رمّانہ تبسم،پٹنہ سٹی
rumanatabassum00000@gmail.com
شطرنج کی بازی
”ہمری بلی ہمرے میاؤں!“
یہ سالی رینوا بیچ میں کیسے ٹپک پڑی…..اور یہ کیسے ہو سکتا ہے؛ میرے بدلے اس کوٹکٹ کیسے مل گیا جبکہ پی.کے.کھرانا نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اس بار جہاں سے چاہوں الیکشن لڑ سکتا ہوں اور میری سیٹ محفوظ تھی،اچانک اس طرح کا فیصلہ لینے سے پہلے مجھ سے بات کرنی چاہئے تھی، میرے ساتھ بہت بڑا دھوکا ہوا ہے،ای سالی بڑی چالاک نکلی،اس کی اوقات دکھا کر رہیں گے۔“ شری نے کمرے کا فاصلہ طے کرتے ہوئے مٹھی بھیجتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔
شری کا رینو کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ تھا۔پارٹی کا ہر لیڈر ان دونوں کے بیچ کے رشتے کو جانتا تھا۔اس نے رینو کی طرف دوستی کا ہاتھ اسی لیے بڑھایا تھا۔
اس روز وہ مایوس نائٹ کلب میں ٹیبل پر بیٹھا تھا۔ یہاں اونچے طبقے کے لوگ آتے تھے۔تبھی اس کی نظر مینی اسکارٹ میں ملبوس رینو پر جا کر ٹھہر گئی جو ہاتھ میں جام کا گلاس لیے میوزک کے دھن پر آہستہ آہستہ تھڑک رہی تھی۔ اس کے ہونٹ جام کے گلاس سے وفائی کر رہے تھے۔ اس وقت اس کے سامنے شراب اور شباب دونوں تھے۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کس کی طرف ہاتھ بڑھائے۔
”ہیلو مسٹر!یہاں لوگ مایوسی دور کرنے آتے ہیں۔“اس نے اس کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے ڈانس کی درخواست کی تو وہ چونک پڑا۔
”اپنے ہونٹوں کو جنبش دیں اور دنیا کے ٹینشن کو بائی کہیں۔“رینو نے شر ی کے سامنے جام رکھتے ہوئے کہا۔
جام کے شیشے میں اس کا دھندلاعکس نظر آرہا تھا۔یہ تو پوری نشیلی ہے۔اس نے بوتل سامنے سے ہٹاتے ہوئے لب کشائی کی۔
”ہوش آنے پر۔“
”خود کو سنبھالناسیکھیں۔“اس نے گلاس میں وہسکی انڈیلی سائفین سوڈا ڈالا اور چسکیاں لینے کے بعد مسکرا کر بولی۔
”اگر سنبھالنے والا…..کوئی نہیں…. ہو…..تو۔“
”ٹرائی اگین۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور اٹھ کر کنکھی مارتے ہوئے چلی گئی۔
”یہ سالی میرے بہت کام آسکتی ہے۔“ شری نے کنکھیوں سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کہااور ایک طویل انگڑائی لی اور سیدھا کھڑا ہو گیا۔ہر بارپی.کے.کھرانا جی الیکشن سے پہلے اسے ٹکٹ دینے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن عین وقت پر اسے مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ اس کی آدھی عمر کھرانا کے آگے پیچھے ہوتے گزر گئی۔یہاں تک کہ گھر اور بیوی، بچوں کو بھی چھوڑ دیا لیکن جب رینو پر اس کی نظر پڑی تو اس کی نا امیدی امید میں بدلنے لگی۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس بار شطرنج کی چال چلے گا اور اس کھیل میں رینو کو رانی کے طور پر استعمال کرے گا اور کسی بھی طرح اس رانی کواپنی طرف راغب کرے گا۔اس سے ملنے کے بہانے روز نائٹ کلب میں جاکر بیٹھ جاتا۔وہ کلب آنے والی سب سے ہاٹ لڑکی تھی۔دونوں شناساانداز میں مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔
