You are currently viewing صادقہ نواب سحر سے ایک خصوصی ملاقات

صادقہ نواب سحر سے ایک خصوصی ملاقات

 علیزےنجف

صادقہ نواب سحر سے ایک خصوصی ملاقات

زندگی کو ادبی پیراہن میں ملبوس کرکے پیش کرنے کے ہنر سے ایک فکشن نگار بخوبی واقف ہوتا ہے، وہ زندگی سے جڑے ہر پہلو کو اس قدر نفاست سے پیش کرتا ہے کہ ہم بعض اوقات نہ صرف اس کو پڑھتے ہیں  بلکہ خود اس کے کسی نہ کسی کردار میں ڈھل بھی جاتے ہیں، ادبی بساط پہ ایسے کئی فنکار موجود ہیں جنھوں نے معاشرے کے ہر خوبصورت و چبھتے ہوئے موضوع پہ بے باکی کے ساتھ اپنا ہنر آزمایا ہے، اسی میں ایک باوقار نام ڈاکٹر صادقہ نواب سحر کا بھی ہے، صادقہ نواب سحر ایک افسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ شاعرہ بھی ہیں، ان کے یہاں معاشرے کے تلخ حقائق کی ترجمانی صاف نظر آتی ہے، انھوں نے صنف کی تخصیصِ کئے بغیر انسانی حقوق اور ان سے جڑے مسائل کو اپنی قلم کی روشنائی کے ذریعے عوام الناس کے سامنے پیش کیا ہے، ان کے قلم کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ گنگا جمنی تہذیب کی دلدادہ ہیں، ہندی ادب پہ انھیں دسترس حاصل ہے، ساتھ ہی ساتھ اردو ادب میں بھی انھیں ایک نمایاں مقام حاصل ہے، ان کی تحریریں ہندی اور اردو قدروں کا بہترین سنگم ہیں،  قرۃ العین حیدر کے بعد صادقہ نواب وہ پہلی ناول نگار ہیں جنھیں ان کے ناول “راج دیو کی امرائی” پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا، ان کا پہلا “کہانی کوئی سناؤ متاشا” ہے جو ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا اس کا انگریزی، ہندی اور تیلگو زبان میں بھی ترجمہ ہوا، ان کے افسانوں کا مجموعہ “خلش بےنام سی” “بیچ ندی کا مچھیرا”  اور ڈراموں کا مجموعہ “مکھوٹوں کے درمیان” نے ان کے ادبی قد کو معتبر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کا اعتراف کرتے ہوئے مختلف اداروں اور تنظیموں نے ان کو اعزازات سے نوازا ہے، میں نے ان سے انٹرویو لینے کی خواہش ظاہر کی جس کا انھوں نے بہت محبت کے ساتھ پاس رکھا، میں نے ان سے ان کی ابتدائی زندگی، قلمی سفر کی ابتدا، ادبی بساط کے نشیب و فراز، اور نظریات و خیالات کی تشکیل سے متعلق سوالات کیے جن کا انھوں نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیا، ہماری اس دلچسپ گفتگو کا ماحصل آپ کے سامنے ہے مجھے امید ہے آپ بھی اس سے لطف اندوز ہوں گے۔

علیزے نجف  دنیائے ادب میں آپ کا نام کسی کے لئے اجنبی نہیں سو میرا پہلا سوال یہ ہے کہ آپ خود کو کس طرح دیکھتی ہیں صادقہ آرا سحر سے صادقہ نواب سحر کے نام سے شہرت پانے تک کے اس سفر کو آپ کیا نام دیں گی ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب : میں اپنے آپ کو صادقہ کی طرح دیکھتی ہوں۔ صرف صادقہ ، مختلف رول مختلف جگہوں پر یا ایک ہی جگہ پر مختلف کردارادا کرتے ہوئے زندگی کا سفر جاری رکھتی ہوں ۔ ہر رول میں بہترین بننے اور بنے رہنے کی کوشش کرتی ہوں۔ جو کچھ مجھے خدا نے دیا ہے، میں اسے اپنی محنتوں کے میٹھے پھل گردانتی ہوں ۔ زندگی جیتے ہوئے اسی میں سے کچھ وقت اپنی ذہنی خوراک یعنی پڑھنے لکھنے پر لگا پاتی ہوں تو بہت خوش ہو جاتی ہوں۔ اور جب کئی دنوں تک یہ نہیں کر پاتی تو کچھ بے سکونی کا شکار بھی ہو جاتی ہوں ۔

