You are currently viewing ستار فیضیؔ کی نظمیہ شاعری میں ہندوستانی عناصر

ستار فیضیؔ کی نظمیہ شاعری میں ہندوستانی عناصر

ڈاکٹرشاہ جہاں بیگم گوہرؔکرنولی

گیسٹ لکچرر،ڈاکٹر عبدا لحق اردو یونیورسٹی کرنول، آندھراپردیش ۔انڈیا

ستار فیضیؔ کی نظمیہ شاعری میں ہندوستانی عناصر

ہر زبان اپنے بولنے والوں کی تہذیب و معاشرت کی ترجمان ہوتی ہے ۔اردو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ چوں کہ اس کی اساس گنگا جمنی تہذیب پر ہے اس لیے یہ ہمارے کلچر کی امین اور عکاسی کہی جاسکتی ہے۔ غالب صدی کے موقع پر مشہور روسی ادیب با با غفورروف نے کہاتھا کہ قابل ِ فخر بات ہے کہ تاریخ انسانیت میں ہندوستانی تہذیب کا منفرد اور خاص مقام ہے۔ بقول شاعر :

یہ دیش ہمارا ہندو مسلم تہذیبوں کا شیرازہ ہے/ صدیوں کی یہ بات پرانی لیکن اب بھی تازہ ہے

اور ہماری اردو اس کلچر کی بہت سی حسین روایات، اقدار و اخلاق کی بہترین نمائند ہ ہے۔

پروفیسر گوپی چند نارنگ نے ادب میں تاریخ وتہذیب کی اہمیت کے متعلق یوں رقمطراز ہیں :

’’شعروادب میں آفاقیت اور مقامیت کی کشا کش بہت پرانی ہے۔ ادب کو متشکل کرنے میں بعض آفاقی اصول ضرور کار گر رہتے ہیں لیکن ادب کی تخصیص مقامی اصولوں ہی سے طے پاتی ہے۔ ہرزبان کے ادب کی جان اس کی شعریات ہے جو قائم ہوتی ہے ملکوں اور قوموں کے ذہن و مزاج اور ان کی تاریخ و تہذیب سے جن کے سانچے میں ادب ڈھلتا ہے۔ ‘‘

(اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب از گوپی چند نارنگ ،ص۔ 19)

شاعری انسانی جذبات و احساسات کے اظہار کا خوبصورت و سیلہ بھی ہے اوران کی تربیت و تہذیب کا موثر ذریعہ بھی نثر کے مقابلے میں شعر انسانی سماعت اور جذبات کو زیادہ بہتر انداز میں اپنی طرف متوجہ کرتا ہے اور حافظے پر دیر پا نقوش مرتسم کرتے ہوئے گہرے اثرات چھوڑ تاہے۔ اس میں عوام وخواص کی کوئی تفریق نہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر میں جب اردو ادب کا ہم تحقیقی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ہمارے شعراء وطنیت سے حقیقی محبت و الفت کا اظہار بڑے ہی موثر پیرائے میں کیا ہے جیسا کہ آزادؔ، حالی ؔ، اسماعیلؔ، شبلیؔ، اکبرؔ، اقبالؔ، جوشؔ، احسان دانشؔ، ساغرؔ ، روشنؔ، جمیل مظہری ؔ، مجازؔ، سردار جعفری ؔ، جاں نثار اخترؔ، ، مخدومؔ محی الدین  اور سلامؔ مچھلی شہری ، ، فراقؔ گورکھپوری ، آنند نارائن ملا، افسر میرٹھی،سیمابؔ اکبر آبادی ، تلوک چند محروم ؔ،جوش ؔ ملیح آبادی، گوردن ناتھ امینؔ، اعجاز صدیقی ، الطاف مشہدی ، جگن ناتھ آزادؔ، شفیق جونپوری، خلیل الرحمن اعظمی ، دامنؔ جونپوری ، طالبؔ کاشمیری ، ابن انشاؔ، مجازؔ، غلام ربانیؔ، تاباںؔ، مخمورؔ جالندھری، حرمتؔ اور نازشؔ پرتاپ گڑھی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے اپنے کردار و عمل سے شعر وادب میں ہندوستانیت کو نہ صرف کوٹ کوٹ کر بھردیا بلکہ یکجہتی کی روایات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم دائم کر دیا۔

