You are currently viewing خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی لازوال تصنیف: ’اشرف السوانح‘

خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی لازوال تصنیف: ’اشرف السوانح‘

ندیم احمد انصاری

الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن

خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی لازوال تصنیف: ’اشرف السوانح‘

سوانح نگاری ایک اہم و مقبول ادبی صنف ہے، اس میں کسی کی شخصی زندگی کا تاریخی و تدریجی بیان ہوتا ہے۔سوانح عمریاں عموماً اُنھیں اشخاص کی لکھی جاتی ہیں جن کا کسی خاص میدان میں کوئی خاص کام و نام ہو۔سوانح نگاری میں صاحبِ سوانح کے ولادت و طفولیت، جوانی و بڑھاپے نیز زندگی اور موت کے اکثر یا اہم احوال و کوائف بیان کیے جاتے ہیں،اس طرح سوانح حیات کو تاریخِ زیست بھی کہا جا سکتا ہے اور تفسیرِ حیات بھی۔      علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

تاریخی انسانوں کے حالات اور صاحبِ سوانح کی زندگی کے بارے میں جاننے کا ایک ذریعہ ان کی بایوگرافی اور سوانح عمریاں ہیں، لیکن درحقیقت سوانح نگار کا قلم اپنے ہیرو کی زندگی کا جو مرقع کھینچتا ہے، وہ صرف اس کے ظاہری خط و خال کی نقاشی ہوتی ہے۔[1]

         حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (۵؍ربیع الثانی۱۲۸۰ھ-۱۶؍رجب۱۳۶۲ھ) اپنے دور کے صفِ اول کے بزرگ عالم و صوفی تھے۔گو نا گوں تجدیدی کارناموں کی بدولت انھیں ’حکیم الامت، مجدد الملت‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبد الماجد دریابادی،مفتی محمد شفیع عثمانی، قاری محمد طیب قاسمی جیسے لا تعداد اصحابِ علم و فضل آپ کے دامن گرفتہ تھے۔ جگرؔ مرادابادی اور وصل بلگرامی آپ سے غایت عقیدت رکھتے تھے۔ آپ کی سوانح حیات ’اشرف السوانح‘ کے نام سے آپ کی حیات ہی میں لکھی گئی اور شائع ہوئی۔

         علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی حضرت تھانوی کی سوانح لکھنے عزم کیا تھا، کچھ حصہ لکھا بھی جا چکا تھا، لیکن تکمیل نہ ہو سکی۔ ان کے مسترشد مولانا غلام محمد نے ’حیاتِ اشرف‘ کے نام سے ایک کتاب

مرتب کی، اس کا پس منظر اُنھیں کے الفاظ میں حسبِ ذیل ہے:

         حضرت والا کبھی کبھی فرماتے تھے کہ ’حیاتِ شبلی‘ لکھ کر تو اپنے استاد کا حق ایک درجے میں ادا کر چکا ہوں، اب جی چاہتا ہے کہ اپنے پیر و مرشد کی بھی کچھ خدمت کا شرف ملے۔اس طرح حضرت والا کے دل میں یہ تقاضا موجود تھا کہ حضرت حکیم الامت قدس سرہ کی سوانح حیات مرتب فرمائیں، ادھر بعض مخلصوں کا بھی پیہم تقاضا ہوا کہ یہ کام ان ہاتھوں سے انجام پانا چاہیے۔ اس اصرار میں سب سے پیش پیش حضرت تھانوی کے علاتی بھائی خان بہادر محمد مظہرؔ مرحوم تھے، میں نے خود دیکھا کہ جنوری ۱۹۴۵ء میں جب حضرت والا حیدرآباد، دکن تشریف لائے تھے اور چند روز مظہر صاحب کے مہمان تھے تو تقریباً روزانہ ہی وہ حضرت والا کو اس کام کی یاد دہانی فرمایا کرتے تھے مگر حضرت والا کو جواب میں یہ فرماتے سنا کہ ’ابھی کچھ انتظار ہے‘۔ آخر ایک روز شام کی نشست میں جب مظہر مرحوم نے پھر یہی ذکر چھیڑا تو حضرت والا نے مسکراتے ہوئے فرمایا ’آج تو معاملہ طے ہو گیا، ان شاء اللہ اب قلم اٹھاؤں گا‘۔

