You are currently viewing “طبی اخلاقیات ‘‘:  ایک مطالعہ

“طبی اخلاقیات ‘‘:  ایک مطالعہ

 محمد اشرف اعظمی

ریسرچ فیلو ادارہ علوم القرآن،علی گڑھ

“طبی اخلاقیات ‘‘:  ایک مطالعہ

تصنیف :حکیم فخر عالم

   اخلاق انسان کے اندر کا وہ وصف ہے جو اسے ز ندگی کے تمام شعبوں میں سرخروئی سے نوازتاہے۔یہی وجہ ہے کہ سارے ادیان و مذاہب چاہے وہ سماوی ہوں یا خودساختہ سب میں اسے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ہر ایک کی مذہبی کتابوں میں اخلاقی تعلیمات پربڑے وسیع پیمانے پربحث موجود ہے۔ ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق” میں اخلاقی تعلیمات کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیاہوں۔اخلاقی تعلیمات کا دائرہ کسی ایک معاشرہ،ایک قوم،ایک مخصوص طبقہ یا ایک فن تک محدود نہیں بلکہ تمام ہی شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا جاتاہے۔یہی وجہ ہے ہر دور میں ہر فن کے علماء نے اپنے اپنے میدان کے لحاظ سے اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔فن طب ایک ایسا فن ہے جس میں اخلاقی تعلیمات کی اہمیت بایں طور مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس کے تمام ہی شعبہ جات انسانی اقدار،انسانی جان کی حفظ و بقاپر قائم ہیں،جہاں بعض دفعہ ادویات کے مقابلے الفاظ کے مرہم زیادہ مؤثر ثابت ہوتے ہیں ،مگر اپنی اہمیت کے باوجود یہ فن اخلاقی مواد سے بہت حد تک خالی ہے یا جس طرح طبی اخلاقیات پر لکھا جانا چاہئے تھا نہیں لکھا گیا، جو کچھ مواد ملتابھی ہے تو متفرق طور پر،مختلف کتابوں میں، جس سے ایک خلا کا احساس ہوتاہے۔زیر تبصرہ کتاب ”طبی اخلاقیات”اسی کمی کو پورا کرنے کی ایک کوشش ہے۔

’’طبی اخلاقیات‘‘ کے مصنف حکیم فخر عالم اصلاحی ہیں جن کا نام طبی تصنیفات کے میدان میں محتاج تعارف نہیں،طب کے مختلف موضوعات پرآپ کی تصنیفات و مضامین اپنا مقام رکھتے ہیں،آپ کی کتابوں پر مختلف طبی و غیر طبی اداروں نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ آپ کی ولادت 10 جنوری 1971 کواعظم گڑھ کے موضع بھورمئو کے ایک صاحب سیف و قلم مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم مقامی مدارس میں جیسا کہ پہلے کا طریقہ تھا حاصل کی،پھر مدرسۃ الاصلاح آئے اور وہاں سے 1991 میں سند فضیلت حاصل کی۔1992 میں علی گڑھ تشریف لائے اور اجمل خاں طبیہ کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ سے 1999 میں بی یو ایم ایس اور 3-2002 میں علم الادویہ میں ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔طبی درسیات کی تکمیل کے بعد پونہ میں لکچرر،وزارتِ صحت،حکومت اترپردیش میں میڈیکل آفیسررہے۔اس کے علاوہ وزارت سائنس اینڈ ٹکنالوجی،حکومت ہند،نئی دہلی کے پروجکٹ ٹی کے ڈی ایل سے بھی وابستہ رہے۔اس وقت سنٹرل کونسل فار ریسرچ اِن یونانی میڈیسن(CCRUM)، نئی دہلی میں بحیثیت سینئر ریسرچ آفیسرمصروفِ تحقیق ہیں۔

