ڈاکٹر مسرور صغریٰ
سی ایم کالج دربھنگہ بہار
شعبۂ اردو
افسانہ زخم
انّما کا ابھی کچھ دن قبل ہی ایم اے کا نتیجہ بر آمد ہوا تھا اس نے پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا تھا وہ ان دنوں بہت خوش تھی اور اب وہ یہ چایتی تھی اسے جلد از جلد کسی اچھے اسکول یا کالج میں نوکری مل جائے اس نے اردو میں ایم اے کیا تھا مگر ایم اے کرنے کے بعد اسے پتہ چلا کہ اردو میں نوکری ملنا اس قدر آسان نہیں وہ بھی کسی اچھے اور معیاری شعبے میںلہذا اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ فارسی میں بھی ایم اے کر لے کیوں کہ اس نے بی اے تک کسی نہ کسی صورت میں فارسی کو خود سے جدا نہیں ہونے دیا تھا اس خیال کا دل میں آنا ہی تھا کہ وہ رات دن بس یہی سوچنے لگی کہ کس طرح اپنے اس ارداے کو عملی جامہ پہنائے وہ ا سی تجسس میں تھی کہ اسے خیال آیا کہ اسے باقاعدہ فارسی کے مضمون میں داخلہ لینے سے قبل فارسی کے کسی اچھے استاد سے چند مہینے فارسی پڑھ لینی چاہئے تاکہ اس کی فارسی مزید مضبوط ہو جائے خدا کا معجزہ دیکھئے اسی درمیان ا س نے دیکھا کہ واٹس ایپ کے ایک گروپ پہ فارسی کے کچھ نامور اساتذہ بھی شامل ہیں کسی نے کیا خوب کہا ہے جہاںچاہ وہاں راہ گویا وہ کھل اٹھی اس نے بغیر سوچے سمجھے فارسی کے ایک اساتذہ کا نمبر واٹس ایپ سے نکالا اور انہیں میسیج کے ذریعہ سلام کیا فوری طور پر اسے کوئی جواب موصول نہیں ہو اپرکچھ وقفے سے اسے سلام کا جواب ملا تو اسے کوئی امید نظر آئی اس نے چاہا کہ گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے مگر شاید پروفیسرادیب کو فرصت نہیں تھی اور انہوں نے انّماکے کئی بار کال کرنے کے باوجود کال ریسیو نہیںکی جس نے انّما کی مایوسی کو مزیدبڑھا دیا تھا اسی پس و پیش میں اور الجھن میں کب رات ہو گئی اسے پتہ ہی نہیں چلا ابھی اسکی آنکھ لگی ہی تھی کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بجی وہ یہ دیکھ کر خوشی سے حیران ہوگئی کہ پروفیسر ادیب کی کال تھی جسے انّمامستقبل میں اپنا استاد بنانے کا مکمل تہیہ کر چکی تھی انّما نے بڑے ادب سے پہلے سلام کیا اور جواب سلام ملنے پر وہ فورا ہی اپنے مدعے پر آگئی ’سر میرا نام انّما ہے کیا آپ فارسی جانتے ہیں ؟اس سوال کو سنتے ہی گویا پروفیسرادیب کچھ حیران سے ہوگئے ہوں انہوں نے پریشانی اور غیر یقینی کیفیت میں جواب دیا ’جی جی ہاں محترمہ مگر آپ ہیں کون؟ اپنا تعارف تو کروایئے! دیکھئے ویسے بھی میں اس وقت اپنے شہر سے باہر ہوں اس وقت میری آپ سے بات نہیں ہوسکتی ایسا کیجئے آپ مجھے ایک ہفتے بعد فون کیجئے۔‘یہ کہہ کرپروفیسر ادیب نے عجلت میں فون رکھ دیاانّما ہاتھ میں موبائل لئے حیرت میں تھی کہ اب کیا ہوگا کہیں انہوںنے پڑھانے سے انکار کر دیا تو اسے یہی فکر ستانے لگی ایک ہفتہ گزر گیا اس نے ان ایک ہفتوں میں لذت انتظار سے دوستی کرلی پھر اسی دن شام کے وقت پروفیسر ادیب کو اس نے کال کی ہیلو السلام علیکم سر!