محمد سرفراز
لیکچرر شعبہ اردو گورنمنٹ گریجوایٹ کالج سمندری
شعری زبان — ماہیت و مباحث
POETIC LANGUAGE— ITS ESSENCE AND DEBATES
Abstract:
“Poetic language is the most primitive language of the peoples of the world. Poetic expression is spontaneous and man likes to express his feelings in poetic style. That’s why the very first and best pieces of literature are found in the form of poetry in most of the world’s languages. Since poetry makes use of non-traditional modes of expression, so poetic language is different from common language despite being its essential component. Elevation of word literal to literature is a unique accomplishment of literary language. In the first part of this article an effort has been made to determine the devices of poetic language. In the second part the debate of poetic language in criticism of these languages which have contributed in formation of Urdu poetics, has been analyzed.”
Keywords: Poetic Language, Poetic Devices, Poetics, Urdu Criticism,
صلاحیتِ نطق نوعِ انسان کا منفرد فطری وصف ہے تو زبان کی تشکیل اس کے ارتقا کا کارنامہ۔ کسی زبان کی تخلیقی صلاحیت و وسعت لفظیاتی حسن اور الفاظ کی معنیاتی زرخیزی کا اظہاریہ شعری زبان (Poetic Language) ہوتی ہے۔ شعری زبان فی نفسہٖ عام زبان ہونے کے باوجود خود کو ممیز کرنے کے وصف سے مملو ہوتی ہے۔ زبان اور ثقافت کے رشتے سے چونکہ مفر نہیں اس لیے تہذیبی و ثقافتی امتیازات میں زبان اور اس کا اصل جوہر یعنی شعری زبان انفرادی تخصیصی مظہر ہے۔ اسی سے ثقافت کے تخلیقی اذہان کی زرخیزی، فکر و اظہار پر قدرت اور تخلیقی اُپج کا اندازہ ہوتا ہے۔ مزید یہ قومی ذہنی بلوغت و ارتقا اور فن سے رغبت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
_____________________________ لفظ کو اس کے وضعی اور متعین سیاق و سباق سے نجات دلا کر معنویت کے نئے آفاق سے آشنا کرنا شعری زبان کا اختصاص ہے۔ لفظ کا خلّاقانہ استعمال اسے یہاں وہ دریچہ بناتا ہے جو جہانِ معانی کی طرف کھلتا ہے۔ لفظ کو Literal کے درجے سے اُٹھا کر Literature کے مقام پر فائز کرنا شعری طرزِ اظہار یا شعری زبان اور نثری زبان کے درمیان مابہ الامتیاز ہے۔ لفظ یہاں معنی آفرینی کا کام دیتا ہے۔ شاعری چونکہ جذبات و احساسات اور افکار کی تجسیم کاری کرتی ہے۔ اس لیے لفظ یہاں بنیادی اکائی قرار پاتا ہے۔ الفاظ کا حسن استعمال ہی موزونیت اور فکر کی تہہ در تہہ معنویت کا سبب بنتا ہے۔ شاعری کی زبان عام زبان کو گہرے مفاہیم کے ذریعے خاص بنانے کا عمل ہے۔ اس عمل میں زیادہ تر رائج الوقت لفظیات کو نئے مفاہیم سے وابستہ کر کے اور ساتھ ہی تراش خراش کے ساتھ نئی لفظیات وضع کر کے ہنر کا جادو جگایا جاتا ہے۔
جس طرح معاشرے میں مختلف طبقات مثلاً ان پڑھ اور عالم، جج اور کسان، تاجر اور کیمیادان، فلسفی اور قانون دان کی زبان میں بدیہی فرق ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک ہی لفظ مختلف معاشرتی طبقوں کے لیے الگ الگ مفہوم اور معنوی جہات کا حامل ہوتا ہے۔ بعینہٖ شعری زبان بھی معانی وضع کرنے میں خود کفیل اور خود مختار ہوتی ہے۔ شاعری الفاظ کی بناوٹ اور تشکیل معانی کا کام باقی شعبہ ہائے علوم اور طبقات کی بہ نسبت زیادہ تخلیقی اور ماہرانہ انداز سے سرانجام دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتی ہے۔ شاعر، تخلیق کار کے پیشِ نظر لفظ کی صوری و معنوی دونوں طرح کی خوب صورتی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ لفظ میں ظاہری خوب صورتی کے ساتھ باطنی حسن جذبے کی شدت کے ذریعے سمونے کی کوشش کرتا ہے۔ جس سے منفرد قسم کی معنیاتی فضا تخلیق پاتی ہے۔ بقول انجم اعظمی:
’’لفظوں سے کیفیت اور حسیت کا اُبھرنا ایک رمز ہے جس کا تجزیہ ممکن نہیں البتہ دل اس سے آگاہ ہوتا ہے اور اس بہانے شاعری کی زبان گواہ بن جاتی ہے کہ شعری صداقت کا تعلق آدمی کے دل سے ہے۔‘‘([1])
شاعری کی زبان صرف محسوساتی سطح پر ہی حسن کی حامل نہیں ہوتی بلکہ صوری اور معنیاتی سطح لفظ کو موضوعی طور پر بھی قابلِ توجہ بناتی ہے۔ یہ زبان الفاظ کے استعمال میں بخل اور معنی کے انضمام میں اسراف سے کام لیتی ہے۔ جس طرح مالی جھاڑ جھنکار سے چمن کو پاک کرتا ہے کم و بیش یہی کام شاعر تخلیقی سطح پر سرانجام دیتا ہے اور کم لفظوں میں زیادہ مفہوم سموتا ہے۔ شعری زبان کے اسی وصف کی نشاندہی کرتے ہوئے سیّد صادق علی لکھتے ہیں:
’’شعری زبان نثری زبان کے مقابلے میں محدود، مبہم اور رموز و اشارات کی حامل ہوتی ہے لیکن انہی رموز و اشارات کے سبب شعری زبان معنیاتی اعتبار سے نثری زبان پر فوقیت رکھتی ہے۔‘‘([2])
شعری زبان عام استعمال کی زبان اور نثری زبان سے مختلف کیوں ہوتی ہے یا زیادہ پُراثر، لطیف اور خوش نما کیسے بنتی ہے؟ اس کی وجہ لفظ کا غیر روایتی استعمال ہے۔ لفظ جو نہ صرف شاعری بلکہ ہر قسم کے اظہار کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہاں اپنی نامیابی طاقت کا رشتہ زمان و مکان کی نیرنگیوں کے ساتھ وابستہ کر لیتا ہے اور عدسے کی بجائے وہ منشور قرار پاتا ہے جو یکساں صوت کی روشنی کو مختلف معانی کے رنگوں میں منعکس کرتا ہے اور جامد ہونے کی بجائے متحرک اور تغیر پذیر ہو جاتا ہے۔ بقول قاضی افضال حسین:
’’شاعر کی نظر منطقی اعتبار سے صحیح تر لفظ کی بجائے جذبے کی ممکن حد تک بے کم و کاست نمائندگی کرنے والی تعبیروں پر ہوتی ہے۔ تکمیل اظہار کے اس تقاضے سے مجبور ہو کر وہ مروّجہ قواعد کی حد بندیاں قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور اکثر الفاظ کو ان کے لغوی معنوں میں استعمال کرنے کے بجائے اپنے مخصوص معنوں میں نظم کرتا ہے۔ ان الفاظ کی دلالتوں میں تغیر و تبدل کرتا ہے اس کی مختلف تعبیروں میں سے بعض کو نمایاں کرتا ہے اور بعض کو پوشیدہ رکھتا ہے یا اکثر انہیں نئی تعبیریں عطا کرتا ہے اور اس طرح رفتہ رفتہ مروّجہ زبان سے مختلف اور اس کے قواعد سے بے نیاز ایک انوکھی زبان نمو کرنے لگتی ہے جو شاعر کی اپنی تخلیق ہوتی ہے۔‘‘([3])
شاعرانہ زبان دراصل تخلیقی عمل کے دوران میں شاعرانہ فکر و احساس کی کٹھالی میں نئے سانچوں میں ڈھل کر متشکل ہوتی ہے شاعر لفظوں کی تہذیب میں اتر کر ان کا مزاج آشنا ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ روایتی ذخیرۂ الفاظ کے استعمال کے باوجود انفرادیت اور انوکھے پن کے جوہر کو مجروح نہیں ہونے دیتا اور عام لفظوں کو بھی اپنے شاعرانہ طرزِاظہار کے قرینے سے تخلیقیت کے سنگھاسن پر براجمان کرتا ہے۔ اس عمل میں وہ مختلف شاعرانہ وسائل (Poetic Devices) مثلاً تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مُرسل، علامت، وزن و آہنگ، پیکر تراشی کے علاوہ صنائع بدائع، تجسیم وغیرہ کو بروئے کار لا کر اپنے فن کے جوہر دکھاتا ہے۔ یہی ارفع اور الگ اندازِبیان، عام زبان کو تخلیقی اور شعری بناتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شرق و غرب کی تنقید نے شعر اور اس کے تخلیقی عمل کو ذوقی، وجدانی اور ماورائی ثابت کرنے پر اچھا خاصا زور صرف کیا ہے۔ اس کے باوجود ناقدین نے اس عمل کو معروضی اور غیرجذباتی انداز سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے اور شعری زبان کے خدوخال متعین کیے ہیں جو عناصر و لوازم شعری زبان کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان میں سے بعض نثر میں بھی مشترک پائے جاتے ہیں۔ شاعری کی زبان اصل میں کچھ لوازم کے باہم مجتمع ہونے کا نام ہے کوئی ایک جزو یا خوبی درست تفریق نہیں کر سکتی۔ مختلف اجزائے ترکیبی مل کر شعری زبان کی شناخت قائم کرتے ہیں جن میں سے بعض کا بیک وقت موجود ہونا لازمی امر ہے۔