         یہ کام قیامِ بھوپال کے زمانے میں انجام پا رہا تھا، ابھی حضرت تھانوی کے قیامِ کانپور تک کے حالات ضبطِ تحریر میںآسکے تھے کہ سقوطِ ریاست اور اس کے بعد کی بے اطمینانیوں نے قلم کو آگے بڑھانے سے روک دیا اور کام ناتمام رہ گیا۔ کراچی کے دورانِ قیام میں محترم ڈاکٹر صاحب نے خصوصیت سے اس کی تکمیل پر اصرار فرمایا تو راقم حقیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ازراہِ لطف ارشاد ہوا کہ اب تو یوں بھی اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، اِنھوں نے مختصر سوانح لکھ دی ہے اور میرا مجوزہ نام (حیاتِ اشرف) بھی اڑا لیا ہے۔

         اس نا تمام حیاتِ اشرف کا پیش لفظ بھی حضرت والا نے تحریر فرمایا تھاجو بعد میں مولانا عبدالباری ندوی کی کتاب ’تجدیدِ تصوف و سلوک‘ کا مقدمہ بنا دیا گیا،اس سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

پیشِ نظر اوراق میں ایک ہستی کا مرقع پیش کیا جا رہا ہے جو اپنے وقت میں مجموعۂ کمالات اور جامع انواع فضائل تھی۔ حافظ، قاری، مدرس، مفسر، محدث، فقیہ، واعظ، صوفی، متکلم، مناظر، ناظم، ناثر، ادیب اور خانقاہ نشین شیخ سب کچھ تھی، لیکن اس نے سب سے بڑھ کر اپنے تمام فضائل و کمالات کو فنِ تصوف کی اصلاح و تکمیل میں صرف فرما دیا اور ان علوم و فنون میں سے ہر ایک پر عالمانہ اطلاع اور محققانہ عبور کے باوجود ان میں سے کسی کو اپنا انتہا اور مخصوص شغل نہیں بنایا بلکہ اپنے تمام علوم و فنون و کمالات کو صرف اسی ایک فن شریف کی خدمت میں لگا دیا، اس لیے یہ کہنا گویا صحیح ہے کہ اس کو تمام دوسرے علمی و عملی کمالات دیے ہی اس لیے گئے تھے کہ اس فن کی تجدید ہو، جو دنیا میں کس مپرسی کی حالت میں اور ہندوستان میں بحالتِ غربت تھا، جس کی حقیقت پر تو بر تو پردے پڑ گئے تھے اور جس کی تابانی پر بدعات کی ظلمت غالب آگئی تھی اور جو دکان دار صوفیوں کے ہاتھ دنیاداری اور کسبِ معاش کے فنون میں سے ایک فن کی حیثیت میں آگیا تھا اور جہاں اس کا وجود تھا وہ بھی یا محض چند فلسفیانہ خیالات کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا یا اوراد و وظائف کے ایک نصاب کا، سلفِ صالح نے اس فن کے جو ابواب و مسائل منقح کر کے لکھے تھے وہ بالکل ہی فراموش ہو گئے تھے، اور خصوصیت کے ساتھ سلوک کی حقیقت اور غایت بالکل ہی چھپ گئی تھی۔[2]

         ’حیاتِ اشرف‘ کے نام سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی ایک مختصر ترین سوانح خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ سے بھی منسوب ہے۔ یہ دو حصوں میں منقسم ایک سو بیس (۱۲۰) صفحات کا مختصر رسالہ ہے، اس میں ’اشرف السوانح‘ کی تلخیص پیش کی گئی ہے۔[3]

         حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی ایک سوانح مولانا عبد الماجد دریابادی نے ’حکیم الامت: نقوش و تاثرات‘ خطوط اور ذاتی تاثرات کی روشنی میں بالکل اچھوتے انداز میںتصنیف کی تھی، اس میں حضرت تھانوی کے آخری پندرہ سالہ سوانحی نقوش پیش کیے گئے ہیں۔[4]

         علاوہ ازیں’حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا مولوی شاہ محمد اشرف علی تھانویؒ: مختصر سوانح، تعلیمات و خدمات اور خصوصیات‘ کے نام سے پچاس صفحات پر مشتمل ایک مختصر رسالہ مولانا نجم الحسن تھانوی نے ترتیب دیا، جو ادارہ تالیفاتِ اشرفیہ، تھانہ بھون سے شائع ہوا ہے۔[5]

