محمد عثمان بٹ
آفیشل ایڈریس: پرنسپل، گورنمنٹ ہائی سکول الھڑ، پسرور، سیال کوٹ، پنجاب، پاکستان
ایجوکیشنل ایڈریس: پی ایچ۔ ڈی اُردو اسکالر، منہاج یونیورسٹی لاہور، پنجاب، پاکستان
پوسٹل ایڈریس: محلہ اُمید پورہ، سرکلر روڈ پسرور، سیال کوٹ، پنجاب، پاکستان
واٹس ایپ نمبر: +923338620307
ای میل ایڈریس: usmanyaseen86@gmail.com
عالمی ادب میں اُردو نثر کا حصہ
Abstract:
World literature has gained much importance in the twenty first century. The reflection of global issues in any language is one of the major features of the world literature. Translation, on the other hand, has become indispensable to communicate among the different languages and cultures of the world. Urdu prose has shown a great strength while contributing in the world literature. In this article, various factors regarding the promotion of Urdu prose has been discussed which enabled it a part of the global literature. A huge number of translation work has been done so far from other languages of the world especially English to Urdu and vice versa. Urdu prose contributed globally in the fields of research, criticism, fiction, linguistics, broadcasting, translation and cultural studies.
Keywords:
World Literature, Urdu Prose, Translation, Global Issues, Broadcasting
ادبی دنیا میں عالمی ادب کی اصطلاح نے کچھ عرصہ پہلے ہی انگڑائی لی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے مختلف خطوں میں اِس کی آواز گونجنے لگی۔ ادب دنیا میں کہیں بھی تخلیق ہو رہا ہو، میرے نزدیک وہ عالمی ادب ہی ہے۔ مخصوص نظریات نے ادب کو قید کرنے کی کوشش کی مگر زیادہ عرصہ ایسی پابندیاں ادب برداشت نہیں کرسکتا۔ جب میں عالمی ادب کا نعرہ لگا کر ادب کی بات کرتا ہوں تو اِس سے میری مراد ایسا ادب ہے جس میں دو خصوصیات لازمی طور پر پائی جاتی ہیں۔ پہلی خصوصیت تو اُس کا قومی ادب ہونا ضروری ہے اور قومی ادب سے میری مراد یہ ہے کہ جس خطے کا وہ نمائندہ ادب ہے اُس میں تو اُسے قبولیت کا درجہ حاصل ہو۔ پھر دوسری خصوصیت اُس کا دائرہ کار یا اثر جغرافیائی حدود کراس کرتا ہوا دنیا کے مختلف خطوں پر واضح ہو۔ یعنی جو ادب مذکورہ دونوں خصوصیات کا حامل ہوتا ہے، اُسے ہم عالمی ادب کہہ سکتے ہیں۔
ایک عرصہ تک تو مغربی ادب کے شہ پاروں کو ہی محض عالمی ادب سمجھا جاتا تھا مگر عوام کی رسائی جوں جوں باقی دنیا کے ادب تک ہو رہی ہے، عالمی ادب میں مشرق اور دیگر خطوں کے ادب کا حصہ بھی بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ اِس ضمن میں تراجم کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ کوئی بھی ادب پارہ دہرے عمل سے گزر کر عالمی ادب کے زمرے میں شامل ہوتا ہے۔ ایک عمل تو ادب تخلیق ہونے کا ہے اور دوسرا عمل اُس ادب پارے کا اپنے لسانی اور ثقافتی ماحول سے نکل کر دوسرے لسانی اور ثقافتی ماحول میں قبولیت کے درجے پر سرفراز ہونا ہے۔ بعض اوقات ادب پارے اپنے فن کی بنیاد پر علاقائی حدود سے باہر نکل آتے ہیں، کئی دفعہ اُسلوب کی چاشنی ایسی کشش لیے ہوتی ہے کہ اُسے اپنایا جاتا ہے اور پھر اکثر تو معلومات کی منتقلی بہت بڑی وجہ بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔
اِس تحقیقی مقالے کو میں نے بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ اُردو نثر کے اُن رجحانات کی نشاندہی کرے گا جن کی بنا پر یہ عالمی ادب کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسرے حصے میں دنیا کے مختلف حصوں میں تخلیق پانے والی اُردو نثر کو موضوع بنایا جائے گا اور آخری حصے میں عالمی ادب میں اُردو نثر کا مجموعی جائزہ پیش کیا جائے گا۔ پہلا حصہ تعارفی نوعیت، دوسرا حصہ ضروری وضاحت پر مبنی اور تیسرا حصہ تنقیدی نوعیت کا ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں گوئٹے نے اپنے مضامین میں ادب کی بین الاقوامی گردش پر بات کی جس میں اُس نے ایسے ادب کو بھی موضوع بنایا جو مغربی نہیں تھا۔ گوئٹے کے شاگرد اکرمین نے 1835ء میں گوئٹے کے ساتھ ہونے والے اپنے مکالمات کو شائع کیا۔ اُس کے بعد ادب کی بین الاقوامی حیثیت اور شناخت کی جانب سفر تیزی سےشروع ہوا۔ گوئٹے نے اپنے اُن مکالمات میں اُس جوش کا بھی اظہار کیا جو اُس نے چینی، فارسی اور سربی ادب پڑھ کر محسوس کیا۔ گوئٹے نے 1827ء میں بالکل ٹھیک کہا تھا کہ آنے والے وقت میں قومی ادب کی جگہ بین الاقوامی ادب لے جائے گا اور یہی عالمی ادب مستقبل کے ادب کے تخلیقی رجحانات کو تشکیل دے گا۔ معاشی اور سماجی تفہیم کے اعتبار سے جب عالمی ادب کو تجارت اور تبادلے کے طور پر دیکھا جائے تو سب سے پہلے کارل مارکس اور اینگلز کا پیش کردہ 1848ء کا کمیونسٹ مینی فیسٹو یاد آتا ہے۔ اُن کی پیش کردہ بورژوا اور پرولتار پر مبنی طبقاتی تقسیم ادب میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں سے دراصل ادب میں مارکیٹ اساس اپروچ کا آغاز ہوا۔ مارکس اور اینگلز دونوں گوئٹے کی عالمی ادب کے حوالےسے پیش گوئی سے متفق تھے جس میں اُس نے ادب کو مستقبل کا مظہر قرار دیا تھا۔ اُن کے بعد 1886ء میں پوسنیٹ نے اِس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ادب سب سے پہلے قدیم سلطنتوں میں تخلیق ہوا، پھر جدید قومی ریاستوں میں تخلیق ہونے لگا اور بالآخر اِس نے عالمی ادب کا روپ اختیار کرلیا جس کے قارئین دنیا کے مختلف خطوں میں بستے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ تین ہزار سال سے زیادہ عرصہ فکرودانش کے چراغ مشرق میں جلتے رہے اور مغرب نے بھی اُنھی چراغوں سے فیض حاصل کیا۔ مگر جب مغرب نے احیاے علوم کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی تاریکیاں مشرق کی بدولت دور کرلیں تو مغرب اُسی فکرودانش کا مرکز بن گیا جس پر کبھی مشرق کا سکہ چلتا تھا۔ عذر جتنے بھی مغرب کی چالاکیوں، سازشوں اور چال بازیوں کے ہم بن لیں مگر اِس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ ہمارے چراغ اب روشنی مغرب سے لے رہے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے تو پورے کے پورے چراغ ہی مغرب کے ہیں۔ بہرحال ادب تو ادب ہے، چاہے مشرق کا تخلیق کردہ ہو یا مغرب کا پیدا کردہ، چوں کہ عالمی ادب کے پرچار نے ادب کو جغرافیائی حدبندیوں سے قدرے آزاد کردیا ہے۔ لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ادب کی اپنی جغرافیائی یا مخصوص قومی پہچان نہیں رہی بلکہ اِس سے مراد یہ ہے کہ کچھ عالمگیر قدروں کو ادب میں اِس قدر قبولِ عام حاصل ہوچکا ہے کہ اُن سے مفر ممکن نہیں۔
ادب کے اُن عالمی پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے زاہدہ حنا لکھتی ہیں:
“بہتی ہوئی ہوا کی طرح ادب کا کوئی وطن نہیں۔ وہ زمین، زمان اور زبان کی حد بندیوں سے ماورا ہے۔ کتنے ہی قدیم زمانوں کی داستانیں، کہانیاں، حکایتیں ہم تک ترجمہ در ترجمہ پہنچیں۔ اُردو میں ترجمے کی روایت قدیم نہیں بہت قدیم ہے۔ ‘آرائشِ محفل’ سے ‘بلوہرِ بوذاسف’، ‘الف لیلہ’ اور پھر انگریزی، فرانسیسی، فارسی، روسی اور جرمن زبانوں سے ترجموں کا ایک انبار ہے جو ہمیں انجان دنیاؤں کی سیر کراتا ہے۔”(1)
کتب خانوں کا جدید نظام، انٹرنیٹ کی برق رفتاری، پبلشرز اور مارکیٹنگ ٹیم کی چکا چوند اِس وقت ادب کو صحیح معنوں میں عالمی ادب بنانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اُن کے پیچھے معاشی مسئلے کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے مگر ہمیں تو اِس بات سے غرض ہے کہ عالمی ادب پروان چڑھ رہا ہے اور کسی مخصوص خطے کی ادب پر اجارہ داری کی بجائے دنیا کے تمام خطوں کے ادیب اِس معاملے میں اپنا اپنا حصہ شامل کررہے ہیں۔
