ڈاکٹر غزالہ پروین
لیکچرر (عربی) ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن ، اورنگ آباد
عربی ادب میں تانیثیت :ایک تعارف
’ادب ‘ سماج کا عکاس ہوتا ہے اور ہماری زندگی کا ترجمان ہوتا ہے ۔ دراصل انسانی تخیلات و تفکّرات اور احساسات کے فنی اظہار کا نام ادب ہے ۔ ادب سماج سے متاثر ہوتا ہے اور سماج کو متاثر بھی کرتا ہے۔ انسانی زندگی کے مختلف مسائل ‘مشکلات ‘ سکھ دکھ غرض زندگی کے ہر رنگ کا اظہار ہمیں ادب میں ملتا ہے۔ گویا حیات و کائنات کی ترجمانی وعکاسی ہمیں ادب کے توسط سے ہی بازیافت ہوتی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حیات و کائنات کی ہرچیز ارتقاء و تغیّر پذیر ہوتی ہے۔لہذا اس تغیّر و تبدّل سے ادبیاتِ عالم کا اثر پذیر ہونا نا گریز ہے۔ ادب حیات ِ انسانی کے تمدّن و ارتقاء کا ضامن ہوتا ہے اور اقوام کے اندازِ فکر او رطریقہ ٔ عمل کی تہہ در تہہ تاریخ کا گواہ ہے۔ گویا ادب نوعِ انسانی کے علوم کا مصدر ہوتا ہے۔ ادبیاتِ عالم پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں ہر قوم کے تہذیب و تمدّن ‘نشیب وفراز ‘ ترقّی و تنزّل کا اندازہ صرف اور صرف اس قوم کے محفوظ شدہ ادب سے ہوتا ہے۔ ادب حیات و کائنات کے عناوین سے اس طرح مربوط ہوتا ہیکہ اس کے بغیر ادب کا تصوّر ہی نا ممکن ہے ۔ گویا سماج او رادب ایک دوسرے کے لیے لاز م و ملزوم ہیں۔ دنیا میں مُرورِایّام کے ساتھ ساتھ جوں جوں سماج ارتقاء و تغیّر پذیر ہوتا گیا ادب نے بھی اپنے دامن کو وسیع کیا اور نئے افکار و رجحانات کو اپنے اندر سمولیا اسی لئے سماج کے بے شمار عناوین ادب کا حصّہ بنتے ہیں۔بیسوی صدی کی ابتداء ہی سے جہاں سائنس و دیگر علوم و فنون میں تیزی سے ترقّی ہوئی وہیں افق ِ ادب پر بے شمار نئے رجحانات و افکار اطلوع ہونے لگے ۔ جس کی وجہ سے نئے نئے موضوعات و عناوین ادب میں شمولیت اختیار کر نے لگے ۔یو ں تو بے شمار موضوعات ہیں جو روز بروز ادب کا حصّہ بن رہے ہیں۔ تانیثیت (Feminism ) بھی ان نئے موضوعات میں سے ایک اہم او رقابلِ توجہ موضوع بن گیا ہے۔
چونکہ سماج کی تشکیل انسانوں کے اجتماعی عمل سے ہوتی ہے اور ا س اجتماعی عمل میں مرد و عورت دونوں برابر کے شریک ہیں ۔ عورت اور مرد سما ج کی گاڑی کے دو پہیے کی طرح ہیں۔ دونوں کے بغیر ارتقاء کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا ۔ لیکن ادبیات عالم کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہیکہ ہر دور میں ہر قوم میں عورتوں کے ساتھ سماجی ‘ سیاسی‘ اقتصادی‘ اور مذہبی نا برابری اور عدم مساوات کا رویہّ اپنایا گیا ۔ خواتین کے تئیں یہ عدم مساوات تانیثی احتجاج و تحریک کا سبب بنی ۔ لہذا ہم ادبیات ِ عالم کے پس منظر میں دیکھتے ہیں کہ وقتاً فوقتاًیہ احتجاج و تحریک شدّت اختیار کرتی گئی۔عالمی ادب کی طرح اُردو ادب میں بھی خواتین کے ساتھ عدم مساوات کے خلاف بہت سے ادباء و شعراء نے قلم اٹھایا ۔ خواتین او ران کے مسائل پر بہت کچھ لکھا گیا ۔ ان ادباء و شعراء نے عورت کے تشخص اور حقوق کی بازیافت کے لیے کوشیشیں کیں۔ اسی طرح جہاں تانیثی ادب پر بہت سارے ادباء و شعراء اپنے تفکرّات او ررجحانات کو سپردِ قلم کر رہے تھے وہیں خواتین ادباء اور شعراء کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے ادب کو مختلف النوع مضامین سے مالا مال کیا ۔
