سہیم الدین خلیل الدین صدیقی
پی ۔ایچ ۔ ڈی ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو
ڈاکٹر باباصاحب امبیڈ کر مراٹھواڑہ یونیورسٹی ، اورنگ آباد،دکن
عصرحاضرمیں تانیثیت اوراردوافسانہ
تانیثیت عربی زبان کا لفظ ہے۔ تانیثیت کو انگریزی میںFeminism کہا جاتا ہے۔ یہ لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کو اصطلاح میں Femina کا مترادف کہا جاتا ہے۔ جہاں تک تانیثیت کے معنی و مفہوم کا سوال ہے، اس کو تحریک نسواں ، نظریہ نسواں ، حقوق نسواں او ر نسوانیت کہاجاتا ہے ۔ تانیثیت سے مراد عورتوں کے جذبات ،احساسات ،مشاہدات، رحجانات اور مسائل کی ترجمانی سے ہے۔ تانیثیت کی تحریک مردوں کی بالا دستی، اور ان کے ظلم و جبراستحصال ، عورتوں کی حق تلفیوں کے خلاف ردعمل کے طور پر مغربی ممالک میں ابھر کر سامنے آئی اور رفتہ رفتہ مشرقی ممالک میں پھیلتی چلی گئی ۔اس تحر یک کا آغاز ۱۹۷۱ءمیں فرنچ میڈیکل ٹکسٹ میں لفظ Feminist نسوانیت والے مردوں کے لیے اس کا استعمال کیا گیا تھا۔البتہ مغرب میں یہ تحریک، آزادی نسواں کے حامیوں کو بھی کہاگیاہے۔ بعد میں لفظ Feminism یعنی تحریک نسواں اس کی اصطلاح بن گئی۔جب یہ تحریک ہندوستان پہنچی تو ہندی والوں نے اسے ’’ناری آندولن‘‘ کا نام دے دیا۔اور پھر یہی تحریک عصر حاضرمیں زبان اردو میں تانیثیت کے نام سے موسوم کی جانے لگی۔اور ہمارے بیشتر ادیب، شاعر، دانشور، مفکر ین و فکشن نگاروں نے اس پر اپنی قلمی رائیں دینی شروع کردی۔ مغربی ممالک میں تواس موضوع پربہت سی تحقیقیں و تنقیدیں کی جا چکی ہیں۔
اردو ادب و افسانے میں بھی ابتدا سے ہی عورت کی مظلومیت کو موضو ع اصناف بیا ن کیا جا چکا ہے اور آج بھی اس موضوع کی اہمیت میں کو ئی کمی نہیں آئی اور انشاء اللہ آگے بھی اس کی اہمیت برقرار رہے گی۔ اردو افسانہ ، داستان، ناول کی جدید شکل ہے اور اس میں افسانہ نگار بڑے ہی اختصار سے کام لیتا ہے اور وہ کم سے کم الفاظ میں اپنے مکمل خیال کو پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ افسانے میں کسی ایک واقعہ کو بیان کیا جاتا ہے، جس میں کہانی کے تمام لوازمات شامل ہوتے ہیں اور اسی کے ساتھ تانیثیت کا انداز بھی پنہاں ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمارے افسانہ نگاروں نے تانیثیت کو اپنے افسانوں میں بہت اچھی طرح سے برتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ موجودہ دور میں جو انتشار پھیل رہا ہے اور عورتوں کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں، ان مُعاملات کو پیش کرنے کی کو شش کی جارہی ہے۔
افسانہ عصر حاضر میں اردو ادب کی وہ کامیاب ترین صنف ہے جس میں ہر ایک موضوع کو اس کا فن کار بڑی خوش اسلوبی سے بیان کرتا ہے۔ افسانے کے کردار مثالی کردار بھی ہوتے ہیں۔جس میں مردوزن موجود ہوتے ہیں ۔یہاں مرد ظالم اور عورتیں مظلوم دکھائی دیتی ہیں۔یہ معاملہ صرف ایک افسانہ نگار کا نہیں بلکہ تقریباََ افسانہ نگار کے نسوانیت کی کہانی یا سچائی واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ عورتوں کے جسمانی استحصال کے ساتھ ساتھ جذباتی اور روحانی استحصال کو بھی افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں بیان کیے ہیں۔ عورتوں کے جنسی استحصال کی کیفیت بھی اپنے افسانہ نگاروں کے افسانوں میں دیکھا جاسکتاہے۔ عورتوں کی حق تلفیوں کے بارے ہمارے اردو داں یا ہر ایک زبان کے ماہرین نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں میں اردو افسانے میں تانیثیت پر گفتگو کررہا ہوں تواردو کے ان تمام افسانوں یا افسانہ نگاروں کے بارے میں ایک ایک کر کے واضح کروں تو ایک طویل مقالہ بن جائے گا اس لیے چند افسانہ نگاروں پر ہی روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ البتہ ہم جب احمد ندیم قاسمی کے افسانو ں کے بات کریں تو ان کے بیشتر افسانوں میں تانیثیت کے عناصر ملتے ہیں۔ ان کا افسانہ ’’رئیس خانہ ‘‘ کو ہم نمونے کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ جس میں ایک شوہر اپنے بیوی سے اصرار کرتا ہے کہ وہ غیر مرد کے ساتھ رات گزار لے۔ مریاں اپنے شوہر فضلوکے کہنے پر اور غربت سے مجبور ہوکر ایک غیر ملکی یوسف کے پاس چلی جاتی ہے۔ یوسف صاحب کی نیک نیتی کے بارے میں ان عورتوں کی شاہدی جو اس کے ساتھ سو روپیوں کے عوض میں راتیں گزار چکی ہوتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ ہاتھ تک نہیں لگا تا صرف دیکھنے کے سو روپے دیتا ہے۔ لیکن بعد میں اندازہ ہوتا ہے کہ یہ یوسف کی عیاری تھی وہ ایک سال پہلے ہی اس وادی سون میں آیا تھا اور اپنے جسم کی آگ بجھانے کے لیے فضلو کے سامنے شرافت کا ڈھونگ کرکے اسے اپنے قبیح فعل میں ساتھ کر لیتا ہے۔ اس کے بعددرد ناک کیفیت کا بیان مریا ں کی زبانی احمد ندیم قاسمی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:
’’۔۔۔ ۔۔مجھ پر یوں جھپٹا جیسے کتا گوشت پر جھپٹتا ہے کرائے کی موٹر کا اس نے رات ہی انتظام کر لیا تھا اور وہ ابھی ابھی مجھے آخری بار بھنبھوڑ کر موٹر میں بیٹھ کر لاہور چلا گیا ہے اور تمہیں بخششیں دے گیا ہے سو روپیے کی اور ایک ایسی مریاں کی جو ا باس کمرے میں نہیں گھُسے گی۔وہ نیچے وادی میں اتر جائے گی ، وہ ادھر میدانوں میں چلی جائے گی ، اور جب بھوک کے مارے پیٹ زخم بن جائے گا تو کپڑے اتار راستے میں بیٹھ جائے گی ۔ننگے مردو ں کو لوگ پتھر مارتے ہیں پر ننگی عورتوں کو بستر دیتے ہیں اورروٹی کھلاتے ہیں ۔تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔‘‘
(رئیس خانہ۔سناٹا۔احمد ندیم قاسمی۔ اساطیر لاہور۔ ۱۹۸۸ء ۔ص ۷۴)
مریاں درد کے مقابلے مزدوری اور دھوپ میں جھلستی ہوئی عورتوں کے دکھ پھر بھی قابل برداشت معلوم ہوتے ہیں ، کیوں کہ مریاں جسم کے ساتھ ساتھ روحانی طور پر بھی زخمی ہوجاتی ہے ۔ درج بالا گفتگو سے کچھ حد تک اس کے درد و کرب کا اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ وہ کس قدر جذباتی ہے اور اسے اپنے بربادی کا کیساعلم ہے ۔ احمدندیم قاسمی کے افسانوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے بیشتر افسانے حقیقت نگاری و تانیثیت کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان کے بعددیگر افسانہ نگاروں کی طرف بڑھنے سے قبل ان کے ایک اور افسانے پر سرسری نظر ڈالنا کوئی بے موقع نہ ہوگا ۔’’ بین ‘‘ احمد ندیم قاسمی کا ایسا افسانہ جس میں ایک نو جوان لڑکی کاالمیہ بیان کیا گیا ہے۔’’بین ‘‘کی رانو اوراس کے والدین توہم پرستی کے شکار افراد ہیں۔ اس افسانے میں واحد حاضر کی زبانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رانو ایک بہت ہی معصوم ، شریف اور فرماں بردار لڑکی ہے،بڑے ہی ناز نعم سے اس کی پرورش کی جاتی ہے ، جب اس کی شادی طے ہوتی ہے تو مزار کے ایک پیر کو خوش خبری دی جاتی ہے۔ دعائیں دینے کے بجائے خوبصور ت رانوکے لیے اس کی نیت خراب ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے مجھے خواب میں الہام ہواہے کہ رانو سے خدمت لی جائے اس لیے کچھ دنوں کے لیے اس کے والدین رانو کو مزار کے حضرت شاہ سائیں کے پاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر حضرت شاہ اپنی جنسی ہوس پوری کرکے مزار چھوڑکر چلا جاتا ہے۔ اس حادثے کی وجہ سے افسانے کی ہیروئین رانو اپنا ہوش و ہواس کھو بیٹھتی ہے۔جب اس کے والدین اسے لینے آتے ہیں تو وہ انہیں دیکھتے ہی غضب ناک ہوجاتی ہے ۔ حضر ت شاہ کا خادم ان سے کہتا ہے کہ رانو پر معاََکسی جن کا سایہ ہوگیا ہے اور حضرت شاہ اس جن کو نکالنے کے لیے خاص وظیفہ کر رہے ہیں۔ جب جن اتر جائے گا تو آپ کی بیٹی صحیح سلامت پہنچا دی جائے گی۔ لیکن رانو کی باتوں سے اور اس کی چیخ و پکارسے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس پر کوئی جن نہیں بلکہ وہ انتقام کی آگ میں جل رہی ہے:
’’اب تم جاؤ ہمارے سروں پر تمہاری آواز تھی اور ہم نے سراٹھا کر دیکھا تھا کہ تمہاری آنکھیں تالابوں کی طرح بھری ہوئیں تھیں ۔ اب تم جاؤمیرے بابا۔جاؤ میری امّاں۔ اب تم جاؤ۔ مزار شریف ضرور کھلے گا۔ دست مبارک ضرورنکلے گا۔ فیصلہ ضرور ہوگا۔ فیصلہ ہوجائے گا تو میں سیدھی تمہارے پاس پہنچوں گی۔‘‘
(بین ۔مجموعہ احمد ندیم قاسمی ۔پبلشرنیاز احمد۔ سنگ میل پبلشرز۔ لاہور۔ ۲۰۰۸ء۔ ص۳۸۵۔)
احمد ندیم قاسمی کے افسانے بین،بدنام ، نامرد وغیرہ کے مطالعہ سے قاری کویہ علم ہوتا ہے کہ جنوں اور بھوتوں سے چھٹکارا دلانے کے بہانے مزاروں پر کیسے کیسے جرائم ہوتے ہیں جس کے عوض میں آکر رانو جیسی بے شمار دوشیزائیں اپنے عصمت وجان سے تک ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے افسانے عصر حاضر کے معاشرے پر بڑی معنویت کی حامل نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سے عزیز احمد کے افسانوں میں بھی تانیثیت کی جھلک رونما نظر آتی ہے۔ کالی رات، مدن سینا اور صدیاں، تصور شیخ ، رقص ناتمام ، جادوکا پہاڑ وغیر ہ میں عورتوں کے حق تلفیوں ، ان کے مسائل و مشاہدے ، جذبہ ایثار ، بدنامی اور نیک نامی کے معاملات دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم ’’تصور شیخ ‘‘کو پیش کر سکتے ہیں، جس میں تانیثیت کی جھلک ملتی ہے ۔یہ افسانہ ایک راسخ العقیدگی کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