علیزے نجف:  آپ کی حالیہ کاوشوں اور کامیابیوں سے متعلق بات کرنے سے پہلے ہم ذرا پیچھے کی طرف چلتے ہیں آپ کا بچپن کس طرح کے ماحول میں گذرا آپ کی ذہن سازی کرنے میں کن شخصیات نے اہم کردارادا کیا، کیا اس سے متعلق کوئی واقعہ شیئر کرنا چاہیں گی ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  محسوس کرتی ہوں کہ ہر انسان کا بچپن اس کی زندگی میں کرشمے لے کر آتا ہے ۔ جس کا اسے بہت بعد میں پتہ چلتا ہے۔ اس کے لئے بہت ہی آسائشوں یا بہت سارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مجھے اپنے گھر میں، اسکول میں، اپنے آس پاس کے ماحول میں عزت اور محبت کبھی حالات کی وجہ سے اور کبھی اپنی چھوٹی بڑی خواہشوں سے ملتی رہی ہے ۔ جو ذہن بنانے کا کام کرتی رہی۔ ہم سات بھائی بہن والدین اور سال میں چند ماہ ساتھ گزارنے والی نانی ، یہی وہ رشتے تھے جو گھر کے اندر میرے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ والد گر یجو یٹ تھے۔ والدہ اور نانی نے بھی گھروں، اسکولوں میں اور اپنے طور پر دین اور دنیا کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ میں نے ہمیشہ اپنے بچپن میں حاصل ہوئی محبتوں کے بحر ذخار کی لطیف لہروں کو اپنے دل میں سمو کر رکھا۔ کتابوں کا شوق تو جیسے گھٹی میں ملا تھا۔ بچپن میں والد کو سب سے زیادہ میرے اس  شوق کا احساس تھا۔ ویسے نیم قلمی اور نیم ادبی رسالوں نے بھی میری تربیت میں کچھ نہ کچھ رول ضرو را دا کیا ہو گا۔ اس کے علاوہ ماں اور نانی کی کہانیوں نے شاعری اور کہانی کے لئے دل میں بہت جگہ پیدا کی۔

میں کوئی تیسری چوتھی جماعت میں تھی ۔ روزانہ شام کے وقت ایک کاٹھیا واڑی گجراتی مسلمان بزرگ خاتون ہمارے گھر چلی آتیں تھی ۔ رنگ برنگے کپڑوں کے ٹکڑوں سے بنا ہوا گھاگرا ، آئینہ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگی ہوئی چولی اور دائیں کندھے پر لیس لگی ہوئی کنارے والے بڑے سے دو پٹے کا ایک سرا گھا گرے میں پیچھے سے اُڑس کر دوسرا کنارہ سینے پر پھیلائے ہوئے یہ گول چہرے والی خاتون مجھے اکثر یاد آتی ہیں۔ وہ اپنے ساتھ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں لاتیں اور مجھ سے انھیں پڑھ کر سنانے کے لیے کہتیں کبھی کبھی میری کہانیوں کے خزانے میں سے بھی کچھ پڑھ کر سنانے کے لیے کہتیں کبھی کوئی دین سے متعلق قصہ جسے تمیم انصاری یا پیغمبروں کے واقعات کسی سے مانگ کر لاتیں ۔ مجھ سے پڑھنے کو کہتیں ۔ ان کے گھر میں بیٹا بہو پوتے پوتیاں کل چھ سات افراد تھے۔ وہ جس دن نہیں آتیں، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ انھیں دنوں میرے ذہن میں ایک بات سما گئی۔ بڑی عمر میں انسان کے پاس شاید کوئی کام نہیں ہوتا۔ ان خاتون نے قصے کہانیاں سننے اور مذ ہب کو کتابوں کے ذریعہ جاننے کوشوق تو بنالیا تھا۔ پڑھنا لکھنا سیکھا نہیں تھا، پھر بھی یہ شوق بھی کیا کم تھا! ان ہی دنوں میں اکثر سوچا کرتی تھی ، میں بزرگ ہو جاؤں گی تو تب میر ا وقت کیسے کئے گا ، ہر ایک کو کسی شوق کی بہت ضرورت ہوتی ہے. شاید میر ے لیے یہ بھی ایک تحریک تھی ۔ آگے چل کر ایک منہ بولے ماموں بھی نسیم حجازی کے تاریخی ناول لائبریریوں سے لا کر یا خرید کر مجھ سے پڑھواتے تھے ۔

گھر میں ہر رات کھانے کے بعد قصص الانبیاء پڑھا جاتا تھا۔ اور ہم سب بیٹھ کر اسے سنتے تھے ،اکثر میں اور نانی ہی اسے پڑھ کر سناتے ۔ شادی کے بعد شوہر کے گھر اور ان کی دنیا نے بہت سکھایا۔

کیا کیا یا دیں ہیں !!

