محمد اسد
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو
دہلی یونیورسٹی،دہلی
راز داں
گرمی کی شدت سے آنکھیں باہر آ رہی تھیں۔اچانک میری نظر ایک سفید چیز پر پڑی جو دورسے چمک رہی تھی۔وہاں کوے ایک گروہ میں جمع ہو رہے تھے۔اور کائیں کائیں کرتے اس سفید چیز کے ارد گرد چکر کاٹنے لگے۔میں نے آج تک صرف سیاہ رنگ کے کوے دیکھے تھے۔لیکن ان کے اس گروہ میں مختلف رنگوں کے کوے نظر آ رہے تھے۔وہ ایک دوسرے کا پیچھا کر رہے تھے میں انہیں بڑے غور سے دیکھتا رہا اڑان بھرتے ہوئے تو وہ بہت خوبصورت لگ رہے تھے اور ان کی اڑان کو دیکھ کر جی خوش ہو رہا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدلنے لگا اور میرے اندر اضطرابی کیفیت پیدا ہونے لگی ۔جب میں نے انہیں ایک دوسرے کو نوچنے کے عمل سے گزرتا ہوا دیکھا ۔ان کی تعداد کا شمار تو نہیں ہوسکا کہ اس گروہ میں کتنے کوے شامل ہیں لیکن خصلتاً سب ایک ہی نسل کے معلوم ہو رہے تھے۔اگر کوئی تبدیلی تھی تو بسں رنگوں کی۔
’’حامد نے کہا مجھے سیاہ کوؤں سے زیادہ وہ کوے پسند جن میں سیاہ اور سفید دونوں رنگ پائے جاتے ہیں۔‘‘
’’میں نے کہا ارے بھائی تمہیں ان سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا خواہ سیاہ رنگ کے ہوں یا سفید پھر دو رنگے ہی کیوں نا ہوں آواز ان کی بھی کائیں کائیں والی ہوگی اور نوچنے کا عمل دونوں کو وراثت ملا ہے،جس سے یہ کبھی دوری اختیار نہیں کر پاتے۔ہم ان کی خوبیاں گنوا رہے تھے کہ اتنے میں ایک کمزور جانور وہاں آ ٹپکا جس کو ان کوؤں نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔اس قدر نڈھال تھا کہ وہ آگے بڑھنے کی تگ و دو میں دو قدم پیچھے گرہا تھا۔”‘‘
’’حامد آپ کو کیا لگتا ہے کیا یہ آج وحشی پرندوں سے اپنی جان کو محفوظ رکھ پائے گا‘‘
’’ارے ندیم چپ چاپ تماشا دیکھتے جاؤ تماشائی کی طرح۔‘‘
’’حامد کسی کی جان خطرے میں پڑی ہے اور تمہیں تماشا دیکھنے کی سوجھ رہی ہے۔‘‘
’’میاں ندیم یہاں کسی کی جان کی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی میں اس کاتحفظ کر سکتا ہوں۔ان کوؤں کو بھی کوئی طاقت چلا رہی ہوگی۔ ‘‘
ہاں! ہر کسی چیز کے پیچھے کوئی طاقت موجود ہوتی ہے جو ان کو چلانے کا کام کرتی ہے اور یہ بھی کسی طاقت کے ماتحت رہ کر اس کی مرضی کے مطابق اپنا ہر کام سرانجام دیتے ہوں گے۔بعض دفعہ خود مختار بھی ٹھہرتے ہوں گے۔‘‘
’’وہ کیسے؟
’’دیکھئے خوراک کی ضرورت تو انہیں بھی ہے لیکن زندہ چیزوں کو نوچنے کا حکم نہیں ہوگا پھر بھی نوچتے ہیں۔،،
’’ہاں صحیح کہا آپ نے‘‘
’’بس اسی طرح کے اختیارات ان کے پاس موجود ہیں۔ جو پر ان کو اڑان بھرنے کو دیے ہیں ان کا استعمال کر کے کسی کی جان پر خطرہ بن کر منڈلانے لگتے ہیں اور کسی کی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی خوراک بنا لیتے ہیں۔‘‘
’’ارے بھایؤ کونسا کھیل دیکھ رہے ہو،ذرا ہمیں بھی اس کا نظارہ دکھا دو۔‘‘
’’حامد نے د ھیمی آواز میں کہا،تلوک چند جی زندگی اور موت کا تماشا دیکھے رہے ہیں آئیے اور آپ بھی مزے لیجیے اس کھیل کے۔‘‘
’’ارے میں تو سمجھا تھا کوئی مداری کھیل دکھا رہا ہے لیکن یہاں تو زندگی اور موت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔‘‘
