You are currently viewing   شاعرِکشمیر : مہجورؔکی اُردو،فارسی اور کشمیری شاعری

  شاعرِکشمیر : مہجورؔکی اُردو،فارسی اور کشمیری شاعری

نثاراحمدچیچی

گلاب ٹینگ مستپورہ، ضلع : شوپیان ، کشمیر

                          شاعرِکشمیر : مہجورؔکی اُردو،فارسی اور کشمیری شاعری

دِل تنبہ لاوان جلوہاوان آکھا بہارو

مشراوِمژ کتھ یاد  پاوان آکھا بہارو

سبزہ نو خیز  پر رقص  عرُوسِ نوبہار

جھومتا پھرتا ہے گویا بادہ آشامِ نشاط

           ہندوپاک میں دو ہی  ایسے علاقے ہیں ۔جہاں کشمیری زبان بولی جاتی ہے۔لیکن بطور رابطے کی زبان اُردو ہی ہے۔اگر چہ ہم کشمیریوں کی مادری زبان اُردو نہیں ہے۔لیکن ہم نے اور ہمارے قلمکاروں نے اس زبان کو پھلنے اور پھُولنے میں ہر مُمکن کوشش کی ہے۔اس سے سیکھا اور آنے والی نسلوں کو سیکھارہے ہیں ۔اگر دیکھا جاے دورقدیم سے لےے کر آج تک کشمیر کے قلمکار،ادیب ،دانّشوراور شاعر حضراتوں نے نہ صرف کشمیری زبان یعنی ’’اپنی مادری زبان ‘‘کی آبیاری کی بلکہ اُردو زبان کو سہراب کیا۔ اُتنی ہی مُحبت اور لگن سے وہ کشمیری کے ساتھ ساتھ اُردو ادب کا دامن بھی بھر تے ہیں ۔جتنی مُحبت اُن کو کشمیری کے ساتھ ہے۔اُتنی ہی مُحبت اُن کو اُردو کے ساتھ بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔اس سے نہ صرف اُردو کی اہمت بڑھ رہی ہے ۔بلکہ اِس کا دامن وسیع اور کُشادہ و رہا ہے ۔کشمیر میں ایسے بہت سارے مایہ ناز ادیب اور دانشور مُوجود ہیں۔ جنہوںنے کشمیری کے ساتھ ساتھ اُردو میں اَدب تخلیق کیا۔چاہیے وہ نثری اَدب ہو یا نظمی اَدب ۔اِس صف میں کشمیری زبان کے بہت سارے شاعر ادیب اور مُحقیٖق دِیکھنے کو مل رہیں ہیں۔جن میں  خاص کرمیر غلام رسول نازکیؔ،ایاز رُسول نازکیؔ،عبدلاحد آزادؔ،شوریدہ کشمیریؔ،وغیرہ ا ِن ہی مایہ ناز ہستیوں کی فہرست میں ایک نام شاعرِ کشمیر ’’ غلام آحمد مہجوؔر‘‘ کا بھی شامِل ہے۔جس نے بہت محنت و مُشقت سے کشمیری کے ساتھ ساتھ اُردو کی بھی آبیاری کرنے میں کو یی قصر باقی نہ چھوڑی۔ اِسی بات کا کی طرف اِشارہ کرتے ہوے چمن لال چمنؔ  (شیرازمہجورؔ نمبر)کے صفہ(۴۶)  پر یُوں لِکھتاہے۔

          ’’تقریٖبن ۳۸ہن ور ین اُردو تہ فارسی باٹھ تبع آزمایی کرنہ پتہ پُھیوٗر مہجوٗرؔ ۱۹۲۳؁  کیُت کاشرِس کُن۔اُردو ہَس تہ فارسیس منزلیکھنس دوران اوس محض گمنانی ہندِس عالمَس منز‘‘شیراز مَھجوُر نمبرچھاپن ور ۱۹۷۸؁