          حکیم فخر عالم ایک شاداب فکر اور شاداب قلم مصنف ،مؤلف، مترجم اور مرتب ہیں۔ان کی تحریروں میں موضوعاتی تنوع کے ساتھ عالمانہ بصیرت نظر آتی ہے۔اس سے پہلے ان کی کئی کتابیں حکیم سید ظل الرحمن ایک مطالعہ،عکس خامہ،رازی ہند :پروفیسر حکیم محمد طیب، ہندوستان کی طبی درسگاہیں، اردو طبی مترجمین،رموزِ دواسازی اور نشانِ اجمل وغیرہ اہل علم سے اعتبار حاصل کرچکی ہیں،حکیم وسیم احمد اعظمی لکھتے ہیں’’حکیم فخر عالم طبی ادب ِعالیہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں،اسی وجہ سے قدیم مصادر پر ان کی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے۔آپ کی تحریروں میں اعتراف کی جرأت بھی ہوتی ہے اور انحراف کی جسارت بھی۔تحقیق کاوقار اور قلم کی دیانت اس بات کی متقاضی ہے کہ حق اور سچ ہی کہا اور لکھا جائے،اسی لئے وہ کسی بھی مرحلے میں تحقیق سے سمجھوتہ کرتے نظر نہیں آتے۔ان کا یہی طرز عمل ایک دن ان کی علمی شخصیت کی توقیت کرے گا‘‘۔

          حکیم فخر عالم کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ وہ پامال راہوں کے راہی نہیں رہے،زیر تبصرہ کتاب بھی اس خوبی کا ایک مظہرہے۔یہ کتاب کل نو ابواب پر مشتمل ہے۔جس میں طب کے تمام شعبوں مثلاً تاریخی جائزہ،مختلف طبوں میں اخلاقیات،طبیب کے اوصاف حمیدہ،فن تصنیف کی اخلاقی اقدار،ادویاتی و صیدلاتی امور میں اخلاقیات کی اہمیت،ماحولیات کے اخلاقی تقاضے،ماضی میں پیش آئے طبی اخلاقیات کے واقعات اور موجودہ دور میں پائے جانے والے مختلف شعبوں کے اصول و ضوابط کاجائزہ وغیرہ پر حتیٰ المقدور معلومات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ذیل میں تمام ابواب کاقدرے تفصیل سے ایک  تعارفی جائزہ پیش کیا جاتاہے۔

   باب اول:پس منظر۔ اس باب کے ذیل میں حکیم صاحب نے 6 ذیلی عناوین کے تحت فلسفۂ اخلاق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے،فلسفۂ اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں”اخلاق (واحد خلق =عادت) در اصل انسان کی ایک نفسیاتی کیفیت ہے،جس کے خارجی مظہر کو علم الاخلاق میں ”کردار” کہتے ہیں۔ہر انسان نفسیاتی طور پر کچھ میلان اور رجحان رکھتاہے،اگر وہ ان میں سے کسی کا خوگر بن جائے یعنی کوئی میلان یا رجحان استمرار اور تسلسل کے ساتھ پایا جانے لگے تو اسے عادت کہتے ہیں۔عادتیں اچھی اور بری دونوں ہو سکتی ہیں،اسی بنیاد پر انھیں اخلاق ِحسنہ (اچھی عادتیں) اوراخلاقِ سیئہ (بری عادتیں) کہتے ہیں”۔

   اللہ نے انسان کی تخلیق مختلف عناصر کے ذریعے فرمائی ہے، لہٰذا اس کے اجزائے ترکیبی کے اثرات اس کے اخلاق پر بھی پڑتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ انسان کے اخلاقیات کی تشکیل میں مختلف عوامل کی کارفرمائی ہوتی ہے جس میں سرفہرست،موروثی اثرات ہیں اس کے علاوہ خانگی، سماجی، ماحولیاتی، ادارہ جاتی، جغرافیائی اثرات سبھی اہم عوامل ہیں۔

