You are currently viewing صوفیانہ ناول : تلک الایّام

صوفیانہ ناول : تلک الایّام

ڈاکٹر ذاکر فیضی

صوفیانہ ناول : تلک الایّام

         کہا جانے لگا ہے کہ اکیسویں صدی فکشن کی صدی ہوگی، یا ہے۔ یہ بات کتنی درست ہے یا ہوگی اس بات سے قطع نظر اگر ہم اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں کا جائزہ لیں تواردو ناول کے حوالے سے مایوسی نہیں ہوتی۔ بہت سے لکھنے والوں نے اہم ناول لکھے ہیں ، جن کا ذکر یہاں مقصود نہیں  ۔ ان ناول نگاروںمیں ایک بہت اہم نام دوحہ قطر انعام سے نوازے جا چکے نورالحسنین کا ہے۔ان کی پیدائش اورنگ آباد(دکن )  میں 19مارچ 1950کو  ہوئی۔ وہ  علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔خانقاہی سلسلے نقشبندی کے چشم و چراغ ہیں۔  ان کے والدنقشبندی نورالوحید  ( مرحوم ) کا تعلق جاگیردار آصف جاہی سلطنت سے تھا۔ان کی والدہ غوثیہ بیگم ( مرحوم)  بھی راجہ پمپری جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے مزاج و اخلاق سے یہ ظاہر بھی ہو جاتا ہے کہ وہ اعلی خاندان سے ہیں۔ان کا گھرانہ صوفیوں کا گھرانہ تھا ۔ وہ خود بھی صوفی صفت انسان ہیں ۔ اس اعتبار سے ان کی تخلیقات میں اس طرح کا ماحول آجانا فطری بھی ہے۔نور الحسنین نے ایم اے ( اردو ) تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ وہ پیشے کے لحاظ سے  سینئر ریڈیو اناؤسر تھے۔انھوں نے چار سال تک اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی حیثیت سے گیان وانی ، اورنگ آباد میں بھی کام کیا ۔

       نورالحسنین کو بہت سے انعام و اعزاز ت  سے نوازاہ جا چکا  ہے۔جس میں سب سے اہم  بزمِ فروغِ ادب کا ’ دوہا قطر عالمی ‘ ایوارڈ ہے، جو انھیں 2020میں دیا گیا۔ ان کی شخصیت اور فن پر کئی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ کئی تخلیقات  یونیورسٹیز میں نصاب کا حصّہ بن چکی ہیں۔جو  اپنے آپ میں خود بہت بڑا اعزاز ہے۔انھوں نے بچّوں کے لیے بھی لکھا ہے ۔  بچّوں کی تین کہانیوں کی کتابیں’’ گڈّو میاں‘‘ (1988)،’’ چوتھا شہزادہ‘‘ (2009)اور بچوّں کے ڈراموں کی کتاب  ’’حضور کا اقبال بلند رہے‘‘  (2008)میں شائع ہو چکی ہیں۔  آپ تنقید کے میدان کے بھی شہسوار ہیں۔اس میدان میں انھو نے چھ کتابیں لکھی ہیں ۔

      فکشن کی بات کریں تو اب تک اُن کے چار افسانوی مجموعے ہمارے سامنے آچکے ہیں۔  سمٹتے دائرے  1985، مور رقص اور تماشائی  1988، گڑھی میں اترتی شام1999 اور   فقظ بیان تک 2012  میں شائع ہوئے۔جہاں تک ناولوں کا معاملہ ہے آپ کے چار ناول ہم تک پہنچ چکے ہیں ۔سب سے پہلا ناول ’’ آہنکار‘‘ 2005 میں آیا دوسرا ’’ ایوانوں کے خوابیدہ چراغ‘2013میں ، تیسرا ناول  ’’چاند ہم سے باتیں کرتا ہے ‘‘ 2015 میں اور اب تک کا آخری ناول ’’ تلک ّالایام‘‘  2018میں شائع ہوا۔

