ڈاکٹر رضوان الحق
اسسٹنٹ پروفیسر، اردو
این سی ای آر ٹی، نئی دہلی
سید محمد اشرف اور نئی تخلیقی کشمکش
تلخیص:
اس مقالے میں ہمارے زمانے کے نہایت اہم فکشن نگار سید محمد اشرف کے حال ہی میں شائع ایک ناول ضیغم سرخ کے ایک باب پر گفتگو کی گئی۔ اس میں بچپن اور اس کے کھیلوں کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، کھیل کھیل میں محبت کی نمود بھی لا شعوری طور پر ہونے لگتی ہے۔ پھر ۲۰۱۶ میں شائع ان کے ناول آخری سواریاں پر بھی گفتگو کی گئی ہے پھر بیسویں صدی میں ان کے شائع ہوئے ناولوں سے نئے ناولوں کا تقابل بھی کیا گیا ہے اور ان کی ترجیحات و شعریات میں تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے بعد ان کے حال میں شائع دو افسانوں ’غالب کے ساتھ ایک سہ پہر‘ اور ’دروازے‘ کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ یہ افسانے ان کے بیسویں صدی میں شائع افسانوں سے کس طرح مختلف ہیں؟ اس پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر اس مقالے میں سید محمد اشرف کی نئی تخلیقات میں علامتوں، تمثیلوں اور بین السطور وغیرہ کا استعمال کم ہوا ہے اور نثر میں زیادہ روانی ہے لیکن معنوی تہہ داری کم ہے، زبان کا طلسم اور ابہام بھی کم ہوا ہے۔
سید محمد اشرف اور نئی تخلیقی کشمکش
سید محمد اشرف ہمارے زمانے کے اہم ترین فکشن نگاروں میں سے ایک ہیں، ان کا نام اردو فکشن کی روایت میں اسی طرح معتبر ہے، جیسے پریم چند، منٹو، بیدی، قرۃالعین حیدر، عبداﷲ حسین، انتظار حسین اور نیر مسعود وغیرہ کا۔ لیکن اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی انھوںنے فکشن لکھنا بہت کم کر دیا تھا۔ ایک ناول ’آخری سواریاں‘ اور شاید پانچ چھ افسانے، اکیسویں صدی میں اب تک ان کا کل اثاثہ ہیں۔ لیکن حال ہی میں شائع ہوئے اثبات کے شمارہ نمبر ۳۵ میں ان کے دو افسانے اور ناول کے ایک باب کے ساتھ انھوںنے فکشن نگاری میں بھر پور واپسی کی ہے، یہ واپسی نہ صرف سید محمد اشرف بلکہ اردو فکشن کے لیے بڑا خوش گوار لمحہ ہے۔
ان تین نئی تخلیقات میں سب سے پہلے بات کرتے ہیں ان کے ناول ’ضیغم سرخ‘ کے پہلے باب کی۔ اس سے قبل بھی ان کے دو ناولوں ’میر امن قصہ سنو‘ اور ’مردار خور‘ کے کچھ حصے شائع ہوئے تھے لیکن دو دہائیاں گزر جانے کے باوجود اب تک وہ شائع نہ ہو سکے۔ اس لیے ’ضیغم سرخ‘ کے بارے میں پہلی بات تو یہی کہنا چاہوںگا کہ میری نیک خواہشات ہیں کہ یہ ناول تکمیل کو پہنچے اور جلد از جلد مکمل ہو کر شائع ہو جائے کہ ان کی ہر تخلیق اردو ادب کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ وہ بہت مصروف شخص ہیں، ان کی مصروفیتیں بھی محض ذاتی کاموں کے لیے نہیں بلکہ بیشتر تعلیمی و فلاحی کاموں کے لیے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ وہ ان فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ اپنے فکشن کو بھی تھوڑا وقت دے سکیں، سید محمد اشرف جس طرح کا فکشن لکھتے ہیں وہ انسانی خدمت بھی ہے، ان کے فکشن سے انسانی تجربے کو وسعت اور انسانی مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ساتھ ہی زندگی کرنے کا سلیقہ بھی ملتا ہے۔
