علی زاہد ملک
ریسرچ اسکالر شعبہٗ فارسی
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، علیگڑھ
عشقیہ مثنویوں کی روایت میں مثنوی مہر و ماہ کا مقام و مرتبہ
عشق و محبت کا جذبہ انسان کی فطرت میں روز ازل سے شامل ہے اس لئے نہ صرف نثر نگاروں نے بلکہ شاعروں نے بھی عشق و محبت کے قصوں کواپنے فن کا موضوع بناکر منظوم و منثور تحریروں میں بیان کیا ۔ اصناف ِشاعری میں قصے کہانیوں یا طویل داستانوں کو بیان کرنے کے لئے مثنوی سب سے موزوں ہے کیونکہ اس صنف میں تمام موضوعات کو بطور احسن اداکیا جا سکتا ہے۔ ۱
فارسی ادب میں مثنوی کا آغاز سامانی دور سے ہوتا ہے ۔اس عہد میں متعدد مثنویاں لکھی گئیں جن کے موضوعات جداگانہ تھے ،لیکن عشق کے موضوع پرسب سے پہلی مثنوی کا نمونہ غزنوی عہد میں ملک الشعراء عنصری کی مثنوی ‘‘وامق و عذرا ’’ کے طورپر نظر آتا ہے۔عنصری کے بعد فخر الدین اسعد گرگانی کاشمار سلجوقی دور کے اولین شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے مثنوی ‘‘ویس و رامین ’’۲ لکھ کر عشقیہ مثنوی کی روایت کو آگے بڑھایا۔عشقیہ مثنوی کے اولین دو نمونوں میں عنصری کی مثنوی وامق و عذرا دست برد زمانہ کا شکار ہو گئی ۳جس کے کچھ ہی اشعار تذکروں کی بدولت محفوظ رہے۔ اس کے برعکس فخر الدین اسعد گرگانی کی مثنوی قدر حال محفوظ رہی۔
سلجوقی دور کے آخر میں نظامی گنجوی نے پانج مثنویاں لکھ کر نہ صرف مثنوی کی روایت کو فروغ دیا بلکہ ادبیات فارسی کے لئے خمسہ نویسی کی راہیں ہموار کیں۔ ادبیاتِ فارسی کو ‘‘خمسہ یا پنج گنج ’’ ۴ نظامی کی وہ دین ہے جس کی پیروی سینکڑوں شعراء نے کی۔ خمسہ نظامی کی ان پانچ مثنویوں میں تین مثنویوں کا موضوع عشقیہ ہے ، جن میں ایک مثنوی عرب کی مشہور عشقیہ داستان لیلی و مجنون کے قصے پر مشتمل ہے۔ خمسہ نظامی کی دوسری عشقیہ داستان ‘خسرو و شیرین ’ ہے، جسے نظامی سے قبل فردوسی نے شاہنامہ میں بیان کیا ہے۔ یہ مثنوی ساسانی دور کے مشہور بادشاہ خسرو پرویز اور ارمنی شہزادی شیرین کی عشقیہ داستان پر مشتمل ہے۔ علاوہ ازیں خمسہ کی تیسری عشقیہ مثنوی بھی ساسانی عہد کی مشہور عشقیہ داستان پر مشتمل ہے جسے نظامی نے‘‘ ہفت پیکر ’’کے عنوان سے نظم کیا۔ خمسہ نظامی کی ان تین مثنویوں کی بدولت عشقیہ مثنوی کی روایت کو مزید تقویت ملی۔
نظامی گنجوی کی پیروی کرتے ہوئے متعدد شعراء نے خمسہ نویسی میں طبع آزمائی کی جن میں امیر خسرو اور عبدالرحمن جامی کو غیر معمولی شہرت ملی۔خمسہ نویسی کی پیروی کرنے والوں میں غالبا ً خسرو پہلے شاعر ہیں کیونکہ نظامی اور خسرو کے دور حیات میں بڑی مشکل سے ستر سال کا فرق ہے۔بہرحال خمسہ خسروی کی تین مثنویوں (شیرین و خسرو، مجنون و لیلیٰ اور ہشت بہشت) کا موضوع بھی عشقیہ ہے۔ خمسہ خسروی کی ان تین مثنویوں کے علاوہ تاریخی مثنویوں میں دولرانی خضر خان کا شمار بھی خسرو کی عشقیہ مثنویوں میں ہوتا ہے۔ایران اور دیگر ممالک میں جہاں ایک طرف شعراء نے خمسہ نویسی میں طبع آزمائی کی تو وہیں دوسری جانب عشقیہ مثنویاں بھی وجود میں آنے لگیں۔
