ڈاکٹر تبسم خان
گوالیار
عارفہ مسعود عنبر کی ادبی جہات
میں پچھلے پانچ سالوں سے عارفہ مسعود کے مضامین کا متواتر مطالعہ کر رہی ہوں۔وقت وقت پر آپ کی غزلیں بھی دل پر اثر کرتی ہیں۔ لیکن میں یہاں آپ کی مضمون نگاری پر گفتگو کروں گی۔عارفہ مسعود بیک وقت مضمون،نگار، کالم نگار،افسانہ نگار، تبصرہ نگار، ترجمہ نگار اور شاعرہ بھی ہیں۔ عارفہ مسعود کے مضامین کے مطالعہ سے کبھی کبھی میں شش و پیش میں پڑ جاتی ہوں کیونکہ مضمون نگاری کے مختلف میدانوں میں ہر میدان میں وہ اپنے قلم کے جوہر بکھیرتی نظر آتی ہیں۔کہیں معاشرے کے ناگزیر حالات پر آہ بھر کر بے باک انداز میں حکومت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بے باک انداز میں سوال کرتی نظر آتی ہیں، تو کہیں قوم و ملت کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹنے کے لیے اتحاد کی صدا بلند کرتی ہیں۔ تو کہیں خواتین میں ہمت اور حوصلہ بھرنے کے لیے تاریخ کے حوالے پیش کرتی ہیں۔ خوشگوار حیرت تب ہوتی ہے جب نہ صرف معاشرتی بلکہ ادبی اور اور مذہبی ہم موضوعات پر بھی بہترین مضامین رقم کرتی ہیں۔
عارفہ مسعود عنبر اتر پردیش کے مراداباد شہر سے تعلق رکھتی ہیں جسے جگر مرادآبادی کے نام پر شہر جگر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔عارفہ مسعود نے اسی شہر کی ادبی فضاء میں تعلیم تربیت و پرورش پائی۔مراداباد کسی بادشاہ کا پائے تخت تو نہیں رہا جو ادب کا گہوارہ بن جاتا لیکن پھر بھی بہت سے نام ایسے ہیں جن کے بنا اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔دور حاضر میں اردو ادب کے افق پر ایک ایسا نسوانی نام روشن نظر آ رہا ہے جو اپنے قلم کی روشنی سے معاشرے میں پھیلی تاریکیوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ عارفہ مسعود قومی اور عالمی سطح پر مرادآباد کی نمائندگی کر رہی
ہیں۔
آپ کا اصل نام عارفہ مسعود اورقلمی نام عارفہ مسعود عنبر ہے۔آپ کے اجداد سنبھل سے تعلق رکھتے تھے۔ والد سید مسعود علی ملازمت کے سلسلے میں سنبھل چھوڑ کر مرادآباد رہائش پذیر ہو گئے اور یہیں سکونت اختیار کر لی۔ مسعود علی شہر کے معزز اشخاص میں شمار کیے جاتے تھے اور ادبی ذوق رکھتے تھے۔عارفہ کو بھی ادب سے محبت اور ذوق و شوق اپنے والد سے ورثے میں ملا۔یہی سبب ہے عارفہ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے میں خاص دلچسپی رہی۔ آپ کے مضامین میں مطالعہ کی وسعت اور گیراء کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔عارفہ کو اردو اور ہندی دونو زبانوں پر یکساں عبور ہے، وہ دونوں زبانوں میں متواتر مضامین رقم کر رہی ہیں۔ رامپور آکاش وانی پر بھی نظم اور نثری پروگرام کی نشریات ہوتی ہیں۔
عارفہ 50 سے زائد سیمینارز میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کر چکی ہیں۔عارفہ مسعود عنبر کا قلم کبھی خاموش نظر نہیں آتا،مختلف اخبار و رسائل کے ذریعے اپنے خیالات،اپنی سوچ و فکر سپرد قرطاس کر کے قارئین تک پہنچا رہی ہیں، روز نامہ ‘اودھ نامہ’ روز نامہ ‘انقلاب’ ‘لازوال جموں’ ‘سہارا ایکسپریس’ بہار منتھن۔ اُردو ڈائجسٹ’ کاوش’ اردو ڈائجسٹ’ اسپین ‘ ویب پورٹل ‘قندیل’ ‘الفجر ‘ ‘البلاغ’ وغیرہ پر شائع ہوتے ہیں۔