’ضیغم سرخ‘ ناول میں اشرف کی زبان و بیان کا وہی عالم ہے جو ان کی سابقہ شناخت تھی بلکہ شاید کچھ مزید پختگی بھی آئی ہے۔ ناول کے پہلے باب میں بچپن کی زندگی کو ایک بار پھر بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ سید محمد اشرف کے کئی ناولوں اور افسانوں میں بچپن کی زندگی کی بڑی اہمیت دی گئی ہے، اور دینی بھی چاہیے کہ بچپن صرف بچوں کے لیے نہیں ہوتا ہے، بلوغت میں بھی وہ ہمارے ساتھ یادوں میں سفر کرتا ہے اور حال کو متاثر بھی کرتا ہے۔ ’ضیغم سرخ‘ کے اس باب نے ان کے پچھلے ناول ’آخری سواریاں‘ کی خاص طور سے یاد دلا دی، جس میں بچپن کے بڑے دلچسپ واقعے بیان کیے گئے تھے۔ اس ناول میں بھی وہی صورت حال ہے، کئی بہت دلچسپ واقعات کو بہت رواں دواں اور شفاف بیانیہ کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔ لیجیے ایک اقتباس آپ بھی ملاحظہ کیجیے۔
“زینب سعدی کی آنکھوں میں کچھ دیکھتی رہی، پھر نگاہیں جھکا کر واپس گھوم گئی اور تانگے کے پائے دان پر چڑھ کر اپنی ماں کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گئی۔ جب تانگہ سعدی کے کمپائونڈ کی روشنی سے دور ہوا تو سعدی نے دیکھا کہ تانگے کے پہلو میں ایک بڑی سی لال ٹین روشن ہے۔ کچھ دیر تک تانگہ نظر آتا رہا پھر تانگہ نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ بس وہ روشنی آہستہ آہستہ دور جاتی نظر آتی رہی۔‘‘ ۱؎
اگر غور کیا جائے تو ضیغم سرخ بنیادی طور پر تہذیب و ثقافت کا بیانیہ ہے، یہ تہذیب اب بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ ناول میں انسان کے اجتماعی حافظہ کے تجربے بھی بہت اہم ہیں اور وہ کھیل جن کی ہزاروں سال کی روایت ہے، اب موبائل، ٹی وی وغیرہ کے چلتے ہم سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ موبائل ٹی وی کبھی بھی ہمارے کھیل کے متبادل نہیں ہو سکتے، کھیل کے ذریعے بچوں کی نہ صرف صحت مند زندگی کی بنیاد پڑتی ہے بلکہ بچے ہاتھ، پیر اور ذہن کی مختلف مہارتوں کو سیکھتے ہیں۔ سید محمد اشرف نے اس ناول کے ذریعے بچپن کے ان کھیلوں اور یادوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ شاید مستقبل میں ان کھیلوں کو کوئی کھیلے یا نہ کھیلے، انھیں کوئی یاد رکھے یا نہ رکھے لیکن اس ناول کے ذریعے وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گئے ہیں۔ ناول کے اس باب میں بچپن کی یادیں، رشتوں کی کشمکش اور بچپن کی نفسیات کو بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ بچپن کے تجربوں کو اشرف نے ’ڈار سے بچھڑے‘ اور ’تلاش رنگ رائیگاں‘ میں بھی بہت عمدہ طریقے سے بیان کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے آخری سواریاں اور ضیغم سرخ میں ان واقعات کو محفوظ کرنے کے لیے بیان کیا گیا ہے، جبکہ تلاش رنگ رائیگاں اور ڈار سے بچھڑے میں بچپن کی یادیں زندگی کی رنگا رنگی، کشاکش اور تخلیقی وفور سے نکلتی محسوس ہوئی تھیں۔ امید کرنی چاہیے کہ ضیغم سرخ میں بھی تخلیقی وفور اسی طرح موجود ہوگا اور اس ناول میں بھی سید محمد اشرف کی وہ خاص تخلیقیت جو ان کی شناخت ہے، آگے کے ابواب میں موجود ہوگی۔