ہندوستان میں خسرو کے بعد جمالی کنبوہ نے ‘‘ مثنوی مہر و ماہ’’ لکھ کر اس روایت کو آگے بڑھایا۔برصغیر پاک و ہند میں یہ مثنوی قدامت کے اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ خسرو کی مثنوی دولرانی خضر خان کے بعد تقریباً دو سوسال تک اس خطہ میں عشق کے موضوع پر کوئی مثنوی منظرعام پر نہیں آئی۔سید احتشام الدین کے بقول خسرو کے بعد جمالی پہلے شاعر ہیں جنہوں نے عشقیہ داستان کو مثنوی کا موضوع بنایا۔ جیسا کہ مثنوی مہر و ماہ کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
‘‘این مثنوی در ادب فارسی شبہ قارہ پاک و ہند از حیث قدمت زمان دارای اہمیت و مقام خاصی است، چون پس از خسرو سکوتی را کہ بر ادب فارسی برای دویست سال درین شبہ قارہ ادامہ داشت ، درہم شکست، ہمچنین پس از مثنوی عشقی‘‘ دولرانی وخضر خان’’ خسرو ‘‘ مہر و ماہ’’ جمالی اولین مثنوی عشقی بود۔ بنا بر این مثنوی ‘‘مہر و ماہ’’ و سرایندہ آن در تاریخ ادبی این شبہ قارہ از چندین حیث دارای اہمیت خاص می باشند’’ ۵
مثنوی مہر و ماہ میں جمالی نے شہزادی مہر اور شہزادہ ماہ کی عشقیہ داستان کو نہایت ہی موثر انداز میں نظم کیا ہے۔ ذیل میں اس عشقیہ داستان کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
خلاصہ مثنوی :
بدخشاں کے بادشاہ کے ہاں (اولاد نرینہ) کوئی بیٹا نہ تھا اس لئے وہ کسی مجذوب یا مستجاب الدعوہ بزرگ کی جستجو میں تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد اسے اطلاع ملی کہ بدخشاں کے بلند پہاڑ پر اس قسم کا درویش موجود ہے ۔ لہذا بادشاہ نے اپنے وزیر کے ہمراہ اس مجذوب کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی روداد بیان کی۔ درویش نے بادشاہ کو پریشان حال دیکھ کر خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ چونکہ یہ درویش مستجاب الدعوہ تھے لہذا بادشاہ کے خاطر خواہ ان کی دعا فوراً قبول ہو گئی جس کی بدولت خدائے تعالیٰ نے بادشاہ کو بیٹے کی نعمت سے نوازہ۔ درویش کی ہدایت پر بیٹے کا نام ‘ماہ’ رکھا گیا۔
شہزادہ ماہ جب سن بلوغ کو پہنچا تو اس نے ایک رات خواب میں ‘مہر’ نامی ایک شہزادی کو دیکھا ۔ شہزادی مہر حُسن وجمال کا پیکر تھی جسے خواب میں دیکھتے ہی شہزادہ ماہ اس پر فریفتہ ہو گیا۔ صبح جب شہزادہ خواب سے بیدار ہوا تو اس کی حالت نگفتہ بہ تھی، وہ آہ و زاری کر رہا تھا۔ اس ماجرہ کی خبر بادشاہ تک پہنچائی گئی۔ بادشاہ نے شہزادے سے اس اضطرابی کیفیت کی وجہ دریافت کرنا چاہی لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔شہزادہ کی بد ترین حالت کو دیکھ کر اس کی بہتری کے لئے ناچار بادشاہ نے وزیر کی ہمراہی میں اسی مجذوب کی طرف رجوع کیا تاکہ کوئی بہتر تدبیر مل سکے۔ جب بادشاہ اپنے وزیر کے ہمراہ اس درویش کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس کی روداد سننے کے بعد ایک مدت تک درویش مراقبہ کی حالت میں رہا۔ اس کے بعد درویش نے شہزادہ کی داستان عشق وزیر کے گوش گزار کرتے ہوئے شہزادی مہر کے باپ بہرام اور اس کے پایہ تخت مینا کا پتہ بتایا۔وزیر نے شہزادہ کی کامیابی و کامرانی کے ساتھ اپنے بیٹے عطارد کی سلامتی کے لئے دعا کی درخواست کی کیونکہ شہزادی مہر کی تلاش کے لئے طے پایا تھا کہ شہزادہ ماہ کے ساتھ وزیر کا بیٹا عطارد بھی جائے گا۔درویش نے انھیں حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے مقصد کی حصولیابی میں کامیاب و کامران ہونگے۔