’’تصوّر شیخ‘‘ عزیز احمد کا کامیاب ترین افسانہ ہے جس میں ایک نسلوں کی محرومی کا المیہ ملتا ہے۔ حضرت بسم اللہ شاہ معروف چار پانچ گاؤں میں سجادہ نشین کی حیثیت رکھتے ہیں۔اس کے دیگر کرداروں میں واجد میاں او رسکینہ نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ واجد میاں اورحضرت معروف دونوں کی شاعر ی کاتذکرہ بیان کیا گیا ہے۔ ایک پر عشق مجازی اور دوسرے پر عشق حقیقی کی کیفیا ت کا نزول ہے اور ساتھ ہی ساتھ واجد میاں اور سکینہ کا عشق چلتاہے اور دوسری طرف بسم اللہ شاہ معروف کی سکینہ کی طرف کشش ۔ شاہ معروف کی بیوی مر چکی ہے ، سکینہ کی واجد میاں سے شادی ہوچکی ہے۔سکینہ کی جوانی و خوبصورتی معروف کی آنکھوں میں چبھ رہی ہے ۔ انہوں نے واجد میاں کو بلایا اور کہا کہ تو کل کا سجادہ نشین بنے گاتیرا دل ابھی تک تیری دلہن میں اٹکا ہو ا ہے۔ تیری روحانی تربیت کا وقت آگیا ہے تو راہ طریقت پر نہیں چل سکتا ۔ واجد میاں زار و قطار رونے لگتے ہیں گڑگڑاکر پوچھتے ہیں۔ میں کیا کروں؟شاہ صاحب کا حکم ہوتا ہے۔ سکینہ کو طلاق دے دیں۔واجد میاں حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ بسم اللہ شاہ معروف سکینہ سے نکاح کرلیتے ہیں۔ جب سکینہ کی بہن شاہ معروف کے ساتھ بیاہ کر آئی تھی سکینہ بہت چھو ٹی تھی، المعروف نے اسے اپنے کندھوں پر کھیلایا تھا اوراس کی پرورش اپنی لڑکی کی طرح کی تھی۔وہ ان کے سر میں تیل لگاتی تھی پہلے تو اس لمس سے نفس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مگر بیوی کے انتقال کے بعد اس لمس میں ایک طرح کی کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ راستے کا کا نٹا واجد میاں کو بڑی ہوشیاری سے ہٹا دیا جاتا ہے ، اور لڑکی جب عورت بن جائے تو اس کی پرورش کرنے والا ہی اس کی حق تلفی کرتا ہے۔ عزیز احمد کی زبانی یہ تا نیثیت سے لبریز ا اقتبا س سنیے ،جو عورت کی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہے:
’’اس روحانی لین دین میں کسی نے بے چاری سکینہ سے کچھ نہیں پوچھاکہ اس کی مرضی کیا ہے ، سب بھول گئے کہ وہ بھی جاندار ہے ۔سکینہ کے لیے واجد میاں بد شکل اور چیچک رو نہیں بلکہ دنیا کا سب سے حسین آدمی تھا کیوں کہ وہ جوان تھا اور اس کے جسم کو اس نے قبضہ میں لیا تھا۔ حضر ت بسم اللہ شاہ معروف بوڑھے تھے ،سکینہ نے کبھی انھیں مر د سمجھ کے دیکھا نہیں تھاجب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا وہ انھیں دولھا بھا ئی کہتی آئی تھی۔‘‘
(تصور شیخ ۔عزیز احمد۔کلیات عزیز احمد۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس۔ دہلی۔۲۰۰۵ء۔ص۷۳)
