فیصل شہزاد
(ایم فل سکالر، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی لاہور)
دوسرا کپ
چائے کے کپ سے بھاپ اُٹھ رہی تھی۔ کھانوں اور کافی کی ایک مخصوص خوشبو نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا جو لوگوں کی بھوک بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ آج کیفے ٹیریا میں معمول سے زیادہ ہجوم تھا۔ قہقہوں اور خوش گپیوں کے شور نے ایک سما باندھ دیا تھا۔
اُس نے چائے پینے کی غرض سے دو بار کپ کو اٹھایا اور پھر ویسے ہی دوبارہ میز پر رکھ دیا۔ چاروں طرف ایک نظر دوڑائی کہ شاید کوئی مانوس چہرہ نظر آ جائے لیکن وہاں سارے اجبنی تھے۔ اُسے یوں لگا جیسے ہر قہقہ اور ہر آواز اُسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔
دو ایک بار اُسے وہم ہوا جیسے کسی نے اُسے پیچھے سے آواز دی ہو۔ اُس نے سر جھٹک کر پیچھے دیکھا لیکن وہاں تو سب مشغول تھے، کوئی بھی اُس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے ایک بار پھر کپ کو غُور کے دیکھا۔ جس سے اب بھاپ نکلنا بن ہو چکی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اُسے یوں محسوس ہوا جیسے کپ بھی اُداس نظروں سے اُسے دیکھ رہا ہو۔۔۔۔۔
ساتھ والی میز پر دو لوگ ابھی براجمان ہوئے تھے۔ فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے اُن کی آواز قدرے صاف سنائی دے رہی تھی۔۔
تو تمہارا مطلب ہے ہمیں سب چیزوں پر ایک حد تک بھروسا کرنا چاہیے۔۔۔؟،، یہ کہتے ہوئے لڑکی کی آواز بھرا گئی۔
٫٫ ہاں ں ں ں ۔۔۔۔ ہاں! جی ۔۔۔۔ شاید میرا یہی مطلب تھا ،،
٫٫ تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ازل سے ادھورا ہے؟ ،،
٫٫ میرا خیال ہے آپ نے بہت حد تک ٹھیک سمجھا ،، لڑکے نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
قدرے توقف کے بعد اپنی سانسیں بحال کرتے ہوئے وہ پھر بولا: ٫٫ انسان کی تکمیل شاید ایک ناممکن سا واہمہ ہے۔ وہ خواب تو بہت دیکھتا ہے لیکن صبح اُٹھنے سے پہلے آدھے سے زیادہ بھول چکا ہوتا ہے۔ بہت سارے منصوبے اور دیواریں جن کی بنیاد رکھنے کے بعد وہ اُنھیں ہمیشہ کے لیے بھول جاتا ہے، اور وہ کبھی مکمل نہیں ہو پاتے۔ وہ کئی رستوں پر چلتا ہے لیکن بہت جلد اُنھیں ترک کر دیتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ اِس میں اُس کی مرضی شامل ہو ،،۔
٫٫ تو آپ یہ کہنا چا رہے ہیں کہ انسان حد سے زیادہ مجبور ہے، کبھی دوسروں کے سامنے اور کبھی خود اپنی ذات کے سامنے،،۔
(ایک لمبی سانس لیتے ہوئے): ٫٫ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ہاں! بالکل
میرا یہی مطلب ہے کہ انسان ایک بے بس مخلوق ہے کہ انسان ایک بے بس مخلوق ہے۔ وہ بہت ساری دیواریں تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن کوئی آندھی اُن ادھوری دیواروں کی بنیادیں بھی اُکھاڑ دیتی ہے۔ وہ مٹی کے مکان تعمیر کرتا ہے کہ اُن میں سینت کر رکھ سکے۔۔۔۔۔
لیکن ایک سیلاب آتا ہے اور اُس کا سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ وہ کچھ دیر تک غیر یقینی اور اضطرابی حالت میں وہاں بیٹھ کر سوچتا ہے کہ اس کا گھر نہیں اُجڑنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔ پھر کپڑے جھاڑ کر اُٹھتا ہے اور دوبارہ اُس کی تعمیر شروع کر دیتا ہے ،،۔
٫٫ تو پھر ہمارے دعوے اور وعدے وہ سب کیا ہوئے؟ ،، لڑکی نے حیرت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
٫٫ وہ محض ایک دکھاوا ہیں۔ یا پھر خود کو یا دوسروں کو تسلی دینے کا محض ایک حربہ۔۔۔۔،،۔
٫٫ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِن ادھورے وعدوں کے ساتھ ہم دوسروں کو محض دھوکا دے رہے ہوتے ہیں؟،،۔