مولانا سیمابؔ اکبر آبادی کی شاعری میں ہندوستانی عناصر اورقومی یکجہتی کی خوبصورت روایت نظر آتی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں کرشن جی اور گوتم بدھ وغیرہ پر نظمیں لکھ کر اپنی یاد گار چھوڑ ی ہیں۔ اس دور کے شعراء سے لے کر دور ِ حاضر کے شعراء تک کے کلام میں جذبہ حب الوطنی اور قومی یکجہتی کے پیغامات کو بڑے ہی موثر پیرائے میں پیش کرنے کی کامیاب کو شش جاری ہے۔

اس لحاظ سے آج کے دور کا قومی ادب بھی بہت ہی شاندار دیکھنے کو ملتاہے۔ اسی قبیل سے تعلق رکھنے

والے جنوبی ہند کے شاعر ستار فیضیؔہیں جن کی شاعری میں ہندوستانی تخیل اور ہندوستانی روح کا ذکر

ملتا ہے۔

شیخ عبد الستار نام اور ستار فیضیؔقلمی نام ہے۔ ان کے والد کا نام شیخ عبد الرحیم ہے۔ فیضیؔ کی پیدائش یکم جون 1965ء کڑپہ آندھراپردیش میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر بی۔ اے تک کی تعلیم شہر کڑ پہ سے حاصل کی۔ ایم۔ اے اردو ایس وی یونیورسٹی تروپتی سے مکمل کیا۔ فیضیؔ شاعری کی ابتداء 1985ء میں کالج کے زمانے سے کرچکے تھے۔ ان کی پہلی نظم ’’اردو زبان ‘‘کالج کے میگزین میں شائع ہوئی تھی جس کا ایک شعر یوں ہے :

جس کی اردو زبان ہے یاروں /اس کی اونچی اڑان ہے یاروں

ابتداء میں تقریبا ً تین سال تک نیرؔ تخلص فرماتے رہے ۔ کڑپہ کے مشاعروں سے متاثر ہو کر اردو شاعری شروع کی۔ ڈاکٹر ساغرؔ جیدی سے شرف تلمند حاصل کیا۔ نظموں کے ساتھ ساتھ نعت اور غزل بھی کہتے ہیں۔ تلگو میں بھی شاعری کرتے ہیں۔ رائل سیما کی ہی نہیں بلکہ بیرونی ریاستوں کے مشاعروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ تقریبا ً 35مقالے نیشنل اور انٹر نیشنل سمیناروں میں پیش کر چکے ہیں ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فیضیؔ تخلیقی صلاحیتوں کے علاوہ تحقیقی اور تنقیدی شعور بھی رکھتے ہیں۔

مطبوعات :1۔چھتیس حرکاتی نظمیں،   2۔اردو ایکٹیویٹی بک،3۔فیضیؔ کی پچاس پہیلیاں  4۔فیضیؔ کے سو شعر،5۔مسکان ،      6۔غنچہ غنچہ،      7۔دھنک،       8۔سرورِ کونین (سراکتی نعتیہ مجموعہ )،      9۔شاہ ِ اُمم (نعتوں کا مجموعہ )،10۔میرا بھارت مہان،11۔ایک سو سولہ مضامین

تلگو مطبوعات:1۔اردو ساہتیہ نوا رتنالو  2۔بھکتی مکتی      3۔بھارتی پراموکھامسلم مہیلالو

مرتب کتابیں :1۔پلا لاپراپنچم 2۔رنگو لوو یدام رانڈی                3۔بچوں کی کہانیاں

کلام شائع شدہ رسالے و اخبارات

اردو دنیا بچوں کی دنیا، روشن ستارے، گل بوٹے، سالار ، ندائے سالحات، الحیات، قومی صحافت، الھدا، دعوت، صدائے بسمل، ہمارا حق، سیاست، رہنمائے دکن ، منصف ، اعتماد ،نئی دنیا وغیرہ ۔

1989ء میں بحیثیت معلم ان کا تقررہوا اور 2010ء میں ضلع پریشد اردو ہائی اسکول (میدکو ر منڈل کڑپہ ضلع آندھراپردیش ) میں اسکول اسسٹنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

انعامات :ڈسٹرکٹ بسٹ ٹیچر ایوارڈ ، اردو اکاڈمی بیسٹ ٹیچر ایوارڈ آندھراپردیش، کارنامے حیات 2021ء (یسیرؔکرنولی ) ، اردو اکادمی آندھراپردیش سے نوازے جاچکے ہیں اور رفیق اردو ، اردو ساہتیہ نویشی، بالا لا یستم جیسے خطابات عطا کیے گئے ہیں۔