اس اقتباس کے مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے کہ عورت کتنی بے بس و مجبور ہوتی ہے۔ اس کی مرضی کا خیا ل کیے بغیر اسے کسی سے ایسے جوڑ دیا جاتا ہے جیسے کسی جانور کو اس کی مرضی کے خلاف ایک جگہ سے کھولتے ہیں اور دوسری جگہ باند ھ دیتے ہیں۔اسی طرح سے بے جو ڑشادی کا بھی معاملہ ہے جو قدیم زمانے سے ہی روایت رہی ہے۔ اس کو ہما رے اردو کے افسانہ نگاروں نے بڑی خوبصورتی سے اپنی کہانیوں میں بیان کیاہے،جو حقیقی دنیا سے قریب ترین معلوم ہوتی ہے۔ غربت سے پریشان افراد آج بھی اپنی لڑکیوں کو بڑی عمر والے آدمیوں سے بیاہ دیتے ہیں۔ یہ معاملات عام طور پر بڑے پیمانے پر چھوٹے چھوٹے قصبے یاگاؤں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس طرح کا معاملہ شہر کے بعض مقامات پر دکھائی دیتا ہے ۔لوگ اپنے لڑکے کی شادی کے لیے کم عمر کی لڑکیا ں تلاش کرتے ہیں۔ یہ نسوانی تحریک میں شامل کیا جائے تو اس میں کیا خرابی ہے، ایسا کیوں ہوتا ہے؟کیا کوئی لڑکی اپنی عمرسے کم عمر کے لڑکے سے بیاہنے کی خواہش نہیں رکھتی ؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟موجودہ معاشرہ؟وہ لڑکی ؟یا اس کے خاندان و رشتہ دار؟یا وہ لوگ جو دیکھے دکھائے اپنی لڑکیوں کو جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیتے ہیں؟اور پھر رونا روتے ہیں کہ خدانے ہماری بچی کی زندگی نیست و نابود کردی۔ معاذ اللہ!شاید اس کی قسمت ہی خراب تھی یا ہمارے گذشتہ گناہوں کا حساب ہے، ہمارے رشتہ دا ر خراب ہیں ۔آخر میں مایوس ہوکر کہتے ہیں کہ خدا کو یہی منظور تھا۔مایوسی کفر ہوتی ہے ، البتہ ہر لڑکی مذکو رہ بالاافسانہ کی سکینہ نہیں ہوتی۔ اور اس لڑکی کے احساسات و جذبات مجروح ہو جاتے ہیں جو عورت ان حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہے تو وہ مغویہ ہوجاتی ہے ۔
راجند ر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’لاجونتی ‘‘ ایسی مغویہ عورتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ویسے تو بیدی بہت بڑے افسانہ نگار ہے اور ان کے افسانے اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ ہے’’ اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘میں بھی عورت کی جذ بات کی بہترین عکاسی ملتی ہے۔ ۱۹۴۷ءکے فسادات ایسے تھے جن کے سبب لاتعداد عورتوں کو اپنی عصمت اور مان مریادہ ، گنوانی پڑی ’’لاجونتی ‘‘ کا موضوع بھی فساد ہی ہے جس کو راجندرسنگھ بیدی نے بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے اسی افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں ، جن کے ماں ،باپ ،بہن اور بھائیوں نے انہیں پہنچاننے سے بھی انکار کردیا تھا، آخر وہ مر کیوں نہ گئیں ؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انہوں نے زہر کیوں نہ کھالیا ؟کنویں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی ؟ وہ بزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں ۔ سینکرو ں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے جان دے دی لیکن انہیں کیا پتا کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انہیں نہیں پہنچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی ۔سہاگ ونتی۔ سہاگ والی۔ اور اپنے بھائی کو اس جم غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی ۔تو بھی مجھے نہیں پہنچانتا بھائی ؟ میں نے تجھے گودی میں کھلایا تمہارے۔۔اور بھائی چلا دینا چاہتا۔۔۔۔۔۔‘‘