بادشاہ نے مشہور نقاشوں کو بلا کر درویش کی بیان کردہ شرح کے مطابق شہزادی مہر کی تصویر بنوائی۔جب شہزادہ کی نظر اس تصویر پر پڑی تو اس نے جدائی کے ڈر سے تصویر کو پھوڑ دیا۔اس ماجرہ کے بعد وزیر کے بیٹے عطارداور دیگر خادموں کے ہمراہ شہزادہ ماہ گوہر مقصود کی تلاش میں روانہ ہوا۔ ساحل کے کنارے پہنچ کر کشتی پر سوار ہوا اور اپنی منزل کی طرف گامژن ہوا۔ سفر کے دوران ایک دن طوفان کی زد میں آکر ان کی کشتی ٹوٹ گئی، جس کی وجہ سے نہ صرف ان کا قافلہ منتشر ہوابلکہ انھیں طرح طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔اس طوفان کے دوران ہزاروں پریشانیاں برداشت کرتے ہوئے بالآخر شہزادہ ماہ ایک تختہ پر سوار ہوکر ساحل پر پہنچ گیا۔چلتے چلتے بالآخر شہزادہ ماہ کوہ قاف تک پہنچا جہاں اس کی ملاقات ایک مجذوب سے ہوئی۔اسی اثنا میں اچانک تیز بارش شروع ہو گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ شدید بارش کی وجہ سے آنے والا سیلاب شہزادہ ماہ کو بھی اپنے ساتھ بہا لے گیا۔
وزیر کا بیٹا عطارد طوفان سے نجات پاکر ایک خوف انگیز جنگل میں پہنچا جہاں خوف و خراس کی حالت میں یہاں سے وہاں بھٹکنے لگا۔ بالآخر وہ طربلوس نامی ایک قلعہ میں پہنچا جس پر وحشتناک دیو (جنات) کا تسلط تھا۔ ان کے مظالم کو دیکھ کر عطارد پر کپکپی طاری ہو گئی۔ عطارد اسی حیرت و وحشت کی حالت میں تھا کہ شہزادہ بھی اس سے جاملا۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر دونوں کی ہمت بڑھی اور دونوں کچھ حد تک خوشحال ہوئے جس کی بدولت سفرکی سختیوں کو بھول گئے۔اس کے بعد دونوں طربلوس قلعہ کے دیو کو مار کر قلعہ پر اپنا تسلط قائم کرنے کی فکرمیں لگ گئے۔آخر کار شہزادہ ماہ اور عطارد قلعہ طربلوس کے دیو کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔اس فتحیابی کے بعد قلعہ پورے طورپر اِن کے تسلط میں آگیا۔شہزادی مہر کے باپ بہرام کو جب شہزادہ ماہ کی جراتمندی کی خبر ہوئی تو اس نے اپنے وزیر سعد اکبر کو اس دلیر جوان کے دیدار کے لئے بھیجا۔شہزادہ ماہ کو دیکھ کر وزیر بے حد خوش ہوا ، واپس آکر اس نے بہرام شاہ کے حضور شہزادہ ماہ کے حسن و جمال، شجاعت و جراتمندی کے علاوہ دیگر اوصاف تفصیل سے بیان کیے ۔ شہزادی مہر نے شہزادہ کے متعلق چھپ کر تمام باتیں سن لیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی بن دیکھے شہزادہ ماہ پر فریفتہ ہوگئی۔ جب وزیر کو شہزادی مہر کے عشق کی خبر ہوئی تو اس نے اپنے خادم شہاب کے ذریعہ شہزادہ ماہ کو پیغام بھیجا۔ شہزادہ ماہ وزیر زادہ عطارد کے ہمراہ ایک مخصوص باغ میں گیا جہاں عاشق و معشوق کی ملاقات ہوئی۔باغ میں موجود کیوان نامی ایک بدخواہ آدمی نے شہزادی مہر کو شہزادہ ماہ کے ساتھ دیکھ کراس ماجرہ کی خبر فوراً بہرام شاہ تک پہنچائی۔ اس واقعہ سے با خبر ہوتے ہی بہرام شاہ نے اپنے وزیر سعد اکبر کو طلب کرکے اس کی سرزنش کی۔ اس کے بعد شہزادہ ماہ ملک طربلوس واپس چلا گیا۔