اخلاق کو سنوارنے کیلئے حکیم صاحب نے 6 اہم چیزوں کا تذکرہ کیا ہے،لکھتے ہیں بہت سے ایسے امور ہیں جو اخلاق کی تربیت اور اس کی اصلاح میں معاون ہوسکتے ہیں۔

   1۔تنگ نظری کا ازالہ:اخلاق کی درستگی کے لئے علماء نے اس پہلو کو بہت اہمیت دی ہے،کیوں کہ تنگ نظری انسانی دماغ کو مفلوج کردیتی ہے۔جب جولانِ فکر محدود ہوجائے تو فکری محدودیت کے بطن سے جو اخلاق جنم لیتے ہیں وہ بہت دنی اور پست ہوتے ہیں۔

   2۔اچھی صحبت:انسان چونکہ تقلید کا حریص ہوتاہے اس لئے وہ اخلاقی امور میں بھی نقالی پسند کرتاہے،اس لئے اچھی صحبت انسان کے اخلاق پر اثر انداز ہوتی ہے۔

   3۔مشاہیر کی سیرت کا مطالعہ:انسان جو کچھ پڑھتاہے شعوری وغیر شعوری طور پر اس کا اثر اس کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے اس لئے مشاہیر کی سیرت کا مطالعہ بھی اخلاق کی تزئین کا اہم سبب ہے۔اسی طرح 4۔عمل خیر،5۔نفس کے میلان کی تبدیلی کی کوشش اور6۔وجدان ضمیر کی بیداری کو بھی تزئینِ اخلاق کے اہم ذریعہ کے طور پر بیان کیاہے۔

   فلسفۂ اخلاق کے بعد اخلاقیات کا ایک تاریخی جائزہ لیا گیاہے لکھتے ہیں”خیرو شر کی تمیز کا شعور تو انسانی فطرت میں ہمیشہ سے ودع ہے اور اخلاقیات انسانی خمیر میں اس کے وجود کے زمانہ سے شامل ہے تاہم علم کی ایک شاخ کے طور پر اس کا ظہور تب ہوا جب تہذیب سے انسانوں کی آشنائی ہوئی،گویا یہ شعبۂ علم انسانوں کی تہذیبی تاریخ سے مربوط ہے۔اخلاقیات علمی طور پر فلسفہ کا عنوان ہے مگر اس کے فکری سوتے سماجیات و مذہبیات سے ملتے ہیں اورعلم الاخلاق کے موضوع پر دانشورانہ طور پر غور و فکر سب سے پہلے یونانیوں نے شروع کیا”۔

حکیم صاحب نے اخلاقیات کے آغاز، اس کی نشو ونما اور ارتقاء کو درج ذیل تین ادوار میں بیان کیاہے:

1۔اخلاقیات قبل سقراط

2۔ اخلاقیات سقراط،افلاطون وارسطو

3۔ اخلاقیات مابعد ارسطو۔

   لکھتے ہیں”علم اخلاق کے ابتدائی بانیوں میں سقراط(469 تا399ق م) بڑا ہی اہم نام ہے، اسی نے انسانی اخلاق اور معاملات کی علمی بنیادوں پر مطالعہ کی بنیاد ڈالی۔اس کا خیال تھا کہ عام طور پر اخلاقی زندگی کے جو معنٰی سمجھے جاتے ہیں وہ تشفی بخش نہیں ہیں اور اس مسئلے کی زیادہ علمی طریقہ سے تحقیق و تشریح ضروری ہے۔اس کا قول تھا کہ ”نیکی نام ہے علم کا” وہ یقین رکھتا تھا کہ جو اخلاق کی غرض و غایت اچھی طرح سمجھ لے ناممکن ہے کہ وہ اس کے حصول میں کمی کرے اور جس نے مقصد اخلاق کو پوری طرح نہیں سمجھا وہ پابند اخلاق نہیں ہوسکتا”۔