شعری زبان دراصل لفظیات کو وقت کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کا نام ہے۔ لفظ جب کثرتِ استعمال سے اپنی استعاراتی حیثیت کھو دیتے ہیں تو شاعری ان کے معانی کی تجدید (Renew) کرتی ہے۔ نئی تشبیہات کو جنم دیتی ہے۔ تشبیہ بظاہر مختلف اشیا کے مابین مشابہت تلاش کرنے کا عمل ہے۔ قدیم عرب ناقدین سے لے کر آج تک اس کی یہی تعریف چلی آتی ہے۔ قدامہ بن جعفر نے بھی یہی تعریف متعین کی ہے:
’’فأحسن التشبیہ ہو ما وقع بین الشیئین اشتراکہما فی الصفات أکثر من انفرادہما فیہا، حتی یدنی ہما إلٰی حال الاتحاد۔‘‘([4])
تشبیہات نثر اور تخلیقی نثر میں بھی موجود ہوتی ہیں مگر شاعرانہ تشبیہات عام مستعمل اور سطحی نہیں ہوتیں جو کثرت استعمال سے کلیشے (Cliche) کی حیثیت اختیار کر گئی ہوں بلکہ ان کی خوبی غیرروایتی، تازہ اور مبہم ہونا ہے۔ مفرد اور مرکب دونوں طرح کی تشبیہات شاعرانہ زبان میں آتی ہیں۔ ارکان میں کمی بیشی اور مشابہت کا منفرد اور انوکھا پہلو تلاش کرنے کی کوشش ان میں جان پیدا کرتی ہے۔
استعارہ شعری زبان کی جان ہے مشرقی و مغربی شعریات کی روایت میں شعری عناصر میں سب سے زیادہ موضوعِ بحث بھی استعارہ رہا ہے کیونکہ اس میں تخلیقی اظہار کے امکانات سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں:
’’استعارہ سے مراد الفاظ کی دلالت غیروضعی ہے۔ ہر لفظ کسی شے سے مختص ہوتا ہے جب کسی لفظ کو اس شے کے لیے استعمال کیا جائے جس کے لیے وہ اساسی طور پر وضع نہ کیا گیا ہو، تو اسے استعارہ سے تعبیر کرتے ہیں۔‘‘([5])
قدیم یونانی نقاد لونجائنس (Longinus) استعارے ہی کو تخلیقی عمل گردانتا تھا اس کے مطابق:
استعاروں کے استعمال کا مناسب موقع وہ ہے جب جذبات سیلاب کی طرح بڑھتے چلے آئیں اور بے اختیار اپنے ساتھ استعاروں کی ایک فوج لے جائیں۔‘‘([6])
مشرقی شعریات کی روایت میں بھی استعارے کی اہمیت مسلم رہی ہے۔ امیر عنصر المعالی کیکاؤس جو پانچویں صدی ہجری کے نقاد ہیں اور فارسی کے ابتدائی ناقدین اد ب میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اپنی کتاب ’’قابوس نامہ‘‘ میں فنِ شاعری کے متعلق باب میں رقم طراز ہیں:
’’اما اگر خواہی کہ سخن تو عالی باشد و بماند، بیشتر سخن مستعار گوئی و استعارت برممکنات گوئی و در مدح، استعارت بکار داد‘‘([7])
استعارہ تشبیہ کے مقابلے میں تفوق اس لیے پاتا ہے کہ یہ کم پھیلاؤ کا حامل ہونے کے باعث شعری اظہار کے قرینے سے زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ معانی کے ارتکاز میں وسیع ظرف اور تعبیرات و انسلاکات کو مبہم رکھ کے لفظ کو کثیر الجہت بنا سکتا ہے۔ بالواسطہ اظہار کے بجائے بلاواسطہ اظہار کا قرینہ رکھتا ہے۔ استعارے کو شاعرانہ خیالات و احساسات کا ترجمان ہی نہیں بلکہ خیال قرار دیا جاتا ہے۔ اچھے استعارے کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ محلِ استعمال سے بڑھ کر معنی آفرینی پر قادر ہوتا ہے۔ قاضی افضال حسین کے مطابق:
’’استعارہ لفظ کی اپنی دلالتِ وضعی کے علاوہ بھی مختلف النوع تصورات کے بیک وقت اظہار پر قادر ہوتا ہے۔ معنی کے مختلف جہات پر حاوی ہونے کے سبب استعارے میں شاعر کے انفرادی تجربات و احساسات کے بے کم و کاست اظہار کی صلاحیت ہوتی ہے۔‘‘([8])
استعارات، تشبیہ، علامت وغیرہ کثرتِ استعمال کی وجہ سے مفہوم کھو دیتے ہیں۔ مخصوص وقت کے لیے تو بعض استعارے جدید اور خوب صورت ہو سکتے ہیں لیکن ہر دور میں استعارہ نہیں بن سکتے۔ اسی ضرورت کے تحت ثقافتی انقلابات کی طرح شعری زبان کا بھی ارتقا پذیر ہونا ضروری ہے۔ تخلیق کار نئے استعاروں کے استعمال کے ساتھ پرانے استعاروں میں مماثلت کے نئے اور انوکھے پہلو بھی تلاش کرتے ہیں۔ طرفین میں مشابہت کا الگ پہلو تلاش کرنا اور بالکل واضح اور آسان استعاروں کی جگہ پیچیدہ اور ادق استعاروں کا انتخاب بھی جدت کا سبب بنتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی اسے خوبی گردانتے ہیں:
’’اگر طرفین میں مغائرت بھی بہت زیادہ ہو اور مماثلت کا جو پہلو ڈھونڈا جائے وہ آسانی سے نظر نہ آ سکتا ہو یا اس پر دوسروں کی نظر نہ گئی ہو تو اس سے بہتر تشبیہ یا استعارہ ممکن نہیں۔ جدید استعارے کی قوت کا راز یہی ہے۔‘‘([9])
استعارہ تخلیق کار کے مشاہداتی عمق اور تخلیقی بصیرت کا غماز ہوتا ہے۔ اچھا استعارہ تخلیقی واردات بن کر شاعر پر منکشف ہوتا ہے یہ بیک وقت تخلیقی تجربہ بھی ہوتا ہے اور اس کا اظہار بھی۔ ’’شعری زبان کی خصوصیت اس معاملے میں یہ ہے کہ اس میں استعارے کیفیت اور کمیت دونوں کے اعتبار سے اوّل درجے کی اہمیت رکھتے ہیں اور بذات خود مقصود ہوتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاعر کو جو کچھ کہنا ہوتا ہے وہ اسے استعارے کے بغیر کہہ ہی نہیں سکتا۔‘‘([10])
اسی طرح شعری زبان علامت سے خلق ہوتی ہے۔ علامتی طرزِ اظہار فطری اور قدیم ہے۔ تمام علوم و فنون میں علامتوں کا استعمال ہوتا ہے اور زبان تو کہلاتی ہی علامتوں کا سرچشمہ ہے۔ ہر دور کی شاعری اپنے عہد کا علامتی نظام اور قرینے لیے ہوتی ہے۔ شعرا و ادبا پرانے علامتی نظام کی جگہ جب تک نئی علامتیں وضع نہ کریں شعری زبان بے روح کے جسم کے مماثل رہتی ہے۔ بیسویں صدی میں شعرا نے غزل کے روایتی علامتی نظام کو بدل کے اس کا جواز پیدا کیا۔ وسیع تر لسانیاتی تناظر میں دیکھا جائے تو ہر لفظ علامت کی حیثیت رکھتا ہے۔ علامت اشارہ یا نشان اور استعارہ سے الگ ہوتی ہے اور ان سے بھی زیادہ گہرائی و گیرائی کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے بھی مشابہت ہوتی ہے۔ تاہم یہ مشابہت مشاہداتی سے زیادہ کیفیاتی اور تخیلاتی ہوتی ہے جو تخلیق کار پر منکشف ہوتی ہے۔ اس انکشاف کے پیچھے ثقافتی اجتماعی شعور کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انیس ناگی کے بقول:
’’علامت اپنے بطن میں اشارہ اور استعارے کو لیے ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کی بنیاد بھی مشابہت پر ہوتی ہے لیکن یہ مماثلت ارادی ہونے کی بجائے اتفاقی ہوتی ہے۔ علامت نشاندہی کے علاوہ شے کے تصور کو بھی پیش کرتی ہے۔ علامت سہ طرفہ رشتوں سے مرتب ہوتی ہے۔ ان میں پہلا رشتہ لفظ اور معروض کا ہے۔ دوسرا معروض اور مشابہت کا اور تیسرا رشتہ معروض اور اس کے تصور کا ہے۔‘‘([11])
نفسیات کی رو سے اجتماعی لاشعور علامتوں کا سرچشمہ قرار پاتا ہے اور شعور سے لاشعور کے سفر میں بننے والی اشکال علامت کی بنیاد بنتی ہیں۔ علامت چونکہ محض مشابہت سے بالا ہوتی ہے۔ اس لیے متنوع تصورات کے اظہار پر قادر ہوتی ہے۔ اس کی کثیر المعنویت اور پیچیدگی جو شعری طرزِاظہار کی عمدہ صورت میں شمار ہوتی ہے، اسے مختلف تصورات کو وحدت میں ڈھال کر پیش کرنے کے قابل بناتی ہے۔ شعری علامات مذہبی سائنسی اور دیومالائی علامتوں کے برعکس حسیاتی اور تخیلاتی ہونے کی وجہ سے بھی متذکرہ خوبی سے مالامال ہوتی ہیں۔ علامت لفظ میں معنیاتی سطح پر تحرک پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ اس ابہام کے درآنے کی شکایت کی جاتی ہے تاہم علامتی نظام اپنے آپ کو مخصوص اصناف اور سماجی دائرے میں زیادہ عسیرالفہم بناتا ہے۔ علامتی طرزِاظہار لسانی تشکیل کے علاوہ شعری زبان کا بھی جزولاینفک قرار پاتا ہے۔
امیجری جس کے لیے اُردو میں پیکر، پیکرتراشی، تصویر کاری، تصویر آرائی، تمثال آفرینی، لفظی تصویر، محاکات، شاعرانہ مصوری جیسے متنوع الفاظ استعمال ہوتے ہیں، شاعری کا عنصر تو ہے ہی پیکر کا حامل لفظ شعری زبان کا بھی جزواعظم ہے۔ امیج کی انگریزی زبان میں جس کا یہ لفظ ہے یہی وضاحت ملتی ہے حواس خمسہ میں سے ایک یا زیادہ کو متحرک کرنے والا لفظ۔ قاضی افضال حسین پیکر کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’شعری پیکر الفاظ کا تخلیق کردہ تخیلی طور پر محسوس کیا گیا حسی تجربہ ہے یعنی الفاظ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جو حواس خمسہ میں سے کم از کم کسی ایک کے ذریعے ہمارے متخیّلہ کو متاثر کرتی ہے پیکر کہلاتی ہے۔‘‘([12])
