You are currently viewing راجستھان میں سفر ناموں کی روایت

راجستھان میں سفر ناموں کی روایت

ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔جے پور۔

راجستھان میں سفر ناموں کی روایت

صوبہ راجستھان میں سترہویں صدی کے نصف دوم سے اردو زبان کے واضح ثبوت نظر آتے ہیں،جب ریاست جے پور کے مہاراجگان کو روزانہ سیاسی رپورٹیں موصول ہوا کرتی تھیں جو دیوناگری رسم الخط میںراجستھانی بھاشا میں لکھی ہوتی تھیں اور جن کے الفاظ کچھ اس قسم کے ہوا کرتے تھے،’’مہاراج سلامت۔پروانہ سرفرازی کا خانہ زاد کنے(کے پاس) آیا۔سرفرازی اور سربلندی حاصل ہوئی‘‘۔ایسی کئی رپورٹوں کی تفصیل راقم الحروف نے اپنی کتاب’’ تاریخ ادب اردو راجستھان‘‘ میں درج کی ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ راجستھان میں میں اردو نثر کی ابتدا مذکورہ رپورٹ کی شکل میں ہوئی تھی۔اٹھارہویں صدی میں اردو نثراپنی اصل ہیئت کے ساتھ منظر عام ضر آئی اورہر قسم کے موضوعات کو اردو نثر میں پیش کیا جانے لگا۔جیسے:تاریخ،داستان،ناول،تذکرہ،افسانہ،اخلاقیات،طب،علمی اور قوانین کی کتابیں وغیرہ۔

غرض بڑے پیمانے پر اردو نثر میں ایسے موضوعات پیش کئے گئے۔ان ہی میں سفر نامےبھی شامل ہیں۔راجستھان میں سفر نامے کی ابتدا ۱۸۷۳ء سے ہوئی۔ذیل میں چند مشہور سفر ناموں کا ذکر پیش کیا جا رہا ہے۔

سفر نامہ حرمین۔۱۸۷۳ء (حاجی زردار خاں،ریاست قرولی)

         یہ راجستھان کا پہلا سفر نامہ ہے،جسے ریاست قرولی کے حاجی زردار خاں ناغڑ نے تصنیف کیا ہے۔حاجی زردار خاں ’’صولت افغانی‘‘(تاریخ وتذکرہ،۱۸۷۶ء)کے سبب جانے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب ’’صولت افغانی‘‘ راجستھان کے تاریخی ادب اور تذکرہ نگاری میں اولیت رکھتی ہے اسی طرح ان کا یہ سفر نامہ بھی راجستھان کا اولین سفر نامہ ہے۔

         مردان علی خاں رعناؔ(جودھپور)نے ۱۸۶۳ء میں ’’نوائے غریب‘‘کے عنوان سے ایک بہت مختصر کتاب۲۵؍صفحات کی لکھی تھی،جس میں انھوں نے کہیں کہیں اپنے سفر کے بارے میں لکھا ہے،اس کو ہم راجستھان میں سفر ناموں کے ابتدائی نقوش کے طور پر دیکھ سکتے ہیں،لیکن’’نوائے غریب‘‘سفر نامہ ہر گز نہیں ہے۔

         جس زمانے میں ’’سفر نامہ حرمین ‘‘لکھا گیا وہ اردو ادب میں سفر ناموں کے لئے ابتدائی دور تھا۔اس زمانے میں حج کا سفر بھی آسان نہ تھا۔مہینوں کا عرصہ لگتا تھا۔دس بارہ دن تو جانے میں ہی لگ جاتے تھے۔اور حرمین شریفین میں اس وقت اتنی سہولتیں بھی نہیں ھیں جس قدر آج ہیں۔اس لئے جو حاجی اس سفر سے واپس آتا تھا مہینوں نہیں بلکہ سالوں اس کے دل پر وہاں کے تاثرات ثبت رہا کرتے تھے۔حاجی زردار خاں بنی ان ہی احساسات اور جذبات سے مغلوب تھے،اس لئے انھوں نے سفر نامہ مرتب کرنے کا فیصلہ کیا۔’’سبب تالیف‘‘بیان کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے،