           اِس اِقتباس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے۔کہ آپ کی عمر کا بیشتر حصہ اُردو اَدب کی خدمت میں گزرہ ہے۔لیکن زیادہ تر آپکی شہرت کا چرچہ کشمیری شاعری کی ہی وجہ سے ہوا۔اِس کا مطلب یہ نہیں آپ کو اُردو میدان میں کوی جان پہچان نہیں تھی۔بلکہ اصل وجہ یہ ہے کشمیری زبان کو بُلند یوں پر پہنچانے اور روشناس کرانے میں مہجورؔ کا اہم رول رہا اس سے پہلے کشمیری زبان کی کویی پہچان ہی نہیں تھی،جس کے خاطر آپ کو بہت جدوجہد کرنی پڑی۔آپ اُردو اَدب کے میدان میں بھی آپ اپنے دور کے صفہِ اوّل کے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔جن کی شہرت کا چرچہ دور ہنوز میں بھی زندہ و جاویداں ہے۔جہاں تک آپ کا تعلق ہے آپ کشمیر کے ایک پیرزادہ اور پڑھے لِکھے خاندان سے تعلُق رکھتے تھے۔آپ ۱۳۰۵؁ ھ بمُطابق ۱۸۸۸؁ عیسوی کومتری گام پلوامہ میں توالد ہوے۔گھر کا ماحول علم کی روشنی سے پُرنور تھا۔جس کی وجہ سے آپ کی تعلیم بڑے ہی اچھے اور مناظم طریقے سے گھر پر ہی  ہوی ۔پھر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے گیارہ سال کی عمر میں یعنی سن ۱۸۹۸؁ عیسوی میں ترال  جاکے ایک قابل اورمایہ ناز اُستاد عاشق ترالیؔ سے حاصل کی جو اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم ،شاعر،مُفّکراور دانشور مانے جاتے تھے۔جس کا اَثر سیدھے ہی مہجوؔر پر پڑا۔عاشق ترالیؔ کی رہبری اور رہنمای نے مہجورؔ کوصاحب علم بنانے کے ساتھ ساتھ ایک عظیٖم شاعر بھی بنادیا ۔جوآج اپنی شاعری کی وجہ سے پورے جمّوں و کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ہندوستان میں ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتے ہوے نظر آرہے ہیں ۔

              شاعری خُداوند کریم کی طرف سے ایک اَنمُول تُعفہ ہے۔جو چند ہی گنے چُنے لوگوںکوہی نصیب ہوتا ہے۔اگر دِیکھا جایے اِس قیمتی تعفے کے اثارمہجوؔر کے اند ر مُوجود تھے۔جو ایک فطرتی شاعر کے اندر ہونے چاہیے۔مہجورؔ نے اپنی شاعری کا آغاز  ۱۹۰۵؁  عیسوی میںایک دوست کو خط لِکھنے سے کیا     ۔ آپ پہلے فارسی لِکھتے تھے فارسی میں آپ کواپنے والد کی رہنمایی حاصل تھی جوکہ فارسی زبان کے بہت ماہر اُستاد مانے جاتے تھے۔جب فارسی کا چرچہ تھوڑا کم ہواتوپھر آپ نے اُردو میں اُردو کے ایک عظیم اور مُشہور شاعر شبلی نعمانی زیر اثر شاعری لِکھنا شروع کی۔ لیکن قابِل ستایش اورقابِل تعریف بات یہ ہے کہ مہجورؔ اُن شاعروں کے ّصف میں کھڑے ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ اُردو کی دل وجان سے خدمت کی۔ جب ہم ادبی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ تو وہاں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ مہجورؔ نے  باقاعدہ اپنی شاعری کی شروعات ۱۹۱۲؁ عیسوی میںاُردو زبان  ہی سے کی۔اِس سے پہلا     ۱۹۱۱؁ عیسوی  میںپھرمہجورؔنے دو بارہ پنجاب کا سفر کیا۔تو وہاںلدُھیانہ میں اُنہوں نے جب آفت لدھیانوی کی ایک ’’بزمِ سخن ‘‘کے مشاعرے میں اپنے نو(۹)اشعاروں والی ایک غزل سُنای۔ جس سے آپ کو بہت داد ملی۔ جس سے مہجورؔ کو شاعری کی طرف دلچسپی بڑ گیی جس کا پہلا اشعار یہ ہے    ؎

                       اُجڑے غاروںمیں رہا کرتے ہیں رہزن چھپ کے

                       دِل  مُضطر  ہی  میں  دلبر  کا قیام    آچھا ہے

            مہجورؔ نے  ۱۹۱۲؁ عیسوی کے بعد پھر اُردو اَدب کے میدان میں وہ کارنامے انجام دے ۔جس سے نہ صرف اُردو اَدب کا دامن وسیع اور کُشادہ ہوا ۔بلکہ مہجورؔ نے اپنی اِس شاعری کے ذریعہ کشمیر کے نوجوانوں کو حُب الوطنی،آپسی بھایی چارہ اور اِنسان دوستی کا بھی پیغام دیا۔۱۹۱۲؁ عیسوی سے مہجورؔ کی قلم میں روانگی آگی ۔اب مہجورؔ اُردو کے بڑے بڑے مُشاعروں میں شریک ہو نے لگے۔ جہاں اَن کی بہت حوصلہ افزایی کی گی۔مہجورؔ کی اُردو شاعری  کے بارے میں  ناجی منورؔ اور شیفی شو قؔ   (کاشر زبان تہ ادبُک تواریخ)کے صفہ (۳۰۵) میں لِکھتے ہیں

