کنول اعجاز
روٹی بندا کھا جاندی اے
گرمی کی شدت سے قبر نما گھر میں کمالے کا دل بیٹھا جا رہا تھا ۔ کروٹیں بدلنے سے بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔دل کے بند ہو جانے کے خوف سے تڑپ کر بستر سے اٹھ بیٹھتا ہے ۔اور بستر بھی کیا! ایک ٹوٹا پلنگ وہ بھی دو میلی پرانی چادروں پر مشتمل۔ قمیض پہن کر ٹوٹے دروازے کو بظاہر اڑاتے ہوئے اپنا جوتے پالش والا بستہ کندھے پر ڈالتا ہےاور بازار کی طرف چل پڑتا ہے۔ کمالے کا یہی معمول تھا گھر سے دل گھبرائے تو باہر نکل جانا اور جب باہر سے دل گھبرائے تو گھر کی طرف دوڑنا۔ آج بھی ایسا ہی ہوا تھا گھر سے بےچین ہو کر باہر کی راہ لی۔ باہر نکلتے ہی احساس ہوا کہ بےچینی میں گرمی سے زیادہ بھوک کا حصہ تھا ۔ کئ گھنٹے پہلے رات کے بچے ہوئے تھوڑے سےچاول ہی تو کھائے تھے۔ جو کہ نجانے کب کے کمزور جسم کا حصہ بن کرپیٹ کو پھر سے بھوک کے دوزخ میں جھونک چکے تھے ۔ قدم اٹھانا محال ہو رہا تھا۔ کمالے کے جسم میں اب ہلکی پھلکی لرزش پیدا ہو رہی تھی ۔ جیب سے ایک ادھ بجھا سگریٹ نکال کر ماچس کی ڈبی کی آخری تیلی کو میلے ہاتھوں سے رگڑ کر جلاتا ہے اور ڈبی کو نفرت سے دور پھینک دیتا ہے۔ صرف تین کش لینے کے بعد سگریٹ بھی اس کی محرومی کو منہ چڑہاتے ہوئے بجھ جاتا ہے۔ اس کے بجھنے سے بےچینی پھر سر اٹھانے لگتی ہے۔ کما لے کی برداشت جواب دینے لگتی ہے۔ اب اسی مقام پر بیٹھے رہنا ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ اپنا پالش والا بستہ ایک بار پھر کندھے پر ڈالتے ہوئے چل پڑتا ہے۔ بازار کی رونق اس کی کمزوری اور بےچینی کو مزید بڑھا رہے تھے ۔ وہ تیزی سے گزر جانا چاہتا تھا ۔ بازار کے آخری حصے سے گزرتے ہوئے کمالے کے قدم رک گئے ۔ بےساختہ کسی سحر کے اثر میں کمالے کے قدم بازار کے آخری حصے میں واقع شادی ہال کے ایک چھوٹے اضافی دروازے کی طرف اٹھنے لگتے ہیں ۔ شادی ہال کی رونق اس کے وجود میں سمائے طعام کی مہک و لذت کی کہانی بتا رہی تھی ۔ کمالا کسی کی نظر پڑے بغیر آسانی سے اندر داخل ہونے کا پہلا مرحلہ پار کر گیا تھا۔ کھانا لگے تھوڑی دیر ہوچکی تھی ۔ لوگ اپنےاپنے وجود کی تسلی و تشفی کے اعتبار سے کھانا ڈال چکے تھے۔ ٹیبل پر لگے کھانے میں ابھی بھی کمالے کی تسکین کا سارا سامان موجود تھا۔ کھانے کی اشتہا انگیز خوشبو نے کمالے کی تمام حسیات کو معوف کر دیا تھا۔ کمالا سامنے نظر آتے چاولوں کو ایک چھوٹی سی پلیٹ میں تیزی سے ڈالتا ہے۔ اور کھانے کی خوشبو کے سحر میں ایک کرسی پر بیٹھ کر تیزی سے چاول کھانے لگتا ہے۔ پیٹ میں موجود بھوک کے دوزخ کو چاولوں کی گرمی ٹھنڈا کرنے میں کارگر ہوتی جا رہی تھی۔ ابھی چار لقمے ہی حلق سے اترےہوں گے کہ ہڑبڑاہٹ نے حلق میں چاولوں کی گرہ باندھ دی اورایسے میں کمالے کی کھانسی نے میز پر بیٹھے کلف ذدہ وجودوں کی توجہ کمالے کی طرف پھیر دی۔ ان کے چہروں کی حقارت کی تاب نہ لاتے ہوئے کمالے کے ہاتھوں سے پلیٹ چھوٹ گئی اور کھانسی بھی کہیں گھٹ کر رہ گئی ۔ کھانے سے ملنے والے سرور کی جگہ اب خوف نے لے لی۔ایک شخص اپنی انا کے ہاتھوں مجبور ہوکر کمالے کو گردن سے دبوچتا ہے۔ کمالے کو سنبھلنے کی مہلت بھی نہ ملی اور اگلے ہی لمحے وہ ایک ہجوم کی گرفت میں تھا۔ جس کی جتنی استطاعت تھی اتنی چوٹ دینے کا خواہاں تھا۔ کمالے کا دہشت وفرار کے جذبوں کے اثر میں دھڑکتا دل اگلا پڑنے والے ایک گھونسے کی شدت برداشت نہ کر سکا۔اگلا لمحہ کمالے کا بےجان وجود ہجوم کے ہاتھوں میں سونپ کر چلا گیا۔ کمالے کے بےجان ہونے کا احساس ہونے پر ہجوم کی انا تسکین پاتی ہے اور وہ اسی جگہ اسے چھوڑ کر دوبارہ کھانا کھانے بیٹھ جاتے ہیں ۔اور کمالے کے بےجان جسم سے اٹھنے والی کراہیت کا تصور کسی سخی کو کمالے پر کپڑا ڈالنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
***