محمد انعام
ریسرچ اسکالر،یونیورسٹی آف دہلی ، نئی دہلی
عارف بیکانیری بحیثیت نظم نگار
یوں تو اردو شعر و ادب میں نظم جدید کا باقاعدہ آغاز محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی سے مانا جاتا ہے ۔ حالانکہ کلاسیکی ادب کی تاریخی کتب بینی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صنف نظم کے نقوش اردو زبان میں اپنی ابتدا ہی سے بزرگانِ دین اور صوفیاء کرام کی کتابیات اور ملفوظات میں جا بجا دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ جس روایت کو رفتار دینے اور اس صنف کو ادب میں ایک خاص مقام دلانے میں نظیر اکبر آبادی ، محمدحسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی کے نام پیش پیش ہیں۔ بیسویں صدی کے ربع اول میں اکثر شعراء، ادبا اور ناقدین اپنی تمام تر تخلیقی صلاحیتیں اس صنف سخن پر وقف کرنے میں سرگرم عمل رہے ۔ وجہ صرف اور صرف نظم کو غزل پر فوقیت دلانا ۔ اور اس کوشش میں بیشتر ترقی پسند شعرا کامیاب بھی ہوئے ۔ اسی کڑی میں ایک نام محمد عثمان عارف نقشبندی کا بھی سرِ فہرست ہے ۔
اردو شعر و ادب میں جن حضرات نے وکالت یا سیاست کے دوش بدوش آسمان ادب میں اپنے نام کا پرچم لہرایا ان حضرات میں ایک ممتاز ترین نام صوبہ راجستھان کی مشہور و معروف ریاست ، ریاست بیکانیر سے تعلق رکھنے والے استاد شاعر محمد عثمان عارف نقشبندی کا بھی پیش پیش ہے ۔
محمد عثمان عارف نقشبندی ۱۹۲۳ء تا ۱۹۹۵ء کا شمار صوبہ راجستھان کے عظیم المرتبت شعرائے کرام میں ہوتا ہے ۔ یہاں عظیم المرتبت شاعر سے میری مراد یہ ہے کہ جو شاعر اپنے فکر و فن کی انفرادیت اور گراں مائیگی کے سبب ہر عہد اور زمانے میں اہل سخن و دانش کے ہر گروہ میں موضوع بحث بنا رہے ۔ موصوف کو اس دنیا سے الوداع کہے ہوئے تقریباً۲۷ سال ہونے کو ہیں مگر اس کے باوجود وہ آج بھی تا دم تحریر اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی بدولت ریاست بیکانیر کی شعری و ادبی نشستوں میں چلتے پھرتے اور زندہ و تابندہ نظر آتے ہیں۔
موصوف ایک پر گو اور قادر الکلام شاعر تھے ۔ آپ نے اردو شاعری کی تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی۔ جن میں غزل ، نظم ، حمد ، نعت ، رباعی ، قطعہ ، تضمین اور سلام وغیرہ قابلِ ذکر ہیں ۔
بقول سابق وزیراعظم ہند پی وی نرسنمہا راؤ:
’’جناب محمد عثمان عارف نقشبندی بیکانیری(راجستھان) ہمارے ممتاز شاعروں کی صف میں ہیں۔ شعر حقیقت میں شاعری کی ذہنی ودلی کیفیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ چنانچہ عارف کا دل جذبۂ حب الوطنی سے لبریز ہے۔ وہ سچے اور پکے ہندوستانی ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر بہت وسیع ہے۔ ان کی نظمیں ان کے سیکولر کردار، جمہوری ذہن اور سماج وادی مزاج کی آئینہ دار ہیں، جن میں اکثر جوش و جذبہ بھرپور ہے۔ جناب عارف کو زبان و بیان پر کامل قدرت حاصل ہے۔ ان کی نظمیں شعریت اور شعری محاسن سے پُرہیں۔‘‘ (نذروطن، پیش لفظ از سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ، ص:۲، سن اشاعت ۱۹۷۴ء)
