You are currently viewing عصر حاضر کا نمائندہ رباعی گو شاعر:عادل حیات

عصر حاضر کا نمائندہ رباعی گو شاعر:عادل حیات

عامر نظیر ڈار

کشمیر

عصر حاضر کا نمائندہ رباعی گو شاعر:عادل حیات

         عادل حیات کا شمار اکیسویں صدی کے نوجوان شاعرو ں میں ہوتا ہے ۔ وہ تقریباًدو دہائیوں سے لگاتار لکھ رہے ہیں۔انھوں نے بہت کم عرصے میں ہی اردو ادب میں اپنی ایک شناخت قائم کی ۔وہ نہ صرف شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں بلکہ وہ ایک بہترین ناقد اور محقق بھی ہیں۔ان کی کئی تحقیقی اور تنقیدی کاوشیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ بچوں کے ادب پر بھی انھوں نے کتابیں لکھی ہیں۔’’چھوٹی گڑیا‘‘جو کہ بچوںکی نظموں پر مشتمل مجموعہ ہے ،اس پرانھیں اترپردیش اردو اکادمی نے انعام سے بھی نوازاہے۔ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ستارہ سنگ‘‘ کے نام سے ۲۰۰۴ء میںنرالی دنیا پبلیکیشزسے شائع ہوا ہے۔یہ مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔اس کے علاوہ ان کا ۲۰۱۶میں ’’شہر رباعی ‘‘ کے عنوان سے رباعیوں کا ایک خوبصورت اور جامع مجموعہ بھی منظر عام پر آیا ہے۔ اس مختصر مقالے میں ان کی غزلیہ شاعری اور نظمیہ شاعری کے برعکس صرف رباعی گوئی پر ہی گفتگو ہوگی۔

         رباعیوں پر مشتمل ان کاابھی تک ایک ہی مجموعہ شائع ہوا ہے ۔اس مجموعے میں شامل ان کی رباعیوں کی تعداد۴۴۴ہیں۔اس عہد میں بہت سارے نوجوان اور باکمال بزرگ شاعر رباعیاں لکھ رہے ہیں لیکن عادل حیات کی رباعیوں کا مزاج اور موضوع ان سے جداگانہ ہے اور اسی مناسبت سے وہ اپنے عہد میں منفردرباعی گوشاعر ہیں۔ حالاں کہ اس دور کے دوسرے رباعی گو شاعروں نے بھی ان موضوعات پرطبع آزمائی کی ہے لیکن جو جذبہ عادل حیات کی رباعیوں میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ اُن میں نہیں پایا جاتا ہے۔

         عادل حیات نے اکیسویں صدی میں قلم اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور اس دور کے مختلف مسائل پر سوچنا شروع کیا اور ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی۔ اگرچہ پہلے پہل صنف رباعی کا موضوع عام طور پرصوفیانہ اور عاشقانہ ہوتا تھا لیکن وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں بھی وسعت پیدا ہوئی اور اب دیگر موضوعات پر بھی رباعیاں لکھی جاتی ہیں۔عادل حیات نے ان سب کے علاوہ عصر حاضر کے حالات وواقعات پر رباعیاںلکھی ہیں۔وہ غوروفکر کرنے والے شاعر ہیں۔انھوں نے اپنی رباعیوں میں قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ،اتنا ہی نہیں ان کی رباعیوں کو پڑھ کر قاری کواس دنیا کی حقیقت اور اس کے اندر پنپنے والی برائیوں کا بھی علم ہوجاتا ہے ۔

