You are currently viewing خوف

خوف

ڈاکٹر جنتی جہاں

خوف

 بولو نہ تمہارا نام کیا ہے ؟حبیب نے غصہ میں ماتھے پر شکن ڈال کر چیخ کر بولا بولو یا پولیس کے حوالے کر دوں ایک گھنٹے سے بول رہا ہوں نام بتا دو لیکن کچھ جواب نہیں گونگے بہرے تو نہیں لگتے۔حبیب نے اس آدمی کی ٹھوڑی میں ہاتھ ڈال کر چہرا اپر اٹھایا تو اس کی

ٓٓآنکھوں سے آنسواس طرح ٹپک رہے تھے ۔جیسے بارش کے بعد درار پڑی چھت سے پانی کی بوندیں رک رک کر ٹپکتی ہیں۔حبیب نے بڑے ہی پیار سے کہا بھائی میرے تو اپنا نام اور پتہ بتا دے۔ پھر میں تیرے گھر والوں کو اطلاع کر دوں گا۔یہ بات سن کر اس کے چہرے پر ایسے تاثرات ابھرے جیسے بجلی کی کڑک کو سن کر چھوٹا بچہ ماں کی گود میں سہم جاتا ہے۔پھر حبیب نے کہاچل یہ بتا تو جانوروں کے تبیلے میں آیا کیسے ؟اتنے میں حبیب کی بیوی نے آوازلگائی ۔ڈاکٹر صاحب آیئے ناشتہ تو کر لیجیے اس کو بھی لے آئیے بے چارا بھوکا ہوگا ۔کچھ کھلا پلا دیتے ہیں۔حبیب نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑکر اس کو اٹھنے کا سہارا دیا دونوں اندر کی طرف چلنے لگے ڈاکٹر نے گائے کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار

سے سہلا دیا اور تیز تیز قدم رکھ کر گھر کی طرف اندر والے کمرے سے ہوتے ہوے چارپائی پر جا کر بیٹھ گئے۔

 حبیب کی بیوی پھول جہاں نے جلدی سے پانی دیا اور پھر چائے لے کر آئی۔لیکن پھول جہاں کے اندر بھی ایک خوف تھا وہ

بار بار اس آدمی کو حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔پھول جہاں بھی حبیب کی کروٹ میں آکر بیٹھ گئی ۔اوردھیرے سے بولی بھیا یہ تو بتاوتم ہمارے تبیلے میں آے کیسے؟جب میں صبح فجر کی نماز پڑھ کر جانوروں کو چارہ ڈالنے گئی تو میں ڈر گئی لیکن ہمت کرکے میں نے جھک کر دیکھا تو مجھے لگا کہ کوئی نشیڑی ہے ۔بھیا کیا تم نشہ کرتے ہو یا اور کوئی بات ہے۔

 حبیب نے گھڑی کی طرف دیکھا اور جلد اٹھ گیا اوہ! مجھے دیر ہو گئی جلدی ہسپتال پہنچنا ہے ۔حبیب نے گھبراہٹ سے کہا چلو بھائی میرے ساتھ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑدوں۔پھر اس آدمی نے حیرت بھری نظروں سے حبیب اور پھول جہاں کی طرف دیکھا۔اور بولا بھائی میں چلا جاؤں گا۔‘‘حبیب نے دل ہی دل میں کہا ۔میں چلا جاؤں گا صبح سے ایک لفظ نہیں بولا اور اب میں اس کو اپنے بیوی بچوں میں اکیلا چھوڑدوں پتا نہیں چور اچکا یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’

 حبیب نے غصہ میں کہا چلو میں تمہیں چھوڑدوں گا یا پھر اکیلے ہی میرے گھر سے نکل جاؤ۔میرے سامنے ۔

اس آدمی نے خد کلامی میں سوچا۔‘‘ڈاکٹر کہہ تو سہی رہا ہے ۔میں نے بھی تو غلطی کی تھی بیوی پر بھروسہ کرکے ’’۔حبیب نے غصہ میں کہا تو منھ ہی منھ میں کیا بولتا ہے۔ زور سے بول جو ہم بھی سنیں۔

 پھول جہاں نے جلدی سے حبیب کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منھ کے اشارے سے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا۔بڑے ہی پیار سے پھول جہاں نے اس آدمی سے کہا بھائی میرے تم نے تو اپنا نام تک نہیں بتایا لیکن کوئی بات نہیں اب جاؤ۔یہ تمہیں گھر چھوڑدیں گے۔وہ اٹھااور ڈاکٹر کی گاڑی پر بیٹھ گیا۔اتنے میں گاڑی پھول جہاں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔

 پھول جہاں نے جا کر جانوروں کے تبیلے میں کام کرنا شروع کر دیا ۔پہلے گا ئے کو نہلایا اور پھر بھینسوں کو نہلاکر صاف جگہ میں باندھ دیا ۔لیکن پورے دن پھول جہاں کو اس آدمی کی آنکھیں اور چہرا نظر آتا رہا وہ سوچ رہی تھی میں تو سمجھی کوئی شرابی ہے لیکن وہ تو بڑا ہی معصوم لگ رہا تھا۔اس نے تو شاید کبھی شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگایا ہوگا۔