پیکر اشیا و کیفیات کا حسی ادراک ہے یہ صرف مجسم اشیا کو بیان نہیں کرتا بلکہ جذبات، احساسات، مشاہدات اور تجربات جیسی مجرد کیفیات کو بھی محاکات کے ذریعے معرضِ تعبیر میں لاتا ہے۔ امیج کی خوبی زیادہ سے زیادہ حواس کو متحرک کرنے کی صلاحیت گنی جاتی ہے۔ شعری امیج کو معنویت سے بھرپور متنوع اشاریت کا حامل ہونا چاہیے۔ یعنی یہ سطحی اور مشابہتی نہیں بلکہ رمزیت، معنویت سے مملو کثیرالجہت اور عمیق ہونا چاہیے۔ پیکر وسیع تر ذہنی کیفیات، جذباتی تموجات، نفسیاتی پیچیدگیوں کو اظہار کی راہ فراہم کرتے ہیں۔ انھیں محض تصویرکشی تک محدود کر دینا قرین انصاف نہیں۔تخلیق کار اگر تخلیقی کیفیت اور تجربےکو مجسم کرنے پر قادر ہے اور متنوع امیجز سے کام لیتا ہے تو یقیناً امیجری کے ذریعے وہ بیشتر جذبات و احسات کو مجسم کر سکتا ہے جو کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے امیجری شاعری اور شعری زبان کی بنیادی پہچان ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے مطابق:
’’متنوع الاثر پیکر، شعر کو استعارہ اور علامت سے بھی بے نیاز کر دیتے ہیں اور کسی کلام موزوں و مجمل کو شاعری بننے کے لیے صرف پیکر کافی ہیں۔‘‘([13])
اس رائے کے پیچھے مغرب میں گزشتہ صدی کے آغاز میں رومانویت اور وکٹورین شاعری کے خلاف جنم لینے والی اینگلو امریکن امیجز تحریک کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس نے امیجز کی تخلیق پر شاعری کا مدار قرار دیا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی تشبیہ، استعارہ، علامت اور پیکر کو ’’جدلیاتی لفظ‘‘ سے موسوم کرتے ہیں اور انہی کو شعری تخلیقی زبان کی پہچان قرار دیتے ہیں:
’’تخلیقی زبان چار چیزوں سے عبارت ہے: تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت۔ استعارہ اور علامت سے ملتی جلتی اور بھی چیزیں ہیں مثلاً تمثیل (Allegory)، آیت (Sign)، نشانی (Emblem) وغیرہ لیکن یہ تخلیقی زبان کے شرائط نہیں ہیں اوصاف ہیں۔ ان کا نہ ہونا زبان کے غیر تخلیقی ہونے کی دلیل نہیں۔ علاوہ بریں انہیں استعارے کے ذیل میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔ لیکن تشبیہ، پیکر، استعارہ اور علامت میں سے کم سے کم دو عناصر تخلیقی زبان میں تقریباً ہمیشہ موجود رہتے ہیں اگر دو سے کم ہوں تو زبان غیر تخلیقی ہو جائے گی۔‘‘([14])
واضح رہے کہ تخلیقی زبان سے مراد انہوں نے شعری زبان ہی لی ہے۔ ان چار چیزوں کا استعمال عام طور پر نثر میں بھی ہوتا ہے۔ اگرچہ اس تواتر سے نہیں جس قدر شاعری میں لیکن انہیں نثر کی خوبی نہیں خامی گردانا جائے گا کیونکہ نثر میں سارا زور مطلب کی ادائیگی اور وضاحت اور تشریح پر صرف ہوتا ہے نہ کہ ابہام، اشاریت اور لفظ کے مجازی استعمال پر۔ کیونکہ یہ چیزیں شاعری سے وابستہ ہیں اور ان کا بلاجواز و ضرورت استعمال نثر کے مقصد کو غارت کر دے گا۔ ڈاکٹر منظر عباس کی اس ضمن میں رائے ہے:
’’وہی چیزیں جو شعر کے حسن میں اضافے کا باعث ہوتی ہیں۔ مثلاً تشبیہات، استعارات اور علامات وغیرہ انہیں کا نثر میں غیرمحتاط استعمال نثر کے وزن، وقار اور توانائی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ خاص نثر کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو اور اس کا مفہوم بس ایک ہی ہو۔‘‘([15])
نثر میں جدلیاتی لفظ کا اگر استعمال ہو بھی تو قدرے واضح انداز میں ہوتا ہے کیونکہ لفظ کی اپنی جہت نمائی یہاں خودکار مجبوری بن جاتی ہے اور نثر کا پھیلاؤ اس کا جواز فراہم کرتا ہے جبکہ شاعری میں یہ معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ محولہ بالا عناصر کے علاوہ بھی شعری زبان کے کچھ اور لوازم ہیں جن کا تذکرہ یہاں ضروری ہے۔ تجسیم کاری (Personification) کو بھی شاعری کی زبان کے لوازم میں سے سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل بڑی حد تک استعارے اور پیکرتراشی میں بھی ہوتا ہے۔ مزید اس کا استعمال نثر میں بھی ہے اُردو میں محمد حسین آزاد کی تخلیقی نثر اس کی عمدہ مثال ہے۔
شعری زبان سے آہنگ کی خوبی کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ آہنگ کے خلق ہونے میں وزن، بحر کو الگ نہیں کر سکتے۔ اگرچہ ایک ہی بحر وزن میں آہنگ کی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ وزن کو شاعری اور نثر میں تفریق کا بنیادی پیمانہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ نثر بھی اس سے مکمل طور پر تہی دامن نہیں ہوتی مگر نثری آہنگ غیر مسلسل اور ٹکڑوں میں ہوتا ہے۔ ہربرٹ ریڈ (Herbert Read) کی رائے اس میں ضمن میں وقیع ہے:
’’شعر اور نثر میں ایک مابہ الامتیاز وزن ہے، لیکن ایک طرح کا وزن نثر میں بھی ہوتا ہے۔ فرق یہی ہے کہ نظم کا وزن باقاعدہ اور متواتر ہوتا ہے۔ نثر کا زیروبم نحوی ہوتا ہے اور قواعد صرف و نحو کا تابع ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف شعر کا زیر و بم حسی ہوتا ہے اور کسی اندرونی ضرورت کا تابع ہوتا ہے۔‘‘([16])
ہرزبان میں وزن اور آہنگ کا اپنا مخصوص نظام ہے اُردو زبان میں عروض چونکہ عربی فارسی کے تابع ہے۔ اس لیے مغربی زبانوں کے اصولوں کو اس پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ نثری آہنگ شاعری کی طرح ایک وزن بحر میں نہیں ہوتا اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ محض وزن کی موجودگی کو شاعری بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لفظ بھی ترتیب اور ردوبدل کے ذریعے آہنگ بدل سکتا ہے۔ تاہم معنی کو آہنگ سے اس طرح آمیز کرنا کہ دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیں۔ فن کارانہ مہارت ہے۔ معنی سے بے نیاز آہنگ بے روح جسم ہے۔ لفظ و معنی کی یہ بحث مشرقی شعریات میں بہت قدیم ہے۔ صوتی خوبصورتی اور معنوی حسن دونوں پہلو بہ پہلو اصل آہنگ کا باعث بنتے ہیں۔ ڈاکٹر عنوان چشتی موزونیت کو لفظ و معنی کی ہم آہنگی قرار دیتے ہیں:
’’شاعری کی زبان کی بعض اہم خصوصیات ہوتی ہیں جن میں موزونیت، تنوع اور تخلیقی کیفیت شامل ہیں۔ موزونیت سے مراد یہ ہے کہ لفظ و معنی میں سچی مطابقت ہو یہ ایک دوسرے میں تحلیل ہوں جو لفظ جس خیال کے اظہار کے لیے چنا جائے اس سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہ ہو۔ موزوں ترین لفظ کا اصول اسی موزونیت اور مناسبت کا مظہر ہے۔‘‘([17])
لفظ و معنی کے باہم اشتراک سے ہی شعری زبان کا وقار قائم ہوتا ہے۔ لفظ و معنی کے یکساں تعامل کے علاوہ لفظ یہاں لڑی میں پروئے نگینے کی مانند ہوتے ہیں جن میں ردّوبدل سے تاثر جاتا رہتا ہے۔
جس طرح آہنگ شعری زبان کے صوتی حسن کی علامت ہے وہیں ان صوتی اثرات میں قافیہ، ردیف اور تکرار لفظی وغیرہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ یہ لازمی عناصر میں شمار نہیں ہوتے لیکن پھر بھی آہنگ کی تشکیل میں ان کا کردار کلیدی ہے۔ اچھا قافیہ مضمون سے جنم بھی لیتا ہے اور مضمون کو جنم بھی دیتا ہے اور اندرونی قوافی یکساں حرف روی پر اختتام والے الفاظ بھی صوتی تاثر کو مستحکم کرتے ہیں۔ ردیف اظہار مدعا میں معاونت کے علاوہ تکرار لفظی کے ذریعے نغمگیت کا باعث بنتی ہے۔ مشاق تخلیق کار کی راہ میں ردیف قافیہ قطعی مزاحم نہیں ہوتے۔
شعری زبان روایتی گرامر کی پابند نہیں ہوتی اس کی اپنی گرامر ہوتی ہے اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ قواعد سے ماورا ہوتی ہے بلکہ یہ ان الفاظ کا یا تو اخراج کر دیتی ہے یا ان کے مقام میں مناسب رد و بدل کر دیتی ہے جن کے بغیر نثر کا تصور نہیں کیا جاتا۔ نثر میں جملوں کا اختتام عام طور پر افعال پر ہوتا ہے لیکن شعری زبان میں الفاظ کی ترتیب غیرروایتی ہوتی ہے۔ یہ تعقیدِ لفظی شعوری سے زیادہ میکانکی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ مزید شاعری کی زبان ایجاز، اختصار اور جامعیت کی حامل ہوتی ہے نہ کہ پھیلاؤ، وسعت اور وضاحت کی۔ اس میں غیرضروری الفاظ کا گزر نہیں ہوتا۔ شاعری کی زبان کے اس وصف کو شمس الرحمٰن فاروقی اجمال کا نام دیتے ہیں:
’’اجمال کہہ کر میں شعر کے اس مشینی عمل کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں جس کی پیدا کردہ خودکار مجبوری کے تحت وہ الفاظ شعر سے چھٹ جاتے ہیں جن کے بغیر نثر مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘([18])
کم لفظوں میں زیادہ مطلب کی ادائیگی تفصیل سے احتراز اس زبان کا خاص وصف ہے۔ جدلیاتی لفظ کے تحت ابہام کا ذکر ہوا علم بیان کے دورکن تشبیہ استعارہ کے علاوہ باقی دو رکن مجاز مرسل اور کنایہ بھی رمزیت اور ابہام کو جنم دینے کی وجہ سے اس زبان کا حصہ قرار پاتے ہیں۔ ابہام پر خواص و عوام اگرچہ معترض ہوتے ہیں تاہم ابہام شعری عمل کا خود کارنتیجہ ہے جسے اہمال سمجھ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ لفظ اگر گنجینۂ معانی بن کر اور غیروضعی معنوں میں شاعری کی زبان کا حصہ بنے گا تو پھر ابہام کا راہ پانا فطری امر ہے۔ انیس ناگی کی اس ضمن میں رائے ملاحظہ ہو:
’’دراصل ابہام فنی سقم ہونے کی بجائے اعلیٰ درجے کی ادبی تخلیقات کا لازمی جزو ہے ادبیات اور خصوصاً شاعری میں ابہام کا تعلق تشکیل معانی سے ہے۔ شعری لسانیات لفظ کو معانی میں منتقل کرنے کا استعاراتی عمل ہے چونکہ تخلیقی زبان کا استعاراتی ہونا ضروری ہے اس لیے وہ زبان جو تخلیق کرتی ہے اس میں ابہام کا ہونا اکثر حالتوں میں ناگزیر ہے۔‘‘([19])
یک رُخی اور یک سطحی زبان نثر کا خاصہ ہے تخلیقی زبان سے اس وضاحت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لفظ مبہم نہیں ہوتا اس سے وابستہ تصورات تک ذہنی انتقال قدرے دشوار اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ مبہم لفظ قاری کے تخیل کو مہمیز کرتا ہے۔ سوال اُٹھاتا بھی ہے اور جواب بھی مہیا کرتا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی کی رائے اس ضمن میں وقیع ہے:
’’(موزونیت اور اجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے) ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگر کسی شعر میں صرف ابہام ہی ہے تو بھی وہ شاعری ہے۔‘‘([20])
نثر وضاحت ہے اس لیے ابہام شاعری کی خصوصیت ہے۔ یہ اہمال، اشکال سے مختلف ہے اس سے واسطہ تب پڑتا ہے جب ابلاغ اور افہام کے درمیان کسی آنچ کی کمی رہ جائے۔
شعری زبان کی پہچان میں صنائع لفظی و معنوی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ان کا استعمال قرینے سے ہو اور یہ تخلیقی عمل کا جزو بن جائیں تو ان میں سے بعض صنعتیں اس زبان کی خوب صورتی اور تاثیر کی سند بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم سنسکرت شعریات میں ایک مکتبِ فکر نے ’’النکار‘‘ پر بہت زور صرف کیا۔ اگرچہ النکار کا لفظ وہاں پر شعری خوبی کے لیے استعمال ہوا ہے تاہم اس میں صنائع کے شامل ہونے سے ان کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
نثری اور شعری زبان کی یہ بحث ثابت کرتی ہے کہ دونوں کے درمیان تفریق کی وجہ لفظ کے استعمال کا قرینہ مختلف ہونا ہے۔ اگر لفظ کا استعمال محتاط اور فنکارانہ انداز کے ساتھ ہو تو اس کے معنوی انسلاکات کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے اور لفظ خود سے وابستہ معنوی تعبیرات کا حق ادا کر دیتا ہے۔ دوسری صورت میں جامد اور بے لطف نشان بن کر رہ جاتا ہے۔
شعری زبان انسانوں کی اوّلین زبان ہے کیونکہ شعری طرزِاظہار فطری اورانسان کا مرغوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اوّلین ادب کے نقوش شاعری کی صورت میں ملتے ہیں۔ اس زبان کی اہمیت ادب سے بڑھ کر مذہب، سیاست اور دیگر شعبہ ہائے زندگی تک مسلّم ہے۔ دنیا بھر کی مذہبی کتابوں اور صحائف آسمانی میں شاعرانہ زبان کے نقوش بکھرے ملتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں بھی جہاں عام زبان اظہارِ مطلب میں عاجز ہوتی ہے۔ وہاں شعری زبان دستگیری کرتی ہے۔
شاعری کے اوّلین ادب کے طور پر تخلیق ہونے کی وجہ سے شعری زبان تنقیدِ ادب کا بنیادی اور قدیم مبحث رہا ہے۔ اردو زبان کی شعریات کی تشکیل میں مشرقی زبانوں خاص طور پر عربی فارسی کا بنیادی عمل دخل رہا ہے۔ اسی وجہ سے ابتدائی تنقیدی افکار پر ان زبانوں کی چھاپ نظر آتی ہے۔ جلد ہی انگریزی اجارہ دار کے طور پر آ موجود ہوئی اور اس کے اثرات تنقیدی افکار پر بطور خاص مرتسم ہوئے لیکن اوّلاً یونانی لاطینی تصورات شعر سے بھی جزوی شناسائی ان دو زبانوں کے توسط سے ہوئی ذیل میں ہم اردو زبان کی شعریات پر بلاواسطہ یا بالواسطہ اثرانداز ہونے والی زبانوں میں شعری زبان کی بحث کا اجمالاً جائزہ لیں گے۔
یہ امر قابل توجہ ہے کہ قدیم یونانی شاعر، ڈراما نگار اور نقاد ارسٹوفینیز (Aristophanes) (۴۴۶ تا ۳۸۶ ق م) شاعری کی زبان کو بول چال کی زبان سے الگ رکھنے کے حق میں تھا۔ افلاطون بھی کم و بیش اسی نظریے کا حامل تھا اور شاعرانہ زبان کو عام کاروباری اور غیرادبی کاموں کی زبان سے جدا سمجھتا تھا۔ شاعر اس کے نزدیک صاحب جذب و جنون تھا اور شاعری کی تخلیق کا سبب شاندار لفظوں کا انتخاب تھا۔
ارسطو جسے ادبی تنقید کا باوا آدم کہا جاتا ہے اور اس کی کتاب Poetics نے دنیا بھر کی ادبی تنقید پرانمٹ نقوش مرتسم کیے، شعری زبان کو ایک طرف تو عامیانہ زبان سے جدا رکھنا چاہتا تھا اور دوسریطرف اسے ادق لفظیات اور پیچیدہ تشبیہات کا گورکھ دھندا بنا دینے کے حق میں بھی نہیں تھا۔ اس کے بقول:
’’شاعری کی زبان فصیح اور اعلیٰ ہوتی ہے اور عامیانہ محاورات سے احتراز کرتی ہے۔ انوکھے الفاظ سے میری مراد اجنبی، تشبیہی، توسیع یافتہ، قصہ مختصر عام الفاظ کے سوا ہر طرح کے الفاظ ہیں لیکن اگر کوئی شاعر صرف انہی اقسام کے الفاظ استعمال کرے تو اس کا کلام یا تو معمہ معلوم ہو گا یا مجذوب کی وحشیانہ بڑ۔‘‘([21])
دنیا بھر کی شعریات میں یہ فکر مشترک نظر آتی ہے کہ ابتدا میں ہر زبان میں شاعری کی زبان کو آسان رکھنے پر زور دیا گیا۔ ارسطو کی متذکرہ بالا رائے میں شدت نظر آتی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ قدیم ناقدین میں ارسطو شعری زبان کے متعلق سب سے بڑھ کر سلجھا نظریہ رکھتا تھا۔ محض وزن کو شاعری کو دلیل نہیں گردانتا تھا استعارے کو شعری عمل کی پہچان قرار دیتا تھا۔ صنائع اور استعارے کے متعلق اس کی رائے ہے:
’’بہت مناسب بات ہے کہ ہر صنعت کا مناسب استعمال کیا جائے مگر سب سے اہم بات استعارے کا استعمال ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو کسی سے سیکھی نہیں جا سکتی اور اسی سے فطری صلاحیت کااندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ استعارے کے استعمال کی قابلیت مماثلتوں کے ادراک سے تعلق رکھتی ہے۔‘‘([22])
ارسطو کے بعد اطالوی نقاد ہوریس (Horace) کے رسالے ’’فنِ شاعری‘‘ میں شاعرانہ زبان کے متعلق بحث ملتی ہے تاہم اس کے بیشتر خیالات یونانی ناقدین سے ماخوذ ہیں۔ وہ لفظ کے تخلیقی استعمال پر زور دیتا ہے اس کے مطابق لفظ بھی انسانوں کی طرح طبعی عمر رکھتے ہیں اور کثرت استعمال سے موت آشنا ہو جاتے ہیں اس لیے منطقی اعتبار سے نئے الفاظ اور اصطلاحات کی تخلیق لازمی و ضروری ہے۔
یونانی نقاد لونجائنس (Longiness) تنقید کی دنیا میں اپنے رسالے On the Sublime کی وجہ سے جانا جاتا ہے جو اصل میں اس کے یونانی نام Hypsos کا انگریزی ترجمہ ہے اردو میں اسے ترفع اور علویت سے معنون کیا جاتا ہے۔ وہ ادب کا مقصد اوّل تاآخر مسرت پہچانا سمجھتا ہے۔ ترفع یا علویت کے جن پانچ مخارج کا ذکر اس نے کیا ہے ان میں سے تین یعنی صنائع بدائع کا مناسب استعمال، عظمت زبان اور موثر اور پرشوکت ترتیب الفاظ کا تعلق براہِ راست شعری زبان سے ہے۔ صنائع کے متعلق اس کی رائے ہے:
’’صنائع اس وقت زیادہ موثر ہوں گے جب اس بات کا پتہ نہ چلے کہ یہ صنائع ہیں۔‘‘([23])
عظمتِ زبان سے اس کی مراد عظیم خیالات کے لیے شاندار اور نفیس الفاظ کا چناؤ ہے۔ استعارے اور تشبیہ کے برمحل استعمال پر اس نے زور دیا ہے۔ شعری زبان کے معاملے میں وہ معنوی اور صوری دونوں طرح کے حسن کا قائل تھا۔ انہی پختہ خیالات کی بنا پر سجاد باقر رضوی نے کہا:
’’لانجائنس پہلی صدی عیسوی میں شعری زبان کے بارے میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے مغربی تصورات کی پیش بندی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔‘‘([24])
لونجائنس کے بعد مغربی تنقید کے میدان میں کافی عرصے تک کوئی بڑا نام نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اطالوی شاعر اور نقاد دانتے (Dante Alighieri) نے تیرھویں صدی عیسوی میں اعلیٰ، ارفع الفاظ کے ساتھ مقامی زبان کے استعمال پر بات کر کے شعری زبان کی بحث کو آگے بڑھایا۔ اس بحث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شعری زبان کا مسئلہ آغاز سے متنازع فیہ رہا ہے۔ بعض نقاد اسے عام زبان کے قریب لانے کے حق میں تھے اور کچھ اس کی انفرادیت کے قائل تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ اردو نے لسانی، تہذیبی، فکری اور لفظی اعتبار سے سنسکرت؍ ہندی سے جس قدر اشتراک رکھا بدقسمتی سے عروض، قواعد، تنقید اور اصولِ تنقید کے ضمن میں اتنا ہی بُعد رکھا۔ اس کی ایک وجہ فارسی کی صدیوں سے سرکاری طور پر بالادستی اور سنسکرت کا خود کو محض مذہبی زبان کے طور پر محدود کر لینا بھی ہو سکتی ہے۔ اگر اردو اس اعتبار سے بھی مقامیت سے رشتہ استوار کرتی تو آج اس کی صورت جدا ہوتی۔
سنسکرت ادب اور شاعری کے ابتدائی نقوش ویدوں میں ڈھونڈے جاتے ہیں۔ ’’مستشرقین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ رگ وید میں جو رچائیں اوشا یعنی طلوعِ سحر کی شان میں ہیں ان سے بڑھ کر فصیح کلام اور زبانوں کی نظم میں نہیں ملتا۔‘‘([25]) رگ وید چاروں وید میں سے قدیم مانا جاتا ہے اور اس کی زبان ایک ہزار سال قبل مسیح تک کی زبان گردانی جاتی ہے۔ سنسکرت کے ماہرین، ادب کے علاوہ تنقیدی نظریات کا اوّلین ماخذ بھی اسی وید کو قرار دیتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق چوتھی صدی قبل مسیح میں پاننی نے سنسکرت قواعد مرتب کی جو دنیا میں صرف و نحو کی قدیم ترین کتاب گردانی جاتی ہے۔ اس میں تشبیہ کے بارے بھی اظہارِخیال کیا گیا ہے۔ سنسکرت شعریات انتہائی قدیم ہونے کے علاوہ شخصی اور نظریاتی تکذیب و انکار کے برعکس مکاتبِ فکر کی صورت میں ارتقا پذیر رہی۔ نتیجے میں رس، النکار، ریت، دھون، وکروکت، اوچتیہ جیسے نسبتاً بڑے دبستان مختلف اوقات میں سامنے آئے۔ سنسکرت شعریات کا باقاعدہ آغاز بھرت منی (اندازاً پانچویں صدی ق م تا پہلی صدی ق م) کی ناٹیہ شاستر سے ہوتا ہے۔ اس بلند پایہ تصنیف میں جہاں ناٹک، موسیقی، رقص، آرائش علم و ہنر وغیرہ کے متعلق اظہار رائے ملتا ہے۔ وہیں اس تصنیف کے ذریعے مقبول نظریے رَس اور شعری زبان پر بحث کا ڈول بھی ڈالا گیا۔ رس کا نظریہ سنسکرت شعریات کا سب سے زیادہ بحث کا حصہ بننے والا نظریہ ہے اس کا تعلق قاری کے ساتھ گہرا ہے۔ بھرت نے اس کتاب میں صرف ونحو، صنائع بدائع ، عروض، خصائص و معائب شاعری پر اظہارِخیال کیا ہے۔ لفظ و معنی کی طویل بحث جس نے بعد میں تقریباً ہر زبان کا شعریات میں مرکزی حیثیت اختیار کی سنسکرت میں شروع سے موجود ہے۔
بھامہ (چھٹی صدی عیسوی) کی تصنیف کاویالنکار شاعری کی زبان کے متعلق مباحث سے مملو ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کتاب میں شاعرانہ پیکر، صنائع لفظی و معنوی، معنی کی پیچیدگی یعنی ابہام، مبالغہ کو لوازمِ شعر ٹھہرایا گیا۔
دنڈی (ساتویں صدی عیسوی) نے اپنی تصنیف کاویا درش میں رس کی موجودگی کے علاوہ النکار (صنائع بدائع) کو شعری زبان کو زینت قرار دیا۔ اُدبھٹ (آٹھویں صدی عیسوی) نے لفظ و معنی کی ہم آہنگی، النکار سے تاثر انگیزی اور وامن نے الفاظ کی مناسب ترتیب سے رِیت (اسلوب) کی تشکیل اور شاعری کے محاسن و معائب پر بات کر کے بحث کو آگے بڑھایا۔
آنند وردھن (نویں صدی عیسوی) کا نام سنسکرت شعریات میں بہت نمایاں ہے اس کی تصنیف دھونیالوک شاعرانہ زبان کے مباحث کے ضمن میں اہم ہے۔ وردھن نے دھون (صوت، لے) کے نظریے کی مدد سے شبد کی لغوی کے علاوہ مجازی، علامتی اور استعاراتی معنویت پر زور دیا کیوں کہ ’’دھون شاعری میں مجازی یا استعاراتی تفاعل کے سبب، تخلیق زیادہ مؤثر، لطیف ترین اور جمالیاتی عنصر سے مزین رہتی ہے۔‘‘([26])آنند وردھن نے لفظ اور معنی کے تفاعل کو پیکر شاعری سے تعبیر کیا۔ ریت یعنی اسلوب کو شخصیت کا آئینہ دار بتایا، النکار، رس کو دھون کے اجزائے ترکیبی کنتک، وکروکت یعنی پیچیدہ اظہار؍ابہام کو شاعری کی روح اور عدم موزونیت کو معائب میں رکھا۔ عنبر بہرائچی کے بقول:
’’آنند وردھن کی نظر میں حروف، لفظ اور جملے، اسلوب، وصف اور صنائع بدائع سبھی دھون کے عناصر ہیں وہ جتنے دلآویز ہوں گے دھون بھی اتنی ہی دلآویز ہوگی۔‘‘([27])
اس نظریے نے بعد کے ناقدین مثلاً ابھنوگپت (دسویں صدی عیسوی) ودیادھر (تیرھویں صدی عیسوی) وغیرہ پر اثرات بھی مرتب کیے اور ان کے ہاتھوں توسیع بھی پائی۔ اس نظریے سے اختلاف کرنے والوں میں کُنتک (گیارھویں صدی عیسوی) کا نام نمایاں ہے۔ جس نے وکرووکت (پیچیدہ اظہار) کو ایک نظریے کے طور پر پیش کیا اور اس کی اقسام و حدود کا تعین کیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بیسویں صدی میں استعارہ، علامت اور ابہام کے حامل الفاط کو شعری زبان کے لوازم شمار کیا جا رہا ہے جب کہ سنسکرت شعریات ان کی طرف بہت پہلے توجہ مبذول کروا چکی ہے۔
شاعری میں موزونیت کو لازمی معیار تسلیم کیا گیا ہے ہر زبان میں اس کی تخلیق کے اپنے قواعد میں تاہم اس سے انکار نہیں کہ موزونیت لفظوں کی خاص ترتیب سے خلق ہوتی ہے۔ سنسکرت میں اس کی بحث ہے تو پرانی تاہم اوچتیہ (موزونیت) کو نظریے کے طور پر پیش کرنے میں شیمندر (گیارھویں صدی عیسوی) کا نام اہم ہے۔ اس نے شعری معائب و محاسن، چھندوں (بحور) کے علاوہ موزونیت کے دیگر اصولوں پر بحث کی ہے۔ ان ناقدین فن کے علاوہ بھرت سے لے کر پنڈت راج جگناتھ تک بہت سے سنسکرت کے نقاد ایسے ہیں جنہوں نے شعریات کی تشکیل میں کام کیا ہے ،لیکن زیادہ تر متذکرہ بالا چھے دبستانوں سے انسلاک کر کے انفرادی خیالات کی جزوی پیش کش کرتے رہے ہیں۔ اس اچٹتی سی نگاہ سے سنسکرت شعریات کی زرخیزی، قدامت اور بنیادی مباحث پر نظر رکھنے کی روایت سامنے آتی ہے اور لفظ و معنی، شعری زبان کی نہایت قدیم اور بھرپور بحث گوپی چند کی اس رائے کو باوزن بناتی ہے۔
’’لفظ و معنی کے رشتے اور معنی کے مسائل کے بارے میں جو کچھ قدیم ہندوستانی فلسفیوں نے لکھا ہے اس کے بارے میں معلومات عام نہیں ہیں یہ حقیقت ہے کہ یہ خیالات اس قدر فکر انگیز اور اس درجہ بنیادی ہیں کہ عہدِحاضر کی فکری پیش رفت کے اعتبار سے ان پر ازسرِنو غور کیا جا سکتا ہے۔‘‘([28])
مشرقی زبانوں کی تنقید میں شعر کو جذبات و احساسات سے وابستہ کر دینے اور جسمانی خدوخال واضح کرنے کی بجائے روح پر زور دینے کی وسیع روایت موجود ہے تاہم اس ضمن میں سنسکرت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے شاعری کے ظاہر پر بھی اتنی ہی توجہ صرف کی ہے۔ بھلے ہی عمیق حنفی کی یہ رائے کیوں نہ ہو:
’’ہندوستانی علم شعر اور علم بدیع اور علم بلاغت میں نرم اور مدھم لب و لہجہ پایا جاتا ہے۔ سنجیدگی، بردباری اور متانت ظاہر ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندو کو یوں نے شاعری کو بنیادی طور پر لسانی (Linguistic) اظہار نہیں مانا بلکہ شاعری کا مافیہ جذبات و محسوسات کو قرار دیا۔‘‘([29])