آگے چل کر سقراط کی اتباع میں کئی فرقے وجود میں جن میں کلبیین اور قورنائین خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کابنیادی نقطۂ نظر یہ تھا” چونکہ دیوتا حوائج سے پاک ہوتے ہیں لہٰذا بہتر انسان وہ ہے جو ان صفات کو اپنے اخلاق کا حصہ بنائے”۔اس کے بعدسقراط کے فلسفۂ اخلاق کے حوالے سے دو سرابڑا نام افلاطون کا ملتاہے جس نے ایک قدم آگے بڑھ کر مابعد الطبیعاتی نظریہ پر اخلاق کی بنیاد رکھی۔ اس کے نزدیک ”خیر”کو بنیادی تصور کی حیثیت حاصل تھی،جبکہ نیکی اور فضیلتِ اخلاق وغیرہ دراصل اسی (خیر) کے تقرب کا وسیلہ ہیں۔اس کا مذہب تھاکہ حکمت،شجاعت،عفت اور عدل و انصاف یہی فضیلت کے چار اصول ہیں جو افراد کی اخلاقی زندگی کا قوام بناتے ہیں۔ اس بعد افلاطون کے شاگر د ارسطو کا زمانہ آتاہے اس کا بڑا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے فلسفۂ اخلاقیات کو منظم شکل وصورت عطاکرکے ایک مدون علم کا درجہ دیا۔اس کا بنیادی نقطۂ نظر یہ تھا کہ قوائے عاقلہ(باطنہ) کو عمدہ اور بہتر اسلوب سے استعمال کرنا،سعادت تک پہنچنے کا طریقہ ہے۔

   یونا نی فلسفہ کا تیسرا دورچھ صدیوں پر محیط ہے اس کے بعد کلیسا اور مسیحیت کی بالادستی کا دور آیاجس کے نتیجے میں فلسفۂ اخلاقیات اوردیگر عقلی علوم مغلوب ہوگئے کیوں کہ کلیسا کا عقیدہ تھا کہ جو حقیقت وحی کے ذریعہ منکشف ہوتی ہے وہی خیرہے۔اس طرح پندرہویں صدی عیسوی تک قرون وسطیٰ کے فلسفہ کی حالت تہ و بالا ہوجاتی ہے اس کے بعد سولہویں صدی سے اخلاقیات کے جدید دور کا آغاز ہوتاہے۔آگے جدید دور کی تاریخ کا بھی ایک مختصر جائزہ پیش کیاہے۔اس تاریخی تجزیہ کے بعد طبی اخلاقیات کی تاریخ کا ایک نقشہ کھینچا گیاہے ،اس فن میں بقراط کا کردار بڑا نمایاں ہے ’’اس نے اپنے عہد کے دونوں تقاضوں سے یونانی طب کو ہم آہنگ کرنے کی سعی کی۔یونانی طب کو فنی سطح پر نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ،اس کے اخلاقی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے طبی اخلاقیات کاایک مکمل ضابطہ وضع کیا،جو اتنا جامع تھا کہ موجودہ عہد میں بھی اسے تسلیم کیا جارہاہے اور معاصر طبی اخلاقیات کوبھی یہ بقراطی ضابطہ اساس فراہم کرتاہے‘‘۔بقراط کی اخلاقیات کے فضائل و رذائل کی تفصیلات کو آج میڈیکل ایتھکس کی اساس مانا جاتاہے۔

   علم الاخلاق کا اسلامی نظریہ:اس عنوان کے تحت اسلام کے اخلاقی نقطہ نظر کومختلف آیات و احادیث کی روشنی میں بیان کیاہے۔

