تین دن ہونے کو آئے، وہ بے ہوش ہے۔ صبح ہوتے ہی اس کے بوڑھے ماں باپ تھوڑا پھل لے کر آ جاتے ہیں، کہتے ہیں:’’ ڈاکٹر ساب! کچھ کھلانے کی کوشش کرو، شاید ہوش آ جاوے۔‘‘ میں صرف مُسکرا کر کہتی ہوں ، حوصلہ رکھیے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی ماں بڑبڑاتی ہے: ’’بہت دعا کر رہے ہیں، بس اللہ معجزہ دکھا دے۔ہم لوگوں کو چھوڑ کے نہیں جائے گا میر ابیٹا۔‘‘ میں پھر کہتی ہوں، اللہ کریم ۔ اُن کے جانے کے بعد میں چھُپ کر اپنے آنسو پونچھتی ہوں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ مجھے اب تک معلوم ہو گیا تھا کہ آئی سی یو میں آنے کے بعد شاید ہی کوئی واپس جاتا ہے۔ شاید دعا بھی یہاں تک نہیں پہنچ پاتی۔ چوتھی رات یعنی کل رات اس نے آخری ہچکی لی۔ صبح اس کے بوڑھے ماں باپ جب آئے ، میں ان کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔ اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ کسی کے والدین کو اس کے بچے کی موت کی خبر دینادنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ ماں وہیں زمین پر گِر کر ایسے پھوٹ پھوٹ کر روئی کہ میں بھی اپنے آنسو نہیں روک سکی۔ میں اندر اندر گھٹنے لگی۔ پھر جیسے کوئی باندھ ٹوٹ پڑا اور موت کا سیلاب سا آ گیا۔
کل رات ایک مریض کو جب آئی سی یو میں شِفٹ کر رہے تھے، اس نے تقریباً روتے ہوئے کہا:’’گھر پر میرا دس سال کا بیٹا اور چار سال کی بیٹی ہے۔ میں ابھی مرنا نہیں چاہتا۔مجھے بچا لو ڈاکٹر۔ مگر صبح ہوتے ہی اس کے گھر والوں کو صرف اشارے سے بتا پائی کہ وہ نہیں رہے۔یہ بتانا اور بھی مشکل تھا کہ بچے اپنے ڈیڈی کو آخری مرتبہ دیکھ بھی نہیں سکیں گے۔ بیوی کی آواز کوری ڈور میں دیر تک گونجتی رہی۔ ایک بار میرے بچوں کو شکل تو دکھا دو۔ مگر وارڈ بوائے نے دروازہ بند کر دیا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آنسو نہیں روک سکی۔ شاید سالوں کی پریکٹس کے بعد ڈاکٹروں کے آنسو خشک ہوتے ہوں گے۔ شاید دل بھی سخت ہو جاتا ہوگا۔ مگر میں تو ابھی اس جنگ میں بالکل نئی، بلکہ نوسیکھ ہوں۔کیسے روکوں اپنے آنسو، کیسے ڈھارس بندھائوں مرنے والوں کی فیملی کو۔ اب مجھ میں اور جھوٹ بولنے کی سکت نہیں۔ کتنا جھوٹ بولوں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نہیں شاید کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔ مردہ گھر میں روزانہ لاشیں ایسے ڈالی جا رہی ہیں جیسے لونڈری میں میلی چادریں۔ رات خواب میںاب صرف لاشیں ہی نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی ہڑبڑا کر آنکھ کھل جاتی ہے۔ مجھے اپنے کیبن میں دم گھٹنے لگتا ہے۔ آدھی رات کو بالکونی پر جائو تو دوٗر کہیں کسی کے رونے کی آواز، اسپتال کے اندر کی سسکیاں ، ایمرجنسی میں لوگوں کی چیخ و پُکار، کہیں میرا ذہنی توازن نہ بگڑ جائے۔ میں اُوورٹائم کام کرتی ہوں کہ تھک کر چور ہو جائوں اور بستر پر گرتے ہی مجھے نیند آجائے، مگر کچھ ہی دیر میں آنکھ کھل جاتی ہے۔