(لاجونتی ۔راجندر سنگھ بیدی۔نمائندہ اردو افسانے۔ پروفیسر قمر رئیس۔ اردو اکادمی دہلی۔۱۹۹۴ء۔ ص۶۶۔۶۷۔)
۱۹۴۷ء کے فسادات اور جنگ آزادی ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت سے افسانہ نگاروں نے لکھا ہے۔ ان افسانوں میں حیات اللہ انصاری کا ماںبیٹا۔ کرشن چند ر کے پشاور ایکسپریس، امرتسرآزادی کے بعد ، امرتسر آزادی کے پہلے، ہم وحشی ہیں، ایک طوائف۔ سعادت حسن منٹوکا کھول دو ، گورمکھ سنگھ کی وصیت، سہائے ۔ احمد ندیم قاسمی کا پرمیشور سنگھ، میں انسان ہوں۔ بیدی کا لاجونتی۔عصمت چغتائی کا کینڈل کورٹ اور جڑیں، خواجہ احمد عباس کا سردار جی ۔ قرۃالعین حیدر کا جلاوطن اور عزیز احمدکا کا لی را ت وغیرہ ایسے افسانے ہیں جواس دور میں آزادی کی جدو جہد کے خاطر لکھے گئے تھے۔ لیکن اس میں تانیثیت کے پہلو بھی کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور آگئے ہیں۔’’کالی رات‘‘ افسانے فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے لیکن اس میں بھی تانیثیت کے عناصر دکھائی دیتے ہیں جو ہر دور کے فسادات کا المیہ بیان کرتے ہیں عزیز احمدنے لکھا ہے:
’’میرے درد روڈ پرایک چھوٹے سے مکان میں دوبہنیں اکیلی رہ گئیں،دروازے ہی پرعابدہ کاشوہر ماراگیا۔ عابدہ حمل سے تھی، وہ کہیں بھاگ نہ سکی،لیکن زاہدہ کوٹھے پر چڑھ کر منڈیر سے دبک گئی اورنیچے کاتماشا دیکھتی رہی، کچھ لوگ سامان نکالتے اور لوٹتے رہے، چبوترے پر عابدہ ننگی کی گئی۔ اس کے اطراف سات آٹھ وحشیوںکاہجوم تھاجن کی داڑھیاں اور پگڑیاں ان کی خباثت کا جزو معلوم ہوتی تھیں۔ عابدہ حمل سے تھی ایک ایک کرکے انہوں نے عابدہ کو خراب کیایہاں تک کہ اس کی چیخیں گھٹ گئیں ، آنکھیں ساکت ہوگئیں، وہ بے حس و حرکت ہوگئی۔ ‘‘ (کالی رات ۔ عزیز احمد ۔کلیا ت عزیز احمد۔ پروفیسر سلیمان اطہرجاوید۔ موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی۲۔۲۰۰۵ء۔ ص۴۸۲۔)
عورتوں کے استحصال و عصمت دری کا مسئلہ صرف فسادات تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ روزانہ درپیش آنے والے حالات تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ محض کہانیوں ، افسانوں ، واقعات ، ناولوں میں ہی موجودنہیں بلکہ عصر حاضر کے ماحول و فطری زندگی سے بھی جوڑا ہوا ہے ، بے روزگاری کے معاملے سے لے کر مزدوری کرنے والی عورتوں کے ساتھ بھی ایسے ہی معاملات روزبروز پیش آتے رہتے ہیں ۔یہ روزی روٹی کا چکر بھی عجیب و غریب چکر ہے۔ آفس میں کام کرنے والی عورتوں و لڑکیوں سے لے کرچھوٹے موٹے گھروں میں کام کرنے والی صنف نازک تک اس استحصال میں الجھی ہوئی ہیں۔ ان کے ساتھ نا جانے کئی واقعات و حادثات ہر روز پیش آتے ہیں ، جن کی تفصیل موجودہ دورکے اخبارات میں نمایا ں طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ خدانے اس نسوانی کردار کو بڑا ہی کمزور بنایاہے ۔ وہ کتنی بھی خود کفیل کیوں نہ ہوجائے وہ مردوں کی بری نظر اور چھیڑخانی سے محفوظ نہیں رہے سکتی ۔اس بات کا خیال رکھتے ہوئے عزیز احمد نے ایک افسانے ’’زون‘‘میں گھر کا کام کرنے والی ملازمہ لڑکی کو چھیڑتے ہیں۔ سکندر جو اس کاہاتھ پکڑلیتا ہے یہ تانیثیت نہیں تو کیا ہے ؟ ذرا دیکھیئے عزیز احمد کا یہ بیان جو موجودہ دور کے ماحول پر کس طرح صادق آتا ہے:
’’اس نے اپنی ماں کو زون سے کہتے سنا کہ اوپر سے جاکے پھولوں کی چنگیر اٹھا لا۔ جلدی سے وہ بھی اس کے پیچھے ہولیا،لیکن اس قدر پیچھے کہ زون اس کو نہ دیکھ سکے ، اس زینے پر چڑھا ۔ اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور ایک پٹ کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔وہ چنگیر لے کے نیچے اتری تو سکندر نے اس کا ہاتھا پکڑلیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکلنے کے آثار دیکھ کے اس نے دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ دبایا۔ اور کمرے کے اند ر کھینچ کے دروازہ بھیڑ لیا،مگر وہ تڑپ کے اس کے بازو ؤں سے نکل گئی یہ جھپٹ کے بند دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔‘‘
(زون۔ عزیز احمد ۔کلیا ت عزیز احمد۔ پروفیسر سلیمان اطہرجاوید۔موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی۲۔۲۰۰۵ء۔ ص۳۳۲۔)
دیے گئے اقتباس کی چھیڑخانی محض کسی واقعہ میں ہی نہیں موجودہ زندگی میں بھی ہوتی ہے ۔ایسی سرخیوں سے ہماری ریاست وملک کے مختلف جریدے و نیوز چینل بھرے پڑے ہیں ۔ اس کے ذمے دار کوئی اور نہیں ہم اور آپ ہیں۔ اس تحریک کو شروع کرنے کا مقصد صرف عورتوں کی بے بسی کا المیہ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ ان معاملات کو روکنا بھی ہے۔ لہٰذا ہم اس تانیثیت کے لیے کیا کرتے ہیں اور کیا کرنا چاہیے، ان باتوں کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے۔اردو افسانوی اصناف میں تانیثیت کے عناصر ملتے ہیں وہ آئے کہاں سے ہیں؟اسی معاشرے سے ، اسی زمانے سے، جدید تعلیم سے ، جدید تہذیب سے، موڈرن لڑیچر کے مطالعہ سے اور سوشل میڈیا کے ذریعہ سے،میرے کہنے کا مقصد مذکورہ وجوہات کو ہدف تنقیدبنانا نہیں بلکہ یہ بھی بتاناہے کہ اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال، او ر کچھ باتوں کو چھپانا تاکہ اپنی مان مریادہ برقرار رہے ، اس سے مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ مسئلہ تانیثیت، نسوانیت کے مسئلہ کا آغاز ہو تا ہے۔ عصر حاضر میں ہزاروں کی تعداد میں لڑکیاں کال سینٹر پر کام کرتی ہیں،کئی مردوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہیں ، کئی جانے انجانے لڑکوں سے یا افراد سے باتیں کرتی ہیں ان کا بیٹھنا و بات کرنا غلط نہیں لیکن جن سے وہ بات کرہی ہیں، جن کے ساتھ اُٹھ بیٹھ رہی ہیں کیا وہ لوگ پورے سولہا آنے صحیح ہوتے ہیں۔یہ تو وہی لڑکیاں صاف صاف بتا سکتی ہیں جو اس معاشرے میں، اس آفس میں، اس چھوٹی سی دنیامیں اور کمپنوں میں کام کرتی ہیں۔ ہمارا کام آنکھ بند کرکے فیصلہ سنانانہیں بلکہ اس ماحو ل سے واقف بھی کرانا ہے جس کوہم اور آپ عصر حاضر کہتے ہوئے اپنی عمر صرف کررہے ہیں۔ بلونت سنگھ کا افسانہ ’’کٹھن ڈگریا‘‘ایک ایسا افسانہ ہے جس میں موصوف نے موجودہ ماحول پر طمانچہ مارنے کا کام انجام دیا اس کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جس میں سچ مچ کی کٹھِن ڈگر یا سے واقف کرایا گیا ہے ایک دوست اپنے دوسرے دوست کی بیوی پر فریفتہ ہے اور دوسرا دوست اپنے پہلے دوست کی پتنی کے ساتھ تعلقات قائم کرتا ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیویوں کا بھی یہی حال ہے،او ر وہ ان سے ٹائم اسپینڈ کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ وقت کی قلت کو سمجھتے ہوئے اس کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ۔بس ہم یہاں اتنا ضر ور کہے سکتے ہیں کہ یہ افسانہ بھی موجودہ دور میں تانیثیت کے چند پیچیدہ پہلوؤں میں سے ایک ہے ۔
بہرحال مسائل نسوانیت عہدحاضر میں آکر ختم نہیں ہوتے بلکہ اس دور میں آکر اور زیادہ الجھ جاتے ہیں، کیونکہ صنف نازک کو محض نوجوان نسل سے ہی خطرہ نہیں ہے بلکہ ایک پوری نسل جو نوجوان بھی ہے ، جوان بھی ہے،اور ادھیڑ عمر کے افراد بھی اس کے شکاری معلوم ہوتے ہیں۔شاید اسی لیے رب العزت نے ان کے لیے ایک ایسا راستہ بنایاہے جو ان کاہم سفر یارفیق حیات ہوتا ہے یا اس کی اولاد ہوتی ہے بشرطیکہ وہ صالحہ و نیک ہو۔ رقم الحروف بہ چشم خود دیکھ چکا ہے کہ کچھ ایسی بھی اولادیں اس دارفانی میں موجود ہیں جو اپنے والدین کووردھ آشرم میں چھوڑ جاتے ہیں۔ وہاں صرف ایک ماں ہی نہیں بلکہ ایک نسل دینے والے اشخاص سانس لیتے ہیں۔بہرحال اس دنیا میں ایسے بھی لوگ موجود ہے جو لڑکوں اور لڑکیوں میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے لڑکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کی لڑکیاں درمیان میں تعلیم چھوڑدیتی ہیں۔ جب تک یہ فرق ختم نہیں ہوگا تب تک نسوانیت کے مسائل ہمارے سماج و ہمارے ملک و معاشرے سے باہر نہیں ہوسکتے۔ عورت یا نسوانیت کے کردار کی زندگی مختلف مشاہدوں و رحجانات سے بھر ی پڑی ہے اس کا ایک ایک پہلو ضخیم مقالہ بن سکتاہے۔اور ان کے ایثار وقربانی کا جذبہ اپنے بچوں و خادم سے محبت میں پوشیدہ ہوتا ہے۔خاندان کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشوں کو دبا دیناایک جواںمردی کا کام ہے۔کچھ عورتیں ایسی بھی ہوتی ہے جو اپنے خاندان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ذمہ داری کو کسی طرح سے ختم کرکے کام بھی کرتی ہے، تعلیم بھی حاصل کرتی ہے، یہ ان کی انتھک کوشش ہوتی ہے کہ ان کا شوہر و اولاد ہمیشہ ان سے خوش رہیں اور ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ ان کی اس جدوجہد میں ان کے خادم اوربچوں کا بھی کچھ خون جگر شامل ہوتا ہے۔ البتہ اوپر دیے گئے تمام بیانات عورتوں کے جذبات ، احساسات، مشاہدات اور رحجانات کی ترجمانی کرتے ہیں جب و ہ اپنے اس ترجمانی سے بالاتر ہوتی ہیں ، تب جاکر ان میں کوئی ثانیہ مرزا، کرن بیدی، لتا منگیشکر، پرتیبہ طائی پاٹل، نور جہاں، کلپنہ چاولہ، رضیہ سلطانہ ، اندراگاندھی، لکشمی بائی ، اور پی ٹی اوشا بنتی ہیں، تانیثیت محض عورتوں کی حق تلفیوں کا ہی نام نہیں ہے بلکہ ان کی ترقی و کامیابی بھی اسی کا ایک حصّہ ہے۔
***