فیضیؔ نے اپنے  جذبات و خیالات کے لیے نظموں کو بہترین ذریعہ بنایا ہے ۔ شروع شروع میں ان کی نظمیں روایتی انداز کی ہوتی تھیں مگر کڑپہ کے کئی جدیدلب و لہجہ کے شاعروں سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنی روش بدلی اور اپنے اطراف واکناف کے ماحول ، مسائل اور ہندوستانی عناصر کو اپنی نظموں کا موضوع بنایا ۔

پروفیسر ستار ساحرؔ،  فیضیؔکے شعری مجموعے ’’دھنک ‘‘ اور اس کے موضوعات کے متعلق اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :

’’قومی سطح پر آج جو خطرے مختلف صورتوں میں ظاہر ہو رہے ہیں انھیں مدِ نظر رکھتے ہوئے زیرِ مطالعہ مجموعے میں حب الوطنی قومی یکجہتی ، مذہبی رواداری ، بھائی چارگی ، امن دوستی ،اتحاد واتفاق، پیار و محبت، انسانیت ، اخلاقی بلندی ، تہذیب و شائستگی اور ایثار و قربانی جیسی آفاقی خوبیوں کی اہمیت و افادیت جتاتے ہوئے بچوں میں ان جذبات کو ابھارنے اور مذکورہ اوصاف کو نو نہالوں میں پیدا کرنے کے لیے ستار  فیضیؔ نے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے جوقابل، داد وصد تحسین ہے۔ ‘‘دھنک از ستار فیضیؔ2014ء،ص۔ 12

ستار فیضیؔایک با کمال استاد ہی نہیں بلکہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ ایک نثار بھی ہے صحافی بھی ہیں۔ لطیفہ گوبھی ہیں۔ ادیب، فنکار ڈرامہ نگار، ماہرِ تعلیم بھی ہیں۔ خصوصاً بچوں کے لیے کہی گئی نظمیں اس بات کی غماز ہیں کہ وہ طلباء کی ظاہری و باطنی نشو و نما کے قائل ہیں۔

نظم ’’میری مادری زبان ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

میرے بھارت کی شان ہے اردو/میرے دل کی زبان ہے اردو

زندہ تہذیب کی علامت ہے /ہند کی ترجمان ہے اردو

میر ؔ، غالبؔ، ظفرؔ ستارے ہیں/ضوفشاں آسماں ہے اردو

دل سے دل کو ملاتی ہے  فیضی/ؔعاشقوں کی زبان ہے اردو

ستارفیضیؔ اردو کے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے ہندوستانی زندگی کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ ان کا مقصد بچوں کو اپنی مادری زبان کے حسن اور اس کی شیرینی سے واقف کروانا ہے۔ نظم ’’اردو کے سپاہی ‘‘ کے چند اشعار پیش ہیں :

ہم نازش یکجہتی/ہم شان ترنگے کی

ہم جہل مٹادیں گے/ہم علم بڑھا دیں گے

ہم دیش کے پیارے ہیں/دھرتی کے ستارے ہیں

اردو کے سپاہی ہم /اسکو ل کے راہی ہم

ستارفیضیؔکی شاعری میں عصری زمانے کی زندگی جھلکتی ہے۔ عام لوگ فیضیؔ سے محبت کرتے ہیں تو پڑھے لکھے لوگ ان کی قدر کرتے ہیں ۔ معلومات کے حصول کے لیے اساتذہ کے بعد ’’کتب خانہ ‘‘ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ فیضیؔ اپنی نظم میں اس کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اس کو علم کی جان اور عقل کی کان کہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں چند اشعار دیکھیے :

علم سے رفعتیں /علم سے حکمتیں

ایکتا کا نشاں/ہر زبان کا مکاں

علم کا ہے نگر/یہ کتابوں کا گھر

’’سرو اسکھشا ابھیان ‘‘ کے متعلق فیضیؔ کہتے ہیں :

سروا سکھشا ابھیان /سارے بھارت کی ہے شان

ذہن چمکا علم سے ہے/دل بھی زندہ علم سے ہے

سچ بات تو یہ ہے کہ حقیقتیں اگر ٹھوس ہوں ،سوچنے کا انداز صحت مند اور تخلیقی قوت بے مثال اور ان سب کے پیچھے فکر کی ادبی و سماجی تہیں ایمانداری سے کام کررہی ہوں تو ادب ایسے تخلیق کار کے ذریعے زندگی کا آئینہ بنتا ہے۔