زیر نظر مضمون عارف صاحب کی نظم نگاری کے حوالے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے شاعری کی دیگر اصناف سخن کی طرح صنف نظم میں بھی اپنے فن کے خوب خوب جوہر دکھائے ۔ وہ اپنی نظموں میں نہایت سادگی اور پرکاری سے کام لیتے ہیں۔ موصوف کی نظموں کا یہ سب سے بڑا خاصہ ہے کہ وہ جو زندگی اور زمانے سے تجربات حاصل کرتا ہے ان تمام کا نچوڑ اپنی نظموں کے قالب میں سمو دیتا ہے ۔ عارف صاحب کی نظموں کے مطالعہ سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ شاعر اسی دنیا کا باسی ہے اور وہ جو کچھ یہاں رہتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ اور محسوس کر رہا ہے انہیں تجربات اور مشاہدات کو لفظوں کا پیرہن عطا کر کر ہمیں لوٹا رہا ہے ۔ شاعر کو سماج میں چاروں طرف پھیلی ہوئی گندگی سے نفرت ہے ، گندے لوگوں سے نہیں… وہ اس دنیا اور سماج سے گندگی کے نام و نشاں کو مٹانے کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
بقول ڈاکٹر محمد حسن :
’’ان کی نظموں میں جذباتیت کا خروش نہیں ، تاثرات کا مرقع ہے ۔ جسے شاعر اپنی قوت تعمیر کے ذریعے سجاتا ہے ۔ عثمان عارف جو کچھ دیکھتے ہیں محض اس کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ اپنی نظموں میں انسانی زندگی کی نا ہموار یوں کا عکس تلاش کرتے ہیں اور اسی نا ہمواری سے پیدا ہونے والے دکھ کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں ۔‘‘(ماہنامہ ’شاعر‘ فکرواحساس ایک تجزیہ، از ڈاکٹر محمدحسن، ص:۳۷،سن اشاعت ۱۹۸۴ء)
موصوف کی قومی اور وطنی نظموں کا پہلامجموعۂ کلام بعنوان’’ نذر وطن‘‘ اکتوبر۱۹۷۵ء کو منصہ شہود پر آ کر جلد ہی ادبی حلقوں میں قبولیت حاصل کر چکا تھا۔ اس مجموعے کی نظموں میں زندگی کے نئے نئے تقاضوں کی آہٹ اور تمازت اہالیانِ ملک کو کچھ نیا کرنے کی دعوت فکر دیتی ہوئی معلوم پڑتی ہیں۔ یہ بار ہا دیکھا جاتا رہا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں جو مقام و مرتبہ قومی و وطنی نظموں کو حاصل رہا، وہ دیگر موضوعات پر مبنی نظموں کو آج تک حاصل نہ رہا۔ چنانچہ محمد قلی قطب شاہ سے لے کر عہد حاضر تک اس دھار کو مزید تیز کرنے کی کوشش ہنوز جاری ہے ۔ عارف صاحب کی نظموں میں جو قوم اور ملک کے تئیں حب الوطنی کا جوش و جذبہ ہے وہ لائق دید ہے ۔ ملاحظہ ہو نمونہ کلام نظم بعنوان’’جنت مرے وطن کی‘‘ سے ۔
جواجہ معین چشتی، نانک، کبیر، گوتم
پیغام حق ہے ان کا رحمت مرے وطن کی
یہ تاج، لال قلعہ، ایلورا اور اجنتا
کہتے ہیں داستان صنعت مرے وطن کی
عارف صاحب کی نظموں کے مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کبھی بھی اپنے عہد اور زمانے کے مسائل سے بے خبر نہیں رہے بلکہ ان کے یہاں زندگی کے نئے نئے تقاضے بڑی شدت کے ساتھ نمایاں ہوئے ہیں۔ اس کا اندازہ ہم ان کی شاہکار نظم بعنوان ’’ حیات نو‘‘ کے مطالعہ سے با آسانی لگا سکتے ہیں۔ یہ نظم موصوف نے اس وقت خلق کی جب (پوکرن) راجستھان میں حکومت ہند کی طرف سے سن۱۹۷۴ء کو جوہری توانائی کا پہلا تجربہ کیا گیا تھا۔ ملاحظہ ہو نمونہ کلام:
کس قدر شور مچا؟؟
خوف بڑھا!!