         ’شہر رباعی ‘عادل حیات کا صرف رباعیوں کا ہی مجموعہ نہیں ہے بلکہ یہ بے شمار موضوعات کامجموعہ ہے ۔اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے پوری زندگی میں پیش آنے والے حاد ثات وواقعات ،درد وغم،خوشیاں وغیرہ کے علاوہ سماج کے مسائل پر بھی رباعیاں لکھی ہیں۔انھوں نے اپنی رباعیوں میں سیاست کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ظالم وجابر حکمران کی طرف سے عوام الناس پر کئے جانے والے مظالم کو بھی اپنی رباعیوں میں جگہ دی ہے ۔عورت کی مختلف حرکا ت وسکنات پر بھی انھوں نے کئی رباعیاں لکھی ہیں۔ عادل حیات نے زیادہ تر ان ہی موضوعات پر لکھا ہے جن پرلکھنا اکثر لوگ اپنے لئے کسی خطرے سے کم محسوس نہیں کرتے ہیں۔انھوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بے باک ہوکر لکھا ہے اور وہی لکھا ہے جو آجکل ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے ۔ان کی بیشتر رباعیاں قوم کو سدھارنے کی کوشش میں لکھی گئی ہیں،اس لحاظ سے انھوں نے اپنی رباعیوں سے اصلاحی فریضہ بھی انجام دیا ہے۔

         ’شہررباعی ‘کی شروعاتی رباعیاں انھوںنے اللہ کی ذات کی بڑائی میں لکھی ہیں ۔ان میں انھوں نے اللہ کی حمد وثنا کے علاوہ اپنے اور اپنی قوم اور عام لوگوں کی خوشحالی کے لئے دعا بھی مانگی ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی ان رباعیوں کے ذریعے انسان کو بندۂ خدا بن کر رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔انھوں نے اپنی جن رباعیوں میں اللہ کی ثنا خوانی کی ہے ان میں سے چند ملاحظہ ہو :

ہے مالک مختار، خدائی تیری

حاصل ہے مجھے راہ نمائی تیری

ثانی ہے ترا کون جہاں میں یارب!

ہر چیز سے ظاہر ہے بڑائی تیری

***

ہر پھول کی خوشبو میں،بہاروں میں وہی

سورج کی چمک ،چاند ستاروں میں وہی

ہر چیزاسی کی ثنا خواں عادل

ہے تیرے کنایوں میں،اشاروں میں وہی

***

میں نے بھلا انکار کی جرأت کب کی

وہ جان ہے اور جاں میں بسا ہے سب کی

ہر چیز میں ہے عکس اسی کا عادل

ہر چیز ثنا کرتی ہے اپنے رب کی

خاموش نگاہوں میں ،اشاروں میں وہی

جذبات کے بہتے ہوئے دھاروں میں وہی

وہ نورہے،جس نور سے دنیا روشن

جگنو کی چمک میں ہے ،ستاروں میں وہی

         اللہ کی حمد وثنا کرنے کے بعد عادل حیات کی رباعیوں میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس کو اپنے رب پر پختہ یقین ہے اس کو جو کچھ بھی مانگنا ہوتا ہے وہ بلاکسی جھجک کے اللہ کے حضور میں اپنی بات رکھ دیتے ہیں ۔وہ ایک سچا اور ایمان والا شاعر ہے، وہ اوروں کی طرح در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد اپنے رب کی طرف نہیں پلٹتا ہے بلکہ اس کی ساری امیدیں انہیں سے وابستہ ہیں۔انھوں نے اپنی رباعیوں کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اللہ کی ذات کی سوا اور کوئی دوسری شئے آپ کو کچھ نہیں دے سکتی ۔وہ اپنی بیشتر رباعیوں میں اللہ سے مخاطب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے جن رباعیوں میں اللہ سے اپنی خوشحالی، کامیابی ،مشکلات سے نجات ،بڑھائی ،قسمت ،عزت اور ادنیٰ سے اعلیٰ ہونے وغیرہ کی دعائیں مانگی ہیں ،وہ اس طرح ہیں:

میں ذرہ ناچیز ہوں،صحرا کردے

ممکن ہے تو تالاب کو دریا کر دے

جو گھر ہے تصور میں اسے گھر ہی رکھ

قسمت کی لکیروں کو سنہرا کردے

***

مشکل میں ہوں آسان میرا جینا کردے

میرے لئے کچھ بھی تو وسیلا کردے

تزئین مرے لفظوں کی بھی ہوجائے

ادنیٰ کو بھی اعلیٰ مرے مولا کردے

***

کس پر ہے سوا ترے بھروسا میرا

مالک ہے تو ہی ،تو ہی سہارا میر

موجوں میں پڑی کب سے ہے کشتی میری

ہوجائے عطا مجھ کو کنارا میرا

***

ہے خواب تو تعبیر دکھا دے یارب!