 ستار فیضیؔ کی نظم ’’ماں ‘‘ جس میں ایسے ہی جذبہ کو ابھارا گیا ہے ۔

ماں ترا جو نام ہے /شان کا مقام ہے

فاطمہؓ کا روپ تو /سیتا کا سوروپ تو

پیار کا دیا ہے تو /پیکر ِ حیا ہے تو

فیضیؔ نے ہر موسم کے عنوان سے الگ الگ نظمیں کہی ہیں۔وہ فطرت اور جذبات انسانی کے ہر پہلو کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ اپنی ہر چیز میں خیر ہی خیر نظر آتا ہے۔ نظم ’’موسم ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے :

یہ ہے میرا وطن /کیسا پیارا وطن

کتنی پیاری حسین /سونا اگلے زمین

ایسا موسم کہیں /ہم نے دیکھا نہیں

گنگا جمنا یہاں /شان سے ہیں رواں

مذکورہ بالا اشعار کے ذریعے قومیت اور وطنیت اور حب الوطنی کے شعور کو بیدار کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

نظم ’’برسات ‘‘میں موسم برسات کی دلفریبیوں کی سچی تصویر ملتی ہے اور روز مرہ کی زندگی میں جوواقعات پیش آتے ہیں ان میں جو رد و بدل ہوتا ہے ان سب کا بڑا ہی دلکش نقشہ پیش کیاگیا ہے۔ اس ضمن میں کچھ اشعار قابلِ غور ہیں :

دنیا کے سارے موسم انعام ہیں خدا کے/دن رات صبح کیا ہیں یہ شام ہیں خدا

بارش میں دیکھو ضدی بچے نہارے ہیں/کتنے مزے سے ننھے ژالے بھی کھا رہے ہیں

پانی میں چھوڑدینا کاغذ کی کشتیوں کو/ہم بھول کیسے جائیں یادوں کی مستیوں کو

موسم ہے بارشوں کا چھتری بھی ساتھ رکھنا/نزلہ زکام دستی بھی ساتھ رکھنا

سُر تال میں ہی دیکھو ںمینڈک بھی گار ہے ہیں /پھر رقص کو دکھانے مچھر بھی آرہے ہیں

آشوب چشم ہیضہ کھانسی بخار لے کر/امراض موسموں کے آئے قطار لے کر

رِم جھم برس کے بارش مسرور کر گئی ہے/فیضیؔ زمین کو یہ محسور کر گئی ہے

ہندوستانی عوام پر برسات کے موسم کی موج مستی کا کچھ الگ ہی رنگ ہوتا ہے۔ ان میں مصروف ہو کر کسی شخص کو دنیا کی خبریں نہیں رہتی لیکن ستار فیضیؔ کی نظر میںاس حسن میں بھی حقیقی جمال کو دیکھیے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ وہ کہتے ہیں :

موسم بدل بدل کر احساس دے رہے ہیں /پیغام اپنے رب کا اک خاص دے رہے ہیں

ٹپ ٹپ برس کے قطرے آواز دے رہے ہیں/خالق کی ذات کا اک یہ راز دے رہے ہیں

دیکھو گھٹا فلک سے رحمت لٹا رہے ہیں /قدرت حسین منظر سب کو دکھا رہی ہے

ستارفیضیؔ نے برسات کی عکاسی کی اور بیان کرنے میں کسی کو نظر انداز نہیں کیا۔ یہاں تک کہ موسم کی بیماریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ نظم گرمیاں آگئیں ‘‘ میں فیضیؔ نے موسم گرما میں عام آدمی پر کیا کچھ گزرتی ہے اور وہ کیا محسوس کرتا ہے اس کا نقشہ پیش کیا ہے ۔

 اس ضمن میں چند اشعار دیکھیے:

گرمیاں آگئیں ، گرمیاں آگئیں /جب سے اپریل مئی کے مہینے ملے

جسم و جاں سے ہمارے پسینہ بہا /خوب پنکھا چلا، ایر کولر چلا

آم ، تربوز، خربوز، کھایا کیے/لسّی، شربت بھی جم کر اڑایا کیے

گھنٹوں گھنٹوں سبھی کھیلتے کودتے/دوڑ کی شرطیں اور تیر کے مشغلے

سیر و تفریح کو مل کر ہم سب چلیں /موج مستی کریں دوستوں سے ملیں

گرمیوں میں سبھی گنگنا تے رہیں /اور فیضیؔ کی یہ نظم گاتے رہیں

فیضیؔ نے یہ بتایا ہے کہ آدمی کس کس طرح سے گرمی سے پریشاں اور بے حال ہوجاتا ہے۔ انھوں نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو پیش کیا ہے۔

نظم ’’سردی ‘‘ اس مختصر سی نظم میں فیضیؔ نے یہ محسوس کروانے کی کوشش کی ہے کہ سردی (جاڑے ) میں انسان کس طرح پریشان ہوتا ہے اور پھر سردی کا آنااور رات میں سردی کی سختیو ں میں مبتلا ہوناان سب کی ہو بہو تصویریں فیضیؔ نے اپنی نظم میں کی ہے۔ شدید جاڑے میں عام انسان کی کیا حالت ہوتی ہے اور اس پر اس کا کیا اثر پڑتا ہے ۔ ان سب کا ذکر اس طرح کرتے ہیں :

سردی کا جو آنا ہے /ہردل کا گھبرانا ہے

موزوں کو چڑھانا ہے /سردی سے گر بچنا ہے

انڈے ہم کو کھانا ہے /موسمی بھی لینا ہے

ننگے پاؤں نہ چلنا /مفلر سویٹر رکھنا ہے

نزلہ سے بھی بچنا ہے  /اکثر حدّت لینا ہے

گرمی کو بھی پانا ہے /پھل کا رس بھی لینا ہے

سردی گرمی سہنا ہے  /ہم کو بس جینا ہے

 فیضیؔ نے اپنی نظم ’’سردی ‘‘ میں جن اشاروں کی طرف نظر کی وہ سب انسانی زندگی میں شامل ہیں اور اس پس منظر کو بہت ہی صاف اور سادے الفاظ میں بیان کیا ہے جن کو انسان محسوس کرسکتا ہے۔

’’کھیل ‘‘ ستارفیضیؔ کی ایک خاص نظم ہے ۔ اس نظم میں مختلف ہندوستانی کھیل کو د اور اس کی کیفیت کو بڑی ہی خوبی سے پیش کیا ہے۔ ایسی منظر کشی کی ہے کہ نظم کو پڑھتے وقت کھیل کود کے سارے حالات نظر آنے لگتے ہیں اور طبیعت میں چستی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ نظم ملاحظہ ہو:

آنکھ مچولی ، گلی ڈنڈا/چور پولیس، اندھا بھینسا

لنگڑی گھوڑی کھیل ہمارا/باگھ بکری کھیل تمہارا

چور آیا ! چھپ جاؤ/سامنے کون ہے بتلاؤ !

آؤ کھیلیں ہم سب کھیل /چھک چھک چھک چھک کرتی ریل

اس طرح کی نظم ایک فطری شاعر ہی لکھ سکتا ہے جس کو عوام سے دلچسپی ہے ، جس نے ہندوستانی تہذیب ،عوام اور ان کے کھیل کود کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کو یہ احساس دلایا ہے کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ تہواروں سے متعلق لکھی گئی ان نظموں کا تعلق ان تمام پہلوؤں سے ہے جس میں عوام کا سکھ چین، دکھ درد سمویا ہوا ہے اور ان کے نزدیک تمام مذاہب ، تعلیمات انسان میں پیار اور محبت کا جذبہ پیدا کرنے میں مدددیتی ہیں اور عوام سے محبت کرنا اوران کے رنج وغم اور ان کی خوشی میں شریک ہونا سکھاتی ہیں ۔مذہب اور تہوارکے بارے میں ستار فیضیؔ کا یہی تصور ہے۔

فطرت نگاری کے سلسلے میں فیضیؔ کی سب سے پہلے وہ نظمیں آتی ہیں جو مختلف تہواروں اور تقریبوں پر مشتمل ہے۔ ان میں ہولی، اُگادی، عید الفطر، عید الالضحیٰ وغیرہ شامل ہیں۔ فیضیؔ ان سب سے اچھی طرح سے واقف ہیں اور ان کی ہو بہو تصویریں پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ ہولی کے رنگین تہوار نے ان کو بہت متاثر کیا ہے۔ ہولی ہندوؤں کا خاص تہوار ہے ۔ ہولی کا لطف عوام اور خواص دونوں جگہ ملتا ہے ۔ فیضیؔ کی نظموں میں حب الوطنی اور قومی یکجہتی کا احساس نمایاں نظر آتاہے۔

