You are currently viewing راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری: ایک باپ بکاؤہے” کی روشنی میں

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری: ایک باپ بکاؤہے” کی روشنی میں

ڈاکٹر نورینہ پروین

راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری: “ایک باپ بکاؤہے” کی روشنی میں

         اردو افسانہ نگاری میں راجندر سنگھ بیدی نے جس سنجیدگی اور متانت کا مظاہرہ کیا ہے وہ غور و فکر کا متقاضی ہے کیونکہ وہ جس طرزو انداز سے چھوٹے چھوٹے مسائل کو واقعہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں وہ انھیں کی قدو کاوش کا نتیجہ ہے۔اس ضمن میں وقار عظیم نے بڑی جامع اور بلیغ بات لکھی ہے؛

“بیدی کے افسانوں کی تعمیر اور تشکیل کئی چیزوں سے ملکر ہوئی ہے ،گہری جذباتیت ،رنگین تخیل، کرداروں کا تخیل اور ان کے عمل کا نفسیاتی تجزیہ، ان کے کرداروں کے پس منظر میں سچی زندگی، یہی اس کے موضوع اور عناصر ہے۔’’۱؂

         بیدی نے اردو افسانے کو جس فکر و نظر سے آشنا کیا ہے وہ قابلِ ستائش اورہر دور کا ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ یہاں میرا مقصود بیدی کے افسانے ‘ایک باپ بکاؤ ہے ’ کی روشنی میں انکی فنِ افسانہ نگاری سے بحث کرنا ہے۔ اگر چہ بیدی کے افسانے نستعلیق قسم کے ہوتے ہیں، لیکن اکثر ان افسانوں میں ایک غیر نستعلیق قسم کا واقعہ بیان کیا گیا ہوتاہے۔اس کے باوجود بیدی کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع کا بھی انتخاب کرتے ہیں اس پر ذہن چند لمحے کے لئے سوچنے کو مجبور ہو جاتا ہے ۔اس افسانے میں ایک باپ جو اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور بچپن سے لے کر جوانی کی منزل میں قدم رکھنے تک ہر ٹھوکروں سے محفوظ رکھتا ہے وہی باپ بڑھاپے کو پہنچ کر بیٹوں کے لئے مصیبت بن جاتا ہے اس عمر میں جبکہ اعصاب جواب دینے لگتے ہیں اوربیماری و کمزوری اسے ہر طرح نڈھال کر دیتے ہیں ایسے میں اولاد بھی کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے۔ گویا زندگی بھر کے ایثار و قربانی کا یہ سلہ اسے عمر کے ا ٓخری پڑاؤ میں حاصل ہوتا ہے والدین کی بے لوث و غرض محبت و شفقت بیدی کی زبانی ملاحظہ ہو:

“اولاد ہمیشہ یہی چاہتی ہے کہ اسکا باپ وہی کرے جس سے وہ،اولاد خوش ہو۔ باپ کی خوشی کس

 بات میں ہے، اس کی کوئی بات ہی نہیں اور ہمیشہ ناخوش رہنے کے لئے اپنے تئیں کوئی سا بھی بہانہ تراش لیتے ہیں۔’’ ۲؂

وہی باپ جو بیٹے کی خوشی کے لئے کوئی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرتاکیونکہ اسکی ہر خوشی اولاد کی خوشی میں مضمر ہوتی ہے وہی اولاد جوانی کو پہنچ کر اپنی ازدواجی زندگی میں مشغول ہوکر باپ سے بیزاری محسوس کرنے لگتی ہے ۔ افسانہ نگار نے بڑی ہی خوبصورتی سے موجودہ اوقات میں ٹوٹتے ہوئے کنبے اور بکھرتے ہوئے اجتماعی خاندان کی زبوحالی کے پسِ پشت مٹتی ہوئی قدر و منزلت کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔

         بیدی نے اس افسانے میں گاندھرو داس کی اولاد سے بیزاری میں اجتماعی زندگی پرانفرادی زندگی کی فوقیت پر باریکی سے روشنی ڈالا ہے ۔ جو نہ صرف ہندوستان کا مسئلہ ہے بلکہ عالمی پیمانے پربزرگوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا پردہ چاک کرتاہے، جس کے باعث ا ٓج بزرگوں کے لئے حکومت کی جانب سے رہائش گاہ (Old-age Home)کا انتظام کیا جا رہاہے۔ جہاں ایسے سبھی بزرگ اپنے درد و تکلیف کو سینے میں دبائے زندگی کا بوجھ اٹھائے جینے کو مجبور ہیں۔جن کا اپنا کوئی پرسانِ حال نہیں اور وہ دوسروں کے رحم و کرم اور دل بہلاوے کے لئے ہر راہ چلنے والوں سے دو چار لمحے بات کرنے کو منتظر رہتے ہیں لیکن:

 “ــــوہ نا جانتا تھا کہ ا ٓج ہندوستان تو کیا ، دنیا بھر میں کنبے کا تصّور ٹوٹتا جا رہا ہے۔ بڑوں کا ادب ایک فیوڈل بات ہوکر رہ گئی ہے۔ اس لئے سب بڈھے کسی ہائیڈ پارک میں بیٹھے، امتدادِ زمانہ کی سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے ، ہر ٓانے جانے والے کو شکار کرتے ہیں، کہ شائد کوئی ان سے بات کرے۔ــــــ”۳؂

         بیدی نے اس افسانے کے سہارے اولاد کی بے اعتنائی اور بکھرتے ہوئے اجتماعی نظام پر قراری چوٹ کی ہے۔کیونکہ عالمگیریت(Globalization) کے اس دورمیں انسان اور انسانیت کی جس قدر نا قدری کی جا رہی ہے اسکے نتائج ِ بد ہمارے سامنے عیاں ہیں۔ظاہری چمک دمک نے انسانی نظر کو ایسا خیرہ کر دیا ہے کہ کھرے کھوٹے میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

         اس افسانے میں ایک اہم اور غور طلب مسئلہ عورت کا ہے گاندھرو داس کی بیوی دمینتی اپنے شوہر سے کوئی تعلق نہیں رکھتی اور نہ خود ہی گاندھرو داس ازدواجی زندگی کے فرائض پورا کرتا ہے لیکن اسکے مرنے کے بعد گاندھرو داس بیوی کی ساری زیادتیاں بھول جاتا ہے اور اس پر کئے ہوئے اپنے ظلم و ستم کو یاد کرکے سہم اٹھتا ہے اور خواب میں خود کو دوسری عورت کے ہمراہ محسوس کرکے اپنی بیوی میں اٹھنے والے حاسدانہ جذبات سے کانپ جاتا ہے۔

         بیدی نے عورت کے حاسدانہ اور رقابت سے لبریز جذبات کی تصویر کشی میں بڑے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ عورت اپنے شوہر سے لاکھ نفرت کرے اسکی ہر عادات و سکنات کو لاکھ ناپسند کرے لیکن جیتے جی کیا مرنے کے بعد بھی اپنے شوہر کے ہمراہ کسی دوسری عورت کو برداشت نہیں کر سکتی ۔ بیدی نے اپنے افسانوں میں جس طرح عورت کی نفسیات پر روشنی ڈالی ہے وہ ان کے باریک مشاہدے اور غور و فکر پر لاشعوری طور پر حاوی نظر آتے ہیں۔

         بیدی ماہرِ نفسیات تو نہیں لیکن نفسیات پر بڑی باریک اور حتمی نظر رکھتے ہیں اور اپنے کمالِ فن سے قارئین کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔

         دوسری جانب کاویانی جو گاندھرو داس کی شاگردہ ہے جسے اس نے سنگیت کی انتہائی منزل پر پہچانے کے لئے دن رات ایک کر دیا اور ان دونوں کی عمر میں اس قدر تفاوت تھا گویا باپ اور بیٹی۔مگر دونوں کے درمیان ایسی ہیجانی کیفیت رونماں ہو گئی تھی جو انکی اپنی سمجھ سے بھی بعید تھا لیکن اسکی اہم وجہ یہ تھی کہ دیویانی جو کہ بہت ہی کم عمر میں اپنے والدین کے ازدواجی تعلقات سے آشنا ہو گئی تھی جو اس کے ذہن پر لا شعوری طور پر حاوی رہتے ہیں۔ بقول افسانہ نگار:

” اس نے اپنے ماں باپ کو کچھ اس عالم میں دیکھ لیا ، جبکہ وہ نو خیزی سے جوانی کے عمر میں قدم رکھ رہی تھی۔ پر وہ ہمیشہ کے لئے آپ ہی اپنی ماں ہو گئی۔ باپ کے مرنے کے بعد وہ گھبرا کر ایک مرد سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے کے پاس جانے لگی۔ اس کا بدن ٹوٹ ٹوٹ جاتا تھا، مگر روح تھی کہ تھکتی ہی نہ تھی۔’’۴؂

         افسانے کی مذکورہ سطروں میں نفسیات کی اس گتھی کو آشکارا کیا گیا ہے جسے فرائڈ نے لا شعور کا نام دیا ہے کیونکہ فرائڈ کے مطابق لا شعور انسانی نفس کا وہ حصّہ ہے جو بچپن سے بچّے میں جمع ہوتا رہتا ہے اور بالیدگی و پختگی کی منزل میں پہنچ کر یہی ماضی کے واقعات اتنی شدت سے ذہن پر قابض ہونے لگتے ہیں جس سے وہ چاہ کر بھی پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔یہاں بیدی نے انسانی اقدار اورکشمکش کی جیسی تصویر پیش کر دی ہے وہ انکی گہری نظر اور فنکارانہ کمالات کا ضامن ہے۔ جو بیدی کوافسانہ نگار کے اس صف میں لا کھڑا کرتے ہیں ۔جس میں نہ صرف واقعہ کو بلکہ نقطۂ نظر کی ترسیل کو بخوبی انجام دینے کی صلاحیت مضمر نظر آتی ہے۔

         یہاں نفسیات کے ضمن میں ایک اہم سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ آیا یہ لاشعور ہے کیا؟ آخر یہ مسئلہ کیوں در پیش آتا ہے؟جہاں تک میں نے سمجھنے کی کوشش کی ہے اسے ہی قرآن نے نفسِ عمّارہ کا نام دیا ہے جو بے لگام گھوڑے کی مانند ہر وہ کام کرنے پر انسان کو مجبور کر دیتاہے جوتہذیب اور شائستگی کے خلاف ہے ۔جسے کرنے کے بعد انسان میں تصادم کی کیفیت رونما ہو جاتی ہے اور احساسِ ندامت اسے اندر ہی اندرکھوکھلا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ لیکن اسی کام کو باربار کرنے سے انسان میں شرم و حیا کے جذبات مٹ کر رہ جاتے ہیں تو پھر کسی بھی عمر یا رشتے کا کوئ پاس و لحاظ برقرار رکھنا ناممکن ہو جاتا ہے اور صورتِ حال دیویانی جیسی ہوکر رہ جاتی ہے۔دوسری بات یہ کہ ازدواجی زندگی یا اس قسم کی باتوں سے کم عمریانابالغ بچّوں کو دور رکھنا اخلاقی اعتبارسے بیحد ضروری معلوم ہوتاہے۔انھیں رشتوں کی نزاکت کا فرق بخوبی سمجھانا چاہئے اور انکی تربیت میں کسی قسم کا دقیقہ باقی نہیں رکھنا چاہئے، کیونکہ بچے کی تربیت جس طرز اور نہج پر کی جائیگی بڑے ہونے پر ا ن میں وہی حرکات و سکنات رونماں ہوں گے۔لہٰذا والدین سے ہونے والی کوتاہیوں اور ان کے نتیجے میں ابھرنے والے تمام طرح کے مسائل کو مدَّ نظر رکھتے ہوئے عالمی اقوامِ متحدہ نے بالغ لڑکے لڑکیوں کے لئے جنسی تعلیم کو ضروری قرار دیا۔ اس سلسلے میں خود ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ۲۰۰۵؁ء سےNCERT کے تحت جنسی تعلیم کو متعارف کرانے کی باقاعدہ کوشش کی گئ، لیکن کچھ صوبوں کے علاوہ باقی جگہوں پریہ اقدام کارگر نہ ہو سکا۔

