ڈاکٹر سعدیہ سنبل
شعبہ فارسی ،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ
سلطنت قطب شاہی کے سخنوران فارسی
سلاطین بہمنیہ کا عہد حکومت اکثر کشور کشائی ،تسخیر ملک اور امن و امان قائم کرنے میں صرف ہوا لیکن اس کے باوجود انہوں نے علوم و فنون کی آبیاری کی اور شمالی ہند کے خلجی و تغلق کی علمی و ادبی روایات کو فروغ دیا ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا دربار ادباء و شعراء وفلسفی وماہر فلکیات ومورخ وصوفی جیسے ارباب کمال و ہنر کا گہوارہ بن گیا۔سلاطین بہمنیہ کے زوال پذیر ہونے کے بعد برید شاہی، عماد شاہی، قطب شاہی، عادل شاہی اور نظام شاہی حکومتوں میں منقسم ہوگئی ان تمام حکومتوں نے اپنے اپنے علاقوںمیں فارسی زبان و ادب کو جلا بخشی ۔ خصوصاًسلاطین بہمنی کے بعد سلاطین قطب شاہی نے فارسی زبان وادب کی خو ب آبیاری کی،اسی سبب اندورن و بیرون ملک سے اصحاب علم وفن اپنی جو لا نیا ں دیکھا نے کے لئے اس دیا ر فن میں آئے۔ قطب شاہی نہ صرف علماء و فضلاء وشعرء او مشایخ کے سر پرست تھے بلکہ یہ بادشاہ خو د بھی صاحب علم و ہنر تھے
ان کے عہد میں دکن میں فارسی کا دور دور ہ عر صہ دازتک رہا انھوںنے فارسی زبان کو فروع دیا اور فارسی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جس کی وجہ سے دکن مین فارسی زبان کا رواج عام ہوتا چلاگیا۔ اس کی اصل وجہ سلا طین کی حو صلہ افزائی و تشویق سرپرستی بھی تھی دیگر ممالک کے اصحاب علم وفضل و ہنرمندان نے قطب شاہی دربار کو ایرانی دربار کا نمونہ بنا دیا۔ ان نو واردین علماء و فضلاء وشعراء و ادباء نے دکن کو اپنا مسکن ثانی بنا کر فارسی زبان وادب کی جملہ اصناف کاملہ ، تاریخ ، انشاپردازی ، شا عری ،مذ ہبی رواداری ، صو فیا نہ عقا ئد وادب کو تر قی کی راہ پر گا مز ن کیا ۔
رعایا کی تعلیم پر خاص تو جہ دی تمام اہم علمی مر اکز میں مدار س و مکاتب وکتب خانہ کا قیام عمل میں آیا تعلیمی سرگرمیاںو اخراجات کے لئے سلاطین کی طرف سے جا گیر یں وقف کی گئیں ، ان سلا طین کی روشن خیالی اور علم پروری نے ہندوستان کو بیش قیمتی علمی، ادبی اور تہذ بی روثہ بخشا ،اس سلطنت نے نہ صرف ایرانی سے آنے والے اہل ہنر کی سرپرستی کی بلکہ خوددکن میں فارسی داں موجودتھے جو اپنی فارسی دانی سے اد بیات گلستان فارسی کو نئے نئے گل و بوٹوںسے آراستہ کر رہے تھے۔ جیسا کہ قطب شاہ کے ضمن میں صاحب تاریخ قطب شاہی حیدر آباد کی تعریف ان الفاظ میں رقم کرتے ہیں:
’’این شھر فرخندہ اثر فضلای زمان و منزل مسافران جھان و مسکن و ماوای اکابران و عیان بہ گردد و کثرت خلق دوفو بدائع و صنائع بدرجہ انجامید‘‘۱
میر محمد مو من استرآبادی:
میر محمد مو من استر آباد سے دکن آئے علمی فضلیت کے ساتھ با کمال صاحب دیوان شاعر تھے ،محمد قلی قطب شاہ کی مد ح میں بیشتر قصائدکہے ۔ میرصاحب محمد قطب شاہ کے عہد کے ممتاز شعراء میں شمار کئے جاتے تھے ذیل کی رباعی میں محمد قطب شاہ کے اوصاف قلمبند کئے ہیںـ:
با محبت نیاز بستم عھد و پیمان توئی
کھنہ حالی می فشانم پیش جانان توئی
خستہ جانم کنہ لیکن جان فشانم تازہ توئی
عھد سلطان تو است و عھد فرمان توئی۲
