یہ سچ ہے کہ شعری ادب کی کائنات میں بےشمار ہی شاعر و لفظوں کے ساحر پیدا ہوئے اور ان میں سے ہر کسی نے اپنی منفرد صلاحیتوں سے ادب کی بساط پہ جدا گانہ فن کو تعمیر و ترویج بخشی یوں شعری دنیا متنوع گل و گلزار کا رنگ و پیرہن اختیار کر گئی تنوع جو کہ اس کائنات کا حسن ہے اور آفاقی اصول بھی اس رنگا رنگی کا اس روایت کے ادب کی سرزمین پہ ہونا اس کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔
لفظوں کے ڈور میں احساس کے نگینے پرونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں کیوں کہ لفظوں کی ڈور کو جہاں الجھنے سے بچانے کی کوشش میں کمال مشاقی سے کام لینا پڑتا ہے وہیں تکلفات کی سیپوں سے احساس کے گہر چننا اور اسے مشام جاں سے گزارنا ایک دقیق اور مہارت طلب کام ہے ۔ خیر ہر فن کے اپنے اصول ہوتے ہیں اور ہر میدان کے اپنے بےمثال فنکار ہوتے ہیں جو کہ اس فن کو اوج ثریا تک پہنچانے کا بیڑا اٹھاتے ہیں اور پھر دنیا اس جدوجہد کو کامیابی سے ہم کنار ہوتا بھی دیکھتی ہے آج ایسا ہی ایک شیریں سخن شاعر میرے حدودِ خیال میں پورے طمطراق کے ساتھ واگذار ہوا ہے جسے ایک دنیا شاعر اعظم کہتی ہے اور کچھ لوگ ہیں جو اسے آسمان غزل کا بدر کامل کہہ کے مخاطب کرتے ہیں میرے خیال میں واقعی خدا نے انھیں بڑی کمال فیاضی کے ساتھ اس لفظوں کی دنیا میں احساس کی روشنی عطا کی ہے ہاں اس خوش فکر شاعر کو دستاویزات کے صفحات میں بشیر بدر لکھتے ہیں ۔
بےشک بشیر بدر کی شعری تخلیقات ادب کا وہ شہ پارہ ہے جو کہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں لیکن ان کی شاعری کے شائقین بصد شوق اسے تعریقی لفظوں سے مرصع کرتے ہیں جس طرح سے انھوں نے زندگی کے عام موضوعات کو اپنی شاعری کا محور بنایا ہے اور جس قدر سادہ اسلوبی کے ساتھ اسے قرطاس ابیض پہ اتارا ہے وہ اپنے آپ میں قابل تعریف ہے ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے صرف عمومی پہلو پر ہی طبع آزمائی کی ہے بلکہ انھوں نے غزل گوئی کے روایتی ورثہ کو بھی اپنی کاوشوں کی روشنی سے اجالا ہے یہ متحرک شاعری ان کی شخصیت کا خاصہ رہی ہے انھوں نے غزل کی تہذیب اور اس کے مخصوص پیرایے کے دائرے میں رہتے ہوئے غزل کو وہ مہمیز دی ہے کہ جس کا ہر خاص و عام معترف ہے ان کے شاعرانہ رمز معنویت سے کہیں بھی خالی نہیں دکھائی دیں گے ۔
میرا تعارف بشیر بدر کے شعروں سے بہت ہی الگ انداز میں ہوا جو کہ آج بھی میرے لئے ایک متاثر کن احساس لئے ہوئے ہے ۔ ہوا یوں کہ کچھ سال پہلے میری کلاس میں ایک نوٹ بک رکھی ہوئی تھی خالی پیریڈ تھا تو میں اسے اٹھا کے یوں ہی دیکھنے لگی اسی دوران اس میں لکھے ایک شعر پر میری نظر پڑی وہ تھا ‘ محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا ‘ ابھی دوسرا مصرعہ پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی کہ جس کی نوٹ بک تھی وہ لے کے چلی گئیں وہ میرے سے دو سال سینئر تھیں اسلئے میں احتراماً اور کچھ تکلف میں خاموش رہ گئی اور پہلا مصرعہ پڑھ کے دوسرا مصرعہ پڑھنے کی کسک میرے اندر کہیں رہ گئ بہت دنوں بعد پھر دوران مطالعہ ایک کتاب نظر سے گذری جس میں یہ شعر مکمل موجود تھا اور شاعر کا نام بھی اور وہ بشیر بدر تھے ۔۔ بلاشبہ ان کا طرز فکر شعری روایت میں اتنا حقیقت پسندانہ رہا ہے کہ پڑھنے والا اکثر حوالہ دینے پر مجبور ہو جاتا ہےاس طرح میں پہلے بشیر بدر کے شعروں اور بعد میں ان کی شخصیت سے متعارف ہوئی ۔
بشیر بدر ایک حساس شاعر ہیں ہمیں ان کی شاعری پہ بات کرتے ہوئے میر و غالب کے طرز شاعری کی مثال دینے کی ضرورت ہرگز محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ انھوں نے بالکل مختلف اور منفرد شاعری کی راہ پہ سفر کیا ہے ۔ رہی بات کسی نہ کسی پہلو سے مشابہت کی تو یہ شاعری کی دنیا میں جزو لاینفک پہلو ہے کہ شباہت کا اشتباہ چھلک ہی جاتا ہے کیوں کہ محبت اور احساس کو کسی بھی پیرائے سے ادا کیا جائے ان کے درمیان کوئی نہ کوئی ربط کی راہ پیدا ہو ہی جاتی ہے اور اس طرح ان کے قلم نکلے ایسے اشعار بھی ہیں جو نوک زباں پہ آج بھی رواں ہیں مثلاً ان کا ایک شعر۔۔۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے زندگی کی کس گلی میں شام ہو جائے۔
یہ ایک ایسا کہنہ رواں شعر ہے جس کی تروتازگی روز اول کی طرح آج بھی قائم ہے ۔ ان کے اشعار سہل پسند شائقین اور ادب کے دلدادہ قارئین دونوں کو یکساں طور پہ متاثر کرتے ہیں ۔
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
بشیر بدر صرف دلی احساسات کے ہی ترجمان نہیں بلکہ محبت جو کہ غزل کی آبرو ہے انھوں نے بڑی مہارت سے اپنے شعروں کے ذریعے اس کی بھی رونمائی کی ہے اور ساتھ ساتھ عصر حاضر میں واقع ہونے والے ہر زاویہء حیات کو اپنی شاعری میں منعکس کیا ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ خواص کے ساتھ عوام کے بھی شاعر ہیں انھوں نے عام انسانی کیفیت کو نظر انداز نہیں کیا تو کہنا شاید کچھ خلاف سچ نہیں ہوگا کیوں کہ ان کے اشعار اس کی بھرپور دلالت کرتے نظر اتے ہیں:
زندگی تو مجھے پہچان نہ پائی لیکن
لوگ کہتے ہیں کہ میں تیرا نمائندہ ہوں
سر پہ کپڑے ہیں قدامت کی علامت اور میں
سر برہنہ یہاں آ جانے پہ شرمندہ ہوں
۔
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
الفاظ کی تخلیق اور احساس کی نموپزیری میں بشیر بدر نے اپنا ایک امتیازی وصف قائم کیا ہے اس میں کوئ اختلاف نہیں۔
سنوار نوک پلک ابروؤں کو خم کر دے
گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کردے
غرور اس پہ بہت سجتا ہے مگر کہہ دو
اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کردے
ان اشعار پہ اگر ایک طائرانہ نظر ہی ڈالی جائے تو یہ بات زبان سے ادا ہو ہی جاتی ہے کہ ایسا کمال سخن رکھنا فن سخنوری پہ عبور حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے بشیر بدر نے ایسے صدہا اشعار کہے ہیں جو کہ شعور اور گہرائی و گیرائی کی تہوں سے نکلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