         نیز آٹھ سو صفحات کو محیط ایک ضخیم کتاب ’حکیم الامت کے حیرت انگیز واقعات‘ [6]مولانا محمد اسحاق ملتانی نے درجِ ذیل عنوانات کے تحت مرتب کی تھی: مختصر سوانح حیات، عدل و انصاف و صفائی معاملات، عبدیت و فنائیت، اندازِ تربیت، قبولیتِ ہدیہ کے شرائط، اہم واقعات، اشرف اللطائف، اشرف الملفوظات اشرف المعمولات، تذکرہ گلدستۂ اشرف یعنی حضرت تھانوی کے خلفا کے اہم واقعات۔

          ’اشرف السوانح‘ مصنفہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی اولین اور

 مفصل سوانح حیات ہے، اس پر صاحبِ سوانح نے از خود مکمل نظرِثانی کی ہے۔مذکورہ بالا تمام کتابیںخواجہ صاحب کی تصنیف ’اشرف السوانح‘ سے مستفاد ہیں۔

نہ سمجھنا کہ یہ فسانہ ہے

علم و حکمت کا اِک خزانہ ہے

نام مجذوبؔ اس کا تاریخی

سیرتِ اشرفِ زمانہ ہے

         ’اشرف السوانح‘ کی ابتدا میں مذکورہ بالا قطعہ اور پھر درجِ ذیل اقتباس درج ہے:

یہ صرف سوانحِ حیات ہی نہیں بلکہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے علمی و روحانی کمالات، مجددانہ کارنامے، اصولِ تربیت و سلوک، عارفانہ نکات، زریں اقوال، مریض و مسموم قلوب کے لیے مسنون و مجرب تعلیمات کا تریاق، حضراتِ سلف کا علمی عملی ذخیرہ اور یادگار، حقیقی اسلام کا مکمل درس اور دنیا و آخرت کے سنوانے کا مکمل لائحۂ عمل ہے۔

         اس کے بعد مرقوم ہے کہ ’اشرف السوانح‘ حضرت مجددِ تھانویؒ کی وہ مقبولِ عام سوانح حیات ہے، جس سے ہر دور کے علما و صلحا نے بھر پور استفادہ کیا اور عوام و خواص کی زندگیوں میں انقلاب آیا۔ ایک امتیازی وصف یہ بھی اس سوانح کو حاصل ہے کہ حضرت حکیم الامتؒ کی حیاتِ مبارکہ میں ہی آپ کے حرفاً حرفاً ملاحظے کے بعد شائع ہوئی تھی۔

         ’اشرف السوانح‘ کی ضرورتِ تصنیف پر روشنی ڈالتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت والا کی تصنیفات اور مطبوعہ ملفوظات کے ہوتے ہوئے سوانحِ ہٰذا کی چنداں ضرورت ہی نہ تھی، کیوں کہ ان میں حضرت والا کے ہر قسم کے حالات اور ہر طرح کی تعلیمات جو ’اشرف السوانح‘ کے موضوعِ اصلی ہیں، پہلے ہی سے مذکور ہیں، لیکن چوں کہ یہ باتیں منتشر طور پر مذکور ہیں اور ہر شخص کو اتنی فرصت اور ہمت بھی نہیں کہ سب کتابوں کا مطالعہ کر سکے، نیز بعد مطالعہ بھی خاص خاص مضامینِ نافعہ کا ذہن میں مستحضر رکھنا متعذر بھی ہے، اس لیے سہولتِ طالبین کے لیے ایک ایسے ہی مجموعے کی ضرورت تھی جیسے کہ اشرف السوانح ہے، جس میں بفضلہ تعالیٰ اپنی موجودہ ہیئت پر محبی ومحبوبی جناب منشی علی سجاد صاحب بی اے، ڈپٹی کلٹر کے اس شعر کا مصداق ہے؎

ہست اشرف السوانح یک طرفہ یادگارے

کاین آئینہ نماید نقش و نگار یارے

         ترجمہ:اشرف السوانح یک طرفہ یاد گارہے، چوں کہ یہ آئینہ محبوب کے نقش ونگار دکھاتاہے۔