عالمی ادب کے نمایاں رجحانات میں بین الشعبہ جاتی علوم کو شامل کرنا سب سے اہم رجحان بن چکا ہے۔ ادب میں اِس کا باضابطہ بول بالا ادب میں مختلف تنقیدی نظریات سامنے آنے سے شروع ہوا ہے۔ اِسی رجحان کی بدولت ادب میں مختلف علوم کی بیک وقت جھلک ملتی ہے۔ جہاں تک اُردو نثر کا تعلق ہے تو اِس میں شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس پر اظہار نہ کیا گیا ہو۔ سماجی، معاشی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، نفسیاتی، فکری، فلسفیانہ، تصوف، سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت و حرفت، صنفیات الغرض ہر طرح کے موضوعات کو اُردو نثر میں برابر جگہ دی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادب میں اُردو نثر مسلسل اپنا حصہ شامل کررہی ہے۔
عالمی ادب میں نثر کی باقی تمام اصناف کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر مضامین اور مقالات کی اہمیت سب سے نمایاں ہے۔ اِس کی بنیادی وجہ میرے نزدیک عالمی سطح پر معلومات کی منتقلی کا وہ تیز ترین رجحان ہے جس کے باعث تراجم کو بے تحاشا فروغ حاصل ہوا ہے۔ سرسید سے پہلے اُردو نثر میں غالب کے خطوط کو ایک اہم مقام حاصل ہوچکا تھا۔ غالب کی اُردو نثر میں اُن کے خطوط ادبی، تاریخی اور تہذیبی و ثقافتی سطح پر نہایت بلند مقام پر فائض ہوچکے ہیں۔ اُردو نثر میں فکر انگیز اور سنجیدہ موضوعات کی روایت کا باضاطہ آغاز سرسید احمد خاں سے ہوتا ہے جن کے مضامین ایسے موضوعات کا شاندار نمونہ ہیں۔ غالب کے خطوط اور سرسید کے مضامین کے دنیا کی مختلف زبانوں میں ہونے والے تراجم اِس بات کا ثبوت ہیں کہ اُنھیں عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ پھر دلی کالج کے ماسٹر رام چندر نے سائنس اور ریاضی پر مختلف مضامین لکھ کر اُردو نثر کو لبریز کیا۔ اِس ضمن میں اُن کی اُردو نثر تخلیق کرنے کی صلاحیت کا بنیادی کردار رہا ہے۔
1868ء میں “دلی کالج سوسائٹی” کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ادب، تاریخ، آثارِ قدیمہ اور دیگر سماجی و علمی موضوعات سے متعلق لوگوں کی دلچسپی قائم کرنا تھا۔ اِس کے اولین اراکین میں مرزا غالبؔ، سرسیداحمدخاں، ماسٹر رام چندر، نواب علاؤالدین خاں علائی اور پیارے لال آشوبؔ شامل تھے۔ اُن کی اُردو نثر میں خطوط، مضامین، مقالات اور مستقل تصانیف شامل ہیں۔ انیسویں صدی میں اُردو نے خود کو ایک علمی زبان کی حیثیت سے منوا لیا تھا۔ اُس دور میں اُردو نثر نے عالمی سطح پر کئی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔ سید سلیمان ندوی نے انڈیا آفس لندن میں 1900ء میں کتابوں کی ایک فہرست دیکھی تھی جو تین سو صفحات پر مشتمل تھی۔ یہ فہرست اُنھوں نے “معارف” جون 1920ء کے شمارے میں اپنے مضمون کے ساتھ شائع کی تھی۔ اُنھوں نے جن شعبوں میں اُردو کتابیں موجود ہونے کا ذکر کیا، اُن میں ادب، تنقید، زراعت، صنعت و حرفت، ہئیت و نجوم، اخلاق، موسیقی، طبیعیات، تاریخ اور جغرافیہ وغیرہ شامل تھے۔ یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ اُردو نثر کے فروغ اور اُس کی نشر و اشاعت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا بھی بھرپور کردار رہا ہے۔
انیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں سے مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی اور مولانا محمد حسین آزاد جدید اُردو نثر کے مینار بن کر اُبھرے۔ اُنھوں نے سوانحی ادب، تاریخی ادب اور تذکرہ نویسی میں اُردو نثر کا لوہا منوایا۔ اُنھوں نے اُردو نثر میں اُسلوب کی چاشنی کے مختلف رنگ بھردیے۔ اُردو نے اُن مشاہیر کی وساطت سے عالمی ادب میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ اُنھوں نے مغرب کے علم و ادب سے بھرپور استفادہ کیا مگر اُردو نثر کے رنگوں کو آزاد رکھا۔ انیسویں صدی کے اختتام تک اُردو نثر ایک تناور درخت بن چکی تھی اور اِس کا ثبوت وہ مستشرقین ہیں جنھوں نے اُردو نثر کو عالمی ادب کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