شری اسے لے کر سبھی راجیہ نیتی پاڑٹی میں جانے لگا۔اس نے رینو سے وعدہ کیا کہ پی.کے.کھرانا اسے الیکشن میں کھڑا ہونے کا ٹکٹ دے دیتے ہیں اور وہ ایم.پی بن گیا تو بہت سارے فنڈ اس کی جھولی میں ڈال دے گا اور اس سے دھوم دھام سے شادی کرے گا۔اب دونوں ایک دوسرے سے اتنا قریب آچکے تھے کہ وہ بستر گرم کرنے میں بھی اس کا ساتھ دینے لگی۔
الیکشن قریب آتے ہی عظیم اتحاد کے امیدواروں کے نام کا اعلان کیا گیا۔اب بقیہ سیٹوں کے تعین اور امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جانا تھا۔ ان میں تقریبا نصف درجن سیٹوں پر رسہ کشی برقرار ہے۔کل امیدواروں کا اعلان کئے جانے کا امکان ہے۔اس بار پی.کے.کھرانا کے سامنے اس طرح گوٹی پھینکے گا کہ وی.آئی.پی سیٹ کا ٹکٹ اس کی جھولی میں آجائے گا لیکن کس طرح پھینکے یہ سوچ کر وہ بیقراری کے عالم میں بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا ٹہل رہا تھا۔
”شری ڈارلنگ۔“رینو نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
رینو کی آواز پر وہ چونک پڑا، اور اس کے قدم رک گئے۔پی.کے.کھراناکے لیے اسے کسی بھی طرح تیار کرنا پڑے گا۔اس نے دل میں کہا اور کشن لے کر صوفہ پر نیم دراز ہو گیا اور ہلکی سی آنکھ بند کر کے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
”کیا بات ہے شری؟تم پریشان لگ رہے ہو،تمہاری طبیعت ٹھیک ہے نا۔“ رینو نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”رینو!دنیا سے دور جانے کی کوشش کر رہا تھا،لیکن جا نہیں سکا۔“
”کیا…..یہ کیا کہہ رہے ہو شری….. تمہارا دماغ صحیح ہے نا؟“
””ہاں رینو!لیکن اب تم آگئی ہو تو میری پریشانی چھو منتر۔“اس نے رینو کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو وہ سیدھا اس کے سینے پرآکر گری۔اس نے اپنے گرم ہونٹ سے اس کے پھول کی پنکھری جیسے ہونٹوں کو ثبت کیا تو اس پر نیم سی کیفیت طاری ہو نے لگی اور اس نے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹ میں پیوست کر دیا لیکن یکایک شری نے اپنے جذبات کو قابومیں کیا اور اس کے بالوں میں شانہ کرتے ہوئے کہا۔
”رینو! آج ہماری محبت کا امتحان ہے اور اصل محبت کی پہچان مصیبت کی گھڑی میں ہوتی ہے،چاہے وہ مصیبت کسی بھی شکل میں ہو، اگر آج تم سے کچھ مانگیں تو دے سکتی ہو۔“
”شری! کبھی انکار کیا ہے…..شادی سے پہلے بستر گرم کرنے میں تمہارا ساتھ دے چکی ہوں۔“
”ہاں رینو! میرا ایک کام کر دو پلیز……اس کے لیے تمہاراہمیشہ احسان مند رہوں گا۔“
”بول کر دیکھیں شری،جان نکال کر تمہارے قدموں میں رکھ دوں گی۔“
”نہیں رینو!تمہاری جان میرے لیے بہت قیمتی ہے،بس ایک چھوٹا سا کام ہے۔“
”کیا…..؟“