دوسری طرف سے جواب آیا وعلیکم السلام جی فرمایئے!سر وہ میںنے آپ سے کہا تھا نہ کہ میں فارسی پڑھنا چاہتی ہوں کیا آپ کو فارسی آتی ہے؟ کیا آپ مجھے فارسی پڑھا دیں گے؟ دوسری طرف کچھ دیر بعد جواب آیا آپ نے اپنا تعارف تو کروایا ہی نہیں ’سر میرا نام انما ہے میں نے اسی سال اردو میں ایم اے کیا ہے اور چاہتی ہوں کہ اب فارسی میں ایم اے کر لوں سر اردو والوں کو نوکری جلدی نہیںملتی میں نے سنا ہے کہ فارسی میں بہت کم لوگ ہوتے ہیںاس لئے نوکری ملنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی ‘۔انما نے ایک ہی سانس میں تمام باتیں کہہ ڈالیں گویا اس نے ایک ہفتے تک اس کی ریہرسل کی ہو’ اچھا اچھا یہ بات ہے ‘پروفیسرادیب نے جواب دیا ’دیکھئے محترمہ’ میں خود بہت مصروف رہتا ہوںمگر آپ کی لگن کو دیکھتے ہوئے میں کوشش کروں گا کہ تھوڑا وقت نکال کر آپ کو پڑھا دوں مگر آپ رہتی کہاں ہیں ؟سر میں احمد آباد میں رہتی ہوں اچھا تو میں تو فتحپور کا رہنے والا ہوں پھر آپ کیسے پڑھیں گی پروفیسر‘ادیب نے سمجھایا’ نہیں نہیں سر میں آن لائن آپ سے پڑھ لیا کروں گی آپ مجھے کچھ سمجھا دیا کیجئے گا کچھ پڑھا دیا کیجئے گا بس اتنا ہی کافی ہے میرے لئے میں چاہتی ہوں میں فارسی میں بات کرنے لگوں‘انّما نے اپنے دل کی خواہش ظاہر کی’ اچھا اچھا یہ تو بہت اچھی بات ہے ورنہ میں آپ کو بتائوں کہ آج کل وہ اسکالر جو فارسی میں پی ایچ ڈی تک کر چکے ہیں انہیں بھی فارسی میں گفتگو کرنا نہیں آتایہی حال میں نے سنا ہے اردوکے اسکالر وں کا ہے بلکہ میں نے تو یہاں تک سنا ہے کہ اردو کے اسکالر باقاعدہ اپنا مقالہ دوسروں کو پیسہ دے کر لکھواتے ہیں اور انہیں ڈگری بھی مل جاتی ہے بڑا افسوس ہوتا ہے یہ سب سن کر ادب کے مجرم ہیں یہ لوگ جو مقالہ پیسے دے کر لکھواتے ہیں وہ بھی جو پیسے لے کر لکھتے ہیں وہ بھی آخر ہمارے ملک و قوم کو ایک اچھے اساتذہ کی فراہمی کیسے ہوگی جب یہی صورت حال رہے گی خیرمیں تو آپ کو ابھی سے لیکچر دینے لگا لیکن یہ حقیقت ہے کہ مجھے آپ کی لگن اچھی لگی میں کوشش کروں گا کہ آپ کو وقت دے سکوں کوشش کے باوجود جہاں تک میرا خیال ہے میں آپ کو ہفتے میں دو دن سے زیادہ وقت نہیں دے سکوں گا،ادیب نے گویا حتمی فیصلہ سنا دیا‘مگر انما کے لئے یہ موقع بھی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا وہ بہت خوش تھی اس نے سر کا شکریہ ادا کیا اور فون رکھ دیا۔پروفیسر ادیب کی آمادگی نے انما کے حوصلوں کو مزید پر لگا دیے تھے اب وہ پہلے سے زیادہ دل لگا کر پڑھتی تھی سارا سارا دن کتابوں سے یوں گھری رہتی جیسے خوبصورت بھنوروں سے گھرے رہتے ہیںانّما نے اپنی فارسی کی ایک کتاب نکالی اور کچھ نوٹس فارسی کے جو اس کے پاس موجود تھے اور ایک نئی کاپی خریدی اور اسے فارسی کے لئے مختص کر دیا اب وہ پرانے سبق کو دوبارہ اپنے ذہن میںتازہ کرنے کی کوششوںمیں رہنے لگی وہ فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کے کلام کی دیوانی تھی وہ اس وقت حافظ کی اس رباعی