’’ایک وجہ اس رسالے کے لکھنے کی یہ ہے کہ جب سے یہ امیدوارِ مغفرتِ پرور دگار حج بیت اللہ شریف سے اور زیارت حرم محترم مدینہ منورہ سے مشرف ہو کر اپنے وطن مالوف میں وارد ہوا ہے یہی جی چاہتا ہے کہ وہی ذکر ورد زبان رکھوں اور اسی خیال میں رہوں اور آتش شوق کو اس ذکر سے تسکین دوں۔‘‘

         زردار خاں کا یہ سفر ۱۲۸۷ ھ ۲۷؍ شوّال کوریاست قرولی سے شروع ہوا تھا۔بمبئی تک پہنچتے ہوئے جن جن شہروں سے وہ گزرے ان کے لئے چند تاریخی جملے بھی اس سفر نامے میں تحریر کئے ہیں۔جیسے،بیانہ،بھرتپور،آگرہ ،الٓہ آباد،بمبئی وغیرہ۔جب بمبئی پہنچے تو جہاز تیار نہ تھا۔چند دن ان ک انتظار کرنا پڑا۔’’نول کھونا آگبوٹ‘‘ نامی جہاز سے ان کا سفر بمبئی سے شروع ہوا۔جہاز کے تعلق سے انھوں نے لکھا ہے،

’’کپتان اس جہاز کا انگریز بہت اچھا ہے اور معلم اس کا پا شکستہ خراب ہزار۔اکثر لوگوں کو ایذا دیتا رہتاہے۔اور دلال لوگ در باب نول جہاز کے حجاجوں کو بہت فریب دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔چار گھڑی دن باقی رہے یہ جہاز روانہ ہوا۔چھ روز کے حرصہ میں بندر جدّہ شریف میں صبح کے وقت داخل ہوا۔اب کیفیت جہاز کی لکھی جاتی ہے جو کہ راقم پر گزری ہے۔سننا چاہئے۔قابل سننے کے ہے۔بعد سوار ہونے جہاز پر دو چار منٹ تو ایک کیفیت معلوم ہوئی اور بعد اس کے برا حال ہونے لگا۔ب،دا وہ صدمہ جب یاد آتا ہے دل پر ایک صدمہ ہوتا ہے۔اللہ سوائے حج کے اس میں سوار نہ کروائے۔نہایت ہی تکلیف ہوتی ہے۔قے،دورانِ سر اور نہ کھانا اور ضعف و نقاحت کا لاعق ہونا کمال تکلیف دیتا ہے۔‘‘

شہر جدہ کے تعلق سے حاجی زردار خاں نے لکھا ہے،

’’جدّہ شریف میں حضرت حوّا کی زیارت کرتے ہیں۔بعد زیارت کے راقم نے بدست خود پیمائش کی،طور قبر شریف حضرت حوّا علیہ السلام کا تین سو ایک ہاتھ شمار میں آیا۔ناف قبر پر گنبد بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔بازار شہر جدہ شریف کانہایت آباد اور سایہ دار پٹا ہوا ہے۔ہر وقت بازار میں سایہ رہتا ہے۔تمام دن بازار کھلا رہتا ہے اور بعد نماز مغرب کے بند ہو جاتا ہے۔‘‘

         اس کے بعد مصنف نے عمرہ اور اس کے ارکان،حج اور اس کے ارکان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ضروری حوالے بھی پیش کئے ہیں کہ اسلام میں قربانی ان ہی کی سنت ہے۔

         مکہ اور مدینہ کی تاریخی عمارات کے نقشے اور مخصوص مقامات کا حاجی صاحب نے تفصیلی ذکر کیا ہے۔مدینہ کے باشندوں کے تعلق سے انھوں نے لکھا ہے،

“یہاں کے باشندے نہایت خلیق اور با شرع ہیں اور ریش بموجب شرع شریف کے کل باشندوں کی دیکھی اور مکہ شریف کے باشندے اکثر ریش کترواتے ہیں اور بعضے نہیں کترواتے۔مدینے کے لوگوں کا خلق اور حلم کا بیان نہیں ہو سکتا۔پس خلق اور حلم اس شہر بزرگ پر ختم ہے۔۔۔۔۔۔بتاریخ ز؍ محرم الحرام ۱۲۸۸ھ کو فقیر واپس مدینہ منورہ سے بطرف کعبہ شریف روانہ ہوا۔‘‘