٫٫ ہاں۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے اب آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ (ذرا توقف کے بعد)۔۔۔۔ لیکن دھوکے بھی انسان کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔۔۔۔،،۔
٫٫ دھوکے بھلا انسان کو کس طرح زندہ رکھ سکتے ہیں؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔۔۔۔،، لڑکی نے ایک سرد آہ کو جیسے دباتے ہوئے کہا۔۔۔
٫٫ شاید ہماری کلاس کا وقت زیادہ ہو رہا ہے ،،۔
٫٫ ہاں۔۔۔۔۔ ہم دوبارہ بات کو یہیں سے شروع کریں گے ،،۔
وہ اُن دونوں کو کیفے سے باہر جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ چائے کب ٹھنڈی ہوئی اُسے پتہ ہی نہیں چلا۔ کچھ دیر کے لیے اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اِس کیفے میں اُن تینوں کے علاؤہ کوئی بھی نہیں تھا۔ اُن کی باتیں اُس کے ذہن میں چکر کاٹ رہی تھیں۔ ٫٫ جب سیلاب آتا ہے تو ہمارا سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے،،۔
اُسے وہ سیلاب یاد آیا جو واقعی لوگوں کا سب کچھ بہا کر لے گیا تھا۔ اُس کے شہر سے تھوڑا دور ایک دریائی علاقہ ہے۔ جہاں سے ہر سال گرمیوں میں سیلاب گزرتا ہے۔ اُس کے بچپن کے زمانے میں وہاں سے ایک بڑا سیلاب گزرا تھا۔ لوگ ریڑھیوں اور چھکڑوں پر اپنا سامان لادے چلے آ رہے تھے۔ اُن چھکڑوں کے پیچھے جانور بندھے ہوئے تھے۔ بچے اور بوڑھے اُن کے اوپر بیٹھے تھے۔ اور نوجوان ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ اُنھیں دیکھ کر تقسیمِ ہند کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا ہے۔ اور لوگ اپنا سب کچھ لٹا کر کچھ ٹرنک اور چارپائیاں لادے اپنی دھرتی کی طرف چلے آ رہے ہیں۔ ہر چہرہ اُداس اور خوفزدہ تھا اور اُن پر اپنے اسباب کے بہہ جانے کا دکھ واضح تھا۔ وہ کتنی دیر تک سڑک کنارے کھڑا ہو کر اُن گزرتے قافلوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا تھا کہ شاید دنیا میں سب سے بڑا کرب اپنا سب کچھ لٹا دینے کے بعد ہجرت کا کرب ہے۔
اُس شام جب وہ دریا کنارے سیلاب دیکھنے گیا تھا تو کس طرح سیلاب بڑی خاموشی اور بے دردی سے لوگوں کا اسباب بہائے جا رہا تھا۔ شاید ایک لمحے کے لیے بھی اُسے اُن لوگوں کی حالتِ زار پر ترس نہیں آ رہا تھا۔ رما قصائی جس کا سب کچھ سیلاب کی نذر ہو گیا تھا وہ کس طرح دھاڑیں مار کر رو رہا تھا۔ لوگوں نے اُسے پکڑ رکھا تھا۔ اور وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ ٫٫میں اب زندہ رہ کر کیا کروں گا مجھے بھی اِس سیلاب کے ساتھ جانے دو ،،۔
اُس کے دل میں شدت سے یہ خیال آیا تھا کہ وہ دوڑ کر اُسے گلے لگا لے اور اُسے جھوٹی تسلی دے۔ لیکن وہ دور کھڑا اُسے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔
ایک لمحے کے لیے اُس نے سامنے پڑی خالی کُرسی کو دیکھا۔ جیسے وہ بہت دیر سے اُس کا منہ چڑا رہی ہو۔ اُسے یوں لگا کہ اِس خالی کُرسی کو ہی اُسے اپنا حال سنا دینا چاہیے۔ اُسے بتانا چاہیے کہ بچپن میں آنے والے اُس سیلاب نے اُسے کس قدر خوفزدہ کر دیا تھا۔ اور اب وہ کسی سیلاب کا نام سن کر بھی لرز جاتا ہے۔ جب وہ کسی دیوار کو گِرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اُس کے ہاتھ رعشہ زدہ مریض کی طرح کانپنیں لگتے ہیں۔ اور جب وہ کسی کا اسباب لُٹتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
سر آپ کچھ اور لیں گے۔۔۔۔؟،، کیفے کے ایک بیرے نے اُس کے قریب آتے ہوئے پوچھا۔
اُسے یوں لگا جیسے کسی نے اُسے گہرے خواب سے جھنجھوڑ کر جگایا ہو۔
٫٫ ہاں! کیا ایک ۔۔۔۔۔۔ کیا ایک ۔۔۔۔۔۔ چائے کا دوسرا کپ مل سکتا ہے۔۔۔۔۔؟،،
***