علیزے نجف:  آپ نے بہت کم عمری میں قلم سے اپنا ناطہ جوڑ لیا تھا آپ کی اس فطری صلاحیت کو مہمیز دینے میں کن پیرونی عوامل نے اہم کر دارا دا کیا تھا اوائل عمری میں خود آپ نے اپنی تحریروں میں نفاست اور عمدگی پیدا کرنے کے لئے کس طرح کی کوششیں کی تھیں؟

ڈاکٹر نواب سحر:  گھر اور باہر کی دنیا میں ادبی تہذیب سے روشناس کروانے والے کئی ذرائع تھے۔ بہت چھوٹی عمر سے ہی پڑھتے ہوئے، فلمیں دیکھتے ہوئے ، کہانی گیت سنتے ہوئے اس کے بنانے کی ترکیب،اس کی ابتداء وسط اور اختتام پر گہری نظر رکھتی تھی ۔ اردو ذریعہ تعلیم سے  تخیل اور زبان و بیان کو بہتر طریقے سے سیکھنے کے مواقع بھی دستیاب ہوئے۔ خود اپنی تحریروں پر تنقیدی نظر رکھنے کی صلاحیت بھی دھیرے دھیرے راہ پاتی رہی۔ ہر صنف کو میں نے پڑھا غور کیا، سمجھنے کی کوشش کی اور اسے آزمانے کی خواہش کو بھی آزماتے ہوئے دانستہ اور نا دانستہ کاوشوں سے گزرتی رہی۔

علیزے نجف: کہتے ہیں اسکول آف تھاٹ کے ذریعے لکھا تو جا سکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک نہیں میرا سوال یہ ہے کہ خدا داد تخلیقی صلاحیت کو اصولوں پر کھرا اترنے کے لئے کن اصولوں کی پاسداری کرنا لازمی ہے؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  جہاں تک مختلف اسکول آف تھاٹ کا سوال ہے، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اچھا ہوتا ہے بلکہ  بی اے، ایم اے میں ادب پڑھتے ہوئے یہ باتیں جاننا تو ضروری ہو جاتا ہے۔ اردو، ہندی، انگریزی میں ایم اے کرتے ہوئے ادب کی کچھ معلومات میری شخصیت کا حصہ بنتی چلی گئیں ۔ بہت سی چیزیں اور بہت سی باتیں جب شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں تب اس میں خداداد صلاحیتوں اور تجربات کی بھٹی میں پگھل کر ایک ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ لکھتے وقت اصول ضوابط قوانین تو ذہن کی پچھلی پرتوں میں جا کر اپنے وجود کو قائم رکھتے ہیں صرف وحدت تاثر برقرار رہتا ہے۔ سارے اصول پگھل کر قلم کی روشنائی بن جاتے ہیں ۔

علیزے نجف: اس وقت ہمارے معاشرے میں سائنس کا بول بالا ہے لوگ ادب کو دوسرے درجے پہ رکھتے ہیں اس نظریے کے پیچھے آپ کن عوامل کو دیکھتی ہیں اپنا ذہنی رجحان پہنچانے بغیر دوسروں کے راستوں پر چل نکلنا طلبہ کی شخصیت کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  ہمارے معاشرے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے جانکاروں کو ہمیشہ اہمیت ملتی رہی ہے یا انہیں زیادہ ذہین مانے کا تصور بنا ہوا ہے۔ جب کہ یہ سچ نہیں ہے ۔ کہانی چاہے کسی سائنسی فارمولے یا واقعے کی بنیاد پر ہی کیوں نہ لکھی گئی ہو، کہانی میں کہانی پن کا ہونا ضروری ہے ورنہ  تو وہ چوں چوں کا مربہ بن جاتی ہے ۔ ویسے سائنس کا زمانہ کب نہیں رہا۔سائنس کا مطلب ہی علم ہے ۔ اس سوال کا دوسرا حصہ جو آپ نے پوچھا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات  ذہنی رجحان کو سمجھنے میں بھی  زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر جا تا ہے ۔ اس بارے میں طلبہ کو بہت خبر دار رہنا چاہئے ۔ اپنی صلاحیتوں رجحانات کے پیش نظر اپنی راہیں خود تلاش کرنی پڑتی ہے ۔ کسی کے پیچھے چل کر ذہنی آسودگی نہیں حاصل کی جا سکتی۔