         سفر نامہ کے آخر میں طویل مناجات اوہر کچھ تاریخی قطعات درج ہیں۔یہ سفر نامہ منشی نول کشور،لکھنو سے ۱۸۷۳ء میں شائع ہوااوربڑے سائز کے ۱۵۰؍صفحات پر مشتمل ہے۔

’’ریاضِ فکر‘‘ منظوم سفر نامہ۔۱۸۹۴ء(افضل حسین ثابتؔ لکھنوی۔کوٹہ)

         اردو ادب کا ایسا کون سا گوشہ ہے جس پر مشاہیر ادب راجستھان نے قلم نہیں اٹھایا ہو۔ادب میں ایسے ایسے کارنامے انجام دئے کہ انھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔سفر ناموں کی ہی بات کریں تو جہاں ایک طرف نثر میں سفر نامے لکھنے کی شروعات ہوئی وہیں منظوم سفر ناموں کی داغ بیل بھی ڈالی گئی۔

         ’’ریاضِ فکر‘‘راجستھان کا پہلا منظوم سفر نامے ہے جسے افضل حسین ثابتؔ لکھنوی(کوٹہ)نے ۱۸۹۴ء میں لکھا اور لاہور سے شائع ہوا۔اس میں کُل ۲۶۴؍بند ہیں۔’’ریاضِ فکر‘‘ اس کا تاریخی نام ہے(۱۳۱۱ھ)۔یہ سفر نامہ مسدس کی شکل میں ہے۔۱۳۱۱ھ میں جب ثابتؔ لکھنوی بلاد نجف اور دیگر مقدس مقامات کی زیارت کو تشریف لے گئے تب اس سفر نامے کو تحریر کیا۔اپنے دیباچہ میں ثابتؔ لکھنوی انکساری سے کام لیتے ہوئے سفر نامے کی خوبیاں کچھ یوں بیان کرتے ہیں،

’’اس نظم میں کوئی خاص خوبی یا صفت نہیں،مصنف میں بھی کسی قسم کی لیاقت نہیں۔مگر حق بات کہنے میں موقع پر کوتاہی کرنا بھی میرے مذہب میں گناہ ہے۔اس لئے حسب ذیل باتیں جو اس نظم میں قابل لحاظ معلوم ہوئی ہیں،عرض کرتا ہوں،

’’۱۔یہ جو کچھ کہا ہے جذبۂ دل کے اثر سے ہے۔امید ہے کہ ضرور انشاء اللہ اہلِ دل اسے پسند فرمائیں گے۔

۲۔اس کی تصنیف میں کوئی غرض دنیاوی شامل نہیں ۔جو کام بہ نیت خالص خدا کے لئے ہوتا ہے،خدا اسے درجۂ قبولیت عطا فرماتاہے لہٰذا امید ہے یہ کلام مقبول ہوگا۔

۳۔ان مقامات مقدسہ پر بعض بند پیش کئے گئے ہیں جن کی شان میں ’’طبقۃ من طبقاتِ الجنۃ‘‘ آیا ہے۔پس ایسے مقامات کی نظم (با لخصوص حضور قلب کی حالت میں)ضرور مقبول اہل دل ہو جائیں گے۔

۴۔ہمارے ہم عصر (بعض شعرائے ہند)کو اس طرف با لکل خیال نہیں ہے۔غزل کے سوا دوسری اصناف سخن کی طرف توجہ نہیں فرماتے،نتیجہ اس کم توجہی کا یہ ہے کہ اور تو اور ہمارے ہی ملک کے نئی روشنی کے نوجوان المسخن پر منھ آتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اردو کی شاعری بس گل و بلبل تک محدود ہے۔ہم منھ دیکھتے ہیں اور رہ جاتے ہیں۔‘‘(ص،۳)

مسدس میں سفر نامہ لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ثابت لکھنوی لکھتے ہیں،

’’اس مسدس سے(جو خاص اہل ہند کی ایجاد ہے)بہتر کوئی سخن نہیں ہے۔اسی خیال اور ان ہی بزرگوں کی تقلید سے سفر نامہ منظوم بطور مسدس لکھا ہے۔امید ہے کہ میرے ہم وطن و ہم عصر (شعرائے ہند)ہر قسم کے معاملے کو نظم فرما کر نئی روشنی والوں کا خواہ مخواہ کا الزام ہمارے سے سے اٹھا وینگے۔‘‘(ص۔۵)