اس سے قبل ۲۰۱۶ میں سید محمد اشرف کا ناول ‘آخری سواریاں‘ شائع ہوا تھا، یہ ناول اس مشترکہ تہذیب خاص طور سے جسے گنگا جمنی تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس کے زوال پر مبنی ہے، اور اسے آخری سواریوں کے طور پر تمثیلی شکل میں بیان کیا گیا ہے۔ اس ناول ایک کا اقتباس ملاحظہ ہو:
“وہ دیکھیے سامنے والی سواری میں ٹوٹی ہوئی محرابیں اور کنگورے لدے ہیں۔ ان کے پیچھے والی سواری میں کٹائو دار در اور نقشین دریچے ہیں۔ منار اور گنبدوں کی سواری پیچھے آ رہی ہے۔ اور یہ جو سامنے سے سواری گزر رہی ہے، اس میں سنگھار دان، سرمہ دانی، خاص دان، پان دان اور عطر دانوں کا انبار ہے۔ اس کے ٹھیک پیچھے والی سواری میں عماموں، کلف دار ٹوپیوں، خرقوں، جبوں، اور عبائوں کے گٹھر لدے ہیں۔ ان کے پیچھے طوطوں اور مینائوں کے پنجروں کی سواریاں ہیں۔ وہ ایک جو سجی ہوئی سواری ہے اس میں عطر کی شیشیاں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے پیچھے جو سواری ہے اس میں منہ سے پھونکنے والے اور ہاتھ سے بجانے والے موسیقی کے آلات ہیں۔ اور … اف! دیکھو یہ جو بالکل ہمارے پاس سے سواری گزری ہے، اس میں مثنویوں، قصیدوں، مرثیوں، رباعیوں، بارہ ماسوں، قصوں، کتھائوں اور داستانوں کے دفتر کے دفتر کتنے پھوہڑ انداز میں لاد رکھے ہیں۔ خطاطی کے بیش قیمت نمونے قدم قدم پر زمیں پہ گرتے جا رہے ہیں۔‘‘ ۲؎
یہ ناول ہماری تیزی سے بدلتی زندگی اور پرانی تہذیب کے ختم ہونے کا نوحہ ہے، وہ روایتیں جو ہزاروں سال سے ہماری زندگی کا حصہ تھیں وہ اب ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ زندگی کے نئے اقدار وجود میں آ رہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں ایک امید ہے کہ ان جاتی ہوئی آخری سواریوں میں ہی کوئی سواری واپس آئے گی، اسی طور پر نہ سہی کسی اور شکل میں، یہ سب ختم ہو رہا ہے دیکھیں ہم کیا کیا بچا پاتے ہیں۔
اثبات میں شائع ’غالب کے ساتھ ایک سہ پہر‘ پڑھ کر شمس الرحمن فاروقی کا افسانہ غالب افسانہ فوراً یاد آ گیا، دونوں افسانوں کا موضوع غالب سے ایک ملاقات ہی ہے۔ فاروقی صاحب کا غالب افسانہ طویل تھا، اس لیے اس میں کچھ دیگر پہلو بھی تھے، اور دونوں مرکزی کرداروں کی وجودی شخصیت بھی نمایاں تھی، جس سے افسانے کی ایک فضا قائم ہو گئی تھی۔ غالب ہمارے ایسے شاعر ہیں کہ ان کی ہر بات میں ایک ادا ہوتی ہے اور ہم ان کا نام سنتے ہی کچھ بہتر سننے یا پڑھنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں اگر یہ گفتگو سید محمد اشرف کی زبانی ہو تو تجسس اور بڑھ جاتا ہے۔ غالب کے ساتھ ایک سہ پہر یقینا ایک بہت دلچسپ ملاقات ہے۔ سید محمد اشرف نے غالب کے ساتھ ملاقات میں آداب نشست و برخاست کا پورا خیال رکھا ہے۔ اور موقع و محل کے اعتبار سے سید مقبول عالم کی شوخی بھی موجود ہے۔