علیزے نجف:  آپ نے شاعری کی صنف سے اپنا تخلیقی سفر شروع کیا شاعری مختصر لفظوں میں اپنے مافی الذہن کو بیان کرنے کا نام ہے دوسری طرف شاعری پر مبالغہ آرائی کا بھی لیبل چسپاں ہے ایسے میں آپ نے اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لئے فن شاعری کو کس طرح برتا ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  اپنا مافی الذہن  بیان کرنے کے لئے انسان مختلف ذرائع کا استعمال کرتا ہے۔ میں نے زندگی کی جدو جہد کے دوران جو کچھ سیکھا اسے شاعری کا موضوع بنایا۔ مبالغہ آرائی فطرت میں  رہی نہ  ہی یہ وقت کی ضرورت ہے ۔ میں نے وہی لکھا جو میرے دل کے قریب تھا۔ جو میرے احساسات اور جذبات تھے۔ کلاسیکی شاعری بلکہ موجودہ عہد تک کہ شاعری پر میری نظر رہی ، وہیں سے سیکھا۔ بچوں کو بڑا کرنے تک میرے اظہار کے لئے شاعری بہت کام آئی ۔وہ بھی مجھے بہت عزیز ہے۔ میں نے زندگی کو شعر میں گوندھنے کو زندگی بنالیا۔

علیزے نجف: آپ کا تعلق شعبہ تدریس سے ہے آج کے طلبہ کی ہونے والی ذہن سازی سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں اپنی ذاتی شناخت کو بنانے کو لے کر ان میں کس طرح کے خیالات پائے جاتے ہیں؟

ڈاکٹر صادقہ نواب :  شعبہ تدریس سے تعلق ہونے کی وجہ سے اساتذہ اور طلبہ دونوں طرف کی جانب سے سوچنے کا موقع ملا۔ ایک بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی کہ دوسروں کی ذہن سازی کرنے کے لئے استاد کو خود اپنی ذہن سازی کرنی ضروری ہے۔ طلبہ کو بھی یہ پتہ ہونا چاہئے کہ علم کا ذخیرہ صرف اچھے استاد کے پاس نہیں ہوتا اور بھی ذرائع ہیں۔ خصوصا کتاہیں اور انٹرنیٹ ۔ ہر زمانے کا ادب اپنے زمانے کی انفرادی اور اجتماعی نفسیات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لئے مشاہدہ اور غور و خوض بھی ضروری ہیں ۔ اپنی ذاتی شخصیت کو بنانے کو لے کر میں نے زیا دہ تر طلبہ میں جستجو اور لگن محسوس کی ہے ۔ یہ تو مسلسل تلاش کا نام ہے ۔

علیزے نجف: آپ ہندی اورا ردو دونوں ہی زبانوں میں لکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہندی اور اردوزبان کے مابین بہن کا رشتہ ہے اس وقت اردو اور ہندی میں جوادب تخلیق کیا جارہا ہے اس میں وہ کون سے پہلو ہیں جو کہ ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور کہاں پر ان کا بہنا یا آج بھی قائم ہے؟

ڈاکٹر صادقہ نواب: چونکہ میری پرورش اردو ماحول میں ہوئی ہے۔ میری سوچ اور میری ذہانت کا منبع بھی وہی ہے ۔ جہاں تک اردو اور ہندی کا سوال ہے دونوں کا گر امر تقریبا یکساں ہے۔ میں اس پر بہت نہیں سوچتی۔ ہر ادیب یا شاعر کا مقصد تو کمیونکیشن یعنی ترسیل ہے۔ قریبی زبانیں  بولنے میں ایک سی ہونے کی وجہ سے اپنی اردو میں لکھی ہوئی تحریر کو ہندی میں منتقل کرتے ہوئے میں نے مشکل محسوس نہیں کی ۔ ہما را علاقہ مراٹھی بھاشی علاقہ ہے۔ لوگ سیدھی سادھی اردو ہندی سمجھ لیتے ہیں ۔ ساری دنیا میری تحریریں پڑھے اور میرے علاقے کے لوگ نہ سمجھیں تو مجھے کیسے اطمینان ہو سکتا ہے،  اردو ہندی میں بہناپا ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اس کا فائدہ دونوں بھاشا بھاشیوں کو ملتا رہے گا،  ترجمہ نگاری بھی ان کے ذریعہ بہت آسان ہے۔

علیزے نجف:  آپ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میرے پڑھنے لکھنے کی خواہش نے مجھے بچالیا کیوں کہ انسان کی ایک ذہنی زندگی بھی ہوتی ہے اس وقت اس ذہنی زندگی کو بہتر سے بہترین بنانے کے لئے آپ نے کن عوامل کو معاون پایا تھا ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:   ذہنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کتابوں سے اچھا دوست کون ہوسکتا ہے۔ پڑھنا اور لکھنا بس ۔ میں نے اپنا ایک ہی شوق رکھا۔ ایک نہیں بلکہ دو شوق  تھے ۔ پڑھنا لکھنا اور پڑھانا اور دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ۔ بہت سارے عوامل ذہن میں مسلسل اپنا کام کرتے رہتے ہے ۔ بس مقصد صاف رہنا چاہئے ۔

علیزے نجف:  آپ نے جب اپنا پہلا ناول لکھا تو آپ کو محسوس ہوا کہ یہی وہ صنف ہے جس کے لیے میں بنی ہوں ناول نگاری کے کن خصائص نے آپ کو اس قد رقریب کر دیا؟