تانیثی ادب کو مختلف ادوار میں مختلف معانی و مفاہیم میں سمجھا جاتا رہاہے۔ لیکن گذشتہ چند دہائیوں سے تانیثیت کے مفہوم کو وسعت و کشادگی کے ساتھ ادب میں برتا جانے لگا ہے۔ تانیثیت جس کا ارتباط و اطلاق صرف او رصرف طبقۂ اناث سے ہو لہذا تانیثی ادب وہ ادب ہوتا ہے جس میں مردو زن خواتین کے سماجی ‘سیاسی ‘ اقتصادی ‘ مذہبی اور ایسے ہی بے شمار موضوعات کو زیرِ بحث لا کر خواتین کے حقوق کی بازیافت کے لیے تحریراً و تقریراً مدلّل مخاطبہ کی تشکیل کریںاور سماج میں ان کے مساویانہ حقوق کے لیے پیش رفت کریں۔ تانیثی ادب کی اساس ہی خواتین کے موضوعات و مسائل او ران کے حل پر مبنی ہے ۔ خواتین کے متعلق یہ ادب خواہ خواتین کا تحریر کردہ ہو یا طبقہ ذکور کی جانب سے تخلیق کردہ ہو تانیثی ادب کہلاتا ہے ۔ اسی طرح ادب کی وہ جہت جو صرف او رصرف خواتین کے تجربات ‘ احساسات ‘ تفکرات و تاثّرات کی ترجمان ہو جس میں نسائی محسوسات کا اظہار کیا گیا ہو۔ خالص نسائی ادب سے تعبیر ہوگا ۔
کچھ صدیوں پہلے ہمیں تانیثی ادب کے قد وخال تو ضرور ملتے ہیں لیکن نسائی ادب عنقا رہا ہو سکتا ہے کہ نسائی محسوسات اصناف ادب میں کسی نہ کسی رنگ میں شامل ہوں۔ لیکن اسے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا گیا ۔کیوں کہ ادب کی تشکیل میں بھی ہمیشہ تذکیری رویّہ غالب رہا ۔ لیکن بیسوی صدی میں جہاں خواتین زندگی کے ہر شعبہ میں مرد وں کے شانہ بہ شانہ اپنی شمولیت درج کرا رہی ہیں وہیں ادبی میدان میں بھی وہ اپنی موجودگی درج کراتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اُردو ادب میں ایسی بہت سی خواتین ہیں جنھوں نے ادب کی بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی اور پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے مسائل و موضوعات کو ادب میں برتا ‘لہذا تانیثی شعور او رنسائی حِسّیت ان خواتین کی تخلیقات ادب کا حصّہ بننے لگی ۔ ان خواتین نے پدری نظام ِ جبر کو اپنا موضوع بنایا اور اس مرد اساس معاشرے میں خواتین کے سماجی ‘ سیاسی ‘ اقتصادی او رمذہبی حقوق کی بازیافت کے لیے کوشیشیں کیں ۔ ان کی تحریروں میں نسائی حِسّیت اور تانیثی تشخّص پور ے طور پر نظر آتا ہے۔ ان خواتین شعراء میں قابلِ ذکر ادا جعفری ‘ کشور ناہید‘ فہمیدہ ریاض ‘ پروین شاکر ‘ ترنّم ریاض ‘ زاہدہ زیدی‘ساجدہ زیدی ‘ شفیق فاطمہ شعریٰ وغیرہ شامل ہیں ۔ اسی طرح خواتین ادباء میں جن کی تحریر یں مرد اساس معاشرے پر کاری ضرب لگاتی ہیں ان میں قرۃ العین حیدر‘ ڈاکٹر رشید جہاں ‘ عصمت چغتائی ‘ صالحہ عابد حسین ‘ خدیجہ مستور‘ واجدہ تبسّم ‘ ھاجرہ مسرور وغیرہ شامل ہیں۔دراصل اُردو ادب میں خواتین ادبا ء و شعراء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے خواتین کے حقوق اور پائیداری پر زور دیا ۔