مغرب کے ایسے مفکر جو مشرقی زبانوں، ثقافتوں یا علوم پر دسترس رکھتے ہوں، ماہرِ شرقیات یا مستشرق (Orientalists)کہلاتے ہیں۔ مختلف یورپی اقوام جن کی وابستگی ہندوستان سے رہی اُن میں زیادہ تر پرتگالی، انگریز، جرمن، ولندیزی اور فرانسیسی شامل تھے۔ مغلیہ دور کے آغاز سے یورپ کے براہِ راست روابط ہندوستان سے ملتے ہیں۔ یورپی اقوام کی ہندوستان آمد کے پیچھے اغراض و مقاصد میں تجارت، سیاحت، سفارت اور عیسائیت کا فروغ جیسے امور کو نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔ اِن مقاصد میں بعدازاں سیاست بھی شامل ہوگئی۔ عیسائی مشنری عیسائیت کے فروغ کے لیے دنیا کے جس بھی خطے میں جاتے ، پہلے وہاں کی زبان سیکھتے تھے۔ یورپ پرمشرقی تمدن کا اثر پندرھویں صدی عیسویں تک رہا جس کے بعد انحطاط کی جانب سفر شرع ہو گیا۔ یورپ کے مفکرین نے مسلم تہذیب اور اُن کے علوم و فنون سے فیض یاب ہو کر احیاے علوم اور اصلاحِ مذہب جیسی تحریکوں کی بنیاد رکھی۔ وہیں سے صنعتی انقلاب اور فرانس میں انقلاب جیسے واقعات رونما ہوئے۔ یعنی تجارت اور سیاست سے یورپ کی تہذیب مشرق میں پھیل گئی۔
سولھویں صدی عیسویں سے فرانس میں مشرقی زبانوں کی طرف توجہ دی گئی۔ اِس حوالے سے 1538ء میں عبرانی، 1587ء میں عربی اور 1768ء سے فارسی کی تعلیم و تدریس “کولیثرد فرانس” سے شروع ہوئی۔ دگویں نے فرانس میں ہندوستان اور چین کی تاریخ پڑھانے کے علاوہ مشرقی زبانوں کی تعلیم کی اہمیت بھی اُجاگر کی۔ اُسی کی کاوشوں سے 1795ء میں مدرسہ السنہ شرقیہ کی بنیاد پیرس میں رکھی گئی۔ لانگلیس اِس ادارے کا پہلا ڈائریکٹر مقرر ہوا جس کی نمایاں تصانیف میں “ہندوستان میں مشنریوں کی ادبی خدمات” (1817ء) اور “ہندوستان کی قدیم و جدید یادگاریں” (1821ء) شامل ہیں۔
معروف فرانسیسی مستشرق گارسیں دتاسی (1794ء تا 1878ء)کی تصنیف “تاریخِ ادبیاتِ ہندوی و ہندوستانی” اور اُس کے سالانہ خطبات اور مقالات نہایت اہمیت کے حامل ہیں جو اُردو کی ادبی تاریخ کا لازمی حصہ ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے علاوہ اُس نےعربی زبان اپنے مارسیلز قیام کے دوران سیکھی۔ 1817ء میں وہ مارسیلز سے پیرس چلا آیا جہاں اُس نے اپنے استاد سلوستر دساسی سے چار سالوں میں عربی، فارسی اور ترکی زبانیں سیکھیں۔ سلوستر دتاسی مدرسہ السنہ شرقیہ میں عربی کا پروفیسر تھا جو ترکی اور فارسی زبانوں پر بھی عبور رکھتا تھا۔ گارسیں دتاسی کی علمی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1821ء سے ہوتا ہے جب اُس نے عزالدین مقدسی کی کتاب “کشف الاسرار عن حکم الطیور و الازھار” کو تصحیح کرکے شائع کیا اور اِس کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
مدرسہ السنہ شرقیہ فرانس کا دوسرا ڈائریکٹر سلوستر دی ساسی تھا جو وہاں عربی کا پروفیسر تھا۔ اُس نے وہاں ہندوستانی زبان (اُردو) کی تدریس کو رواج دیا۔ اِس ضمن میں اُس نے اپنے شاگرد گارسیں دتاسی کو ہندوستان کی زبانوں کی طرف توجہ دلائی جو عربی، فارسی اور ترکی زبانیں پہلے سے جانتا تھا۔ 1838ء میں سلوستر دساسی نے گارسیں دتاسی کو ہندوستانی زبان کا پروفیسر مقرر کر دیا اور ہندوستانی کی یہ پروفیسرشپ اُس کی وفات تک جاری رہی جسے بعدازاں ختم کردیا گیا۔ گارسیں دتاسی کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ہندوستان نہیں گیا بلکہ اُردو کے حوالے سے تمام خدمات اُس نے فرانس میں رہ کر ہی انجام دیں۔ وہ اُردو زبان کے حوالے سے معروف مستشرق جان شیکسپئیر کو اپنا استاد تسلیم کرتا ہے۔ 2 ستمبر 1878ء کو اُس نے پیرس میں وفات پائی اور اپنے آبائی علاقے مارسیلز میں دفن ہوا۔
اُردو زبان و ادب کے حوالے سے گارسیں دتاسی کے نمایاں کاموں میں قواعد ہندوستانی زبان کے ابتدائی اُصول، سالانہ خطبات (1850ء سے 1869ء تک)، مقالات (1870ء سے 1877ء تک)، منتخبات، تاریخِ ادبیاتِ ہندوی و ہندوستانی، تدوین کلامِ ولی، ہندوستان کی شاعرات، لغت، علمِ بلاغت، صرف و نحو، تراجم، تنقید و تبصرے اور وفات نامے وغیرہ شامل ہیں۔ اُس کا اپنا ذاتی کتب خانہ بھی تھا جس میں دنیا کی کئی زبانوں میں لکھی گئی کتابیں موجود تھیں۔ اُن میں اُردو سے متعلق کتابوں، رسائل و جرائد اور اخبارات کی تعداد سب سے زیادہ تھی۔ اُس کی تصانیف کی تعدا د ایک سو پچاس سے زائد ہے۔
