You are currently viewing صادقہ نواب سحر  کے ناولوں میں تذکیریت

صادقہ نواب سحر  کے ناولوں میں تذکیریت

ڈاکٹر محمد کامران شہزاد

پاکستان

 

صادقہ نواب سحر  کے ناولوں میں تذکیریت

ناول فکشن کی وہ صنف سخن ہے ،جس میں  انسانی زیست  کے حقیقی رنگوں کی قوس قزح  کو سادہ  یاپیچیدہ پلاٹ کے ذریعے پیش کیا جاتا ہے ۔  ناول نگار فن پارے میں قصے کی بنت  کو جاندار بنانے کے لیے  کرداروں کی  تشکیل کرتا ہے ۔ مصنف کا فلسفہ انسانی کے متعلق   تخیل  ،مشاہدہ   اور مطالعہ جتنا   گہرا ہو گا،  اتنے ہی مضبوط  وہ کردار تشکیل  دےپائے گا   کیونکہ  زندہ اور متحرک کردار ہی تخلیق  کی قد وقامت  کا تعین کرتے ہیں ۔  جبکہ  کمزور اور جامد کردار   قصے کی بنت  کے ساتھ ساتھ  تخلیق میں دلچسپی  کے عنصر  کو بھی متاثر کرتے ہیں ۔اردو ناول کی  تاریخ میں  ایسے متعدد کردار  تخلیق کیے گئے ،جو اپنے  شخصی  اور تشبیہاتی  و استعاراتی  خصائص  کی بنیاد  پر نہ صرف   خود زندہ و جاوید ہیں بلکہ   ان ناولوں کو بھی زندہ رکھا ہوا ہے ۔ان میں    مراۃالعروس  کی ” اکبر ی اور اصغری “امراؤ جان  ادا کی “امیرن ” گئودان  کا  ” ہوری”  ٹیڑھی  لکیر  کی ” سمن ” آگ کا دریا کا ”  گوتم ” ،اداس نسلیں کے ” نعیم اور عذرا  ”  جانگلوس  کے ” رحیم داد اور لالی ”  اور بہاؤ کی ” پاروشنی ” وغیرہ   کی کرافٹ نے ہر دور میں  ان ناولوں کی اہمیت کو اجاگر رکھا ہے ۔قاری کو   ان کرداروں  میں کہیں بھی اجنیبت محسوس نہیں ہوتی  اور اس کو یہ کردار  اپنے   شہر ،گلی اور محلوں کے  جیتے جاگتے انسان لگتے ہیں ۔ ایسے کردار کہیں  خواتین ناول نگاروں   کے ناولوں میں  تخلیق ہوئے ہیں ۔ان میں  عصمت چغتائی،قراۃالعین حیدر ،بانو قدسیہ،جیلانی بانو ،واجدہ تبسم ،سلٰمی اعوان  اور ڈاکٹر طاہرہ اقبال  وغیرہ شامل ہیں ۔

اکیسویں صدی  کی خواتین  فکشن نگاروں میں جو  خواتین اپنے تخلیقی بیانیے سے قاری کی توجہ کا مرکز بنیں ۔ان میں  ایک اہم نام’   صادقہ نواب  سحر’ کا ہے،جن کا تعلق ہندوستان کے شہر بمبئی سے ہے ۔انھوں نے اپنی زندگی کا آغاز  شاعری  سے کیالیکن  نثر لکھنے کا رجحان  بھی ان کی سر شت میں تھا اس لیے جلد ہی  فکشن لکھنے کی طرف  ان کی توجہ مبذول ہوئی ۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی ،سیاسی ، خانگی  زندگی  کا عکس عیاں کیا ہے ۔  ان کا پہلا ناول  “کہانی سناؤ کوئی متاشا ” 2008ء میں  شائع ہوا تھا ۔اس ناول  کا پلاٹ    ایک عیسائی لڑکی ” متاشا” کی زندگی  اور اس کے گھر والوں کے گرد  گھومتا ہے ۔ ناول نگار نے مرکزی کردار ” متاشا”  کے بچپن سے لے کر دادی بننے تک کے معاشرتی، خانگی اور ازدواجی زندگی کے مصائب    کو یوں تراشا  ہے کہ یہ کہانی   عورت کے استحصال کی داستان  بن جاتی ہے ۔مشرف عالم ذوقی  ناول کے موضوع کے متعلق لکھتے ہیں :

” کہانی سناؤ کوئی متاشا ‘ دراصل  متاشا کے بکھرے خوابوں کی کہانی ہے ۔ متاشا کی زندگی کا ہر حصہ  ایک کہانی ہے ۔ یہاں پھسلن ہی پھسلن  ہے اور سنبھالنے والا کوئی نہیں “