 پھر جھنجھلاتے ہوئے بولی نہیں نہیں کوئی بھی ہو ہمیں کیا ۔پھر ایک منٹ کے بعد سوچنے لگی لیکن وہ ہمارے تبیلے میں آیا کیسے؟ اس گاؤں

میں تو اور بھی بہت سارے گھر ہیں ۔لیکن ہو سکتا ہے ۔ہمارا گھر کھلا ہوا جنگل میں ہے۔اس لئے وہ آگیا ہوگا ۔اوہ!میں بھی پگلی ہوں مجھے اتنا سوچنے کی کیا ضرورت؟ آیا تھا چلا گیا ۔ایک خواب سمجھ کر بھول جاتی ہوں۔جس طرح سے رات کا خواب یاد نہیں رہتا۔یاد کرنے کی کوشش کرنے پر بھی یاد نہیں آتا۔

 حبیب نے چہرا اپر اٹھایاتو خورشید پاس میں کھڑا تھا۔ارے واہ خورشید اتنی صبح صبح اور تم ہسپتال میں خورشیدنے ایک غم بھری آواز نکالی ہاں حبیب بھائی کیا کرتا رات بھر نیند نہیں آئی میری گائے کی طبیعت خراب ہے۔اسی کے سلسلے میں آیا ہوں۔حبیب نے جلدی سے کہا ۔‘‘آو بیٹھواس اسٹول پر آرام سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔مجھے بتاؤ کیا ہوا تمہاری گائے کو؟’’خورشید بولا ۔‘‘کیا بتاؤں بھائی کل شام سے پورے گاؤں میں پولیس ہی پولیس ہے۔’’

 حبیب نے حیران ہو کر کہا !کیا ہوا تمہارے گاؤں میں؟ ہونا کیا ہے ؟بھائی جیسے آپ تو دیکھ ہی رہے ہیں ملک کے حالات اتنے خراب ہیں طرح طرح کے مسائل ابھر کر روز بہ روز سامنے آرہے ہیں۔حبیب نے قلم کی نوک کو طبی پرچے پر دباتے ہوئے کہا۔ہاں تم سہی بول رہے ہو۔ہم ٹھہرے ادنیٰ سے ملازم کر بھی کیا سکتے ہیں۔

 خورشید نے پھر حبیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔حبیب بھائی میرے گاؤں کے لوگ آپ کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔

حبیب نے فوراًکہا کیا پوچھتے ہیں خورشید ؟پوچھنا کیا ہے؟ وہی کہ تمہارا خالہ زاد بھائی حبیب اب نہیں آتا ۔بھائی وقت ہی نہیں مل پاتا کیا کروں جب سے امیّ کا انتقال ہوا ہے ۔کچھ زیادہ ہی مصروف ہو گیا ہوں۔اب یہاں سے کام ختم کرکے جلد ہی گھر جانا رہتا ہے۔پہلے امّی

تھیں تب گھر کی کوئی فکر نہیں تھی اور پھر تم نے بھی تو اپنی بہن کی شادی میرے ساتھ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔آج میں تمہارا جی جا ہوتا۔

دونوں کی قہقہا لگانے کی آواز گونجنے لگی۔حبیب نے فوراًکہا ۔برا مت ماننا خورشید میں مذاق کر رہا تھا۔حبیب نے کہا ۔ارے خورشید تم کچھ بتا رہے تھے۔پولیس ولیس کا چکر ہاں تم نے سنا ہی کہاں۔بولو ! خورشید اب لا شعور میں تھا کیا بولوں اوہ کم بخت خیالات بھی نہ۔ خورشید نے ہاتھ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اپنی بات شروع کی ۔جب میں بازار سے گھر لوٹا تومجھے پتا چلا کہ ہمارے پڑوس میں قتل ہو گیا ہے۔حبیب نے حیرت سے کہا !کیا قتل !ہاں قتل !حبیب نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا ہاں خورشید یہ قتل جیسی وارداتیں دن بہ دن بڑھ رہی ہیں ۔لیکن کیسے؟ ۔خورشید نے کہا سنو تو اس کے ہی شوہر نے اپنی بیوی کا قتل کر دیا ۔اوہ !حبیب نے کہا اب اس ملک میں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ۔لوگوں کے اندر انسانیت کی جگہ حیوانیت اور درندگی نے لے لی ہے۔حبیب نے خورشید سے کہا۔لیکن اس نے اپنی بیوی کا قتل کیوں کیاقتل کرنے کی وجہ تو کچھ ہوگی؟خورشید بولا وجہ تو بہت بڑی تھی اس کی بیوی کا کسی دوسرے کے ساتھ چکر چل رہا تھا ابھی تو یہی سننے میں آرہا ہے منھ کو برا کرتے ہوے اور کندھے اچکاتے ہوے خورشید نے کہا اس کے میاں کو پتا چل گیا اور اس کو قتل کر دیا۔

 حبیب نے کہا کیا وہ لڑکا پکڑا گیا ؟ہاں آج صبح پولیس نے اس کو حراست میں لے لیا ہے۔شاید دفہ ۳۰۲ بھی لگا دی ہے۔