تجربہ کیوں کیا جوہر کی توانائی کا
امن خطرے میں پڑا
وجہ بربادیٔ عالم میں اضافہ ہی ہوا
موصوف کو صرف موضوعاتی اور ہنگامی نظموں کا شاعر ہی کہہ کر کنارہ کش نہیں ہوا جا سکتا ، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ان کی نظموں میں غریبی ، سماجی نا ہمواری اور عدم مساوات کے سلسلے میں ان کا جذبہ و احساس لائق دید ہے ۔ جس کی بانگی ہم ان کے مجموعۂ کلام ’’فکر و احساس‘‘ میں شامل نظم بعنوان’’ غریبی‘‘ میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ملاحظہ ہو نمونہ کلام :
کیسی دنیا اور کیسا ہے یہ دنیا کا نظام
پیش کرتا ہے اگر مفلس شرافت سے سلام
من میں اپنے سوچ لیتے ہیں کہ ہوگا کوئی کام
کیسا استقبال سیدھے منھ نہیں کرتے کلام
حیف ہے سمجھا نہ جائے آدمی کو آدمی
زندگی ہے موت سے بد تر غریب انسان کی
عارف بیکانیری جس طرح کی جادو نگاری، زبان و بیان اور لفظیات کے اہتمام و انصرام سے اپنی غزلوں میں دکھاتے ہیں ٹھیک اسی کا ہی پرتو ان کی نظموں میں جا بجادکھائی دیتا ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں چند اشعار ان کی نظم بعنوان’’ نوائے وقت‘‘ سے :
بدل ڈالو محبت میں عداوت کا جو طوفان ہو
محبت کے لیے لڑنے کو طوفانوں میں آ جاؤ
اہنسا سے تو ہنسا نے ہمیشہ مات کھائی ہے
ہے میداں ہاتھ میں مل جل کے میدانوں میں آ جاؤ
مذکورہ بالا نظم کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ یہ نظم عارف صاحب نے بیشک آج سے تقریباً ۵۰ سال پہلے خلق کی تھی مگر یہ نظم آج کی موجودہ صورتحال کی سچی کہانی بیان کرتی ہوئی معلوم پڑتی ہے ۔
بقول ڈاکٹرمحمودالٰہی:
’’عثمان عارف کے موضوعات شعری زندگی کے متعدد اہم مسائل کو محیط ہیں۔ انھوں نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ان کا کمال فن یہ ہے کہ انھوں نے ہر موضوع اور ہر صنف سخن کے ساتھ انصاف کیا۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ان کی متصوفانہ شاعری اور ان کی غزلیہ شاعری میں ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے یا یہ بھی نہیں کہاجاسکتا کہ ان کی نظمیں ان کی غزلوں پر یا ان کی غزلیں ان کی نظموں پر ترجیحی درجہ رکھتی ہیں۔ دراصل وہ جس موضوع کو چھوتے ہیں، اس کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے جوہرکامل کو منتخب کرکے اسے اپنی شاعری کا موضوع بنالیتے ہیں۔ اسی طرح وہ جس صنف کو اپناتے ہیں، اس کے مالہ وماعلیہ کو ذہن نشین کرلینے کے بعد ہی اس صنف میں اظہارخیال کرتے ہیں۔‘‘ (فکرواحساس، مقدمہ از ڈاکٹر محمودالٰہی، ص:۸، سن اشاعت ۱۹۹۰ء، پبلی کیشن ڈویژن ،محکمہ اطلاعات ورابطہ عامہ اترپردیش، لکھنؤ)
علاوہ ازیں عارف صاحب کی موضوعاتی نظمیں بھی شعری صداقتوں کا اعتراف کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ جو لفظی سلیقہ مندی اور تراکیب سے معنی آفرینی پیدا کر دیتی ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم بعنوان ” مہاتما گاندھی ” سے پیش ہے نمونہ کلام:-
اے مسیحا ہند کے امن و اماں کے پاسباں
تیرا احساں بھول ہی سکتا نہیں ہندوستاں
مرہمِ زخم جگر تھا چارہ درد نہاں
آفریں ہمت تری صد آفریں عزمِ جواں
جذبہ حب وطن سے معرکہ وہ سر کیا
پرچمِ آزادیٔ ہندوستاں لہرایا