اس سفر نامے کا پہلا تمہیدی بند یہ ہے،

شکرِ خدا کہ سر میں ہوائے عراق ہے

ہر وقت چشم و دل میں حسینی رواق ہے

فرصت میں زیست شاق ہے طاقت بھی طاق ہے

جنت جہاں میں دیکھنے کا اشتیاق ہے

دل میں اثر یہ مرقدِ شبیر کر گیا

نظروں سے اپنی روضۂ رضواں اتر گیا

روضہ امام حسین۔

پڑھ کر نماز، روضۂ شاہِ غیور میں

حاضر ہوں حاضری کو میں چھوٹے حضور میں

پہنچا دیا خدا نے عجب تمام نور میں

یہ نور ہے وہ نور کہ تھا بزم طور میں

نور ابو تراب سے مشتق یہ نور ہے

موسیٰ بھی کہہ رہے ہیں کہ الحق یہ نور ہے

تبر کاتِ کربلا:۔

تسبیحیں وہ درود پڑھیں جن پہ مرد و زن

منقوش سجدگاہوں پر اسمائے پنجتن

نقش نگیں مہرِ سلیماں ہے من و عن

خوش خط وہ خاکِ پا کے لکھے ہوئے کفن

صرّوں میں بوئے گلشنِ عنبر سرشت ہے

پنکھوں میں بھی یہاں کے ہوائے بہشت ہے

قیامِ نجف اشرف:۔

اب خلد چار میں میں ہی ہمارا مقام ہے

تاریخ بست و پنجم ماہِ صیام ہے

روزے کی کیا شکوہ ہے کیا احتشام ہے

جاری زبان و دل سے درود و سلام ہے

پیش نظر ہے قبّہ کی تابندگی کا لطف

صد شکر زندگی میں ملا زندگی کا لطف

اس سفر نامے کا ہر بنددلی جذبات کی غمازی کرتا ہے،قوافی کی ثابت لکھنوی کے یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔

’’سعادتِ دارین‘‘و’’ معراج احمدی‘‘۔سفر نامہ(منظوم)۱۹۲۳ء

         یہ سفر نامہ دسمبر ۱۹۲۳ء کو جیل پریس، جھالاواڑ سے شائع ہوا۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس کی مصنفہ ایک خاتون مسمی احمدی بیگم ہیں۔جو ضلع انّائو کے سب رجسٹرار مولوی نظار الحق کی اہلیہ تھیں۔اصل وطن ان کا ضلع انّائو کا قصبہ صفی پور تھا۔۱۹۲۲ء میں حج کے سفر سے واپس آکر صفی پور میں ہی اس سفر نامے کو نثر کی شکل میں مرتب کیا گیا۔اس کے بعد احمدی بیگم کے بھائی انصار الحق نے اس کو منظوم شکل دی۔جب اس کو شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو اس کی ذمہ داری احمدی بیگم کے تایازاد بھائی مولوی محفوظ الرحمن یکرنگؔ کو دی گئی جو ریاست جھالا واڑ میں سرکاری ملازم تھے اور عدالت فوجداری میں سرشتہ دار تھے۔ان کی کوششوں سے جیل پریس جھالا واڑ سے یہ منظوم سفر نامہ دسمبر ۱۹۲۳ء میں شائع ہواجو ۵۲؍ صفحات پر مشتمل ہے۔آخر میں اہل خاندان کی طرف سے ہی منظوم تقاریظ اور دعائیہ اشعار بھی ہیں۔اس کے بعد مولوی محفوظ الرحمن کی ایک طویل لیکن بہت عمدہ نظم’’علم کی رام کہانی‘‘شامل ہے جس میں ۱۴۱؍ اشعار ہیں۔ اس منظوم سفر نامے کے صرف وہی اشعارنقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن سے اس سفر نامے پر روشنی پڑتی ہے۔