اُردو زبان و ادب نے عالمی ادب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور اِسی باعث دنیا کے کئی خطوں میں ایسے جیسے اُردو کی باقاعدہ بستیاں آباد ہیں۔ کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں اُردو نے اپنے ڈیرے نہ ڈالے ہوں، شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں اُردو بولنے والوں کی معقول آبادی نہ بستی ہو۔ اِس صورت حال میں یہ کیسے ممکن ہے اُردو نثر کا عالمی ادب میں حصہ شامل نہ ہو۔
اِس حوالے سے بات کرتے ہوئے نیر جہاں لکھتی ہیں:
“اُردو زبان عجیب و غریب صلاحتیں رکھتی ہے۔ اُس کی تربیت اور ترویج کے لیے صرف محبت کی فضا اور پیار کی آب و ہوا درکار ہے۔ یہ موسم سے بالکل بے نیاز ہے۔ اِسی لیے قطب شمالی کے دامن میں کینڈا، ناروے، سویڈن سے لے کر قطب جنوبی سے لپٹے براعظم آسٹریلیا، Falk Landآئی لینڈ تک اِس کی توانائی اِسی طرح قائم ہے۔ براعظم افریقہ، یورپ اور ایشیا میں کوئی ملک کوئی شہر اُن براعظموں کا نہیں ہے جہاں اُردو کے چاہنے والے نہ ہوں۔ امریکا کے شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پھیلی ریاستوں کے ہر شہر میں اُردو کے پرستار موجود ہیں۔”(2)
بیسویں صدی میں اقبال کی اُردو نثری تصانیف، خطوط، مقالات اور خطبات کی ادبی، سیاسی، تعلیمی، مذہبی اور فلسفیانہ اہمیت کی بنا پر اُنھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ یہاں تک کہ دنیا کی مختلف زبانوں میں اُن کی تحریروں کے تراجم ہوئے۔ بیسویں صدی میں عالمی ادب میں اُردو نثر کے حصے میں اقبال کی تصانیف کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے علاوہ میر ناصر علی دہلوی کی اُردو نثر اور مولانا ابوالکلام آزاد کی اُردو نثر کا شمار بھی عالمی ادب کے شہ پاروں میں ہوتا ہے۔ اُردو نثر میں مکتوب نگاری کی روایت میں غالب کے بعد، اقبال، قاضی عبدالودود، عبدالستار صدیقی اور حافظ محمود شیرانی کے نام نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
اُردو تحقیق کی روایت میں ایک طرف لاہور کے تحقیقی مرکز میں حافظ محمود شیرانی، مولوی محمد شفیع، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی، ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نام نمایاں ہیں تو دوسری طرف پٹنہ کے تحقیقی مرکز میں قاضی عبدالودود کا تحقیقی دبستان ہے جس کی روایت کو آگے بڑھانے میں رشید حسن خاں اور ڈاکٹر گیان چند جین پیش پیش رہے۔ انجمن ترقی اُردو کے پلیٹ فارم سے مولوی عبدالحق کا نام خود میں ایک دبستان کا درجہ رکھتا ہے۔ تیسری جانب اعظم گڑھ کی تحقیقی روایت جس کے بانی مولانا شبلی نعمانی تھے جسے بعدازاں سید سلیمان ندوی نے آگے بڑھایا۔
اُردو داستان کی جانب چلیے تو فورٹ ولیم کالج کا ذکر آئے گا جس نے داستانوں کو رواج دیا اور اُردو نثر میں رواں اور سلیس و سادہ طرزِ بیان کو فروغ دیا۔ میرامن، میر بہادر علی حسینی، میر شیر علی افسوس، نہال چند لاہوری، میر کاظم علی جوان اور للو لال کوی وغیرہ کے ناموں کے علاوہ معروف مستشرق جان گلکرسٹ کا نام اولین حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں نہ صرف اُردو میں تراجم کیے گئے بلکہ اُنھیں یورپ میں بھی منتقل کیا گیا۔ یہی داستان کی روایت بعدازاں انیسویں صدی کے نصف بعد سے اُردو ناول نگاری کی جانب منتقل ہوئی اور اُردو میں کئی بڑے بڑے ناول لکھے گئے۔ اُن معروف ناولوں میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول، رتن ناتھ سرشار کے ناول اورمرزا محمد ہادی رسوا کے ناول نمایاں ہیں۔ بیسویں صدی میں منشی پریم چند، کرشن چندر، عزیز احمد، شوکت صدیقی، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، خالدہ حسین، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، نسیم حجازی، انتظار حسین اور عبداللہ حسین وغیرہ کے نام قدآور حیثیت رکھتے ہیں۔