ناول  میں مر کزی حیثیت  نسوانی کردار ” متاشا کو دی گئی ہے ۔ متاشا کا کردا ر صحیح معنوں میں  زمانے کی گھٹن ،سختیاں اور مصائب برداشت  کرنے   والا کردار ہے ،جو بچپن سے ہی  گھریلو تشدد  کا سامنا کرتی ہے  اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی  ہوس پرست مردوں کی جنسی  بھوک کا  نشانہ بھی بنتی ہے ۔علاوہ ازیں بڑھاپے میں  بیٹے کی موت  سے باطنی طور پر انتشار کا شکار  نظر آتی ہے ۔ گو ناول  متاشا کی   اضطراب بھری زندگی کا عکس ہے لیکن  قصے کو آگے بڑھانے کے لیے 40 کے قریب مرد کردار بھی تشکیل  دئیےگئے ہیں ،جن میں   متاشا کا والد ، بھائی ، شوہر گوتم ،  کے علاوہ ڈاکٹرپربھا کر   اور سمیر   شامل ہیں۔

ناول نگار نے   بیانیے کو قصے کی تکنیک کے ذریعے  بیان کیا ہے ،جس کے سبب آغاز  سے آخر تک متاشا کا کردار ہی متحرک اور جاندار  لگتا ہے  اور  قاری کے ذہن میں اپنا نقش  چھوڑ جاتا ہے  اسی وجہ سے ناول کے مردانہ کردار  اپنی خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اپنی  پہچان نہیں بنا سکے  ہیں ۔  اس سے قبل جتنے بھی محققین اور ناقدین نے اس  ناول  پر مضامین  تحریر کیے ہیں۔  انھوں  نے ناول کے موضوع، پلاٹ ،  اسلوب  اور مرکزی  نسوانی کردار کی کربناک کہانی  ہی قلم بند کی ہے ۔اگر ناول کا غائر مطالعہ کیا جائے تو حقیقت میں   ناول میں  مرد کرداروں   نے ہی قصے کو جاندار بنایا ہے ۔

مرد  کرداروں میں  سب سے پہلا نمائندہ کردار  متاشا کے والد  کا ہے  ،جس کی  شخصیت سےاکڑپن اور غرور   ظاہر ہوتاہے۔یہ کردار معمولی سی بات پر بھی  دنگا و فساد پر اتر آتا ہے ،جس کے سبب  اس پر کیس بھی ہو جاتا  اور اس کی تمام جمع پونجی  کیس پر خرچ ہو جاتی ہے۔ عورت کے متعلق  وہ زمانہ جاہلیت کے تصور کا قائل تھا  ۔ چونکہ وہ عورت ذات سے شدید نفرت کرتا تھا  اس  لیے  اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش  پر تین ماہ  تک  اس کو دیکھتا  تک نہیں  ۔بات بات پر اسے  ڈانٹتا  اور  مارتا پیٹتا  تھا  ۔علاوہ ازیں متاشا کی امی کو  بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ذلیل کرتا تھا ،شراب پی کر اس کو مارتا   تھا ،جب متاشا ہوسٹل میں مقیم ہوتی ہے تو بھرت کے ساتھ مل کر  اپنی ہی بیٹی  کی کردار کشی کرتا  تو پہلے متاشا کی ماں سچ سمجھ کر  متاشا کو تشدد  کا نشانہ  بناتی لیکن بعدازاں   حقیقت کھلنے پر وہ اپنے خاوند سے شکایت کرتی ہے  تو  الٹا اپنی بیوی  پر تشدد کرتا ہے ،جس کے نتیجے میں   متاشا کی ماں  گھر سے نکلنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ مصنفہ نے   اس کردار کی تشکیل  سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج ترقی یافتہ عہد میں بھی ایسے والدین یا ادھیڑ عمر  افراد  موجود ہیں ، جو زمانہ قدیم  کی جہالت والی  سوچ رکھتے ہیں ۔

