You are currently viewing روحوں کا مکالمہ

روحوں کا مکالمہ

سلیم ناز

روحوں کا مکالمہ

         یہ ہماری مجلس نہیں ہے بلکہ ان کی مجلس ہے وہ چاہیں تو ہمیں بلائیں اور  چاہیں تو نہ بلائیں۔یہ پھر مجلس ہوئی یا ان کی من مرضی کی مجلس؟تم یہاں میرے سامنے تو سوال کرسکتے ہو کیونکہ یہ اپنا گھر ہے  وہاں جاکر یہ سوال نہیں کرسکتے کیوں کہ وہاں  پر اپنا گھر نہیں بلکہ اُن کا ڈر ہے۔یار جب اُن میں اور ہم میں کوئی اشتراک نہیں تو پھر مکالمہ کیسا!وہ جسم اور روح رکھنے والے ماوریٰ قسم  لوگ ہیں اور ہم صرف روح رکھتے ہیں ہمارا کوئی جسم نہیں ہے جو انھیں نظر آئے اور وہ ہمیں مقام واحترام بخشیں۔اس بات کا تو تمھیں بھی احساس ہے کہ ہماری بستی کو روحوں کا دیس کہتے ہیں  اور یہاں لوگ مٹی کے اوپر نہیں بلکہ نیچے رہتے ہیں اور وہ اس قدر نفیس لوگ ہیں کہ مٹی اپنے جسم کو لگنے بھی نہیں دیتے۔نہیں نہیں تم نے یہ بہت غلط بات کی ہے اس کا مطلب ہے کہ تم مٹی کی قدر نہیں جانتے،مٹی نسلِ انسانی کی بنیاد ہے،مٹی سے انسان زمین پر اپنے گھر بناتے ہیں ،مٹی ہی کی خاطر مجاہد اپنی جان لوٹا دیتےہیں اور مٹی ہی سے   ہمارے  یہ گھر بنے ہوئے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی اصل سے باغی ہوچکے ہیں  اور بقا کو فراموش کرچکے ہیں۔بس ہم پر ان کا احترام واجب ہے اوریہ بات ہم ان کے متعلق نہیں کہہ سکتے کیونکہ پہلے وہ ہمارے مہمان تھے اور اب میزبان ہیں۔

         تمہاری بات سے مجھے کوئی اتفاق نہیں کیونکہ دونوں صورتوں میں وہی کیسے حاوی ہوسکتے ہیں ؟کیا ان پر ہماری کوئی قدر لازم نہیں؟۔تمھارے سوالات اگرچہ راست گوئی کا پہلو لیے ہوئے ہیں مگر بات یہ ہے کہ تب وہ ہمیں مظلوم سمجھتے  تھے اور اب ہم مظلوم نہیں بلکہ محکوم ہیں  اس لیے ان سے حق کا سوال کرنا اور حق تلفی کا شکوہ کرنا بےجا ہوگا۔تم یہ مت سمجھو کہ تب ہم خاموش رہتے تھے ،نہیں ایسی بات نہیں تب ہم  خاموش کروائے جاتے تھے اور اب ہم بولنے سے قاصر ہیں۔تو سوال پھر وہی ہے کہ پھر ہمیں ان کی مجلس میں جانے کی ضرورت کیا ہے؟یہ فضول سوال تم کتنی بار اور کروگے تم جانتے  ہوکہ مٹی کے برتن چل کر نہیں جاتے بلکہ انھیں لایا جاتا ہے اور دوسری بات ان  برتنوںکا اپنی ذات کے لیے کوئی استعمال نہیں ہوتا بلکہ وہ ہمیشہ دوسروں کی خدمت پر معمور ہوتے ہیں۔میری قدر تب نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے تو پھر فکر کرنے کی کیا ضرورت میں کل صبح ہوتے ہی ان کی مجلس میں پہنچ جاؤں گا اور شام ہونے تک ان کی تمام تقاریر سنوں گا اور پھران کے فیصلے سن کر لوٹ آوں گا۔