             ’’۱۹۱۲؁ عیسوی پیٹھ ہیوت تم اُردو پاٹھ لیکھن تہ کینزن اُردو مشاعرن منز کرن

             شرکت تہ ۔اتھ دوران سپُد مُلازمتہ نِشہِ بییہ معطل ۔مگر مقدمہ زیونُن تہ آوبحا

             ل کرنہ ۔مگر اَمہ ِ پَتہ گوبییہِ دیہِ لَٹہ ِ مُعطل تہ بییہ ِ سپُد بجال۔معاشی پریشان حا

            لی باوجود رود مہجورؔ علمی تہ ادبی سر گرمین منز دلچسپی نِوان تہ پننہِ زمانہ کین اہم شاعر

            ن تہِ عالمن ست کورن تعلُق قایِم۔۔۔‘‘

         اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جاے۔ اُس میں مہجورؔ اپنا ایک الگ اور منفرد مُقام رکھتے  ہیں۔جو مہجورؔ کے کسی ہمعصرشاعر سے ملتا جلتا نہیں ۔البتہ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی شاعری کا اثر اُس کی شاعری میں ضرور دِیکھنے کو ملتا ہے۔جس طرح علامہ اقبالؒ کی شاعری میں حُب الوطنی، قومی بیداری ،آپسی بھای چارہ، پندونصحت اور کاینات کے حُسن کا عکس ملتا ہے بلکل اُسی طرح مہجورؔ کی شاعری میں بھی  باغوں ، سبزاروں ، کوہساروں ،پُھولوں ،جرنوں ،سبزاروں اور قومی بیداری ، حُب الوطنی کی جھلکیاں دِیکھنے کو ملتی ہیں۔ جس کی مِثال مہجورؔ کی نشاط باغ کے سرسبز میدان اور پانی کے فوارنوں کے سامنے بیٹھ کر لِیکھی گی یہ غزل ہے۔ جو اخبار ’’مارتنڈ‘‘ نے ۴ چیت۱۹۹۱؁ عیسوی میں شایع بھی ہویی۔

            اب کے آیا موسم گل لے کے پیغام ِ نِشاط

           عید ہے، نوروز ہے، ہولی ہے انجامِ نشاط

                                            آنکھ نرگس کی کُھلی سُنبل نے زُلفیں کھول دیں

                                             ہے   گُل بادام  مست لذّت  جامِ نشاط

   مہجورؔ علامہ اقبال ؒ  سے بے حد مُتاثر تھے ۔جس کا اطراف اُنہوں نے خود بھی کیا ہے۔ اور اُن کے اس اشعار سے بھی عیّاں ہوتا ہے  ؎

   اقبالؒؔ:                         یہ فیضانِ  نظر تھا  یاکہ مکتب  کی کرامت!

                                سِکھاے کِس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی

  مہجورؔ:    طوطس چُھ ہیچھناوان کَتھ اُستاد میحنتہ سان

          وَنہ   منز چُھ  ہیچناوان کُس  وَن ہارِ مُحبت

          اِن اشعاروں سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے کلام کا کافی گہرا اَثر مہجوؔر کی شاعری پر پڑا ہے،اور اِسی بات کا تذکرہ کرتے ہوے( کلُیات مہجور ؔ کے صفہ نمبر۷۴)میںمُحمد یوسف ٹینگؔآذاد ؔصاحب کا حوالہ دیتے ہوے فرماتے ہیں۔

              ’’یہِ تفصیٖل چُھ آزادن ؔ تہ بییہِ کینژَو ادیٖبو تہِ دییتمُت تہ اَتھ منز ہیکہِ  واریاہ

               ہُرر کَرنہ یِتھ۔اَکھتُے یِمَن شارَن منز پَرُد اَثر ژھایہِ ہلِس ہیو چُھ مگر آواز

               چھے گنبد کران تِمَن ہُند تفصیٖل بَنہِ اَمہِ کھتہ زیاد ۔یِمَن شارن ہیکہ ِ نہ شاید

              کانسہِ شایرِ سُنداَکھ شارمُقابلس منز تھاونہ یتھ۔ مگر یِمَن موموٗلی کَن دِتھ چُھ

              باسان زِ یِم چِھ بییہ ِ کُنہِ آگر  واٹتھِ ۔مَثلن نمَن شارن پٹھ کُس ہیکہ ِ نہ ونتھ