“غالب کے چہرے پر ایک ذرا سرخی آ گئی اور خفیف سے تبسم کے ساتھ شفقت بھری نگاہ سے نوجوان مسافر کو دیکھا جو مارہرہ کے بزرگ صوفی زیدی سادات کے گھرانے کے چشم و چراغ حضرت صاحب عالم صاحب کا بیٹا ہے، جنھیں وہ پیر و مرشد کہہ کر اپنے خطوط میں یاد کرتے ہیں۔‘‘ ۳؎
عبدالغفور کے نام غالب کے خطوط ہم سب نے پڑھے ہیں لیکن ان کے مارہرہ سے تعلق کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں۔ آموں سے غالب کو خاص رغبت تھی اس افسانے سے بھی یہ بات بھی نمایاں ہے۔ مجموعی طور پر غالب سے ملاقات دلچسپ ہے۔ لیکن یہ افسانہ غالب کے ساتھ ایک سہ پہر ہے، اسے پڑھ کر غالب کی شخصیت یا ان کی زندگی کے ایک نئے پہلو کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، اسے زیادہ افسانہ بنانے کی سئی نظر نہیں آتی، اس لیے اس میں افسانوی عناصر زیادہ نہیں ہیں۔ ممکن ہے سید محمد اشرف نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہو کہ ملاقات آخر ملاقات ہی رہے افسانہ بن کر نہ رہ جائے تو بہتر ہے۔
’دروازے‘ سید محمد اشرف کا ایک بہت اچھا افسانہ ہے، جس میں گزشتہ زمانے کی محبتوں کی ایک بڑی پر کیف اور المیہ داستان ہے۔ اس افسانے نے کسی حد تک اشرف کے کچھ پرانے افسانوں کی یاد دلا دی، اور لگا کہ ہم انھیں سید محمد اشرف کا افسانہ پڑھ رہے ہیں جن کے ہر افسانے میں ایک طلسم ہوتا تھا، جسے پڑھ کر ایک انبساط تو حاصل ہوتی ہے لیکن طلسم کبھی ختم نہیں ہوتا تھا۔ اس افسانے کے بیانیہ میں کسی حد تک رمز بھی باقی ہے، محبت کی کہانیاں اشرف نے پہلے بھی لکھی ہیں اور بہت شاندار لکھی ہیں، بلکہ میری نظر میں ’’تلاش رنگ رائیگاں‘‘ تو شاید اردو کا بہترین عشقیہ فکشن ہے، میں ذاتی طور پر اسے ناول مانتا ہوں لیکن مصنف نے اسے افسانوی مجموعے میں شامل کیا ہے۔ بہر حال تلاش رنگ رائگاں افسانہ ہے یا ناول؟ یہ بحث الگ ہے۔ لیکن بہر حال فکشن تو ہے ہی، میرا خیال ہے اردو میں محبت کے موضوع پر شاید اب تک اس سے بہتر فکشن نہیں لکھا گیا ہے۔ دروازے بھی محبت کے موضوع پر ایک یادگار افسانہ ہے۔
مجھے دروازے افسانے کا بہترین حصہ وہ لگا، جب چوڑی بنانے والا شخص اس خاتون کے گھر کے سامنے سے گزرتا ہے اور اس کی درزوں سے دکھنے والے رنگ کو اپنی مرضی کے موافق رنگوں سے رنگنے لگتا ہے۔ ایک اقتباس آپ بھی ملاحظہ کریں۔
“میں دن بھر ہرے نیلے لال اور پیلے اور ان رنگوں سے ملتے جلتے بے شمار رنگوں کو اپنے کام میں لاتا تھا اس لیے وہ تمام رنگ دن بھر میرے ذہن میں گھومتے رہتے اور جب میں دوپہر کے وقت اس دروازے کے سامنے ہوتا تو اس کی درزوں سے جھانکتے اس لباس کو میں اپنے ذہن میں گھومتے بے شمار رنگوں سے اپنی مرضی کے موافق رنگ لیتا۔ میں دھیرے دھیرے اس بات پر بھی قادر ہو گیا تھا کہ پلک جھپکنے والے اس مختصر سے وقفے میں نظر آنے والے لباس کی پرچھائیں جیسی جھلک کو بیک وقت کئی رنگوں میں دیکھ سکتا تھا اور موسم کے مطابق وہ رنگ میری پسند کے ہوتے تھے۔‘‘ ۴؎