شہزادی مہر کے حسن و جمال کی داستانیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ بادشاہ روم ‘اسدشاہ’ نے جب شہزادی کے حسن و جمال کی داستان سنی تو وہ بھی بن دیکھے اس پر فریفتہ ہو گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس نے بہرام شاہ کے ہاں شہزادی مہر کے رشتے کا پیغام بھی بھیجا اور انکار کی صورت میں جنگ کی دھمکی بھی دی۔اسکی دھمکی سے ڈرنے کے بجائے بہرام نے شہزادہ ماہ کی مدد سے اسد شاہ کے ساتھ جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شہزادہ ماہ کے ہاتھوں اسد شاہ نے نہ صرف شکست کھائی بلکہ اسیر بھی ہو گیا۔اس کی پیشانی پر اسیری کی مہر لگانے کے بعد شہزادہ ماہ نے اسے بخش دیا اور وہ ہمیشہ کے لئے شہزادہ ماہ کا مطیع و فرمانبردار ہو گیا۔اس فتحیابی کے بعد بہرام شاہ اپنی بیٹی شہزادی مہر اور شہزادہ ماہ کی شادی کے لئے راضی ہو گیا۔ دونوں کی شادی ہوئی اور شہزادی مہر کو دلہن بنا کر شہزادہ ماہ قلعہ طربلوس میں واپس ا ٓگیا۔
موسم بہار کی آمد پر اہالیانِ طربلوس نے شہزادہ ماہ کی شادی کی خوشی میں ایک جشن کا اہتمام کیا۔عین جشن کے روزہی خضر نے شہزادہ ماہ کو اس کے والد کی ناگہانی موت کی خبر سنائی ۔ شہزادہ ماہ پراس منحوس خبر کا ایسا اثر ہوا کہ وہ یکایک بے ہوش ہوکر زمین پر گر گیا ۔ چند ہی لمحوں میں اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔شہزادہ کی موت کے بعد شادی کا جشن ماتم میں تبدیل ہو گیا۔ بالآخر عطارد نے شہزادہ ماہ کو اسی باغ میں سپرد خاک کیا اور خود ا س کے ماتم میں بیٹھ گیا۔اس ناگہانی حادثہ کے بعد شہزادی مہر کے لئے ایام زندگی تنگ ہی نہیں بلکہ سیاہ بھی ہو چکے تھے۔ لہذا چند روز زندہ رہ کر اس نے بھی ا پنی جان مالک حقیقی کے سپرد کرکے اپنی سچی محبت کا (ثبوت )حق ادا کر دیا۔اس کاجنازہ جب قبرستان میں لے جایا گیا تو اچانک شہزادہ ماہ کی قبر پھٹی اور شہزادی مہر کی لاش تابوت سے اسی قبر میں جاگری جس کی بدولت شہزادی مہر ہمیشہ کے لئے اپنے عاشق کی آغوش میں سو گئی۔ شہزادہ ماہ کے رفقا پر اس واقعہ کی وجہ سے دکھوں کا پہاڑ گر پڑا لہذا اُنہوں نے اسی باغ میں اپنی باقی زندگی بسر کرنے کا مستحکم فیصلہ کر لیا۔
اگر چہ بظاہر مثنوی ہذا کی داستان ایک عام قصہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی لیکن جمالی نے اس مثنوی میں اسرار و رموز عرفانی کی رنگ امیزی سے کلام میں پختگی و تازگی پیدا کردی ہے۔ جمالی نے اس مثنوی میں عشق مجازی کی بدولت عشق حقیقی کی جلوہ گری دکھائی ہے جس کی وجہ سے مثنوی مہر و ماہ کا شمار نہ صرف کامیاب ترین مثنویوں میں ہوتا ہے بلکہ خود جمالی بھی اس فن کے اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔
مثنوی مہر و ماہ کے چند اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ جمالی نے اہالیانِ تبریز کی فرمائش پر اس مثنوی کو عصار تبریزی کی مثنوی مہر و مشتری کی طرز پر دوران سفر نظم کرنا شروع کیا تھا جو ۹۰۵ھ میں مکمل ہوئی۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار سے واضع ہوتاہے:
ز روی نخل بندی اہل تبریز
ز نخل دوستی گشتہ رطب ریز
بگفتند: ای چراغ عشق بازی
ز تو پروانہ جان در گدازی
ترا راہ حجاز، از اشتیاق است
سزاوار تو، این راہ عراق است
نشین در پردہ ہای دیدہ ما
کہ جای مردم تنہا است، اینجا
کتابی ہست ‘‘مہر و مشتری’’ نام
بشہرت، ہمچو مہر و مشتری، عام
ز تصنیف تو بہر فضل عصار
کہ او استادِ استادان در کار
تو در پردہ ہای دیدہ ما
کہ جای مردم تنہا است، اینجا
مذکورہ اشعار سے مثنوی مہر و مشتری کے شاعر عصار تبریزی کی بلند مرتبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اگرچہ مثنوی گو شعراء میں عصار تبریزی گمنامی کا شکار ہیں لیکن ان اشعار سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ فن مثنوی میں انھیں کافی ملکہ حاصل تھا ۔ کیونکہ جمالی نے انھیں استادِ استاداں کہہ کر یاد کیا ہے۔علاوہ ازین مثنوی مہر و ماہ کو نظم کرنے کے لئے اہالیان تبریز کی فرمائش کی نشاندہی بھی ہوتی ہے ۔پروفیسر رعنا خورشید صاحبہ نے اپنی تالیف ‘تذکرہ سیر العارفین ایک تنقیدی جائزہ ’ میں جمالی کے احوال و اثار پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر نذیر احمد کے ایک مضمون ‘‘خسرو ثانی جمالی کنبوہ’’ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:
‘‘اہل ایران کا کسی ہندوستانی سے اس طرح فر مائش کرنا اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ جمالی نے شعر و سخن کی دنیا میں کافی نام حاصل کر لیا تھا’’ ۷
اس مثنوی میں عشقیہ داستان کے علاوہ جمالی نے رموز و نکات اور مسائل عرفانی کو نہایت ہی موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ جمالی کی یہ مثنوی ۹۰۵ھ میں مکمل ہوئی جسے انہوں نے اپنے پیر و مرشدشیخ سماء الدین کنبوہ کے نام منسوب کیا۔ مثنوی ہذا کی تاریخ تکمیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمالی لکھتے ہیں کہ :
چون تاریخش بجویی ای خدا بین
نگر ، در ‘‘مہر و ماہ مرشد دین
مثنوی مہرو ماہ کی سن تکمیل کے متعلق محققین میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے ‘‘مخزن افغانی’’ کے بیان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مثنوی ہذا کی تکمیل ۸۹۸ھ کے آس پاس ہوئی لیکن سید احتشام الدین راشدی تصحیح کردہ مثنوی کے مقدمہ میں اس بیان کی تردید اس طرح کرتے ہیں کہ مثنوی کا وہ شعر جس میں جمالی نے سن تکمیل کی طرف اشارہ کیا ہے، ڈاکٹر نذیر احمد کے پیش نظر نہ تھا ۔ ان کے پاس صرف وہی اشعار تھے جو ‘‘آب کوثر ’’ میں درج تھے اور ان ہی اشعار کی بنیاد پر انہوں نے جمالی کے احوال زندگی کا عمومی جائزہ لیتے ہوئے سال مذکورہ کو مثنوی کی سن تکمیل سمجھ لیا۔