ناول میں  دوسرا  اہم کردار ڈاکٹر ” پر بھاکر ” کا ہے ،جو متاشا کی دوست  منجو کا بھائی ہے اور میڈیکل کی تعلیم حاصل  کر رہا ہے ۔ڈاکٹر پر بھاکر  ایک ٹانگ  سے معذور ہے  لیکن باہمت  اور دلیر نوجوان ہے ۔ناول نگار نے اس کاتعارف ایسے بااعتماد  انسان کے طور پر کروایا ہے جو  محنت کے بل بوتے  پر کچھ کرنے کی جستجو  رکھتا ہے ۔پربھاکر متاشا  سے پہلی ملاقات میں ہی اپنی  خود اعتمادی کے متعلق مٹھاس  بھری باتیں کرتا ہے ،جن کو سن کر  متاشا  کو اس سے ہمدردی  ہوتی ہے  ۔  اس سے ملنے ہاسٹل  بھی جاتی ہے  اور ڈاکٹر بھی اس سے ملنے  ہاسٹل آ جاتا تھا  وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کی محبت کے بندھن میں بندھ جاتے ہیں ۔ متاشا  موسیٰ کے ذریعے   اپنی امی تک  محبت کی داستان پہنچاتی ہے دوسری طرف  متاشا کے والد نے اس کی شادی  ” بھرت ” کے ساتھ طے  کر دی ہے ،جب متاشا کی امی  اس کے والد سے ڈاکٹر کا ذکر  کرتی ہے  تو وہ شدید غصے میں بھرت کے  ساتھ جا کر  ڈاکٹر پربھاکر کو شدید تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔جس کے سبب ڈاکٹر  پربھاکر متاشا  سے  نہ صرف تعلق منقطع کرتا ہے بلکہ اپنے اوپر ہونے والے تشدد کا ذمہ دار بھی  متاشا کو ہی  قرار دیتا ہے ۔ یہاں یہ کردار  اپنے ا رادوں  میں کمزور لگتا ہے جو پہلی ہی مشکل گھڑی  کو برداشت  نہیں کر سکا ۔ہم اسے ایک ناکام عاشق  کہیں  تو غلط نہ ہو گا ۔

متاشا کا دوسرا عاشق  27  سالہ ” سمیر”  تھا،جو  ایک ملٹری کرنل کا بیٹا تھا  اور جیولوجسٹ  تھا  ۔سمیر ایک اچھی فیملی سے تعلق رکھتا تھا  ۔وہ ببلی کے ذریعے  متاشا کی امی سے شادی  کی بات کرتا ہے  جبکہ  متاشا کو سمیر   میں کوئی دلچسپی نہیں  ،جس کا اظہار  ببلی اور امی کے ساتھ مکالموں میں کہیں مرتبہ کرتی ہے لیکن سمیر   عشق کے ہاتھوں مجبور ہو کر بار بار متاشا کے گھر نہ صرف چکر لگاتا ہے بلکہ  اپنی امی کے ذریعے  رشتہ بھی بجھواتا ہے  لیکن جب سمیر کے والد   کو متاشا اور اس کی والدہ کےماضی کا علم ہوتا ہے  تو  ‘مسز  پیٹرو'(سمیرا کی والدہ) انتہائی  ناگواری سے  کہتی ہے کہ ” کیریکٹر لیس  ماں کی کیریکٹر لیس  بیٹی میرے گھر کی بہو  نہیں بن سکتی ہے ” ۔ سمیر اپنے والدین کی پروا کیے بغیر  متاشا کے گھر  بار بار  شادی کی رضا مندی کو پوچھتا ،دوسری طرف سمیر کے والدین   اس کے عشق کے بھوت کو اتارانے کے لیے کہیں اور منگنی کر دیتے ہیں ۔  اس کے باوجود وہ متاشا کو اپنانے  پر باضد رہا۔سمیر کا کردار  ایک باکردار عاشق  کے طور پر تخلیق کیا گیا ،جو متاشا کے گھر  اس قدر قریب رہ کر بھی  کوئی غیر اخلاقی حرکت  کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ چونکہ  سمیر کا کردار ڈاکٹر پربھاکر کی طرح  متاشا  کے ذہن میں نقش نہیں چھوڑ سکا  اس لیے گھر بدلنے کے بعد   اس کو یاد نہیں آیا ۔