 خورشید نے کہا ۔پتہ ہے حبیب ہمارے گاؤں میں زیادہ تر غریب مزدور ہیں پڑھے لکھے نہیں ۔جو صحیح اور غلط میں فرق کر سکیں۔

دیکھومجھے میں phD ہوں لیکن میری کوئی پہنچان نہیں۔گاؤں والوں کے پاس بیٹھ کر ان جیسا ہی لگتا ہوں چھوٹے سے اسکول میں بچوں کو تعلیم دے کر اپنے پریوار کا گزارا کر رہا ہوں۔نوکری کی تلاش ہے۔ کئی جگہ فارم ڈالیں ہیں پتا نہیں کب لگے گی کیا پتا لگے گی بھی یا نہیں۔

 حبیب نے پھر کہا ۔لیکن اس نے اپنی بیوی کا قتل کیوں کیا؟چھوڑدیتا اگر رکھنا نہیں تھا ۔نام کیا تھا اس کا حبیب نے کہا ۔خورشید پھر کسی خیال میں کھو گیا تھا۔حبیب نے ہاتھ اس کی آنکھو ں کے سامنے ہلاتے ہوے کہا میدان حشر ابھی نہی ہے بھائی ۔خورشید نے جلدی سے کہا نام اس کا نام رامو تھا۔حبیب بھائی مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا کہ وہ اپنی بیوی کا قتل کر سکتا ہے۔بڑا ہی سیدھا سادہ اور نیک دل انسان ہے۔وہ بھی B.A. پاس ہے پڑھا لکھا ہے۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے وہ قاتل ہے۔چلو خدا رحم کرے گا ۔

 اچھا چھوڑو سب بات تم گائے کے لیے آیئے تھے۔کیا ہوا گائے کو۔ حبیب بھائی بہت تیز بخار ہے۔چارا بھی نہیں کھا رہی

اس کو لے کر میں بہت پریشان ہوں ۔ہو سکتا ہے پولیس کی گاڑیوں کی آواز سن کر یہ پولیس والوں کو دیکھ کر ڈر گئی ہو۔حبیب بھائی مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں وہ مر ور نہ جا ئے میں تو آفت میں آجاؤں گا۔گیؤ رکچھک جھوٹا الزام لگا کر مجھے بھی اندر نہ کروادیں۔آج کل تو اپنی بیوی سے بھی زیادہ خیال اپنی گائے کا رکھنا پڑرہا ہے۔حبیب نے خورشید کو دوا دے کر سمجھا دیا اب جاؤ تمہاری گائے ٹھیک ہو جاے گی ۔اچھا ہوا خورشید آج میرے پاس زیادہ مریض نہیں آئے ۔نہیں تو میں تمہیں وقت بھی نہیں دے پاتا۔خدا جو بھی کرتا ہے اچھے کے لئے ہوتا ہے۔وہی سب کا مالک ہے۔

 حبیب کو رات بھر نیند نہیں آئی صبح کو اٹھ کر منھ دھونے گیا تو دیکھتا ہے۔آنکھیں لال اور سوجی ہوئی ہیں۔حبیب کے اندر اب وہ جوش اور جذبہ ختم ہو گیا تھا۔جو ایک دو مہینے پہلے تھا ۔پھول جہاں حبیب سے تنگ آنے لگی تھی ۔روز زور زبردستی کرکے کھانا کھلاتی رات کو جلد سونے کے لئے ضد کرتی۔پھول جہاں غصہ میں بولی ۔ڈاکٹر صاحب یہ بتاؤ کیا ہوا ہے ؟آپ اتنے مایوس اور اداس کیوں رہتے ہیں؟لیکن حبیب کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا وہ چپ چاپ چارپائی پر لیٹ کر آسمان کو تکنے لگا۔پھول جہاں نے غصہ میں کہا ۔ہاں ہاں یہ آسمان میں جتنے تارے ہیں آج آپ ہی گن لیں گے۔آج تک تو کوئی گن نہیں سکا۔حبیب کے ہاتھ میں چاے کا کپ دے کر پھول غصہ میں دوسری چار پائی پر لیٹ گئی۔

