شیبا کوثر
آرہ،بہار
(کہانی)
صحیح راستہ
ہا ئے شہرین کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔۔؟”ثانیہ کی آواز سے وہ چونکی۔ اور اسکے ہاتھ سے موبائل فون پھسل کر بیڈ پر گر پڑا ۔
وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پا تے ہوئے اپنے موبائل فون کا سو یچ اف کیا ۔
اور اشارہ کرتے ہوئے ثانیہ کو اپنے بیڈ پر بیٹھنے کی جگہ دی ۔
“سنا ہے تمہاری طبیعت نا ساز ہے” ۔ثانیہ نے بیٹھتے ہوئے شہرین سے سوال کیا ۔
“ہاں یار وہ میری کچھ طبیعت خراب ہو گئی تھی ،نقاہت ،تھکاوٹ ۔اور گھبراہٹ کے ملے جلے اثرات اسکی آواز میں نمایاں تھے ۔
۔”اب کیسی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟”ثانیہ بولی ۔
“ہاں یار اب میں ٹھیک ہوں ،لیکن اسکے جواب میں افسردگی تھی ۔ شہرین اپنی نظریں چراتے ہوئے جھجھکتے ہوئے بولی ۔
“جھوٹ ۔۔۔۔۔۔؟”ثانیہ غصّے سے لال چہرہ لئے اٹھ کھڑی ہو گئی ۔
اور شہرین اسکے غصّےسے بھرے چہرے کو حیرت زدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی
“تم کیا سمجھتی ہو شہرین خود کو ،کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا ۔”ثانیہ شہرین کو گھورتے ہوئے بولی ۔
جبکہ شہرین اس سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی ۔
“کل تم کس لڑکے کے ساتھ اکیلی ریسٹورینٹ میں بیٹھی تھی ۔
“۔ سچ بتانا کیونکہ تمہارے جھوٹ سے پردہ فاش ہو چکا ہے “۔
“وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مشاہد ہمدانی ۔”وہ ہمارے فلیٹ سے چند گھر کے فاصلے پر رہتا ہے ۔وہ مجھے بے انتہا چاہتا ہے اور مجھ سے شدید محبّت کرتا ہے ۔اس نے اپنے ہاتھوں سے ثانیہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔
“ہون ،محبّت “۔یہ کہکر ثانیہ نے شہرین کا ہاتھ جھٹک دیا ۔
“جو کام چھپ کر کیا جاتا ہے وہ صیح نہیں ہوتا،اب رہا سوال تمہاری محبّت کا۔۔۔۔؟ شہرین بی بی وہ تم سے محبّت نہیں صرف تم سے اپنا وقت گزارتا ہے ۔۔۔۔۔۔اگر وہ تم سے محبّت کرتا تو تمہیں اپنوں سے جھوٹ بولنے پر کبھی مجبور نہیں کرتا ۔
“نہیں ثانیہ وہ مجھ سے صرف مجھ محبّت کرتا ہے ۔اور ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے ۔
مشاہد ہمدانی سے ہماری دوستی فیس بک کے ذریعہ ہوئی ،ہمارے فیس بک گروپ میں وہ بھی شامل تھا اور ہمارے ہر میسج پر اپنی راۓ دیتا تھا ۔جس کے ذریعہ میں اسکی شخصیت میں ایک اچّھا اور سلجھا ہوا انسان دیکھنے لگی ۔لیکن جب پہلی بار میں نے اس سے اسکے شہر مراد آباد کے بارے میں کچھ سوال کئے تو اس نے مجھ سے کہا کہ دراصل وہ دہلی کا ہی رہنے والا ہے مگر اس کے فیس بک اکاونٹ میں اسکا پتہ مراد آباد کا دیا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ اسنے دلیل دے کر مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں نے دوستوں سے بچنے کی خاطر ایسا کیا ہے ۔
میں نے اسکی باتوں پر یقین کر لیا ۔ساتھ ساتھ مجھے دل میں ایک عجیب سی خوشی بھی ہونے لگی ۔دھیرے دھیرے ہملوگ ایک اچّھے دوست بن گےء اور پھر یہ دوستی کب محبّت میں تبدیل ہو گئی مجھے ہی نہیں چلا اور آج سچ یہ ہے کہ وہ مجھے بے انتہا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