              زِیِمَن منز چُھنہ علامہ اقبالؒ ؔ سُند اَثر‘‘

            اِسی طرح  اِن کی ایک پُرانی نظم میں ہمیں علامہ اقبال ؒ ؔ کا رنگ اوربُوصاف صاف نظر آرہا ہے۔یہ نظم ’’خطاب بہ مُسلمِ کشمیر‘‘ کے نام سے لِکھی گی ہے۔اِس میں علامہ اقبال ؒ کا پوراپورا اثر دِیکھنے کو مِل رہا ہے۔جس طرح علامہ اقبالؒ کی مُشہور نظم’’خطاب بہ مسلم‘‘کے عنوان سے لِکھی گی ہے ۔یہ نظم کودِیکھ کربھی ایسا لگتا ہے کہ مہجوٗرؔ نے یہ نظم اِسی نظم کے زیر اثر لِکھی ہے۔جس کے چند ابیات یہ ہیں ۔

  بتا اے مسلمِ کشمیر کھبی سوچا بھی ہے تُونے               تو ہے کس گُلشن رنگین کا برگ ِ شاخِ عریانی

ترے اِسلاف تھے وہ جن کے علم و فضل کے آگے        ادب سے جُھکتے تھے دانشوران ہند و ایرانی

شہنشاہ مُعظّم شاہ زین العابدین (بڈشاہ)             کیا اکبر نے جِس سے کسب ِ آیین جہاں بانی

       انتخاب از( کشمیری زبان اور شاعری)جلد سوم مُصنّف عبدُلاحدآزادؔ

      ؔ ترتیب و تدوین مُحمد یوسف ٹینگؔ صفہ نمبر(۲۹۸)

          فارسی کلام:۔جب ہم مہجوٗرؔ کے ادبی سرمایے کا مُطالعہ کرتے ہیں ۔تووہاں یہ بات عیّاں ہوجاتی ہے کہ مہجوؔر اردو سے پہلے فارسی میں شعر کہتے اور لِکھتے تھے۔لیکن جب اُردو کا شوق دامنگیر ہوا توفارسی کی جگہ اُردو نے چھین لی اور بدقسمتی سے مہجوؔر کا فارسی اَدبی سرمایہ اپنا مُقام ومرتبہ کھوکر ضایع ہوگیا۔ جس میں سے اب چندہی نظمیں مُوجود ہیں۔جہاں تک مہجوٗرؔ کے فارسی کلام کا تعلُق ہے ۔جس طرح ہمیںاُن کے اُردوکلام میںعلامہ اقبالؒ کے کلام کا اَثرات دِیکھنے کو مِل رہیں ہیں ۔اِسی طرح اِن کے فارسی کلام میں ہمیں مولانا جلال الدّین رومیؒ کا رنگ دِیکھنے کو مِل رہا ہے ۔ اِن کی ایک طویل نظم جو’’نالہ مہجوٗر‘‘کے نام سے مہشور ہے بلکُل یہ مولوی رومیؒ کے رنگ میں لِکھی گی ہے۔یہ نظم آپ کے  کلام ’’حیاتِ رحیم‘‘ میں شامِل ہے جس چند ابیات یہ ہیں۔

        دوش سوے سیر صحرا شد خیالم راہبر         مِثل مجنون رہ نورِددشتِ گشتم بے خطر

       درمیان کوہ وصحرا برسبیلِ آمدمرا             رشکِ گلزار ارم  یک بوستانے  در نظر

      در چمن گُلہاے گوناگوں بصف آرستہ         وزپے انجام خدمت باغباں بستہ کمر

        مہجو رؔجو کہ محکمہ مال میں ملازم تھے ۔اُنہوں نے محکمہ مال کی تاریخ اور اِس کے ماضی وحال کا بہت ہی خوبصورت اور اچھے اندازسے اپنے فارسی کلام  میں نقشہ کھینچا ہے۔جس کے چند ابیات یہ ہیں۔

