مسرت آرا
پی ایچ ۔ ڈی اسکالر ۔ کشمیر یونی ورسٹی
شمس الرحمن فاروقی کا افسانہ ’’ لاہور کا ایک واقعہ‘‘ ایک جائزہ
شمس الرحمن فاروقی نے اردو ادب کی ہر صنف میں طبع آزمائی کر کے اردو ادب کی تاریخ میں ایک بلند مقام قائم کیا ۔وہ بایک وقت شاعر، افسانہ نگار، محقق، نقاد،اورلغت نگار رہے ہیں۔ان کو اردو ادب سے خاص شغف تھا کیونکہ وہ بچپن سے ہی اردو کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا کرتے تھے۔ جہاں اردو ادب میں ان کا بڑا نام ہے وہیں وہ ایک کامیاب ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کسی خاص مقام پر پہنچنے کے لئے انسان کے پاس وسیع مطالعہ، قوت یاداشت اور عرق ریزی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان تمام چیزوںکے ذریعے ان کی شخصیت ہمیں متاثر کرتی ہے۔ انگریزی میں ایم۔ اے کے باوجود بھی وہ اردو ادب کے سچے خادم رہے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بچپن سے ہی اردو سے بہت متاثرر ہے اور انہیں اس بات کا بھی افسوس تھا کہ لوگ انگریزی ادب کا بڑی دلچسپی اور سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں ۔لیکن ہم اردو ادب کو کمتر سمجھ کر اس کی ملامت کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نے اردو ادب میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے لیے رسالہ’’ شب خون‘‘1966 میں نکالا۔ اس رسالہ کے ذریعے انہوں نے اردو ادب میں ایک نیا انقلاب لایا ۔یہ رسالہ چالیس برس تک مسلسل آب و تاب کے ساتھ ادبی دنیا کو متاثر کرتا رہا اور اردودنیا میں ’’شب خون‘‘ کی خوب پذیرائی ہوئی ،جس کی وجہ یہ ہے کہ ادب میں فنی تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا اور ہر طرح کے مضامین کو جگہ دی گئی۔ شمس الرحمن فاروقی ادب میں ادبیت کے قائل تھے لہذا اس رسالہ کے سہارے انہوں نے پہلے روایت کو توڑنے کی کامیاب کوشش کی۔ رسالہ شب خون کے ذریعے جدیدیت کا آغاز ہوا تو ادب میں پہلی بار نیاپن داخل ہوا ہے ۔جہاں شمس الرحمن فاروقی نے اردو ادب کو ایک نئے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا اور مغربی ادب کی خوب پذیرائی کی تو ہیں انہوں نے ترقی پسند ادب کو بھی اپنے رسالے میں جگہ دی تاکہ یہ بات واضح ہو کہ ترقی پسند ادب میں اور جدیدیت کے ادب میں کیا فرق ہے۔ اس رسالے میں انہوں نے جو تحریریں جدیدیت کے زیر اثر شائع کیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو ادب ترقی پسند تحریک کے عہد میں تخلیق کیا گیا وہ اردو زبان وادب اور انسان کے لیے کس حد تک نقصان دہ ثابت ہوا ۔
فاروقی کی اہمیت اردو ادب میں اگرچہ بحثیت نقاد اور محقق کی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انہوں نے دوسرے اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔فکشن کے حوالے سے ان کا نہایت ہی مقبول و معروف ناول’’ کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ منظر عام پر آیا۔ یہ ناول اردو ادب کا ہی نہیں بلکہ نئی صدی کے بہترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس ناول میں شمس الرحمن فاروقی نے زبان و بیان، جزئیات نگاری،مکالمہ نگاری کے ساتھ ساتھ بیانیہ کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔ انہوں نے اس ناول کے ذریعے ایک خاص عہد کی تہذیب و زبان کو دوبارہ زندہ کیا ہے اگرچہ اس ناول کی زبان بہت مشکل ہے اور قاری کے لئے نامانوس ہے لیکن مصنف نے بیانیہ کی تکنیک کو اس طرح بروئے کار لایا کہ ناول مختلف زاویوں کے ذریعے بیان ہوتاہے۔ اس ناول میں جگہ جگہ ہمیں اردو اور فارسی اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ جس عہد کی عکاسی کی گئی ہے اس وقت شعر سننے اور سنانے کا رواج عام تھا۔ شمس الرحمن فاروقی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس ناول کے مکالموں اور عبارتوں میں ان اشعار کا استعمال بڑی ہنرمندی اور چابکدستی کے ساتھ کیا ہے۔’’ کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ کے مطالعے کے بعد ہمیں فاروقی کے وسیع مطالعے اور اردو فارسی شاعری پر دسترس کا احساس ہوتا ہے۔ مظاہرین اول محبت میں کامیابی اور ناکامی کی داستان کی عکاسی کرتا ہے لیکن جب اس ناول کی تہہ تک پہنچ جاتا ہے تویہ ناول انیسویں صدی کے ہندوستان کی تاریخ، سیاست اور تہذیب کا بھرپور عکاس ہے۔ 2001ء میں ان کا افسانوی مجموعہ’’ سوار اور دوسرے افسانے‘‘ منظر عام پر آیا ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں انھوں نے اردو کے مشہور و معروف شعرا جیسے غالب میر تقی میر غلام ہمدانی مصحفی علامہ اقبال وغیرہ کا ذکر بڑی ہنر مندی کے ساتھ کیا ہے علاوہ ازیں اس میں انہوں نے اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کی تہذیبی صورت حال کو بھی موضوع بحث بنایا، یہی وجہ ہے کہ افسانوی مجموعہ ہندوپاک میں کافی مقبول ہوا ۔
افسانہ’’ لاہور کا ایک واقعہ‘‘ کافی طویل ہے جس میں 1937 کا ماحول پیش کیا گیا ہے۔ اس افسانے کا آغاز کچھ یوں ہوا ہے ، اقتباس ملاحظہ ہو :
’’ یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے ۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا ۔ ایک دن میرے جی میں آئی کہ چلو علامہ اقبال سے مل آئیں ۔ اس زمانے میں میرے پاس ہلکے بادامی سفید ( off white) رنگ کی امبسیڈر (ambassador)تھی ۔ میں اسی میں بیٹھ کر علامہ صاحب کی قیام گاہ کوچلا ۔‘‘
( افسانہ : لاہور کا ایک واقعہ ، شمس الرحمن فاروقی )
راوی علامہ اقبال سے ملنے لاہور اپنی گاڑی میں جاتا ہے اور علامہ اقبال کے بنگلے کے باہر گاڑی رکھ کر اندر داخل ہونا چاہتا ہے اتنے میں اس کی نظر سڑک کے کنارے ایک دکان پر جا پڑتی ہے جہاں وہ نوجوان لڑکوں کا ایک مجمع دیکھتا ہے۔ ابھی وہ گاڑی سے اترا نہیں تھا اور گاڑی کو پوری طرح سے بند بھی نہیں کیا تھا کہ وہ تمام لڑکے اس کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں۔ اسے لگا کہ شاید وہ بھکاری ہے اور اسے سے کچھ پیسے مانگ رہے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ جب ان لوگوں کی شرارتیں بڑھنے لگیں تو اسے لگا کہ دراصل یہ بھکاری نہیں ہے لاہور کی کوئی اور ہی پیداوار ہے۔ اس مجمع کے ساتھ ایک بڑا سا منہوس آدمی بھی تھا جو شاید ان کا سردار معلوم ہوتا تھا۔ راوی کسی طرح اس بھیڑ کو چیرتا ہوا اور اپنی عزت بچا تا ہوا علامہ اقبال کے بنگلے تک پہنچ جاتا ہے۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک آدمی نکلا جو شاید علامہ کا خادم تھا اس نے اندر آنے کے لئے کہا اور علامہ کے ملاقاتی کمرے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی علامہ اقبال کمرے میں داخل ہوئے تو بڑی محبت و شفقت سے پیش آئے۔ راوی کے ذہن اور رگ و ریشے میں جو ان نو جوانوں کا خوف کوٹ کوٹ کر بھرا تھا وہ ایک پل سے دور ہو گیا۔ لیکن ملاقات سے فراغت کے بعد جب وہ باہر آیا تو وہاں کسی اور کی گاڑی تھی۔ وہ اس گاڑی کو اور علامہ اقبال کے بنگلے کو کچھ دیر تک دیکھتا رہا۔ بالآخر ان چیزوں کو نظر انداز کرکے جب وہ باہر آیا تو پھر وہی آوارہ لڑکوں کا جلوس اس کی گاڑی کو دھکیل رہا تھا۔ انہوں نے گاڑی کو دوسری سمت موڑا ہواتھا۔ اس نے جلدی سے گاڑی کو بچانے کی کوشش کی اور اس مجمع کے سردار کو جو پیلے رنگ کی قمیض اور شلوار پہنے تھا اس کو ٹھوکر مار دی اور وہ اس کے نیچے گہری نالی میں جا گرا۔ اور گاڑی میں بیٹھ کے اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی لیکن گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ پائی۔ کیونکہ وہ تمام نوجوان اسے پیچھے سے کھینچ رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ وہ بے بس ہو گیا تب بھی دور سے اسے ایک کوٹھی دکھائی دی اس نے گاڑی کو وہیں چھوڑا اور کوٹھی میں دوڑتے دوڑتے داخل ہوگیا۔ جب کوٹھی میں داخل ہوا تو کچھ دیر ٹھہر کر غور کیا اسے معلوم ہوا کہ وہ کمرے میں نہیں بلکہ غسل خانے میں ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی غنیمت جان لی۔ مگر غسل خانے میں بھی وہ کب تک رہتا لہذا وہاں سے نکلا اور دوسری جانب دروازہ کھولا جو قدرے محفوظ تھا ۔جیسے ہی وہ اس کمرے میں گیا تو وہاں تین خواتین بیٹھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اسے جب دیکھا تو وہ حیران ہو گئیں۔ وہ اسے وہاں سے نکالنے ہی والی تھی لیکن اس نے روتے روتے اپنا حال بیان کیا۔ وہ اپنا حال سنا ہی رہا تھا کہ اچانک پیلی ملگجی قمیض والا شخص اندر آیا اس کے ہاتھ میں پستول تھا۔ تب بھی کوئی سیاہ چیز اسی کمرے کے دروازے سے باہر آنگن میں جا گری اور گردوغبار ہر طرف پھیلا تینوں خواتین اور ساتھ میں وہ شخص بے ہوش ہوگئے۔ اس نے جب آسماں دیکھا تو اسے یہ خطرے سے خالی معلوم نہ ہوا۔ اس نے وہاں سے جانے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی۔ وہ جیسے ہی باہر آیا تو نہ وہاں اس کی گاڑی تھی اور نہ گاڑی کا نام و نشان۔ مگر اس نے گاڑی کی پرواہ نہیں کی اور وہ موقع کو دیکھ کر تانگے پر بیٹھ گیا اور مغلپورہ کے ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا۔ وہاں پٹھان کوٹ کی ٹکٹ لی۔ وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا تھا کہ پٹھان کوٹ میں اس کا کوئی بھی شناسا نہیں ہے لیکن اسے یہ بات بھی پتہ تھی کہ نہ وہاں کوئی ملگجی قمیض والا تھا نہ وہ گردوغبار۔
یہ افسانہ فنی اور موضوعاتی طور پر ایک لاجواب نمونہ ہے ۔ اس افسانے کے بارے میں ڈاکٹر رشید اشرف لکھتے ہیں :
’’ رہ گیا پانچواں افسانہ ’’ لاہور کا ایک واقعہ ‘‘ اگرچہ یہ مختصر ہے اور مصنف کے ایک
خواب پریشاں پر مبنی ہے لیکن خیالی باتوں کے باجود فکشن کا ایک کامیاب نمونہ ہے ۔
سرخی پر نظر پڑتے ہیں قاری پر جیسے جادو سا ہوجاتا ہے ۔ ہر جملے کے پھر سوچتا ہے
کہ کیا ہوا ؟ اور یہی تحرک ، افسانہ نگار کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا ہے ۔ اس مختصر
سے افسانے میں فنی وحدتوں کی عدم موجودگی کے باوجود کہانی پن ختم نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( کئی چاند تھے سرے آسمان : ایک تجزیاتی مطالعہ، ڈاکٹر رشید اشرف ، ۲۰۱۷ء ، ص ۸۱)