       ’’ تلک الایّام ‘‘ عربی لفظ ہے ، جس کے معنی ہیں ’ وہ دن‘ ۔ ناول نگار نے ناول میں  گزرے ہوئے دن کے ساتھ موجودہ زمانے کا بھی ذکر کیا ہے۔یہ ناول اپنے انداز کا منفرد ناول ہے ، جس کے ذریعے ناول نگار ہمیں بیک وقت حال او رماضی دونوں کی خوب سیر کراتا ہے۔ اور اس انداز سے کراتا ہے کہ ہم کبھی تصوّف کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں اور کھی عہدِ حاضر کی تلخ سر زمین پر گھومتے نظر آتے ہیں۔اس ناول کو کچھ لوگ تاریخی ناول قرار دے سکتے ہیں ، لیکن  میرے نزیک یہ صوفیانہ مزاج کا ناول ہے۔   نور الحسنین جب جب ناول کے مرکزی کردار حسین کو ماضی کی دنیا میں لے جاتے ہیں تب تب  قاری بھی عجیب سے روحانیت  میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔

      ناول  نگارنے جس عمدہ طریقے سے ناول میں موجود واقعات اور  ان کے کرداروں کو پیش کیا ہے ،و ہ ایک بے حد مشکل اور صبر آزماکام تھا۔ایک ایسی تہذیب جسے قاری نے دیکھانہیں ہو یا کسی بھی طرح کی واقفیت نہ رکھتا ،اُس کے سامنے اس انداز سے رکھ دینا جیسے پڑھنے والا خود اسی کا حصّہ ہو ، یہ بہت بڑی بات ہے۔اس ناول کی اہم خوبی یہ ہے کہ ماضی اور حال کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا گیا ہے۔ قاری بہت آسانی سے حال سے ماضی میں اور ماضی سے حال میں پہنچ جاتا ہے ۔ پڑھنے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس تبادلۂ ذہن  میں کہیں ابہام بھی نہیں ہے۔ کسی طرح کی الجھن محسوس نہیں ہوتی ۔ قاری سمجھ جاتا ہے کہ اب ہم کہاں ہیں۔یہ آسان کام نہیں تھا ،جسے نورالحسنین نے بے حد فنکارانہ چابکدستی سے نبھایا ہے۔جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

         مذکورہ ناول میں جہاں جہاں ناول کا مرکزی کردار حسین ماضی کی وادیوں میں پہنچتا ہے ، وہاں کے پورے ماحول میں روحانیت کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ماضی کے جتنے بھی کردار ناول میں دکھائے گئے ہیں ان کا تعلق خانقاہوں سے رہا ہے ۔ جس میں موجود بزرُگوں پر روحانیت طاری رہتی ہے۔’ اللہ ہو‘ کی گردان کے ساتھ اللہ کا نور برستا ہوا محسوس ہوتا ہے۔قاری خود کو صوفیانہ ماحول میں پاتا ہے۔

            ناول داستانوی انداز میں آگے بڑھتا ہے۔ اس داستان میں ہمارے زمانے کی تلخ سچائیاں بھی  سامنے آتی ہیں۔ان دنوں ہندوستان میں مسلمانوں کی جو حالتِ زار ہے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ دنیا میں مسلمانوں کا  جوحشر ہے اس کو پیش کیا گیاہے۔

         ناول میں ہمیں نظام ِ حیدرآباد کی حکومت ختم ہونے کا بھی ذکر ملتاہے اور اس وقت کے وہاں کے مسلمانوں پر کیا گزری ، اس پر بھی بحث کی گئی ہے۔جاگیرداروں ، زمینداروں اور رئیسوں کی شان و شوکت کا بھی تذکرہ ہے۔یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں ہندو مسلم میں کیا خوب بھائی چارہ تھا اور لوگوں کے دل معصوم ہوتے تھے۔ مزاج میں رحم دلی تھی۔