جہاں تک قدیم عربی تنقید کا تعلق ہے تو یہ نظری سے زیادہ عملی ہے۔ عربوں نے چاہے تحریری طور پر کوئی مربوط نظامِ نقد وضع نہ کیا ہوتا ہم وہ اچھے برے شعر اور شعری وغیرشعری زبان میں تمیز کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ نظریہ سازی کے بغیر بھی عربی شعریات میں الفاظ کی نشست و برخاست، برمحل، بے محل، موزوں، غیرموزوں، فصیح، غیرفصیح ہونے پر مباحث عام ہیں۔ عربوں کے ہاں تحریر سے زیادہ تقریر اور ترقیم کے مقابل یادداشت اور روایت پر بھروسے کا رجحان قوی رہا ہے۔ تنقیدی افکار کو تحریری شکل دینے کا خیال بہت بعد کا ہے۔ ابتدائی عربی تنقید کے نقوش تذکروں اور تواریخ کی صورت میں ملتے ہیں۔ تنقید کے غیر منہجی دور میں بھی عربوں کے پیشِ نظر کچھ معیارات نقد ضرور تھے۔ جن سے وہ اچھے برے کلام میں تمیز کرتے تھے۔ عربی شعریات میں زیادہ مباحث عروض، تعریف شعر، بدیع بیان اور قافیہ کے متعلق ملتے ہیں۔ اسی لیے قدیم عرب شعرا نابغہ ذیبانی، بشر بن ابوحازم کے اشعار میں قافیے کے متعلق پائے جانے والے عیوب کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بحث عربی میں قدیم رہی ہو گی۔ بقول ابوالکلام قاسمی:
’’عصرِجاہلی میں قوافی کے حسن اور اچھے قوافی کے استعمال کو غیرمعمولی اہمیت حاصل تھی۔ عرب، قوافی کے حسن و قبح کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ ایطاء یا اقواء کے سلسلے کی کسی چیز کو قافیہ میں بالکل نامناسب خیال کرتے تھے۔‘‘([30])
قبل از اسلام عربی تنقید میں شعرا کے مابین تقابل اور تفاوت بھی اہم تنقیدی زاویہ نظر تھا۔ عرب الفاظ کے استعمال کے ضمن میں بال کی کھال اتارنے کے قائل تھے۔ موضوعاتی بحث کے علاوہ لسانی بحث پوری شدومد کے ساتھ ہوتی تھی۔
ظہورِ اسلام کے بعد عربی ادب و شاعری پر اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کا اثر ہونا ناگزیر تھا۔ تاہم مجموعی ادبی و تنقیدی ڈھانچہ تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ مائل بہ ارتقا رہا۔ ابتدائی اسلامی دور میں غیرمانوس الفاظ کے استعمال اور معاظلہ (تعقید) کو غیرمستحسن خیال کیا گیا۔ اموی دور میں فضل ابن عتیق نے دقیق معنی اور سہل الفاظ کے استعمال کی بات کی۔ عہدِعباسی میں عربی تنقید کے خدوخال صحیح معنوں میں واضح ہونا شروع ہوئے۔ ابن قتیبہ (متوفی276ھ) کی کتاب ’’الشعر و الشعراء‘‘ کو مقبولیت حاصل ہوئی اس کتاب میں شاعری کی زبان کے متعلق مباحث کو تفصیل کے ساتھ جگہ ملی۔ شعر میں لفظ و خیال دونوں کی عظمت کو لازمی قرار دیا گیا اور قوافی کے ضمن میں اقواء، اکفا، سناد، ایطاء، اجازہ، جیسی خامیوں کو عیب قرار دیا گیا۔ ابنِ سلام بھی اس سے پہلے ان عیوب کا ذکر کر چکا تھا۔ شعری زبان کو سہل اور سادہ رکھنے کی بھی بات ہوئی۔ جاحظ (م255ھ) نے لفظ کی معنی پر فضیلت اور سہل المخرج الفاظ پر بات کر کے شعری لسان کی بحث کو آگے بڑھایا۔
ابن معتز (م296ھ) نے اس کے برعکس معنی کی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے نزدیک بدیع کے محاسن سے مملو شاعری معنوی فقدان کی بنا پر رَد کی جا سکتی ہے۔ صنائع بدائع کا استعمال بھی غیرمحسوس انداز سے کرنے کا وہ قائل تھا۔ تیسری صدی ہجری کے اواخر میں ارسطو کی Poetics سریانی سے عربی میں منتقل ہوئی تو ریطوریقا کے ساتھ اس کے اثرات بھی عربی تنقید پر مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ قدامہ بن جعفر (م337ھ) کی ’’نقدالشعر‘‘ عربی تنقید کا اہم سنگ میل گردانی جاتی ہے اور اس کے اثرات بعد میں آنے والے ناقدین پر بھی نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی تین فصلیں شعر اور اس کی زبان کے متعلق ہیں۔ قدامہ نے عروض، قافیہ، لفظ اور معنی اور تشبیہ کے متعلق بامعنی بحث کی ہے۔
ابن رشیق القیروانی (م463ھ) کی کتاب ’’العمدہ‘‘ بھی شعری لسان کی بحث کے حوالے سے اہم ہے۔ قدامہ کی طرح ابنِ رشیق نے بھی لفظ، وزن، قافیہ کو عناصرِشعر اور معنوی جدت، الفاظ میں خوبی و سلاست، ایجاز، ابلاغ کو شاعرانہ فن کی اساس قرار دیا۔ لفظ کو جسم اور معنی کو روح کا درجہ دیا اور دونوں کے ارتباط کو لازم قرار دیا۔ محض علمیت کے اظہار کے لیے مشکل الفاظ کے استعمال کو غیرمناسب قرار دیا۔ ابنِ رشیق کے بعد ابنِ رشد، ابن اثیر، ابنِ خلدون وغیرہ کے ہاں بھی لسانی مباحث ملتے ہیں۔ جدید عربی تنقید میں ڈاکٹر طٰہ حسین، عباس محمود، احمد امین مصری، عبدالرحمٰن شکری، ابراہیم عبدالقادر المازنی وغیرہ نے جدید شعری نظریات کے ساتھ قدیم عربی شعریات کی بازدید کا کام سرانجام دیا ہے۔
قدیم فارس میں پہلوی، اوستائی زبانوں میں شاعری کی تاریخ تو پرانی ہے تاہم تنقید کا سلسلہ نیا ہے اور اس دوران میں بھی طویل المدتی کڑیاں غائب ہیں۔ اہلِ فارس میدانِ عمل میں شاید زیادہ فعال رہے ہیں اور فنون پر کم توجہ دی ہے۔ فارسی تنقید کے ابتدائی نقوش چوتھی صدی ہجری میں بہرامی سرخسی کی تصانیف میں ملتے ہیں اس کی کتب غایت العروضین، خجستہ نامہ، کنزالقافیہ میں عروض اور قافیہ کے متعلق ابتدائی مباحث ملتے ہیں جس سے فارسی پر عربی شعری روایت کے اثرات کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ فارسی میں بھی شعری زبان اوّلین بحث کے طور پر شامل رہی ہے۔ تاہم محمد حسن کی اس ضمن میں رائے ہے:
’’سیستان کے مشہور شاعر ابوالحسن علی فرخی (م429ھ) نے غالباً سب سے پہلے محاسن شعر فارسی پر ایک کتاب ترجمان البلاغۃ کے نام سے لکھی تھی لیکن چونکہ اس کی تمام نقلیں زمانے کے ہاتھوں تلف ہو گئیں اس لیے وطواط کی کتاب پہلی معیاری کتاب قرار پائی۔‘‘([31])
معیاری کتاب کی حد تک تو ان کی رائے درست ہو سکتی ہے لیکن تنقیدی روایت اس سے قدیم ہے۔ پانچویں صدی میں امیر کیکاؤس کی ’’قابوس نامہ‘‘ جو دراصل پند و نصائح کا مجموعہ ہے لیکن اس کا جو باب شاعری کے متعلق ہے اس میں شاعری کے لیے آسان الفاظ کے ساتھ صنائع اور استعارے کے استعمال کی شرط سے باہم متناقض رائے ملتی ہے۔ ’’وہ چاہتا ہے کہ شعر ایسا ہو کہ سننے والا یا پڑھنے والا اسے فوراً سمجھ لے اور تشریح و توضیح کی ضرورت نہ پڑے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ صنعت گری کا بھی قائل ہے۔ صنعتیں سہل ممتنع میں دخل انداز ہو سکتی ہیں اور کوئی ضروری نہیں کہ تشبیہ و استعارہ ہمیشہ غیرپیچیدہ رہے۔ وشمگیر (امیرکیکاؤس) کو احساس تھا کہ سیدھا اور سپاٹ کلام معتبر نہیں ہو سکتا اور سہل ممتنع میں عام طور پر یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔‘‘([32]) نظامی عروضی سمرقندی کی کتاب ’’چہارمقالہ‘‘ (550ھ) فارسی شعریات کی اساسی کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس میں فنِ شاعری، صنائع اور شاعر کے فرائض کے متعلق بحث ملتی ہے۔
رشید الدین وطواط (573ھ) کی کتاب ’’حدائق السحر فی دقائق الشعر‘‘ فارسی تنقید میں شعری لسانیاتی بحث کے حوالے سے نہایت اہم کتاب ہے۔ اس میں عربی روایت کے تحت علم بیان و معانی، صنائع لفظی و معنوی پر سیر حاصل بحث ملتی ہے اسی طرح عملی تنقید میں بھی لفظیات کی بحث میں ’’لطف الفاظ‘‘ کی نئی لیکن قدرے مبہم اصطلاح استعمال کی۔ تشبیہ اور اس کی اقسام، استعارہ اور صنائع کے متعلق اس کی آراء آج بھی نہ صرف فارسی بلکہ اُردو میں بھی رائج ہیں۔ بقول ابوالکلام قاسمی:
’’رشید الدین وطواط نے صنائع لفظی اور صنائع معنوی پر جو کچھ لکھا ہے وہ آج تک فارسی کی تنقیدی روایت کا حصہ ہے۔ وطواط کے بعد کے نقادوں نے بالعموم ’’حدائق السحر فی دقائق الشعر‘‘ کے مباحث کی بنیاد پر ہی صنائع و بدائع کی تمام بحثوں کو آگے بڑھایا ہے۔‘‘([33])
محمد عوفی کا تذکرہ لباب الالباب (618ھ) میں شاعری کی تعریف پر خاصا زور صرف ہوا ہے تاہم شعری لسان پر بحث نہ ہونے کے برابر ہے۔
شمس الدین محمد بن رازی نے ’’المعجم فی معابیر اشعار العجم‘‘ عربی میں تصنیف کی اور 630ھ میں خود ہی اس کا فارسی ترجمہ کیا۔ فارسی شعریات کی تدوین میں اس کتاب کا مرتبہ بلند ہے۔ شاعری کی زبان کے مباحث کے اعتبار سے بھی یہ کتاب اہم ہے۔ رازی نے شعری لسان کو مرتب، بامعنی، موزوں، متکرر، مستاوی اور مقفّیٰ قرار دیا۔ متروک اور نامانوس الفاظ سے گریز اور لفظ کے صوری اور معنوی ہر دو طرح کے حسن کا خیال رکھنے پر زور دیا۔ اس کے نزدیک تشبیہات جھوٹی اور استعارے دورازکار نہیں ہونے چاہئیں۔