ناول کے مردانہ کرداروں  میں والد کے بعد  سب سے اہم کردار  متاشا کے شوہر ” گوتم شاہ ”  کا ہے ،جو  چوالیس سالہ مال دار شخص ہے ،جس  نے اپنی کمپنی کی اکاؤنٹنٹ  لڑکی سے شادی کر لی  ،جس سے پانچ  بچے پیدا ہوئے لیکن بعد ازاں اس سے سیاسی چقلش کے سبب نبھا نہ ہو سکا  اور علیحدگی  اختیار کر لی ۔   متاشا  گوتم  کی دردبھری داستاں سن کر  متاثر  ہوکر ساتھ دینے کےلیے تیار ہو جاتی ہے ۔اپنے بھائیوں اور والدہ کی مخالفت کے باوجود  وہ اپنے سے دوگنی  عمر کے مرد سے شادی کر لیتی ہے ۔شادی  کے بعد  آغاز میں تو  گوتم متاشا  کا ہر حوالے  سے خیال رکھتا ہے اور متاشا بھی اپنے خاوند کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے یہاں قاری یہ سمجھتا ہے کہ مرکزی کردار کی  مشکلات کم ہو گئی ہیں  لیکن   جس طرح ہی گوتم کو  ماضی میں متاشا پر ہونے والے جنسی تشدد کا علم ہوتا ہے تو اس کا رویہ میں ایک خاص  تناؤ سا آ جاتا ہے ، جو کہ فطری  عمل ہے ،بعدازاں گوتم  گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو جاتا  ،جس کا متاشا ٹرانسپلانٹ کرواتی ہے لیکن کچھ عرصے بعد  موت اسے اچک لیتی ہے ۔اس کی موت کے بعد  متاشا  سوتیلے  بیٹے  کی چالاکیوں کے سبب جائیداد  ،روپے پیسے سے ہاتھ   دھوبیٹھتی ہے تو اسے نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ناول کے  مطالعے سے  گوتم میں  ایک اچھے کردار کی  چند خوبیاں دیکھنے کو ملتی ہیں  لیکن یہ کردار بھی اتنا مضبوط نہیں کہ اسے ہیرو کا درجہ دیا جائے ۔

متاشا  تین بھائیوں  گوپی ، پرشانت اور پرساد کی اکلوتی بہن تھی  لیکن تمام بھائیوں میں سے پرساد نے اس کا  زندگی کے ہر  موڑ پر ساتھ دیا ، وہ محنت کا قائل تھا ۔ اپنی قلیل سی آمدنی میں سے اپنی امی کو  باقاعدگی سے پیسے بھجواتا تھا ۔   متاشا  جب  پرساد کے ساتھ بمبئی  حصول معاش کے لیے آئی تو  پرساد نے ہر طرح بہن کا ساتھ دیا  ۔  متاشا کی گوتم سے ملاقات بھی پرساد  کے ذریعے ہوئی تھی  بعدازاں جب گوتم بیمار ہوتا ہے تو اس کے علاج میں ہر ممکن مدد کرتا نظر آتا ہے ۔   اس کردار کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آتی یعنی یہ جامد کردار ہے لیکن اس کے باوجود قاری کی ہمدردی  ہر دم  اس کے ساتھ  رہتی ہے ۔

ناول کا ایک اہم کردار “موریشور کا کا ” بھی ہے ۔ وہ متاشا کے والد  کا پرانا دوست ہے ۔ متاشا کا داخلہ  جب کلکتہ کالج میں ہوتا ہے ۔تو ہاسٹل رہائش رکھنے سے قبل ” موسیٰ ” کے گھر رہتی ہے۔ جہاں تیسرے دن “کاکا” اس کو شاپنگ کرانے لیے لے جاتا ہے  ،لیکن واپسی پر اپنے گھر لے آتا جہاں وہ تاش کھلنے کے بہانے  ا سے زبردستی جنسی تشدد  کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ متاشا کی مزاحمت اور شور مچانے پر کمرے سے نکل جاتا ہے ۔ ایسے کردار   انسان نما بھیڑیے ہوتے ہیں ۔ معاشرے کے لیے کلنک بن جاتے ہیں ۔ایسے کرداروں کی وجہ سے ہی عورت کا مرد سے اعتبار اٹھ جاتا ہے  اور وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ  محسوس کرتی ہے ۔

“انکت ” گوتم کی پہلی بیوی سے بیٹا تھا ، جس کو رئیس  زادوں  سے دوستی کا شوق تھا تادیر  ان کے ساتھ مٹر گشت کرتا  اور دل کھول کر پیسہ خرچ کرتا تھا ۔وہ کپڑا، جوتی ، گھڑی سب کچھ قیمتی خریدتا تھا  لیکن  مزاجاً باپ سے بالکل مختلف تھا ۔ وہ جوشیلا ،گھمنڈی  اور مغرور نوجوان تھا  ۔ راتوں کو تیز بائک چلا کر لوگوں کو نقصان پہنچتا تو گوتم بجائے سمجھانے کے اس کی طرف داری کرتا اس بے جا طرف داری نے اسےمزید بگاڑ دیا تھا۔ گوتم کی وفات کے بعد    نہ صرف سارا پیسہ  فضول خرچیوں میں صرف کر دیا بلکہ دھوکے سے متاشا کے پا س بھی جو جمع پونجھی  تھی ۔ وہ بھی لے اڑا ۔ ناول نگار نےاس کردار کی  تشکیل  یوں کی  کہ ناول میں اس   کردار کے جلوہ اافروز ہوتے  ہی قاری    اس کی  منفی شخصیت  اور  اکھڑ پن کی بو محسوس کرنے لگتا ہے ۔