 حبیب نے چاے کا کپ منھ میں لگاتے ہوے دل میں سوچا کہ کیا یہ سبھی عورتیں ایسی ہوتی ہیں اپنے مردوں کو دھوکا دیتی ہیں۔مرد پورا دن گھر سے باہر رہتا ہے۔ان کی خاطر پیسہ کمانے میں لگا رہتا ہے۔عورت کی قوم یہ بھی نہیں سوچتی کہ مرد صرف عورت کی خاطر اچھی سے اچھی نوکری کی تلاش میں لگا رہتا ہے کہ وہ اس کے ہر شوق پورے کر سکے۔اور یہ دوسرے مردوں کے ساتھ مزے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھول جہاں نے غصہ میں چیخ کر کہا کل مجھے میرے باپ کے گھر پہنچا دینا ۔جب آپ کو اکیلے رہنا اچھا لگتا ہے۔تو رہو اکیلے۔‘‘پھول جہاں بڑبڑانے لگی پورا دن کام کرؤ ان مردوں کا انتظار کرؤ جلدی ،جلدی کھانا بناؤ اور اوپر سے ان کے نکھرے دیکھو۔شام کو آکر پیار سے بات بھی نہیں کر سکتے۔یہ سب مرد ہوتے ہی ایسے ہیں’’۔کئی دن گزر گئے ۔ڈاکٹر کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا پھول روز کھانا بناتی اور حبیب کے آگے رکھ دیتی دونوں رات بھر اس خیالی دنیا کی سیر کرتے رہتے۔دس دن گزر جانے کے بعد پھول ایک ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند لگ رہی تھی حبیب بھی کمزور ہو گیا تھا۔ایک دن صبح صبح خورشید سائکل پر ہڑ بڑاتا ہوا آیا اور حبیب کو آواز لگائی حبیب ،حبیب دوسری طرف سے مدھم سی آواز آئی کیا ہوا ۔خورشیداندر آؤ اتنے پریشان کیوں ہو؟کیا بتاؤں حبیب بھائی آپ سے ایک کام آگیا ،حبیب نے کہا کیا کام خیر تو ہے۔میرے ساتھ جیل تک چلنا ہے۔جیل تک حبیب نے ایک دم ہڑبڑا کر پوچھا۔لیکن بات کیا ہے؟چلو راستے میں بتاتا ہوں۔

 خورشیدنے پھول جہاں کی طرف حیرت سے دیکھ کر کہا ۔ارے !بھابھی آپ اتنی کمزور ہوں گئیں ۔چلو میں چلتا ہوں آکر بات ہوگی۔حبیب نے موٹر سائکل اسٹارٹ کی خورشید کو پیچھے بیٹھاکر ہوا کی طرح غائب ہو گیا۔پھول جہاں گھر میں اکیلے بیٹھ کر کچھ سوچنے لگی۔اور زاروں قطار رونے لگی۔

 حبیب نے گاڑی کو دھیرے کرتے ہوئے کہا۔خورشید آخر تم جیل کیوں جا رہے ہو؟کیا بتاؤں بھائی رامو نے کسی کے ہاتھ مجھے خبر بھیجی ہے وہ مجھ سے ملنا چا ہتا ہے۔اوہ کون حبیب نے حیرت سے کہا ۔ارے ہاں یاد آیا جس نے اپنی بیوی کا قتل کیا تھا ہاں بھائی لیکن مجھے نہیں لگتا۔اس نے قتل کیا ہے۔اب کچھ اور باتیں نکل کر سامنے آرہی ہیں۔ کیا؟اس نے قتل نہیں کیا لیکن اس کے اپر الزام کس نے لگایا؟ قتل تو ہوا ہے نہ خورشید ہاں حبیب بھائی ہوا تو ہے۔اس کے پیچھے کچھ سازش نظر آرہی ہے۔حبیب بھائی میں اس لڑکے کو اچھی طرح جانتا ہوں وہ اپنی بیوی کو بہت پیار کرتا تھا اور اس کی بیوی بھی ایک شریف عورت تھی ۔تمہاری بھابھی کے پاس آتی رہتی تھی بیٹھنے۔حبیب نے کہا اچھا۔دانیا بھابھی کے پاس ہاں انھونے ہی آج مجھے کچھ رامو کی بیوی کے بارے میں بتایا۔حبیب نے کہا کیا نام تھا رامو کی بیوی کا ۔گیتا نام تھا۔بڑے شریف گھرانے کی لڑکی تھی ۔لیکن تھی بے چاری بالکل غریب گھر کی اسی لئے رامو نے اس سے شادی کی تھی شادی کو ابھی صرف پانچ ماہ ہی ہوئے تھے۔حبیب نے جلدی سے خورشید سے کہا اچھا یہ بتاؤرامو کرتا کیا تھا۔ایم ۔اے میں ایڈمیشن لیا تھا۔مہنت مزدوری کرکے فیس جمع کرتا تھا۔لیکن بے چارے معصوم پر قیامت آجائے گی کبھی سوچا نہ تھا۔لیکن کچھ لوگ اس سے بہت جلتے تھے کیوں کہ وہ حق

پرست تھا۔اوہ !یہ بات ہے ۔حبیب نے کہا حبیب کی نظروں میں معصوم لفظ سن کر وہی چہرا یاد آگیا جو اس کے تبیلے میں ایک لڑکا پڑا ہوا ملا تھا خاموش جس نے ایک بھی لفظ منھ سے نہ بولا تھا۔جیل کے پاس جاکر پیڑکے نیچے موٹر سائکل کھڑی کرکے حبیب اور خورشید دونو ں جیل کی جانب چل پڑے اتنے میں حبیب کی نظردور سے آتے ایک مجرم پر پڑی یہ وہی چہرا تھا جو اس کے تبیلے میں تھا۔