اسی طرح جب ہم عالمی ادب پر نظر کرتے ہیں تو دنیا کی کچھ ادبیات ایسی ہیں جن میں تانیثیت یا نسائیت کے خدوخال ہمیں مفقود نظر آتے ہیںبلکہ اکیسویں صدی میں بھی چند ممالک کا ادب تانیثیت کے تشخص اور نسائیت کے شعور سے عاری ہے ۔ ان ہی ادبیات میں ایک ادب عربی ادب ہے ۔ قدیم عربی ادب تو تانیثیت و نسائیت کی اساس سے بھی محروم تھالیکن انیسویں صدی کی ا بتداء میں چند عرب ممالک ایسے ہیں جہاں ادب کو نئے زاویۂ نگاہ سے برتا او رجانچا جانے لگا ۔ قدیم عربی ادب کے مقابل جدید عربی ادب میں ہمیں وقتاً فوقتاً عرب کے چند ممالک میں تانیثیت کی گونج سنائی دیتی ہے۔
لہذا عربی ادب میں تانیثی خد وخال کی اگر ہم بات کریں تو ہمیں جدید عربی ادب کی جانب ہی رخ کرنا ہوگا ۔ کیوں کہ عربی ایک قدامت پسند قوم تھی ۔ ان کی قدامت پسندی او ربدویانہ مزاج زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھا ۔ خواتین کے تعلق سے ان کا رویّہ ہمیشہ جارحانہ رہا۔اسلامی تہذیب و تمدّن کے بعد ا س رویّے میں تبدیلی ضرور آئی لیکن قدیم عربی معاشرہ میں ہمیں خواتین کی وہ احتجاجی تحریریں و تقریریں نہیں ملتیں جس سے ہم اندازہ لگا سکیں کہ وہ مرد اساس معاشرہ سے نالاں تھیں ۔ عربی ادب کا حال بھی ٹھیک اسی طرح ہوا ہوگا جیسا کہ اردو ادب کا ۔ چند صدیوں کی تاریخ دیکھی جائے تو نسوانی آوازیں ہمیں خال خال سنائی دیتی ہیںیا کچھ خواتین نے نسائیت کے زیر اثر کچھ ادب تخلیق بھی کیا ہو ۔ لیکن ان خواتین کاکوئی بھی نثری و شعری فن پارہ لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا ۔ ٹھیک اسی طرح قدیم عربی ادب میںبھی تانیثی مزاج پوری طرح مفقود نظر آتا ہے۔لیکن اس کے بر عکس جدید عربی ادب جس کا نقطۂ آغاز انیسویں صدی کی ابتداء کو قرار دیا جا سکتا ہے یعنی ۱۷۹۸ء سے ۱۸۰۱ء مصر پر نپولین کے حملے سے شروع ہوتا ہے ۔ نپولین کا مصر میں قیام تقریباً تین سالوں پر مشتمل تھا ۔ نپولین کی آمد سے بے شمار سماجی ‘ اقتصادی‘ادبی ‘معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔مصری معاشرہ جو نپولین کی آمد سے پہلے سیاسی ‘ سماجی ‘ اقتصادی ‘ تعلیمی و ادبی غرض زندگی کے تمام شعبہ جات میں پوری طرح جمود و تعطل کا شکا ر تھا ۔ ایسے پسماندہ و قدامت پسند معاشرے میں کسی مغربی حکمراں کی آمد گویا اندھیرے میں ایک دئیے کے مترادف تھی جہاں زندگی کے بے شمار شعبہ جات ان کی آمد سے متاثر ہوئے وہیں تعلیمی و ادبی تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔جدید تعلیمی نظریات و ادبی افکار سے مصری عوام روشنا س ہوئیں۔مغربی عوام سے اختلاط کے نتیجے میں انہیں ا س بات کا شدّت سے احساس ہوا کہ تمام مغربی اقوام کی ترقّی و ارتقاء کا ا نحصار صرف او رصرف علم و فن پر ہے۔ بغیر تعلیم کے مصری اور دیگر عربی عوام کی ترقی نا ممکن ہے۔ انہی افکار و نظریات کے زیر اثر انہوں نے دنیا کی دوسری اقوام سے اپنا موازنہ کیا۔مصری عوام کو مغربی اقوام سے اختلاط کا موقع ملا ۔ نپولین کے بعد تقریباً آٹھ دہائیوں کے بعد انگریزوں کا مصر پر حملہ اور مصر میں ان کی حکمرانیت کا دور انیہ جو تقریباً چالیس سالوں پر مشتمل ہے۔