محمد مو من نے ایک رسالہ اوزان جو کہ عروض محمد مومن کے نام سے جانا جاتا ہے، یہ رسالہ بھی محمدمو من نے قلی قطب شاہ کے نام معنون کیا ۔اس کے علا وہ رسالہ مقداریہ علم طب پر ہے اس کا خطی نسخہ کتا نجانہ آصفیہ میں مو جو د ہے،کتا ب حجت نثر میں تحریر فر ما ئی، فن عر وض میں رسالہ مغربیہ کے عنو ان سے تحریر فرمایا، اس کانسخہ کتا نجانہ آصفیہ میں محفوط ہے،اختیا رات قطب شاہی اس کا نسخہ کتاب خانہ سالا رجنگ میں مو جو د ہے اور آپ کا دیو ان جو غز لیات، رباعیات، قصائدو مراثی پر مشتمل ہے، انڈ یا آفس میںمحفوظ ہے ۔صاحب تاریخ قطب شاہی آپ کے ضمن میںرقم کرتے ہیں:
’’این میر محمد مو من ازامرای قطب شاھی است ازعھد محمد قلی قطب شاہ از ند ماء شعرای با نام بود تا عھد سلطان عبد اﷲ قطب شاہ در قید حیا ت بودودر علم تسخیر بد ر کہ کمال داشت ودر اکثر علوم عر بیہ فضایلی وکما لات او مشھور و دائرہ خود در بلدہ حید ر آ باد وقف قبو ر خاص وعام کردہ لھٰذا دائرہ اوبد ائرہ میر مشھور است‘‘۳
امیر محمد شر یف وقو عی :
امیر محمد شریف کا تعلق نیشاپو ر سے تھا فن شعر میں مہارت رکھتے تھے،آپ کے تعلقات خا نخاناں سے بھی بہت وسیع تھے، جمشید قلی قطب شاہ نے بے شمار عنایات واحسانات کئے اور ملک الشعراء کا خطاب عطاہو کیا ۔ ۱۵۹۳ء میں آپ نے لا ہور میں وفات پائی۔ آپ صاحب دیوان شاعر ہیں لیکن دست زمانہ سے محفوظ نہ رہ سکا۔ آپ کے متفرق ابیات تذکر وں میں پائے جاتے ہیں ذیل میں ایک رباعی جس کو صاحب خزانہ عا مر ہ نے قلمبندکی ہے نظر کی جاتی ہے :
ای بزم ترا در وی ساغر خور شید
وی عیش ثبت کیشدہ دربر خور شید
گر فضلۂ خاک آستا نت نشدی
چو ن ظلمت شب شدی مکدر خور شید۴
وقوعی تا ریخ نویسی میں بھی مہا رت فو ق العادہ رکھتے تھے آپ نے ابر اہیم قلی قطب شاہ کی فر ما ئش پر ایک ضخیم تاریخ مجمع الا خبار یا نجم الا خبار تحریر فر ما ئی یہ ایک عمو می تا ریخ ہے صاحب خزانہ عامر ہ آپ کے متعلق یو ں رقم کرتے ہیں :
’’در شعروتاریخ دانی وخوش نو یسی ید طو لیٰ داشت‘‘ ۵
اور اس تاریخ کے متعلق پروفیسر داور صاحب رقمطراز ہیں:
“A comprehensive general history of the muslim world written at the behest of Ibrahim Qutub Shah”6
میر تقی الد ین میر شاہ :
میر شاہ شمالی ہند سے دکن میںابراہیم قطب شاہ کے عہد حکومت آئے، ابر اہیم قطب شاہ نے آپ کی بڑ ی قدرو منز لت کی اور وکیل السلطنت کی اعلیٰ منصب پر فا ئز کیا ۔ آپ فن حر ب میں مہارت کا ملہ رکھتے تھے، شعری سخن سنجیاں کمال کی تھیں جیسا کہ صاحب تحفتہ الکر ام نے آپ کے متعلق قلمبند کیا ہے :
’’در بدو حال بہ کسب فضل وکمال توجہ فر مو دہ بہ ھند ودکن وارد گر د ید د ر نزد ابراھیم قطب شاہ بہ وکالت رسید و مد تی بآن گذرایندہ چون محمد قلی قلب شاہ بانی مبانی ملک داری شد سعایت محاندی مغردلش گردانید پس رخصت بیت اﷲ
گر فت ودرآن سفر در گذ شت ۔۔نظم بر جستہ علاوہ وفور افضل میگفت‘‘۷
محمد امین شہر ستا نی :
مر زامحمد امین شہر ستانی، اصفہان کے ایک معزز خاند ان سے تعلق رکھتے تھے ۔۱۶۰۱ء میں ہندوستان آئے اور محمدقلی قطب شاہ کے دربار سے وابستہ ہو گئے۔ جلد ہی تر قی کر کے میرجملہ کے ممتاز تر ین عہدے پر فائزہوئے،یہاں سے مغلیہ سلطنت میں آئے ،دربار شاہ جہانی میںرسائی حاصل کی اور میر بخشی کے عہد ے پر آپ کا تقررہواآپ نے ۱۶۳۷ء میں وفات پائی۔ فارسی کے بڑ ے شاعر تھے اور روح الامین تخلص کر تے تھے ، غز لیات کا ایک دیوان مر تب کیا جوآج بھی مو جو د ہے اور گلستان ناز کے نام سے موسوم ہے ۔آپ نے متعدد تصا نیف اپنی یا دگار چھوڑی ہیں ، محمدقلی قطب شاہ کے لئے خمسہ نظامی کے تتبع میں پانچ مثنویاں نظم کیں ہے ،جن میں جواہر کلام،شیرین خسرو،مطح،لیلیٰ و مجنوںاورآسمان ہشتم شامل ہیں۔