 حبیب نے اس مجرم کو اپنی طرف آتے دیکھ کر خورشید کو آواز لگائی خورشید یہ وہی لڑکا ہے جو میرے گھر ۔۔۔۔۔۔۔جو میرے گھر۔۔۔۔۔۔۔حبیب اتنے کچھ بول پاتا وہی لڑکا خورشید کے کاندھے پر منھ رکھ کر خوب رویا۔حبیب حیرت میں پڑگیا۔خورشید نے پیچھے پلٹ کر اسے اشارے سے کچھ کہا۔حبیب بھائی اس کو دیکھو یہی وہ معصوم ہے جو بے گناہ ہے۔اس لڑکے نے جب آنسو پونچھ کر حبیب کے چہرے کو غور سے دیکھا۔لپک کر حبیب کے دونو ں ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا ۔بھائی معاف کر دیجیے مجھے پلیز معاف کر دیجیے۔خورشید حیرت بھری نظروں سے ان دونوں کو دیکھنے لگا۔سوچ رہا تھا یہ دونوں ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہیں۔ہو سکتا ہے میرے ساتھ آئے ہیں اس وجہ سے ان سے معا فی مانگ رہا ہو۔ایک کونے میں جا کر تینوں باتیں کرنے لگے۔رامو نے کہا خورشید بھائی آپ کو یقین ہے میں گیتا کا قتل کر سکتا ہوں ۔میں قتل کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر رامو سسکیاں لے کر رونے لگا۔حبیب نے رامو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور سر ہلا کر تسلی بھری نظروں سے کچھ کہا۔خورشید بھائی ان لوگوں کی چال ہے مجھے پھنسانے کی کہ میں ان کے خلاف گواہی نہ دے سکوں۔خورشید نے کہا کیسی گواہی کون سی گواہی وہی جو اس مسلم لڑکے کو ان گؤ رکچھکوں نے کتنی بے دردی سے مارا تھا۔وہ منظر میری آنکھوں میں ہمیشہ گھومتا رہتا ہے ۔میں ان مجرموں کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ایک انسانیت کی لڑائی لڑناچاہتا تھا۔جب وہ اس لڑکے کو کھمبے سے باندھ کر مار رہے تھے۔میں نے آگے بڑھ کر کہا بھی تھا۔اگر یہ مجرم ہے۔ تو اس کو پولیس کے حوالے کر دو۔لیکن ان میں سے ایک نے میرا منھ پکڑکر پیچھے کو دھکیل دیا تھا۔لیکن میں غصہ میں کہہ کر آیا کہ یہ تم لوگ اچھا نہیں کر رہے۔ایک مسلم بھائی کے ساتھ۔ ڈر کی وجہ سے میں وہاں سے چلا آیا۔لیکن میرے کانوں میں وہی آوازیں کہو ــ‘‘جے شری رام’’،جے بھولے ناتھ،‘‘جے شری رام کی آوازیں ہمیشہ گونجتی رہتی ہیں۔وہ دن میرے لئے ایک قیامت کا دن تھا۔اب میں اندھا ،بہرا،گونگا ہونا چاہتا ہوں میراسب کچھ ختم ہو گیا۔ایک دن میں تھانے میں ایف ۔آئی۔ آر۔ درج کر انے آیا تھا ۔پولیس والوں نے ایف۔ائی ۔آر۔درج تو کر لی لیکن اس کی خبر ان ہتھیاروں کو دے دی میرا نام پتہ سب کچھ ان کو بتا دیا ۔اور انھوں نے میری بیوی کو ،میری گیتا کو، مار دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 رامو نے روتے ہوے کہا ۔خورشید بھائی پاس کے گاؤں کی ایک عورت کسم میری گیتا کو گھر سے بلا کر لے گئی تھی۔خورشید نے کہا یہ بات تمہیں کس نے بتائی پڑوس کے لوگ بتا رہے تھے۔گیتا کسم کے پیچھے پیچھے جاتے ہوئے دیکھی گئی تھی۔خورشید کے دماغ میں بجلی کی طرح ایک بات کوندھی جو دانیا نے خورشید سے بتائی تھی کہ ایک دن گیتا دانیا کے پاس بیٹھی تھی کسی عورت نے دروازے پر آواز لگائی گیتا او گیتا ،اوروہ اٹھ کر اس کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی۔اور دانیا نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ عورت اس کے پہچان میں نہیں آئی تھی۔وہ عورت کون تھی شاید پاس کے گاؤں سے آئی تھی۔گیتا کواپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔اگلے دن گیتا کے پاس جب میں گئی تو وہ اداس بیٹھی تھی مرجھائی سی کسی غمگین خیالوں میں ڈوبی تھی ۔جب میں نے اس کے پاس جا کر اس کے کندھے کو ہلایا تب وہ ڈر سی گئی اور جھوٹھی ہنسی ہنس کر بولی دیدی آپ کب آئی۔میں نے ہنس کر کہا جب تم کسی دوسری دنیا کی سیر کر رہی تھی ،اوہ دیدی تم بھی نہ۔دانیا نے گیتا سے کہا اچھا یہ بتاؤتم ڈر کیوں گئی۔کیا بتاؤں دیدی بات ہی کچھ ایسی تھی ۔میں نے سوچاوہ ۔۔۔۔کہتے کہتے گیتا رک گئی ،دانیا نے جلدی سے کہا کون گیتا تم کچھ بول رہیں تھی؟گیتا نے کپ کپاتے ہونٹوں کے اندر سے آواز نکالی وہ پاس کے گاؤں کی کسم ،دانیا نے چونک کر کہا کسم کون کسم بتاؤبات کیا ہے؟ گیتا تم رو کیوں رہی ہو؟ کھل کر بتاؤبات کیا ہے۔؟وہ اس دن میں آپ کے گھر بیٹھی تھی تب اس کسم نے مجھے آواز لگائی اور اپنے ساتھ لے گئی بولی تمہارے رامو نے تمہیں بلایا ہے۔میں جلدی جلدی اس کے ساتھ چلی گئی۔جب میں ایک گھر میں گئی تب وہاں بہت سارے لڑکے ہی لڑکے اکھٹّاہوئے کھڑے تھے۔کچھ تو ایسے بھی تھے جو میرے ساتھ اسکول میں پڑھے تھے۔میں سب کو دیکھ کر ڈر گئی اور میں نے چاروں طرف دیکھ کر راموکو ڈھونڈھنے کی کوشش کی انھونے ایک آدمی کو مار کر بوری میں ڈل رکھا تھا ۔اور کہا یہ دیکھو تمہارا رامو ہے۔حرام زادہ ہمارے خلاف گواہی دیگا۔ہندو ہی ہندو سے غدّاری کرنے چلا تھا۔مسلمنٹوکا دوست بنے گا انصاف دلائے گا اس مسلمنٹے کے ٹکڑے کر دئے ہم نے ۔میں چیخ،چیخ کر رونے لگی تبھی ان سب کی ہنسی کی آوازیں ایک ساتھ میرے کانوں میں گونجنے لگیں۔ان میں سے ایک موٹے اور کالے آدمی نے میری چوٹی پکڑ کر اوپر کو اٹھایا ۔تیز آواز میں ہنستے ہویئے بولا دیکھو سالی کی کیا حا لت ہو گئی۔اپنے آدمی کے لئے۔پھر ایک ہی جھٹکے میں اس نے میرے آگے کے بال پکڑکر میرا چہرا اپنے منھ کے آگے کرکے میرے منھ پر تھوک دیا۔اور بولا جا سمجھا لے اس پاگل رامو کو نہیں تو ایسا ہی حال کریں گے جیسا تونے ابھی دیکھا ہے۔سمجھی پھر بہاتی رہنا زندگی بھر آنسو۔

