You are currently viewing راجستھان کی برگزیدہ شخصیت:ڈاکٹر محمد علی زیدی

راجستھان کی برگزیدہ شخصیت:ڈاکٹر محمد علی زیدی

 

ڈاکٹر معین الدین شاہینؔ

ایسو سئیٹ پروفیسر۔شعبۂ اردو۔

سمراٹ پرتھوی راج چوہان گورنمنٹ کالج،اجمیر

راجستھان کی برگزیدہ شخصیت:ڈاکٹر محمد علی زیدی

         ۲۰۱۹ء سے تا حال پوری دنیا کورونا کی وبا سے دوچار ہے۔اس وبا کے سبب لاکھوں لوگ داعیٔ ملک عدم ہوئے جن میں عوام و خواص سبھی شامل ہیں۔جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے تو ہم مرزا غالب کے لفظوں میں یہی کہہ سکتے ہیںکہ،

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

چونکہ شاعر و ادیب کی نظر حالاتِ حاضرہ پر ہمہ وقت جمی ہوتی ہے تاہم مختلف شعری و نثری اصناف کے توسّط سے جو تخلیقات منظرِ عام پر آئیں ان میں درد و کرب کی جو شدّت موجود ہے اسے محسوس کر کے اکثر و پیشتر حضرات نمدیدہ ہو جاتے ہیں۔راقم الحروف نے بھی اپنے ’کورونا ‘دوہوں اور غزلوں کے حوالے سے اس درد انگیز کیفیت کو اس طرح ظاہر کیا ہے،

جب سے کورونا کی لعنت آئی ہے

موت کی دہشت دلوں پر چھائی ہے

ہر گھڑی دھڑکا سا رہتا ہے ہمیں

یہ کورونا کی ستم آرائی ہے

ہاتھ بھی اب ہاتھ سے ملتا نہیں

زندگی کس موڑ پر لے آئی ہے

(کورونا غزل سے ماخوذ)

اندیشوں نے سکھا دیا ،انسانوں کا خون

کورونا تیرے سبب ملتا نہیں سکون

دور دور تک دیکھئے، لاشوں کا انبار

مشرق سے مغرب تک،سب کے سب بیزار

مار رہا ہے رات دن، حلاکتوں کے ڈنک

کورونا دیکھے نہیں، راجہ ہو یا رنک

(کورونا دوہوں سے اخذ)

         عالمی سطح پر وفات پانے والے اہلِ اردو کی طویل فہرست میں شاعر،ادیب،نقاد،محقق،مبصر،اور صحافی وغیرہ شامل ہیں۔متواتر اہلِ اردو کی وفات کی خبریں کلیجہ ہلا دیتی ہیں۔اگر صوبۂ راجستھان کے تناظر میں دیکھیں تو فرحت ایوبی(جے پور)اے،ڈی راہی(جودھپور)حاجی محمد بخش قریشی(بیاور)حافظ قمر آصفؔ(اجمیر)امیر احمد سمنؔ اور قمر میاں(ٹونک)عبد المغنی رہبرؔ(بیکانیر)وغیرہ کے اسمائے گرامی مرحومین میں شامل ہیں۔اس فہرست میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد علی زیدی کا بھی ہے،جو راجستھان کی ایسی برگزیدہ شخصیت ہونے کا اعزاز رکھتے ہیں جنھوں نے راجستھان یونیورسٹی ،جے پور کے شعبہ اردوکے صدر،ساہتیہ اکادمی،اودے پور کے رکن،راجستھان اردو اکیڈمی،جے پور کے چیر مین رہتے ہوئے اردو زبان و ادب کی خدمت کا فریضہ انجام دے کر شیدائے اردو ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

         ڈاکٹر محمد علی زیدی مرحوم کے مکمل و مفصّل حالات و کوائف کسی حوالے سے موصول نہیں ہوتے۔آپ کی کتاب’’مطالعۂ داغؔ‘‘میں آپ نے اپنے سوانحی حالات کے متعلق جو مختصر معلومات درج کیں ہیں وہ اس طرح ہیں،