مغربی عوام سے اختلاط کے نتیجے میں مصری عوام میںنظر یہ قومیت ‘ وطنیت پیدا ہوا اور یہ جذبہ ٔ بیداری آگے چل کر ترقی و ارتقاء کا سبب بنا اور وہاں جدید افکار و نظریات پنپنے لگے ۔ ا نہیں اپنی کم مائیگی کا شدید احساس ہوا ۔ انہوں نے دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے اپنے آپ کو بہت پسماندہ پایا ۔لہذا یہی وہ تمام سیاسی و سماجی صورتحال تھی جس کی وجہ سے تعلیمی و ادبی بیداری پیدا ہوئی۔ مغربی ادب کی بے شمار کتابوں کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔ انہوں نے مغربی ادب کا تجزیہ کیاجس کی وجہ سے انہیں اپنا ادب فرسودہ و جامد محسوس ہوا ۔ لہذا اس جمود و تعطّل کی زنجیروں کو توڑنے کی خاطر مصر او ر دیگر عرب ممالک میں جدید تعلیمی و ادبی رجحانات پر وان چڑھنے لگے ۔ ان جدید افکار و نظریات کے حاملین ادباء و شعراء میں جہاں طبقہ ٔ ذکور شامل ہونے لگا وہیں کچھ مصری و عرب خواتین کی بھی اس جدید عربی ادب میں شمولیت ہونے لگیں۔ حالانکہ عربی شعراء و ادبا ء کی فہرست مرتّب کریں تو خواتین کی تعداد کافی کم نظر آئے گی اور ان میں بھی اُن خواتین کی تعداد کافی کم ہے جو تانیثیت کی علمبردار ہیں ۔ ان خواتین میں نسائی حسّیت او ر تانیثی شعور کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ وہاں کا مرد اساس معاشرہ ہے جہاں زندگی کے تمام شعبہ جات میں خواتین عدم مساوات کا شکارر ہیں۔ جدید عربی ادب کے ارتقاء کے ساتھ عربی ممالک خصوصاً مصر میں کچھ خواتین ایسی گذری ہیں جنہوں نے عد م مساوات کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان کی تحریروں میں نسائی حسّیت او رتانیثی شعور کو بلا مبالغہ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ کچھ عرب خواتین تو ایسی ہیں جن کی تحریروں میں احتجاجی و مزاحمتی رویّہ کار فرما ہے۔ ان ہی ادب شناس مصری خواتین میں تانیثی شعور لئے ایک معروف ادیبہ و شاعرہ ہیں جن کا اصل نام مَلَکْ حِفنی ناصِفْ تھا لیکن ادبی دنیا میں انہیں ’’الباحثُ البادیہ‘‘ کے نام سے شہرت ملی۔
باحثہ البادیہ کی پیدائش ۱۸۸۶ء میں قاہرہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی۔والد محمد حفنی ناصف جو جدید عربی ادبی تحریک کے ایک محکم ستون سمجھے جاتے تھے ۔ یکے بعد دیگرے کئی اہم او ر معزّزمناصب پر فائز ہوتے رہے۔بحیثیت معلّم‘بحیثیت جج کے علاوہ آپ قاہرہ میں وزیر تعلیم بھی مقرّرکئے گئے۔حفنی ناصف ایک ادب شناس و ادب پرور انسان تھے ۔ اپنی علمی کاوشوں سے ادب کی بہت سی اصناف پر طبع آزمائی کی ۔نثری و شعری اصناف پر بہت سی کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ حفنی ناصف کی عربی زبان کے قواعد کی کتابیںبہت ہی مستند اور راجح مانی جاتی ہے جو مختلف جامعات میں شامل ِنصاب ہیں۔ لہذاایسے علمی و ادبی گھرانے میں ملک ناصف (باحثے البادیہ) کی ذہنی پر ورش ہوئی۔