         برسوں پہلے،بہت پہلے۔شاید مجھے یاد نہیں لیکن اندازہ کہہ رہا ہے کہ کوئی ستر اسی برس پہلے جب میں  روح اور جسم کےحامل انسانوں کے دیس سے  گیا تھا تب ان کا دیس اتنارنگین نہ تھا  مگر یہ رنگینی صرف لال رنگ پر منتج ہے اس لالگی کو لانے میں شاید کتنے انسانوں کی رگیں کاٹی گئیں اور کتنے انسانوں کا خون نچوڑا گیا ہوگا۔رنگینی سے جونہی میری نگاہیں ذرا آگے بڑھیں تو  کچی اینٹوں والے مکانوں کی جگہ پر اب ماربل لگے ہوئے صاف ستھرے خوب صورت دو دو،تین تین منزلہ مکان موجود تھے۔جہاں پر ہم جانور باندھتے تھے آج وہاں پر پختہ دلانوں میں گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ہم تو سائیکل دیکھنے کے لیے ترستے تھے اور آج اس بستی کی الھڑوں کے پاس بھی شاندار سکوٹریاں ہیں۔

         منظور  یار ہم مکالمہ کرنے آ تو گئے ہیں مگر اب یہ وہ بستی نہیں جسے ہم ستر اسی برس پہلے چھوڑ کر گئے تھے۔ہم  لوگ کچے گھروں کے باسی دیہاتی لہجے میں  گالم گلوچ کرکے بھی دل صاف رکھتے تھے مگر اب یہ  بستی والے نہ جانے کیسے رویے کے حامل ہوں گے! پتہ نہیں یہ سب لوگ آپس میں مل بیٹھتے بھی ہوں گے یا نہیں ؟ایک دوسرے کی خبر لیتے بھی ہوں گے یا نہیں؟ایسی پختہ دیواروں سے کیسے ایک دوسرے تک آواز پہنچاتے  ہوں گے۔کھیتی باڑی چھوڑ شہروں کی منڈیوں کو سدھار گئے ہیں۔منظور تمھیں یاد ہوگا میری والدہ جب دیسی گھی میں چاول ،تل اور گڑ ڈال کر ٹکیاں بنایا کرتی تھیں تو اردگرد کے سب بچوں کو بلا کرکھلاتیں اور پھر قریب قریب کے گھروں میں بھجواتیں۔یہ لوگ جس قدر بھی جدت اختیار کرگئے ہوں یا بدل گئے  ہوںمگر ہماری قائم کردہ روایات کو یاد تو کرتے ہوں گے ،ہماری بیلوں کی جوڑی ہم سے پہلے ہمسائے اور رشتہ دار استعمال کرتے تھے حتٰی کہ ہماری اپنی کاشت لیٹ ہوجاتی۔