ہے رازتو وہ راز بتا دے یارب!

کیوں بھٹکا ہوا پھرتا رہوں راہوں میں

منزل کا مجھے اپنی پتا دے یارب

***

چاہت کو بھی دنیا کے سوا مل جائے

اس جس میں بھی تازہ ہوا مل جائے

بن جائے ،سنور جائے مقدر میرا

ناچیز کو جب تیری رضا مل جائے

         عادل حیات نے دیگر موضوعات کے علاوہ ملک میں ہورہے انتشار پر بھی رباعیاں لکھی ہیں۔وہ ملک میں خوشحال ماحول کے بھی آرزو مند ہیں ۔ان کی رباعیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا علم ہوتا ہے کہ وہ اس دور کی بد امنی سے کافی تنگ آچکے ہیں اور وہ ایک ایسی دنیا کی اللہ سے خواہش ظاہر کرتے ہیں جہاں اس طرح کی لوٹ کھسوٹ ،ڈاکہ زنی،بدمعاشی،بد اخلاقی،ظلم وستم وغیرہ نہ ہو۔جہاںہر انسان برابر ہو، نہ ہی کوئی بڑا ہو اور نہ ہی کوئی چھوٹا۔ وہ اپنی رباعیوں میںاللہ سے اس حوالے سے جو کچھ مانگتے ہیں وہ اس طرح ہے:

آنکھوں میں کوئی خواب سجائوں کیسے

دل میں کوئی ارمان جگائوں کیسے

موسم ہی خزاں کا یہاں ٹھہرا عادل

خود سے نہ بہار آئے تو لائوں کیسے

***

بدلے گا سماں اور ہوا بدلے گی

موسم کے بدلتے ہی فضا بدلے گی

ایسا کبھی ہوگا کہ تری چاہت بھی

اوڑھی ہوئی وحشت کی ردا بدلے گی

***

آتے ہیں کہاں دن یہ مجھے راس ابھی

قسمت میں ہے لکھا ہوا بنواس ابھی

ایام مصیبت کے ہیں ٹل جائیں گے

آنکھوں میں چمک ،دل میں بھی ہے آس ابھی

***

حالات سے اپنے ہی پریشاں ہوں میں

خود اپنی تباہی سے ہراساں ہوں میں

اب تیرا کرم مجھ پہ نہیں ہوتا ہے

نظروں سے تری جیسے کہ پنہاں ہوں میں

         ملک میں ہو رہے انتشار ،افرتفری ،مار کاٹ ،غنڈہ گردی اور سیاسی دنگل سے جہاں وہ مایوس اورافسردہ نظر آرہے ہیں۔وہیں ان کی رباعیوں میں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ ملک وملت کے بہتر مستقبل کے لئے کتنے فکر مند ہیں۔موجودہ دور میں جس طرح کے حالات وواقعات رونما ہورہے ہیں ان کو دیکھ کرتو ویسے ہر وہ انسان جس کو معبود نے تھوڑی سی بھی سوچنے کی صلاحیت عطا کی ہے پریشان اور مغموم ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ اس نہج پر چل کرایک شاداب اور زرخیز زمین کس طرح بنجر بن سکتی ہے ۔عادل حیات چوں کہ حساس قسم کے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ وہ عام انسانوں کے بجائے زیادہ سوچتے اور غوروفکر کرتے ہیں اور ان کے سوچنے کا زاویہ بھی عام انسانوں سے الگ ہے۔اسی لئے شایدوہ اپنی رباعیوں میں بار بار مالک حقیقی سے ملک وملت کی بہتری کے لئے دعا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