باحثہ البادیہ انیسوی صدی میں مصر کی وہ مایہ ناز خاتون تھیں جن کی نگارشات جدّتِ فکر ‘ نسائی محسوسات او رسماجی و معاشرتی نسائی ترجیحات سے مخاطب ہیںاور غالباً پہلی مصری خاتون ادیب تھیں جن کا تخلیقی مخاطبہ خالص نسائی ہے وہ گیارہ برس کی عمر میں شاعری کرنے لگی تھی او رشاعری کے بعد انشا نگاری کی طرف متوجہ ہوئیں۔ آزادیٔ نسوا ں کے موضوع پر تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ اس موضوع پر جو مقالے لکھے وہ ’’انّسائیات ‘‘ نامی کتاب میں شامل کیے گئے جو شائع ہو چکے ہیں۔ اپنی عمر کے آخری حصّے میں ’’حقوق النّساء‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھنے میں مصروف تھیں۔ گویا تانیثی فکر کی نمائندہ واحد مصری خاتون تھیںجو شعوری طور پر حقو ق النّساء پر نہ صرف سنجیدگی سے غور و فکر کر رہی تھیں بلکہ باقاعدہ اس موضوع پر لکھنے لگی تھیں۔لہذا تانیثیت پر ان کا نثری کلام و منظوم کلام تانیثی ادب میں ایک اہم شمولیت ہے ۔ حقوقِ نسواں کی پر زور طرفداری و جانب داری درج ذیل قصیدہ سے سمجھی جا سکتی ہے۔
نمبر. اشعار. ترجمہ
۱
ٓأ عَمِلَتْ اَقْلَا میِ وَحِیْناً مَنْطِقیِ
فیِ الْنصحِ والمأمو ل لم ْ یَتْحَفَقْ
(۱) میں نے صنف نازک کی بھلائی میں اپنے قلم او رزبان (گفتگو) کو کبھی پیچھے نہیںرکھّا۔
جب کبھی صنفِ نازک کے حقوق کی بات ہو میرا قلم او رمیرا احتجاج برابر جاری رہے گا لیکن اب تک میری یہ تمنّا پوری نہیںہوئی۔
۲
اَیَسْوء کُمْ اَنْ تَسمَعُولِبَنَا تِکُمْ
صوتاً یَھزُّ صداہ‘ عطفُ اَلمشْرِقِ
(۲) ائے طبقۂ رجال! کیا تمہیں اپنی خواتین او ربیٹیوں کی آواز او رگونج بری معلوم ہوتی ہے
طبقۂ نسواں کی یہی احتجاجی آواز مشرق میں ہلچل او ر رغبت پیدار کرتی ہے۔ کیا تم عورتوں کی کامیابی و ترقّی سے خوفزدہ ہو
أیَسُرُّ کُم اَنْ تَسْتَمِرَّ بنا تَکُمْ
رھن الا سار و رھن جَھلَ مَطَبقِ
(۳) کیا یہ بات تمہیں پسند ہے کہ تمہاری بیٹیاں بغیر تعلیم حاصل کئے قید میں پڑی رہیں
او رزندگی میں جہالت اور ناخواندگی کا شکار رہیں۔
۴
ھَلْ تَطلبُونَ مِنَ البناتِ سُفُورھا
حَسَنْ و لَکِنْ اَیْنَ بینَکُمْ التقیٰ
۴)کیا تم اپنی بیٹیوں سے پردہ کا مطالبہ کرتے ہو ۔ ٹھیک ہے ! لیکن جس طرح تم اپنی بیٹیوں سے اس کی توقع کرتے ہو۔ کبھی تم اپنے بارے میں بھی سوچ کرو کہ تم کتنے پرہیز گار او رنیک ہو۔
۵
لَا تَتَّقی الفتیات کشف وُجُوھِھَا
تَکِنْ فساد الطّبع مِنکُمْ تَتَّقی
(۵) دراصل ہمارے سماج کی بیٹیاں اپنے چہرہ کو کھولنے سے نہیں ڈرتی ۔ مردوں کے شر سے بچنے کے لئے ایسا کرتی ہیں۔ لڑکیوں کو اپنا چہرہ کھولنے میں کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہیں بلکہ وہ تمہاری شر پسند طبیعتوں اور مکر و فریب کی عادتوں سے پریشان ہیں۔
۶
تَخْشیٰ الَفَتاۃُ مَھْبَا ئلاً منصُوبَۃ
غَثِیْتُموھَا فیِ اْلکَلام برونقِ
(۶)لڑکی تو تمہار مکر وفریب سے گھبرائی ہے ۔ تمہاری بناوٹی او رحسین گفتگو جس کے ذریعے تم لڑکیوں کو فریب دیتے ہو ۔ لہذا لڑکیاں اس مکر و فریب سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتی ہے۔
نمبر اشعار. ترجمہ
۷
لا تَطْمَرُوایَلْ اَصْلِحُوا فسیاتِکُمْ
و بنا تکُمْو تَسَابَقُو لِلا لیق
ائے مَردو ں! تم چال بازی نہ کرو بلکہ انتہائی سنجیدگی سے عورتوں او رلڑکیوں کے معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرو۔ بلکہ ان مردوں سے ایک مشورہ ہے جو عورتوں کے معاملات میں انتہائی تنگ نظری کا ثبوت دیتے ہیں۔ عورتوں کے معاملات کو جانے دو اسے چھوڑ دو اگر تم اتنے سنجیدہ ہو تو دوسرا کوئی خیر خواہی کے کام کرو۔