         شیر بہادر کی خداترسی اور انسان دوستی کو کون بھلا سکتا ہے جب  ہمارا قافلہ امرتسر سے نکلا تھا تو  سکھوں کے ایک شرپسند گروہ نے  پیچھا کرنا شروع دیا تھا  اوراس گروہ کے لوگ ہمارے قافلے سے کم تھے مگر وہ لوگ ہتھیاروں سے لیس تھے اور ہم  ان سے لڑنا تو درکناراپنی جان بچانا بھی غنیمت سمجھ رہے تھے۔وہ لوگ موقع پاکر جب ہمارے کسی شخص  کو گھیرتے تو اس کی جان لے لیتے،اس طرح کی آنکھ مچولی میں انھوں نے واہگہ تک  پہنچتے ہمارے دس لوگوں کی جان لے لی۔واہگہ کے نظر آتے جب لوگوں نے ‘‘پاکستان اپنا دیس’’ کا نعرہ لگایا تو ان آتنک وادیوں نے سامنے آکر حملہ کیا اور اس مڈبھیڑ میں دوشرپسند ہمارے قافلے کی ایک نوجوان دوشیزہ کو اٹھا کر فرار ہوگئے۔ خان بہادر کی سینہ سپر دلیری سےجب  وہ آتنک وادی پیچھے ہٹے  تو خان بہادر نے نعرہ لگایا‘‘اخلاص کو آنچ نہیں’’ سب نے یک زبان ہوکر یہی الفاظ دہرائے۔زخم کھا کر اور اپنےعزیز گنواکر بھی یہ قافلہ خوش تھا اور منزل کی طرف رواں دواں تھا۔لڑائی کے دوران بےہوش ہوجانے والی ایک بوڑی اماں جب ہوش میں آئیں تو کہنے لگی میری کوثر کہاں ہے وہ تو مجھے نظر نہیں آرہی،یہی الفاظ اس کی زبان پر تھے کہ وہ دوبارہ بےہوش ہوگئی۔خان  بہادر نے کہا اُف‘‘آج تو میری بہادری پر کوئی لات مارگیا’’اٹھ شیر بہادر اپنی بہن کو آتنک وادیوں سے چھڑا کر واپس لاؤ،اگر تم دشمنوں سے اسے آزاد نہ کراسکوں تو تمھیں بھی واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔خان بہادر کاسولہ سترہ سال کا نوجوان بیٹا  جس کے خون نے باپ کے خون کی طرح جوش مارا اور دشمنوں کے پیچھے اٹھ دوڑا۔سب لوگ خان بہادر کو سمجھارہے تھے کہ کوثر کو تو انھوں نے ماردیا ہوگا مگر آپ اپنے بچے کو کیوں ان کے منہ میں دھکیل رہے ہیں؟خان بہادر نے کہا ‘‘دشمن کی نظر ہونے والی معصوم  بھی میری بیٹی تھی،شیر بہادر اگر اپنی بہن کو واپس نہ لاسکا تو اس کے جانے کا دکھ مجھے اپنی بیٹی سے زیادہ نہیں ہوگا’’۔خان بہادر کی اُس قربانی کودیکھ کر سب قافلے والوں نے خان بہادر کو قافلے کا سرپنچ مان لیا ۔

         خدا خدا کرکے جب ہم لوگ لاہور پہنچے تو اس وقت لاہور کی حالت بھی کسی طور کربلا سے کم نہ تھی،ہر طرف آہ وپکار،واویلا اورقیامت ڈھاتی  ہوئی بھوک۔بارڈر سے اُس پار یہ ڈر تھا کہ باہر سے آکر کوئی مار دے گا مگر یہاں پہنچ کر یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ اندر کی بھوک ہی جان لے گی۔کچھ دن تو ہم نے فیروز پور  روڈ پر لگے کیمپ میں سرچھپائے رکھا مگر جب اپنے دیس میں اپنی چھت کی بات آئی تو جس گلی میں جاتے وہاں پر کوئی نہ کوئی بڑا گلی کے داخلی دروازے پر چارپائی بچھائے بیٹھا ہوتا۔خان بہادر کل کا بہادر آج بالکل ایک معصوم،سادہ لوح اورلڑائی جھگڑے کی زبان سے نابلد نظر آرہا تھا۔یہ بات ہمیں اور بھی  زیادہ عجیب لگی کہ کل تک  تو خان بہادر دس دس دشمنوں پر بھاری نظر آرہے تھے مگرآج کسی عام سے بندے سے  بھی  قیل وقال سے گریزکر رہے ہیں۔ایک دن  کسی نے موچی دروازےکے پاس ایک محلے کے تمام مکان خالی ہونے کا سندیسہ بھیجا تو ہمارا پورا قافلہ خان بہادر کی سرپرستی میں موچی دروازے پہنچ گیا،وہاں پر عجیب ماجرا دیکھنے کو ملا  جب ہم لوگ خالی مکانوں میں سامان رکھنے کے لیے بڑھے تو ایک ریڑھی بان دور سے بھاگتا ہوا آیا اور زور زور سے چلانے لگا کہ‘‘ یہ لوگ سکھوں کے ایجنٹ ہیں انہیں یہاں مسلمانوں کے محلے میں کیسے جگہ دی جاسکتی ہے!’’خان بہادر کے چہرے کے تیور ایک لمحے کے لیے تو یوں بدلے کہ بس اب ریڑھی بان کی خیر نہیں مگر اگلے ہی لمحے پرسکون ہوکر بولے‘‘تحفے میں ملی ہوئی وراثت کی قدر سیکھو ورنہ بےقدری جیسے تمھارے چہرے سے ٹپک رہی ہے ایسے ہی ذلت بھی تمھارا مقدر بنے گی۔’’