سبب تالیف کے تحت مصنفہ نے لکھا ہے:۔

کہا ایک دن میری ہمشیر نے

سفر نامہ حج لکھدو مجھے

مفصل لکھو خوب اچھا لکھو

کوئی بات بھی اس میں چھُوٹی نہ ہو

سفر نامہ گر آپ نے لکھ دیا

تو سمجھوں گی میں مجھ پہ احساں کیا

جب یہ اوراقِ چند میں نے لکھے

تو تیرہ سو چالیس ہجری کے تھے

وہ آغاز تھا ماہِ شوال کا

کہ جب ختم میں نے یہ مضمون کیا

صفی پور میں میں نے اس کو لکھا

اودھ میں ضلع ہے جو اُنّائو کا

خاتمہ کتاب منجانب احمدی بیگم:۔

سفر نامہ میرا صداقت بھرا

بہت خوب منظوم لکھا گیا

مجھے جیسی خواہش تھی ویسا لکھا

مفصّل مشرّح بھی خوب سا

لکھا اس میں سب حالِ بحری سفر

لکھا اس میں کل حالِ بّری سفر

غرض جدّہ سے تا بہ مکّہ تمام

مفصّل لکھا حال اے نیک نام

جو لکھنا ضروری تھا وہ سب لکھا

مری رائے میں سب مناسب لکھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کروں شکر میں بھائی انصار کا

جنھوں نے بہ محنت مشقّت لکھا

دویم شکر کرتی ہوں معراج کا

کہ خوش خط بہت صاف ستھرا لکھا

ہوئی بن کے تیار جب یہ کتاب

یہ تھا یوم آدینہ سنئے جناب

سن و ماہ اوّل ہی لکھا گیا

دوبارہ لکھوں یہ مناسب نہ تھا

سفر نامہ حج ہوا اب تمام

محمد نبی پر درود اور سلام

سفر نامہ سعادت:۱۹۳۴ء(امیر حسن سہا۔ٹونک)

یہ سفر نامہ در اصل صاحبزادہ محمد عبد الوہاب خاں کے سفر حرمین شریفین کی روداد ہے جس کو مولانا سہا ؔ نے تالیف کیا ہے۔یہ ۱۶ /جون ۱۹۳۴ ء کو پورا ہو کر محبوب المطابع دہلی سے شائع ہوا۔اس کے مطالعے سے چند نئی باتیں سامنے آتی ہیں۔مثال کے طور پر مولانا امیر حسن سہا ؔ کو دربار ٹونک سے ابوالمظفر کا خطاب ملا تھا۔جو اس سفر نامہ کے سر ورق پرسہا ؔ کے نام کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔دوسرے سہاؔ کا بہت سا بہترین کلام بھی اس کتاب میں موجود ہے جو انھوں نے مختلف مواقع پر کہا تھا۔اس کے علاوہ اس کے سر ورق پر سہا ؔ کے نام کے ساتھ ’’طبیب خاص حضور انورفرماں روائے ریاست دارالاسلام محمد آباد عرف ٹونک‘‘کے لکھے ہونے سے ثابت ہو تا ہے کہ سہا ؔ کو طبیب خاص کا مقام بھی حاصل تھا۔

اس کتاب میں کچھ تاریخی حالات و واقعات لکھنے کے ساتھ ساتھ سہا ؔ نے کچھ اپنے چشم دید واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔جو یقیناً بڑی اہمیت کے حامل ہیں نیز یہ بھی ظاہر کر تے ہیں کہ ریاست ٹونک میں مولانا سہا ؔکی بہت قدرو منزلت تھی۔مثال کے طور پر صفحہ نمبر ۸ پر وہ لکھتے ہیں۔

’’حضور نواب محمد علی خاں بہادر کے جشن تخت نشینی پر اس خاکسار نامہ نگار کے جد ّ بزرگوار مولانا مولوی سید نجف علی خاں صاحب مر حوم کہ جن کو گورمنٹ عالیہ(انگریزی حکومت) سے خان بہادر اور بحر العلوم کا خطاب تھا ,‘کو ’’ تاج العلماء قلزم علوم ‘‘کے خطاب سے عزت افزائی فر مائی۔اور بہت کچھ زرو نقد و خلعت وغیرہ