بالی ووڈ کے فلمی نغمہ نگار جاوید اختر نے ایک بار کہا تھا میرے والد جاں نثار اختر کہا کرتے تھے کہ مشکل الفاظ میں شاعری کرنا تو آسان ہے لیکن آسان لفظوں میں شاعری کرنا بہت مشکل ہے اس سانچے پر اگر بشیر بدر کا فن سخن جانچا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی انھوں نے دنیائے ادب کی بےمثال خدمت کی ہے ۔
تحریر و گفتگو میں کسے ڈھونڈتے ہیں لوگ
تصویر میں بھی شکل ہماری نہ آئے گی
سر پر زمین لے کے ہواؤں کے ساتھ جا
آہستہ چلنے والوں کی باری نہ آئے گی
بےشک بشیر بدر کا یہ پیغام معنی خیزی سے بھرپور ہے کہ وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملانا خود وقت کی ضرورت ہے ۔ اور اسی میں ہماری بہتری پنہاں ہے۔
میں اسی گماں میں برسوں بڑا مطمئن رہا ہوں
ترا جسم بےتغیر ، مرا پیار جاوداں ہے
کبھی پا کے تجھ کو کھونا کبھی کھو کے تجھ کو پانا
یہ جنم جنم کا رشتہ تیرے میرے درمیاں ہے
ایسا لگتا ہے کہ بشیر بدر محبت شناس تھے تو خوش گماں و خوش خیال بھی تھے وہ خوش خیالی اور حسیں تصور جو کہ عاشقوں کا وطیرہ رہی ہے ۔
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا
۔
ہم شریفوں کی ذرا مجبوریاں سمجھا کرو
جس کو اچھا کہہ دیا اس کو برا کیسے کہیں
۔
بارہا یہ ہمیں محسوس ہوا
درد سینے کا خدا ہو جیسے
پھول کی آنکھ میں شبنم کیوں ہے
سب ہماری ہی خطا ہو جیسے
۔
یہ اشعار بشیر بدر کی شخصیت کے گوناگوں اوصاف کو بڑے سلیقے کے ساتھ بیان کرتے نظر آ رہے ہیں ان کی زندگی کے پیچ و خم جس سے وہ گزرے اس کی جھلکیاں بھی نظر آرہی ہیں
اک پل کی زندگی مجھے بےحد عزیز ہے
پلکوں پہ جھلملاؤں گا اور ٹوٹ جاؤں گا
یہ رات پھر نہ آئے گی بادل برسنے دے
میں جانتا ہوں صبح تجھے بھول جاؤں گا
۔
تنہا طئے کرنا ہے سب کو رات کا سارا سفر
جھاڑیوں میں جگنوؤں کے قافلے کھو جائیں گے
سرخ نیلے چاند تارے دوڑتے ہیں برف پر
کل ہماری طرح یہ بھی دھند میں کھو جائیں گے
بشیر بدر کی ذات اور ان کی شاعری کے بارے میں بات کرتے ہوئے پروفیسر خلیق انجم نے کہا ‘ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں غزل کے لئے جو محبت اور عزت پیدا ہوئی ہے اس میں بشیر بدر کا نمایاں حصہ ہے بشیر بدر کی شاعری معمولی شاعری نہیں ہے وہ زندگی کے تفکر کو غزل بناتے ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ اچھی شاعری کر کے مقبول ہیں میرے نزدیک اس وقت ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر اردو غزل کی آبرو بشیر بدر ہیں’
بےشک غزل گو کی حیثیت سے بشیر بدر کی شخصیت اپنا ایک اعلی مقام رکھتی ہے جس میں کوئ دو رائے نہیں بشیر بدر کی غزلیں آج کے دور کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ایسی تصویر جو کہ متحرک بھی ہے اور دوسروں میں تحریک بھی پیدا کرتی ہے
نئی نسل کے تخلیق کاروں کو ان کی تقلید کبھی بھی شرمندہ نہیں کرے گی ۔