         اگلی صبح خان بہادر پورے قافلے کو لے کر روشن نگر پہنچا،یہاں  پر کلراٹھی زمینوں  کا گھر وں کے لیے انتخاب  کیا۔دن بھر مرد حضرات زمینوں کے گرد باڑ لگانے   میں مصروف رہتے اور رات کومٹی گوند کر اینٹیں بناتے۔خان بہادر دن رات یوں دل لگی سے کام کرتے جیسے ہر اینٹ ان کی وراثت بن رہی ہے اور اس ہر اینٹ سے بننے والا ہرمکان خان بہادر کی ملکیت بن رہا ہو۔اس مرد مجاہد نے اس بات کی فکر کیے بغیر کہ یہ جائیداد کس کی وراثت بنے گی اور کون مستقبل میں ہماری محنت کو یاد کرےگا دن رات محنت کی  اور اس ویران،کلراٹھی زمین کو ہریالی بخشی اور بے نشان زمین پر کچی اینٹوں  سے تیار مکانوں پر مشتمل ایک گاؤں آبادکردیا۔ہم سب لوگ ہنسی خوشی اس گاؤں میں رہنے لگے،اپنا اناج اگاتے اور جی بھرکرکھاتے۔ایک دن ہم نے سوچا کہ خان بہادر خاندانی نواب آدمی ہے اس لیے شاید اس نے گاؤں کے کچے مکانوں کو پسند نہیں کیا اور شہر میں کسی بڑی کوٹھی پر اس کی نظر ہوگی یا کسی جاگیر دار سے اس کا تعلق ہوگا وہیں سے اس کو کوئی خصوصی رعایت مل جائے اور پھر وہ شہر کو سدھار جائے گا۔خان بہادرگاؤں کا سرپنچ  ہونے کے ناطے پورے گاؤں کے لیے ایک معتبر ومودب آدمی تھا اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ خان بہادر ان کے ساتھ رہے اور ان کے گھر سے کھانا کھائے۔خان بہادر نے بھی اس بات کو اپنےلیے سعادت جانا اور اگر کسی کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا لیتا تو رات کا کھانا کسی دوسرے شخص کے ساتھ کھاتا اور پھر کسی حقے والی بیٹھک میں رات  گزار کر اگلی صبح پھر کھیتوں میں کام کاج میں لگا رہتا۔سات کا برس کا عرصہ گزرگیا اور کسی کو ہمت نہ ہوتی کہ وہ خان بہادر سے یہ کہتا کہ تم بھی کوئی جائیدار اپنے نام کروا لو یا پھر اپنے ہاتھوں سے بنائے ان گھروں میں سے ایک گھر ہی رکھ لو۔