۸
و دَعُو النِّسَا ئَ و شَأنَھُنَّ فَاِنّمَا
یَدْرِی الخلّا صِ مِنَ الشّقاوۃِ مَنْ شقیٰ
کیو ں کہ عورتوں کے معاملات کو تم نہیں سمجھ سکتے اسے چھوڑ دو ہر دور میں تم طبقۂ نسواں کے معاملات کو لیکر ہمیشہ تنگ نظری او رکوتاہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہو۔ لہذا تم اس معاملے سے نکلنے کی کوشش کرو۔ کیوں کہ تمہیں ہی عورتوں کے معاملات کو لے کر بہت سارے شبہات ہیں اور جو بد بختی او رشبہات میں گھرا ہوا ہے۔وہی اسے دور بھی کرے ۔
۹
لَیْسَ السّفُورِ مَعَ العِفَافِ بِضَائِرِ
و بِدُ ؤنِہِ فَرطْ التّحَجَبْ لَا یَقْیِ
یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لو کہ اگر عورت بے پردہ عفّت کے ساتھ رہ کر سماج کے سبھی کاموں میں مردوں کا ہاتھ بٹائے تو کوئی بری بات نہیں ہے۔ بلکہ بہترین اور احسن ہے ۔ لیکن اگر عورت سات پردوں میں رہ کر بھی کوئی غلط او رنا پسندیدہ کا م انجام دے تو اس سے بری اور کیا بات ہوسکتی ہے۔
ملک ناصف نے اپنی تحریروں کے ذریعے مصری سماج کی فرسودہ و جامد روایتوں کو للکارا ہے۔ ان کا یہ احتجاج تحریراً و تقریراً دونوں طرح کا تھا ۔ تحریر کی طرح انہوں نے اپنے مخاطبے میں بھی ہمیشہ حقو ق نسواں پر زور دیا ہے ۔ انہوں نے مرد اساس معاشرے پر کاری ضرب لگائی یہ کہتے ہوئے کہ مردانہ سماج اپنی تنگ دلی او رتنگ نظری کے سبب طبقۂ نسواں پر بے جا پابندیاں عائد کرتا ہے۔ حالانکہ برائیوں میں خواتین کی بہ نسبت طبقۂ ذکور زیادہ ملوث ہے۔ ان کی نیتوں میں دراصل کھوٹ ہے۔ اپنے آپ کی اصلاح کرنے کے بجائے یہ مرد اساس معاشرہ ہر طرح سے عورتوں پر زیادتی کرتاہے۔ اسی طرح مذہب کی آڑ میں بے جا پابندیاں عائد کرتا ہے۔ ان بے جا پابندیوں کی وجہ سے طبقۂ نسواں بہت سی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ حتی کہ بنیادی تعلیم و تربیت جو ہر مرد و عورت کا حق ہے اس سے بھی عورتیں محرو م کر دی گئیں۔ مصر کے اس پسماندہ معاشرہ کا دکھ لئے ناصف مردانہ سماج کو برابر للکارتی رہیں اور تحریری و تقریری انداز میں اپنا احتجاج درج کرتی رہیں۔ ناصف کا یہ احتجاج کبھی کبھی بہت شدّت اختیار کر گیا ۔ اسی کے ساتھ ناصف نے خواتین سے مخاطبت میں پردہ کی اصل وجہ کی جانب اشارہ کیا ہے کہتی ہیں :
’’پردہ دراصل عورت کی عفّت و پاکدامنی کا ضامن ہوتا ہے‘لیکن اگر پردے میں رہ کر کوئی غلط کام کیا جائے تو پردے کی اصل روح مجروح ہوگی او راس کا مقصد فوت ہو جائے گا عورت با پردہ ہونے کے بجائے با عفّت ہو نا چاہیے کیوں کہ پاکدامنی معاشرے میں برائیوں کو دور کرتی ہے۔‘‘
ملک ناصف کی تحریروں کا اگر تجزیہ کیا جائے تو وہ پر مغرب پرستی کو مکمل طورمعیوب سمجھتی تھیں۔ ان کا نظریہ تھا