’تم پی.کے.کھرانا کو کسی طرح خوش کر دو، تاکہ اس بار الیکشن کا ٹکٹ میری جھولی میں ڈال دیں،کھرانا صاحب وعدہ کرتے ہیں لیکن عین وقت پر ان کا ارادہ بدل جاتا ہے،ابھی مہاگٹبندھن میں موٹے طور پر سیٹوں کا اعلان ہو چکا ہے کچھ گانٹھیں ابھی کھلنی باقی ہیں اور سب سے بڑا پیچ سیمانچل کو لے کر ہے،سب کی نظر اسی سیٹ پر رہتی ہے۔ یہاں کا ٹکٹ کھرانا صاحب اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں…..اور ای سالا مکیشوا کون سی چال کھرانا صاحب کے سامنے چلتاہے کہ اسے ہری جھنڈی مل جاتی ہے،ہر بار اس کی سیٹ محفوظ رہتی ہے۔سالالمبے سمئے سے سیمانچل کے سیٹ پر راج کر رہا ہے۔رینو ڈارلنگ اس بار مکیشوا کا پتہ صاف کرنے میں میرا ساتھ دو…..رینو ڈارلنگ پی.کے.کھرانا کو کسی طرح اپنی مٹھی میں کر لو۔“
”مٹھی میں…..مطلب۔“
”مٹھی میں…..یعنی۔“شری نے شطرنج پر مہرے رکھتے ہوئے کہا۔
”ڈارلنگ!اسے دھیان سے دیکھو…..ہاتھی دونوں جانب،سب سے کونے میں ہوتے ہیں،ہاتھی کے بعد گھوڑے ہوتے ہیں،اس کے بعد اونٹ…..یعنی توپیں رکھی جاتی ہیں اور ان دونوں کے درمیان راجا…..اور رانی…..سفید اور سیاہ کھلاڑیوں پر کھیل شروع کرتی ہے،یعنی سفید رانی سفید خانوں پر اور سیاہ خانہ پر رکھی جاتی ہے اور بادشاہ ہر طرف ایک خانہ حرکت کر سکتا ہے اور اپنے قریب والے خانہ میں موجود مخالف کھلاڑی کو کسی بھی بے سہارا مہرا کو ختم کرتا ہے….. اور….. اس بار سالا مکیشوا کو شہ اور مات دونوں دینا ہے تاکہ سالا اٹھ کر پانی بھی نہیں پی سکے، آج کل سالا روز مندر جا رہا ہے،ایسے مندر میں پاؤں نہیں رکھتا،اس بارسالے کا دانت کھٹا کر دیں گے۔
”اوکے شری!جیسا تم کہو گے ویسا کروں گی۔
”دھنیواد رینو! کل پی.کے.کھرانا جی فیصلہ سنائیں گے کہ اس بار وی.آئی.پی ٹکٹ کسے ملے گا….کھرانا صاحب کو فیصلہ سنانے سے پہلے ابھی اسی وقت ہم ا ن کے گھر جائیں گے۔
”اوکے۔“رینو نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ رینو کو پی.کے.کھرانا کے بنگلہ میں چھوڑ کر چلا گیا،کھرانا صاحب نے صبح شری کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”شری!اب تم نے راجیہ نیتی کے گن سیکھ لیا ہے،کس کوکیا چاہئے نبض کی پکڑ ہو گئی ہے۔
”دھنیواد کھرانا صاحب۔“شری نے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
”نا…… دھنیواد میرا نہیں بلکہ رینو کا کرنا چاہئے۔“پی.کے.کھرانانے ہنستے ہوئے رینو کی طرف دیکھ کر کہا تو رینو کے لب پر پھیکی مسکراہٹ دوڑ گئی۔
”شری!پلیز اب مجھ سے شادی کر لو…..پلیز…..کیوں کہ عورت جتنی بھی ماڈرن بن جائے ہمارے ہندوستان میں شادی سے پہلے مرد کے ساتھ وقت گزارتی ہے تو لوگ اسے۔“اس نے شری کے گلے لگ کر کہا۔
”رکھیل کہتے ہیں۔“شری نے اس کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہااور زور دار قہقہے لگانے لگا۔