         عادل حیات کی رباعیوں میں یہ بات بھی صاف دکھائی دیتی ہے کہ ان کو اپنے حال سے زیادہ اپنے ماضی سے کافی لگائو ہے۔وہ بار بار اپنے ماضی کو یاد کر کے روتے ہیں ۔ان کو اپنا ماضی حال سے زیادہ بہتر لگ رہا ہے اور وہ گزرے دونوں کی واپسی کا انتطار کر رہے ہیں کہ کاش وہ دن دوبارہ لوٹ آئے جس میں انسانیت تھی،شرم وحیا ،عزت ،امن وامان ،محبت اور بھائی چارہ تھا ۔اس حوالے سے ان کی یہ رباعیاںدیکھئے:

ویران جزیرے کو سجائے رکھّوں

آنکھوں میں کوئی خواب اگائے رکھّوں

شاید کہ پلٹ آئیں بہاریں عادل

امید کی اک شمع جلائے رکھّوں

***

بونے کو صنوبر کا سماں مل جائے

گونگے کو سرِ دست زباں مل جائے

چکّر ہے لگا کب سے مرے پائوں میں

ورثے کا مرے کھویا نشاں مل جائے

         ماضی کے سہانے موسم اور خوشحال دنوں کو یاد کرنے کے بعد عادل حیات نے کشمیر جیسے بڑے مسئلے پر بھی رباعیاں لکھی ہیں ۔جس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک کے ایک ایک مسئلے سے واقف ہیں۔ اگرچہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر آج تک بیرون ریاست کے قلم کاروں نے بہت کم لکھا ہے لیکن عادل حیات نے اس موضوع پر قلم اُٹھا کر اپنی زندہ دلی کا ثبوت دیا ہے ۔ادیب اور شاعر دونوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ وہیں اپنے ادب میں پیش کریں جو ان کے اردگرد ہورہا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر لکھ کر انھوں نے اپنا ایک فرض ادا کیا ہے ۔کشمیر میں ہر روز ہورہے خون خرابے کو دیکھ کر شاعر اپنی رباعیوں کے ذریعے سے خدا کے دربارمیں اس مظلوم قوم کے لئے رحم وکرم کی دعا مانگتے ہیں، وہاں کی خوشحالی کے لئے دعا کرتے ہیں اور قاری کو بھی غوروفکر کی دعوت دیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

سپنوں کا یہاں خون بہایا کس نے

لاشوں سے جہاں دل کا سجایا کس نے

رحمن تیری ذات ہے ،سب جانتے ہیں

جنت کو جہنم سا بنایا کس نے

***

اپنے ہی کسی درد کی تصویر کہوں

اس وادیٔ جاں سوز کو زنجیر کہوں

ہر گام پہ بارود کی بو آتی ہے

کس خطۂ دل کو تیرا کشمیر کہوں

***

اوروں کا لہو یوں ہی بہانے والے

جنت میں جہنم کو سجانے والے

مرجھایا ہوا چہرۂ انساں دیکھیں

کچھ شرم کریں اب زمانے والے

         مندرجہ بالا رباعیوں کو پڑھ کر ہر کوئی قاری اس جگہ کی اندرونی حالت زار سے واقف ہوجاتا ہے جس کا ذکر شاعر نے  مذکورہ رباعیوں میں کیا ہے ۔اسی لئے مجھے یہ بات لکھنے میں کوئی دقت نہیں ہے کہ شاعر نے جنت بے نظیر کی مظلوم قوم پر ہورہے ظلم و ستم کی طرف اپنی رباعیوں میں منفرد اور نہایت سلیقے مند طریقے سے اشارہ کیا ہے ۔