عارفہ مسعود عنبر کے مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے ایک سچا قلم کار جب اپنے ذہن کے دروازوں کو کھولتا ہے تو اس کے تجربوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور وقت کی گردشوں پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے آئینہ دل کو گرد و غبار حالات سے صاف کرنے کی کوشش میں جٹ جاتا ہے۔ ایسے میں اس کی کوشش احتجاج بھی ہو سکتی ہے اور بغاوت کے قریب بھی۔ عارفہ مسعود کی تحریروں میں بھی احتجاج کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔وہ معاشرے میں پھیلی ناہمواریوں پر بے باکی
سے قلم چلاتی ہیں۔اپ کے قلم کی سب سے بڑی خوبی آپ کی حق بیانی ہے۔
قوم کی رہنما ہیں رہبر ہیں
آج جو کچھ ہیں اپنے دم پر ہیں
نثر بے باک لکھ رہی ہیں وہ
خوف ہے انہیں نہ کوئی ڈر ہے
(دانش حماد جاذب)
عارفہ مسعود عنبر کے مضامین کا مجموعہ ”سفید چادر” کے عنوان سے الفجر ویب سائٹ نے شائع کیا ہے۔سفید چادر 35 مضامین پر مشتمل ہے جس میں 15 معاشرتی اور 20 ادبی مضامین کو شامل کیا گیا۔کتاب کا عنوان ”سفید چادر” رکھنے کی مصنفہ نے جو وجہ بیان کی ہے اس سے ان کے اور ان کے والد کے درمیان والہانہ محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔اپ لکھتی ہیں
”جانے (انتقال) سے تقریباً ہفتہ قبل پاپا نے ہم سے کہا۔بیٹا ہم نے ایک خواب دیکھا ہے۔ہم نے دریافت کیا، کیا خواب دیکھا ہمارے پاپا نے؟ پاپا نے کہا _” ایک بہت بڑی سی سفید چادر ہے تم نے اس پر مضمون لکھا ہے اور وہ مضمون بہت مقبول ہوا ہے ” اس وقت عقل و فہم کی لاکھ کوشش کے باوجود ہم خواب کا مفہوم سمجھنے سے قاصر رہے صرف اتنا سمجھ پاتے کہ کپڑے پر تو اشتہار لکھے جاتے ہیں یہ کس اشتہار کی طرف اشارہ ہے۔اج پاپا کے انتقال 26 دن گزر جانے کے بعد جب قلم ہاتھ میں پکڑا تو چشم گریاں سے ڈھلک کر کاغز پر جزب ہوتے اشک اور لرزتے ہاتھوں نے خواب کی تعبیر پیش کر دی ”
(سفید چادر صفحہ ممبر 14′)
سفید چادر کے مطالعے سے عارفہ کی شخصیت کے مختلف پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔وہ قوم و ملت سے بے پناہ محبت کرتی ہیں۔ معاشرے میں پھیلی جہز جیسی لعنت پر ہزاروں لاکھوں بیٹیاں قربان ہو گئیں۔حیدرا باد کی عائشہ نے جس طرح ہنستے ہنستے اپنی جان سمندر کے حوالے کر دی اس واقعی نے عارفہ کے حساس دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ قوم کی بیٹیوں سے کہ اٹھیں
” انسان کی زندگی میں ایسے وقت آتے ہیں جس میں انسان کے جذبات مغلوب ہو جاتے ہیں اور ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں،ہمارا شعور دم توڑتا ہؤا محسوس ہوتا ہے،لیکن اسلام نے جزبات میں آکر ایسے کسی فیصلے کی اجازت نہیں دی کہ آپ اپنی زندگی کاخاتمہ کر لیں۔یہی تو آزمائش کا وقت ہے آپ کو اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر عقل و ہوش سے کام لیکر حالات کو شکست دینا ہے۔اس بہرے اور گو نگے معاشرے میں کوئی ہماری سننے والا نہیں ہے۔ہماری زندگی میں کوئی ہمارا خیر خواہ نہیں بعد مرنے کے ہزاروں انصاف کی دہائی دیتے نظر آئیں گے۔اس لیے آپ کو سمجھنا ہوگا ہمیں اپنا مدد گار خود بننا ہے ۔‘‘
(ہمیں اپنا مدد گار خود بننا ہے صفحہ نمبر(146)