ہر روز دلم بزیر بارے دگرست
در دیدہ من زہجر خارے دگر ست
من جہد ہمی کنم،قضا می موید
بیروں ز کفایتِ تو کارے دگرست
کو اپنی پرانی نوٹ بک سے نئی بک میںمنتقل کر رہی تھی وہ حافظ کی اس رباعی کے سحر میں غرق تھی کہ اچانک انمّا کی والدہ نے انماّ کو پکارا ’انّما انّما کہاں ہو انّما ‘انّما کی والدہ بیمار تھیں اور اس بیماری نے انہیں انّما کی جانب سے مزید فکر مند بنا دیا تھاوہ رات دن انّما کے بہتر مستقبل کی دعائیں کرتیں انہیں ایک ہی فکر زیادہ ستاتی کہ میرے بعد انّماکا کیا ہوگا زمانے کی سفید و سیاہ سے ابھی انّما کی بے نیازی انما کی والدہ کی پریشانیوں کا سبب تھا وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ انّما ایک بہت ہونہار بچی ہے اسے پڑھائی لکھائی سے محبت ہی نہیں عشق ہے ایسا عشق جیسا ایک صوفی جید بزرگ کو اپنے خدا سے ہوتا ہے بس اس کی یاد میں غرق اس کے وصال کی خواہش ہی اس کا نصب العین ہوتا ہے اسی طرح انما کو اپنی تعلیم سے عشق تھا اسے اپنی کتابوں سے محبت تھی انّماکی باقی بہنوں کی شادیاں ہو چکی تھیں و ہ سب اپنے سسرال میں عیش کررہی تھیں مگر کہیں نہ کہیں ضروریات و مصروفیات کی گرم ہوا نے انما کی بہنوں کو انما سے دور کر دیا تھا اس کی بہنوں کو یہ حسد ہوتاتھا کہ انما ان سب سے زیادہ قابل ہے اور باصلاحیت بھی یہ صدمہ بھی انما کی والدہ کو تھا کہ بہنیں انما کی وفادار نہیں اس کی زندگی میں سوائے میرے کوئی نہیں انّمابھی ان تمام باتوں سے بخوبی واقف تھی کہ اس کی سگی بہنیں تک اس سے بغض و حسد رکھتی ہیں یہ بات اس کے لئے کافی تکلیف دہ تھی کبھی کبھی وہ سوچتی کاش میری بہنیں میری کتابوں کی طرح ہی میری دوست میری ہمراز ہوتیںمیرے سکھ دکھ کا ساتھی ہوتیں مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا انما بہت تنہا تھی ساری دنیا میں بس ایک والدہ ہی اس کی اپنی تھیں جن کے بغیر جینے کا تصور بھی انما نہیںکر سکتی تھی دو ہی تو کل کائنات تھی انما کی جاندار شئے میں اس کی والدہ اور بے جان شئے میں اس کی کتاب مگر ہاں کتاب بے جان کہاں جو دوسروں کے قلب و ذہن کو تازگی و شادابی دے جو زندگی کو حقیقی معنوں میں زندگی بنا دے جو انسان کو انسان بننا سکھا دے جوتنہائی کی بہترین رفیق و ہمدم ہوجس سے صرف عزت شہرت سکون راحت ملتی ہو جس سے زندگی ملے وہ بھلا بے جان کیسے ہو سکتی ہے بے جان تو وہ لوگ ہیں جو ذہن رکھتے ہوئے بھی سوچ نہیں سکتے دل رکھتے ہوئے بھی دوسروں کا درد بانٹ نہیں سکتے یہ لوگ تو چلتی پھرتی لاشیں ہیں کتابیں تو جاندار ہیں بالکل میری والدہ کی طرح جس کی گود میں سر رکھ کر