          عادل حیات نے اپنے وقت کی سیاست اور عامرانہ حکومت پر بھی طنز کے نشتر چلائے ہیں۔حکمران ملک کے محافظ ہوتے ہیں ،خدا کے بعد انسان کی ضرورت کا خیال کرنا ان کا فرض ہوتا ہے لیکن شاعر کو یہاںا لٹی گنگا بہتی ہوئی نظر آتی ہے۔حالاں کہ حکومت کو عوام بناتی ہے اور وہ عوام کی خدمت کے لئے ہوتی ہے ۔لوگ ان کو اپنا لیڈر سمجھ کر منتخب کرتے ہیں تاکہ کل یہ ان کی بات ایوان میں کر سکیں ۔لیکن موجودہ زمانے میں شاعر کو ان سے ڈر محسوس ہونے لگا ہے اور وہ اس حکمران طبقے کے ظلم وستم سے خدا سے پناہ مانگتا ہے ۔شاعر اس نظام سے نہیں بلکہ اس نظام کے چلانے والوں سے ناراض نظر آتے ہیں۔وہ کہتے ہیں:

اچھے نہیں آثار ،خدا خیر کرے

ہے عدل سرے دار،خدا خیر کرے

اس یگ میں ہوا جینا بہت ہی مشکل

ظالم کی ہے سرکار،خدا خیر کرے

***

لگتی تھی بہت اچھی خیالی دنیا

جب ظلم وستم سے تھی خالی دنیا

اٹّھا ہے تغیر کا یہ طوفان کیسا

ہے خوں سے سرابور مثالی دنیا

         حکمران طبقے کی بدحالی کو بیان کرنے کے علاوہ عادل حیات اپنی رباعیوں میں اس ملک کے مسلمانوں کی حالت زارپر بھی فکر مندنظرآتے ہیں ۔مسلمان ایک ایسی قوم ہے جس کو خدا نے عزت کے ساتھ ساتھ تاج وتخت بھی عطا کیا تھا لیکن اپنی لاپرواہیوں اور دنیا کے تیکھے رویے کی وجہ سے وہ نہ صرف اس ملک میں بلکہ پوری دنیا میں کمزور اور کمتر دکھائی دے رہے ہیں ۔ان پرروز طرح طرح کے الزامات عائد کئے جارتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان کو یہ زمین اپنے لیے تنگ محسوس ہوتی ہے ۔ شاعرایک دردمندانہ دل رکھنے والی شخصیت ہے۔وہ اپنی رباعیوں میں اس قوم کی بدحالی پر افسوس اور آنسوں بہاتے دکھائی دے رہیں ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

ہاں دستِ تہِ سنگ ہوا ہوں میں بھی

بے گانۂ بے رنگ ہوا ہوں میں بھی

ہر لمحہ مری جاں پہ بنی رہتی ہے

حالات پہ خود دنگ ہوا ہوں میں بھی

***

آئینہ دکھائوں کہ پرایا کہہ دوں

کب ساتھ مرا اس نے نبھایا کہہ دوں

حاصل ہی نہیں دھوپ سے جب سر کو نجات

اس چھت کو بھلا کیسے میں سایا کہہ دوں

         عادل حیات نے عورت کو بھی اپنی رباعیوں کا موضوع بنایا ہے ۔وہ عصر حاصر کی عورت کو اپنی رباعیوں سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں کہ یہ وہ زمانہ نہیں ہے جب آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ آپ کی پوجا کی جاتی تھی ،آپ کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ،آپ کو لوگ اپنی آبرو اور غرور تصور کرتے تھے ،غیر بھی ہر راہ میں محافظ بن کر آپ کی حفاظت کرتے تھے۔اب زمانہ بدل گیا ہے ،اب لوگوں کی آنکھوں میں وہ روشنی نہیں رہی اور نہ ہی وہ نظر رہی ۔بلکہ آج کے دور میں ہر کوئی آپ کی عزت کوتار تار کرنے کی سازشوں میں لگا رہتا ہے ۔شاعر اپنی رباعیوں میں آج کی عورت کو غفلت کی نیند سے بیدار ہوجانے کی تلقین کرتے ہیں اور خود کو ان چالوں سے بچانے کی کوشش پر آمادہ کرتا ہے ،شاعر عورت سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ آپ کی عزت ہی آپ کا زیور ہے۔اس حوالے سے یہ ایک رباعی مثال کے لئے ملاحظہ ہو:

چہرے پہ مصور کی نظر ہوتی ہے

یووـن کی ترے سب کی خبر ہوتی ہے

حوا کی ہے بیٹی تو بچا لاج اپنی

عصمت ہی تو عورت کا گہر ہوتی ہے

         عادل حیات اپنے اس سماج میں پھیلی برائیوں کی طرف بھی اپنی رباعیوں میں اشارہ کرتے ہیں ۔انھوں نے اپنے اردگرددجو کچھ دیکھا ہے اس کا برملا اظہار اپنی شاعری میں کیا ہے بالخصوص اپنی رباعیوں میں تو انھوں نے سماج کے ایک ایک گوشے پر بات کی ہے ۔وہ اپنے قاری کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے سماج میں آجکل جو کچھ بھی ہو رہا ہے عورتیں کپڑے پہن کر بھی عریاں نظر آتی ہیں ۔شرم وحیا غائب ہوچکی ہے،بے پردگی ہر طرف نظر آتی ہے کچھ لوگ اس پر فخر بھی کرتے ہیں اور اس کو ماڈرنائز یشن  Modernisation کا نام دیتے ہیں لیکن یہ ہماری رسوائی ہے۔اور یہ سب کچھ مغرب کی دین ہے لہذا شاعراپنی رباعیوں کے ذریعے اس کے خلاف احتجاج بلند کرتے ہیں اور عوام کو بھی اس سے باخبر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی قوم کو اپنے اسلاف کا راستہ اختیار کرنے کی صلاح دیتے ہیںاور ان کو اس بات کی طرف راغب کرتے ہیں ۔اس حوالے سے ان کی چند رباعیاں اس طرح ہیں:

ہے سوچ سے بھی آگے بہت جائے پناہ

عریانیاں ہیں کتنی مرے پیشِ نگاہ

مغرب کا اسے فیض سمجھتے ہیں سب

لاحول ولا قوۃالاّ بااللہ

***

جینے کا مرے کچھ تو صلہ رہنے دے

رستے میں مرے چھائوں ذرا رہنے دے

حد ہوگئی منظر تری عریانی کی

آنکھوں کے دریچوں میں حیا رہنے دے

***

مغرب کے ہوئے جاتے ہیں سارے ہی اسیر

عنقا ہوا ہے جیسے شرافت کا خمیر

کچھ شرم نہ چہرے پہ حیا باقی ہے

تاریخ میں ملتی ہے کہاں ایسی نظر

         عادل حیات اردو زبان پر فخر کرتے ہیں ۔اس کی شیرینی، لطافت اوراس کی تاریخ پر بھی وہ ناز کرتے ہیں ۔وہ اس کو اپنی شہرت اور عزت کا باعث سمجھتے ہیں ۔اس کے لئے اردو زبان سب سے بڑی دولت ہے وہ یہ بھی کہتے ہے کہ اس زبان کو سیکھ کر انسان کسی کے سامنے محتاج نہیں ہوسکتا اوراس زبان میں جو کشش ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں ہے یہ کسی بھی انسان کواپنا گرویدہ بنا لیتی ہے۔رباعیاں دیکھئے:

حاصل ہے جو عزت ،اسی اردو سے ہے

بے شک مری شہرت ،اسی اردو سے ہے

محتاج کہاں ہوں میں زمانے بھر میں

میرے لیے دولت اسی اردو سے ہے

***

چاہت ہے کہاں ایسی کہ زنجیر بنوں

لہجے میں کسی اور کی تصویر بنوں

مجھ میں بھی سما جائے تری روح تو میں

عادل رہوں ،غالب نہ کوئی میر بنوں

***

ہر سمت ہے پھیلی ہوئی جس کی خوشبو

کرتی ہے ہر اک لفظ سے اپنے جادو

گلدستہ صد رنگ ہے جس کی تاریخ

کہتے ہیں اسے لوگ زبانِ اردو

         لیکن ساتھ ہی عادل حیات اس بات پر بھی افسوس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ موجودہ دور میں اب اُس پائے کا ادب تخلیق نہیں ہوپارہا ہے جیسا ہمارے بزرگ لکھ چکے ہیں۔وہ اس بات پر بھی غم خوار ہیں کہ آجکل اردو ادب کی کافی کتابیں ہر سال منظر عام پر آتی ہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ نئی نسل میں مطالعہ کرنے کا شوق ختم ہوچکا ہے ۔جس کی وجہ سے ادب ترقی کے بجائے زوال کی طرف جارہا ہے ۔وہ ان باتوں کا شکوہ مندرجہ ذیل رباعیوں میں کرتے ہیں،رباعی دیکھئے:

کچھ پست سا اندازِ سخن ہے بھائی

پامال سا معیارِ سخن ہے بھائی

کھِلتا ہے کہاں پھول کوئی تازہ اب

یہ مدفنِ گلزارِ سخن ہے بھائی

***

شیرینیٔ اردو سے ہے انکار نہیں

اور شعرو سخن کے ہی طلبگار نہیں

روزانہ ہی آتی ہیں کتابیں چھپ کر

ملتا ہے مگر کوئی خریدار نہیں

         عادل حیات نے عشق کو بھی اپنی رباعیوں کا موضوع بنایا ہے لیکن اس میں عریانیت اور فحاشی کا شکار نہیں ہوئے۔انھوں نے اس موضوع پر کئی رباعیاں لکھی ہیں۔وہ ان میں کبھی اپنے محبوب پر قربان ہونے کی بات کرتے ہیں اور کبھی اس کے نہ ملنے پر شکوہ کرتے ہیں۔اور وہ زمانے کو یہ بھی دکھانا چاہتے ہیں کہ پیار کوئی دکھاوے کی چیزنہیں ہے۔پیار دل میں ہونا چاہئے ،سامنے والے کی نظروں میں ہونا چاہئے۔اصل میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پیار کا مطلب سامنے والے کو عزت دینا ہوتا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