مثال کے طور پر نظم ’’ہولی ‘‘ کے چند اشعار پیش ہیں :

بھگوان کی دیا ہے /تہوار یہ دیا ہے

رمضان اور ہولی /کرسمس ہو یا دیوالی

دنیا میں سب ہماری /تہذیب ہے نرالی

ہرا ِک زبان بولی

اس طرح ان تہواروں اور تقریبوں کے ذریعے میل ، محبت ، مساوات ، ہمدردی اور رواداری کا درس ملتا ہے۔ یکجہتی کا جذبہ بیدار ہونے لگتاہے ۔ دوسرے کا غم اپنا غم دوسے کی خوشی اپنی خوشی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اس ضمن میں فیضیؔ لکھتے ہیں :

رشتوں کا میل دیکھو/رنگوں کا کھیل دیکھو

نمکین ہو یا کسیلا/میٹھا ہو یا کہ پھیکا

ہولی خوشی کولاتی /ہر دل کو یوں لبھاتی

فیضیؔ ایک جگہ ہولی کے اس منظر کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں رنگ کھیلنے والے جب کھیلتے کھیلتے بہت جوش و جنون میں آجاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں :

کرتے ہیں موج مستی/جھو میں ہیں شہر بستی

رنگوں کا یہ چھڑکنا /ماحول کا مہکنا

پچکاریاں چلی ہیں /گلکاریاں ہوئی ہے

ہے نقش ایسا دل پر/کیا خوب ہے یہ منظر

اُگادی ہندوؤں کا ایک مقدس تہوار ہے ۔ مذہبی نقطہ نظر سے اس کی اہمیت مسلم ہے ۔ یہ تلگو کا نیا سال ہے۔ اس اس دن خاص کر ’’اگادی پچّھڑی‘‘ بنائی جاتی ہے جس میں میٹھا، نمکین کسیلاملایا جاتا ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اس کو اس دن چکھنے سے انسان سال بھر کے حالا ت پر قابو پالیتا ہے ۔ اس لیے اس دن تحفہ کے طور پر ہرآنے والے کو پیش کیا جاتا ہے۔

ستار فیضیؔ کی نظم ’’اگادی ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے :

نئے سال کا ہے یہ تہوار اگادی /مسرت خوشی کی تمازت بڑھادی

یہ میٹھا کسیلا یہ نمکین تحفہ /یہ جیون کے رنگوں کا رنگین تحفہ

محبت کے رسم و رواجوں کی دھرتی /یہ ویروں کی سادہ مزاجوں کی دھرتی

ان نظموں میں ہندوستانی وعوام کا عکس موجودہ ہے اور یہ ہندوستانی تہذیب اور تمدن کی پوری نمائندگی کرتی ہے۔ نظم ’’رمضان ‘‘ میں ستا ر فیضیؔ نے رمضان کے مہینے اور اس کی فضیلت اور مسلمانوں کے تقویٰ کا ذکر بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔ نظم ملاحظہ کیجیے :

ہر پل عبادتوں میں /ہر پل ریاضتوں میں

ہر صبح و شام تیرا /گونجے ہے نام تیرا

برکت کا قافلہ ہے /روزوں کا سلسلہ ہے

رمضان کی عطا ہے /مقبول ہر دعا ہے

اپنی نظموں میں عوام کی خوشی اور ان کے جذبات اور عقیدے کا اظہار بہت گہرے انداز میں کیا ہے جو قابلِ قدر ہے۔

کورونا وباء جو ہمارے ملک ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ سارے عالم میں عالمی وباء بن کر پھیلی جس کی زد میں ہر خوشی مجروح ہوئی۔ اس ضمن میں ان کی نظم ’’عید الالضحیٰ ‘‘ کا ایک بند ملاحظہ کیجیے :

پریشانی مصائب ساتھ میں ہیں اور رنج و غم /یہاں حالات رنجیدہ سبھی آنکھ ہیں نم

کہ ابراہیم ؓ کی سنت ہمیں بھی عام کرنا ہے /ہدایت دے ہمیں مولیٰ کہ قربانی کو سمجھیں ہم