اِسی طرح افسانہ نگاری میں منشی پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، غلام عباس، کرشن چندر، قرۃ العین حیدر، ہاجرہ مسرور، خالدہ حسین، خدیجہ مستور، انتظار حسین اور منشا یاد وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ اُردو نثر کی روایت میں جہاں تک ناولوں اور افسانوں کا تعلق ہے تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُردو نثر نے عالمی ادب تخلیق دیا جس کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں ہوئے۔ اپنے موضوعات، پلاٹ، اُسلوب، کرداروں، مکالمات، زبان و بیان اور دیگر خصوصیات کی بنا پر اُردو نثر کے یہ نمونے عالمی ادب میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
عالمی ادب کی بدولت اُردو کا معاصر ادبی منظر نامہ تبدیل ہوا ہے۔ اُردو کے معاصر ادب میں عالمگیریت اور عالمی تہذیب و ثقافت کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ مادیت پرستی کی دوڑ نے موجود ہعالمی اخلاقی معیار بھی تبدیل کردیے ہیں۔ یہاں ایک مسئلہ نہایت اہم ہے کہ محض اُس عالمی ادب کے زیرِ اثر ماحول کی عکاسی کی جاتی رہے یا اُس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی صورت حال کا حل بھی پیش کیا جائے۔
اِس ضمن میں ڈاکٹر ناصرعباس نیر نے بھی اپنی ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے جس میں اُنھوں نے ایک سوال کی شکل میں مسئلہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
“کیا موجودہ اُردو/عالمی ادب معاصر زندگی کی تبدیلیوں کی محض عکاسی کررہا ہے یا تبدیلی کے عمل کو سمجھ کر سمت نمائی کا فریضہ بھی ادا کررہا ہے؟”(3)
عموماً زندگی کی تبدیلیوں کی ادب میں محض عکاسی ہورہی ہے مگر چند ایک ادیبوں کے ہاں سمت نمائی کا رجحان بھی ملتا ہے۔ اُردو بولنے والے جو بیرونِ ملک مقیم ہیں اُن کے ہاں اپنے ملک، تہذیب و ثقافت اور زبان سے عموماً زیادہ لگاؤ ملتا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم اہلِ اُردو کے لیے تو اب کئی طرح کی اُردو سروسز دستیاب ہوتی ہیں۔ جیسا کہ وہاں اُردو میں ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر ہوتے ہیں اور وہاں کئی طرح کی اُردو انجمنیں اُردو کے فروغ کے لیے کام کررہی ہیں۔
اِس ضمن میں افتخار عارف کی رائے ملاحظہ کریں:
“وہ لوگ جو بیرونی ممالک میں رہائش پذیر ہیں۔ اُن میں نہ صرف حب الوطنی کا جذبہ اور یکجہتی کا احساس شدت سے پایا جاتا ہے بلکہ اُردو زبان سے اُن کی محبت بھی واضح اور گہری ہے۔ خلیج کی ریاستوں میں اُردو آج رابطے اور عمومی بول چال کی زبان بن چکی ہے۔ چین اور جاپان کی یونیورسٹیوں میں نہ صرف اُردو تعلیم کا بہت اچھا انتظام ہے بلکہ وہاں اُردو میں مقالات بھی لکھے جارہے ہیں۔ برطانیہ، امریکا، کینیڈا، ترکی اور دیگر ممالک میں بھی اُردو کی اعلیٰ تعلیم کا مختلف سطحوں پر باقاعدہ انتظام موجود ہے بلکہ جنوبی افریقہ، ناروے، آسٹریلیا، ماریشس اور دیگر ممالک میں ایسی انجمنیں موجود ہیں جو تہذیبی و سماجی سطح پر اُردو زبان کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہیں۔”(4)
عالمی ادب کی میرے نزدیک سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اُس کے دنیا کی کئی ایک زبانوں میں تراجم ہوتے رہتے ہیں۔ اُن تراجم کی بنیادی وجہ وہ موضوعات ہوتے ہیں جن کا احاطہ اُن تخلیقات میں کیا گیا ہوتا۔ یہاں میں حالیہ کچھ عرصے میں تخلیق پانے والے اُردو فکشن سے کچھ ایسی مثالیں سامنے رکھنا چاہوں گا جس سے عالمی ادب میں اُردو فکشن نثر کا رتبہ بھی ہمارے سامنے واضح ہوجائے گا۔ کلاسیکی ناول کی روایت سے لے کے موجودہ دور کی مابعدجدید روایت تک چند اُردو ناولوں کی اِس ضمن میں مثالیں ملاحظہ ہوں:
1) ڈپٹی نذیر احمد مرآۃ العروس/Mirat-al-Urus
2) مرزا محمد ہادی رسوا امراؤ جان ادا/Umrao Jan Ada
3) ملک راج آنند اچھوت/Untouchable
4) عبداللہ حسین اداس نسلیں/Weary Generations