نام:     سید محمد علی زیدی            پیدائش:۔۲۳؍مئی۔۱۹۲۷ء

وطن:   جے پور(راجستھان)        تعلیم:ایم،اے(اردو)ایل،ایل،بی۔پی، ایچ،ڈی(اردو)

مشغلہ:  صدر۔شعبۂ اردو۔راجستھان یونیورسٹی،جے پور

رکن۔   راجستھان ساہتیہ اکادمی۔اودے پور

(مطالعۂ داغ‘‘ڈاکٹر محمد علی زیدی۔ناشر۔کتاب نگر،دین دیال روڈ،لکھنو۔۱۹۷۴ء۔ص۔۴)

مذکورہ معلومات کے علاوہ مطبوعات کی فہرست دی گئی ہے جس کا ذکر آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔

         زیدی صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز طالب علمی کے زمانے میں طنز و مزاح نگاری سے ہواتھا۔جس کے زیرِ اثر آپ نے مزاحیہ فیچر اور یک بابی ڈرامے تحریر کئے،جو وقتاً فوقتاً ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوئے اور معاصر رسائل کی زینت بھی بنے۔اس سلسلے میں ایک جگہ خود فرماتے ہیں،

         ’’میں نے طالبِ علمی کے زمانے سے ہی انگریزی اور اردو کے ڈراموں میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کردیا تھا۔عمر کے ساتھ ساتھ میری اس دلچسپی میں اضافہ ہوتا رہااور اس طرح میں براہ راست اسٹیج اور ڈراموں کی مختلف النوع ضروریات اور تکنیک سے عملی طور پر واقف ہوتا رہا۔میں نے چند ڈرامے اسٹیج کی ضروریات کے مطابق کتر بونت کرکے پیش کئے اور ڈراموں کی پیش کش میںعرق ریزیوں،جانفشانیوں اور مالی دشواریوں کی منزل سے بھی گزرا۔میرے اسی شوق نے مجھے ریڈیو آرٹسٹوں اور دوسرے فنکاروں سے روشناس کرایا۔انھیں کی مسلسل فرمائشوں اور شدید تقاضوں نے مجھ سے یہ ریڈیائی خاکے لکھوائے۔‘‘

(عشق پر زور نہیں۔ڈاکٹر محمد علی زیدی۔ادارہ نشر و اشاعت،شعبۂ اردو۔راجستھان یونیورسٹی،جے پور۔۱۹۷۶ء۔ص۔۷۔۸)

         ڈاکٹر زیدی صاحب کی مذکورہ تحریر دراصل ان کے ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے’’عشق پر زور نہیں‘‘کے ’پیش گفتار‘کے زیر عنوان شامل کتاب کی گئی ہے۔اس پیش گفتار کے مطالعہ سے زیدی صاحب کی ڈرامہ نگاری اور طنز و مزاح میں دلچسپی کا علم ہوتا ہے۔اس مجموعے کے مشمولات کی فہرست اس طرح ہے،

۱۔نواب کی موت                                      ۲۔عشق پر زور نہیں

۳۔طلاق                                             ۴۔نور چشم کی ضرورت

۵۔انوکھے علاج                                        ۶۔چھٹّی کا دن

۷۔اگر عقل مند ہوتے تو کنوارے ہوتے                          ۸۔بے وقوف کون؟

۹۔کرایہ دار کی ضرورت                                ۱۰۔عشق خانۂ خراب نے مارا

۱۱۔سال گرہ                                          ۱۲۔چور بازاری

۱۳۔قیمت میں کمی

         یہ ڈرامے ریڈیو پر نشر ہوئے اور بعض رسائل میں طبع ہو کر مشہور ہوئے۔مذکورہ مجموعے کے بعد بھی زیدی صاحب کی مزاحیہ تحریریں،فیچر اور یک بابی ڈرامے ریڈیوں سے نشر ہوتے رہے اور رسائل میں چھپتے رہے۔سہ ماہی نخلستان میں طبع شدہ چند ایسی تحریریں فی الوقت راقم کے پیش نظر ہیں،