میں سو بھی سوسکتی ہوں اور اپنا درد سنا کر رو بھی سکتی ہوں اور وہ مجھے ایک مہربان دوست کی طرح دلاسہ بھی دیتی ہے اس نے اپنے سینے میں رقم سیاہ لکیروںکے توسط سے سب کچھ تو لکھا ہے اس میں بس سمجھنا شرط ہے افسوس لوگ کتاب پڑھ تو لیتے ہیں سمجھتے نہیں اس پر عمل نہیں کرتے بالکل قرآن کی طرح اور اسی لئے خسارے میں ہیں انّما کو اپنی کتابوں سے اپنے والد کی خوشبو آتی تھی انّما نے اپنے بابا کو بہت کمسنی میں ہی کھو دیا تھا جو اس سے بہت محبت کرتے تھے انمانے اپنے بابا کی ہر بات ہر نصیحت کو اپنی گرہ سے باندھ کر رکھا تھا اور وہ آخری لمحہ وہ بابا کا کہنا’بیٹا انما میں چاہتا ہوں تم بہت پڑھو لکھو اور میرا نام روشن کرؤ بیٹا تم پڑھوگی نہ‘ انما کے کانوں میں اپنے باباکی یہ آواز ابھی تک یوں گونجتی تھی گویا کچھ دیر پہلے ہی یہ جملہ اس کے بابانے اسے گلے سے لگا کر کہا ہو اور کہتے کہتے ہی اسکے بابا کی روح قفس عنصری سے آزاد ہوگئی ہو اور پھر اسکی آنکھیں بھیگ جاتیں اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکلتا پروردگار میرے بابا کو تونے اپنے پاس اتنی جلدی بلا لیا مگر وہ خدا سے مزید گلہ کر کے دائرہ کفر میں داخل نہیں ہونا چاہتی تھی۔انّما جب تک پہونچتی انّما کی والدہ نے پھر پکارا انّما اور انما اپنی اس جنت کی صداپہ بیتابانہ لبیک کہتی ہوئی تقریبا دوڑتی ہوئی اپنی والدہ کے پاس آئی جی ماں جانی !بیٹا دیکھو تو شاید میری دوا ختم ہوگئی ہے گھٹنوں میں آج پھر بہت درد ہورہا ہے مگر اب اتنے پیسے دوا کے لئے کہاں سے آئیں گے روز روز انّما کا دل تڑپ گیا’ماں جانی آپ ہر گز پریشان نہ ہوں میرے پاس کچھ پیسے ہیں میں ان پیسوں سے آپ کی دوا آج ہی لے آئوںگی ‘ انمانوکری کرنا چاہتی تھی اپنی والدہ کے لئے اپنے لئے اپنے بہتر مستقبل کے لئے وہ اپنی والدہ کو خوش دیکھنا چاہتی تھی اس کی والدہ کے پیروںمیں اگر کانٹا لگ جائے تو مانو انما کی جان نکل جاتی اب اپنی والدہ سے لی گئی خدمات کا صلہ دینے کا وقت تھا انما کی امنگیں جوان تھیں اسے اپنی عزیز کتابوں سے بہت محبت اور امیدتھی اس نے ایک بار پھر فارسی کے تمام اسباق کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیا پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اس نے تو سر سے وقت پوچھا ہی نہیں کہ آخر وہ کس وقت پڑھائیں گے شام ہونے والی تھی اس کا دل بیچین ہو اٹھا یا الہی کیا میری آرزو دل کی دل میں ہی رہ جائے گی کیا میں فارسی نہیں پڑھ سکوں گی اسی سوچ میں ایک گھنٹہ اور نکل گیا اب انما سے صبرنہ ہو سکا اس نے ہمت کر کے ایک بارپروفیسر ادیب کو فون کرنے میں ہی عافیت سمجھی یقینا پیاسا ہی کنواںکے پاس جاتا ہے اس نے ادیب کو فون لگانا شروع کیا کئی بار فون کرنے کے بعد شاید چوتھی یا پانچویں دفعہ میںپروفیسر ادیب نے کال اٹھائی اس سے پہلے کے انما کچھ کہتی پروفیسرادیب بول پڑے ’جی جی !