5) قرۃ العین حیدر آگ کا دریا/River of Fire
6) مستنصر حسین تاڑر اے غزالِ شب/Lenin For Sale
7) شمس الرحمٰن فاروقی کئی چاند تھے سرِ آسماں/The Mirror of Beauty
8) عمیرہ احمد پیرِ کامل/Pir-e-Kamil
عالمی دنیا کے ساتھ مطابقت قائم کرنا آج کے دور میں نہایت ضروری ہے لیکن اِس کے ساتھ اپنی ادبی اور تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنا بھی لازمی ہے۔
اِس ضمن میں آغا افتخار حسین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
“نوآزاد اور پسماندہ اقوام کے لیے تیزی سے بدلتے ہوئے نئے ماحول سے مطابقت پیدا کرنا اور صحیح بیرونی اثرات قبول کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اپنے تہذیبی سرمائے کو برقرار رکھنا اور اُسے ترقی دینا۔ اِن دونوں صورتوں میں سے اگر ایک کو دوسرے کی خاطر قربان کردیا گیا تو یہ قومیں اُسی تیز رفتاری کے ساتھ واماندہ، پسماندہ اور مفلوک الحال ہوتی چلی جائیں گی جس رفتار سے طاقتور قومیں ترقی کررہی ہیں۔”(5)
اِسی طرح افسانوی مجموعے، مضامین اور مقالات کے مجموعے، تاریخی کتب، علمی، تحقیقی، تہذیبی، ثقافتی، نفسیاتی، تاریخی، تنقیدی، لسانی اور کثیرشعبہ جاتی علوم وغیرہ بہت کچھ اُردو نثر سے دیگر زبانوں میں منتقل ہو رہا ہے اور دنیا کی دیگر زبانوں سے اُردو میں منتقل ہو بھی رہا ہے۔ اِس حوالے سے ترجمہ کی زبان بنیادی کردار کی حامل ہے۔ یہاں ترجمہ کے ضمن میں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اُردو سے بالخصوص انگریزی اور بالعموم دیگر زبانوں میں جو تراجم ہوئے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک ایسی قسم ہے جو اُسی مصنف نے ترجمہ کی ہے جو اُردو نثر میں بھی اصل مصنف ہے۔ دوسری جانب ایسے تراجم بھی موجود ہیں جو مستشرقین نے کیے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں اُردو نثر کا حصہ عالمی ادب میں براہِ راست اور تراجم دونو ں کی بدولت شامل ہوا ہے۔
جہاں تک دیگر ممالک خصوصاً مغرب کی بات ہے تو انیسویں صدی ایک ایسا دور ہے جب اُردو زبان و ادب پر اہلِ مغرب بالخصوص یورپ والوں نے بہت زیادہ توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ اُس دور کے یورپ میں اُردو کے کئی مراکز قائم ہوئے۔ اُن اُردو مراکز کے تحت کئی اُردو کتابوں کے مغربی زبانوں میں تراجم کیے گئے۔ انگریزی کے علاوہ اُن یورپی زبانوں میں فرانسیسی اور جرمن زبانیں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔ یورپ کے اُن نمائندہ اُردو کے مراکز میں ہیلی بری کالج(لندن)، یونیورسٹی کالج(لندن)، کنگز کالج(لندن)، چیلٹنہم کالج گلوسٹر(لندن)، آکسفورڈ یونیورسٹی(آکسفورڈ)، کیمبرج یونیورسٹی(کیمبرج)، رائل ملٹری اکیڈمی(ولوچ)، رائل ملٹری اکیڈمی(کیمبرلے)، ٹرنٹی کالج(ڈبلن)، ایٹن کالج(ونڈسر)، انڈن برگ کالج(اسکاٹ لینڈ)، مدرسہ السنہ شرقیہ(پیرس) اور مشرقی علوم کا ادارہ(نیپلز) شامل ہیں۔
اُن یورپی اداروں سے متعلق ڈاکٹر سید سلطان محمود حسین لکھتے ہیں:
“اُن درس گاہوں سے یورپ کے لوگ اُردو زبان و ادب سے بہرہ ور ہو کر ہندوستان کی وسیع سرزمین کا رخ کیا کرتے تھے اور تاجِ برطانیہ کی ہندوستان پر سیاسی گرفت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوتے تھے۔ اُن لوگوں نے اُردو سیکھ کر اور سکھلا کر،اِس سے سیاسی، مالی اور مذہبی فائدے حاصل کیے اور اِس طرح اُردو زبان غیر شعوری طور پر پھلی پھولی۔”(6)
عالمی ادب کی ایک دلکش شکل آج کے نشریاتی ادارے ہیں جن میں ریڈیو، ٹیلی وژن اور انٹرنیٹ سرِ فہرست ہیں۔ اُردو اِس وقت اپنی آبادی کے اعتبار سے دنیاکی تیسری بڑی زبان ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک کے اپنی نشریاتی پروگرام چل رہے ہیں۔ بھارت میں آل انڈیا ریڈیو، برطانیہ میں بی بی سی اُردو سروس، چین میں چائنا ریڈیو انٹرنیشنل، جرمنی میں ڈؤچے ویلے، ایران میں تہران انٹرنیشنل اور زاہدان، اور امریکا میں وائس آف امریکا اُردو جیسے معروف نشریاتی ادارے اپنی اُردو سروس مستقل بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔ یہ اور ایسے دیگر ادارے اُردو نثر کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ عالمی ادب کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ ادارے مختلف ادبی پروگرام بھی نشر کرتے ہیں اور اُردو کے ایسے ادبی پروگرام عالمی ادب کا لازمی حصہ ہیں۔