ہر چند کہ اظہار نہیں کرتے ہیں

دل سے کبھی انکار نہیں کرتے ہیں

لیتے ہیں مرا نام وہ اکثر عادل

یہ کس نے کہا پیار نہیں کرتے ہیں

***

ہے عشق تو یہ کام  بہت مہنگا ہوگا

اس راہ میں آرام بہت مہنگا ہوگا

حاصل یہاں ہوتا ہے بہت کچھ ،لیکن

حاصل شدہ انعام بہت مہنگا ہوگا

***

قصہ ہوں کہانی ہوں کہ افسانہ ہوں

کیا مجھ کو خبر ،خود سے میں بیگانہ ہوں

آنکھوں میں بسالے ،کہ جھٹک دے مجھ کو

جیسا بھی ہوں میں تیرا ہی دیوانہ ہوں

***

آنکھوں سے بہے جاتا ہے پانی سا کچھ

دریا،تری موجوں کی روانی سا کچھ

جس شخص خاطر میں ابھی زندہ ہوں

لگتا ہے وہی قصہ کہانی سا کچھ

***

جب جذبہ محبت کا جواں ہوتا ہے

حالِ دلِ بے حال بیاں ہوتا ہے

دنیا کی نگاہوں سے چھپا بھی نہ سکوں

چہرے سے ہر اک راز عیاں ہوتا ہے

         عادل حیات نے کئی رباعیوں میں اپنی بڑائی بیان کی ہے اور اس بات کا بھی اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ عہد میں اردو رباعی گو شاعروں میں ان کا اپنا ایک مقام ہے ۔ انھوں نے اپنی رباعیوں کی وہ تما م خاصیتیں گنوائی ہیں جن پر ان کو ناز ہے۔انھوں نے اپنی رباعیوں میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ میں نے روایت سے انحراف نہیں کیا، بلکہ اپنی بات کو ایک نئے طرز سے کہنے کی کوشش کی ،وہ اپنی رباعیوں کے موضوعات پر فخر کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں ۔وہ ایک کامیاب اور مکمل رباعی گو شاعر ہیں اوراس بات میں کوئی شک بھی نہیںکہ ان کی رباعیاں فنی کسوٹی پر کھری اُتر تی ہیںالبتہ پروفیسر احمد محفوظ نے مجموعہ ’شہر رباعی ‘کی پشت پر ان کی رباعیوں کے حوالے سے لکھا ہے ’’ان رباعیوں میں رباعی کی ایک ہی صورت (مفعول مفاعیل مفاعیلن مع / فاع)کو زیادہ استعمال کیا گیا ہے جس سے آہنگ کی رنگارنگی کی زرا کمی محسوس ہوتی ہے ‘‘لیکن اس کمزوری کے باوجود بھی عادل حیات کی رباعیوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے ۔عادل حیات نے جن رباعیوں میں اپنی بڑائی بیان کی ہے اس سلسلے میں مثالیںملاحظہ کیجئے :

کہتے ہیں مجھے لوگ کہ لاغر ہوں میں

دنیا میں ہر اک شخص سے کمتر ہوں میں

دشمن کے مقابل مجھے دیکھے کوئی

ہوں ڈھال کبھی اور کبھی خنجر ہوں میں

***

امید کے کوزے میں چھپا ہے سورج

ارمان کی تھالی میں سجا ہے سورج

روشن مرے الفاظ ہوئے جاتے ہیں

جس دن سے تخیل میں بسا ہے سورج

***

لفظوں میں درخشندہ نظر آتا ہے

اور فکر سے پائندہ نظر آتا ہے

ایوانِ ادب میں ہے نمایاں عادل

ہر شعر میں تابندہ نظر آتا ہے

***

تہذیب ادب  کو نہیں موڑا میں نے

س فن کو نئی طرز سے جوڑا میں نے

جو فکر لگی تازہ اسے باندھ لیا

کوتاہ نظر آئی تو چھوڑا میں نے

         عادل حیات نے اور بھی کئی موضوعات پر رباعیاں لکھی ہیں ۔وہ اردو شاعری کے ہر ایک گُر سے واقف ہیں۔اسی لئے ان کی شاعری میں ہمیں اس طرح کے الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ان کو زبان وبیان پر بھی دسترس حاصل ہے ۔وہ اپنے اشعار میں الفاظ کونہایت ہی سلیقے سے استعمال کر تے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان کا اسلوب نکھر کر سامنے آتا ہے۔وہ اپنے ہم عصروںمیں اسلوب کے حوالے سے بھی انفرادیت رکھتے ہیں کیونکہ ان کاا سلوب دوسروںسے نرالا ہے ۔وہ بہت ہی سیدھے سادے انداز میں اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ وہ اپنی ایک رباعی میں اس بات کا ذکر کچھ اس طرح کرتے ہیں:

الفاظ کہاں،رنگِ سخن بدلا ہے

بدلا ہے ترا طرزِ کہن بدلا ہے

اسلوب ترا سب سے الگ ہے عادل

کہتے ہیں ترا شعر چلن بدلا ہے

         آسان اور سادہ اسلوب کی وجہ سے عادل حیات کی شاعری قاری اورسامعین کے دل کو چھو لیتی ہے ۔ان کی شاعری کو سمجھنے کے لئے قاری کو ڈکشنری کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے۔انھوں نے جس مقصد کے لئے اپنے ہاتھ میں قلم اُٹھایا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس مقصد میں فلاح حاصل کر چکے ہیں۔

         عادل حیات نے عیوب سے پاک رباعیاں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ باکمال رباعی گو شاعر ہیں۔اور اکیسویں صدی کی ایک منفرد آواز ہیں۔ان کی ادبی خدمات بالخصوص ’’شہر رباعی ‘‘ کا جائزہ لینے کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اگرشاعرنے اسی طرح محنت ولگن اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے فن کے جوہر دکھائے تووہ دن دور نہیں جب وہ اردو رباعی کی تاریخ میں ایک اہم نام کہلائیں گے ۔

***

Leave a Reply