۱۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے۔مزاحیہ فیچر۔نخلستان،بابت،اکتوبر ۱۹۸۰ء تا مارچ ۱۹۸۱ء

۲۔اکیسویں صدی کی شادی(طنزو مزاح)مشمولہ،نخلستان،بابت جنوری تا مارچ،۱۹۹۲ء

         ’’عشق پر زور نہیں ‘‘سے قبل محمد علی زیدی کی کتاب’’مطالعہ داغ‘‘۱۹۷۴ء میں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی تھی۔دراصل یہ مرحوم کا وہ تحقیقی مقالہ تھا جو پروفیسرسید احتشام حسین کی نگرانی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا تھااور اس پر راجستھان یونیورسٹی جے پور نے سنہ ۱۹۷۰ء میں انھیں پی،ایچ،ڈی کی سند تفویض کی تھی۔اس مقالے کو صوبہ راجستھان میں پہلی تحقیقی سند ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔اس بابت خود زیدی صاحب رقم طراز ہیں،

         ’’احسان فراموشی ہوگی اگر میں اپنی یونیورسٹی کے اربابِ حل و عقد کا شکریہ ادا نہ کروں۔کیوں کہ ان کی ہمدردانہ توجہ نے میری راہ آسان بنادی اور میں اس قابل ہو سکاکہ اردو کا یہ پہلا مقالہ راجستھان یونیورسٹی میں پیش کر کے اس یونیورسٹی میں اردو کی تحقیقی ڈگری سب سے پہلے حاصل کر سکوں۔‘‘

(مطالعۂ داغ۔ڈاکٹر محمد علی زیدی۔ناشر کتاب نگر،لکھنو۔۱۹۷۴ء۔ص۔۱۸)

         اسی سلسلے میں ڈاکٹر شاہد احمد جمالی کا یہ تصدیقی بیان بھی مذکورہ تحقیقی مقالے کی صوبہ‘ راجستھان میں جامعاتی تحقیق کے تناظر میں اوّلیت کو ظاہر کرتا ہے،

         ’’مطالعۂ داغ(۱۹۷۴ء)،اس کے مصنف ڈاکٹر محمد علی زیدی ہیں جن کو راجستھان سے ۱۹۷۰ء میں آزادی کے بعد اردو کی پہلی پی ،ایچ،ڈی،حاصل کرنے کا فخر حاصل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ راجستھان کا پہلا سندی تحقیقی مقالہ بھی ہے جو طبع ہوا۔‘‘

(ڈھونڈھار میں اردو نثر کا آغاز و ارتقا۔ڈاکٹر شاہد احمد جمالی۔ص،۳۸۹۔غیر مطبوعہ)

         اس مقالے کے بعد زیدی صاحب کے شاگرد رشید مرحوم ڈاکٹر ابو الفیض عثمانی کو راجستھان یونیورسٹی نے ’’راجستھان میں اردو زبان و ادب کے لئے غیر مسلم حضرات کی خدمات‘‘کے موضوع پر چند ماہ بعد ۱۹۷۰ء میں پی،ایچ ،ڈی کی سند تفویض کی۔اور بعد ازاں یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہوا ہم تک پہنچا۔

         سات ابواب پر مشتمل ’’مطالعۂ داغ‘‘ایسی کتاب ہے جس میں داغ دہلوی کی سوانح،شخصیت،شاعری اور ادبی مقام و مرتبہ پر بھر پور روشنی ڈالی گئی ہے۔جیسا کہ سید اظہر مسعود نے بجا طور پر لکھا ہے،