اُردو نثر میں غیر افسانوی ادب کی اگر بات کی جائے تو اِس میں نہ صرف نظری تنقید بلکہ عملی تنقید کے بھی بہترین نمونے ملتے ہیں۔ اِس حوالے سے مصدقہ معلومات کی دستیابی ناگزیر ہوتی ہے جس کے لیے حقیقی مصادر کی تلاش جاری رہتی ہے۔ یہ مصادر ضروری نہیں کہ اپنی زبان کے ہی ہوں بلکہ اکثر صورتوں میں مصادر غیرزبانوں سے بھی لیے جاتے ہیں۔ اُردو تنقید کی یہ خوبی ہے کہ اِس میں ناقدین نے غیرزبانوں بالخصوص انگریزی ادب کے بعض شہ پاروں کے بھی تنقیدی جائزے پیش کیے ہیں۔ اِس کے علاوہ بعض صورتوں میں غیرزبانوں کے ادب پاروں اور اُردو کے ادب پاروں کا تقابلی مطالعے بھی پیش کیے گئے ہیں۔
جہاں تک تنقیدی نظریات کی بات ہے تو اُردو نثر کی بدولت نہ صرف اُن کی تفہیم کی گئی ہے بلکہ اُن کا اطلاق بھی کیا گیا ہے۔ ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت، مابعدجدیدیت، تانیثی مطالعات، مابعد نوآبادیاتی مطالعات اور عالمگیریت پر مبنی ادب و تنقید اُردو نثر کے باضابطہ موضوعات بن چکے ہیں۔ عالمی سطح پر اِس وقت کوئی ایسا نظریہ موجود نہیں جس کی تفہیم اُردو نثر کے ذریعے نہ ہوئی ہو۔اِسی طرح تراجم کی بدولت ایک طرف علمی و ادبی سرمایہ ایک سے دوسری زبان میں منتقل ہورہا ہے تو دوسری جانب زبانوں میں الفاظ و اصطلاحات کے اعتبار سے وسعت آرہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالستار نیازی کے نزدیک بدیسی ادب کے اُردو تراجم کی وجہ سے اُردو جاننے والے عالمی برادری کا حصہ بن چکے ہیں۔(7)پھر اُسلوب کے مختلف رنگ زبانوں کے مابین پھیل رہے ہیں۔
آج عالمی ادب میں ہمیں اُردو نثر کا جو حصہ دکھائی دیتا ہے، اُس کے پیچھے ہر پل بدلتی دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے کی اُردو نثر کی مکمل صلاحیت موجود ہے۔ اُردو ادب نے زمانے کے بدلتے فکری رجحانات کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو نثر نے تقابلی مطالعے کی روایت میں وسعت پیدا کی ہے۔ اُردو نثر کی خاص بات ہے کہ یہ کبھی عالمگیر تقاضوں سے الگ تھلگ نہیں رہی بلکہ ہر علمی، ادبی، تاریخی، تہذیبی، ثقافتی، سماجی، سائنسی، تعلیمی اور لسانی موضوع کی اپنے ذریعے اشاعت کی ہے۔ یہاں ایک اور بات قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے خطے میں جو تہذیب اور ادبی مزاج پروان چڑھا ہے اُس میں مسلم تہذیب کے علاوہ دیگر مقامی تہذیبوں کے اثرات کے ساتھ ساتھ مغربی تہذیب کے اثرات بھی نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اِس لیے یہاں سے جو اُردو نثر تخلیق پاتی ہے، اُس کے بیشتر شہ پارے لامحالہ عالمی ادب کا حصہ بنتے ہیں۔
٭٭٭
حواشی و حوالہ جات
(1) حنا،زاہدہ(2010ء) نوبیل ادبیات (مترجم باقر نقوی)، کراچی،اکادمی بازیافت،فلیپ۔
(2) جہاں،نیر(2008ء) افتتاحی خطبہ، مشمولہ اُردو کی نئی بستیاں،مرتبہ گوپی چند نارنگ،لاہور، سنگِ میل
پبلی کیشنز،ص9۔
(3) نیر،ناصرعباس(2018ء) مابعدجدیدیت:نظری مباحث،لاہور،سنگِ میل پبلی کیشنز،ص214۔
(4) عارف،افتخار(پیش لفظ)،(1996ء) بیرونی ممالک میں اُردو، مرتبہ انعام الحق جاوید،اسلام آباد،مقتدرہ
قومی زبان،ص5۔
(5) حسین،آغا افتخار(2010ء) یورپ میں تحقیقی مطالعے،طباعت دوم،لاہور،مجلس ترقی ادب، ص30۔
(6) حسین،سیدسلطان محمود(2014ء) یورپ میں اُردو کے مراکز انیسویں صدی میں،لاہور،مغربی
پاکستان اُردو اکیڈمی،ص3۔
(7) نیازی،عبدالستار(2019ء) بدیسی ادب کے اُردو تراجم اور عالمگیریت،مشمولہ عالمگیریت،ثقافت اور
ادب مرتبہ حنا جمشید، فیصل آباد،مثال پبلشرز،ص76۔
٭٭٭
ماشاءاللہ بہت زبردست تحریر ہے اردو کو عالمی سطح پر لانے کی اچھی کاوش ہے