 دانیا نے گیتا کو چپ کرانے کی کوشش کی اپنی ساڑی کے پلو سے دانیا نے اس کے آنسو صاف کئے۔اور کہا چپ ہو جا بہن میں یہ بات تمہارے بھائی خورشید کو بتا ؤں گی۔گیتا نے ایک دم چونک کر کہا کیا کہا دیدی بھیا کو مت بتانا انرتھ ہو جائے گا ۔وہ لوگ میرے رامو کی جان لے لیں گے۔میں ودھوا ہو جاؤں گی وہ بہت خطرناک ہیں۔گیتا نے کہا پتہ ہے دیدی جب میں گھر کے گیٹ تک آئی تو ان لوگوں نے کیا کہا ؟دانیا نے جلد کہا کیا کہا ؟ان مردودو ں نے اے !سن مسلمنٹے کی چمچی یہ نہیں پوچھے گی اس بوری میں کیا تھا۔سن ہم بتاتے ہیں۔اس میں گؤ ماس ہے ۔ہم نے اپنے ہی گھر کی گائے کو کاٹ دیا اب دیکھ ان مسلمانوں کو کیسے جال میں پھنساتے ہیں۔ایک تیر سے دو نشانے سمجھی یہ کسی مسلمان کے گھر میں ڈال کر اسی کا نام لگوائے گے۔اب تو تو سمجھ گئی ہو گی ہم کیا کیا کر سکتے ہیں ۔چاہو تو ہم سے ہاتھ ملا لو پیسا بھی ملے گا اور زندگی بھی۔نہیں تو کسی دن تیرے ہی گھر میں گھس کر تیرے آدمی کے سامنے تیرے ساتھ وہ حرکت کریں گے۔تو کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی۔

 گیتا نے سیسکیاں لیتے ہوے کہا بتاؤ دیدی میں کیا کروں!رامو کب آیں گے۔میں ان کو سمجھا دوں گی وہ سمجھ جائے گے۔انھونے مجھے دھمکی دی ہے اگر رامو نہیں مانا تو ہم تجھے مار کر اس کو ہمیشہ ،ہمیشہ کے لئے جیل میں ڈالوا دیں گے۔رامو نے روتے ہوے خورشید کا ہاتھ اپنے ہاتھ کے اپر رکھتے ہوے کہا اور کیا بتایا دانیا بھابھی کو گیتا نے بھائی یہی سب جو میں نے تمہیں بتا یا اب مجھے یاد آیا تمہاری بات سن کر جب سے تو میں بھولا ہوا تھا۔خورشید تمہاری کب بات ہوئی گیتا سے؟ ابھی دو دن پہلے بہت گھبرائی ہوئی تھی۔مجھے بول رہی تھی جلدی آنا رامو مجھے کچھ بتانا ہے۔لیکن جب میں آیاتو اس کا شو ـ(لاش)مجھے ملا اور پولیس والوں نے بنا تحقیقات کئے مجھے پکڑلیا۔