اردو شاعری کے بہت سے شعراء نے جشن جمہوریت کی خوشی میں نہ جانے کتنے گیت اور راگ اپنی قلم کی نوک سے صفحہ قرطاس پر رقم کیے ہیں مگر ان سب میں کا مطالعہ کرنے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری جذبات کے رو میں بہتی چلی گئی ہے ۔ یا پھر وہ طعنہ مہنا کا شکار بن کر رہ گئی ہے ۔ لیکن اس کے بر عکس عارف صاحب نے اپنی ایک نظم بعنوان’’جمہوریت‘‘ میں شعری سچائیوں کو سامنے رکھ کر اپنی عقل مندی سے جس طرح قومی ضمیر کو صدا دی ہے اور تمام طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر قوم و ملل کے لوگوں کی ذہن سازی کی ہے ۔ وہ لائق صد تحسین ہے ۔پیش ہے نمونہ کلام:-
کٹ گئیں دور غلامی کی کڑی زنجیریں
ملنے والی ہیں ترے خواب کی اب تعبیریں
ناز کر ناز، وطن ہو گیا آزاد ترا
فخر کر فخر، غلاموں میں نہ اب نام رہا
بقول پروفیسر شبیہ الحسن :
’’انھوں نے (محمد عثمان عارف نقشبندی) اس پورے عالم کی بیرونی اور ظاہری نقشبندی اس طرح کی ہے کہ نقش فریادی نہیں نظر آتے بلکہ وہ ولولہ تعمیر رجائیت اور اقدار کی بازیافت اور عصری مطالبات کے مطابق نقشبندیٔ نو کا مژدہ سناتے ہیں۔ انہیں عناصر کو ان کی شاعری اور شخصیت کا پیغام اور وہ سرمایہ سمجھا جانا چاہیے جس سے انھوں نے اب تک اردو ادب کو مالا مال کیا ہے اور آئندہ بھی مالا مال کرنے کے امکانات مسلسل موجود ہیں۔ ان امکانات کے پیش نظر پورے وثوق کے ساتھ یہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ عہدحاضر کے بڑے شاعر ہیں مگر ممکنہ طور پر مستقبل کے عظیم شاعر ثابت ہوں گے۔‘‘ (ماہنامہ ’نیادور‘ نقش بند صورت ومعنی، از پروفیسر شبیہ الحسن،ص:۲۴، سن اشاعت ۱۹۸۷ء)
عارف بیکانیری فرسودہ روایتوں ، اس کے فلسفوں اور ماضی پرستی سے کبھی لا تعلق تو نہیں ہوتے بلکہ ان سے ربط رکھنے کوشش ضرور کرتے ہیں۔ وہ زمانہ ماضی کی روشنی میں عہد حاضر کے انسانوں کے عادات و اطوار کو جاننے کی حتی المقدور سعی کرتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی نظموں کے ذریعے ظلم و استبداد کے خلاف اپنا احتجاج درج کراتے ہیں وہ ہندو مسلم کی تقسیم میں یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ اپنی نظموں میں اس بات پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ خون چاہے ہندو کا ہو یا پھر مسلماں کا اس کا رنگ آخر لال ہی ہوتا ہے ۔ پھر یہ انسانوں میں تفریق کس بات کی۔ملاحظہ فرمائیں نمونہ کلام ان کی نظم بعنوان’’یہ خون ہے انساں کا‘‘سے :
یہ خون ہے انساں کا
سڑکوں پہ نہ بہنے دو
اس خون کی عظمت کو
مٹی میں نہ ملنے دو
چینی ہے نہ روسی ہے
ہندی ہے نہ امریکی
مطلب نہیں ملکوں سے
پنجابی نہ سندھی ہے
یہ خون ہے انساں کا
یہ زندہ حقیقت ہے
انمول ہے قیمت میں
مٹی میں نہ ملنے دو
اس خون کی عظمت کو
یہ خون ہے انساں کا
یہ خون ہے انساں کا
مذکورہ بالا تمام نظموں کے تجزیاتی مطالعہ کے بعد یہ بات تو صاف ہو جاتی ہے کہ محمد عثمان عارف نقشبندی کی شاعری کسی بندھے ٹکے ازم یا نظریے کی اسیر نہیں۔ ان کی نظموں میں جو نظریات نمایاں ہوئے ہیں ان کا تعلق کہیں نہ کہیں اس کے اپنے آس پاس کی دنیا ہی سے ہے ۔ جس کا انہوں بغائر مطالعہ کیا ہے ۔ اور اس مطالعہ کی بنیاد پر جو اخذ کیا اس کو ہو بہو موصوف نے لفظوں کے قالب میں ڈھال کر اپنی نظموں میں سمو دیا ہے ۔
***