         ’’دبستانِ دہلی کے آخری نمائندہ شاعر نواب مرزا خاں داغ ؔ پر ابھی تک کوئی ایسی کتاب منظر عام پر نہیں آئی تھی جس میں ان کے فکر و فن کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی اور رنگا رنگ شخصیت کے ہر پہلو کو روشن کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔تمکین کاظمی،احسن مار ہروی،سیماب اکبر آبادی،نور اللہ نوری،عبادت بریلوی اور نور الحسن ہاشمی وغیرہ کی منتشر تحریروں سے داغؔ کی زندگی اور ان کے فن کے بارے میں جامع معلومات فراہم نہیں ہوتی تھیں۔ڈاکٹر محمد علی زیدی نے داغؔ کو اپنا موضوعِ تحقیق بنا کر اس کام کو بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیا۔اس کتاب میں داغؔ کے دستیاب کلام اور مکاتیب پر سیر حاصل تنقید و تبصرے کے ساتھ ان کی زندگی کے ہر گوشے کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

(مطالعۂ داغؔ۔ص۔۶)

         موضوع کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ’’مطالعہ ٔ داغؔ‘‘ہندوستان کی اکثر یونیورسٹیوں کے نصاب میں حوالہ جاتی کتاب کے بطور اپنی طباعت سے لے کر تا حال شامل ہے۔مطالعۂ داغ میں ڈاکٹر محمد علی زیدی کے سوانحی خاکے میں تصنیفات کے زیر عنوان ،ان سے بعض کتابیں وابستہ بتائی گئی تھیں،جنھیں یہاں من و عن نقل کیا جا رہا ہے۔

۱۔نگارستانِ اردو۔مطبوعہ۔۱۹۷۱ء

۲۔مقدمہ شعر و شاعری(ترتیب و مقدمہ)مطبوعہ۔۱۹۷۲ء

۳۔انتخاب داغؔ(غزلیات)ترتیب و مقدمہ۔زیرِ طبع

۴۔منتخب ریڈیائی ڈرامے(مجموعہ)زیر طبع

۵۔افکارِ تازہ۔(مطبوعہ تنقیدی و تحقیقی مضامین)زیر طبع

۶۔انشائیے۔زیر طبع

۷۔تذکرہ ظہیر دہلوی۔(تلخیص و تعارف)

۸۔ریڈیائی تقریریں(طنزیہ و مزاحیہ)زیر ترتیب

         بہ صد افسوس کہ تلاش بسیار کے با وجود مذکورہ کتابوں میں سے کوئی کتاب راقم الحروف کی نظر سے نہیں گزری۔ہو سکتا ہے مذکورہ نمبر شمار،۴۔ اور،۸،کے مشمولات کو یکجا کر کے ’’عشق پر زور نہیں‘‘(مطبوعہ،۱۹۷۶ء)میں شائع کرایا گیا ہو۔

         ڈاکٹر محمد علی زیدی کے سرگرم عمل اہلِ قلم ہونے میںکسی طرح کے شبہ کی ضرورت نہیں،ان کے طنزیہ و مزاحیہ تحریروں اور ریڈیائی تقاریر کے علاوہ مختلف موضوعات پر مضامین و مقالات رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہے جن میں بعض دستیاب شدہ مضامین کی فہرست درجِ ذیل ہے۔

۱۔راجستھان میں اردو ادب کے سو سال۔مشمولہ،روداد کل راجستھان اردو سمپوزیم(منعقدہ،۱۳،۱۴،۱۵۔نومبر،۱۹۶۴ء ۔مرتبہ،محمد وحید اللہ خاں وحیدؔ،جودھپور۔

۲۔راجستھان میں شعر و ادب۔مشمو لہ،نخلستان،راجستھان اردو اکیڈمی،جے پور۔بابت،اپریل تا ستمبر،۱۹۸۰ء

۳۔جنگ آزادی اور اردو ادب۔مشمولہ،نخلستان۔بابت،اکتوبر تا دسمبر۔۱۹۸۱ء

۴۔آہ! موہن لال سکھاڑیہ۔مشمولہ،نخلستان۔بابت،جنوری تا مارچ۔۱۹۸۲ء

۵۔حسرت موہانی بحیثیت قومی یک جہتی کے علم بردار۔مشمولہ۔نخلستان۔بابت،جولائی تا ستمبر۔۱۹۸۲ء