محترمہ معاف کیجئے آپ کو انتظار کرنا پڑا در اصل میں بہت مصروف تھا بس ابھی ابھی فرصت ملی ہے دیکھئے عموما میں ایسا کرتا تو نہیں ہوں مگر آپ کی لگن نے مجھے مجبور کیا دیکھئے آج پہلا دن ہے اس لئے میں آپ کو قاعدہ بتا رہا ہوں میں جس طرح یونیورسٹی کے بچوں کو آن لائن پڑھاتا ہوں کل سے اسی طرح میں آپ کو بھی پڑھا یا کروں گا میں آپ کو ایک آئی ڈی بنا کر بھیج دیا کروں گا آپ اسے جوائن کرلیجئے گا پھر میں جوائن کروں گا اور پڑھائی ہوگی آج کچھ روایتی باتیں پوچھنا چاہتا ہوں ‘پھر اس کے بعد ادیب نے فارسی زبان کے فوائد بتائے اور اس کے گرامر کے متعلق ہلکے پھلکے سوال کئے پروفیسرادیب کو انما نے تسلی بخش جواب دیا پروفیسرادیب کو یقین ہوگیا کہ انما کو پڑھانے میں زیادہ دشواری نہیں آئے گی جب تدریس کا سلسلہ ختم ہوا تو انّما نے کہاسر ایک بات عرض کرنا چاہتی ہوں اگر آپ کی اجازت ہو‘ کہئے کہئے انما اجازت ہے‘’پروفیسر نے صراحتاًجواب دیا۔ ـ’سر وہ میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپ کی فیس کیا ہوگی‘ یہ سنتے ہی گویا پروفیسر ادیب بھڑک ہی تو گئے کیا کہا فیس کیا آپ یہ سمھتی ہیں کہ میں آپ کو فیس کے لئے پڑھانا چاہتا ہوں ‘’نہیں نہیں سر ایسی بات نہیں ہے آپ بھی تو اپنا قیمتی وقت دیں گے نہ بس اس لئے میں نے پوچھا‘’نہیں میںکوئی فیس نہیں لوں گا ہاں اگر فیس دینا ہی چاہتی ہیں تو فارسی بولنا سیکھ لو یہی میری بہترین فیس ہوگی کیا آپ ادا کر سکیں گی یہ فیس‘ انّما مسکرا دی اسے ایک عجیب سی خوشی و طمانیت کا احساس مدتوں بعد ہوا ،جی جی سر! جی سر! ضرور کیوں نہیں! میں پوری کوشش کروں گی کہ میں فارسی بولنے لگوں بالکل آپ کی طرح‘ ’اچھا آپ نے کہا سن لی میری فارسی‘’ سر میںنے یوٹیوب پہ سنا تھاآپ کو فارسی میں تقریر کرتے ہوئے ماشا اللہ سر دل باغ باغ ہوگیا تھا‘’ہمم ہاں سنا ہوگا! یہ کہہ کر کچھ دیر کے لئے پروفیسر ادیب خاموش ہوگئے پھر کہنے لگے دیکھوانما آج ہمارے ملک و قوم کی حالت بہت خراب ہے کوئی حقیقی معنوں میں علم حاصل کرنا نہیں چاہتا سب بس سستی شہرت اور دولت کے حصول کا وسیلہ تعلیم کو بنانا چاہتے ہیں ان کے یہاں موٹی موٹی کتابیں تو ہیں مگر ان سے انہوںنے کچھ نہیں سیکھا ان کی زندگی کے اعمال ان موٹی موٹی کتابوں میں درج درس سے عاری ہیں اس کا عشر عشیر بھی ان کی زندگی میں نہیں انہوں نے زندگی کو ہی ابدی سمجھ لیا اور آخرت کوبھول گئے یہی وجہ ہے ان کی بے حسی کی ان کی روز بروز پسماندگی کی مجھے یہ چیزیں بہت اذیت دیتی ہیں میں چاہتا ہوں کہ یہ ڈگریاں صرف نام کی نہ ہوںبلکہ لوگ حقیقی معنوں میں ان ڈگریوں کے اہل ہوں جانتی ہو انما میں نے ایسے ایسے پی ایچ ڈی کے اسکالر دیکھے ہیں جنہوںنے جس موضوع پہ پی ایچ ڈی کی ہے اگر اس کے حوالے سے معمولی سا بھی سوال کرو تو وہ لوگ جواب نہیں دے پاتے مگر حیرت اس بات پہ ہے کہ وہ لوگ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور نام کے آگے ڈاکٹر لگاتے ہیں کیا واقعی تم انہیں اس لائق سمجھتی ہو میں تو نہیں سمجھتا ڈگری لینے والے ڈگری دینے والے دونوں ہی غیر دیانتدار ہیں خیر بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی اس لئے اچھا ہے کہ اس زخم کو نہ ہی کریدو۔