   فن طب کی فضیلت:اس عنوان کے تحت فن طب کی اہمیت وفضیلت پر بحث کی گئی ہے۔ابوالحسن احمد بن محمد طبری کے ایک طویل اقتباس کے ذریعہ ا س فن کی اہمیت کو بیان کیاہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’اگر انسان کی صحت میں فساداور تغیر لاحق ہوجائے تو اس کا وجود انتشار سے دوچارہوگا اورجسمانی ترکیب و افعال متأثر ہوں گے، تأثر و انتشار کو دور کرنے کا طریقہ فن طب ہی میں بیان کیا جاتاہے، فن طب ہی انسان کے حفظ ِصحت اور زوالِ صحت سے بحث کرتاہے اس لئے اس فن کو بڑی اہمیت حاصل ہے‘‘۔اس فن کی اسی اہمیت کے پیش نظر اطباء نے ہمیشہ اس کے وقار کو برقرار رکھنے پر زور دیاہے ۔حکیم صاحب نے کئی ایسے واقعات کا ذکر کیاہے جن میں اطباء نے اس فن کی توہین کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے۔اسی طرح طبیب کی اخلاقی اقدار کی اہمیت،طبیب کی سماجی عظمت کو ذیلی عنوان کے تحت واضح کیاہے۔

   کتاب کا دوسرا باب ’’قدیم تہذیبوں میں طبی اخلاقیات کا تصور‘‘ ہے ،اس باب میں قدیم تہذیبوں میں پائے جانے والے تصورِ اخلاق کا  جائزہ پیش کیاہے۔اس میں سب سے پہلے ہمورابی کا ضابطۂ طب پھر ہندوستانی اور چینی تہذیب میں طبی اخلاقیات کے تصور کو واضح کیاہے۔

   ہمورابی کے طبی ضوابط: ہمورابی بابل کا چھٹا بادشاہ تھا اس کا زمانہ حکومت  (1750-1792 ق م) ہے یہ بابلی حکمرانوں میں ضابطۂ قوانین کے حوالے سے شہرت رکھتاہے اس نے ہرشعبہ ٔحیات کے لئے قوانین وضع کئے تھے۔جس کے ضابطہ نمبر 215 سے225 تک کا تعلق شعبۂ طب سے ہے جس میں اس نے مختلف علاج کے لئے طبیب کی الگ الگ فیس متعین کی ہے۔

   بقراط کی وصیت:گزشتہ صفحات میں ذکر آیا کی یونانیوں میں طب کے حوالے سے بقراط کی شخصیت بڑی اہم تصور کی جاتی ہے کیوں کہ اس نے طب کو اساس فراہم کی ہے،لہٰذا یونانی طبی اخلاقیات کی عکاسی کے لئے بقراط کی وصیت نقل کیاہے جس میں بقراط نے طبیب کے لئے مطلوب اوصاف و خصائل پر مشتمل ایک وصیت ”ترتیب الطب” کے نام سے لکھی ہے۔

   قدیم ہندوستانی تہذیب میں طبی اخلاقیات: قدیم ہندوستانی تہذیب میں ایک طبیب کے درج ذیل اوصاف بیان کئے گئے ہیں جس کا حامل ہونا ایک طبیب کے لئے ضروری ہے:

   1۔طبیب نظری اور عملی معلومات کا حامل ہو،آیوردید کے آٹھوں مضامین کا علم اور شاستروں کا علم رکھتاہو، جذباتیت،غصہ،حرص،کبر و نخوت،بغض وغیرہ بری عادتوں سے اجتناب کرے،اس فن کو خدمت کا وسیلہ سمجھتے ہوئے حاملین مذہب،غرباء،اور نادار مرضا وغیرہ کا مفت علاج کرے۔اسی طرح صاف ستھری پوشاک زیب تن کرے،بالوں کو سنوارے،چلتے وقت ہر طرف نظر رکھے، تخاطب میں پہل کرے،ہرایک کے ساتھ دوستانہ و مشفقانہ رویہ رکھے،مریض ہو تو صرف مریض پر دھیان دے،غیر شائشتہ افعال سے احتراز برتے وغیرہ۔