 رامو کی زنجیر پکڑے ہوے پولیس والے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر حبیب نے کہا تم کیوں رو رہے ہو؟پولیس والے نے آستین سے آنسو صاف کرتے ہوے کہا کیا بتاؤ ں نہ جانے روز کتنے بے گناہ لوگ آتے ہیں اور سزا کاٹتے ہیں میرا نام رام گوپال ہے۔میں بھی اچھی پوسٹ پر تھا۔اس ایمانداری نے مجھے بھی کیا سے کیا بنا دیا۔مجھے ہر وقت اپنے بیوی بچوں کی پروہ رہتی ہے نہ جانے کون سے دن میری بیوی بچوں سے کوئی بدلہ نہ لے لے ۔جو بے گناہ ہیں پولیس والے ان کے ساتھ بھی مجرموں والا سلوک کرتے ہیں۔آخر کار ان کے اندر بھی بدلے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔وہ پھر ہر پولیس والے کو رشوت والا جھوٹادلال سمجھتے ہیں۔

 نہ جانے روز کتنے لوگ ڈرا دھمکا کر جاتے ہیں ۔ہم جیسے ایماندار پولیس والوں کی بلی چڑھ جاتی ہے۔جو پولیس والے غدّار ہوتے ہیں وہ تو شاطر طریقہ اپنا کر بچ جاتے ہیں۔سیدھے اور سچّے پولیس والے دیش کے لئے اپنی جان تک گنواں دیتے ہیں۔لیکن آج تک ان کو انصاف ملا ہی نہیں اور ملے گا بھی نہیں ایک دن پھول مالا چڑھا کر سب بھول جاتے ہیں۔یاد رکھتے ہیں تو ان کے بیوی بچّے جو ہمیشہ انصاف کی مانگ کرتے رہتے ہیں اور انصاف تو عدالتوں کی فائیلوں میں دب کر رہ جاتا ہے۔ایسے ہی سمع گزر جاتا ہے۔ حبیب نے جلدی سے ہمدردانہ طور پر کہا ۔روئیں نہیں انکل آپ تو قانون کے رکھ والے ہیں ۔آپ ہی ہار مان جایں گے تب عام ناگرک کیا کریں گے۔ ‘‘افلاطون (Plato)نے صحح کہا ہے قانون سب کے لئے برابر ہے یہ دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔قانون مکڑی کا وہ جال ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں ۔’’حبیب یہ بات بتا کر آنکھو سے آنسو پوچھنے لگا خورشید نے حبیب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی ۔رام گوپال نے کہا چلو بیٹے بہت سمع ہو گیا مجھ کو ڈانٹ سننی پڑے گی تمہاری وجہ سے ۔اتنی دیر تک ملنے کی پرمیشن نہیں ہے حبیب نے کچھ پیسے نکال کر رامو کو دئے یہ لو انکل کچھ لے کر کھا لینا۔حبیب نے بائیک اسٹارٹ کی خورشید پیچھے بیٹھ گیا۔دونوں نے باتیں شروع کی پہلے حبیب نے رامو کی پوری بات بتائی کس طرح وہ جانوروں کے تبیلے میں پڑا ملا تھا۔حبیب نے کہا۔خورشید اب یہ ساری باتیں میں تیری بھابھی کو بتاؤں گا۔اس رامو کے بارے میں وہ اس دن سے ہی سوچ رہی ہوگی جو تبیلے میں تھا اس کا نام کیا تھا۔اس بے چاری کو کیا معلوم اس معصوم کی اتنی لمبی کہانی ہے۔