 مختصر یہ کہ ان کرداروں کے علاوہ  بھی کئی مرد کردار ناول کے بیانیے کا حصہ ہیں لیکن وہ  ایک لمحہ کے لیے نمودار ہوتے ہیں  اور پھر کہیں آسمان پر پھیلی گرد  میں گم ہو جاتے ہیں ۔مذکورہ بالا تمام کردار ناول کے بیانیے کو آگے بڑھانے میں  معاون تو ثابت ہوئے ہیں لیکن ہم ان میں کسی   بھی کردار کو ہیرو کا درجہ نہیں دے سکتے ،جس نے ناول کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے  متاشا  کی  محرمیوں کا مدوا کیا ہو۔

” جس دن سے ”  مصنفہ کا دوسرا ناول 2016ء میں شائع ہوا ۔ یہ ناول  موضوع کے اعتبار سے   پہلے ناول سے بالکل مختلف ہے ،وہاں  متاشا کی زندگی  کی داستان اس انداز میں قلم بند کی  کہ   اس سطح پر آکر وہ سوانحی ناول لگتا ہے ۔ ” جس دن میں بھی  مرکزی کردار ” جیتو” کی  نفسیاتی کیفیت کی تحلیل نفسی  اس انداز سے کی ہے کہ ناو ل  میں کثیر  الجہات موضوعات کا عکس نظر آتا ہے ۔ مصنفہ نے ناول میں رشتوں کی شکست وریخت  کے علاوہ معاشرتی  خرابیوں پر  طنز کے تیر چلائے ہیں ۔یہاں ناول  کامرکزی کردار  مرد  ہے ۔  بنیادی طور پر ناول میں  نچلے طبقے   کے   ماں باپ  کی آپس کی ناچاقی کے  بعد اختلافات  کے سبب   بچوں  پر نفسیاتی اثرات  اور ان کے  باطن میں جنم لینے والی  بداعتمادی کی فضا  کو  موضوع بنایا گیا ہے  ۔ممتاز فکشن نگار “رتن  سنگھ ”  لکھتے ہیں:

“گٹھے ہوئے واقعات ،چست جملے ، نفسیاتی  اعتبار سے  حقیقی تجزیہ  اور فکری سطح  پر مکمل کہانی  صرف جیتو کی داستان ہی نہیں رہ جاتی  ہے بلکہ یہ داستان  اس نلک کے اُن لاکھوں کروڑوں  گھروں کی بن جاتی ہے ، جہاں زندگی  اسی قسم  کے بد نما حالات  کا شکار ہو کر  اندھیروں میں بھٹکتی  رہ جاتی ہے ۔”

صادقہ نواب سحر  نے  اس ناول میں مرد کردار زیادہ جاندار  تشکیل کیے ہیں ۔ ناول کا مرکزی کردار “جیتو” ہے اس کےعلاوہ کئی مردانہ کردار جیتو  کی شخصیت کی گھتیاں سلجھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔

 ” جیتو”  ناول کا سب  سے  متحرک کردار ہے ۔ مصنفہ نے اس کردار کے ذریعے نچلے طبقے کی زندگی کے کئی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے ۔  جیتو اپنے والدین کے ہمراہ   خوشحال زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے ،جب وہ ساتویں جماعت  میں پہنچتا ہے تو ماں پاب کے مابین نا چاقیاں اور تلخیاں جنم لینے لگتی ہیں  ،جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جیتو کے باپ  کےاپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے  عورتوں سے تعلقات  تھے ۔ بات  بات پر  باپ جیتو کی ماں کو مارتا ہے ،جس کے نتیجے میں  وہ اپنے  بڑے بیٹے  کو لے کر   گھر  چھوڑ کر چلی جاتی ہے   اور جیتو کو باپ کے پاس چھوڑ جاتی ہے ۔  یہاں سے جیتو کی زندگی  کی مشکلات کا آغاز ہوتا ہے  کیونکہ  چند روز بعد  جیتو کا باپ  اپنے سے دس برس چھوٹی  عورت” مینکا” سے شادی کر کے گھر لے آتا ہے ،جس سے جیتو نفرت کرتا ہے   اور اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا اور نہ ہی  اس کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا  کھاتا ہے ۔  اس دوران  وہ ذہنی تذبذب کا شکار رہنے لگتا ہے ،کبھی تو اسے بچپن  کی خوشحال زندگی کی یادیں ستاتی ہیں تو کبھی وہ اپنے آپ کو اذیت دینے کے لیے مرچیں کھا لیتا ہے۔ اسی کشمکش میں اس  کا جی اس دنیا سے   اُچاٹ ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا  کہ تمہارے والدین کہا ں ہیں  تو شدید ذہنی الجھاؤ کا شکار ہو جاتا ہے  اور عجیب سا درد  محسوس کرتا تھا جس کا مدوا کرنے والا کوئی نہیں تھا :