کہ ترقی ٔ نسواں او رآزادیٔ نسوا ں یہ نہیں کہ عورت مکمل طور پر مغرب زدہ ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ ناصف کے یہاں ہمیں حقوقِ نسواں مشرقیت او رحیا و پاکدامنی کے ساتھ لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔ وہ معاشرتی معاملات میں نہ تو قدامت پرستی کی حامی تھیں او رنہ ہی آزادیٔ نسواں کے نام پر مغربیت آشنا ماحول کی طرف دار تھیں۔ ملک ناصف جب تک زندہ رہیں مصری خواتین کی تعلیم پر انہوں نے بہت زور دیا ۔ ناصف سماج کی روایتوں سے بہت نالاں تھیں۔ خواتین کی نا خواندگی ‘ کم سنی کی شادی ‘ کثیر زوجگی ۔ حقِ طلاق ‘مذہب کی آڑ میں خواتین پر بے جا پابندیاں وغیرہ گویا پدرانہ سماج میں رائج بہت سی رسومات جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ انہوں نے مرد اساس معاشرے کے لیے ایسے بہت سے خرافات و شبہات کو ختم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
ملک ناصف ہمیشہ اس بات پر زور دیتی رہیں کہ تعلیم کے بغیرمصری معاشرہ تہذیب و تمدّن او رترقّی سے کبھی ہم کنار نہیں ہو سکتا ۔ خصوصاً عورتوں کی تعلیم و تربیت کو لے کر انہوں نے ہمیشہ حمایت کی ۔ مصری معاشرے میں رائج حقِ طلاق کا غلط استعمال او راس بارے میں عورتوں کی رضا مندی کو قابلِ قبول نہ سمجھنا اسی طرح کثیر زوجگی ان تمام معاشرتی مسائل و معاملات پر ناصف نے دل کھول کر لکھا ہے ۔ اور خواتین کے لیے مساویانہ حقوق کا مطالبہ کیا ۔دراصل ناصف کی پیدائش ایک ایسے دور میں ہوئی تھی جب مر د اساس معاشرہ میں عورتوں کے حقوق کی سر گرمیاں اپنے عروج پر تھیں۔ ملک ناصف کی طرح دوسری مصری و عربی خواتین بھی اس وقت کے جامد معاشرے میں خواتین کے حقوق او رمساویانہ سلوک کی تائید و حمایت کر رہی تھیں۔جیسے می زیادہ ‘ ھُدیٰ ‘ شِعراوی ‘ بنویہ موسیٰ‘ فاطمہ الیفہ ‘ عائشہ تیمور‘ مریم بغدادی ‘ الیلی ابو زید وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
تانیثیت کی علمبردار خواتین میں کچھ مرد بھی شامل ہوئے۔ جیسے محمد عبدہ ‘ جمیل صدقی زھاوی ‘ قاسم امین وغیرہ جنہو ںنے خواتین کے حقوق کے لیے حتی المقدور کو ششیں کیں۔ ان تمام علمبرداروں کا ایک ہی نعرہ تھا ‘ وہ یہ کہ ’’ تعلیم ہی کے ذریعے مصری وعربی معاشرہ کی اصلاح ممکن ہو سکتی ہے او راس تعلیم کی افادیت مرد کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی ملنی چاہیے تاکہ خواتین اپنے حقوق کی بازیافت کر سکیں۔ ‘‘ ملک ناصف نے خواتین کے لئے مفت تعلیم کے انتظام کا مطالبہ کیا ۔ ساتھ ہی مروّجہ تمام شعبہ جات خصوصاً شعبہ طب میں خواتین کی شمولیت پر زو ر دیا۔ زبردستی و کم سنی کی شادی کی پر زور مخالفت کیں۔ اسی طرح عورتوں کو مساجد او ردیگر عبادت گاہوں میں داخلے کی اجازت طلب کیں۔لہذا ملک ناصف نے اپنے خیالات و نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مصری جریدہ میں لکھنا شروع کیا ۔ ناصف نے خواتین کے موضوعات پر بہت سارے لیکچرس دیئے ۔ ان تمام لیکچر (خطبات) کو ’’انّسائیات ‘‘ نامی کتاب میں جمع کیا گیا جو بعد میں شائع ہو کر عربی تانیثی ادب کا ایک بیش قیمتی سرمایہ بن گیا ۔اس کتاب میں ان کے وہ تمام مقالات جمع کر دئے گئے جن میں عورتوں کے حقوق او رمساوات کی بات کی گئی تھی ۔ ان کا نظریہ تھا کہ اسلام نے عورتوں کو اس کے تمام حقوق او رمساویانہ سلوک پر زور دیا لیکن مسلم معاشرہ اپنی جامد و قدامت پسندانہ نظریات کی وجہ سے اس پدرانہ سماج میں وہ حقوق ادا نہیں کر پاتا لہذا انہوں نے اسلامی اقدار اورسماجی روایات میں اختلاف کی
نشان دہی کیں۔