   قدیم چینی تہذیب میں طبی اخلاقیات: قدیم چینی تہذیب میں اخلاق طب کو مصنف نے مختلف کتب کے حوالوں سے بیان کیا ہے، جس سے  اس فن پر روشنی پڑتی ہے اور اس کی قدر و قیمت کی وضاحت ہوتی ہے۔چینی تہذیب میں طبی اخلاقیات کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ”طبیب ایک الہٰی نمائندہ اور فرستادہ ہے جو اپنے خدا سے رہنمائی حاصل کرتاہے۔چینی طب کے مطابق اس کے حاملین نے جو فنی تعلیم پائی ہے،اس کے ذریعہ انھیں بلا تفریق سماج کے ہر طبقے میں نفع رسانی کرنی چاہیے اور غرباء کا مفت علاج کرنا چاہیے۔

   تیسرا باب طبیب کے اوصاف و خصائل سے متعلق ہے۔اس باب میں مصنف نے ان اوصاف کا ذکر کیا ہے جن کے بغیر ایک طبیب کی طبابت درجۂ اعتبار کو نہیں پہنچ سکتی ہے۔مصنف نے جن اوصاف کا ذکر کیاہے ان کو قدیم وجدید کتابوں کے حوالوں سے مبرہن کیا ہے،کئی ایسے واقعات بیان کئے ہیں جس سے ان خصائل کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔وہ اوصاف درج ذیل ہیں:

   1۔اعلی ذہنی صلاحیت: دنیا کے تمام شعبوں میں اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کی ناگزیریت مسلم ہے، کہ اس کے بغیر کسی بھی فن کو کما حقہٗ سمجھنا اور اس کو عمل میں لانا آسان نہیں مگر طب ایسا شعبہ ہے جہاں دوسرے علوم و فنون کے مقابلے زیادہ زیرکی مطلوب ہوتی ہے، کیوں یہاں انسانی جان کے حفظ وبقا کامسئلہ ہوتاہے۔اس  قضیے کی اہمیت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے حکیم اصلاحی لکھتے ہیں ”طبی پیشہ کا تعلق کائنات کی اعلیٰ ترین تخلیق انسان سے ہے، جو اشرف واعلیٰ ہونے کے ساتھ بے حد پیچیدہ ساخت کا حامل ہے۔اس کے اندر واقع ہونے والے خلل،پیچیدہ اور ژولیدہ ہونے کے ساتھ فوری اصلاح کے متقاضی ہوتے ہیں۔کبھی کبھی یہ تقاضے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ ان کے تدارک کی فوری تدابیر نہ کی جائیں تو زندگی موت میں تبدیل ہوجاتی ہے،ایسے حالات سے نبردآزماء ہونے کے لئے عام ذہنی صلاحتیں ناکافی ہوتی ہیں،اس لئے طبیب کا اعلیٰ ذہنی صلاحیت کا مالک ہونا ناگزیر ہے۔

   2۔وسعت مطالعہ: فن طب میں تجربات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے،دوران علاج چھوٹے سے چھوٹے نقطے کو بھی نظر اندازنہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ مریض کے مرض کی تشخیص علامات کے مشاہدے کے بغیر ممکن نہیں، اس لئے کتب بینی اور وسعت مطالعہ انتہائی ضروری ہے تاکہ پرانے نسخوں،قدیم اطباء کے تجربات،نئی ایجادات،تمام چیزوں کے بارے میں مکمل آگہی ہو۔

  3۔قدیم سرمایہ سے استفادہ: یہ مطالعہ میں وسعت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

   4۔تجربہ: کسی بھی فن میں تجربہ کی اہمیت سے کون انکار کرسکتاہے اور جب انسانی جان کا مسئلہ ہو تو یہ چیز مزید اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے کہ ایک تجربہ کار شخص جس بہتر طور پر اپنے فعل کو انجام دے سکتاہے ناتجربہ کار کے لئے ممکن نہیں۔