 ڈاکٹر صادقہ نواب: بےشک پہلا ناول میرا پر لطف تجربہ تھا۔ افسانہ نگاری یا ناول نگاری کے اجزائے ترکیبی گھل مل کر چیلنج بن گئے ۔ سب گھل مل کر زندگی کے کینوس پر رنگ بکھیر نے لگے۔ کبھی کبھی یہ رنگ آپس میں گھل مل کر تیسرے یا کسی بے نام رنگ کو بھی جنم دینے لگتے ہیں۔ ان تجربوں سے میں بہت محظوظ ہوئی اور پھر دل نے کہا افسانہ اور کہانی میرے لئے بہترین میدان عمل ہیں ۔ ادیبوں کی رائے مشوروں نے بھی احساس دلایا۔ میں نے خود محسوس کیا کہ میں افسانہ ناول اور ڈرامے لکھتے ہوئے زیادہ ریلیکس، زیادہ آسودگی محسوس کرتی ہوں ۔ کیونکہ قصہ سننا اور سنانا تو مجھے بچپن سے پسند ہے!

علیزے نجف  آپ کا پہلا ناول کہانی کوئی سناؤ متاشا’ جو کہ آپ نے ۲۰۰۸ میں لکھا تھا اس میں ایک عورت کی بقا کی جنگ کو بہت صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس ناول کو لکھے ہوئے سولہ سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے اگر آپ آج اس کے مرکزی کردار متاشا کولفظوں کے ذریعے پھر سے زندہ کرتی ہیں تو کیا اس کے وجود کی بقا کی جنگ ویسی ہی ہو گی جیسی کہانی کوئی سناؤ متاشا’ میں تھی یا حقیقی زندگی میں در آنے والی تبدیلیوں کی وجہ سے متاشا کاسروائیول اسٹرگل بھی متاثر ہو گا ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  میرا پہلا ناول کہانی کوئی سناؤ متاشا ۲۰۰۸ہ میں شائع ہوا ۔ ان سولہ سالوں میں سماجی ، سیاسی اور معاشرتی سطح پر دھیرے دھیرے تبدیلیاں ہوتی رہیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی ۔یہ تبدیلیاں گھر یلو اور خاندانی سطح پر بہت بہت  آہستگی سے قوع پذیر ہوتی ہیں کبھی کبھی کچھ حالات جیسے تھے، ویسے ہی رہتے ہیں ۔

یہ سچ ہے کہ اس ناول کا مرکزی کردار ایک عورت ہے ۔ سچ کہتی ہوں ، میں نے عورت کی کہانی نہیں لکھی ہے کم از کم دانستہ تو نہیں ہے۔ یہ کہانی انسان کی ہے یہ جنگ انسان کے وجود کی بقا کی جنگ ہے ۔ مجھے لگتا ہے حالات کے حساب سے سروائیول  اسٹرگل یا اپنی بقا کی جد وجہد کا عمل متاثر ہوتا ہے اور متعین بھی ہوتا ہے۔ میں نے جو کردار اپنے فکشن میں اتارے ہیں ، وہ زندگی سے ہی اٹھائے ہیں۔ جس دن سے اور راجد یوکی امرائی ناولوں کے کرداربھی جیتے جاگتے اور اپنے اپنے حالات اور نفسیات کے چکروں میں الجھے ہوئے

کردار ہیں ۔

علیزے نجف:  آپ کا دوسرا ناول ‘ جس دن سے’  ہمارے معاشرے کے ایک حساس موضوع پر لکھا گیا ہے جتیش جیسے کردار طلاق کی بڑھتی شرح کے ساتھ ہمیں جابجا زندگی سے جوجھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اس طرح کے کرداروں کی زندگی کے پیچ و خم کو کامیابی کے ساتھ صفحات پہ اتارتا نا بیشک کمال کی بات ہے قاری غیر جانبدار رہ کر ان کے غم کو محسوس کر سکتا ہے ، کیا ایک ناول نگار اس طرح کے حساس کردار کو محض رپورٹ کرنے کے لئے لکھتا ہے یا وہ اس سے لوگوں کو متنبہ کرنے کا کام کرنا چاہتا ہے اگر ہاں تو اس کی کامیابی سے بطو رناول نگار آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟

 ڈاکٹر صادقہ نواب:  جس وقت ایک رائٹر تخلیق کے مرحلے سے گزرتا ہے، اس وقت وہ کردار اور اس کے حالات سے نبردآزما ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سے گزرنے کے لئے فکشن نگار کا غیر جانب دار ہونا بہتر ہوتا ہے ۔ اس سب سے گزرنے کے لئے کچھ بے اطمینانی اور کچھ اطمینان کی ضرورت ہوتی ہے۔ مجھے بھی محسوس ہوتا ہے کہ میں جنھیں کہانی سنا رہی ہوں ان تک کوئی مثبت احساس پہنچاسکوں ۔