ملک ناصف نے خواتین کے بہت سے موضوعات پر اپنی ذاتی رائے پیش کی جیسے کم سنی کی شادی ‘ حقِ طلاق او رکثیر زوجگی ایسے بہت سے موضوعات ہیں جو اس وقت کے روایتی معاشرہ کا حصّہ تھے ۔ناصف کے نظریہ کے مطابق شادی جیسے سنجیدہ موضوع کے لیے لڑکیوں کا با شعور ہونا او راس کے لیے لڑکیوں کی رضا مندی کا خاص خیال رکھا جانا چاہیے۔صرف مردوں کو ہی نہیں خواتین کو بھی اپنی مرضی سے طلاق کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اسی طرح انہوں نے کثیر زوجگی پر سخت اعتراض کیا ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ناصف خود ا س تلخ تجربہ سے گذر چکی تھیں ۔ ان کے شوہر نے ان کی موجودگی میں نکاحِ ثانی کیا تھا ۔لہذا انہوں نے اس فرسودہ روایت کی بھی کھل کر مخالفت کی۔
مصر جیسے قدامت پسندمعاشرے میں ملک ناصف وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے عورتوں کے موضوعات و عناوین کو اپنی تحریروں میں سب سے زیادہ جگہ دیں۔ ان کے مسائل ِ نسواں پر بے شمار لیکچر س اس بات کی غمّاز ہے کہ وہ مصری خواتین کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتی تھیں ۔ عورتوں کے مسائل کو لے کر وہ بہت سنجیدہ او ررنجیدہ رہا کرتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ معاشرے کے جمود و پسماندگی کی ایک اہم وجہ عورتوں کی نا خواندگی ہے ۔ دیگر عرب خواتین ادباء و شعراء کے مقابلے ان میں نسائی حِسّیت او ر تانیثی شعور کو ٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ عورتوں کے حقوق کی بازیافتگی سب سے زیادہ ناصف کی تحریروں سے عیاں ہوتی ہے۔وہ جب تک حیات رہیں عورتوں کے حقوق کے لیے کوشاں رہیں۔ تحریراً و تقریراً اپنا احتجاج درج کراتی رہیں۔قدیم و فرسودہ ماحول میں رہنے کے با وجود ملک ناصف ترقی ِ نسواں کے لیے کوششیں کرتی رہیں۔ملک ناصف جو اپنے حقیقی نام سے زیادہ قلمی نام ’’باحثہ البادیہ‘‘ سے معروف ہوئیں۔ اپنی مختصر سی زندگی میں عربی ادب میں تانیثی ادب کا جو قابل رشک ذخیرہ چھوڑا ہے وہ نہ صرف بیش قیمت ہے بلکہ اثاثی اہمیت کا حامل ہے۔ جب کبھی عربی ادب میں تانیثیت کا تذکرہ کیا جائے گا ملک ناصف اس ادب کی سرخیل کے طور پر جانی جائے گی ۔اپنی مختصر حیات میں وہ حقوق ِ نسواں پر مبنی ادبی ذخیرہ میں مسلسل اضافہ کرتی رہیں۔لیکن ۱۹۱۸ء میں محض ۳۳ سال کی عمر میں اپنے ادھورے خوابوں کو لئے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔لہذا جدید عربی ادب میں تانیثی ادب یا تحریک کی جب بھی بات ہوگی ۔ اس فہرست میں سرِ فہرست باحثہ البادیہ یعنی ملک حِفنی کو رکھا جائے گا کیوں کہ عربی ادب میں تانیثیت کی یہ علمبردار ہی ا س تحریک کی موسس ہیں۔
مراجع و مصادر:
۱۔ تاریخ ادب عربی،احمد حسن زیات،اشرف بک ڈپو, کشمیر،۱۹۸۵ء
۲۔ عربی ادب کی تاریخ (جلد سوّم ۔چہارم)،عبد الحلیم ندوی،ترقی اُردو بیورو , نئی دہلی،۲۰۰۰ء
۳۔ اردو میں عربی ادب کے جائزے،ڈاکٹر محمد شارق،ادبستان دہلی،۲۰۱۳ء
۴۔ جدید عربی ادب اور ادبی تحریکات،ڈاکٹر ابو عبید،الکتاب انٹرنیشنل , دہلی،۲۰۱۱ء
۵۔ تانیثیت : تحریک ‘ نظریہ و عمل،پروفیسر طارق سعید،کتابی دنیا, دہلی،۲۰۲۱ء
***