تو پھر بتائو کیا ارادہ ہے میری فیس ملے گی نہ‘پروفیسر ادیب نے اس بار قدرے مسکراتے ہوئے گفتگو کی، جی جی سر! ضرور میں پوری کوشش کروں گی‘ انما نے مسکراتے ہوئے کہا ’،ٹھیک ہے انما مجھے تم سے یہی امید ہے اب بدھ کے دن میںآپ کو پڑھائوں گا شام سات بجے یاد رکھنا‘ ادیب نے اسے سمجھایا ’ٹھیک ہے سر‘ انما نے انتہائی ادب سے بات ختم کرکے خدا حافظ کہا۔
انما ان دنوں بہت خوش رہنے لگی تھی پروفیسر ادیب سے جوں جوں وہ فارسی کے نئے نئے سبق پڑھتی وہ پھولے نہ سماتی پروفیسر ادیب کے پڑھانے کا انداز بھی تو سیدھے دل میں اتر جانے والا تھا رفتہ رفتہ ایک بدھ دوسرا بدھ اور پھر نہ جانے کتنے بدھ گزر گئے اور انما گویا ماہر فارسی ادبیات کی ماہر ہو گئی یقینا دونوں طرف سے محنت ہو رہی تھی نہ پڑھانے میں کوئی کسر تھی نہ پڑھنے میں تو پھر تو کامیاب ہونا ہی تھارفتہ رفتہ ان عرصوںمیں ادیب اور انما کافی اچھے دوست بھی ہوگئے تھے یقینا استاد کو ایک اچھا دوست ہونا چاہئے مگر اس طرح کہ محرمات میں مبتلا ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو۔پروفیسرادیب نے کئی بار انما کی والدہ سے بھی گفتگو کی تھی اور انہیں سمجھایاتھا کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں انما ایک محنتی لڑکی ہے وہ ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوگی اللہ اس کی محبت اور لگن کو رائیگاں نہیں جانے دے گااور یہ سب سن کر انما کی والدہ پھولے نہ سماتیں اور بس وہ اپنے دونوں ہاتھ اوپر آسمان کی طرف اٹھا دیتیں پروردگار تیرا شکر ہے بس اب تو میری دعا بھی سن لے میری زندگی میںانما اپنے گھر چلی جائے ورنہ میرے بعد اس کا کیا ہو گا پروفیسرادیب یہ سن کر مسکرا دیتے ارے امی کیوں پریشان ہوتی ہیں انما کی شادی بھی ہوجائے گی ممکن ہے کوئی میرے جیسا پروفیسر ہی مل جائے کون پروفیسر نہیں چاہے گا انما جیسی دلہن پانا اور ادیب کی یہ باتیں سن سن کر انما کے دل میں بھی کچھ جذبات پیدا ہونے لگے تھے مگر اس نے اسے کبھی ظاہر ہونے نہیں دیا اسے ابھی تک اپنی کتابوں سے ہی عشق تھا وہ کتابوں پہ درج کالی کالی لکیروں کو اسپتال میں موجود اس مشین کی طرح سمجھتی تھی جس میں مریض کی سانسوں کی آمدو رفت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ سمجھتی تھی جب تک میری کتابوں کی یہ کالی کالی لکیریں میری آنکھوں کے سامنے ہیں میں زندہ رہوں گی پوری توانائی کے ساتھ ایک دن اسے پتہ چلا کہ فارسی میں ٹیچر