’’تلوک چند جی یہاں ہر دن اس طرح کا کھیل دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘
’’ہردن مطلب؟
’’مطلب یہ تلوک چند جی کہ ہر دن کوئی کمزور جانور ان کوؤں کا شکار بن جاتا ہے اور یہ اسے نوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہائے بیچارے جانوروں کی بے بسی کا عالم نہ ہی خود کا تحفظ اور نہ ان کے ظلم و جبر سے آزادی۔یہاں اگر آزادی ملتی ہے تو بس ایک ہی صورت میں۔‘‘
’’وہ کیسے؟
’’جان کا نذرانہ دے کر‘‘
’’اسے آپ آزادی سمجھتے ہیں ‘‘
’’ہاں ظلم سے نجات کا ذریعہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔دیکھے نا آج اس کمزور ہرن کو جو یہ چاہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ان کوؤں کے چنگل سے آزاد نہیں کر پاتا۔ان کوؤں کو کیا خبر اس ایک جان کے جانے سے اس کے پیچھے آباد دنیا بے رونق ہو جائے گی جس دنیا کا یہی آفتاب و مہتاب بھی ہوسکتا ہے۔ اب وہاں نہ امید کی کرنیں پھوٹیں گی اور نہ روشنی کی چمک پیدا ہو گی۔بس تاریکی ہی تاریکی چھا جائے گی۔اس تاریکی نے نجانے کتنے جانوروں کو اپنی لپیٹ لیا ہوگا، ان گنت آباد بستیوں کو بر باد کیا ہوگا،کتنے چراغ گل کئے ہوں گے۔سو آج اس جانور کی دنیا کا روشن ستارہ ٹمٹماتا ہوا نظر آرہا ہے۔‘‘
’’کیا یہاں بوڑھے جانور ہی اپنی جان کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ ‘‘
’’نہیں بوڑھوں کے ساتھ ساتھ بچوں کی ننھی منی جانیں بھی نثارہوتی ہیں۔جنہیں نہ اپنی اور نہ بیگانے کی فکر ہوتی ہے۔‘‘
’’کتنا ظلم ہے اور کتنا خوفناک ماحول ہے یہاں کا، میں تو گبھرا سا گیا ہوں گرجتے بادلوں میں جان جانے کی چیخیں سنائی دی رہی ہیں،برفیلے پہاڑوں سے برف کے تودے پگھلنے پر سرخ رنگ کا پانی بہہ رہا ہے۔جس سے دریاؤں کا رنگ لال سا ہو گیا ہے۔پہلے پہل تو میں سمجھ رہا تھا کے یہ قدرت کا کیا دھرا ہے۔مجھے اس بات کی خبر نہ تھی کہ قدرتی رنگ میں دوسرے رنگوں کی ملاوٹ بھی ہے جس نے اس رنگ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔اے بھگوان کتنا ظلم ہے ان بے قصور جانوروں کے سر تو ہی انہیں مکتی دلا سکتا ہے ان کالے کلوٹے کوؤں سے جو ان کو نوچ رہے ہیں۔ میری یہی آشا ہے۔
’’تلوک چند جی جو تمہاری آشا ہے میری بھی وہی آرزو ہے۔‘‘
’’ تو حامد پھر دیر کس بات کی آؤ مل کر تحفظ کریں ان معصوم اور بے قصور جانوں کا جو آئے دن شکار ہو رہی ہیں۔ ‘‘
’’بالکل درست کہا آپ نے ہمیں ان کے خلاف کوئی رد عمل کرنا ہوگا جس سے ہمارے جانور محفوظ رہ سکیں‘‘۔
’’حامد یہ سیاہ رنگ کا طوفان ہماری طرف بڑھ رہاہے آپ کو کچھ نظر آ رہا ہے۔
’’جی تلوک یہ کوؤں کا گروہ ہے جو ہمارے قریب آ رہا ہے انہیں ہمارا راز کس نے بتایا،کون تھا ہمارا دشمن،یہ ہوائیں، پہاڑ، چیڑ،دیودار،صنوبر،جانور یا پھر کوئی انسان ہی تھا تلوک جس نے ہمارا راز ان کے سامنے اگل دیا۔
’’بھگوان جانے حامد‘‘
یکا یک کوے ان پر جھپٹ پڑے اور انہیں نوچ ڈالا حامد اور تلوک کا جسم چھلنی چھلنی ہو گیا۔دونوں کے لہو سے سارا علاقہ لہولہان ہوگیا۔ندیم اور سورج کھلکھلا کر ہنس رہے تھے اوربار بار یہ جملہ دہرا رہے تھے۔
’’آئے تھے بڑے محافظ۔ ‘‘
***