         ناول کا ہیرو حسین ادیب ہے۔کئی ناولوں کا خالق۔ان دنوں وہ اپنے ادھورے ناول کو پورا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ایک روز خواب میں اسے کوئی دوسری دنیا میں لے جاتا ہے۔کچھ دِن کے بعد اس کی دسترس میں اپنے بزرگوں کے کچھ کاغذات، ڈائری اور خطوط وغیرہ ہاتھ آ جاتے ہیں۔ وہ ان دستاویز کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے اجداد کے بارے میں معلومات  حاصل کرنے اور ان کے کارناموں کے بارے میں جاننے کی خواہش  میں  اپنی  زندگی کا چین و سکون کھو دیتا ہے۔ حسین کے مطابق وہ جن خوابوں کی دنیا میں چلا جا تا ہے، وہ دراصل حقیقت میں اس کے بزرگوار ہیں۔ جو کبھی اسی دنیا میں چلتے پھرتے حقیقی انسان تھے۔ حسین عجیب سی زندگی جینے لگتا ہے۔ ہمیشہ کھویا کھویا ، خوابیدہ کیفیت کا شکار رہتا ہے، جس سے اس کے گھر والے پریشان رہتے ہیں۔حسین کی یہ حالت دیکھ کر اس کی بیوی یاسمین اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتی ہے جہاں ڈاکٹر اس کو شائزوفرونیا کا مریض قرار دیتے ہیں ، ا س مرض کا شکار انسان خوابوں کی باتوں کو سچ تسلیم کر لیتا ہے اور حقیقی دنیا سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ لیکن حسین اپنے آپ کو مریض نہیں مانتا ۔ اس بات پر بضد رہتا ہے کہ جو کچھ وہ دیکھتا ہے وہ سچ میں ہیں اور اس کو دوسری دنیا میں لے جاتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ اس کے اجداد ہیں۔ظاہر ہے کہ اس کی بیوی اور بچّے اس بات کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور تب ایک تکرار کا ماحول قائم ہو جاتا ہے ۔ ناول کے خاندان کے افراد کے لیے بھی اور خود قاری کے لیے بھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ناول کا یہی وہ دلچسپ پہلو ہے جو قاری کو باندھے رکھتا ہے اور اس بات پر اکساتا رہتا ہے کہ جانیں آگے کیا ہوتا ہے؟

         قاری ایسی دنیا بھی دیکھ لیتا ہے جسے روحانی دنیا کہتے ہیں جہاں پہنچنا انسان کے بس کاکام نہیں ہے۔ یا کم از کم عام انسان کے بس کا تو بالکل بھی نہیں ہے۔قاری جب حسین کے ساتھ روحانی سفر پر روانہ ہوتا ہے تو حسیں کی طرح اس کا بھی تعلق دنیا سے کچھ دیر کے لئے ہی سہی ختم ہو جاتا ہے اور اپنے زمانے کی تلخیوں ، ناانصافیوں ، ظلم و زیادتیوں کو بھول جاتا ہے۔

        خواب اور حقیقت کے پنڈولم پر جھولتا یہ ناول عجیب و غریب خیالات و واقعات کو ہمارے سامنے  فنکارانہ انداز میں پیش کرتا ہے۔خواب اور حقیقت کی بحث کو ناول میں کس طرح پیش کیا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے ناول کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

          ’’ یاسمین تمہارے جواب کے لیے میں نے کتاب  ’ مقدمہ ابنِ خلدون  ‘

            کا مطالعہ کیا ہے۔ جو خواب کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے ۔ اور اُسے نبوت کا

            ۴۶واں حصہ قرار دیتا ہے۔اب رہی بات کہ خواب کی حقیقت کیا ہے ؟

            تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفسِ نا طقہ اپنی روحانی ذات میں کسی کسی وقت