کی جگہ نکلی ہے وہ ایک دم سے خوش ہوگئی جیسے وہ سیٹ اسی کے نام کی ہو دو سیٹ تھی اس نے ایک سیٹ اپنے نام کی سمجھ کرفارم بھر دیا اور پھر اسی دوران اردوکی بھی ویکنسی آئی اور اس نے دونوں فارم بھر دیا حالانکہ آج کل جنرل والوں کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے فارم بھرتے وقت پندرہ سو ،ایک ہزار اس سے کم فیس نہیں ہوتی جنرل والوں کے لئے ارے بھئی کیا خطا ہے جنرل ہونا یہ کس بات کی سزا دی جارہی ہے انہیں ،کہتے ہیں اگر جنرل ہیں اور غریب ہیں تو ای ڈبلیو ایس کا سرٹیفکٹ بنوالیں تو آسانی ہوتی ہے بجا فرمایا لیکن اگر کسی کے گھر میںکوئی ہوہی نہ بنوانے والا تو کوئی کیا کرے مگر ان تمام مصیبتوں کے باوجود انما نے کسی طرح بچوں کے ٹیوشن کے پیسے سے وہ فارم بھرا اور اب رات دن اسے انٹرویو کا انتظار تھا خدا خدا کر کے انٹرویو کا دن بھی آیا اس کے فارسی اوراردو دونوں کے انٹرویو بہت شاندار ہوئے اسے پوری امید تھی کہ اس کو نوکری ضرور مل جائے گی اور اب انٹرویو کے بعد پروفیسرادیب نے بھی اسے پڑھانابہت کم کردیا یا ایک طرح سے ختم ہی کر دیاتھا پروفیسر ادیب کا یہ خیال تھا کہ اب انما خود اتنا جاننے لگی ہے کہ وہ فارسی کے اسکالر کو پڑھا سکتی ہے کبھی کبھی تو مذاق میں پروفیسرادیب انما سے کچھ پوچھ لیتے بتائو انما مجھے حافظ کا وہ شعر یاد نہیں آرہا وہ کیا تھا
’بے خیالش مباد منظر چشم ‘اور انما فورا ایک مصرعہ سنتے ہی دوسرا مصرعہ مکمل کر دیتی’’زاں کہ ایں گوشہ خاص دولت اوست‘‘ اور تب پروفیسرادیب مسکرا کر کہتے’ واقعی میری فیس ادا کر دی تم نے میں تم سے بہت خو ش ہوں بتائو آج تم جو کہو گی وہ میں تمہیں دوں گا بتائو پروفیسرادیب کے اصرار پہ انما کا دل بلیوں اچھلنے لگا اس نے سوچا کہ کیا واقعی اسے کہہ دینا چاہئے جو اس کے دل میں ہے مگر پھر وہ سوچتی کہ نہیں اس سے ہمارا رشتے کے مجروح ہونے ،اس کے تقدس کے زائل ہونے کے امکان ہیں مگر پھر اسی لمحہ اس کے دل میں خیال آیا خدا ہر شئے کی سزا و جزا کا انحصار اس کی نیت پر رکھتا ہے میری نیت تو بالکل پاک و شفاف ہے میں نے تو تصور میں ان کے سائے سے بھی جب گفتگو کی ہے آنکھیں نیچی رکھ کے پھر میرا دل کیوں گھبرا رہا ہے ’انما انما ‘یکا یک پروفیسرادیب کی آواز سن کر وہ چونک سی گئی ’بتائو میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے کچھ چاہئے تمہیں کوئی تحفہ کوئی کتاب کوئی ٹافی کوئی قلم ‘ادیب کے اصرار پر انما کی زبان سے نکل گیا ’نہیں سر بس میں آپ کو دیکھنا چاہتی ہوں‘ انما کے اس جملے نے جیسے پروفیسر ادیب کو یکا یک اپنی بے سرو سامانی کا شدت سے احساس دلایا وہ خاموش رہے انما نے پھر اصرار کیا’ سر کیا ہوا آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جو تمہاری خواہش ہو تو سر میری خواہش یہی ہے کہ جس نے مجھے اتنی عمدگی سے پڑھایا اتنی محبت