“اُن دنوں  میں نے سیکھا،درد ہوتو درد محسوس  کرو۔ چھٹکارا  پانا ہو تو دبا کر ، بڑھا کر  دیکھ لو ۔۔۔ کس حد تک بڑھ سکتا ہے ۔درد کا مزہ لینا چاہیے ! میں اذیت پسند انسان نہیں ہوں  مگر لوگ درد دبا  کر ،اپنا دھیان ہٹاتے ہیں، ایسا لگتا ۔

تب   محسوس  ہوا  مگر آج  سوچتا ہوں ،اس وقت کسی سے گھل مل  نہیں پاتا تھا ۔ لوگوں سے  کھل  کر آج بھی بات  نہیں کر پاتا ۔ شاہد آج بھی وہ جھجھک  میرے جڑوں  میں موجود ہے ۔

“تیرے مام ڈیڈ کہاں ہیں “؟،اُن دنوں کوئی پوچھتا ۔۔۔تو برا لگتا “

جیتو کو  جہاں  باپ کی دوسری بیوی  مینکا سے چڑتھی وہیں مینکا بھی جیتو  سے  ہمیشہ   نفرت کرتی تھی ۔ وہ ہمیشہ جیتو کی پسند کا کھانا نہیں بناتی تھی ۔سکول کے ٹفن میں باسی دال ڈال کر دے دیتی ،جس سے جیتو کو  اپنے کمتر   ہونے کا احساس ہوتا  اور غصہ میں آکر بیس پچیس تلی ہوئی مرچیں کھا جاتا  ،جس کے نتیجے میں  اس کے سگی ماں بھی ابنارمل  کہتی  تو   وہ دل میں گہری چوٹ محسوس کرتا تھا ۔

جیتو جب دسویں جماعت کا طالب علم تھا تو  مینکا  کے بطن سے ایک بہن نے جنم لیا ۔تو وہ یہ محسوس کر کے وحشی ہو جاتا ہے کہ جیسے اس کی  جگہ اس کی  سوتیلی بہن نے لے لی ہے   ۔حالات اور ذہنی تذبذب نے اسے یہ سوچنے پر  مجبور کر دیا کہ ” کاش  جس طرح  دوسری شادی کر سکتے ہیں  ویسے  دوسرے ماں باپ  بھی چن سکتے “

ناول میں ایسے متعدد اشارے  ملتے ہیں کہ ایک نابلد بچہ  کے  ذہن کا کینوس کتنا وسیع ہوتا ہے ،جو یہ جانتا ہے کہ گھر   کی رونق  ماں پاپ کے ہنسی خوشی مل جل کر زندگی بسر کرنے میں  ہے ،جب جیتو  کا باپ اسے  ذہنی اور جسمانی ا ذیت دیتا  تو  وہ سوچتا کہ پتہ نہیں  لوگ دوسری شادی کیسے کر لیتے ہیں ۔  اپنے ماں باپ اور ساحل کے والدین کی آپس میں رنجشوں اور تلخیوں  کو محسوس کر کے اسےشادی کے لفظ سے ہی نفرت ہو گئی  ،جس کا اندازہ  اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب جیتو کے باپ نے مینا کے ساتھ تیسری شادی کی تو جیتو  شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو کر  ایک طرف شراب نوشی کرنے لگا تودوسری طرف اپنے آپ کو چاقو بھی مار لیا ۔

جیتو معاشرتی پابندیوں کا قائل نہیں تھا  وہ ایک آزاد منش انسان کی طرح زندگی گزرانا چاہتا تھا  لیکن باپ نے مینکا کے رویہ کے سبب  اپنے بھائی  کے گھر پونا بجھوا دیا تو وہاں پر بھی جیتو  گھٹن محسوس کرنے لگا  کیونکہ وہاں  صبح سویرے اٹھ کر جھاڑو لگانا پڑتا او برتن بھی دھونا پڑتے علاوہ ازیں  باہر نکلنے پر پابندی  ہوتی تھی  یہاں   تک  کہ اس کے بھائی نے جیتو پر چوری کا الزام  لگا  کر سزا دی تو  شدید اضطرابی کیفیت میں اس کا دل چاہا رہا کہ  وہ سب کو تباہ کر دے۔ یہاں قاری  کو جیتو کی نفسیات کا ادراک  باآسانی ہوتا ہے ،جو سوچ رہاتھا کہ  والدین  الگ ہوتے وقت اپنے بچوں کے متعلق  کیوں نہیں سوچتے  ہیں ۔ناول نگار  نے  ان والدین پر کڑا طنز کیا ہے ،جو  اپنی اپنی انا کی بھنٹ بچوں کو چڑھا دیتے ہیں ۔