        خطہ کشمیر اول ہمچو فردوس بریں                از سر سر لارنس یکسر ہمہ گلزار شد

       دَفع شد جو سزااول رَفع ظلم کاردار            از تفنگِ معدلت شق سینہ شقدار شد

            کشمیری کلام:۔جہاں تک مہجوٗرؔ کی کشمیری شاعری کاتعلق۔آپ نے کشمیری زبان کے اوپر زمانے دراز سے لگے ہوے زنگ کو اپنے ہُنر وکلام سے صاف کر کے وہ رُونق بخشی جس کے لے وہ عرصے دراز سے منتظر تھی۔اگر ہم مہجوٗرؔ کی کشمیری شاعری کے حوالے سے کہیں تواُنہوں نے کشمیری شاعری کی شروعات ایک مثنوی ’’ پھا پھا کٹن‘‘ لِکھ کر کی،اِس مثنوی کا واقعہ اُنہوں نے ’’ الف لیٰلا‘‘ سے لیا ہے۔ جب ہم مُطالعہ کرتے مہجوٗرؔ کو اِس سے  پہلے کشمیری  کے ساتھ اُن کی کویی دلچسپی نہیں تھی ۔یہ مثنوی لِکھ کر کشمیری کلام لِکھنے کی طرف اُن کا رُجحان اور شوق بڑھ گیا۔اِسی حوالے سے  ناجی منورؔ اور شفیع شوقؔ اپنی کتاب(کاشر زبان تہ ادبُک تواریخ) کے صفہ نمبر۳۰۵ میں  مہجوٗرؔ کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ۔

          ’’۱۹۱۱؁  عیسو ہَس  منز کور تم مثنوی (پھا پھا کٹن)لیکھتھِ کاشرِس منز لیکھنک

         تجربہ ۔اَمہِ مثنوی ہُند واقعہ چُھ الف لیلٰے منز ننہِ آمُت۔اَمہِ برنہہ چُھنہ تَس

         کاشرِس کانہہ دلچسپی اسمژ‘‘

               پھر مہجورؔ کی قلم میں اتنی روانگی پُختگی آگی کُچھ عرصے  بعدوہ کشمیری زبان کے اُن مایہ ناز شاعروں ، مفّکروں، مُحقیقوں اور دانشوروں میں شُمار ہونے لگے جنہوں نے کشمیری زبان کو بہت ہی اُونچا اور بُلند مُقام دِینے میں کویی قصر باقی نہیں چھوڑی ۔اِس کے اس ادبی کارنامے کودِیکھ کراِس کو (شاعرِ کشمیر)کا خطاب دیا گیا۔اِس کے کلام نے لوگوں کے دِل میں جگہ کر لی،لوگ کھیتوں میں ،شادیوں میں ہر جگہ ۔مہجوؔر کے ہی نغمے گنگنانے نظر آرہے تھے۔آپ نے مُختلف نوح کی متعدّد نظمیں لِکھ کر کشمیری زبان واَدب کا اَدب وسیع کردیا۔آپ نے  اپنے کلام میں کشمیر کے حُسن کی برپوٗر عکاسی کر کے اپنے سیدھے اور سادے الفاظوں  میں پرو کے عوام کے سامنے رکھا ۔جس کی میٹھاس  اورشیرینی اب تک برقرار ہے۔جہاں آپ نے کشمیر کے چمنوں ،باغوں ،کوسہاروں ،مرگ زاروں ،پرندوں کی سُریلی آوازوں،آبشہاروں کا ذکر کیا ہے وہاں اُنہوںاپنے کلام میں معشوق کی جُدای اورستمگری کو بھی بڑی ہنرمندی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ایک اشعار  ؎

                            وُچھ مے کُن وار لگے یار ژے  پاری پاری

                           چانہِ  امار  گیس  مار  بہ  پراری  پراری

            مہجوٗر ؔ کی کشمیری شاعری میں نہ صرف کشمیری کی خوبصورتی عکاسی ہی ملتی ہے۔اِس کے علاوہ آپسی بھای چارگی،حُب الوطنی، قومی بیداری کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے  پندو نصیحت جیسے خیالاتوں کو بھی مہجوٗرؔ نے اپنی شاعری کے ذریعہ قاریوں تک پہنچانے کی برپور کوشش کی مُختصرًآخر کار ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ مہجوٗرؔ اپنے دور کے قدوار شاعر گزرے ہیں جو آنی والی نسل کے لیے مشعل ِراہ ہے۔

 حوالہ   جات

      ۱۔شیراز مہجوٗر  نمبر سنِ اشاعت۱۹۷۸؁

      ۲۔کاشر زبان تہ ادبُک تواریخ دوسرا یڈشن ۲۰۱۸؁

      ۳۔ کُلیاتِ مہجوٗرؔ ترتیب کار محمد یوسف ٹینگؔ۱۹۸۳؁

      ۴۔کشمیری زبان اور شاعری جلد سوم   ۲۰۰۵؁

 ***

Leave a Reply