رنگوں کا سید محمد اشرف نے اپنے فکشن میں پہلے بھی بہت اچھا استعمال کیا ہے، لیکن اس افسانے میں بھی رنگوں کی جلوہ فرمائی کچھ کم نہیں ہے۔ درج بالا اقتباس میں ان کا خاص انداز بیان بھی ظاہر ہے اور تخلیقی وفور بھی خوب ہے۔ افسانے میں ہر جگہ باریک سے باریک اور نازک سے نازک تجربے کا خیال رکھا گیا ہے۔ مشرقی تہذیب میں عشق کا جو انجام ہوتا ہے، یہ افسانہ اسی جانب اشارہ کرتا ہے، انجام تو خیر پہلے ہی سامنے آ چکا ہے، لیکن افسانے میں دلچسپی عشق کی وارداتوں اور تجربوں سے برقرار رہتی ہے، عشق کی ان کیفیات سے فلیش بیک کے ذریعے بڑی خوبصورتی سے تعارف کرایا گیا ہے۔ اس افسانے میں جس طرح کی وارداتِ عشق کو افسانہ بنایا گیا ہے، آج کی مادی نسل کے لوگ تو شاید اس طرح کی وارداتوں کو عشق مانیںگے بھی نہیں۔ بہت ممکن ہے ان کے عشق کی ابتدا اسی طرح کے واقعات سے ہو، اگر بات آگے نہ بڑھے تو ان کے ذہنوں سے اس طرح کی وارداتیں بہت جلد ضائع ہو جاتی ہیں، جیسے کبھی ہوئی ہی نہ تھیں۔ اس افسانے کا مرکزی کردار اس چھوٹی سی واردات کے سہارے پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ افسانے کا کمال انسانی حسیت اور بے حسی کا ہے۔ ہم سے پہلے والی نسل اور آج کی نسل میں شاید یہی فرق ہے۔ بہر حال جب بوڑھا شخص پورا قصہ سنا لیتا ہے اور وہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ تو میرے ذہن میں اتنی بات تو واضح ہو چکی تھی کہ یہ عورت وہی ہے، جس کے عشق میں وہ مبتلا تھا۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ راوی نے کوئی واضح اشارہ نہیں کیا تھا کہ یہ وہی عورت ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ سید محمد اشرف کی جگہ کوئی دوسرا افسانہ نگار ہوتا تو کسی نہ کسی طور پر اس نے صاف صاف بتا دیا ہوتا کہ یہ وہی عورت ہے، اشرف کا کمال فن یہی ہے کہ وہ ایک طرح کا رمز یا ابہام قائم رکھتے ہیں۔ جس سے افسانے کا طلسم برقرار رہتا ہے۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اگلا جملہ آتا ہے۔ ’’میں نے اس دن سبز غرارہ پہنا تھا اور لمبے سرخ دوپٹے نے اسے بالکل چھپا دیا تھا۔‘‘ یہ جملہ پڑھتے ہی افسانے کا طلسم ٹوٹتا نظر آیا۔ اس کمزوری کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک بہت اچھا افسانہ ہے۔
سید محمد اشرف کی ان تخلیقات کو پڑھ کر جو مجموعی تاثر قائم ہوتا ہے، اب میں اس کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہوںگا۔ ان کے بیان میں جیسے جیسے پختگی، توازن اور تجربہ شامل ہوتا گیا ہے۔ مجھے لگتا ہے اس میں تخلیقی وفور اور تجربہ پسندی کی کہیں نہ کہیں کمی بھی آتی گئی ہے، خاص طور سے اکیسویں صدی کے فکشن میں۔ سید محمد اشرف کی سب سے بڑی انفرادیت اور شناخت ان کے تمثیلی کردار تھے۔ چاہے وہ نمبردار کا نیلا کی نیل گائے ہو، ڈار سے بچھڑے کے آبی پرندے ہوں، روگ کا پاگل ہاتھی ہو، یا لکڑ بگھا سیریز کے لکڑ بگھے ہوں۔ تلاش رنگ رائے گاں کا زخمی نیلا ہو، جو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے کے بعد دیر تک دوڑنے کے بعد اسی دائرے میں گھومتا رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ علامتیں بھی بہت اہم تھیں، خاص طور سے ’منظر‘ کی۔ یا ’آدمی‘ کی وہ غیر معمولی تکنیک، جس سے آدمی وحشی جانور سے بھی زیادہ خطرناک شے بن جاتا ہے۔ سید محمد اشرف کے یہ تمثیلی کردار اکثر علامتی بھی ہیں۔ ان کی شناخت انھیں سب خصوصیات سے ہے، میں بیسویں صدی کے آخری برسوں میں ان کے فکشن سے میں اتنا متاثر تھا کہ اس زمانے میں قرۃالعین حیدر، عبداﷲ حسین، انتظار حسین، نیر مسعود اور قاضی عبدالستار جیسے فکشن نگاروں کی موجودگی کے باوجود فکشن کے میرے سب سے بڑے ہیرو سید محمد اشرف ہی تھے۔ مندرجہ بالا تخلیق کاروں کی عظمت اپنی جگہ قائم تھی لیکن سید محمد اشرف ہمارے دل کے زیادہ قریب تھے، ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمارے قصے سنا رہے ہیں یا ہماری کہانی بیان کر رہے ہیں، باقی لوگوں کے قصے تو بہت اچھے ہیں لیکن وہ دوسرے لوگوں کے ہیں۔ سید محمد اشرف کی شناخت جن تمثیلی کرداروں اور علامتوں سے تھی، بیان کے جس رمزیہ اسلوب سے تھی، حالیہ برسوں میں شائع ہوئے فکشن میں وہ خوبیاں اب کم ہیں، ان کی توجہ اب دیگر خصوصیات پر ہے۔
سید محمد اشرف کے بیسویں صدی کے فکشن میں زبان میں جو رمز اور ابہام ہوتا تھا۔ اس سے ایک قسم کا طلسم سا بن جاتا تھا، جس میں قاری ڈوبتا چلا جاتا تھا، غور کرنے والوں کے لے بہت سی باتیں بین السطور میں رہتی تھیں۔ سید محمد اشرف کے اکیسویں صدی کے فکشن میں وہ ابہام اور طلسم کم ہے، علامتیں بھی اب نظر نہیں آتیں۔ ہر شے واضح ہے اور رواں دواں ہے۔ شاید اب وہ اپنی پچھلی تخلیقیت کو چھوڑ کر ’کہانی پن کی واپسی‘ پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس کہانی پن کی واپسی کا بہت قائل نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اس بات سے خوش ہوں کہ سید محمد اشرف کے یہاں بھی کہانی پن کی واپسی ہو گئی ہے، کہانی پن تو ان کے یہاں ہمیشہ سے تھا لیکن اب بیانیہ میں وہ معنیاتی گہرائی اور ابہام مفقود ہے جو پہلے زیریں سطح پر چلتا رہتا تھا۔
سید محمد اشرف کی حالیہ تخلیقات ان کی سابقہ تخلیقات سے کچھ مختلف ہیں، اسے بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کے فکشن کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ایسا شعوری عمل ہے یا لاشعوری؟ لیکن میں ان کے اکیسویں صدی کے فکشن کو بیسویں صدی کے فکشن سے مختلف دیکھ رہا ہوں۔ اگرچہ ان تبدیلیوں کے باوجود وہ ابھی بھی پہلی صف کے فکشن نگار ہیں۔ ان کی حالیہ تخلیقات بھی اس اعلیٰ درجے کی ہیں کہ جہاں تک مشکل سے ہی کوئی دوسرا فکشن نگار پہنچتا ہے۔ ہر تخلیق کار کے یہاں ساری تخلیقات ایک معیار کی نہیں ہوتی ہیں، اس کی صحیح قدر و قیمت اس کی بہترین تخلیقات سے ہی ہوتی ہے۔ سید محمد اشرف کی بہترین تخلیقات اردو کا اب نو کلاسیکی سرمایہ بن چکی ہیں۔ اور وہ اردو فکشن کی بڑی روایت کا اہم حصہ ہمیشہ بنے رہیںگے۔
حوالہ جات:
۱؎ سید محمد اشرف، ضیغم سرخ، اثبات شمارہ نمبر ۱۳۵، ممبئی، ص ۱۳۲۔
۲؎ سید محمد اشرف، آخری سواریاں، عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی۔ ص ۲۰۷۔
۳؎ سید محمد اشرف، غالب کے ساتھ ایک سہ پہر، اثبات شمارہ نمبر ۱۳۵، ممبئی، ص ۱۳۵۔
۴؎ سید محمد اشرف، دروازے، اثبات شمارہ نمبر ۱۳۵، ممبئی، ص ۱۴۸۔
***