یہ تمہاری خوشفہمی ہے ،تم سرا سر خواب کی دنیا میں جی رہی ہو دوست ،حقیقت سے بہت دور ہو ۔اسکی اصلیت مجھ پر واضح ہے ۔میں اسکے اصلی چہرے کو پہچانتی ہوں ۔اور اسکی وجہ تمہارے جیسی ہی میری ایک نادان دوست ہے جو مسٹر مشاہد ہمدانی کی محبّت کے پر فریب جال میں پھنس کر خود کو تباہ و برباد کر چکی ہے ۔جسکی ہمراز میں اور صرف میں ہوں ۔لیکن اسکے دل کے زخم کے اثرات ابھی تک اسکی زندگی میں نمایاں ہے اور اس غم سے اب تک اسکو نجات نہیں مل پائی ہے ۔آج بھی جب اسکا غم اسکے ضبط سے باہر ہوتا ہے تو وہ گھنٹوں ہمارے گھر آکر اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرتی ہے اور اپنی غلطی کا اطراف کرتی ہے ۔اس لئے میں نے اپنی دوستی کا فرض سمجھتے ہوئے تمہیں وقت رہتے آگاہ کر رہی ہوں ۔
“نہیں نہیں بلکل ایسا نہیں ہو سکتا ہے تم غلط کہ رہی ہو ،جھوٹ ہے یہ سب ،بلکل جھوٹ ۔۔۔۔ثانیہ کہ دو یہ ساری باتیں جھوٹ ہے ۔
ٹھیک ہے اگر اسے تم سے محبّت ہے تو کہو اس سے کہ رشتے کے لئے اپنے گھر والوں کو بھیجے اور پھر دیکھنا کیا ہوتا ہے ۔۔۔۔؟”یہ کہکر ثانیہ رکی نہیں ،اس کے گھر سے نکلتی چلی گئی ۔
“کئی دن گزر چکے تھے اس بات کو لیکر لیکن شہرین کا کچھ پتہ نہیں تھا ۔اب ثانیہ کو گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی ۔وہ شہرین کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی کیونکہ وہ اسکی سب سے پیاری بھولی سی معصوم دوست تھی ۔
تبھی اچانک کھٹآ ک کی آواز کے ساتھ شہرین نے ثانیہ کے کمرے کا دروازہ کھول دیا ۔اور روتی بلکتی ہوئی ثانیہ کے گلے سے جا لگی ۔مجھے معاف کر دو اسنے ہاتھ جوڑتے ہوئے گلوگیر لہجے میں ثانیہ سے کہا ۔
“واقعی اسے مجھ سے محبّت نہیں تھی ۔جب میں نے تمہاری کہی بات اس سے کہی تو اس نے جانتی ہو مجھے کیا جواب دیا ۔۔۔۔؟
“اس نے کہا ۔۔۔۔۔۔ابھی شادی میں کیسے کر سکتا ہوں تم سے ،۔۔۔؟میں بغیر سیٹل ہوئے کچھ نہیں کر سکتا ۔ اور شادی تو بہت دور کی بات ہے ۔اپنی محبّت کے بیچ سے شادی جیسے لفظوں کو نکال پھینکو اور زندگی کو بھر پور انجواے کرو ،” اتنا کہ کر شہرین چپ سی ہو گئی ۔مانو جیسے اسکے پاس کہنے کے لئے کوئی الفاظ نہیں ہوں ۔
“میں جانتی ہوں شہرین !کیونکہ جو انسان اپنے گھر والوں یا دنیا سے چھپ کر کوئی کام کرتا ہے وہ سچا نہیں ہوتا ۔تم بخوبی جانتی ہو کہ ہم لڑکیوں کی عزت کانچ کے مانند ہوتی ہیں ۔اس کی حفاظت کرنا ہمارا اپنا فرض ہے اوراگر غلطی سے بھی وہ کانچ ہاتھ سے چھو ٹ جاۓ تو پھر ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے ۔اور یہ ہر لڑکی کا فرض ھیکہ وہ اپنے ساتھ دوسرے کو بھی صہیح راستہ دکھاتی چلے “۔یہ کہکر ثانیہ چپ ہو گئی ۔
“تم سچ کہتی ہو ثانیہ !اگر آج تم نا ہوتی تو میں خود کو اپنی نا سمجھی بر باد کر چکی ہوتی ،اتنا کہ کر شہرین نے ثانیہ کو گلے سے لگا لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
sheebakausar35@gmail.com
۔