         بیدی نے اپنے افسانے میں اس مسٔلے کوجس احتجاجی انداز سے اٹھایاہے اس کی سنجیدگی کا احساس بخوبی ہوتا ہے، کیونکہ وہ ایک ایسے و اقعہ کو افسانے کا جامہ پہناتے ہیں جو نہ صرف بیدی کے دور کا بلکہ آج کے دور کا سب سے بڑا المیہ ہے جس میں بزرگوں کی عظمت و تقدّس کو گہری چوٹ پہنچی ہے وہی بزرگ جو بچّوں اور نوجوان نسل کے لئے قابلِ احترام اور شفقت کا مجسّمہ ہوتے ہیں ان کی ہی تذلیل کرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھا گیا ہے۔آج کے اس برق رفتار اور سائنس و ٹکنالوجی کے دور میں ختم ہوتی ہوئی انسانیت اور پامال ہوتی ہوئی قدروں کے بیچ انسان کٹھ پتلی بن کر رہ گیا ہے۔ بیدی نے اپنے اس ایک جملے میں بڑی معنی خیز بات کہہ دی ہے:

      ‘‘تم انسان کو سمجھنے کی کوشش نہ کرو،صرف محسوس کرو۔’’ ۵؂

         بیدی کے اس ایک جملے میں گہری بصیرت اور معنویت پوشیدہ ہے۔ اس طرح بیدی نے رشتوں کی نزاکت اور نفسیات کی الجھی پہیلیوں کو ‘ایک باپ بکاؤ ہے’ کے ذریعہ پیش کردیا ہے۔ بیدی کے افسانوی میں گہرائی و گیرائی پر وارث علوی کی تفصیلی وضاحت پیش ہے:

“راجندر سنگھ بیدی تخےّل کی آنکھ سے ظواہر کے پیچھے پنہا ان المیوں اور طربیوں، آرزووئں اور محرومیوں کا سراغ لگاتے ہیں جن کی تفہیم کے بغیر نہ تو ہم زندگی کو سمجھ سکتے ہیں، نہ انسان کو۔ بیدی کی فنکارانہ بصیرت بہت گراں مایہ ہے،شبنم کے اس قطر ے کی مانندجو زندگی کی اندھیری رات میں آنسو کی طرح ٹپکتا ہے اور جسے فکر کی پہلی کرن موتی کی مانند چمکاتی ہے۔” ۶؂

حواشی

ٍ۱؂      صفحہ: ۱۱۰۔۱۱۱، بیدی ایک جائزہ :مرتّبہ:شہناز نبی

۲؂       صفحہ:۸۵۹، کلیاتِ راجندر سنگھ بیدی (جلد اواّل) مرتّب : وارث علوی

۳؂       صفحہ:۸۵۸، کلیاتِ راجندر سنگھ بیدی (جلد اواّل) مرتّب : وارث علوی

۴؂       صفحہ:۸۶۵، کلیاتِ راجندر سنگھ بیدی (جلد اواّل) مرتّب : وارث علوی

۵؂       صفحہ:۸۶۵، کلیاتِ راجندر سنگھ بیدی (جلد اواّل) مرتّب : وارث علوی

۶؂       صفحہ:۱۶، کلیاتِ راجندر سنگھ بیدی (جلد اواّل) مرتّب : وارث علوی

Dr. Noorina Parveen

Vill.& Post-Kasenda, Block-Chail

District- Kaushambi – 212202

E-mail : parveennurina@gmail.com

Leave a Reply