علیزے نجف:  اردو ادب میں کچھ دہائیوں پہلے اردو ناول کی موت واقع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا پھر آپ اور خالد جاوید، انیس اشفاق،  محسن خان جیسے اعلی پائے کے ادیبوں نے ناولز لکھ کر ناول کی صنف میں زندگی کی حرارت موجود ہونے کی نوید دی میرا سوال یہ ہے کہ یہ خدشہ کیوں کر پیدا ہوا کیا کوئی صنف جس کی اپنی ایک شاندار تاریخ رہی ہے اتنی آسانی سے مرسکتی ہے۔

ڈاکٹر صادقہ نواب :  ناول اور افسانہ بلکہ ڈرامہ بھی جاندار اصناف ادب ہیں ۔ یہ سماج کو بہت کچھ دیتی ہیں ۔ معاشرے کو بہتر بنانے میں رول ادا کرتی ہیں ۔ شاعری کا بھی یہی حال ہے۔ جب ان کے مرنے کی بات ہوتی ہے تو میں مسکرا دیتی ہوں۔ بھلا یہ بھی کوئی نا پید ہونے والی چیزیں ہیں! جب تک زندگی ہے تب تک ان اصناف کی رگوں میں خون دوڑتا رہے گا کم سے کم میرا تجربہ اور مشاہدہ تو یہی کہتا ہے۔

علیزے نجف:  آپ بہترین ناول نگار ہونے کے ساتھ افسانہ نگار بھی ہیں ‘خلش بے نام سی’ آپ کے سولہ افسانوں کا مجموعہ ہے کیا ہر اچھا افسانہ نگار اتنا ہی اچھا ناول نگار بھی ہوسکتا ہے اگر نہیں تو کیوں نہیں؟

ڈاکٹر صادقہ نواب :  خلش بے نام سی اور پیچ ندی کا مچھیرا میرے افسانوں کے دو مجموعے ہیں، جن کی ۲۰۱۳ اور ۲۰۱۸ میں اشاعت ہوئی۔ پہلے مجموعے میں سولہ اور دوسرے میں گیارہ افسانے ہیں۔ انشاءاللہ جلد ہی تیسرا افسانہ بھی متوقع ہے۔ ہر ایک کے بارے میں تو نہیں کہہ سکتی مگر میں اپنی تحریروں کے ساتھ کاتی لے دوڑی والا معاملہ نہیں رکھتی ۔ کافی وقت انھیں رکھے رہتی ہوں کبھی کبھی انہیں اٹھا کر دیکھتی ہوں ۔ اپنی تنقید آپ کرتی ہوں۔ چاہے وہ ناول ہو یا کچھ اور ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افسانہ نویسی اور ناول نویسی دونوں سے ہی میں نے محبت کی ہے۔ اسی لئے دونوں نے ہی قارئین کی توجہ اور محبت پائی ہے۔ ہم جس چیز سے محبت کرتے ہیں، اس پر کام کرتے ہیں ، اس کا خیال رکھتے ہیں اور دنیا بھی اسی کو اہمیت دیتی ہے۔ ان افسانوں نے اور تینوں ناولوں اور ڈراموں نے ادب کی دنیا میں مجھے بھی جگہ فراہم کرا دی ہے۔ جس طرح ہم زندگی کے مختلف رول ادا کرتے ہیں اسی طرح ادب کے مختلف اصناف میں بھی مختلف رول بہتر طریقے سے ادا کر سکتے ہیں۔

علیزے نجف:  آپ ڈرامہ نگاری کے میدان میں بھی ایک نمایاں پہچان رکھتی ہیں ڈرامے کی طرف کیسے قدم رکھا کیا ایک ڈرامہ افسانے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے ان کے درمیان کس طرح کے بنیادی فرق پایا جاتا ہے؟