شہرکا ایک تاجر ایک دن گاؤں آن ٹپکا اور گاؤں کی فصلوں کو دیکھ کران کا سودا کرنے لگا،جب بات شرائط وضوابط کے طے کرنے کی آئی تو گاؤں کے سارے لوگوں نے بہ یک زبان ہوکر کہاکہ ہماری ہر بات خان بہادر ہی کرتا ہے سو ان کو بلانا پڑے گا۔تاجر نے سوچا بڑا آدمی ہےسو اس سے مل لیتے ہیں امید ہے فصل کا غالب حصہ تو خان بہادر صاحب کا ہی ہوگا سو ان سے  ہی بات کرلیتے ہیں۔خان بہادر اونچا لمبا قد،بھاری جسم،چوڑا سینہ،اکڑی ہوئی گردن باہر ابلی ہوئی آنکھیں اور نوابی چال جنھیں دیکھتے ہی تاجر سمجھ گیا کہ یہ واقعی کوئی بڑا آدمی ہے اس لیے اس کواپنے ہاتھوں میں لینا انتہائی ضروری ہے۔خان بہادر اور تاجر کا مکالمہ شروع ہوگیا۔تھوڑی دیر کی بات چیت کے بعد شاطر دماغ تاجر بھی جان گیا کہ اتنے لوگوں کے سامنے  خان بہادر کو اپنے ہاتھوں میں لینا بہت مشکل ہے کیوں نا خان بہادر کو کہا جائے چلیں آ پ کے ڈیرے پر چلتے ہیں۔تاجر نے اپنی حریصانہ نگاہ اٹھاتے ہوئے کہا‘‘چودھری صاحب چلیں آپ کے ڈیرے پر چل کر بات کرلیتے ہیں کیونکہ بڑی بڑی باتیں ایسے چھوٹے چھوٹے لوگوں میں بیٹھ کر کرنا کوئی عقل مندی کی بات نہیں اور ویسے بھی یہ شرفا کا طریقہ نہیں کہ وہ چوراہوں میں  کھڑے ہوکر تجارت کی بات کریں۔’’اس بات نے خان بہادر کو ایسا اشعتال دلایا کہ وہ تاجر پر برستے برستے رک گئے اور  بولے‘‘اے حرص محصور انسان شرفا کے لمبے چوڑے ڈیرے بھی نہیں ہوتے،ان کے ہاں وقت بتانا مقصد ہوتا ہے نہ کہ وقت پھنسانا مقصد ہوتا ہے۔’’تاجر بھانپ گیا کہ یہ وہ شخص نہیں جو میری چال کا مہرہ بنے اس لیے یہاں چال اور مہرہ دونوں بدلنے کی ضرورت ہے۔تاجر نے سب کسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاں میں پھر کسی روز چکر لگاؤں  گا اور سودا کرکے فصل لے جاؤں گا۔سب کسان خان بہادر کے چہرے کی طرف دیکھ کر خاموش ہوبیٹھے۔کچھ دن بعد تاجر نے اپنے منصوبے کے مطابق اپنے مقرر کیے ہوئے لوگوں کو گاؤں میں نئے بیج کا تعارف کروانے بھیجا اور ہفتہ بھر میں خریدنے پر تعارفی قیمت کا لالچ بھی دےدیا۔کسی نے بیج خریدنے کی حامی نہ بھری  مگر  لطیف جالندھری نے  بیج والے لوگوں کے منہ کی طرف ایسی للچاتی ہوئی نگاہوں سے دیکھا کہ وہ لوگ سمجھ گئے کہ ہمارا شکار تو موجود ہے مگر کسی وجہ سے خاموش ہے۔انھوں نے حیلے بہانے سے لطیف جالندھری سے نام،زمین اور فصل کی تفصیل پوچھ لی۔