فیضیؔ عوامی زندگی کا نقشہ اس طرح سے کھینچتے ہیں کہ پڑھنے والا خود بہ خود اس سے متاثر ہو جاتا ہے اور اس سے اثر قبول کرنے لگتا ہے ۔ وباء کے زمانے میں ہندوستانی عوام نے عید منائی لیکن ان کے اندر موت کا خوف غالب رہا جس کے تحت لذتِ عید سے محروم رہے۔ نظم کا بند ملاحظہ ہو :

وباء میں عیدکیسی ہے خوشی ہے نا مسرت ہے /خدایا موت کے ڈر سے عبادت میں نہ لذت ہے

دماغوں میں دلوں میں جنگ جاری کب سے ہے فیضیؔ/نجات زیست کو تیری شفا ہے اور رحمت ہے

’’ترنگا ہمارا ، یہ دیش ہمارا، بھارت میرا مہان اور ایکتا کی دھرتی ‘‘ میں حب الوطنی کے جذبات کا ایک امڈتا دریا نظر آئے گا اور یکجہتی کے یہ اشعار اس کیفیت کا واضح اشارہ ہیں۔ نظم ’’یہ دیش ہمارا ‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں ہندوستان اور اس کی تاریخی عمارات کا ذکر بڑی شان و شوکت کے ساتھ کیا گیا ہے۔

جو کوہ ہمالہ ہے /اک اونچا شوالہ ہے

یہ لال قلعہ دیکھو/مغلوں سے ملا دیکھو

یہ تاج محل اپنا /جھومر ہے یہ مرمر کا

مسجد ہے مناد رہیں /روحانی مناظر ہیں

گنبد ہیں منارے ہیں/بھارت کو سنوارے ہیں

ہر پھولوں کا گلشن ہے / یکجہتی کا ثبوت ہے

فیضیؔ کی یہ دھرتی یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہمارے دیش میں کشمیر کی وادی ہے۔ گنگا کا استعمال علامت کے طور پر کیا گیا ہے اور ہندوستان کو ساری دنیا کے لیے پیار کاسپنہ کہا ہے۔

اگر یہ بات تسلیم کی جائے کہ ہندو تہواروں پر جتنی بھی نظمیں فیضیؔ نے لکھی ہیں وہ سب ان کی فطرت نگاری کو ظاہر کرتی ہیں تو دوسری طرف ان کی عوا م میں دلچسپی دیتی ہیںاور بے تعصبی اور ہمدردی اور بھائی چارگی کا سبق بھی دیتی ہیں۔ انھوں نے ہندوستانی زبان ، کھیلوں ، تقریبات، تہوار اور مذہبی رسم و رواج اور مختلف مذاہب کے اوتاروں کی عظمت ، ہندوستانی پھل، پھول، جانوروں پر ندوں ، ہمارے قومی رہنماؤں پر موصوف کی نظمیں ’’ہندوستان کی جنگ آزادی میں ان کی مسلسل کوششوں ، قربانیوں اور رہنماؤں کی گویا مختصر داستان ہے ۔ دراصل ان نظموں کے ذریعے عوام کے دلوں میں ہندوستانی عظیم ہستیوں کی عظمت کا سکہ بٹھانا چاہتے ہیں ۔چوں کہ یہ بہت اچھی اور نیک کوشش ہے اس لیے جس قدر سراہی جائے کم ہے۔

 مجموعی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فیضیؔ اپنی شاعری میں تہواروں اور تقریبوں کے ذریعے آپس میں مل جل بڑھانا اور آپسی تعلقات استوار کروانا چاہتے ہیں کیونکہ انسان تنہائی کی زندگی سے گھبراتا ہے اور متحد ہو کر رہنے میں روحانی مسرت محسوس کرتا ہے۔

الغرض نظیرؔ اکبر آبادی کا راستہ اختیار کرنے والے شاعر ستار فیضیؔ بہت جلد اردو ادب کی دنیا میں اپنی الگ پہچان بناتے ہوئے روشن ستارے کے مانند چمک اٹھیں گے۔ آخر میں فیضیؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو :

فخر ہے یکجہتی کو ہم پر /اپنا وطن دنیا میں حسین تر

کتابیات

1۔دھنک (شعری مجموعہ )، ستارفیضیؔ۔2014

2۔اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب، گوپی چند نارنگ ۔2002ء جولائی

3۔قومی یکجہتی ایک مطالعہ اور تجزیہ ،ڈاکٹر ابو سفیان ۔ 2015ء

٭٭٭

Leave a Reply