وقتاً فوقتاً غطا فرماتے رہے۔‘‘

’’ایک موقع پر خاکسار نامہ نگار کے غریب خانہ پر بھی بحیلہ دعوت مع بعض صاحبزادگان عالی شان نشریف فرما ہوئے۔ اور حسب فرمائش حضوری خاکسار نے چند اشعار مسدس بطریق دعا و ثنا پیش کئے۔جن کو بہت دلچسپی و مسرت سے مکرر سکرر سنکر چند کلمات بہجت آیات نسبت اس نمک خوار موروثی ارشاد فرمائے۔اور ہنگام رخصت ایک حویلی پختہ مع دو قطع دوکانات زیر حویلی بلا طلب و اظہار خواہش‘سخاوت خسروانہ و پرورش شاہانہ سے مرحمت فرمائے۔اور بتاکیدجناب صاحبزادہ مظفر جنگ مرحوم کو حکم دیا کہ بہت جلد عطا نامہ سلطانی محکمہ خاص کا مصدقہ اس کو عطا کیا جائے۔۔چنانچہ ایک عرصہ تک وہ حویلی اور دوکانات راقم کے قبضہ میں رہیں۔تمام خذمت گذاروں سے سلوک و بندہ پروری ملحوظ و مر عی رکھا جاتا تھا۔‘‘

اس زمانے میں چونکہ پانی کے جہاز سے ہی سفر کیا جاتا تھا،حجاج کرام سمندر ی راستے سے ہی حج کو جایا کرتے تھے،اس سمندری سفر کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سہاؔ لکھتے ہیں،

’’جہاز دو روز تک تو اپنی موافق رفتارکے ساتھ چل رہا تھا کسی قسم کا تلاطم نہیں ہوا مگر آخر شب جمعہ کو بوجہ کثرت ہوا دریا میں تلاطم شروع ہوا اور جب دریائے سقوطرہ شروع ہوا تو جوشِ تلاطم حد سے زیادہ بڑھ گیا۔ہر ہولناک موج کے وقت بہت خوف رہتا تھا۔ہوا نہایت تیزی سے چل رہی تھی۔تیسرے دن ایک پرندہ بگلہ کی وضع کا جس کا رنگ سیاہی مائل تھا سمندر پر دکھائی دیا۔دو دن تک ہمراہ جہاز کے رہا۔تیسرے دن عربوں نے جو ہمارے جہاز میں تھے اوربہ نیت حج کو جاتے تھے اور بحرین کے باشندے تھے،اس جانور کو پکڑ لیا۔چوتھے روز پھر ایک نیا پرندہ نہایت خوبصورت جس کا رنگ سفید و سیاہ تھا پرواز کرتا ہوا جہاز کے اندر آ گیا،کچھ عرصہ تک اڑتا رہا اور پھر باہر چلا گیا اور نظروں سے غائب ہو گیا۔‘‘(ص،۴۸،۴۹)

بیت المقدس کی زیارت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سہاؔ نے لکھا ہے،

’’مسجدِ اقصیٰ اسی بیت المقدس کا نام ہے۔صبح صادق کے وقت ہم مسجد میں گئے اور حنفی مصلّے پر نماز جماعت سے ادا کی،جس جگہ صخرا ہے، وہی مصلی حنفی ہے۔یہ صخرا ایک بڑا پتھر ہے جو گنبد کے اندر ہے۔عوام کہتے ہیں کہ یہ پہلے گنبد کے اندر معلق تھا مگر اب تو وہ گنبد کی دیواروں پر لٹکا ہوا ہے۔یہ گنبد بہت عمدہ بنا ہوا ہے۔اس کے ستون معمولی پتھروں کے ترشے ہوئے ہیں اورموقع موقع پر سنگ مر مر کے ستون بھی ہیں اور دیگر کئی پتھروں کے ستون ہیں۔ان سب پر سونے کا کام ہو رہا ہے۔صخرا کے بیچ میں ایک سوراخ ہے۔وہاں کے آدمی ایسا بیان کرتے ہیں کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی سوراخ کے جگہ سے معراج ہوئی ہے۔مگر یہ سندی روایت نہیں ہے۔‘‘ (ص،۶۸،۶۹)

سفر نامے کی تحریر صاف اور شستہ ہے۔مولانا سہاؔ نے اس سفر نامے کو سادہ اور آسان زبان میں قلم بند کیا ہے۔

***

Leave a Reply