         اور گو یہ مجموعہ بھی میری فطری بدنظمی اور مجذوبانہ رنگِ طبیعت کی وجہ سے مجذوبانہ ہیئت ہی رکھتا ہے، بمصداق ارشاد حضرت میر دردؒ؎

کیا کہوں دل کا کسی سے قصۂ آوارگی

کوئی بھی بے ربط ہوتی ہے کہانی اس قدر

         لیکن دیگر مجموعوں سے تو بہر حال پھر بھی زیادہ مرتب صورت میں ہے، جس پر گویا نظیریؔ نیشاپوری کا یہ شعر ہو بہ ہو صادق آتا ہے؎

داستانِ عہدِ گل را از نظیری بشنوی

بلبلانِ آشفتہ تر فتند ایں افسانہ را

         ترجمہ: موسمِ بہار کی داستان نظیری سے سن، بلبلوں نے تو اس افسانے کو بہت ہی بکھیر کر بیان کیا ہے۔

         اس کے بعد اس سوانح کی تصنیف و تالیف میں پیش آمدہ مشکلوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

سلف و خلف کا ہمیشہ سے مقتداؤں کی سوانح کے ضبط کا معمول چلا آیا ہے اور اس میں ظاہری و باطنی فوائد بیان کیے گئے ہیں، ان ہی فوائد کی مصلحت سے ایک کثیر جماعت احباب مخلصین کی تجویز تھی کہ حضرت اقدس، حکیم الامت، مجددِ ملت، محی السنۃ، قطب الارشاد، مرشد العالم، امام الطریق، شیخ المشائخ، حجۃ اللہ فی الارض، مولاناومقتدانا، شاہ محمد اشرف علی صاحب تھانوی، حنفی، چشتی، صابری، امدادی مدظلہم العالی کے سوانح بھی ضبط کیے جائیں، لیکن ایک تو کسی کا اس مہتم بالشان کام کے لیے فارغ نہ ہونا، دوسرے اس کام کا فی نفسہٖ صعوبت سے خالی نہ ہونا، تیسرے خود حضرت صاحبِ سوانح کی ممانعت، جس کو اپنی وصایا کے اندر دو مختلف عبارتوں میں قلمبند بھی فرمایا ہے،یہ سب قوی موانع اس تجویز کی تنفیذ کے مجتمع تھے، اس لیے اب تک اس کی نوبت نہ آئی تھی، نہ کسی کی ہمت ہوئی تھی۔[9]

         لیکن بعد میں جب داعیہ قوی اور موانع مرتفع ہو گئے تو خواجہ صاحب نے اس کام کا تہیہ کر لیا اور پھر یہ کام طول پکڑتا گیا۔صاحبِ سوانح نے جامعیت کا خیال رکھا، لیکن پھر بھی طوالت ہو ہی گئی۔ خواجہ صاحب اس کا سبب بیان کرتے ہوئے بڑے دلچسپ انداز میںلکھتے ہیں:

جب ایک محب اپنے محبوب کا ذکر شروع کرے، اہلِ محبت جانتے ہیں کہ وہ اختصار پر قادر نہیں ہو سکتا، پھر بھی جس تطویل پر احقر مضطر تھا، اس کا اس لیے وقوع نہیں ہوا کہ خود حضرت صاحبِ سوانح برابر عبارت و معانی کو حذف کراتے رہے، اس لیے غالباً یہ مجموعہ معتدل ہو گیا۔[10]

         جلد اول کے اختتام میں بعنوان ’معذرت‘ لکھتے ہیں:

باجود کوششِ اختصار اختصار نہ ہو سکا، حالاں کہ حضرت والا ہر موقع پر بارہا سخت تاکید فرماتے رہے، بلکہ بہت سے مضامینِ مفیدہ کو جن کا موضوعِ اصلی سے بے تکلف تعلق نہ تھا، حذف بھی کرا دیا، لیکن پھر بھی تطویل ہو ہی گئی اور کیوں نہ ہوتی جب کہ حضرت حافظؔ شیرازی کا یہ شعر ہو بہ ہو بلکہ برعایتِ الفاظ یوں کہا جائے کہ مو بہ مو صادق آرہا تھا؎

شرح شکن زلف خم اندر خم جاناں

کوتہ نتواں کرد کہ ایں قصہ دراز است

ترجمہ: محبوب کی گھنگریالی زلف میں پڑے ہوئے ایک بل کی شرح کرتی ہے اور یہ قصہ چوں کہ لمبا ہے، اس لیے مختصر نہیں کیا جا سکتا۔