ڈاکٹر صادقہ نواب: کہانیاں سننے سنانے اور لکھنے اور پڑھنے کا شوق تو بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ کہانی کا ایک عنصر مکالمہ نگاری اور ڈرامائیت بھی ہے۔ ڈرامہ میں بھی کہانی ہوتی ہے ، پلاٹ ہوتا ہے، کردار، مکالے، زبان وبیان، مقصد، وحدت زمان و مکان اور وحدت تاثر ہوتے ہیں۔ افسانے اور ڈرامے میں بنیادی فرق و اسٹیج پر فارمنس یا اسٹیج کے لوازمات کا ہوتا ہے۔ افسانہ نگار عام طور پر لفظوں سے تصویریں کھینچتا ہے۔ ڈرامہ، ادا کار و  ہدایت کار وغیرہ کی صلاحیتوں کو اپنے ہنر میں ضم کر کے زیادہ اثر پیدا کر سکتا ہے۔ خود اپنے رجحان اور کچھ ڈراموں میں ڈی لٹ یافتہ اپنے صوفیہ کالج ممبئی کے استاد  فصیح احمد صدیقی کی ڈرامہ نگاری اور ہدایت کاری کے زیراثر صنف ڈرامہ میں دلچسپی تھی ہی ممبئی میں رہنے کی وجہ سے اچھے ڈرامے دیکھنے پڑھنے اور سمجھنے کے مواقع بھی ملے۔ بعد میں دوران ملازمت کھوپولی جیسے ڈرامے کے زرخیز علاقہ میں رہتے ہوئے مراٹھی بھاشی طلبہ سے ڈرامہ کروانے کے لئے ان کی صلاحیتوں کے مطابق ڈرامے بھی لکھے  ، ہدایت بھی دی اور متعدد ڈرامائی مقابلوں میں حصہ بھی لیا۔ کالج کی کلچرل کمیٹی کی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اس ضمن میں کافی کام کیا۔ ڈرامہ لکھتے ہوئے میں خاص قسم کی خوشی محسوس کرتی ہوں، جس کو میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس وقت میرے خزانے میں ایک فل لینتھ ڈرامہ، پندرہ سولہ یک بابی ڈرامے اور کچھ اسکٹ وغیرہ ہیں ۔

علیزے نجف: پچھلے دنوں آپ کے ناول ‘راج دیو کی امرائی کے لئے آپ کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا قرۃ العین حیدر کے بعد یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی دوسری خاتون ادبیبہ ہیں یہ سوال اگر چہ عجیب سا ہے پھر بھی میں پوچھنا چاہوں گی کیوں کہ ایک تخلیق کا راپنی تخلیق کے نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتا ہے سوال یہ ہے کہ آپ کے نز دیک راج د یو کی امرائی ناول کی وہ کون سی خوبیاں ہیں جس نے اسے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ بنا دیا کیا آپ کو یہ ایوارڈ ملنے کی امید تھی ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  یہ میری خوش نصیبی ہے کہ قرۃ العین حیدر جیسی بہترین ادیبہ کے بعد ساہتیہ اکادمی نے مجھے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی قطار میں خواتین میں دوسری ادیبہ قرار دیا۔ ویسے تو اس اکادمی کے اپنے معیار ہیں لیکن جیسا کہ میں نے محسوس کیا ہے کہ تین چار نسلوں میں پھیلی ہوئی ہندوستانی تہذیب، جنریشن گیپ ، تہذیب ثقافت، گاؤں شہر مختلف طبقے ،مختلف زمانے ، پرانی ہوتی سوچوں کو ایک مخصوص روانی کے ساتھ دلچسپ پیرائے میں لکھ پانے کو میں اپنی کامیابی کا شریک سمجھتی ہوں ۔

 نہیں، میں اپنی تحریروں سے بڑی امیدیں نہیں رکھتی۔ میری صرف اتنی خواہش ہوتی ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار بہتر طریقے سے کروں ۔ان میں خامیاں نہ رہیں

کم از کم دل دکھانے والے عناصر تو بلکل نہیں ہوں۔ میری تحریر میں مثبت سوچوں ، اقداروں کا منبع بن جائیں۔ سورج نہیں تو کم از کم تنھا سا دیا بن کر رہنمائی کریں ۔

علیزے نجف: ایک تخلیق کار صرف ایک نہیں بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کی وجہ سے کئی زندگیاں جینے کا فن رکھتا ہے آپ کی زندگی پہ آپ کے ناولز نے کس طرح کے اثرات مرتب کئے اور خود آپ اپنے ناولز و افسانوں میں اپنی حقیقی زندگی کے تجربات کو سموتے ہوئے کس طرح کے تجربات سے گذری ہیں؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  لکھتے وقت یقینا ایک تخلیق کار تحریر کو پوری طرح جینا چاہتا ہے ۔ مجھ پر میرے ناولز کچھ اس طرح اثرات مرتب کرتے ہیں کہ ایک ناول یا افسانہ مکمل ہونے کے بعد میں بلکل خالی سی ہو جاتی ہوں۔ میرا یہ حال کوئی اچھی تحریر یا کتاب پڑھنے کے بعد بھی ہوتا ہے۔