و جانفشانی سے فارسی سکھائی کہ آج میں فارسی عمدہ طریقے سے بول سکتی ہوںکیا میرا حق نہیںہے کہ میں اسے دیکھوں سر اتنے دن آپ نے آن لائن پڑھایا مگر کبھی بھی آپ نے ویڈیو آن نہیں کیا آج چاہتی ہوں کہ آپ آن لائن کلاس لیتے ہوئے ویڈیو آن کریں سر صرف میں ہی نہیں میری والدہ بھی آپ کو دیکھنے کی مشتاق ہیں‘ پروفیسر ادیب نے کہا’ انما کیا تم واقعی مجھے دیکھنا چاہتی ہو‘ پروفیسرادیب کے اس سوال نے انما کو عجیب تشویش میںمبتلا کر دیا اس نے سوچا کیا اس نے کوئی غلط بات کہہ دی ہے کیا اسے یہ نہیںکہنا چاہئے تھا مگر اس میںبرائی ہی کیا ہے انسان تو اپنے خدا کو بھی دیکھنا چاہتا ہے یہ او ر بات کہ خدا انسان کی شہہ رگ سے زیادہ قریب ہوتے ہوئے بھی بندوں کے حواس سے ہر لمحہ بہت دوررہتا ہے اگر ایسا نہ ہو تو پھر بھلا کوئی انسان کوئی گناہ کرے تو کیسے کرے اگر اسے احساس ہو کہ خدا موجود ہے بلکہ میرے پاس ہے میری شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے دیکھنے والے اسے دیکھتے ہیں دل کی آنکھوں سے اور خدابھی تو دیکھتا ہے اپنے بندوں کو تو میں نے اگر اپنے محسن کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تو کیا برا کیا یکایک پروفیسرادیب نے اپنے موبائل کے کیمرہ کو آن کیاانّما کی آنکھیںپورے اشتیاق و عقیدت سے اوپر اتھیں اور اور پھر ایک زوردار چیخ انما کی زبان سے نکل گئی’ نہیں ‘اور پھر اس کے بعد جیسے ساری آواز اسکے گلے میںگھٹتی چلی گئی گھٹتی چلی گئی اور پھر زہریلے سانپ کی طرح گویا اس نے اس کے پورے وجود کو شکنجے میں لے لیا اور اس کا وجود بے دم سا ہو کر رہ گیا’ دیکھ لیا انما] پروفیسر ادیب کی آواز پر انما تڑپ کر رونے لگی’ سر! سر! آپ کی آنکھیں دونوں آنکھیں ۔۔سر آپ بالکل نہیںدیکھ پاتے کیا۔۔کیا آپ کومیں بالکل نظر نہیں آرہی ہوں کیا آپ کو میری یہ کتابیں یہ یہ یہ کتابیں نظر نہیں آرہی ہیں سر ‘۔۔۔۔انما نے گلے میں دبی ہوئی ساری قوت گویائی کو سمیٹ کے کہا ’نہیں نہیںانما میں کچھ نہیں دیکھ سکتا بالکل نہیں دیکھ سکتا بچپن میں ہی میری آنکھوں میں چوٹ لگ گئی تھی جس کی وجہ سے دھیرے دھیرے دو سال کے اندر ہی میری آنکھوں کی روشنی مکمل طور پر چلی گئی میں کچھ نہیں دیکھ سکتا انما لیکن ہاں ہاں میں تمہیں دیکھ سکتا ہوں دل کی آنکھوں سے بہت ذہین فہیم متین پیاری لڑکی ہوتم ہے نہ انما‘پروفیسر ادیب کی باتیں ایسی لگ رہی تھیں گویا اس کی زندگی میں پھیلے ہوئے دور دور تک کے اندھیروں میں سے کوئی دیا جل کر کہہ رہاہ ہو گھبرانا نہیں میں ہوں میں تمہارے ساتھ ہوں میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا ؛ـ’جی جی سر ضرور اور پھر دھیرے دھیرے پروفیسر ادیب کی آنکھوںکے تمام زخم گویا انماکی آنکھوں میں سرایت کرنے لگے اور انما کی آنکھوں کی تمام شرارتیں پروفیسر ادیب کی آنکھوںمیں طوفان برپا کرگئیں۔
***