 کائنات میں ماں وہ ہستی ہے ،جس کی پیشانی پر  نور،الفاظ میں محبت  اور پاؤں تلے جنت ہوتی ہے ۔ لیکن ہمارے سماج میں  چند مائیں ایسی بھی ہیں ، جو گھریلو حالات کی تنگی کے سبب    اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے  لیے ہر  مشکل کا دلیری سے سامنا  کرتی ہیں تو  دوسری طرف کچھ مائیں اپنی جنسی خواشات کی  تکمیل کے لیے   اپنا آپ بھی داغ دار کر لیتی ہیں ۔ ناول میں جیتو کی ماں  ،شوہر  کا غیر محرم عورتوں سے تعلقات دیکھ کر گھر  چھوڑ کر چودھری کے گھر   رہنا شروع کر دیتی ہے ،جس سے جیتو اندر ہی اندر کڑتا رہتا اور سوچتا ہے   کہ ماں کو بھی  اپنے  بچوں کا خیال نہیں ہے ۔وہ ماں باپ کے جھگڑے میں ماں کو زیادہ قصور وار ٹھہراتا  تھا ۔ناول میں جیتو کی ماں کا رویہ با  لکل  غیر فطری ہے ،کیونکہ کسی بھی ماں  کا اپنا کردار جیسا بھی ہو وہ اپنے بچوں  کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی ۔ گو جیتو کی ماں  خاوند کی مار اور ظلم سہتی  ہے لیکن قاری  ماں کے کردار سے ہمدردی نہیں کرتا کیونکہ  اس نے بچوں اور گھر سے ذیادہ اپنی جنسی خواہشات  کی تکمیل کو ترجیح دی ہے ۔اسی وجہ سے  جیتو اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے  اور ماں کے بجائے باپ کے ساتھ رہتا ہے ۔

والدین کی  تلخیوں کے سبب بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے  اور اس وجہ  سے بچے پڑھائی پر توجہ نہیں دیتے  ہیں ۔ جیتو بھی ایسا ہی کردار ہے  جو ماں باپ  کی محبت اور لارڈ پیار   نہ ملنے کے سبب ماضی کی الجھنوں کا شکار  رہتا ،جس کے سبب وہ امتحان میں اچھے نمبر نہیں لے سکا تو باپ  کی ڈانٹ پر سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ  اچھے نمبر نہ آنے کی اصل وجہ  اس کے ماں باپ ہیں ۔ جیتو نے اس کے باوجود ہمت نہیں ہاری   اور پڑھائی کے ساتھ  مختلف فرموں اور کال سنٹرز میں جاب   کرتا رہا ، یہاں بھی رشتوں سے زیادہ مال و دولت کو ترجیح دی جاتی تھی ،جس سے جیتو کے سامنے سماجی بے حسی کا  نقشہ خوب کھنچا ہے ۔ یہاں جیتو  مزید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو کر   ڈاکٹر سائرہ (سائیکولوجسٹ) کے پاس علاج کے لیے جاتا ہے   ۔جیتو اور ڈاکٹر سائرہ کے مابین ان مکالموں  سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ جیتو ذہنی طور پر منتشر ہو چکا ہے :

“تم میرا علاج  کرو گئی ؟ میں نے پوچھا

علاج ؟تم بیمار نہیں ہو

کاونسلنگ کرو گئی “

نہیں  اس کی بھی ضرورت نہیں “

جیتو کی زندگی میں  کئی لڑکیاں آئیں ،جن میں شلپی، سشما،اور مہک وغیرہ شامل ہیں ۔ان سے اظہار محبت بھی ہوا لیکن  محبت  میں ناکامی کے سبب اسے ساری لڑکیاں ایک جیسی لگتی ہیں ۔ جب وہ وکیل بن گیا  تو مہک جو پہلے اس کے جذبات کے ساتھ کھیلتی رہی تھی  ۔اس کی زندگی میں واپسی کا  راستہ تلاش کر رہی تھی ۔  جیتو ایک بار پھر الجھ کر رہ گیا تھا لیکن  زندگی میں اتنی ٹھو کریں کھانے کے بعد سنبھل  چکا  تھا ااور پہلی بار بڑے اعتماد  سے انکار کر دیا ۔