   5۔رازداری:اخلاقی نقطۂ نظر سے رازداری ایک طبیب کا اہم وصف ہے،کیونکہ اس کے فقدان سے بعض دفعہ بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ مصنف نے اس کی کئی مثالیں پیش کی ہیں،جس سے اس کے مثبت و منفی دونو ں پہلوؤں کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے۔

   6۔دین داری: اخلاقی اصولوں کا جنم بنیادی طور پر مذہب کے بطن سے ہواہے اور اسی کے زیر سایہ علم الاخلاق پروان چڑھاہے،اس لئے یہ بہتر نشو نما کے لئے مذہب کے روحانی تغذیہ کا محتاج ہے۔پیشۂ طبابت کا تعلق دنیا کی نہایت محترم مخلوق سے ہے اور یہی امر اس فن کی افضلیت اور اشرفیت کی بنیاد ہے،لہٰذااس کی انجام دہی کے لئے اخلاقی طریقے وضع کئے گئے،چونکہ اعلیٰ اقدار اور اعلیٰ اخلاقیات کی سب سے بہتر رہنمائی مذہب کرتاہے، اس لئے ایک طبیب کے لئے دین داری ایک لازمی شے بن جاتی ہے۔

   7۔اطباء کے باہمی رشتے: طب ایسا فن ہے جس میں بعض دفعہ ایک سے زائد لوگوں کی ضرورت کا احساس ہوتاہے، مصنف نے تنظیموں،طبی حلف ناموں اور دوسرے مختلف ذرائع سے اس کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش ہے۔

   باب چہارم:حاملینِ طب کے غیر مطلوب رویے:دنیا کی ہرشے میں خیر و شر،مثبت و منفی دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں اس لئے شخصیت کی بہتر تعمیر کے لئے جہاں اچھے اوصاف کا حامل ہونا ضروری ہے وہیں برے خصائل سے بچنا بھی ضروری ہے ،اسی کے پیش نظر مصنف نے یہ باب حاملین طب کے غیر مطلوب رویے کے نام سے قائم کیاہے اور اس میں ایک طبیب کے غیرمطلوب رویوں کی نشاندہی کی ہے،جن سے احتراز طبیب کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل بناتاہے۔وہ برے خصائل عصبیت،علمی سرقہ،کمیشن خوری،اشتہار اور تشہر پسندی وغیر ہیں۔

   اگلا باب’’ ادویاتی اور صیدلاتی امور‘‘ سے متعلق ہے۔ طب یونانی،آیوروید اور سدھا وغیرہ ہندوستان کے قدیم اور دیسی طریقۂ علاج ہیں، مگر عہد غلامی میں یہ طریقۂ علاج نہ صرف یہ کہ مغلوب ہوئے ،بلکہ مقہور بھی رہے ہیں۔حتیٰ کہ غیر سائنسی قرار دے کر ان کی علمی و فنی معتبریت کو مشکوک کرنے کی مذموم کوشش ہورہی تھی،جس کے تدارک کے لئے طبیبوں اور ویدوں نے مختلف طریقے سے اس کے خلاف محاذ اآرائی کی۔مصنف نے اس باب میں اس کا مختصر سا نقشہ کھینچا ہے پھر موجودہ دور میں رائج طریقہ ٔعلاج کا تعارف کراتے ہوئے موجودہ فن طب میں رائج غیر اخلاقی حرکتوں جیسے دیسی دواؤں میں انگریزی دواؤں کی آمیزش،مشہور اطباء کا لیبل لگاکر نقلی دواؤں کی فروخت وغیرہ پر گفتگو کی کوشش کی ہے تاکہ ان سے بچا جاسکے۔