۶۔پیغمبر آخرالزماں اور فلاحِ انسانی۔مشمولہ۔نخلستان۔بابت،جنوری تا مارچ۔۱۹۸۳ء

۷۔آخری نبی کریم،پیکرِ خلقِ عظیم۔مشمولہ۔۔نخلستان،بابت،اکتو بر تا دسمبر۔۱۹۸۳ء

۸۔فراق کی غزل گوئی،ایک جائزہ۔مشمولہ۔نخلستان،بابت جنوری تا مارچ۔۱۹۸۴ء

۹۔رہبرِ اعظم، خلقِ مجسم۔مشمولہ۔نخلستان۔بابت اکتوبر تا دسمبر۔۱۹۸۴ء

۱۰۔محمد عثمان عارف نقشبندی:شخصیت اور شاعری۔مشمولہ،نخلستان۔بابت جنوری تا مارچ۔۱۹۸۵ء

۱۱۔جے پور کا ادبی ما حول اور مولوی قمر واحدی کی ادبی خدمات۔مشمولہ،نخلستان،بابت،جولائی تا ستمبر۔۱۹۹۱ء

۱۲۔اردو مرثیوں کا ہندوستانی مزاج۔مشمولہ،نخلستان۔بابت اکتوبر تا دسمبر۔۱۹۹۴ء

۱۳۔اکبرؔ کی مزاح نگاری:ایک جائزہ۔مشمولہ،نخلستان۔بابت اپریل تا جون،۱۹۹۵ء

۱۴۔راجستھان میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء۱۸۵۸ سے ۱۹۴۷ء تک۔مشمولہ۔نخلستان(کل ہند اردو کنونشن نمبر)۔بابت جولائی تا ستمبر۔۱۹۹۲ء

         زیدی صاحب کے اور بھی مضامین شائع ہوئے ہوں گے لیکن راقم کو تلاش و جستجو کے بعد مذکورہ مضامین ہی رسائل میں مل سکے۔اگر ان کے اور مضامین موصول ہوں تو اس فرست میں اضافہ ہو سکتا ہے۔رسائل سے قطع نظر مختلف مضامین کے مجموعے اور انتخابات میں بھی ان کے مضامین اور تخلیقات دستیاب ہو سکتے ہیں۔اس وقت راقم کے پیش نظر راجستھان اردو اکادمی جے پور کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار میں پڑھے گئے مضامین کا انتخاب ’’تخلیقات‘‘ موجود ہے۔جو ۱۹۸۷ء میں شائع ہوا تھا۔اس انتخاب میں بھی زیدی صاحب کا ایک مضمون ’’مظہر حسین ناظمؔ سنبھلی مرحوم،ایک تعارف‘‘شامل ہے۔یہ تنقیدی نوعیت کا مضمون ہے،

         راجستھان یونیورسٹی میں زیدی صاحب سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ان کے بیشتر طلبہ و طالبات مختلف عہدوں پر فائز ہوئے۔تدریس کے ساتھ ساتھ نگرانِ تحقیق کی حیثیت سے بھی آپ نے اسکالرز کی رہبری کا فریضہ انجام دیا۔ان کی نگرانی میں پی،ایچ،ڈی کرنے والوں کی فہرست سہ ماہی نخلستان بابت اپریل تا ستمبر ۱۹۸۶ء اور ڈاکٹر شاہد احمد جمالی کے مرتبہ کتابچہ’’فہرست مقالات ایم۔فل۔پی،ایچ،ڈی،‘‘راجستھان کے مختلف تعلیمی اداروں کے تحت) ( مرتبہ،مئی ۲۰۲۱ء )میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ان کی نگرانی میں تحقیقی مقالات پیش کر کے پی،ایچ،ڈی، کی سند حاصل کرنے والوں کی فہرست حسب ذیل ہے۔

۱۔سید مدبر علی زیدی۔       اردو نثر کے رجحانات اور اسالیب،۱۸۷۰ء تک             ۱۹۸۱ء

۲۔حبیب الرحمن نیازی۔    میکش اکبر آبادی:حیات اور شاعری                       ۱۹۸۱ء