         ’اشرف السوانح‘تین جلدوں پر مشتمل ہے،بعد میں مع خاتمہ چار جلدوںمیںشائع ہوئی ۔ صفحات کی مجموعی تعداد ۱۷۸۹؍یعنی اٹھارہ سو کے قریب ہے۔پچیس ابواب کے بعدخاتمۃ السوانح ہے، اس میں صاحبِ سوانح کے مرض الوفات، حالاتِ وفات اور قطعاتِ تاریخِ وفات وغیرہ مذکور ہیں۔[11]

         خواجہ صاحب کی مصنفہ ’اشرف السوانح‘ ایک اہم، لازوال اور یادگار تصنیف ہے۔یہ اس زمانے کی تصنیف ہے جب کہ اردو زبان میں سوانح نگاری ابتدائی مرحلے میں تھی، حالی و شبلی اور ان کے معاصرین اس میں قیمتی اضافے اور تجربے کر رہے تھے۔ اشرف السوانح پچیس ابواب پر اختتام کو پہنچی اور تقریباً نوّے سال قبل ۲۵؍ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ کو اس تصنیف سے فراغت ہوئی اور دورانِ نظرِ ثانی بعض قلیل اجزا ماہِ محرم ۱۳۵۵ھ کی بعض تاریخوں میں اضافہ کیے گئے۔[12]

         علامہ سیدسلیمان ندوی نے خواجہ صاحب اور ’اشرف السوانح‘ کے متعلق لکھا ہے:

ان کی سب سے بڑی یادگار اشرف السوانح کی تین جلدیں ہیں، جو بظاہر تو اپنے شیخ کے احوال و سوانح ہیں، مگر درحقیقت اس میں شیخ کے جمیع اصولِ تعلیم و ہدایات و نصائح و وصایا کو اس ترتیب سے جمع کیا ہے کہ وہ سلوک کی بہترین کتاب ہو گئی ہے۔ اشرف السوانح کا چوتھا حصہ جو شیخ کے آخری حالات اور وفات پر مشتمل ہے، شیخ کی وفات کے بعد بڑے سوز و گداز سے انھوں نے لکھا تھا۔[13]

         مختصر یہ کہ ’اشرف السوانح‘خالص مقصدی اور افادی پہلو کو مدِ نظر رکھ کر تصنیف کی گئی، اس کا مقصد اپنے دور کے امامِ صوفیا حکیم الامت مجددِ ملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی تعلیمات اور اصلاحات کو عوام تک پہنچانا تھا، لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس دور میں عام طور سے اسی طرح کی سوانح عمریاں لکھی جاتی تھیں۔

         حوالہ جات:

         [1]علامہ سید سلیمان ندوی،مکاتیبِ شبلی، ص:1

         [2]مولانا عبد الباری ندوی، تجدیدِ تصوف و سلوک،ص:12

         [3]دیکھیے خواجہ عزیز الحسن مجذوب کی تصنیف ’حیاتِ اشرف‘

         [4]دیکھیے مولانا عبد الماجد دریابادی کی تصنیف ’حکیم الامت: نقوش و تاثرات‘

         [5]دیکھیے مولانا نجم الحسن تھانوی کی تصنیف ’محمد اشرف علی تھانوی‘

         [6]دیکھیے مولانا محمد اسحاق ملتانی کی تالیف’حکیم الامت کے حیرت انگیز واقعات‘

         [7]خواجہ عزیز الحسن مجذوب،اشرف السوانح، جلد:1، ص:3

         [8]خواجہ عزیز الحسن مجذوب،اشرف السوانح، جلد:3، ص:511

         [9]خواجہ عزیز الحسن مجذوب،اشرف السوانح، جلد:1، ص:36

         [10]خواجہ عزیز الحسن مجذوب،اشرف السوانح، جلد:1، ص:27,28

         [11]دیکھیے خواجہ عزیز الحسن مجذوب،اشرف السوانح، جلد:1، ص:455

         [12]خواجہ عزیز الحسن مجذوب، اشرف السوانح، جلد:3، ص:515

         [13] ’معارف،اعظم گڑھ‘، ص:207، بابت: جولائی 1944ء

***

Leave a Reply