عارفہ مسعود کے مضامین حقیقت میں اشارے ہیں۔ان مضامین میں اس عہد کی تصویر جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔بد امنی نا انصافی جو آج کے عہد میں ایک عام بات ہو گئی ہے اس کا عکس ان کے مضامین میں صاف نظر آتا ہے۔صحافت کی حالت کسی سیڈھکی چھپی نہیں ہے کچھ چینلز کس طرح سچ کو توڑ مروڑ کر ذاتی مفاد کے لیے جھوٹی خبریں پیش کر رہے ہیں۔صحافت کے اس گرتے ہوئے معیار پر بے باک انداز میں کہتی ہیں۔
”شرم آتی ایسی صحافت پر، صحافت کو معاشرے کی تشکیل کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔لیکن آج اس ستون کی جڑیں اتنی کھوکھلی ہو چکی ہیں کہ اس پر حق،انصاف،سچائی،ایمانداری کی عمارت کھڑی کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور نظر آ رہا ہے ”
(ناکام حکومت اور فروخت شدہ میڈیا صفحہ 125)
ایک اور جگہ رقم طراز ہیں
”ارباب اقتدار کی خوشنودی کے لیے معاشرے کی تشکیل کے چوتھے ستون صحافت کے کارکن اپنے معیار سے اس قدر گر جائیں گے سوچ کر عقل حیران ہوتی ہے ”
عارفہ مسعود کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اپنے ایک ادبی مضمون بے” باک صحافی حفیظ نعمانی ” میں لکھتی ہیں ؛
” قلم کاری خدا کی ودیعت کردہ ان صلاحیتوں میں سے ہے جو ہر کسی کے حصہ میں نہیں آتی اللہ کریم صرف انہیں عنایت فرماتا ہے جن سے وہ مخصوص کام لینا چاہتا ہے،علم و دانش تہزیب انسانی کا ذریعہ ہے صداے قلم نہ صرف ایک شہر، ایک صوبہ،ایک ملک بلکہ سارے عالم میں گونجتی ہے۔قلم کا اگر صحیح استعمال کیا جائے تو وہ معاشرے میں علمی شعور کو فروغ دینے میں ماؤن ثابت ہو سکتا ہے ۔ (بے باک صحافی حفیظ نعمانی صفحہ نمبر 45)
عارفہ مسعود نے نہ صرف معاشرتی ادبی بلکہ مزہبی مضامین بھی لکھے ہیں جس میں وہ خالص اسلامی اسکالر نظر آتی ہیں۔وہ تین سو تیرہ کا لشکر نہیں ملتا اسلامی تاریخ سے مزین ایک بہترین مضمون ہے جس میں انہوں رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرت سے استفادہ کرتے ہوئے دین کے لیے لڑی گئیں تمام جنگوں کا ذکر کیا کے۔اپ کا یہ مضمون انسانی اسلامی افکار و نظریات کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ اس مضمون کے ذریعے امت مسلمہ کو پیغام دیتے ہوئے کہتی ہیں ؛۔
”راقم الحروف امت مسلمہ کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ بے شک اسلام کی بنیاد محبت،خلوص، امن دوستی،عاجزی،انکساری پر منحصر ہے لیکن جب ظلم حد سے تجاوز کر جائے تو جنگ بدر درس دیتی ہے کہ فتح بہت بڑے لاؤ لشکر سے نہیں بلکہ مضمون کہ ہمت، بہادری،شجاعت اور حوصلہ مندی سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ ’’اردو زبان محبت کی امین بھی اظہار کا وسیلہ بھی”ہیں یادگاریں جتنی دشمن کو یہ سنا دو ” مسلمان تعلیم کے سفر میں ادب اور شعور کو شامل کریں ” بہت سے مضامین ایسے ہیں جن پر گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن اس چھوٹے سے مضمون میں یہ ممکن نہیں۔ خواہش یہ ہے کہ عارفہ مسعود عنبر کے فن اور شخصیت پر تفصیلی مقالہ لکھوں انشاء اللہ کی رضاء رہی تو یہ خواہش ضرور پوری کروں گی۔ اللہ کریم سے دست دعاء گو ہو کہ عارفہ مسعود کے قلم کو مزید وسعت اور پختگی عطاء فرماے۔ مجھے یقین ہے عارفہ مسعود جلد ہی ادب میں ایک خاص پہچان بنانے میں کامیاب رہیں گی۔
***