۳۔رفعت اختر خاں          جدید اردونظم کا ارتقاء اور رجحانات،۱۹۳۶ء سے تا حال       ۱۹۸۱ء

۴۔یاد علی جعفری           ظہیر دہلوی کا تنقیدی مطالعہ                             ۱۹۸۶ء

۵۔مسرت جہاں            مرزا عظیم بیگ چغتائی:شخصیت اور فن                    ۱۹۸۹ء

۶۔عمر جہاں                مولانا احسن مارہروی:حیات و خدمات                     ۱۹۹۱ء

         زیدی صاحب کو جہاں جہاں اردو کی خدمت کا موقع ملا وہاں وہاں آپ نے اپنی سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔راجستھان یونیورسٹی،جے پور کے شعبۂ اردو کے علاوہ راجستھان ساہتیہ اکادمی،اودے پور اور راجستھان اردواکیڈمی،جے پورسے وابستگی کی عمدہ مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔جب آپ کو راجستھان اردو اکیڈمی کا چیٔر مین (صدر)نامزد کیا گیا تو آپ نے اپنے قلبی جذبات کا اظہار ان مخلصانہ الفاظ میں کیا،

         ’’اردو بھی مجھے اپنے وطن کی طرح بے حد عزیز ہے۔کیوں کہ یہ قومی یکجہتی،جذباتی ہم آہنگی اور سیکولرزم کی علامت ہے۔آئیے ہم سب مل کر اردو کو فروغ دیں اور اس کی رفتارِ ترقی کو تیز کریں۔‘‘

(نخلستان،سہ ماہی۔بابت،اپریل تا جون۔۱۹۸۱ء۔)

         راجستھان اردو اکیڈمی،جے پور کے ترجمان سہ ماہی ’نخلستان‘ کی ادارت آپ نے بعض با شعور حضرات کو سونپ کر نگراں کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔آپ اکثر شماروں میں ’’گوشۂ نگراں‘‘کے زیر عنوان جو اداریے تحریر فرماتے تھے وہ لائق توجہ ہوتے تھے۔اس بابت چند مختصر مثالیں پیش خدمت ہیں۔

الف۔   ’’ادبی حلقوں میں نخلستان کی جو پذیرائی ہو رہی ہے اور دور دور سے صاحبان ادب اور سخن فہم حضرات کے جو تعریفی و توصیفی خطوط موصول ہوئے ہیں ان سے نہ صرف میرے عزم میں پختگی،حوصلہ میں بلندی اور خدمت ِ ادب کے جذبہ میں استقامت پیدا ہوئی ہے بلکہ یہ بھی ثابت ہو گیا کہ نخلستان صحیح منزل کی جانب گامزن ہے۔اس کا ادبی معیار رو بہ ترقی ہے اور ادب اور ادیبوں کی خدمت کر رہا ہے۔‘‘

(نخلستان۔بابت۔جولائی تا ستمبر۔۱۹۸۴ء۔ص،۵)

ب۔:   ’’اردو زبان و ادب کو مقبول ِ خاص و عام بنانے میں مشاعروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔اس لحاظ سے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔لیکن یہی محض ترویج و بقاء کا ذریعہ نہیں ہے۔فروغِ ادب کے لئے اور بھی ذرائع استعمال کرنے کی ضرورت ہے،خاص طور سے اس ادارے کے لئے جس کے وسائل محدود ہوں،یہ کام کس قدر دقّت طلب ہوگا اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس کا تجربہ رکھتے ہیں۔‘‘

(نخلستان۔بابت۔اکتوبر تا دسمبر۔۱۹۸۱ء۔ص۔۸۔۹)