         تاجر اپنی ٹیم کی حاصل کردہ معلومات سے بہت  خوش ہوا ۔دوسری طرف لطیف جالندھری بھی خان بہادر سے چوری چوری  کسی صورت بیج والوں کے پتے  پر جاکر رعایتی قیمت پر بیج حاصل کرنا چاہتا تھا۔ایک شام حقے کی محفل سجی ہوئی تھی کہ خان بہادر کو وہ تاجر اور پھر بیج والی ٹیم یاد آئی تو خان بہادر نے ایک مقرر کی طرح کھڑے ہوکرسادہ لوح اپنے ساتھیوں سے خطاب کرنا شروع کردیا‘‘گاؤں والوں!تمھاری اورمیری وہ پہلی ملاقات تھی جب ہمارے قافلے پر آتنک وادیوں نے حملہ  کیا،اس سے پہلے کے خان بہادر کو تم نہیں جانتے تھے اور بالکل اسی طرح خان بہادر تمھیں نہیں جانتا تھا مگر ایک مشترک مقصد نے ہم سب کو  بغیر کسی تفصیل کوجانے ایک کردیا۔ایک بات  یاد رکھنا کہ بعض اوقات مقاصد ہی انسان کو انسان سے جدا کردیتے ہیں ،اس لیے جب تک ہم سب لوگ اپنے مقاصد مشترک رکھیں گے محفوظ رہیں  گےاور ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں رہیں گے۔میری ایک ہی نصیحت ہے کہ مقاصد کو کبھی انفرادی نہ ہونے دیناان کو ہمیشہ مجموعی رکھنا تاکہ اُن کے حصول میں کاوشیں بھی مجموعی رہیں۔میں نے پچھلے کچھ دنوں سے  ایک بات نوٹ کی ہے کہ باہر سے کچھ لوگ آکر  ہمیں  وہ باتیں سکھانا چاہتے ہیں جن سے ہم ابھی تک ناواقف تھے یا کم از کم دور تھے۔ہم میں سے کوئی بھی جب حد سے نکلنے کی کوشش کرے گا یا دوسروں پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو اس صورت میں اُس کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوگا جیسا  اُن حملہ آوروں نے ہمارے ساتھ برتاؤ کیا حتٰی کہ ہماری عزتوں  کے ساتھ بھی کھلواڑ کیا۔اس لیے  کسی بھی طرح کی حرص سے بچتے ہوئے ذاتی تعلقات کو پاک رکھنا۔تم سب جانتے ہو کہ یہاں پر آکر میں نے گھر بنانے یا جائیداد بنانے کی بالکل بھی کوشش نہیں کی  کیونکہ میرے پاس دو ہی قسم کی جائیداد تھی ان میں سے ایک میں نے حملہ آوروں کے جواب میں کھودی تھی اور دوسری ‘آخرت’ ہے جس کو بنانے کے لیے میں تم سب کی خدمت میں لگا ہوا ہوں۔’’خان بہادر کا خطبہ سن کر سب لوگ اس کے بیٹے کو یاد کرکے زاروقطار رونے لگے۔اس رات کے خطبے کے بعد لطیف جالندھری کو یقین ہوگیا کہ خان بہادر کا خطاب خالصتاً میرے لیے ہی تھا اس نے اگلی صبح بیدار ہوتے ہی  بیج والی ٹیم کے بتائے ہوئے پتے کی راہ لی۔لطیف جالندھری وہ پہلا شخص تھا جس نے ضمیر فروشی کی طرف قدم بڑھائے۔بیج والی ٹیم کے توسط سے لطیف جالندھری تاجر تک جا پہنچا۔اب تو تاجر کی من چاہی خواہش  پوری ہونے جارہی تھی۔تاجر نے لطیف کی ایسی خدمت کی کہ لطیف خان بہادر کی سب باتوں کو بھول کر تاجر کے بچھائے گئے جال میں ایسا دھنس گیا کہ خان بہادر کی باتوں کوبھول کرضمیر فروشی سے زمین فروشی کی طرف قدم بڑھایا۔تاجر نےسستے داموں زمین خرید کرلطیف ہی کے سپرد کردی اور لطیف کا یقین تو اور بھی آہنی ہوگیا۔کچھ سالوں بعد موت کے شہاز نے خان بہادر کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر اس جہاں سے دوسرے جہاں پہنچادیا۔خان بہادر کی کوئی اولاد تو تھی نہیں جو اس کے نقشِ قدم پر چلتی یا اس کے مشن کو فروغ دیتی۔خان بہادر کی موت کے بعد لطیف نے لوگوں کو ایسی تبلیغ شروع کی گاؤں کی آدھی سے زیادہ زمینیں اُس تاجر کے ہاتھ چلی گئیں۔