خواجہ نصیر الدین طوسی (م672ھ) نے فارسی تنقید کی روایت کو کتاب معیار الاشعار کی شکل میں آگے بڑھایا۔ شعری زبان کے مقفّیٰ، موزوں ہونے کے علاوہ نئے خیالات کو لازم قرار دیا۔ امیر خسرو (م725ھ) کی اعجاز خسروی میں بھی اسلوب اور صنعتوں کے متعلق بحث ملتی ہے۔
سنسکرت شعریات میں جس شرح و تسہیل کی روایت ملتی ہے فارسی میں یہ کام شرف الدین محمد تبریزی (م795ھ) نے شروع کیا اور رشید الدین وطواط کی ’’حدائق السحر فی دقائق الشعر‘‘ کی شرح ’’حدائق الحدائق‘‘ کے نام سے کی۔ شمس الدین فخری اصفہانی (پ713ھ) کی کتاب ’’معیار جمالی و مفتاح ابواسحاقی‘‘ میں بھی علم عروض، قوافی، صنائع بدائع کے متعلق بحث ہوئی ہے۔ نورالدین عبدالرحمٰن جامی (م899ھ) شاعری کے علاوہ تنقید کے میدان میں اپنے رسائل رسالہ در علم قافیہ اور فی العروض کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ان رسائل میں قافیہ و عروض کے متعلق مختلف آراء جمع کرنے کے علاوہ خود بھی اظہارِ رائے کیا ہے۔ دولت شاہ سمرقندی (م800ھ) نے بھی شعراء کے تذکرے میں شعرا کی زبان پر بات کی ہے۔
فارسی شعریات پر عربی کا اثر نظر آتا ہے دونوں کا مجموعی مزاج یکساں ہے۔ بین العلومی نظریات سے اخذ و استفادے کا رجحان نسبتاً کم ہونے کی وجہ سے نظریاتی تنوع اور ارتقا کم نظر آتا ہے۔ شاعری کو ہی ادب تصور کر کے شاعری کی تعریف،لفظ و معنی کی فوقیت، بیان بدیع عروض پر زور صرف ہوا ہے۔
مغرب میں عرصے تک لاطینی اور یونانی زبانیں علمی زبانوں کے طور پر رائج رہیں۔ مقامی زبانوں کو بہت بعد میں علمی مقام و مرتبہ ملنا شروع ہوا۔ یورپی زبانوں نے لاطینی اور یونانی سے لسانی و فکری حوالے سے اخذ و استفادہ کیا۔ یورپی زبانوں میں انگریزی کو مختلف وجوہ کی بنا پر زیادہ عروج حاصل ہوا اور یہ بین الاقوامی زبان کے درجے پر فائز ہوئی اردو تنقید پر اس کے اثرات روزِروشن کی طرح عیاں ہیں دیگر یورپی زبانوں کے نظریات و شعریات سے شناسائی بھی اسی کی توسط سے ہوئی ہے۔ انگریزی تنقید میں شعری زبان کی بحث تو قدیم ہے تاہم ’’شعری زبان کی ترکیب پہلی بار 1701ء میں استعمال کی گئی۔‘‘([34]) قدیم ناقدین میں فلپ سڈنی (1554ء۔1586ء) کی تصنیف ’’شاعری کا جواز‘‘ میں شعری عمل اور زبان کے بارے میں اظہارِ خیال ملتا ہے۔ فرانسیسی نقاد نکولا بولووا (Nicolas Boileau) (1636ء۔1711ء) کی منظوم تصنیف ’’فن شاعری‘‘ میں شاعری اور اس کی لفظیات پر بحث ہوئی ہے۔ سیموئیل جانسن (1709ء۔1784ء) کا نام انگریزی تنقیدی روایت میں اہم ہے اس کے ہاں شعری زبان کو سادہ بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ شعری زبان کے مباحث میں گمنام جرمن فلاسفر، نقاد جوہان گائفریڈ ہرڈر (1744ء۔1803ء) کا نام نظرانداز کیے جانے کے قابل نہیں اس نے زبان کے استعمال کو ادب اور غیر ادب میں فرق کا بنیادی وسیلہ قرار دیا۔ استعارے، تمثیل کو شعری زبان کا لازمی جزو قرار دیا۔ اسی طرح نوویلس (1772ء۔1801ء) نے علامت کو شعری لسان کا لازمی عنصر گردانا۔ گوئٹے (1749ء۔1832ء) نے علامت اور تمثیل کے فرق کو واضح کیا اور علامت کے حقیقی پن پر زور دیا۔ اس کے مطابق:
’’علامت، مظہر (Phenomenon) کو تصور میں بدل دیتی ہے اور تصور استعارے میں بدل جاتا ہے لیکن ہر صورت میں اپنا آپ رونما کرتا ہے۔‘‘([35])
ولیم ورڈزورتھ (1770ء۔1850ء) نے اپنی شعری تصنیف Lyrical Ballads کے دیباچے میں دہقانی، فطری، سادہ اور غیرمقامی زبان و الفاظ کے برعکس شاعری میں مقامی زبان کے استعمال کی بات کر کے بحث کو آگے بڑھایا۔ سیموئیل ٹیلر کولرج (1772ء۔1834ء) کی LiterariaBiographia تنقید کی رجحان ساز کتابوں میں شمار کی جاتی ہے۔ باقی شعری نظریات سے قطع نظر مذکورہ کتاب میں اس نے ورڈزورتھ کے شعری لسانیاتی نظریات سے اختلاف کیا ہے اور شہری دیہی زبان کی تفریق اور بحث میں پڑے بغیر فکرانگیز زبان کے استعمال پر زور دیا ہے۔ اس کے نزدیک:
’’شاعری کی زبان، نثر کی زبان کے مقابلے میں قاری کے اندر مسلسل اور لگاتار توجہ کو ابھار سکے، خواہ یہ زبان عام بول چال کی زبان ہو یا تحریری زبان ہو۔‘‘([36])
ورڈزورتھ کی اس رائے کہ نثر اور شعر کی زبان میں کوئی فرق نہیں ہوتا کہ مقابل اس نے اپنی رائے ان خوب صورت الفاظ میں دی:
’’نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘([37])
کولرج شعری زبان کو جذبے کی شدت سے مملو سمجھتا تھا نتیجے میں زبان کا عام زبان سے مختلف ہونا فطری ہے اس کے نزدیک ترنم اور آہنگ بھی شاعری کے لازمی جزو ہیں۔ اس نے مزید شاعری اور نظم میں فرق کیا اور شاعری کو وسیع تر قرار دیا اس کے مطا بق نظم میں شاعری ہوتی ہے۔ تاہم ضروری نہیں کہ تمام نظم شاعری بھی ہو۔
شیلی (1792ء۔1822ء) کا مضمون ’’شاعری کا جواز‘‘ جہاں شاعری کی ماہیت و ضرورت پر روشنی ڈالتا ہے وہیں شاعری کی زبان کے لوازم پر بھی بحث کرتا ہے۔ موزونیت اور آہنگ کے متعلق اس کی رائے ہے:
’’شاعروں کی زبان میں اصوات کی ہم آہنگی کا ایک متواتر اعادہ ہوتا ہے اس کے بغیر وہ شاعری کا درجہ حاصل ہی نہیں کر سکتی، کیونکہ اصوات کی ہم آہنگی کا ربط و ضبط تاثیر کے لیے اتنا ہی لازمی ہوتا ہے جتنے کہ خود الفاظ ہوتے ہیں۔‘‘([38])
شعری زبان کی بحث کو تحریک کی صورت میں روسی ہیئت پسندوں (Russian Formalists) نے اجاگر کیا۔ روسی ہیئت پسندی مختلف مکاتیب فکر کے مفکرین کے خیالات کا نتیجہ تھی ان میں ماسکو لنگوسٹک سرکل (1915ء) اور Opojaz (روسی نام) یعنی انجمن برائے مطالعہ شعری زبان (The society for the study of poetic language) وغیرہ لسانی مباحث کے سلسلے میں اہم ہیں۔ روسی ہیئت پسندی نے ایک مرتبہ پھر ادب کے بنیادی سوالات پر بحث چھیڑی اور ادبیت کی تلاش میں زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ہیئت پسندوں نے عام زبان اورادبی زبان میں فرق کیا اور شعری زبان کو ادبی زبان کا بہترین نمونہ قرار دیا۔ ورڈزورتھ اور ان کے ہم خیال ناقدین کے زیراثرشعری و ادبی زبان کو عام زبان کے برابر لانے کا خیال اس قدر رواج پا چکا تھا کہ ہیئت پسندوں کو اختلافی روش اختیار کرنا پڑی ان کے مطابق بار بار کے استعمال سے لفظ تعمیمی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان میں معنوی تازگی پیدا کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ شکلووسکی نے اس ضمن میں اجنبیانے (Defamiliarisation) کا نظریہ پیش کیا۔
’’نئی تنقید‘‘ سے وابستہ ناقدین میں سے بھی بعض نے شعری زبان کو موضوعِ بحث بنایا یہ امریکی دبستانِ تنقید تھا تاہم اس کے بنیاد گزار انگریز نقاد آئی اے رچرڈز، ایلیٹ، ولیم ایمپسن، ایف آر لیوس وغیرہ گردانے جاتے ہیں۔ اوّل الذکر دو کی آراء شعری لسان کے متعلق وقیع ہیں۔
انگریز نقاد کرسٹوفر کاڈویل (1907ء۔1937ء) اپنے مضامین ’’شاعری کی ابتدا‘‘ اور ’’شاعر کا مستقبل‘‘ میں اقوام عالم کی قدیم شاعری کا عمیق نظری سے تجزیہ کرتا ہے اور ساتھ ہی شاعری اورسماج کے عقلی اور نفسیاتی تعلق کو بھی واضح کرتا ہے۔ اس کے مطابق:
’’شاعری عمومی اور تجریدی انداز میں، الفاظ کی علامتوں کے ذریعے اس نامیابی رشتے کا اظہار کرتی ہے جو انا اور بیرونی حقیقت کے عناصر کے درمیان ہوتا ہے۔ یہی تعمیم فی الحقیقت اس کی اس قابلیت کا مخرج ہے جس سے وہ اچھوتی قوت کے ساتھ انسان کے جبلی جذباتی عنصر کا اظہار کرتی ہے یعنی سماجی انا کا طبعی حصہ۔‘‘([39])
ٹی ایس ایلیٹ (1888ء۔1965ء) کا نام جدید تنقید میں معتبر ہے۔ وہ شعری زبان کو روزمرہ زبان کے قریب رکھنے کے حق میں ہے۔ جان پریس (1920ء۔2007ء) شعری زبان میں موسیقیت کے حامل الفاظ استعمال کرنے کا قائل ہے۔ جبکہ رابرٹ سکیلٹن کے نزدیک شاعری جب تک الفاظ کا غیرروایتی انداز سے استعمال نہیں کرتی شاعری نہیں بنتی۔ امریکی نقاد کلینتھ بروکس (1906ء۔1993ء) عربی تنقید کی طرح شعری زبان کو مبالغوں اور مماثلتوں سے مملو تعبیر کرتا ہے۔ اس کے مطابق:
’’شاعری کی زبان متناقض دعووں، دروغ نما راستیوں اور مہمل نما باتوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔‘‘([40])