 خورشید نے کہا حبیب بھائی کچھ لوگ کتنے معصوم ہوتے ہیں۔رامو کی طر ح حبیب نے جلدی سے کہا جیسے کی میری پھول جہاں خورشیدنے مذاقًاکہا ۔کیا بات آج پھول جہاں بھابھی پر بہت پیار آرہا ہے بھائی۔ہاں خورشیدآج اکیس دن ہو گئے۔میں نے پھول جہاں سے بات نہیں کی۔خورشید نے جلدی سے کہا لیکن کیوں کیا ہوا ایسا؟حبیب نے کہا ۔ہوا کچھ نہیں بس جس دن سے تم نے میرے ہسپتال میں بیٹھ کر یہ بتایا تھا کہ ایک لڑکے نے اپنی بیوی کا قتل کر دیا اور قتل کی وجہ تم نے اس کے غیر مرد سے تعلقات بتائے میرا دماغ گھوم گیا تھا۔میں نے بار بار اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ہر عورت ایک سی نہیں ہوتی اور ہر مرد بھی ایک جیسا نہیں ہوتا ۔لیکن کیا کروں خورشید شیطان کا غلبہ طاری تھا۔آج میرا دماغ صاف ہو گیا اب میں اپنی پھول جہاں سے معا فی مانگ لوں گا۔دل چا ہ رہا ہے پرندہ بن کر اڑکر اس کے پاس پہنچ جاؤں ۔خورشید نے مذاقًا کہا اچھایہ بات ہے۔ اس لئے صبح پھول جہاں بھابھی اتنی مرجھائی ہوئی لگ رہیں تھی۔ اچھاہوا میں نے اپنی بہن کی شادی تم سے نہیں کی تم میری بہن پر بھی ایسے ہی شک کرتے۔حبیب نے بائک کو لہراتے ہوے کہا چپ ہو جا خورشید بائیک سے نیچے ڈال دؤں گا۔بھائی دھیرے چلائیے پتا ہے آج کچھ زیادہ ہی جلدی ہے پھول جہاں بھابھی سے مافی مانگنے کی ۔حبیب بھائی یہ جو عورتیں ہوتیں ہیں بہت تھوڑے دل کی ہوتی ہیں ہر بات دل پر لے لیتی ہیں ۔سب کچھ برداست کر سکتی ہیں لیکن شوہر کی کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتیں ۔بے چاری کا ہوتا ہی کون ہے۔اپنے والدین بھائی بہن سب کو چھوڑ کر آتی ہیں۔ اور جہاں ہم لوگ نوکری کی تلاش میں رہنے لگتے ہیں ۔وہی بے چاری اکیلے گھر میں ہمارے ساتھ رہنے کو تیار ہو جاتی ہیں ۔بھائی آپ نے برا کیا بھابھی سے ناراض ہو کر اور پھر ان کو وجہ بھی نہیں بتائی دیکھو اب میری بیوی دانیا ہی کو دیکھو بے چاری پورا دن کام کرے گی کھانا بنایئے گی اور اس کی آنکھیں دروازے پر لگی رہیں گی میں کب گھر پہنچو ں گا ۔اتنے پر بھی میں اسے غصہ دکھاؤں تو یہ کون سا پیار اور کون سی انسانیت ہے۔ماشااللہ آپ کی بیوی اور میری بیوی دونوں ہی ایجوکیٹڈاور سمجھدار ہیں۔رامو کی بیوی نے رامو کی خاطر ہی سب اتنا سہا ہوگا۔ان ظالموں نے پتا نہیں گیتا بھابھی پر کتنے ظلم کئے ہوں گے۔کیسی موت دی ہو گی۔اللہ انہیں غارت کرے گا۔بے چاری نے ابھی دیکھا ہی کیا تھا ۔ابھی شادی کو پانچ ماہ ہی ہوئے تھے۔دانیا کے پاس اس لئے آتی تھی بچپن میں دانیا کے ساتھ ایک ہی اسکول میں تھی۔دانیا نے ہی رامو اور گیتا کی شادی کرائی تھی۔اوہ !اچھاحبیب نے اداس ہو کر کہا۔خورشید اب اپنی بھابھی کو منانے میں میری مدد کرنا۔میں بھابھی کو اور بھڑکا دؤں گا۔نہیں یار ایسا مت کرنا۔میں اس کے بنا نہیں رہ سکتا ۔جلدی سے خورشیدنے کہا وہ کیا تھا جو ا تنے دن سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو شیطان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھوڑو یار میں اس کے بنا مر جاوں گا۔میں بہت محبت کرتا ہوں ۔خورشید ہنس کر بولا ۔بھائی آپ تو اتنے سیریس ہو گئے سب ٹھیک ہو جاے گا گھر تو پہنچے۔

 بھائی گاؤں میں کیا ہوا ہے اتنے لوگ افرا تفریح میں ہیں ۔اللہ خیر کرے کچھ تو بڑا ہوا ہے۔اس ملک کا چین و سکون تو ختم ہو گیا ۔

حبیب کی نظر اپنے گھر کی طرف پڑی تو ساری بھیڑ اس کے گھر میں جمع تھی۔عورتیں ایک دوسرے سے باتیں کر رہیں تھیں ۔بے چاری بڑی نیک تھی پتا نہیں ایسا کیا ہوا جو اچانک سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حبیب کی ایک چیخ نکلی اور پھول جہاں کے پاس جاکر کھڑے سے گر گیا۔خورشید نے ڈاکٹر کو بلایا ڈاکٹر نے کہا ہارٹ اٹیک آیا ہے۔ـ‘ہی اس نو مور’دونوں کے جنازے ایک ساتھ اٹھائے گئے۔گاؤں میں سنّاٹا

چھا گیا۔ہر طرف ہو کا عالم تھا۔پیڑوں پر پرندے اپنی چونچوں کو پروں کے اندر کئے ہوئے تھے۔حبیب کی بھینسو ں اور گاے کی آنکھوں میں آنسو تھے۔خورشید سائکل کا پینڈل تیزی سے مارتے ہوے اپنے گاؤں کی جانب جا رہا تھا۔اس کو آنسوؤں کی وجہ سے اپنا گاؤں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔خورشید کا راستہ اتنا لمبا ہو گیا تھا۔اس کو خود نہیں پتہ کہ اس کا گھر کہاں ہے کون سا گاؤں ہے کدھر جانا ہے۔ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا۔

***

Leave a Reply