”شری!یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“اس نے نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کھراناکے ساتھ رات گزار کر آئی اور ابھی بھی تمہارا دل نہیں بھرا…..مجھ سے اب دور رہو، تم نہ میری بیوی ہو اور نہ معشوقہ…..بلکہ رکھیل ہو…..جسے استعمال کرو اس کے بعد باہر پھینک دو۔“شری نے ماچس کی تیلی جلائی اور اسے پھونک کر باہر پھینکتے ہوئے کہا۔
”کل کھرانا صاحب وی.آئی.پی ٹکٹ کا اعلان کریں گے۔“اس نے رینو کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔ اگلے دن جب پی.کے.کھرانا نے وی.آئی.پی سیٹ کے لیے ٹکٹ شری کی جگہ رینو کو دیا تو اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔
”ارے تو تو بڑی حرامی نکلی۔“اس نے رینو کا بال کھینچتے ہوئے دانت پیس کر کہا۔
”شری!میرابال چھوڑو،ابھی تم شطرنج کے کچے کھلاڑی ہو،مطلب نکالنے کے بعد رانی کو دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک رہے تھے لیکن شاید تمہیں نہیں معلوم کہ رانی دونوں ہاتھی اور توپ کی طاقت کو جوڑتی ہے،رانی آڑھی ٹیڑھی بھی ایک طرح سے یہ راجا کی طرح کسی بھی جانب چال چل سکتی ہے لیکن راجا کے برعکس یہ دور تک جا سکتی ہے،رانی خانوں کے کسی بھی طرف چال چل سکتی ہے اور اپنے مخالف پر حملہ بھی کر سکتی ہے،سمجھ میں آئی بات….. مائی ڈیر شری….. رانی کس طرح طاقتور ہوتی ہے۔“رینو نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔
”بازی جیتنی ہو تو رانی کو اتنی جلدی دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینکنے کی کوشش نہیں کریں…..کیوں کہ اگر رانی ہار گئے تو…..کھیل میں ہارنے کے امکان ہیں۔“اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔اس کی ایک ایک بات اس کے کان میں شیشے کی طرح پیوست ہو رہی تھی۔وہ اسے آنکھیں پھاڑ کر گھور رہا تھا۔
”شری! عورت بہت معصوم ہوتی ہے اور اس کے معصو م جذبات سے کھلواڑ کرنا بڑی مشکل ہے……اگر یہ چھڑگئی تو بڑے بڑے حکمرانوں کے تخت و تاج کو پیروں سے کچل ڈالتی ہے۔“ اس نے نفرت و حقارت سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”نہیں معلوم تھا کہ تو اتنی حرامی نکلے گی…..تمہیں چھوڑیں گے نہیں…..یاد رکھنا۔“ شری نے آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”اس لائق بچو گے تب نا،شطرنج کی بازی اتنی جلدی نہیں چلی جاتی…..بلکہ…..بہت سوچ سمجھ کر ایک ایک چال چلنا پڑتا ہے، تمہاری شہ اور مات دونوں، کیسے منہ کے بل گرے،مجھے بیوقوف بنانا اتنا آسان نہیں۔“اس نے غراتے ہوئے کہا۔
”شری!تم نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے۔“ اس نے بلاؤز سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر ایک سگریٹ سلگایا اور پرس لہراتے ہوئے باہر نکل گئی۔جہاں سیکڑوں کی تعداد میں جمع لوگ پھولوں سے اس کا استقبال کر رہے تھے اور ڈھول تاشوں کے ساتھ رینو کو ٹکٹ ملنے کی خوشی میں تھڑک رہے تھے۔
شری کو اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ چھتیس کے چھتیس گولی اس کے سینے میں اتار دے۔
***