You are currently viewing طوائف

طوائف

نورین خان پشاور 

طوائف

“گلابو بائی کے بالا خانے پر روز کوئی نہ کوئی نظریں جمائے پھرتا رہتا تھا۔

“گلابو بائی شاہی محلے میں ایک مشہور طوائف تھی، اس کا نام شاہی محلے میں تو احترام سے لیا جاتا تھا، مگر شرفا کی دنیا میں اسکا نام شرم سے لیا جاتا تھا۔”

 “اس کی خوبصورتی ایسی تھی جو کسی بھی آدمی کو اپنے جال میں باآسانی پھنسا سکتی تھی، لیکن یہ اس کی تیز عقل اور شدید بےباکی اور آزادی اور دلکشی ہی تھی جس نے اسے اتنے دنوں تک بازار میں معروف اور مشہور بنا رکھا تھا۔”

“اس کے پاس ہر روز نئے گاہک ہوتے تھے، ہر ایک اپنی جیبیں ہلکا کرکےچلا جاتا تھا، اور ان کے ذہنوں کو گلابو بائی اس قدر مٹھی میں لیتی تھی کہ گاہک ایک بار نہیں، بلکہ بار بار اس کے کھوٹھے پر آنے لگتا۔

” آج کا دن بھی کچھ مختلف نہیں تھا۔”

” اسلم، اکثر آنے جانے والا بندہ، دیوان پر بیٹھا، اس کی ہنسی سنتے ہی اس کی آنکھیں چمک اٹھیں، یہ آواز بے، یا فکر ہے، اور یا یہ دلربا خطرناک چال ہے، جس نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے۔”

 “وہ بےھودی اور مستی میں بول رہا تھا۔”

 گلابو بائی اپنی ناتجربہ کار طوائفوں کو بدنام زمانہ کہانیاں سنا رہی تھی، جو ایک نرم سرسراہٹ کے طور پر شروع ہوئی تھی، اور ہر ایک لفظ کے ساتھ کہانی مزید دلچسپ موڑ کے ساتھ آگے بڑھتی تھی، اور ان تمام نوخیز طوائفوں کو اپنے بنائے ہوئے جادو کی گہرائی میں کھینچ رہی تھی۔”

 “گلابو بائی نے کہا، “ہر جگہ طوائفیں ہیں،” اس کی آواز شہد اور زہر جیسی تھی۔

“گلابو بائی آپ تو بیک وقت زہر بھی ہو اور تریاق بھی ہو۔اسلم نے نشے میں لڑکھڑاتے ہوئے کہا۔”

آپکی ذرہ نوازی ہے جناب۔۔۔

ورنہ ناچیز ہماری کیا اوقات۔۔۔؟

“لیکن اس بازار میں ہم جیسی طوائفوں کے بارے میں کوئی کہانیاں نہیں لکھتا۔ وہ جو مردوں، کو ان بازاروں سے مستفید کرتی ہے، شرمندگیوں سے آگے نکال کے لے جاتی ہیں۔”

 اسلم مسکرایا، اس نے پینے کے لئے گلاس اٹھایا “تو تم کہہ رہی ہو کہ تم اچھوت ہو؟”

 گلابو بائی کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا، اور وہ اندر جھک گئی، اس کی سانس اس کے کانوں سے گرم گرم گزر گئی تھی۔ “اچھوت؟ نہیں،اسلم بابو۔۔

لیکن بدنام تو ہے نہ زمانے میں۔۔

“ہم طوائفوں کو کون پوچھتا ہے اس بازار میں؟

 لیکن میں اپنی کہانی خود لکھتا ہوں، اسلم نے جواب دیا۔

“اسلم بابو جس طرح گاہکوں کے آتے جاتے راستے جدا ہو جاتے ہیں، ہمیشہ ایک نیا باب ہوتا ہے۔”

روز ایک نیا فسانہ ہوتا ہے۔نئی کہانی ہوتی ہے۔

 گلابو بائی کے الفاظ گویا ہوا میں معلق تھے جب وہ کھڑی تھی، اپنی ساڑھی کے تہوں کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے، اس کی طرف پیٹھ پھیر رہی تھی۔ کمرے میں اچانک ٹھنڈک محسوس ہوئی۔

“گلابو بائی نے اے سی آن کر دیا تھا۔

اور اسلم بابو کے لئے نرم بستر بچھا دیا تھا۔

 باہر، بازار میں ہلچل تھی، شاہی محلہ مردوں سے بھرا ہوا تھا جہاں ہر دلال اپنے اگلے شکار کی تلاش میں تھا۔ لیکن گلابو بائی ایسی نہیں تھی جسے محض لین دین تک محدود کیا جائے۔بلکہ وہ انتہائی قدر دان اور جی جان،رکھ رکھاو والی طوائف تھی۔ وہ اپنی کہانی میں ایک ایسا کردار تھی،جسے ان میں سے کوئی بھی پوری طرح سے نہیں سمجھ سکتا تھا۔

گلابو بائی تمام طوائفوں کے لئے سایہ دار شجر کی طرح تھی۔

 اور جب اس نے اسلم کو مطمئن ہوتے اسے سائے میں غائب ہوتے دیکھا، تو اس نے سوچا کہ کیا وہ کبھی اس کی کہانی کا حصہ بنے گا۔

آج بھی بازار حسن پیکر حسن بنا ہوا تھا۔نازک نازک لڑکیاں کاموں میں مگن تھی۔کہ اچانک پولیس کا ریڈ پڑ گیا۔

“پولیس بےدردی سے گلابو بائی کو گھسیٹ کر تھانے لے جارہی تھی، اور کئی پولیس والے اسے فاحشہ اور نجانے کن کن گالیوں سے نواز رہے تھے۔

لیکن گلابو بائی کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ اسے جیل لے جانے والا وہی رات کا گاہک اسلم ہی تھا۔

جس نے آج شرفا کیطرح لباس پہن رکھا تھا۔

چلو ڈالو انکو۔۔۔۔سالی گناہ گار کنجریاں اس کچرے کو وین میں اسلم نے پولیس اہلکاروں کو حکم دیا۔

“جی صاحب۔۔۔ ان فاحشاوں کی وجہ سے شرفا بدنام ہے۔حوالدار شیدا بولا۔

گلابو بائی ایک اور شریف اسلم کے شرافت کا شکار بن چکی تھی۔۔

وین تیزی سے روانہ ہوئی مگر ذہنوں میں کئی سوالات چھوڑ گئی۔۔۔۔۔۔”

***

Leave a Reply