    ساتواں باب’’ ماحولیات‘‘ کا ہے۔فن طب میں ادویات کے پروڈکشن کا سارا مدار جڑی بوٹیوں پر ہوتاہے،کبھی پیڑوں کی چھالوں،کبھی پتوں،کبھی کچھ مخصوص خود رو پودوں سے دوائیں بنتی ہیں اور ماحول کا پورا اثر ان پودوں پر ہوتاہے، اس لئے اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ ایسی باتوںسے احتراز برتاجائے،جن سے ان پودوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ مصنف نے اس باب میں انھیں امور کی نشاندہی کی ہے اور ان سے ہونے والے نقصان کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔

   آٹھواں باب’’ متفرقات‘‘ کا ہے جس میں کچھ متفرق امور کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔اس باب میں ایک اہم بحث ایوتھنیزیا (Euthanasia) کا طبی تصور ہے۔آج کل اس کا چلن خصوصاً مغربی ممالک میں بڑی تیزی سے بڑھ رہاہے۔اس کی تعریف بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں”ایوتھنیزیا یونانی لفظ ہے اس کا مطلب ہے ”اچھی موت” اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب زندگی باقی رہنے کی کوئی صورت نہ بچی ہو،مگر موت بھی نہ آرہی ہو اور مرضی شدائد و تکالیف سے مرنے والا سخت اذیت کا شکار ہوتو اسے زندگی سے چھٹکارا دلا کر موت کے حوالہ کردیاجائے یعنی ’’قتل بہ جذبہ رحم‘‘۔اس کی مختلف اقسام ہیں۔مصنف نے یہاں دو بنیادی اور تین ذیلی اقسام کا ذکر کیاہے۔بنیادی اقسام Active Euthanasiaاور Passive Euthanasiaہیں اور ذیلی اقسامVoluntary Euthanasia&involuntary Euthanasia VoluntaryEuthanasia,Non   ہیں۔ اس کے موافق و مخالف بہت سارے دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور اس حوالہ سے لوگوں کی مختلف آراء ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی نقطۂ نظر سے یہ ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔مصنف نے اس مسئلے میں خاص طور پر طب یونانی اور یونانی اطباء کے نقطہ نظر کو پیش کیاہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ’’طبیب اول اسقلی بوس اور قدیم ویدک لٹریچر کے مطابق جب مرض لاعلاج اور موت یقینی ہوجائے تو علاج جاری رکھنے کا کوئی حاصل نہیں، لہٰذا Passive Euthanasia اختیار کیا جاسکتاہے‘‘۔

   باب ہشتم منقولات:  اس باب میں مختلف کتب میں موجود طبی اخلاقیات،طبی حلف نامے اورمختلف ادوار میں پیش آنے والے اخلاقی واقعات وغیرہ کا تذکرہ ہے۔اس باب میں بیان واقعوں سے متعلق ایک خاص بات یہ ہے،کہ مصنف نے صرف واقعات کے نقل پر اکتفا نہیں کیاہے،بلکہ ہر واقعہ کے بعد’’واقعہ کے نتائج ‘‘کے عنوان سے خاص نکتوں اور اس کے نتائج کوبھی بیان کیاہے۔

   نواں اور آخری باب’’ اصول و ضوابط ‘‘کے عنوان سے ہے ۔اس باب میں سنٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن کے ضابطۂ اخلاق، اسی طرح جدید طبی تحقیقات کے دوران پیش نظر رکھے جانے والے اخلاقی اصولوں کو بیان کیاہے۔

   خلاصہ: جیساکہ ابتداء میں عرض کیاگیا تھا کہ فن طب کی اخلاقیات سے متعلق اب تک کوئی باضابطہ کام نہیں ہوسکاتھا،جو کچھ مواد میسر ہے وہ متفرق اور بکھراہوا ہے۔اس پہلو سے یہ کتاب بڑی اہم ہے کہ متفرق مواد کو ایک ترتیب اور نئی معلومات کے اضافے کے ساتھ یکجا کردیاگیا ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب اس فن اخلاقیات پر کام کرنے والوں کے لئے ایک بنیاد فراہم کرے گی۔

***

Leave a Reply