         تاجر نے روشن نگر کی خریدی ہوئی زمینوں پر قلعہ نما ایک کوٹھی بنا لی اور باقی بچی ہوئی زمینوں  پر بھینسیں اور گائے وغیرہ رکھ لیں۔تاجر نے روشن نگر کو اپنا مرکز مان کر اردگرد کے گاؤں کی زمینوں  کو بھی خریدنا شروع کردیا۔لوگ جب زمینوں سے ہاتھ دھو کر چند دن کی عیش وعشرت کے بعد بھوکوں مرتے تو سیدھے اپنے ہمدردومخلص تاجر کے پاس چلے آتے۔اب کی بار وہی تاجر  ایک آقا کے روپ میں ان سے بات کرتا اور ان   کومحنت مزدوری کرنے کی ترغیب دیتا۔کل کے مالک آج کے مزارع بن گئے،دن بھر کی محنت کے بعد رات چوراہے میں حقے کی محفل  سجھانے والے اب رات کو تاجر کے ڈیری فارم پر بھینسوں کا گوبر اکھٹا کرتے۔گاؤں کی کثیر تعدا د زمینوں سے ہاتھ دھو کر تاجر کی غلامی کرنے لگی اور باقی جو لوگ رہ گئے وہ  ملک کے بڑے بڑے شہروں میں سدھار گئے اور وہاں  پر  کارخانوں کی مزدوری اور کرائے کے گھر دیمک بن کر ان کی مرضی کو چاٹنے لگے۔

         منظور   اب جوآپ کویہ عالی شان،لمبی چوڑی اور خوبصورت عمارتیں نظر آرہی ہیں ان کی بنیادیں آج سے ستر اسی برس پہلے ہی رکھی جاچکی تھیں۔موقع شناس تاجروں  اور لطیف جالندھری جیسے خود غرضوں نے دوسرا کوئی خان بہادر پیدا ہی نہیں ہونے دیا جو ان کو سمجھاتا اور ان کی غیرت کو زندہ رکھتا اور آج ان کو ان کے اپنوں کے ہاتھوں غلامی سے بچاتا۔ یہی وہ محفلیں ہیں جہاں حقے پر لوگ اکھٹے ہوکر دن بھر کی باتیں کرلیا کرتے تھے ۔اب حقے کی محفلیں کہاں!اب تو یہ لوگ ایک بلاوہ سنتے ہیں کہ تمام مزارع اکھٹے ہوجائیں چودھری صاحب ان سے کوئی بات کرنا چاہتے ہیں اور یہ ضمیر فروش حقہ تو کجا کھانا تک بھول جاتے ہیں اور چودھری صاحب کی جوتیوں میں آن موجود ہوتے ہیں۔بھری محفل میں کوئی بھی ایسا نہیں ہوتا تو چودھری صاحب کے سامنے  مرضی تو کجا سوال ہی رکھ سکے بس ان کو حکم ملتا ہے  کہ فلاں فصل کو فلاں سپرے کرنی ہے،فلاں وقت میں فلاں فصل منڈی پہنچانی ہے اور پرسوں صبح صبح جا کر فلاں نشان پر ووٹ بھی کاسٹ کرآنا وہ اپنا ہی بندہ ہے۔آئیں یار ہم اپنی خاموش بستی واپس چلتے ہیں اپنے باقی ساتھیوں کو خوشخبری سناتے ہیں  کہ ہمارے جسم تو معدوم ہیں  مگر روحیں محفوظ ہیں لیکن جن  کے جسم موجود ہیں ان کی روحین معدوم ہیں، خاموشی  دوسروں کے الفاظ  پر زبان ہلانے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔تم خوش نصیب ہو جو اس نگر چلے آئے وہ اسی برس پہلے غیروں کے غلام تھے اورتب سے آج تک اپنے تاجروں اور تاجوروں کے غلام ہیں جن کی زبانوں پر مہریں اور لفظوں پر قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔

***

Leave a Reply