شعری زبان کی خاصیت اس کا غیرروایتی ہونا ہے یہ نثر کے برعکس بنے بنائے سانچوں میں ڈھل کر وجود پذیر نہیں ہوتی بلکہ احساسات و کیفیات کی نیرنگی کو جذب کر کے خود میں انوکھا پن لاتی ہے۔ متغیر جذبات متناقض کیفیات کے اظہار پر قادر ہوتی ہے۔ غیرمرئی اور غیرواضح کیفیات کو حقیقت میں متشکل کرنے کا جتن کرتی ہے۔
یہ مغربی ناقدین میں سے چند ایک کا تذکرہ تھا مغرب میں اس موضوع پر جس قدر بحث ہوئی ہے اور کہیں نہیں ہوئی۔ قدیم و جدید ناقدین کی نظر میں اس اہم موضوع کی قدر رہی ہے۔ جن تمام کا احاطہ مشکل ہے تاہم اس سرسری جائزے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مشرق و مغرب کے شاعرانہ موضوعات میں چاہے جتنا بھی فرق ہو شاعری کی قبولیت یکساں ہے۔ نتیجتاً تنقید میں ابتدا سے ہی یہ مسئلہ زیرغور رہا کہ ادبی اور شعری زبان میں انفرادیت کیوں کر پیدا ہوتی ہے۔ شاعرانہ بیان عام سے مختلف کیسے ہوتا ہے۔ یہ زبان جذبات و کیفیات کو بیان کرنے اور ان کو ابھارنے پر بیک وقت کیسے قادر ہوتی ہے۔ ان خواص کا تعین ہر دور کے نقاد اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کرتے رہے۔ مشرقی زبانوں میں سنسکرت کے علاوہ عربی، فارسی میں بالخصوص عروض، بیان بدیع، قافیہ، ردیف کو اس کے لوازم شمار کیا گیا اور ان کے نقائص و خصائص پرروشنی ڈالی جاتی رہی۔ فن کارانہ استعمال کے حربوں کی جانب تخلیق کاروں کی توجہ مبذول کروائی گئی۔ زبانوں کے ابتدائی ادوار میں اس زبان کی سادگی جب کہ بعد میں انفرادیت، علامتیت پر زور دیا گیا ور معنوی نیرنگی کو برقرار رکھنے کے حربوں کو استعمال کرنے کا مشور دیا گیا۔ یونانی اور سنسکرت جیسی زبانوں میں زبان کے ان مباحث کو متنوع زاویہ ہائے نظر سے دیکھا گیا۔ ابتدائی اردو تنقیدی فکر پر عربی فارسی روایت کا اثر مستحکم ہے۔ شاعرانہ تنقیدی شعور اور تذکروں کی روایت کے علاوہ قواعد بیان و بدیع کے متعلق لکھی جانے والی کتابیں اس کا ثبوت ہیں۔ تخلیقی اعتبار سے دیکھا جائے تو غزل، قصیدہ، شہر آشوب، مثنوی، مرثیہ، جیسی قدیم اصناف لسانی اور موضوعاتی دونوں اعتبار سے ان زبانوں کی روایات کے زیرِاثر نظر آتی ہیں۔ مشترکہ تہذیبی روایات، ماحول اور ثقافت بھی فکری جہت نمائی کا کام سرانجام دیتی ہے۔ جس سے صدیوں سوچ کا دھارا ایک سمت میں بہتا رہتا ہے۔ تاآں کہ فکر کا کوئی نیا دریچہ اندرونی ضرورت یا بیرونی اثرات سے نہ کھل جائے۔
انگریزی اثرات کے ضمن میں اردو کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ استعماری ذہن نے اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تہذیبی و سیاسی روایات پر اثرانداز ہونا شروع کیا ثقافتی اثرات جب نفوذ کرنا شروع ہوئے تو نئی اصناف قدیم کے مقابل آئیں۔جس سے نہ صرف تخلیقی منظرنامہ فکر و تخیل کے نئے زاویوں سے آشنا ہوا بلکہ اس سے جڑی تنقیدی روایت بھی بدلنے لگی محسوس اور نامحسوس انداز سے اس نے فکری اور تنقیدی ڈھانچے کو بدلنا شروع کر دیا۔ نئی اصناف اپنے ساتھ اصطلاحات، زبان کو جانچنے کے معیارات بھی لے کر آئیں۔ علامت، پیکر، تمثال، تمثیل، تجسیم جیسے مباحث شعری زبان کی بحث میں آنے لگے۔ عصرِحاضر میں اردو براہِ راست مغربی نظریات سے متاثر ہو رہی ہے۔ جتنے بھی ناقدین نے شعری لسانی مباحث پر قلم اُٹھایا ہے۔ مغربی نظریات ان کے مدنظر رہے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اردو شعریات کی تشکیل میں متنوع لسانی روایات کا حصہ ہے۔ مقامیت کے باوجود سنسکرت سے زیادہ اخذ و استفادہ نہیں کیا گیا لیکن باقی زبانوں سے راہنمائی لی گئی ہے۔ جس سے تنقیدی میدان میں بوقلمونی نظر آتی ہے۔ مختلف لسانی زاویوں اور افکار نے تنقیدی ارتقا کے سفر کو تیز تر کیا ہے اور اردو تنقیدی روایت مشرقی اندازِنظر سے بھی مکمل کنارہ کش نہیں ہوئی اور مغربی نظریات سے بھی روشنی حاصل کر رہی ہے۔ نظریاتی اور عملی تنقید دونوں میدانوں میں یہ امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔
حوالہ جات
[1]۔ انجم اعظمی، شاعری کی زبان، کراچی: الباقریہ پبلی کیشنز، 1989ء، ص:01
[2]۔ صادق علی، سیّد ڈاکٹر، اقبال کی شعری زبان، دہلی: نازش بک سنٹر، 1994ء، ص:13
[3]۔ افضال حسین، قاضی، میر کی شعری لسانیات، دہلی: عرشیہ پبلی کیشنز، دوسرا ایڈیشن، 2010ء، ص:19
[4]۔ قدامہ بن جعفر، نقد الشعر، قسطنطنیہ: مطبعۃ الجوانب، 1302ھ، ص:37
[5]۔ انیس ناگی، شعری لسانیات، لاہور: کتابیات، 1969ء، ص:42
[6]۔ لونجائنس، علویت کے بارے میں، مترجم: ڈاکٹر جمیل جالبی، مشمولہ: ارسطو سے ایلیٹ تک، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، طبع ہفتم2003ء، ص:198
[7]۔ امیرعنصر المعالی کیکاؤس، قابوس نامہ، (باتصحیح و مقدمہ و حواشی: دکتر امین، عبدالمجیدبدوی)، تہران: نشریات کتابفروشی ابن سینا، 1956ء، ص:173
[8]۔ افضال حسین، قاضی، میر کی شعری لسانیات، ص:31
[9]۔ شمس الرحمٰن، فاروقی، شعر، غیرشعر اور نثر، دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان، سوم ایڈیشن 2005ء، ص:78
[10]۔ ہادی حسین، زبان اور شاعری، لاہور: مجلس ترقی ادب، طبع دوم 2015ء، ص:84
[11]۔ انیس ناگی، تنقید شعر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 1987ء، ص:105
[12]۔ افضال حسین، قاضی،میر کی شعری لسانیات، ص:45
[13]۔ شمس الرحمٰن فاروقی، شعر، غیر شعر اور نثر، ص:93
[14]۔ ایضاً، س:139
[15]۔ منظر عباس نقوی، ڈاکٹر، نثر، نظم اور شعر، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1978ء، ص:11
[16]۔ ہادی حسین، شاعری اور تخیل، لاہور: مجلس ترقی ادب، طبع سوم 2015ء، ص:146
[17]۔ عنوان چشتی، ڈاکٹر، تنقید سے تحقیق تک، دہلی: پی کے پبلی کیشنز، 1974ء، ص:35
[18]۔ شمس الرحمٰن فاروقی، شعر غیر شعر اور نثر، ص:54
[19]۔ انیس ناگی، شعری لسانیات، ص:149
[20]۔ شمس الرحمٰن فاروقی، شعر غیرشعر اور نثر، ص:96
[21]۔ ارسطو، Poetics، (مترجم:عزیزاحمد) بوطیقا، لاہور: بک ہوم، 2006ء، ص:81
[22]۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے ایلیٹ تک، اسلام آباد: نیشنل بک فاؤنڈیشن، طبع ہفتم، 2013ء،ص:135
[23]۔ ایضاً، ص:145
[24]۔ سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر، مغرب کے تنقیدی اصول، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان، 2012ء، ص:105
[25]۔ کیفی، برجموہن، دتاتریہ، پنڈت، منشورات، کراچی: سٹی بک پوائنٹ، 2004ء، ص:40
[26]۔ عنبر بہرائچی، سنسکرت شعریات، لکھنؤ: یونائیٹڈ پرنٹرس، 1999ء، ص:192
[27]۔ عنبر بہرائچی، آنندوردھن اور ان کی شعریات، الٰہ آباد: پہچان پبلی کیشنز، 2007ء، ص:63
[28]۔ گوپی چند نارنگ، ساختیات پس ساختیات اور مشرقی شعریات، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 1994ء، ص:338
[29]۔ عمیق حنفی، شعر چیزے دیگر است، دہلی: مکتبہ جامعہ، 1983ء، ص:99
[30]۔ ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، لاہور: مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، 2000ء، ص:24
[31]۔ محمد حسن، مشرق و مغرب میں تنقیدی تصورات کی تاریخ، دہلی: ترقی اُردو بیورو، 1990ء، ص:167
[32]۔ وہاب اشرفی، مغربی و مشرقی شعریات، دہلی: عرشیہ پبلی کیشنز، دوسرا ایڈیشن، 2011ء، ص:264
[33]۔ ابوالکلام قاسمی، مشرقی شعریات اور اردو تنقید کی روایت، ص:94
[34]۔ جیلانی کامران، مغرب کے تنقیدی نظریے، جلد اوّل، لاہور: مکتبہ کارواں، 1996ء، ص:157
[35]۔ ایضاً، ص:167
[36]۔ کولرج، نظم اور شاعری، مشمولہ: ارسطو سے ایلیٹ تک (مترجم: ڈاکٹر جمیل جالبی)، ص:312
[37]۔ بحوالہ سجادباقر رضوی، ڈاکٹر، مغرب کے تنقیدی اصول، ص:191
[38]۔ شیلی، شاعری کا جواز، مشمولہ: مغربی شعریات (مترجم: محمد ہادی حسین)، لاہور: مجلس ترقی ادب، طباعت سوم 2010ء، ص:61
[39]۔ کرسٹوفر کاڈویل، شاعری کا مستقبل (مضمون)، مشمولہ: ارسطو سے ایلیٹ تک (مترجم: جمیل جالبی)، ص:467
[40]۔ کلینتھ بروکس، شعری کلام کے نثری معانی، مشمولہ: مغربی شعریات (مترجم: محمد ہادی حسین) ص159