جیتو کے علاوہ ناول میں  باپ کا کردار  متحرک  ہے ،جو  بظاہر ایک ظالم  اور آوارہ قسم کا انسان  ہے لیکن جیتو کے لیے  دل کے کسی  کونے میں نرم گوشہ بھی رکھتا ہے ۔  لیکن  وہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے پہلے ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے  بعدازاں ان سے شادی رچا لیتا ہے ۔ پورے ناول میں وہ اپنی دوسری اور تیسری بیوی کے سبب بیٹے کو اذیت پہنچاتا ہے ۔جس کے سبب جیتو کو  اپنے باپ سے  شدید نفرت ہوجاتی ہے ۔ مصنفہ نے باپ کے مزاج کو اس انناز(؟) سے پینٹ کیا ہے کہ  وہ عہد حاضر میں ایسے گھرانوں کےلیے مثال بن جاتا ہے جن کے بچے  باپ کی عدم توجہ اور جنسی بےراہ روی کے سبب در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔

ناول میں تیسرا اہم کردار “چودھری ” کا ہے ،جو  پانچ بچوں کا باپ ہے  اور جس کی دو بچیوں کی شادی ہو چکی ہے ۔ جیتو کی ماں  اپنے خاوند سے الگ ہو کر چودھری سے رشتہ استوار کر لیتی ہے ،جو جیتو کو  انتہائی ناگوار گزرتا ہے ۔ غور کیا جائے تو جیتو کے باپ اور چودھری  میں متعدد مماثلیتں پائی جاتی ہیں ، جیتو کا باپ بھی  جنسی خواشاہت کو پورا کرنے لیے غیر محرم عورتوں سے  تعلق رکھتا  تھا اور چودھری بھی اپنی جنسی ہوس کو پورا کر کے لیے جیتو کی ماں کو پاس رکھے ہوئے ہے ۔ قاری  دوران مطالعہ  ان دونوں کرداروں سے   بے زاری محسوس کرتا ہے  کیونکہ دنوں نے اپنی  غیر اخلاقی خصلتوں کے باعث گھر کا سکون  برباد کر دیا تھا  ۔

جیتو کا بڑا بھائی ” نکھل ” بھی   مخفی انداز میں کہانی کا حصہ ہے لیکن  کہانی کو آگے بڑھانے میں بہت کم کردار ہے(چیک کریں جملہ) ۔وہ بھی ماں باپ کے علاحدہ ہونے کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار  ہو جاتا ہے لیکن وہ جیتو کی طرح ظاہر نہیں کرتا ۔ وہ ماں کے ساتھ  رہتا ہے اور باپ سے  شدید نفرت   کرتا ہے ،  وہ باپ کو اپنی شادی پر(چیک کرو) بلاتا کیونکہ اس کی نظر میں  باپ ایک ظالم انسان ہے ۔

ناول میں ایک کردار ” ساحل کا بھی ہے ،جو   جیتو کا سی ۔بی ڈی  بیلاپور  کے گھر میں رہتے   ہوئے دوست بنا۔ جس کا والد وفات پا گیا ہے  پورے ناول میں ساحل ہی وہ کردار ہے ،جس  کے ساتھ رہ کر جیتو سکون محسوس کرتا ہے  ۔ وہ ہر دم  جیتو کے باطن میں پلنے والی محرمیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے  کیونکہ وہ خود بھی  ماں باپ کی بناوٹی محبت کی بھینٹ   چڑ گیا تھا ۔اس لیے جیتو کا  کرب اپنے اندر محسوس  کرتا تھا ۔

 ان کرداروں کے علاوہ متعدد مردانہ کردار ہیں جن کا تعارف تو بھر پور کروایا  گیا لیکن ایک جھلک کے بعد   نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں ۔مختصر یہ ہے کہ ” کہانی کوئی سناؤ متاشا” کی طرح  “جس دن سے ” میں کہانی کا پلاٹ مرکزی کردار کے گرد ہی تشکیل دیا گیا ہے ۔ دونوں ناولوں  کے مطالعہ سے  اندازہ لگایا جا سکتا ہے  مرکزی کردار وں  کی نفسیاتی کیفیت   کی تحلیلِ نفسی  یوں کی ہے  کہ ناول کے کئی اہم کردار برسات کے بادلوں کے ساتھ   کہیں کھو گئے ہیں  ۔

***

Leave a Reply