You are currently viewing راجا نذر بونیاری کی افسانوی کائنات

راجا نذر بونیاری کی افسانوی کائنات

انظر نبی دار

ریسرچ اسکالر: سینٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر ،شعبۂ اردو

راجا نذر بونیاری کی افسانوی کائنات

         اردو ادب میں افسانہ ایک الگ اور جدید صنف ادب ہے اپنی  متعدد خصوصیات کے سبب آج اس صنف ادب کی  اہمیت دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں ہرگز کم نہیں ہے ۔ریاست جموں و کشمیر میں اردو افسانے کو ایک نئی سمت و رفتار عطا کرنے میں کئی فاضل تخلیق کاروں کا خون جگر شامل ہے جنہوں نے اپنی تخلیقی ہنرمندی کی بدولت ریاست میں صنف افسانہ کے حدود اربعہ کو خاصی وسعت بخشی۔ ان ہی افسانہ نویسوں میں راجہ نذر بونیاری کا نام شامل ہے جو تقریباً پچھلے سات  دہائیوں سے اردو افسانہ کی تخلیق میں منہمک و مصروف ہیں ۔

         راجہ نذر بونیاری کا شمار ریاست کے کہنہ مشق،بالیدہ اور فعال افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی معاشرے کی تلخیوں، نفسیاتی الجھنوں، روحانی اذیتوں اور داخلی خلفشاریوں کو منصہ شہود پر لانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے افسانوں کے راست مطالعہ سے مصنف کے سماجی وقوف کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ راجہ نذر بونیاری کا قلمی اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں ان کرداروں کو جگہ دی جن کا تعلق انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی سے ہے۔ وہ اپنے علو تخیل سے ان کرداروں میں ایسا رنگ بھر دیتے ہیں جس سے قاری کے ذہن پر ایک انوکھے تاثر کا ارتسام ہوتا ہے جو نہ صرف قاری کو جمالیاتی آسودگی فراہم کرتا ہے بلکہ تدبر و تفحص پر بھی آمادہ کرتا ہے ۔

         راجہ نذر بونیاری کے کئی افسانوی مجموعے زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں اور ادبی حلقوں میں خراج نیاز حاصل کرچکے ہیں ان کا پہلا مجموعہ ’’دوسرا آدم ‘‘۱۹۷۱ ء کے نام سے بصرنواز ہوا ۔اس کے بعد’’ بانجھ ماں کا بیٹا‘‘ اور تیسرا مجموعہ ’’یہ کس کی لاش ہے میرے کفن میں ‘‘۲۰۰۸ء میں منظر عام پر آیا۔ ان افسانوی مجموعوں میں مشمولہ کہانیوں کو ضبط مطالعہ میں لانے کے بعد مصنف کی تخلیقی دراکی کا بین ثبوت ملتا ہے انہوں نے اپنی کہانیوں کے لئے مواد اور موضوع کو اپنے ہی قرب و جوار سے اکھٹا کیا ہے۔ راجہ نذر بونیاری کی تخلیقی سائیکی پر ترقی پسند تحریک کے نظریاتی دبستان کا شفاف تاثر ملتا ہے وہ ادب میں مقصدیت کے مقلد نظر آتے ہیں لیکن وہ ادبی اصولوں سے منحرف نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے یہاں نعرہ بازی یا کسی پرپیگنڈہ کا تعامل نظر آتا ہے چنانچہ وہ رقمطراز ہیں :

’’میکسم گورکی ،لیوٹالسٹائی، پشکن اور گوگول کی چیزیں پڑھتے پڑھتے میں نے روسی اشتراکیت کو اپنا ادبی دبستان بنا لیا اور کئی سالوں تک اسی سکول سے وابستہ رہا اور پھر رفتہ رفتہ اپنے آپ کو نظریاتی غلامی سے آزاد کر لیا آج میں کسی ادبی دبستان فکر کا نہ حامی ہوں نہ شاگرد ، میں اس وقت سماج کی ایک کمزور سی اکائی ہوں ۔‘‘

 ( اپنی کہانی اپنی زبانی ، مشمولہ’’یہ کس کی لاش ہے میرے کفن میں‘‘ ،ص:۱۸

 وہ اپنے افسانوں میں سادہ ،سلیس اور عام فہم اسلوب استعمال کرتے ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ کہانیوں میں کسی قسم کا ابہام یا پیچیدگی نہیں پائی جاتی وہ اپنی بات کو نہایت فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ قاری تک پہنچانے کا ملکہ رکھتے ہیں جس سے قاری کے دل و دماغ پر ایک تاثر قائم ہوتا ہے ۔