           کسی واقعہ کی تصویر کا مطالعہ کر لیتا ہے۔کیونکہ وہ جب روحانی حالت میں

             ہوتا ہے تو اُس میں بھی واقعات بالفعل موجود ہوتے ہیں اور دیگر روحانی

              ذاتوں کی طرح چھُپ جاتے ہیں ۔ نفسِ ناطقہ کو روحانیت کا کمال اُس

               وقت حاصل ہے جب وہ جسمانی مادوں اور بدنی حواس سے تعلقات

              چھوڑ دیتا ہے۔یہ قطعی تعلق اُسے سونے کی حالت میں کچھ دیر کے لیے

               حاصل ہوتا ہے۔اس لیے وہ اس پُر سعادت لمحے میں مستقبل کے چند

                   واقعات کا علم حاصل کر لیتا ہے۔‘‘         ( صفحہ : 78)

           ناول کی زبان سادہ سلیس اور رواں ہے، جو پڑھنے والے کو ابتدا سے لے کر آخر تک باندھے رکھنے میں کامیاب ہے۔ناول میں اس کی گرفت کہیں بھی کمزور نہیں ہوتی ہے۔

 کرداروں کے درمیان کی گفتگو فطری معلوم ہوتی ہے۔ کسی بھی تخلیق کار کے لیے کرداروں سے

ایسے مکالمے ادا کراد ینا جو ایک دم حقیقی معلوم ہوں ، آسان کام نہیں ہیں۔ اس کے لیے وسیع مطالعہ، عمیق مشاہدہ اور تخیل کی پرواز بلند  ہونی چاہیے ، جو نورالحسنین کے پاس ہے۔ یہ مکالمے ملاحظہ فرمائیں:

             میڈیکل کالج کی کینٹین میں بیٹھے ریحان اور شوبھا کافی کی چُسکیاں

             لے رہے تھے اور ریحان محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے

             ہی شوبھا کی نظریں اُس سے ٹکرائیں ، اُ کی زبان سے نکلا ’’ کسی کو کھاتے

              پیتے وقت اس طرح دیکھنا بدتمیزی کہلاتا ہے۔‘‘

             ’’ جی ہاں ۔۔۔۔‘‘ ریحان نے شریر نظروں سے اُ سکی طرف دیکھتے ہوئے

             کہنا شروع کیا ، ’’ لیکن کسی کا کھاتے پیتے وقت چہرا مضحکہ خیز بننے لگے تو

               اُس سے لطف اندوز تو ہو سکتے ہیں۔‘‘

                ’’ میں پیالی پھینک کر مار دوں گی۔‘‘ اُس نے پیالی کو جنبش دی۔

                 ’’ ارے ارے ۔۔۔۔۔ ہوش میں آؤ۔۔۔بدنامی ہوگی۔تُم  میڈیکل

                  کی اسٹوڈنٹ ہو ، لوگ جان جائیں گے کہ تمھیں پاگل پن کے دورے

                   پڑتے ہیں۔‘‘

             ’’ ریحان ۔۔۔ میں تمہارا منہ نوچ لوں گی۔‘‘ وہ دانت پیسنے لگی۔

 (صفحہ : 159)

          ناول اگر چہ ماضی کی وادیوںکی سیر کراتا ہے ۔ اس کے باوجود ناول نگار ہمارے عہد کی  سماجی و ،معاشراتی اور سیاسی سرگرمیوں کی اطلاع بھی ہمیں دیتا رہتا ہے ۔ ناول نگار  داستانوی آسمانوں میں اڑتا ہوا ایک دم ہی ہمارے عہد کی تلخ زمین اور کھردری مٹّی پر اُتر آتا ہے۔ہندوستان کے آج کے زمانے کے سیاسی حالات دکھاتے ہوئے نور الحسنین فرماتے ہیں:

            ’’ اُ س نے میری طرف گھور کر دیکھا ، ’’ میں بھی کہتی ہوں یہ الیکشن

              پاٹل ہی جیتے گا ۔ ہمارے شہر میں اکثر یت جو ہندوؤں کی ہے۔‘‘

            ’’ عقلمند اس الیکشن میں چار نیشنل پارٹیوں کے امیدوارلڑ رہے ہیں۔

              پھر چار پانچ آزاد امیدوار ہیں۔جن میں تین مسلمان ہیں ۔ چار

              نیشنل پارٹیوں میں تین کے ووٹر طئے شدہ ہیں۔ اب بچی ایک

               نیشنل پارٹی جو کانگریس کی ہے۔ مسلمان اُس سے نالاں ہیں

             کہ اُس نے ساٹھ برسوں میں بھی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیںکیا ۔

              پھر بھی مسلمانوں کا ایک طبقہ اُسے ووٹ دے گا۔یہ جو تمہارے

              تین مسلمان کھڑے ہیں ، یہ خود نہیں بلکہ کھڑا کیے گئے ہیں تاکہ

              مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہو کر بے وقعت ہوجائیں۔ اس پوزیشن

              میں تمہارے پاٹل صاحب کہاں دکھائی دیں گے؟‘‘

(صفحہ : 102)

           نورالحسنین نے داستانوی دنیا اور حقیقی دنیا کو ایک دوسرے میں اس طرح ضم کر دیا ہے کہ ایک نئی خوابیدہ دنیا قائم ہو گئی ہے اور ناول پڑھنے والا اُس کا حصہ بن گیا ہے۔ اس خوابیدہ کیفیت میں قاری علمی ، خانقاہی اور صوفیانہ ماحول میں ڈوب جاتا ہے اور جب وہ ابھرتا ہے تو خود کو  ہندوستان کی موجودہ سیاسی صورت حال میں لاچارو  مجبور پاتا ہے۔

         بیشتر ناولوں کا اختتام اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، کچھ کسر باقی رہ گئی ہے۔ یاابھی کچھ اور کہا جاسکتا ہے مگر ناول ’’ تلک الایام‘‘ کا اختتام نہایت خوبی اور فنکارانہ مہارت سے کیا گیا ہے۔کسی افسانے کی ہی طرح اس ناول کا کلائمکس وحدّتِ تاثر پیش کرتا ہے۔قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔نورالحسنین نے ناول کے مرکزی کردار کی زبان سے ایک مکالمہ ادا کرا کر ناول کا اختتام کیا جو بہت ہی فنکارانہ  صلاحیت ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں:

            ’’ ۔۔۔۔۔پتہ نہیں وہ کب تک اسی طرح بیٹھا رہا ، پھر اُ س نے بیوی کو

             آواز دی ۔ وہ جیسے ہی اُس کے قریب پہنچی ، کچھ دیر تک وہ اُسے مایوس

             نظروں سے گھورتا رہا اور پھر اُس کی گردن جھک گئی اور اُ س کی زبان

              سے نکلا، ’’ یاسمین تُم سچ کہتی تھی۔ میں واقعی شائزو فرونیاکا مریض ہوں۔

               مجھے داکٹر کے پاس لے چلو۔۔۔۔۔۔‘‘    ( صفحہ : 296)

             نورالحسنین کو بیانیہ پر مکمل دسترس حاصل ہے۔وہ کسی بھی فضا کو اپنے تخیّل کے ذریعے اسیر کر لیتے ہیں۔اُن کے بیانیہ کی خوبی یہ ہے کہ اپنے تجربے کو منفرد شکل میں قاری کے سامنے پیش کر نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔نو رالحسنین واقعات، صورتِ حال اور کرداروں کی نفسی کیفیات ایسے موثر انداز میں پیش کرتے ہیں کہ قاری ان کیفیات کی توانائی، صداقت اور اندرونی ارتعاش کو بہ خوبی محسوس کر سکتا ہے۔

***

Leave a Reply