اس افسانے کے ذریعے انہوں نے علامہ اقبال اور اس کے عہد کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔علامہ اقبال اپنے دور کے سب سے بڑے شاعر گزرے ہیں جن کے عظمت پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس وقت کے نقادوں سے نہیں بچ سکے ان پر کئی اعتراض کیے گئے جس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ ایک عام قاری ان کے فلسفے تک نہیں پہنچ پایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر علامہ اقبال کی وفات تک اقبالیات کی تحریریں دنیا بھر میں اتنی مقبول ہوچکی تھی کہ ہر کوئی علامہ اقبال سے متاثر ہوچکا تھا۔ دنیا بھر میں علامہ اقبال کے شائقین پیدا ہوچکے تھے۔ اور ان کی تحریروں کو معنوی سطح پر سمجھنے کے لئے ہر کوئی نقاد، ادیب کوشش کر رہا تھا ۔یہ بات سچ ہے کہ شاعر کے ذہن تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور پھر علامہ اقبال جو اردو شاعری کا ایک عظیم نام ہے۔ اس کے ذہن تک پہنچنا کسی کے لیے بھی نہایت مشکل تھا۔ 1938 میں علامہ اقبال کی وفات ہوئی۔ مگر اس سے پہلے اقبال کی شاعری کو پڑھنے کی وجہ سے کئی لوگ خود کو ماہر اقبالیات قرار دینے لگے تھے۔ ایسے میں وہ لوگ جو علامہ اقبال سے متاثر تھے اور اس تک پہنچنا چاہتے تھے ان کے سامنے کئی مشکلات رونما ہوئیں اور پھر علامہ اقبال کی وفات کے بعد یہ سلسلہ جاری و ساری رہا اسی چیز کو ظاہر کرنے کے لیے شمس الرحمن فاروقی نے یہ افسانہ تخلیق کیا ۔علامتی طور پر افسانے کا راوی بھی اسی صف میں کھڑا نظر آتا ہے جو علامہ اقبال سے متاثر ہے اور ان سے ملنے کی خواہش دل میں لے کر ان کے گھر تک جا پہنچتا ہے۔ اور ان سے ملنے سے پہلے اور ملنے کے بعد جن حالات سے گزر تا ہے۔اور وہ لوگ جو اس سفر میں راوی کے لیے الجھن پیدا کر لیتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو خود کو ماہر اقبالیات تصور کرتے ہیں۔ اصل میں نقطہ نظر یہ ہے کہ اقبال کی تحریروں کی فکر کو ان بے شمار ماہر اقبالیات نے اپنے اپنے طور پر ایسے واضح کیا ہے کہ ایک نیا قاری علامہ اقبال کی فکر تک پہنچنے میں مزید مشکلات کا سامنا کرتا ہے یا پھر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقبالیات پر لکھنے والوں نے نئے قارئین کو سراسر الجھا دیا ہے۔ فاروقی اسی مسئلہ کو پیش کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خود ان مسائل کا سامنا کر چکے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آج حالات بدل چکے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان دو الگ الگ ملک ہونے کے ساتھ ساتھ دو الگ الگ ماحول کی ترجمانی بھی کر رہے۔ اردو کے کئی بڑے ادباء کچھ تو پاکستان میں مدفن ہے اور کچھ سرزمین ہندوستان میں، ایسے میں اردو زبان و ادب سے جڑے ہوئے شائقین جب ایک دوسرے کے ملک میں جاتے ہیں تو وہاں اپنے پسندیدہ ادیبوں کے مزار پر جانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ مذکورہ افسانے کو معنوی سطح پر سمجھنے کے طور پر ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کیونکہ علامہ اقبال اب پاکستان کے شہر لاہور میں دفن ہیں اور ان کے مقبرے تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ ان کی حویلی تک پہنچنے میں بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے مصنف قارئین کو اس پہلو کی طرف بھی متوجہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
***