میں پچھلی کئی راتوں سے بالکل نہیں سوئی۔ لگتا ہے ڈپریشن سا ہے۔ اپنی دیوٹی دل لگا کر کر رہی ہوں کہ دن بہت مصروفیت میں گزر جائے، مگر رات ہوتے ہی بے چینی بڑھنے لگتی ہے۔ اسٹاف کے ساتھی نوٹِس کر رہے ہیں کہ میں شکل سے تھکی ہوئی ہوں۔ کو -ورکرس سمجھا رہے ہیں کہ پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر کب، کیسے، کس طرح؟ جس ملک کے لیڈرس خود غرض ہوں، جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں، جہاں Pandemic کو لوگ کاروبار بنا لیتے ہوں۔ جہاں آکسیجن بلیک مارکیٹ ہوتی ہو، جہاں اسپتال کے بیڈ کی بولی لگنے لگے، جہاں لاشیں اُٹھانے کے لیے ایمبولنس والے ہزاروں کی منھ مانگی فیس لے رہے ہوں، جہاں شمشان گھاٹ میں مردہ جلانے کے لیے لکڑیاں ختم ہو گئی ہوں، جہاں غریبوں کے جنازے پانی میں کاغذ کی کشتیوں کی طرح تیر رہی ہوں۔۔۔جہاں۔۔۔ جہاں۔۔۔ او مائی گاڈ، میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ طبیعت دو روز سے بہت ڈائون ہے۔ ہلکا بخار بھی ہے۔ کہیں میں بھی کووڈ ۔۔۔۔؟
کل رات ٹی وی پر ایک نیوز تھی کہ ناسک کے اسپتال میں آکسیجن ٹینک لیک ہو گیا۔ ایک ساتھ پچیس مریض ختم ہو گئے۔ یہ دیکھتے ہی مجھ پر ایک کپکپی سی طاری ہوئی کہ اگر یہ ہمارے اسپتال میں ہوا، پھر مجھے ہوش نہیں، آنکھ کھُلی تو دو ڈاکٹر میرا چیک اَپ کر رہے تھے۔ ڈاکٹر شاہ کہہ رہے تھے : ’’شی از اسٹریسڈ آئوٹ۔ لیٹ ہر ٹیک گوڈ ریسٹ۔‘‘ میرا گلا خشک ہو رہا تھا۔ اشارے سے پانی مانگا اور بڑی نقاہت سے پوچھا: ڈاکٹر Am I positive؟‘‘ دونوں ڈاکٹر ہنس پڑے۔ ’’Thank God, you are not ، اور شکر کرو تمھارا نروس سسٹم بریک ڈائون نہیں ہوا، just relax, you are fine۔
میں نے یہ سب اس لیے رکارڈ کر لیا کہ ہاسپٹل کے باہر کی دنیا کو بھی پتا چلے کہ ہم ڈاکٹرس بھی انسان ہیں۔ ہم بھی ان کا درد سمجھتے ہیں، محسوس کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو موت کا کاروبار کررہے ہیں، انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ آکسیجن بلیک کرنے کے بجائے کچھ انسان دوست ہم درد کی طرح ضرورت مندوں کو پہنچائیں۔ ہو سکتا ہے آپ کے گھر والے اس نیکی کی وجہ سے محفوظ رہیں گے۔
حکومت کی نااہلی اور لیڈروں کی بے حسی کا رونا رونے کے بجائے ہر کوئی اس Pandemicکو اپنی ذمّہ داری ، اپنی جنگ سمجھے ۔ یہ وقت بھی گُزر جائے گا۔ Stay Home, Stay Safe۔
(*ایک حقیقی واقعے پر مبنی کہانی، مرکزی کردار کا نام بدل دیا گیا ہے)
جاوید دانش
کینیڈا
۲۴؍ اپریل ۲۰۲۱ء