         راجہ نذربونیاری کا معروف افسانوی مجموعہ’’ یہ کس کی لاش ہے میرے کفن میں‘‘ ایک منفرد اور قابل مطالعہ مجموعہ ہے ۔مذکورہ تخلیقی شہہ پارے میں ان کی ذاتی کہانی’’ اپنی کہانی اپنی زبانی‘‘ سمیت۲۳ افسانے موجود ہیں ۔مصنف نے پہلی کہانی میں اپنی زندگی کی سرگزشت کو افسانوی اسلوب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے جس سے مصنف کی زندگی کا بھرپور احاطہ ہوتا ہے۔ مصنف کی تخلیقی سائیکی کو ایک جہت عطا کرنے میں جن عوامل و عناصر کا قوام رہا ہے اس کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے جس کی بدولت قاری کو ان کے افسانوںمیں موجود تشبیہات و استعارات رموز و علائم اور مخصوص تخلیقی آہنگ کا ادراک ہوتا ہے ۔

         راجہ نذر بونیاری نے زیادہ تر علامتی افسانے خلق کئے ہیں’’ نمک کی قیمت‘‘ راجہ نذر نونیاری کا ایک علامتی افسانہ ہے۔ اس افسانے میں مصنف نے دبے لفظوں میں ماں کی عظمت و سطوت کو بیان کیا ہے اور اس مقدس رشتے کی مودت و پاکیزگی کو مدار گفتگو بنایا ہے۔ افسانہ نویس نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ ماں کی گود ہی انسان کا پہلا درس گاہ ہے’’ سلطانہ ڈاکو‘‘س لئے اپنے ماں کا کان کاٹتا ہے کیوں کہ ماں نے بچپن میں اس سے برے اور مکروہ کاموں پر حوصلہ افزائی کی تھی سلطانہ ڈاکو کا یہ مکالمہ ملاحظہ کیجئے:

’’میرے ڈاکو اور قاتل بننے کے پیچھے میری ماں کا ہاتھ ہے کیونکہ جب میں بچپن میں چھوٹی چھوٹی چوریاں کرتا تھا تو میری ماں مجھے شاباشی دیتی تھی ۔‘‘

(افسانہ ’’نمک کی قیمت‘‘ ، ص :۲۷

         اس افسانے کی عصری معنویت پر غور کیا جائے تو موجودہ انسانی معاشرے میں بچوں کے اندر جو اخلاقی قدروں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ان کی روح کے اندر جو غیر انسانی جذبات سرایت کر چکے ہیں اس کی بنیادی وجہ والدین کی بچوں کے تئیں بے التفاتی ہے ۔جس کی وجہ سے معاشرے کے اندر اخلاقی پستی اور روحانی ہبوط کا ایک بھیانک مرض بڑھتا جارہا ہے۔ مصنف نے اس امر کی جانب بھی توجہ منعطف کرائی ہے کہ ماں جیسی عظیم اور مقدس ہستی کی بے قدری کرنے پر بھی ماں کا دل ایک بار بھی بیٹے کے لئے مکدر نہیں ہوتا بلکہ اس کے وجود کے ہر ٹکڑے سے یہی آواز نکلتی ہے ۔

’’میرے لخت جگر میرے نور چشم ‘‘

( ایضاً ، ص: ۲۹ )

         اس افسانے کو مصنف نے علامتی پیرائے میں لکھا ہے اور ماں اور بیٹے کے رشتے کو دراصل وطن اور اس میں فروکش باشندوں کے تعلق پر منطبق کیا ہے۔اس افسانے میں مصنف نے اپنے محب وطن ہونے کا برملا ثبوت دیا ہے اور یہ پیغام بھی دیا ہے کہ کس طرح چند بے ایمان ، ضمیر فروش اور بددیانت افراد اپنے وطن میں مستقر و مقیم رہ کر بھی اپنی ماں یعنی وطن کی ساخت کو مجروح کر دیتے ہیں لیکن وطن ایک کشادہ ظرف ماں کی طرح پھر بھی انہیں آغوش رحمت میں پناہ دیتا ہے ۔

         ’’سٹیٹ منٹ ‘‘راجہ نذر بونیاری کا ایک منفرد افسانہ ہے جس میں انہوں نے پدری سماج میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کو قرطاس ابیض پر ظاہر کیاہے۔ اس افسانے کا مرکزی اور متحرک کردار جگری ہے جس کے اردگرد کہانی کا سارا تانا بانا بنا گیا ہے۔ اس کہانی میں مصنف نے انسانی معاشرت کا مکروہ اور کریہہ چہرہ سامنے لایا ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی شفیع منشی اور آفیسر جیسے کردار اپنی شکستہ خوردہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہیں اور جگری جیسی کئی محکوم و منکوب خواتین کی عفت و عصمت پر نیش زنی کی مذموم کوشش کرتے ہیں ۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے :

’’جگری صاحب کے کمرے میں چلی گئی اور کسی نے اندر سے دروازہ بند کردیا تھوڑی دیر بعد منشی آگیا۔۔۔تقریباً تیس منٹ کے اندر سکوت چھایا رہا لیکن پھر اچانک شور سا ہوا اگلے ہی لمحہ جگری دروازہ کھول کر باہر آگئی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے ڈوپٹہ غائب تھا اور فراک چھاتیوں کے اوپر سے چاک تھا ۔‘‘

(افسانہ’’ سٹیٹ منٹ‘‘، ص: ۳۶ )

         اس افسانے سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ مصنف نے انسانی سماج میں عورتوں کے ساتھ ہونے والی فاجرانہ حرکات کا بیباکانہ اظہار کیا ہے۔انہوں نے جگری جیسی محنتی اور بے باک عورت کو جس فنی چابکدستی سے تراشا ہے اس سے مصنف کی تخلیقی وجاہت ہویداہوتی ہے۔ جگری کی زبان سے ادا ہونے والے ہر ہر لفظ سے نسوانیت کا حسن جھلکتا ہے اور اس کی نفسیاتی کیفیتیں سامنے آتی ہیں ۔

         ’’دوسرا آدم ‘‘راجہ نذر کا اہم افسانہ ہے اس افسانے کا ترجہ روسی زبان میں ڈاکٹر صابر صدیقی نے کیا تھا۔’’ دوسرا آدم‘‘ میں مصنف نے انسانی سماج میں رونما ہونے والے بھیانک واقعات جیسے جنگ و جدل ، جبر و ظلم ، دہشت، ناانصافی اور زیادتی کو افسانوی اسلوب میں منتقل کیا ہے۔ اس افسانے میں انہوں نے انسان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ انسان نے اپنی خود غرضی ، لالچ ، حسد ، بغض اور نفرت انگیزی کی وجہ سے کائنات رنگ و بو کو مقتل گاہ بنایا ہے۔ ان کے نزدیک انسانی لباس میں ملبوس و مزین آدمی درندہ صفات کا حامل بن چکا ہے۔انہوںنے اس افسانے میں شام سندر کے زرد پھول کو بطور علامت پیش کیا ہے یہ پھول شام کے وقت کھلتے ہیں ان میں زندگی کی حرارت دوڑتی ہے لیکن صبح ہونے سے پہلے ہی ان کی زندگی کا سفر ختم ہو جاتا ہے۔ اس علامت سے انہوں نے دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کی طرف اشارہ دیا ہے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ  انسان کی تخریبی اور فسادی سرشت سے تیسری عالمگیر جنگ رونما ہوئی تو پوری دنیا سے انسانیت کا نام و نشان مٹ جائے گا ، خدا دوسرا آدم تخلیق کرے گا۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ’’ دوسرا آدم ‘‘بچے کی خصلتوں کا حامل ہو معصوم ، گناہوں سے پاک ، صاف دل ، انسان دوست ، محبت اور ہمدردی کا مثالی پیکر۔

         اس افسانے میں افسانہ نگار کی انسانیت کے تئیں جذبہ محبت و غمخواری صاف جھلکتی ہے وہ پوری دنیا کو امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتے ہیں جہاں ایک دوسرے سے بے لوث محبت و مودت ، شفقت و ہمدردی اور اخوت و دوستی کی پررونق بہاریں موجود ہوں۔

         راجہ نذر بونیاری کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں میں نہ صرف حالات و واقعات کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ادب کے ایک سنجیدہ اور باذوق قاری کو بصیرت کی دولت بھی تفویض کرتے ہیں۔ ان کے بیشتر افسانوں کا اختصاص یہ ہے کہ قاری اختتام تک افسانے کے ساتھ جڑا رہتا ہے وہ بنیادی طور پر ایک حساس کہانی کار ہیں اور یہ ان کی افسانوی زندگی کا ایک اہم پہلو ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی سماج کے مختلف اور متنوع مسائل کو اظہار کا جامہ پہنایا ہے جس سے ان کی سماجی حسیت اور فکری بالیدگی کا ثبوت ملتا ہے ۔ڈاکٹر برج پریمی نے اپنی کتاب ’’ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشونما ‘‘میں راجہ نذر بونیاری کو ریاست کے جید اور فعال افسانہ نویسوں میں جگہ دی ہے وہ رقمطراز ہیں :

’’اردو افسانہ ریاست میں کسی جمود کا شکار نہیں یہاں کے کہانی کار اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں اور عصر حاضر کے انسانوں میں جو بے سروسامانی کرب اور تنہائی کا احساس پیدا ہوا ہے اس کی ترجمانی جدید دور کے افسانہ نگار کر رہے ہیں ان میں خاص طور پر آنند لہر ، انیس ہمدانی ۔۔۔ راجہ نذر بونیاری وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں ۔‘‘

(ڈاکٹر برج پریمی ،’’ جموں و کشمیر میں اردو ادب کی نشوونما‘‘ ، رچنا پبلی کیشنز ، جموں ، ص: ۳۸۔۳۷

***

Leave a Reply