سن تکمیل کے علاوہ محققین کے درمیان ایک اختلاف یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مثنوی کس کے نام منسوب ہے۔ اس ضمن میں اکثر محققین کی رائے ہے کہ جمالی نے مثنوی ہذا اپنے پیر شیخ سماء الدین کے نام معنون کی ۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ شاعری میں شیخ جمالی سلطان سکندرلودی کے استاد تھے ۔ ڈاکٹر نذیر احمد نے ‘‘ مخزن افغانی’’ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس منظومہ کی دریافت کے بعد جمالی نے اس مثنوی کو سلطان کی بارگاہ میں ارسال کیا اور خود یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ فقرا کو مجالس اغنیاء سے کیا سروکار۔ چونکہ سلطان سکندر لودی جمالی کے مزاج سے بخوبی واقف تھا لہذا اس نے ان کے پیر شیخ سماء الدین کو خط لکھا جنہوں نے جمالی کو بادشاہ کے پاس بھیجا۔ سید احتشام الدین راشدی نے دونوں نظریات کی تردید اس طرح کی ہے کہ اگر مخزن افغانی کی آراء مثنوی مہر و ماہ کے متعلق ہیں تو یقینا غلط ہیں کیونکہ اس مثنوی کی سن تکمیل کے وقت شیخ سماء الدین کے انتقال کو پانچ سال ہو چکے تھے لہذاشیخ کے حکم سے جمالی کا بادشاہ کے دربار میں جانا بعید از قیاس ہے۔اسی بیان سے مترشح ہوجاتا ہے کہ جب مثنوی کی تکمیل شیخ کی وفات کے پانچ سال بعد ہوئی تو کیسے ممکن ہے کہ جمالی نے اسے اپنے پیر کے نام معنون کیا ہو۔ جیسا کہ سید احتشام الدین مثنوی ہذا کے مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
‘‘داستانی کہ در [مخزن افغانی] آمدہ ست مبنی بر این کہ شیخ سماء الدین جمالی را پیش سلطان سرستادہ است، اگر مربوط بہ مثنوی است حتماً اشتباہ است۔ چون سال تکمیل مثنوی (۹۰۵ھ) است، موقعی کہ از در گذشت شیخ سماء الدین پنج سال گذشتہ بود۔ داستان نامہ منظوم و دعوت جمالی، اصلاً بسال (۹۰۵ھ) صورت گرفتہ است، در ایامیکہ سلطان در سنبھل اقامت داشت’’۸
المختصر محققین کے مذکورہ اقوال و نظریات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نہ صرف ‘مثنوی مہر و ماہ ’ کا شمار فارسی ادب کی کامیاب ترین مثنویوں میں ہوتا ہے بلکہ خود جمالی کا شمار بھی فارسی ادب کے مشہور مثنوی گو شعراء میں ہوتا ہے۔
حوالہ جات:
۱۔شعر العجم جلد چہارم ، مولانا شبلی نعمانی،ص ۲۴۷۔۲۴۸ ، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ، ۱۹۲۴ء
۲۔ تاریخ ادبیات ایران جلد اول، ذبیح اللہ صفا،ص۔۳۲۲۔۳۲۳، مطبوعہ فردوس تہران ،۱۳۷۹ھ
۳۔ شعر العجم جلد چہار، مولانا شبلی نعمانی،ص ۲۵۰ ، مطبوعہ معارف پریس اعظم گڑھ، ۱۹۲۴ء
۴۔تاریخ ادبیات ایران جلد اول، ذبیح اللہ صفا،ص۔۴۸۳، مطبوعہ فردوس تہران ،۱۳۷۹ھ
۵۔مقدمہ مثنوی مہر و ماہ ، حسام الدین راشدی، ص۔۹۷، ریپن پریس ،لاہور،۱۹۷۳ء
۶۔مقدمہ مثنوی مہر و ماہ ،حسام الدین راشدی، ص۔۹۱ ، ریپن پریس ،لاہور،۱۹۷۳ء
۷۔تذکرہ سیر العارفین ایک تنقیدی جائزہ،ڈاکٹر رعنا خورشید۔ ص۔۲۶،مطبع : مسلم ایجوکیشنل پریس علی گڑھ، ۲۰۱۳ء
۸۔مقدمہ مثنوی مہر و ماہ، حسام الدین راشدی، ص۔۹۳، ریپن پریس ،لاہور،۱۹۷۳ء
***