کبھی کبھی حقیقی زندگی کے تجربوں مشاہدوں کو تحریر میں سموتے ہوئے ایک تڑپ زی بے چین کرتی ہے۔ جو لکھنے پر ہی قابو میں آتی ہے۔ یہ درد میرے ساتھ جیتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی مجھے پرسکون بھی کرتے رہتے ہیں۔ میں تعلق اور لاتعلقی یا علیحدگی کے اصولوں پر زندگی گزارتی ہوں ۔ کام کے وقت پوری توجہ اور پوری لگن اور اس کے بعد اس سے کچھ دور کھڑے رہ کر اسے دیکھنا اس کا خیال رکھنا آخر زندگی تو ایسے ہی جی جاتی ہے۔

علیزے نجف:  اگر زندگی آپ کو پھر سے ایک نیا پروفیشن اختیار کرنے کا موقع دے تو کیا دوبارہ آپ قلمکار ہی بنا چاہیں گی اگر ہاں تو کیوں؟

ڈاکٹر صادقہ نواب: جی ہاں میں قلم کار ہوں ، قلمکار ہی بننا چاہتی ہوں۔ کیونکہ میں یہی ہوں اسی میں میری خوشی ہے، اس میں میری نجات ہے اور اسی میں میری زندگی ۔ جو میری ذہنی زندگی ہے، وہ میرے پڑھنے لکھنے کی وجہ سے ہے  میرا یہ کام مجھ مختلف زندگیاں جینے کا موقع دیتا ہے اور میں ہر زندگی کو رنگوں کے مختلف ارتباط سے گزرتی رہی ہوں۔ جی ہاں مجھے لکھنا چاہئے کہ اس کے بغیر مجھے زندگی ادھوری لگتی ہے۔ میں جب تک لکھتی رہوں گی تبھی تک میں زندہ ہوں کیونکہ اپنی بات کہنے کا اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا میرے پاس اس سے بہتر کوئی اور وسیلہ نہیں ہے ۔

علیزے نجف: اپنے اس ادبی سفر میں آپ کامیابی کے کئی زینے چڑھ چکی ہیں کیا کچھ ایسا بھی ہے جس کو قرطاس پہ اتارنے کی جستجو برسوں سے ہے لیکن چاہتے ہوئے بھی ابھی تک اسے باقاعدہ قاعدہ کاوش میں نہیں تبدیل کر سکیں ؟

ڈاکٹر صادقہ نواب:  ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ۔ بہت سی خواہشات ہیں جو ابھی صفہ قرطاس پر اتارنے کی جستجو لئے بیٹھی ہوں ۔ دیکھیں کب اس کا وقت آتا ہے۔ بہت پڑھنا چاہتی ہوں بہت لکھنا چاہتی ہوں اگر زندگی موقع دے تو انشا اللہ ساری دنیا کے جتنے مسائل ہیں وہ سب میرے ہدف پر ہیں، زندگی کو بہتر بنانے کے لئے .. اسے سمجھنے کے لئے … ایک خوبصورت دنیا کی تخلیق کرنے کے لئے ۔

علیزے نجف : جاتے جاتے آپ قارئین اور نئے ادب نویس لوگوں سے کیا کوئی ایسا واقعہ شیئر کرنا چاہیں گی جو اس سائنسی دور میں بھی انھیں ادب کی معنویت وافاد بیت کو سمجھا سکے؟

 ڈاکٹر صادقہ نواب:  نئے ادیب اور قارئین بھی لکھتے رہیں پڑھتے رہیں اس سے زندگی جینے کا سلیقہ بھی آتا ہے اور بہتر زندگی جینے کا بھی۔ ہمیں تو بہت اچھا سائنس اور ٹکنا لوجی سے مالامال زمانہ ملا ہے۔ اپنی تحریر کو دور دور تک پہنچانے کا موقع ملا ہے۔ نئے نئے موضوعات کے در کھلے ہیں ۔ کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے! وقت تیزی سے گزرجاتا ہے، ٹھہرتا نہیں ، ہوسکتا ہے کہ ہم اسے اپنی تحریروں کے ذریعہ کتابوں کاغذوں میں قید کر لیں… آخر ادب اپنے زمانے کی عکاسی کرتا ہے۔ اور آگے آنے والے زمانے کی رہنمائی بھی ۔ کہا جاتا ہے آئن سٹائن کو بچپن میں شاعری پڑھنے کا بڑا شوق ہوا کرتا تھا۔ آگے چل کر سائنس کی دنیا کی طرف ایسے جھکے کہ شعر و ادب سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایک بڑے سائنس داں کے طور پر مشہور ہو گئے تو ایک بار فرصت کے لمحات میں شاعری کی کوئی کتاب ہاتھ لگی، پڑھنے لگے۔ کچھ لطف نہیں آیا ۔سب مبالغہ آرائی اور جھوٹ لگنے لگا۔ تب انھیں کوفت محسوس ہوئی اور سوچا، کاش وہ لمحے لوٹ آئیں جب شعر اور ا دب کا میرے دل پر اثر تھا

***

Leave a Reply