ج۔     ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘فضائوں کو چیرتا ہوا خلا تک پہنچ گیا ہے۔اور وہاں سے ان خوش آئند الفاظ کو ہم اپنے کانوں سے سن چکے ہیں۔ہم اردو والے نفرت کے بجائے اتفاق اور بے وفائی کے بجائے وفاداری کے حامی رہے ہیں۔جگر مراد آبادی مرحوم نے جب فرقہ وارانہ فسادات کے دور میں آدمی کو آدمی کے خون کا پیاسا اور شقاوت و درندگی پر آمادہ دیکھا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھے تھے، ’’شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آجکل‘‘۔جب ذاتی مفاد کے لئے مذہب پر سیاست کا نقاب ڈال کر اسے آلۂ کار بنایا جاتا ہے تب اردو والے اس کی نقاب نوچ کر پھینک دیتے ہیں۔تاکہ مذہب کا اصلی معصوم چہرہ نظر آ سکے جو الوہیت کے نور سے منوّر ہے۔جو اعلیٰ اخلاق کا معلّم ہے اور جو سب مخلوق کو محبت کا پیغام دیتا ہے۔جو عبد کا معبود سے رشتہ جوڑتا ہے۔‘‘

(نخلستان۔بابت۔جنوری تا جون۔۱۹۸۴ء۔ص،۵۔۶)

         مذکورہ اقتباسات کی روشنی میں زیدی صاحب کے صاحبِ اسلوب اور اہل قلم ہونے پر مہر لگتی ہے۔ان تحریروں سے قارئین کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ وہ نثر نویسی پر قادر تھے اس لئے جملوں اور لفظیات کا بر محل استعمال کرتے تھے۔جذبات نگاری میں بھی انھیں مہارت حاصل تھی۔

         ادبی نگارشات میں زیدی صاحب کی مہذب و مودّب شخصیت سامنے آتی ہے۔اسی طرح حقیقی زندگی میں بھی مرحوم نے اپنا صاف ستھرا کردار پیش کیا۔آپ کے اخلاق و اخلاص وسیع تر تھے۔نرم و شیریں لہجہ میں گفتگو کرکے وہ سبھی کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ان سے ملاقات کرنے والا شخص بار بار ملاقات کا متمنی ہوتا تھا۔کیوں کہ کہ وہ کسی کی دل آزاری نہیں کرتے تھے،بڑوں کا احترام،چھوٹوںسے شفقت اور ہم عمروں سے محبت ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔

         ڈاکٹر محمد علی زیدی کی ادبی خدمات کو ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا تاہم کئی اداروں نے آپ کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کر کے آپ کی عزت افزائی کی۔۳۔۵؍جنوری ۱۹۹۲ء میں راجستھان اردو اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہ کل ہند اردو کنونشن،کی تقریب میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ صوبۂ راجستھان آنجہانی بھیروں سنگھ شیخاوت نے زیدی صاحب کو شال اوڑھا کر اعزاز سے نوازا تھا۔سنہ ۲۰۱۷ء میں مولانا آزاد عربی فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ،ٹونک نے آپ کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے،انعام و اعزاز سے نوازا۔علاوہ ازیں شعبہ اردو راجستھان یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر رئوف احمد نے شعبہ کے استاد ڈاکٹر محمد نعیم کی نگرانی میں ’’محمد علی زیدی:حیات اور ادبی خدمات‘‘موضوع پر تحقیقی مقالہ سپرد قلم کر کے ۲۰۰۸ء میں ایم ،فل کی سند حاصل کی۔چونکہ یہ مقالہ غیر مطبوعہ ہے اس وجہ سے راقم کے پیش نظر نہیں ہے۔اس لئے اس کے مشمولات پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی۔

         جیسا کہ زیر نظر مضمون کی ابتدائی سطور میں اشارہ کیا گیا تھا کہ کورونا کے دور میں اردو کے متعدد شعرا ،ادباء،ناقدین،محققین اور اساتذہ کرام نے جاں بحق ہو کر مرحومین کی فہرست میں جگہ پائی،ویسے ہی ۲۸؍اپریل،۲۰۲۱ء کو جے پور میں ڈاکٹر محمد علی زیدی کے انتقال کے سبب اس فہرست میں ایک اور نام کا اضافہ ہوگیا۔خدا مرحوم کواپنے کرم اور رحمت سے نوازے۔

***

Leave a Reply