شیخ محمد صفی ؔشیر ازی :
سلطان محمد قلی قطب شاہ کے عہد حکومت میں شیر از سے دکن آئے سلطان نے آپ کی بڑی حوصلہ افزائی کی، شاہی ملا ز مین میں شامل ہو ئے اور دفتر محا سبی میں میر منشی کے عہد ے پر متمکن ہو ئے۔ آپ نہایت خوش خلق ،صاحب علم و ہنر تھے، خاص کر علم ریا ضی میں مہا رت کاملہ رکھتے تھے۔ ۱۵۷۱ء میں بمقام حیدر آباد وفات پائی، دائرئہ میر میںمدفون ہوئے۔عربی و فارسی کے عالم ہونے کے ساتھ فن شاعری میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے شعری کلام کا نمونہ حسب ذیل ہے۔
رخسار تو مصحفی است بی سھو وغلط
کنش کلک فضا نو شت از مشک فقط۸
فر ح اﷲ شو ستری :
محمد قلی قطب شاہ کی زرپا شیو ں کا شہر ہ سن کر ایران سے دکن آئے، بادشاہ مذکورنے آپ کی بڑی قدر دانی کی عربی وفارسی دونو ں زبانوںمیں شعر کہتے بذلہ سنجی ،معانی آفرین میں عبور کے باعث شہرت کے حامل تھے اور میر زاصائب تبریزی کے معاصرین میں شمار ہوتے ،۱۶۰۱ء میں وفات پائی ۔آپ صاحب د یو ان شاعر تھے نمونہ کلام ذیل میں نقل کیا گیاہے:
در ھو ای بادۂ گلر نگ بی تا بیم ما
سالھا شد کز ھو اداران این آبیم ما۹
قبا د بیگ کو کبی:
شاہ عباس صفوی کے ملاز مین میںشامل تھے ، ان کے علم ،فصل وکمال کا یہ عالم تھا کہ شاہ موصوف کبھی اپنے سے دور نہیں ہو نے دیتے۔ ہندوستان کی بزم آرائیوںکا چرچہ سن کر ایر ان سے دکن آئے اور قطب شاہ کے در بار میں باریابی کا شر ف حا صل ہوا ،منصب جلیلہ پر آپ فائز ہوئے آپ مد ت العمر حید ر آباد میں ہی مقیم رہے ۱۶۲۳ء میں وفات پائی ۔
وحشی کا شانی :
آپ ایران سے ہند وستان آئے اور یہاں کے مختلف علاقوں کی سیر و سیا حت کے بعد گو لکنڈ ہ تشریف لے گئے۔ اس وقت یہا ں عبداﷲ قطب شاہ تخت شاہی پر جلوہ افروز تھا، بادشاہ نے ان کی بڑی قدر دانی کی۔ مشہورزمانہ عالم و فاضل وشعرا کے زمرے میں آپ کا شمار ہو تا ہے، فن شاعر ی میں محتشم کا شانی سے کسب فیض حاصل کیا۔ غزل گوئی میں وہ نام پیدا کیا کہ تمام ایر ان میں آپ کی غزل گوئی کی شہرت پھیل گئی اور تاعمر فقط صنف غزل کے علاوہ کسی اور صنف میں طبع آزمائی نہیں کی ۔آپ کے کلام میںند رت،دلکشی ،معانی آفرینی ،رنگینی اورتازہ بیانی پائی جاتی ہے،جو سبک ہندی کا خاصہ ہے۔
مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عہد وسطیٰ میں سلطنت قطب شاہی نے فارسی زبان و ادب کو بام عروج پر پہنچایااور نہ فقط ہندوستان بلکہ دیگرممالک خصوصاً ایران سے آئے ہوئے علماء و فضلاء و شعراء نے وہ لازوال علمی سرمایہ عطا کیا جو رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور فارسی زبان و ادب سے تعلق رکھنے والے اصحاب ذوق اس سے مستفید ہوتے رہیںگے۔
کتایبات
۱۔ احمد ، سید برہان الدین،تاریخ قطب شاہی،ص ۲۷،حیدر آباد، دکن ۱۳۰۶ھ
۲۔ ایضاً،ص۱۶۔۱۵
۳۔ ایضاً،ص۲۷
۴۔ آزاد ،غلام علی ،تذکرہ خزانہ عامرہ،ص۴۳، مطبع نولکشور،کانپور۱۸۷۱ء
۵۔ ایضاً
۶۔ داور،ٹی ۔این، اے شوٹ اسٹوری اف پرشین لٹریچر،ص۲۷۳،نئی دلی ،منوہر پبلیشر،۱۹۱۶ء
۷۔ تتوی م،میر علی شیر قانع ،تذکرہ تحفۃ الکرام،ص ۲۳۸،تصحیح و تحشیہ سید حسام الدین راشدی،انجمن ادبی ،حیدرآباد، سندھ ۱۹۱۷ء
۸۔ گوہر ،محمد منور،تذکرہ سخنوان بلند فکر، ص ۱۴ دکن پریس ،مدارس ،۱۹۳۶ء
۹۔ ایضاً
***